Friday, September 20, 2024

Nafrat | Episode 6

کیتھرین اب اتنی پریشان رہنے لگی تھی کہ ایک روز ولیم نے پوچھ لیا اور اسے بتانا ہی پڑا۔ بالآخر اس کی زبان پر وہ بات آگئی جو اس کے خیال میں اس مسئلے کا حل تھی۔
’’ولیم! میرا خیال ہے کہ اسے ملازمت کرنی چاہیے۔ بیکاری اس کی شخصیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘‘
’’کیا وہ بھی یہ چاہتا ہے یا یہ صرف تمہارا خیال ہے؟‘‘
’’نہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ کچھ، بھی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن کچھ کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔‘‘
ولیم کچھ سوچ کر بولا۔ ’’اگر اسے پائلٹ بننے کی خواہش ہو تو ایک ایئرلائن میں بات ہوسکتی ہے۔ وہاں میرا ایک دوست ہے جو ہماری مدد کرے گا۔‘‘
’’اسے ہوابازی سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ یقیناً اسے پسند کرے گا۔‘‘
’’لیکن تم اس سے بات ضرور کرلو تاکہ اس کی رائے بھی معلوم ہوجائے۔‘‘ ولیم نے جواب دیا۔
کیتھرین نے بڑے محتاط انداز میں لیری سے بات کی۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے لیکن خلافِ توقع وہ رضامند ہوگیا اور بخوشی انٹرویو دینے کے لیے چلا گیا۔ جب اس نے کیتھرین کو یہ بتانے کے لیے فون کیا کہ اسے منتخب کرلیا گیا ہے تو اس کی آواز میں جوش اور ولولہ تھا جو اس نے ایک عرصے بعد اس کے لہجے میں محسوس کیا تھا۔ اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ اسے یقین ہوگیا کہ اب شادی میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
چار ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد لیری کو سب پر فوقیت حاصل تھی۔ اسے میڈل بھی دیا گیا تھا۔ کیتھرین بڑے فخر سے اس تقریب میں شریک ہوئی۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ تقریب کے اختتام پر اس نے تجویز رکھی کہ اس خوشی کو خوب ہلاگلا کرکے منانا چاہیے۔ لیری نے اپنے چار دوستوں اور ان کی بیویوں کو بھی مدعو کرلیا لیکن جب وہ ایک معروف کلب میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں جانے کے لیے پہلے سے میز مخصوص کروانی پڑتی ہے۔ سب کو بہت مایوسی ہوئی۔ لیری چلنے کو تھا کہ کیتھرین نے اسے انتظار کرنے کو کہا اور خود منیجر کی طرف بڑھ گئی۔
تھوڑی دیر میں وہ واپس آئی اور مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’انتظام ہوگیا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ لیری نے پوچھا۔
’’بڑی آسانی سے… میں نے ولیم کا حوالہ دیا تو وہ رضامند ہوگئے۔ وہ یہاں اکثر آتا ہے۔‘‘
لیری اپنے دوستوں کی طرف پلٹا۔ ’’چلو، یہاں سے نکلو۔ یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔‘‘
وہ لوگ دروازے کی طرف چل پڑے تو لیری نے کیتھرین کی طرف دیکھا۔ ’’تم آرہی ہو؟‘‘
’’ہاں۔ ہاں!‘‘ وہ کچھ ہچکچا کر بولی۔ ’’میں ذرا ان کو بتا آئوں کہ ہم لوگ یہاں نہیں رکیں گے۔‘‘
’’جہنم میں جائیں وہ!‘‘ لیری الجھ کر بولا۔ ’’تم بتائو کہ ہمارے ساتھ آرہی ہو یا نہیں؟‘‘
وہ اتنی بلند آواز میں بول رہا تھا کہ اردگرد کے لوگ بھی متوجہ ہوگئے تھے۔ کیتھرین کا چہرہ ندامت اور غصے سے سرخ ہوگیا تھا۔ اسے مجبوراً ان کے پیچھے چلنا پڑا۔
وہ ایک اور ریسٹورنٹ میں پہنچے مگر اس بدمزگی کی وجہ سے کھانے میں وہ لطف نہیں آسکا جس کی انہیں توقع تھی۔ اگرچہ کیتھرین ایسا ظاہر کررہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن اندر سے وہ لیری کے اس بچکانہ رویّے اور سب کے سامنے اس کی بے عزتی پر غصے سے کھول رہی تھی۔
جب وہ گھر پہنچے تو کیتھرین بغیر کچھ کہے بیڈ روم میں چلی گئی۔ اس نے لائٹ بجھا دی اور لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد لیری بیڈ روم میں آیا۔ اس نے لائٹ جلائی اور بیڈ کے قریب آکر بولا۔ ’’تم مظلوم بننے کی کوشش کررہی ہو؟‘‘
کیتھرین اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تمہارا رویّہ بہت غلط اور ناقابل معافی تھا۔ آخر تمہیں ہو کیا گیا تھا؟‘‘
’’جو تمہیں ہوگیا تھا!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تم خواہ مخواہ اپنے ولیم کو نمایاں کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘‘
کیتھرین نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا اور بولی۔ ’’ولیم سے تمہیں کیا شکایت ہے۔ وہ تو ہمیشہ ہماری مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
’’ہاں۔ کیوں نہیں… اس نے تمہیں ملازمت دی۔ میری ملازمت کا انتظام کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کے حوالے کے بغیر کسی ریسٹورنٹ میں بھی نہیں بیٹھ سکتے۔ میں تنگ آگیا ہوں، اس شخص کا ہر معاملے میں نام سنتے سنتے؟‘‘
