وہ ہاتھوں میں خریداری کے پیکٹ تھامے، سڑک کراس کرنے کے لیے کھڑی تھی کہ ایک ٹیکسی اس کے قریب سے گزری۔ اتفاقاً اس کی نگاہ اندر پڑی۔ اسے اپنی نگاہوں پر اعتبار نہیں آیا۔ اس میں لیری ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا، خاصی بے تکلفی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ لڑکی کھلکھلا رہی تھی۔ چند لمحوں بعد ٹیکسی موڑ مڑ گئی۔
کیتھرین ساکت کھڑی رہ گئی۔ وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کرنے لگی کہ اسے غلطی فہمی ہوئی ہے۔ وہ لیری نہیں، کوئی اور تھا لیکن سچ یہی تھا کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں تھا جو لیری جیسا ہو۔ وہ دنیا میں اکیلا تھا جسے فطرت نے حسن کا ایک شاہکار بنایا تھا۔ وہ اس کا تھا، اس کا اپنا… یہ لڑکی کون تھی جو اس کے اور لیری کے درمیان حائل ہونا چاہتی تھی۔
وہ تمام رات کیتھرین نے جاگ کر گزار دی، لیری کے انتظار میں، مگر وہ گھر نہیں آیا اور کیتھرین ہزاروں سوچوں اور ہزاروں اندیشوں میں گھری رہی۔ وہ دوپہر کو گھر آیا۔ اس کا موڈ اچھا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ اس نے خوش مزاجی سے کہا۔ اپنا فلائٹ بیگ رکھا اور کیتھرین کی طرف دیکھا۔ ’’خیریت تو ہے۔ کوئی پریشانی ہے کیا؟‘‘
’’تم شہر کب واپس آئے؟‘‘ کیتھرین نے تنے ہوئے لہجے میں کہا۔
لیری نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’ایک گھنٹہ پہلے… کیوں؟‘‘
’’میں نے تمہیں ایک لڑکی کے ساتھ کل ٹیکسی میں دیکھا تھا۔‘‘ کیتھرین یہ کہتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ شاید یہی وہ موڑ ہے جہاں یہ شادی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ وہ انکار کرے گا۔ وہ اسے جھوٹا کہے گی۔ اس طرح تکرار بڑھ جائے گی۔ پھر اسے لیری کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہوگا جس نے اس کے اعتماد کو مجروح کیا تھا۔
وہ چند لمحے اس کی طرف خاموشی سے دیکھتا رہا۔ کیتھرین نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’ہاں۔ اب کہہ دو کہ وہ تم نہیں تھے۔‘‘
لیری نے سر ہلایا۔ ’’میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔ وہ میں ہی تھا۔‘‘
کیتھرین ٹھٹھک گئی۔ اس کا سارا وجود مایوسی میں ڈوب گیا۔ وہ کتنی شدت سے چاہتی تھی کہ وہ انکار کردے اور کہے کہ اس لڑکی کے ساتھ وہ نہیں تھا۔
’’اوہ۔ خدایا! تم کیا سمجھ رہی ہو؟‘‘
غصے میں کھول کر کیتھرین نے کچھ کہنا چاہا۔ ’’میں!‘‘
لیری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی بات نہ کہنا جس پر بعد میں تمہیں افسوس ہو۔‘‘
’’کیوں؟ مجھے کیوں افسوس ہوگا؟‘‘
’’میں کل پندرہ منٹ کے لیے یہاں آیا تھا ایک لڑکی ہیلنا کو لینے کے لیے۔ وہ ایئر ہوسٹس ہے اور ڈیمارس اسے بلانا چاہتا تھا۔ ڈیوٹی کے لیے۔‘‘
’’تو تم مجھے فون تو کرسکتے تھے نا!‘‘
’’میں نے فون کیا تھا مگر تم مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔‘‘
’’میں شاپنگ کرنے گئی تھی۔ بتائو تمہارے لیے اچھا سا ڈنر تیار کروں؟‘‘
’’نہیں۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اس قسم کی باتوں سے ہمیشہ میری بھوک اڑ جاتی ہے۔‘‘ وہ پلٹ کر دروازے سے نکل گیا۔ کیتھرین وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