کیتھرین اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، اس سے زیادہ خطرناک اس کا لہجہ تھا۔ کیتھرین کو محسوس ہورہا تھا کہ اس مقام پر دونوں کے درمیان کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اگر اس کو یہ شادی برقرار رکھنی تھی تو اسے ہر معاملے میں لیری کو ترجیح دینی تھی۔
لیری اس کے چہرے کے اتار چڑھائو دیکھ کر بولا۔ ’’کیتھی! مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس قسم کے رویّے کا مظاہرہ کیا مگر جب تم نے وہاں بکنگ کے لیے بھی ولیم کا نام لیا تو وہ میرے لیے ناقابل برداشت ہوگیا۔‘‘
’’میں بھی نادم ہوں لیری! آئندہ تمہیں ایسی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘
’’اوہ کیتھرین! مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ پلیز! مجھے چھوڑ مت دینا۔‘‘
’’ایسا کبھی نہیں ہوگا لیری!‘‘
٭…٭…٭
لیری اب باقاعدگی سے ڈیوٹی پر جانے لگا تھا۔ وہ ہر فلائٹ کے بعد تین دن کے لیے گھر آتا تھا۔ ایک صبح کیتھرین آفس میں مصروف تھی کہ لیری کا فون آیا۔ ’’میں نے ایک بہت زبردست ریسٹورنٹ دیکھا ہے۔ کیا تم میرے ساتھ لنچ پر چل سکتی ہو۔‘‘
کیتھرین فوراً محتاط ہوگئی۔ وہ اسے نہیں، نہیں کہہ سکتی تھی، حالانکہ آج کا دن بہت مصروف تھا۔ اس نے جلدی سے کہا۔ ’’ہاں۔ ہاں۔ ضرور!‘‘
’’میں پندرہ منٹ میں تمہیں لینے کے لیے آرہا ہوں۔‘‘
کیتھرین کی سیکرٹری نے شور مچایا۔ ’’میڈم! آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتیں۔ میں یہ سارا کام اکیلے نہیں کرسکوں گی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ میں جلدی آجائوں گی۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ لنچ کرنے جارہی ہوں۔‘‘
’’اُف! یہ ایسا شوہر ہے کہ اسے دیکھ کر آپ کو کوئی الزام بھی نہیں دیا جاسکتا لیکن جب آپ اس سے اکتا جائیں تو پلیز مجھے ضرور بتانا۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’مشکل ہے اور اگر ایسا کبھی ہوا بھی تو تم بہت بوڑھی ہوچکی ہوگی۔‘‘
لیری باہر آچکا تھا۔ کیتھرین اپنا بیگ اٹھا کر باہر بھاگی۔ وہ شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ ’’کیا میں تمہارا سارا دن چرا سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں… نہیں… ایسا مت کرنا۔‘‘
وہ ہنسا۔ ’’اگر ایسا ہوگیا تو تمہارے آفس کے تمام افسروں کو دل کا دورہ پڑ جائے گا۔‘‘
اس نے گاڑی کو ایئرپورٹ کی طرف موڑا اور تیزی سے فاصلہ طے کرنے لگا۔
’’ریسٹورنٹ کتنا دور ہے؟‘‘ کیتھرین نے پوچھا۔ دفتر میں تمام دن اس کی بہت سی مصروفیات تھیں لیکن وہ ان کا تذکرہ کرکے لیری کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’نہیں۔ زیادہ دور نہیں۔ تمہاری کوئی مصروفیات ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ بالکل نہیں۔‘‘ کیتھرین نے اس کی ناراضی کے اندیشے سے جھوٹ بولا۔
لیری ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوگیا۔ کیتھرین پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ ’’ریسٹورنٹ ایئرپورٹ کے اندر ہے کیا؟‘‘
’’ہاں۔ دوسری طرف ہے۔‘‘ اس نے کار پارک کی اور کیتھرین کا بازو پکڑ کر ایئرلائن کے گیٹ میں داخل ہوگیا۔ ریسپشنسٹ نے نام لے کر اس کا استقبال کیا۔
’’یہ میری بیوی ہے۔‘‘ لیری نے بڑے فخر سے تعارف کرایا۔
لیری اس کو لے کر آگے بڑھا۔ وہ ڈیپارچر لائونج میں پہنچے تو کیتھرین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ’’لیری! کہاں؟ کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’خاموش! میں نے کبھی اتنی باتونی لڑکی کے ساتھ لنچ نہیں کیا۔‘‘ وہ ڈانٹ کر بولا۔ ٹکٹ کائونٹر پر اس کا ٹکٹ تیار تھا۔ کائونٹر کلرک نے ٹکٹ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
کیتھرین نے ٹکٹ کی طرف دیکھا۔ ’’یہ کس لیے ہے لیری؟‘‘
’’میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ میں یہاں لنچ نہیں کررہا۔ میں تمہیں شہر سے باہر لے جارہا ہوں۔ ایک زبردست ریسٹورنٹ میں۔‘‘ اس نے ایک ریسٹورنٹ کا نام لیا۔
’’لیکن میں اس وقت نہیں جاسکتی۔‘‘
’’تم جائو گی۔ ہر حال میں جائو گی۔ تمہارا پاسپورٹ میری جیب میں ہے۔‘‘
’’لیری۔ تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔ میرے پاس کپڑے ہیں اور نہ کوئی چیز۔ اور میری دفتر میں مصروفیات میرے انتظار میں ہیں۔‘‘ کیتھرین نے احتجاج کیا۔
’’میں تمہیں وہاں سے سب کچھ خرید دوں گا اور اپنی ساری مصروفیات ختم کرو۔ تمہارا آفس اور ولیم کا بچہ کچھ دن تمہارے بغیر بھی گزارہ کرلیں گے۔‘‘
کیتھرین حیران اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔ یہ لیری کے لیے بہت اہم موقع تھا۔ وہ اسے اپنی فلائٹ پر لے کر جانا چاہتا تھا اور وہ اس کی اس معصوم سی آرزو کو مجروح کررہی تھی۔ اس کا موڈ فوراً ہی بدل گیا۔ لیری کی محبت کے اس انداز نے اس کا دل جیت لیا۔ اس کے انگ انگ میں سرور و شادمانی کی لہریں اٹھنے لگی تھیں۔