اس روز کے بعد حالات بدلتے گئے۔ اس کا زیادہ وقت لیری کے انتظار میں ہی گزرتا۔ وہ آتا تو اکثر کھانا کھا کر آتا اور اس کا چاہتوں سے بنایا ہوا کھانا بیکار چلا جاتا۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ لیری اس کے ساتھ بے وفائی کررہا ہے۔ اس کا ذہن، اس کا دل کہیں اور رہتا تھا۔ وہ گھر آتا تھا جیسے کوئی ناگوار فریضہ ادا کرنے کے لیے… اس کا موڈ ہمیشہ خراب ہی رہتا، اس کا رویّہ اکھڑا اکھڑا سا تھا۔ اس کی جیبوں میں اس نے بارہا ایسی چیزیں دیکھی تھیں جو اس کی بے وفائی کی تصدیق کرتی تھیں لیکن کیتھرین کچھ کہہ نہیں پاتی تھی۔ وہ بڑی آسانی سے کوئی بہانہ بنا کر اسے ٹال دیتا۔
حالات کو گوارا بنانے کے لیے کیتھرین نشہ کرنے لگی تھی۔ جب وہ اس کا تصور کرتی تھی کہ لیری کسی اور عورت کی محبت میں مبتلا ہے تو اس کا دل چاہتا تھا اسے قتل کردے۔
٭…٭…٭
لیری کے لیے نولی ایک عجیب کردار تھی۔ اس کی زندگی میں سیکڑوں لڑکیاں آئی تھیں جن سے اس نے کچھ عرصے کے لیے طوفانی عشق کیا تھا اور پھر انہیں بھول بھال گیا تھا۔ صرف ان میں سے کیتھرین ہی ایسی تھی جس سے اس نے وقتی جذبات میں آکر شادی کرلی تھی لیکن اس شادی کے بعد بھی اس نے اپنی بے راہ روی نہیں چھوڑی تھی۔ جس سے وہ کیتھرین کو بے خبر رکھنے میں اب تک کامیاب رہا تھا۔ اچانک اسے تھوڑا بہت پتا چل بھی گیا تھا تو لیری کو یقین تھا کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ وہ اس سے بدظن نہیں ہوگی۔
البتہ نولی نے اس کی زندگی میں عجیب سی ہلچل مچا دی تھی۔ وہ ایک بڑے سرمایہ دار اور بارسوخ انسان کی بیوی تھی لیکن اپنی پہلی محبت کو فراموش نہیں کرپائی تھی۔ اسے ایک ایک بات یاد تھی ان دنوں کی جو دونوں نے اکٹھے گزارے تھے حالانکہ لیری کو نہ نولی یاد تھی، نہ اس بھولی بسری محبت کی کوئی یاد… اس نے یاد کرنے کی کوشش بھی کی تو بھی اسے محبتوں کی کثرت میں وہ ذرا بھی یاد نہیں آئی۔ لیکن نولی پر اس نے یہی ظاہر کیا کہ اس کو سب کچھ یاد آگیا ہے۔ نولی کی مہربانیوں میں خطرہ بھی تھا اور مہم جوئی کا لطف بھی۔ وہ اتنے بڑے سرمایے دار کو چھوڑ کر جس نے اسے دنیا کی ہر آسائش مہیا کر رکھی تھی، اس پر مہربان تھی اور اسے دل میں بسائے ہوئے تھی۔ یہ احساس بڑا پُرلطف اور اپنی نظروں میں خود کو بے حد اہم بنا دینے والا تھا۔
وہ ڈیمارس کے ساتھ ایک لمبی فلائٹ سے واپس آیا تو ہیلنا اس کے ساتھ تھی۔ دونوں نے ایک اچھے ریستوران میں ڈنر کیا اور لیری اس کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ چلا گیا جو اکثر اس کا معمول تھا۔ صبح اس کی فلائٹ تھی۔ وہ ایئرپورٹ اپنے جہاز کا معائنہ کرنے کے لیے گیا، کچھ ضروری کام نمٹائے۔ اپنے کوپائلٹ کے ساتھ لنچ کیا اور ہیلنا کو لینے اس کے اپارٹمنٹ پہنچا۔ وہ اس فلائٹ پر اس کے ساتھ جانے والی تھی۔
اس نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ کافی دیر کے بعد ہیلنا نے دروازہ کھولا۔ لیری اس کی طرف دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ پہچانی نہیں جارہی تھی۔ اس کا چہرہ زخمی اور بری طرح سوجا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سیاہ ہورہی تھیں، جنہیں وہ کھول نہیں پا رہی تھی۔ اس کے بازو، ہاتھ، گردن سب زخمی تھے جیسے کسی پیشہ ور شخص نے اسے اچھی طرح مارا ہو۔