یہ شہر تو جیسے تفریح اور لطف سے بھرا ہوا تھا۔ لیری نے پورے ایک ہفتے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ وہ ایک خوبصورت چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرے جو ساحل سمندر پر تھا۔ پہلے دن وہ کیتھرین کو ایک فیشن ایبل مہنگے اسٹور میں لے گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ پورا اسٹور ہی اس کے لیے خرید ڈالے لیکن کیتھرین نے صرف ضرورت کی چیزیں ہی خریدیں۔
’’تمہیں پتا ہے کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘ لیری چڑ کر بولا۔ ’’تم ہر وقت پیسے کے بارے میں فکرمند رہتی ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم ہنی مون پر ہو؟‘‘
’’یس سر!‘‘ کیتھرین نے مزاحیہ انداز میں جھکتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن یہ تو بتائو کہ اتنی رقم تمہارے پاس کہاں سے آئی؟‘‘
’’میں نے کمپنی سے ایڈوانس لیا ہے۔‘‘ اس نے بتایا۔
کیتھرین سوچنے لگی کہ لیری کا پیسوں کے بارے میں رویّہ بالکل بچوں جیسا تھا۔ فراخ دل اور ہر اندیشے سے بے پروا جیسے اس کے پاپا تھے۔ جو خرچ کرتے وقت ذرا خیال نہیں کرتے تھے کہ ان کی جیب میں اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں۔
لیری نے اسے اس تاریخی شہر کا گوشہ گوشہ دکھایا اور سارے بہترین ریسٹورنٹ انہوں نے دیکھے اور یہ ایک یادگار سیکنڈ ہنی مون بن گیا۔
٭…٭…٭
کیتھرین کانفرنس روم میں تمام اسٹاف کے ساتھ ایک میٹنگ میں تھی کہ دروازہ زور سے کھلا اور لیری ڈگلس اندر آیا۔ اس کی آنکھ سوجی ہوئی تھی اور اس کے رخسار پر بھی ایک زخم تھا۔ کیتھرین تیزی سے اٹھ کر اس کے قریب آئی۔ ’’لیری! کیا ہوا؟‘‘
’’میں نے نوکری چھوڑ دی ہے۔‘‘ وہ دانت بھینچ کر بولا۔
کیتھرین اس کا بازو تھام کر اسے اپنے آفس میں لے گئی کہ متجسّس اور سوالیہ نگاہوں سے بچ سکے۔ اس نے جلدی جلدی ٹھنڈے پانی کا تولیہ اس کی آنکھ پر رکھا۔ اس کے دوسرے زخم کو صاف کیا اور پریشانی سے بولی۔ ’’یہ کیا ہوا لیری؟‘‘
’’وہ لوگ مجھے کافی عرصے سے نیچا دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ مجھ سے جلتے تھے۔ چیف کو خطرہ تھا کہ کہیں میں اس کی جگہ نہ لے لوں۔ اس نے مجھے بلایا اور کہا کہ انہوں نے مجھے صرف اس لیےملازمت دی تھی کہ میری بیوی کے دوست ولیم نے میری سفارش کی تھی۔‘‘
’’اوہ!‘‘ کیتھرین نے آہ بھری۔
’’بس۔ میں برداشت نہیں کرسکا۔ میں نے اس کا منہ توڑ دیا۔‘‘
’’سوری یہ تو بہت برا ہوا۔‘‘
’’میری ملازمت رہتی نہ رہتی لیکن میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی تمہارے بارے میں اس طرح کی بات کرے۔‘‘
’’تم اس کی پروا نہ کرو۔ تم ایک قابل پائلٹ ہو۔ تمہیں کسی بھی ایئرلائن میں جگہ مل سکتی ہے۔ تمہاری اپنی قابلیت کے بل بوتے پر، بغیر کسی سفارش کے۔‘‘ کیتھرین نے اسے تسلی دی۔
لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ لیری نے کئی جگہ پر انٹرویو دیے۔ اسے کہیں بھی کامیابی نہیں ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کی مایوسی بڑھنے لگی۔ اس کا رویّہ تلخ ہوتا گیا۔ گھر میں بدمزگی پھیلنے لگی۔ جھگڑے اور تکرار بڑھ گئی۔ کیتھرین جتنا اس معاملے کو سلجھانا چاہتی تھی وہ اتنا ہی الجھتا چلا جارہا تھا۔
ایک دن وہ دونوں رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ فضا میں تنائو موجود تھا۔ دونوں خاموش تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ لیری نے فون اٹھایا اور کچھ دیر فون پر بات کرتا رہا۔ کیتھرین کو اس کے چہرے کے اتار چڑھائو سے اندازہ ہورہا تھا کہ کال ناپسندیدہ نہیں تھی۔
اس نے ریسیور رکھا اور بولا۔ ’’مجھے نئی ملازمت ملنے والی ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں جوش اور یقین تھا۔
’’کہاں؟‘‘ کیتھرین نے پوچھا۔
’’کانسٹینٹن ڈیمارس کے پرائیویٹ پائلٹ کی حیثیت سے۔‘‘
’’وہ جو بحری تجارت کا ایک نمایاں نام ہے۔‘‘
’’بحری تجارت، تیل کمپنی، سونے کی کانیں اور کیا کچھ نہیں ہے اس کے پاس۔ وہ آدھی دنیا کا مالک ہے۔‘‘
’’اور تمہیں وہاں کیسے موقع مل رہا ہے؟‘‘
’’میرا ایک پرانا دوست میرے لیے یہ انتظام کررہا ہے۔‘‘
چند ہی دنوں میں لیری کو ملازمت مل گئی۔ وہ بہت خوش اور مطمئن تھا۔ وہ وہیں ٹھہر گیا تھا اور اس نے وہاں سے کیتھرین کو فون کیا۔ ’’ہیلو کیتھی! اپنا سامان باندھو اور پہلی فلائٹ سے میرے پاس پہنچو۔‘‘
’’مگر!‘‘
’’کوئی اگر مگر نہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم مسٹر کانسٹینٹن ڈیمارس کے ذاتی پائلٹ سے بات کررہی ہو۔‘‘