’’اوہ خدایا! یہ کیا ہوا؟‘‘
ہیلنا نے اپنا منہ کھولا تو لیری یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ اس کے سامنے کے تین دانٹ ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس نے بمشکل کہا۔ ’’تم جیسے ہی گئے، دو بدمعاش اندر گھس آئے۔ انہوں نے میری یہ حالت کردی۔‘‘
’’تم نے پولیس کو خبر نہیں کی؟‘‘
’’انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں نے یہ بات کسی کو بتائی تو وہ مجھے قتل کردیں گے۔‘‘ وہ کانپتے ہوئے خون آلود زخمی لبوں سے بولی۔ ’’وہ ایسا ہی کریں گے۔‘‘ وہ دروازہ پکڑے بمشکل کھڑی تھی۔
لیری نے پریشان ہوکر کہا۔ ’’میں تمہیں اسپتال لے کر چلتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔ نہیں۔ میں باہر نہیں جاسکتی۔ وہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
لیری کو بھی احساس ہوگیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ اس نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر کو فون کیا کہ وہ گھر آکر ہیلنا کا علاج کرے اور اس سے بولا۔ ’’ہیلنا! مجھے افسوس ہے میں رک نہیں سکتا۔ میری فلائٹ میں آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے۔ ڈاکٹر تمہاری اچھی طرح دیکھ بھال کرے گا۔ میں واپس آکر تمہیں دیکھنے آئوں گا۔‘‘
مگر اس کے بعد لیری نے ہیلنا کو کبھی نہیں دیکھا۔ جب وہ دو دن بعد اس کے اپارٹمنٹ آیا تو اس کی لینڈ لیڈی نے بتایا کہ وہ جا چکی ہے۔ وہ کچھ روز اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ پھر حسب عادت اس نے اس تلخ واقعے کو ذہن سے نکال دیا۔
چند روز بعد وہ نولی کے ساتھ ایک فلائٹ پر گیا جہاں کچھ دیر انہیں ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ نولی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے تمہاری محبت کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھا ہے… تمہیں ایسی کوئی عورت نہیں ملے گی جو تمہیں اس طرح ٹوٹ کے چاہے۔‘‘
’’ہاں! تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘ لیری نے گرمجوشی سے کہا۔ ’’یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ تم جیسی خاتون مجھ سے اتنی محبت کرے۔‘‘
’’تو پھر آئندہ تم کسی اور سے کوئی تعلق نہ رکھنا ورنہ میں اسے قتل کردوں گی۔‘‘
لیری چونک گیا۔ اس کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ اسے ہیلنا کی ابتر حالت یاد آئی۔ اسے احساس ہوگیا کہ یہ ایسی محبت نہیں جسے وہ آسانی کے ساتھ چھوڑ کر چلا جائے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ اسے نولی کے حسین چہرے کے پیچھے ایک ایسی عورت نظر آئی جو اپنی محبت کے لیے آخری حد تک جاسکتی تھی۔ وہ زخمی ناگن اور بپھری ہوئی شیرنی کی طرح خطرناک تھی۔ بظاہر وہ بے حد نرم مزاج، شگفتہ اور ہنس مکھ تھی۔
لیکن لیری اب محتاط ہوگیا تھا۔ اس نے کسی اور لڑکی سے محبت کی پینگیں بڑھانی چھوڑ دی تھیں اور نولی نے بھی اس کو تنبیہ کردی تھی کہ ان کے اس تعلق کی بھنک بھی ڈیمارس تک نہیں پہنچنی چاہیے۔