کیتھرین کے پاس اب کوئی عذر تھا نہ جواز۔ وہ اس کا شوہر تھا۔ اگر وہ اپنی شادی کو قائم رکھنا چاہتی تھی تو اسے بھی وہیں رہنا چاہیے تھا جہاں اس کا شوہر رہتا تھا۔ وہ خوبصورت، دلکش، شگفتہ اور انوکھا شخص جس کے ساتھ اس نے شادی کی تھی۔ اس کو ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہنا تھا۔ دس دن بعد وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر اس کے پاس پہنچ گئی۔ ایک نئے ملک اور ایک نئے ماحول میں۔
٭…٭…٭
لیری اسے لینے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ وہ بے حد خوش دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے خوبصورت چہرے سے تنائو غائب ہوچکا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’تم مجھے بہت یاد آرہی تھیں؟‘‘
’’میرا بھی یہی حال تھا۔‘‘ کیتھرین نے اپنے پورے جذبوں کے ساتھ کہا۔ ایک عرصے بعد اس سے ملنا، اس کے انگ انگ میں سرخوشی بن کر پھوٹ رہا تھا۔
وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بولا۔ ’’ولیم کا ردعمل کیسا تھا؟‘‘
’’اس نے بہت تعاون کیا۔‘‘
’’اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
حالانکہ یہ سن کر کہ وہ ملک چھوڑ کر جارہی ہے، وہ ساکت سا ہوکر رہ گیا تھا۔ ’’آخر تم غیر ملک میں کیوں جارہی ہو؟‘‘
’’جہاں میرا شوہر ہوگا، میں وہیں رہوں گی۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ لیری یہاں بھی تو ملازمت کرسکتا ہے۔‘‘
’’اس نے بہت کوشش کی لیکن ہر دفعہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ وہ بہت تنگ آگیا تھا۔ کچھ جنونی سا ہوگیا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اسے کوئی کام مل جاتا۔ بیکاری اسے نفسیاتی مریض بنا رہی تھی۔‘‘
اس کے بعد ولیم نے کچھ نہیں کہا تھا۔ اس نے کیتھرین کی بہت مدد کی تھی اور تمام معاملات سمیٹنے میں اس کے لیے سہولت پیدا کی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ اور اس کی فرم ہمیشہ اس کے ساتھ رابطے میں رہیں گے کیونکہ وہ ہمیشہ کے لیے تو نہیں جارہی تھی۔
اس بات کو یاد کرکے کیتھرین سوچ رہی تھی کہ لیری یہاں کتنا خوش اور گرمجوش نظر آرہا ہے۔ اس نے سامان گاڑی میں رکھوایا اور اس سے بولا۔ ’’ٹھہرو! ابھی مسٹر ڈیمارس سے بھی ملنا ہے۔ وہ کسی شہنشاہ کی طرح ہے۔ بڑے بڑے لوگ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ وہ تمہیں پسند آیا ہے۔‘‘ کیتھرین نے کہا۔
’’اس نے بھی مجھے پسند کیا ہے۔‘‘ لیری نے کہا۔ کیتھرین نے اسے کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔ اسے اطمینان ہوا کہ یہ ایک اچھا آغاز تھا۔
لیری نے شوفر سے ڈیمارس کے بنگلے پر چلنے کے لیے کہا اور کیتھرین سے بولا۔ ’’اس کا گھر دیکھنے والا ہے۔ طویل رقبے میں ہے اور کیا ہے جو وہاں نہیں موجود… کسی روز موقع ملا تو تمہیں یہ سب دکھائوں گا کہ لوگ کس طرح بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔‘‘
’’کیا وہ ایک خوش اخلاق انسان ہے؟‘‘
’’ہاں۔ تم خود دیکھ لینا۔ مجھے یہاں بہت پذیرائی ملی، میری عزت کی گئی۔‘‘ وہ بڑے فخر سے بولا۔
ڈیمارس سے ملاقات رسمی سی رہی جیسی ایک باس کے ساتھ ہوسکتی تھی۔ جب وہ دونوں ہوٹل کی طرف آرہے تھے تو لیری، کیتھرین کو ایک ایک قابلِ دید مقام کے بارے میں بتا رہا تھا۔ شہر بہت خوبصورت تھا۔ اجنبی ہونے کے باوجود کیتھرین کو پسند آیا تھا۔
ہوٹل کا سوئٹ بھی بہت شاندار تھا۔ گلدانوں میں تازہ پھول سجے تھے اور کانچ کے بڑے پیالے میں خوش رنگ تازہ پھل رکھے تھے۔ لیری نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’اس نئے ملک میں، اس نئے شہر میں خوش آمدید!‘‘
کیتھرین مسکرائی۔ ’’مجھے نیا ملک، نیا شہر بہت پسند آیا کیونکہ یہاں میرا محبوب، میرا شوہر ایک مرتبہ پھر میرے پاس آگیا ہے۔‘‘
لیری مسکرایا تو جیسے کیتھرین کو ساری دنیا مل گئی۔ یہ سب کتنا اچھا لگ رہا تھا کہ اتنے مسائل کے باوجود اتنے مشکل حالات سے گزر کر وہ پھر ایک بار اکٹھا تھے۔ ایک دوسرے کے لیے اپنے دل میں محبت اور پیار کا ایک جہان لیے ہوئے۔ ان تمام حالات نے ان کے اس بندھن کو اور مضبوط کردیا تھا۔ کیتھرین کو پختہ یقین ہوگیا تھا کہ اب ان کی ازدواجی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔
جلد ہی انہوں نے ایک خوبصورت اور آرام دہ اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا اور زندگی ایک ہموار راستے پر چل پڑی۔ لیری دن بھر مصروف رہتا تھا لیکن کوشش کرتا کہ رات کا کھانا اس کے ساتھ کھائے۔ ایک رات وہ گھر آیا تو اس کے ساتھ اس کا دوست کائونٹ جارج بھی تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا، اسمارٹ انسان تھا۔ سیاہ بال اور سیاہ آنکھوں والا ایک خوش مزاج شخص تھا۔ وہ انہیں ڈنر کے لیے ایک ایسے ریسٹورنٹ میں لے گیا جہاں اس ملک کے تمام روایتی کھانے موجود تھے۔
وہ ایک پرلطف شام تھی جس سے تینوں بہت محظوظ ہوئے۔ وہ تقریباً تین بجے گھر پہنچے تو کائونٹ نے کیتھرین سے پوچھا۔ ’’تم نے یہاں کے قابل دید مقامات دیکھے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ کچھ زیادہ نہیں… میں لیری کے فارغ ہونے کا انتظار کررہی ہوں۔‘‘
کائونٹ، لیری کی طرف پلٹا۔ ’’کیا میں کیتھرین کو کچھ تاریخی مقامات دکھا دوں۔ جب تک تم فارغ ہوتے ہو۔‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ ضرور…! دن بھر کیتھرین فارغ رہتی ہے۔ اگر تمہیں زحمت نہ ہو تو؟‘‘
’’میں یہ کام بخوشی کروں گا۔‘‘ وہ کیتھرین سے مخاطب ہوا۔ ’’میڈم! کیا آپ مجھے اپنا گائیڈ بنانا پسند کریں گی؟‘‘
کیتھرین ہنس پڑی۔ ’’ضرور!‘‘
٭…٭…٭
اگلے چند ہفتے کیتھرین کے لیے بہت پرلطف اور سیر و تفریح سے بھرپور تھے۔ وہ صبح کو گھر کو سجانے سنوارنے میں گزارتی۔ دوپہر کو اگر لیری مصروف ہوتا تو کائونٹ اسے قابل دید مقامات دکھانے کے لیے لے جاتا لیکن جب کبھی لیری کو فرصت ہوتی تو اس کے ساتھ شہر دیکھنے کا مزہ ہی اور تھا۔ وہ دونوں بازاروں میں گھومتے، دکانداروں سے چیزوں کی قیمتیں کم کروانے کے لیے جھگڑتے، سڑک کے کنارے بنے ہوئے ڈھابوں اور چلتے پھرتے ریسٹورنٹ میں کھانوں کے ذائقے چکھتے۔ لیری ایک بہت ہی خوش مزاج، شوخ اور دلچسپ ساتھی تھا۔ کیتھرین کو اپنی ملازمت، ملک اور شہر چھوڑنے کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ لیری کے ساتھ رہنے کے لیے وہ پوری دنیا کو چھوڑ سکتی تھی۔ وہ اس کا محبوب تھا، اس کا شوہر تھا۔
لیری اس ملازمت میں بہت خوش تھا۔ ڈیمارس کے پاس خاصے جہاز تھے۔ ان میں ایک بہترین پُرتعیش جہاز بھی تھا جس میں دنیا کی ہر سہولت موجود تھی۔ لیری کو یہ تمام جہاز اڑانے میں بڑی خوشی اور سنسنی کا احساس ہوتا تھا۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا۔ کیتھرین اجنبی لوگوں اور اجنبی ملک سے مانوس ہوتی جارہی تھی۔ بہت سے لوگ اس کے دوست بن گئے تھے۔ اسے زبان کی بھی کچھ شُدھ بدھ ہوگئی تھی۔ راستے بھی آگئے تھے۔ بازاروں اور مارکیٹوں کا بھی پتا چل گیا تھا۔ بہت سے قابل دید مقامات انہوں نے دیکھ لیے تھے۔ زندگی جوئے شیر کی طرح سکون سے بہہ رہی تھی۔
٭…٭…٭
نولی نے جب سے سنا تھا کہ اس کا بچھایا ہوا جال بڑی مہارت کے ساتھ اس کے محبوب، اس کے دشمن کو اس سے قریب لے آیا تھا، اس وقت سے اس کے ذہن میں لیری ڈگلس کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ اس نے اتنا عرصہ بہت صبر کے ساتھ انتظار کیا تھا۔ اس سارے عرصے میں اس کے سوا اس کے دل میں کوئی اور نہیں لیری ہی تھا۔ جس نے اس کی محبت، اس کے جذبات کو خاک میں ملایا تھا جو وعدہ کرکے نہیں آیا تھا اور اس کا عروسی جوڑا اسی طرح ہینگر میں لٹکا رہ گیا تھا۔ وہ اس کی بے وفائی کے اذیت ناک چرکے سہتی رہی تھی اور اسے خبر تک نہیں تھی، وہ ہر روز ایک نیا عشق کرنے میں مصروف تھا۔
اسے اپنا انتقام نہایت ہوشیاری کے ساتھ لینا تھا۔ اس طرح کہ ڈیمارس کو کوئی شک نہ ہو۔ وہ ایک بہت ہوشیار اور ذہین انسان تھا۔ وہ معمولی سے معمولی بات بھی محسوس کرلیتا تھا۔ جس صبح لیری کو آنا تھا، نولی رات بھر نہیں سوئی تھی۔ صبح بہت جلدی اٹھ کر وہ تیار ہوگئی اور ایک ایک پَل اسی طرح گننے لگی جس طرح اس نے ہوٹل کے کمرے میں ایک ایک پَل گنا تھا۔ لیری کے انتظار میں کہ وہ کب آتا ہے اور اسے دلہن بنا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
اسے معلوم ہوا تھا کہ لیری نے شادی کرلی ہے۔ وہ کئی بار سوچتی تھی کہ کبھی لیری نے بھی ان جادو بھرے دنوں کے بارے میں سوچا ہوگا جو دونوں کی محبت کے یادگار دن تھے۔ کیا وہ اس کو یاد ہوگی۔ کیا جب لیری کا سامنا اس سے ہوگا تو وہ اسے پہچان جائے گا؟
گیارہ بجے تو لیموزین گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ نولی آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتی نیچے ہال میں آئی۔ دروازہ کھلا اور بٹلر اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے لیری تھا۔ نولی کا دل دھڑک اٹھا۔ یوں لگا جیسے صدیوں بعد اسے دیکھا ہو۔ وہ بھی اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈالی۔ اس کی آنکھوں میں ستائش بھری چمک آئی جیسے نولی کی دلکشی اور حسن نے اسے متاثر کیا ہو۔ وہ نرمی سے بولا۔ ’’میں لیری ڈگلس ہوں۔ مسٹر ڈیمارس نے مجھے اپنا پرائیویٹ پائلٹ مقرر کیا ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں کوئی پہچان نہیں تھی۔ نہ کوئی شناسائی… کچھ بھی نہیں تھا۔
پھر ایک ہفتے بعد وہ ایک ہوائی سفر کے لیے ایئرپورٹ جارہی تھی۔ پچھلے سالوں میں اس نے کوئی ہزاروں مرتبہ سوچا تھا جب کبھی اس کا سامنا لیری سے ہوگا تو کیسا منظر ہوگا۔ اس نے باربار مختلف زاویوں سے بدل بدل کر دیکھا تھا لیکن یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ لیری اسے بالکل بھلا چکا ہوگا۔ اس کے نزدیک جو بات اس کی زندگی کی اہم ترین تھی، وہی بات لیری کے لیے ذرّہ بھر اہمیت کی حامل نہیں تھی۔ وہ اسے بھی اسی طرح اپنی یادداشت سے محو کرچکا تھا جس طرح اس کی باقی سستی اور بازاری محبتیں تھیں۔ ہاں! بیشک یہ محبت اس کو یاد نہیں رہی تھی لیکن جو کچھ وہ اب اس کے ساتھ کرنے والی تھی۔ اسے وہ کبھی بھلا نہیں سکے گا۔ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ وہ اس کی محبت تو بھلا چکا تھا لیکن اس کی نفرت بھلانی آسان نہیں ہوگی۔