لیری نے کہا۔ ’’میں ایک اپارٹمنٹ لے لیتا ہوں جہاں ہم آسانی سے ملاقات کرسکیں گے۔‘‘
’’نہیں۔ ہرگز نہیں۔ لوگ مجھے پہچانتے ہیں۔ میں اس بارے میں سوچ رہی ہوں، تمہیں کچھ روز تک بتائوں گی۔‘‘ وہ پُرخیال لہجے میں بولی۔
اس نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ دو ہفتوں بعد اس نے خوش ہوکر بتایا۔ ’’میں نے ایک جگہ تلاش کرلی ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ لیری نے پوچھا۔
’’سمندر کے کنارے ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ یہاں سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر۔ وہاں ایک خوبصورت گھر ہمارا انتظار کررہا ہے۔‘‘
’’تم نے کس کے نام پر اسے کرایے پر لیا ہے؟‘‘
’’میں نے اسے خرید لیا ہے، کسی اور کے نام سے۔‘‘
لیری دل ہی دل میں مرعوب ہوا۔ وہ خود کو بڑا مغرور محسوس کرنے لگا۔ نولی جو کچھ کر رہی تھی، اس کی خاطر کررہی تھی۔
’’زبردست! میں اسے دیکھنے کے لیے بیتاب ہوں۔‘‘
نولی نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’کیا تمہیں کہیں آنے جانے کے لیے کیتھرین کی طرف سے کوئی مسئلہ ہوتا ہے؟‘‘
لیری کو حیرت ہوئی۔ پہلی دفعہ نولی نے اس کی بیوی کے بارے میں بات کی تھی۔ اگرچہ اس نے اپنی شادی کو چھپایا نہیں تھا لیکن وہ کیتھرین کے نام سے واقف نہیں تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ خفیہ طور پر تحقیقات کرچکی تھی۔ اس کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی۔ جواب کے لیے وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
لیری نے جلدی سے کہا۔ ’’نہیں۔ میں اپنی مرضی سے آتا جاتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔ ’’ڈیمارس بزنس کے لیے باہر جارہا ہے۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ میں اس کے ساتھ نہیں جاسکتی۔ اس طرح ہمارے پاس پورے دس دن ہوں گے، وہاں گزارنے کے لیے۔‘‘
٭…٭…٭
لیری کے پاس اپنی کار تھی لیکن نولی کی تجویز تھی کہ وہ کرایے پر گاڑی لے کر وہاں پہنچے۔ وہ خود تنہا اپنی گاڑی میں آئے گی۔ نولی نے اسے پتا اچھی طرح سمجھا دیا تھا تاکہ اسے راستے میں کسی سے پوچھنا نہ پڑے۔
راستہ سرسبز و شاداب اور بہت خوبصورت تھا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے میں لیری وہاں پہنچ گیا۔ سمندر کے کنارے چھوٹا سا حسین گائوں تلاش کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ وہ بائیں جانب سمندر کی طرف مڑا تو اسے دور ہی سے خوبصورت بنگلوں کی پوری ایک قطار نظر آئی جن کے پیچھے پتھروں کی اونچی دیواریں تھیں۔ ایک اونچی چٹان کے سامنے وہ حسین بنگلہ تھا۔
یہ وہ پرآسائش اور مہنگا ترین بنگلہ تھا جو نولی نے اس کی محبت میں خریدا تھا۔ لیری نے گھنٹی بجائی تو لمحے بھر میں خودکار دروازہ کھل گیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو گیٹ خودبخود بند ہوگیا۔ اس نے خود کو ایک وسیع کمپائونڈ میں پایا جس کے درمیان ایک فوّارہ موتی اگل رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ کیاریوں میں خوش رنگ پھول مہک رہے تھے۔