اس کی گاڑی ایئرفیلڈ میں رکی… جہاز کے سامنے جو اڑان کے لیے تیار تھا۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا اور نولی باہر نکلی۔
لیری ہاتھ میں فلائنگ آرڈر پکڑے اسی طرف آرہا تھا۔ وہ اس کے قریب رکا اور خوشگوار لہجے میں بولا۔ ’’گڈ مارننگ مسز ڈیمارس! میں لیری ڈگلس ہوں۔ میں آپ اور آپ کے مہمانوں کو آج کی فلائٹ پر لے کر جائوں گا۔‘‘
نولی نے اسے یوں نظرانداز کردیا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو اور بغیر کچھ کہے اس کے برابر سے گزر کر چلی گئی۔ اسے بہت مزہ آرہا تھا کہ وہ شدید طور پر تلملا رہا تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا۔
یہ ایک لمبی اور پیچیدہ فلائٹ تھی۔ نولی اور اس کے مہمانوں کو مختلف جگہوں سے لے کر ڈیمارس کے شاندار بحری جہاز تک پہنچانا تھا۔ جو ایک جزیرے پر لنگرانداز تھا جو ڈیمارس کی ملکیت تھا۔ سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا۔ وہ بحفاظت واپس آگئے تھے۔ جہاز نے ایئرپورٹ پر لینڈ کیا اور نولی کو لینے کے لیے لیموزین قریب آگئی۔ لیری اور کوپائلٹ بھی جہاز سے نیچے اتر آئے۔ نولی لیری کو نظرانداز کرتے ہوئے کوپائلٹ کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’پال! نیا پائلٹ نوآموز معلوم ہوتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ تم اسے کچھ تربیت دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بڑی شان سے چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ لیری کو غصے میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے چھوڑ کر… اس کی حالت کا تصور کرکے نولی کو قلبی سکون مل رہا تھا۔
ایک ہفتے بعد نولی پھر ایک فلائٹ پر موجود تھی۔ یہ بھی ایک
مشکل فلائٹ تھی لیکن لیری نے اپنے تجربے سے اسے بہت ہموار اور محفوظ بنا دیا۔ طیارہ لینڈ کرنے میں بھی اس نے احتیاط کی۔
لیری کوپائلٹ کے ساتھ وہاں سے گزرا جہاں نولی کا کیبن تھا۔ وہ اس وقت لپ اِسٹک لگا رہی تھی۔ لیری نے محتاط لہجے میں کہا۔ ’’مسز ڈیمارس! امید ہے آپ نے فلائٹ کو پرلطف محسوس کیا ہوگا۔‘‘
نولی نے اس کی جانب بالکل توجہ نہیں دی اور سُنی ان سُنی کرتے ہوئے بولی۔ ’’پال! میں ہمیشہ بہت بے آرامی محسوس کرتی ہوں۔ جب مجھے کسی ناتجربے کار پائلٹ کے ساتھ سفر کرنا پڑے جسے اپنے کام میں مہارت حاصل نہ ہو۔‘‘ وہ گوشۂ چشم سے لیری کی طرف دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ غصے اور بے بسی سے سرخ ہوگیا تھا۔
اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کے بولنے سے پہلے ہی نولی درشت لہجے میں کوپائلٹ سے مخاطب ہوئی۔ ’’پال اس سے کہہ دو کہ اسے مجھ سے اس وقت تک بات کرنے کی ضرورت نہیں جب تک میں خود اس سے نہ کہوں۔‘‘
کوپائلٹ بھی سناٹے میں آگیا اور مشینی انداز میں بولا۔ ’’یس میڈم!‘‘
اس نے ڈیمارس سے بھی کہا کہ نیا پائلٹ آداب سے ناواقف ہے۔ اس کا رویّہ بدتمیزی کی حدود میں آتا ہے۔ وہ اس کی سرزنش کرے۔ نولی جانتی تھی کہ ڈیمارس اس کی بات نہیں ٹالے گا اور وہ لیری کی اچھی طرح خبر لے گا۔
شاید اسی کا اثر تھا کہ لیری اب اس کا بہت کم سامنا کرتا تھا۔ زیادہ تر بات کوپائلٹ ہی کرتا اور لیری ادھر ادھر ہوجاتا لیکن نولی کو یہ کب گوارا تھا۔ ابھی تو اس کا انتقام شروع ہوا تھا۔ وہ اسے ذہنی اذیت پہنچا کر مزے لے رہی تھی۔ وہ اس کو کیسے اس کے حال پر چھوڑ سکتی تھی۔ ابھی وہ اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ ایک فلائٹ کے بعد اس نے لیری کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس کی دھڑکنیں کچھ بے ترتیب ہوئیں۔ اس کے خوبصورت چہرے اور مقناطیسی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔
وہ قریب آکر اس سے مخاطب ہوا۔ ’’میڈم! رات میں نے آپ کی فلم دیکھی۔ آپ بہترین اداکارہ ہیں۔ آپ نے اپنا کردار بہت خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ میں واقعی بہت متاثر ہوا۔ آپ کی اداکاری بڑی فطری ہے۔‘‘
نولی نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا۔ اس کی مقناطیسیت کے دائرے سے باہر نکل آئی اور بے اعتنائی سے بولی۔ ’’مسٹر لیری! بہتر ہوتا کہ آپ آرٹ کے نقاد بن جاتے۔ آپ نے جو میدان اپنے لیے چنا ہے، وہ آپ کے بس کی بات نہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ آئی۔ چشم تصور سے لیری کو پیچ و تاب کھاتے ہوئے دیکھ کر…!
پھر ایک ایسا موقع آیا جب نولی جہاز میں تنہا مسافر تھی۔ وہ محسوس کررہی تھی کہ لیری کاک پٹ میں ہی ٹکا ہوا ہے اور اس کا کوپائلٹ اس کی دیکھ بھال کررہا ہے۔ وہ اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔ منزل پر پہنچ کر لیری اس کے قریب آیا۔
’’میڈم! میرے لیے مسٹر ڈیمارس کی ہدایت ہے کہ جب تک آپ اس شہر میں ہیں، میں آپ کے ساتھ رہوں۔‘‘
نولی نے ایک نگاہ غلط انداز اس پر ڈالی۔ ’’ہاں ٹھیک ہے لیکن مہربانی فرما کر مجھے اس کا احساس نہ ہونے دینا کہ تم میرے ساتھ ہو۔‘‘
وہ جیسے وہیں منجمد ہوگیا اور اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
شہر میں ان کے لیے پرائیویٹ گاڑی کا انتظام تھا۔ لیری ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھا اور نولی پچھلی نشست پر … اس نے چھ، سات مشہور دکانوں سے شاپنگ کی اور لیری اس کے ساتھ ساتھ رہا۔
وہ ہر دکان پر آدھ پون گھنٹے سے زیادہ لگاتی اور سیلزمین خریداری کے پیکٹ اور لفافے لیری کو تھما دیتا۔ لیری اس کے لیے جیسے ایک ادنیٰ ملازم تھا جو اس کی خدمت کے لیے وقف تھا۔ جب لیری سامان سے اچھی طرح لد گیا تو وہ اسے انتظار کرنے کا کہہ کر ایک ریسٹورنٹ میں گھس گئی۔ اس وقت ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی۔ لیری نے بمشکل ایک شیڈ تلے پناہ لی اور دو گھنٹے تک نولی کا انتظار کرتے ہوئے خود کو کوستا رہا۔
٭…٭…٭
نومبر کی ایک صبح نولی نے اپنی سیکرٹری کے ذریعے لیری کو پیغام بھیجا کہ دوپہر کو اسے پڑوسی ملک کے ایک شہر میں جانا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ موسم خراب ہے۔ اس کی توقع کے عین مطابق لیری نے اس کی سیکرٹری کو فون کیا۔ موسم بہت خراب ہے، گہری دھند چھا رہی ہے اور دوپہر تک حدنگاہ صفر ہوجائے گی جس کی وجہ سے وہاں جانا ممکن نہیں ہوگا۔
نولی کا جواب تھا کہ وہ ٹھیک دو بجے ایئرپورٹ پہنچ جائے گی تاکہ وہاں جاسکے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ ایک بہت مشکل فلائٹ ہوگی جو لیری کو ناکوں چنے چبوا دے گی۔ یہی وہ چاہتی تھی کہ وہ ایک پل بھی آرام سے نہ بیٹھے۔ وہ ٹھیک دو بجے ایئرپورٹ پہنچ گئی۔ جیسے ہی وہ گاڑی سے باہر آئی، لیری اس کی جانب بڑھا۔ اس کے چہرے پر تنائو تھا۔ وہ سپاٹ آواز میں بولا۔ ’’مسز ڈیمارس! مجھے اندیشہ ہے کہ ہم یہ فلائٹ نہیں لے جاسکیں گے۔ آگے ایئرپورٹ گہری دھند کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے۔‘‘
نولی نے اس کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ یوں جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو اور کوپائلٹ سے بولی۔ ’’پال! کیا جہاز میں آٹومیٹک لینڈنگ کے آلات موجود نہیں؟‘‘
’’ہاں۔ یقیناً ہیں۔‘‘ وہ سنبھل کر بولا۔
’’مجھے حیرت ہے کہ مسٹر ڈیمارس نے یہ کیسا پائلٹ ملازم رکھا ہے جس کو فلائنگ کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ میں مسٹر ڈیمارس سے بات کروں گی۔‘‘ وہ تیزی سے پلٹی اور جہاز کی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگی۔
وہ دونوں مجبوراً مرے ہوئے قدموں سے جہاز کی طرف بڑھے۔ وہ اپنے کیبن میں اطمینان سے بیٹھی ایک فیشن میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس کی حالت پر دل ہی دل میں مزے لیتی رہی۔ وہ غصے کے گھونٹ پیتا کاک پٹ میں چلا گیا۔
نولی کو اندازہ ہورہا تھا کہ فلائٹ ناہموار ہے۔ حدنگاہ تک ایک موٹی سفید دیوار تھی جس کے آرپار کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ واقعی حدنگاہ صفر تھی۔ نولی نے لیری سے انتقام لینے کو یہ اقدام اٹھایا تھا مگر اس میں اس کی جان کو بھی خطرہ تھا۔ اسے اس کی چنداں پروا نہیں تھی۔ وہ لیری کے ساتھ جی نہیں پائی تھی تو اس کے ساتھ مر تو سکتی تھی۔
دھند کی دیواریں جیسے دشمن کی طرح انہیں گھیرے ہوئے تھیں۔ کوئی نیچے جا سکتا تھا اور نہ اس کی حدود سے باہر نکل سکتا تھا۔ یقیناً لیری اس وقت جس امتحان سے گزر رہا تھا، اس کا اندازہ کوئی فلائنگ کا ماہر ہی لگا سکتا تھا لیکن اس کا جو لطف نولی کو آرہا تھا، اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔
بالآخر جہاز نے ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ زمین کو چھوا اور آہستہ آہستہ ساکت ہوگیا۔ نولی کو بہت دیر تک کاک پٹ سے ان کے باہر آنے کی آواز سنائی نہیں دی۔ پھر وہ دونوں باہر آئے اور لیری نے بے تاثر آواز میں کہا۔ ’’ہم منزل پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘ نولی رسالے کی ورق گردانی کرتی رہی۔ اس نے نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
وہ گمبھیر خاموشی میں ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ لیری شوفر کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور نولی پیچھے تھی۔ دھند اب بھی گہری تھی جس کی وجہ سے گاڑی کی رفتار بہت کم تھی۔ آخر ہوٹل آیا اور لابی میں نولی نے اس سے کہا۔ ’’تم مجھے رات ٹھیک دس بجے یہاں سے لے جانا۔‘‘ اس کے پاس یس میڈم کہنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ہوٹل کا منیجر نولی کے سامنے خم ہوکر اس سے ہدایات لے رہا تھا۔ نولی نے لیری کے لیے سب سے سستے کمرے کا آرڈر دیا اور لفٹ کی طرف بڑھ گئی۔