یہ گھر ایک قلعے کی طرح تھا۔ فن تعمیر کا شاہکار تھا۔ مرکزی دروازہ کھلا اور نولی باہر نکلی۔ اس نے سفید فراک اور سفید سینڈل پہن رکھے تھے۔ اس کے گلابی تراشیدہ ہونٹوں پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔ لیری کو وہ اس وقت دنیا کی سب سے حسین عورت معلوم ہوئی۔ حسین، دلکش آنکھوں میں اس کی محبت جھلملا رہی تھی۔
دونوں چند لمحے ایک دوسرے کی طرف بڑے لگائو اور اپنائیت سے دیکھتے رہے۔ پھر نولی آگے بڑھی۔ ’’آئو۔ اپنا نیا گھر دیکھو۔‘‘
گھر جتنا خوبصورت باہر سے تھا، اتنا ہی خوبصورت اندر سے بھی تھا بلکہ کہیں زیادہ خوبصورت تھا۔ اونچی چھتوں والے وسیع کمرے سجے سجائے تھے۔ سلیقے اور خوش ذوقی کے غماز تھے۔
’’نوکروں کا کیا ہوگا؟‘‘ لیری نے پوچھا۔
’’تم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو؟‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’تو کیا تم سارے کام کرو گی؟‘‘
’’میں نے ایک ایجنسی کے ذریعے صفائی کے لیے ملازمہ کا انتظام کیا ہے۔ وہ، اس کا شوہر صفائی کریں گے لیکن ان کا سامنا ہم سے نہیں ہوگا۔ وہ اپنا کام کرکے چلے جائیں۔‘‘
’’بہت خوب!‘‘ لیری کھل کر مسکرایا۔
وہ تنبیہ کے لہجے میں بولی۔ ’’ڈیمارس کی طرف سے بہت خبردار رہنا… وہ بہت ہوشیار انسان ہے۔ اگر اس کو کسی بات کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘
’’تم مبالغہ کررہی ہو۔ وہ تمہارا زبردست پرستار ہے۔ وہ ایسا نہیں کرے گا۔‘‘
وہ اپنی دلکش آنکھوں سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’یقین جانو وہ ہم دونوں کو قتل کردے گا۔‘‘
’’کیا تم سنجیدہ ہو؟‘‘
’’میں اپنی زندگی میں اس سے زیادہ کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی… وہ بہت بے رحم ہے۔‘‘ اس نے کہا اور پھر ہنس کر بولی۔ ’’ماحول کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگیا ہے۔ آئو۔ میں تمہیں گھر دکھائوں۔‘‘
وہ چار بیڈ روم کا پُرتعیش گھر تھا جس کی کھڑکیوں سے سمندر کا سانس روک دینے والا دلکش منظر دکھائی دیتا تھا۔ ایک کھڑکی سے پھولوں سے لدا ٹیرس، سمندر تک جاتی ہوئی سیڑھیاں اور کئی کشتیاں بھی لنگرانداز نظر آرہی تھیں۔
’’یہ کشتیاں کس کی ہیں؟‘‘
’’تمہاری! یہ تمہارے اس گھر میں آنے کا تحفہ ہے۔ تمہیں خوش آمدید کہنے کے لیے۔‘‘ وہ محبت بھرے لہجے میں بولی۔
لیری کو اپنی قسمت پر رشک آنے لگا۔ اس کے سوا اسے اور کیا چاہیے تھا۔
اگلے دس دن جیسے اڑتے چلے گئے۔ نولی ہر کام میں اتنی ماہر تھی کہ لیری کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے درجنوں ملازمائیں اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت استادہ تھیں۔ اس کی خواہش سے پہلے ہی اس کی آرزو پوری ہوجاتی تھی۔ لائبریری اس کی پسندیدہ کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ موسیقی کے تمام ریکارڈ اس کے دلپسند تھے۔
نولی اس کے پسندیدہ کھانے بہترین طریقے سے پکاتی تھی۔ وہ اس کے ساتھ کشتی کی سیر کرتی اور دونوں نیلے سمندر میں تیراکی کرتے۔ وہ دونوں وہاں تنہا تھے۔ اتنے دنوں میں انہوں نے کسی اور ذی روح کو نہیں دیکھا تھا لیکن نولی اسے بور نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ ان مشہور لوگوں کے قصے سناتی جن سے وہ مل چکی تھی۔ وہ بزنس، سیاست، ادب اور دوسرے دلچسپی کے موضوعات پر دانشمندانہ اور دلچسپ گفتگو کرتی تھی۔
نولی نے اسے