نولی کو معلوم تھا کہ لیری اتنی مشکل فلائٹ کے بعد تھکا ہوا ہوگا۔ جب وہ ایک سستے کمرے میں سخت بیڈ پر رات گزارے گا تو اسے اپنے کیے کا مزہ آئے گا۔ وہ اپنے بہترین پرآسائش کمرے میں موسیقی سے لطف اندوز ہوتی رہی اور اس کے بارے میں سوچتی رہی۔
دس بج گئے اور لیری نہیں آیا۔ یقیناً وہ اپنے سستے کمرے میں سخت بیڈ پر پڑا سو رہا ہوگا۔ اسے اپنے اعصاب کو معمول پر لانے کے لیے آرام کی ضرورت تھی اسی لیے وہ اب تک نہیں آیا تھا۔ نولی ارادہ کررہی تھی کہ اس کے اس تساہل اور فرائض سے غفلت پر ڈیمارس سے اس کی شکایت کرے کہ دروازہ کسی نے اندر دھکیلا جو اتفاق سے کھلا ہوا تھا اور اگلے ہی لمحے لیری اندر آگیا۔ اسے دیکھ کر وہ ٹھٹھکا اور اس نے شاید معذرت کرنے کے لیے لب کھولے لیکن اس سے پہلے ہی نولی نے ناگواری سے کہا۔ ’’تمہیں تمیز نہیں کہ اجازت لے کر اندر آئو۔‘‘
وہ کچھ کہے بغیر وہیں رک گیا۔ اس نے ایک قہر بھری نگاہ اس پر ڈالی۔ آگے بڑھا اور اسے دونوں شانوں سے تھام کر جھنجھوڑتے ہوئے بھنچے ہوئے لبوں کے ساتھ بولا۔ ’’آخر تم خود کو سمجھتی کیا ہو؟‘‘ اس کے سنہرے بال پکڑتے ہوئے جو اس کے منہ میں آیا کہتا چلا گیا۔ نولی نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور اس کے غصے سے سرخ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’میری زندگی میں پھر آنے کا شکریہ!‘‘
٭…٭…٭
کیتھرین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وقت کو کیا ہوگیا تھا۔ حالات کیسے ہوتے جارہے تھے اور لیری کو کیا ہوگیا تھا۔ وہ کیسے بدل گیا تھا اور کیوں بدل گیا تھا۔ اس کی محبت میں وہ والہانہ پن حقیقی لگن اور اپنائیت نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے گھر میں تنہا بیٹھی سوچتی رہتی کہ یہ اس کی غلط فہمی ہے یا حقیقت، یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن نولی نے اس کا اندازہ لگا لیا تھا کہ چند ہفتے پیشتر جب وہ ڈیمارس کے ساتھ تین ہفتے کے لیے ملک سے باہر گیا تھا، کیتھرین کو بری طرح سے اس کی یاد آرہی تھی۔ وہ پریشان اور کھوئی کھوئی رہتی تھی۔
بالآخر وہ دن آیا جب تین ہفتے بعد لیری گھر آیا تو بہار آگئی۔ وہ خوشی کے لہجے میں اس کو بتانے لگا۔ ’’ایک اچھی خبر یہ ہے کہ میری تنخواہ بڑھا دی گئی ہے۔‘‘
’’بہت خوب! اس طرح ہم اتنی رقم جمع کرلیں گے کہ اپنے ملک ہو آئیں گے۔‘‘
لیری کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے۔ ’’ایسی بھی کیا بات ہے۔ ہمیں یہاں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور پھر ہم یہاں اتنی آسائش میں رہ رہے ہیں۔ وہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔‘‘
کیتھرین نے بحث کرنی مناسب نہیں سمجھی۔ وہ بولی۔ ’’اچھا۔ چھوڑو اس بات کو۔ تم تھکے ہوئے آئے ہو۔ تمہیں آرام کرنا چاہیے۔ آج جلدی سو جائیں گے۔‘‘
’’نہیں، نائٹ کلب میں کچھ دوست اکٹھے ہورہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں وہاں جانا ہوگا۔‘‘
کیتھرین سے رہا نہیں گیا۔ اس نے اپنی آواز کو بڑی کوشش سے نرم بنایا۔ ’’لیری! تم ایک مہینے بعد تو گھر آئے ہو۔ ہم نے ابھی کوئی بات بھی نہیں کی اور تم؟‘‘
’’تمہیں سمجھنا چاہیے کہ میرا کام ہی ایسا ہے۔ کیا میں تمہارے قریب نہیں رہنا چاہتا؟‘‘
’’میں نے کب کہا لیکن ہم دونوں کو اس دوری کی تلافی کرنی چاہیے۔‘‘
’’اچھا چھوڑو۔ جہنم میں جائے یہ نائٹ کلب! ہم آج گھر پر ہی رہیں گے اور ایک دوسرے کی قربت کا لطف اٹھائیں گے۔‘‘
کیتھرین نے اس کی معصوم سی مسکراہٹ کو اس کے لبوں سے چھوتے ہوئے دیکھا جس میں لڑکپن کی جھلک اور شوخی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ اس نے خواہ مخواہ ہی بدمزگی پیدا کی۔ وہ مفاہمت کے انداز میں بولی۔ ’’اگر تم باہر جانا چاہتے ہو تو میں خوشی سے چلوں گی۔‘‘
’’نہیں اب نہیں… اب صرف ہم ہوں گے اور کوئی نہیں۔‘‘ وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
کیتھرین کے لیے جیسے گھر جنت بن گیا۔ اگلا تمام ہفتہ دونوں نے گھر میں ایک ساتھ گزارہ۔ کیتھرین نے اس کے پسندیدہ کھانے پکائے، دونوں آتشدان کے سامنے بیٹھ کر موسیقی سے لطف اندوز ہوئے، ٹی وی دیکھا، فلمیں دیکھیں، کتابیں پڑھیں اور دل بھر کے باتیں کیں۔ کیتھرین کے دل کی آرزو پوری ہوگئی تھی۔ وہ ایسا ہی چاہتی تھی۔ ایسی قربت جو لیری کی طویل غیر حاضری کی اذیت کو بھلا دے۔ وہ بہت خوش تھی۔
لیری جب چلنے لگا تو اس سے بولا۔ ’’اب جب میں آئوں تو تم بہت سے پروگرام بنا کر رکھنا تاکہ ہم اس طرح گھر میں بند ہوکر نہ رہ جائیں اور کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گیا اور کیتھرین وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
کیتھرین شاید اس بات کو بھول جاتی کہ ہفتے بعد ایک عجیب اور ناقابل یقین بات ہوئی جس نے کیتھرین کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک دوپہر وہ مارکیٹ سے ضروری شاپنگ کرکے آرہی تھی۔ لیری اگلے دن گھر آنے والا تھا اور وہ اس کے لیے بہت اچھا کھانا بنانا چاہتی تھی جو اسے بہت پسند آئے۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS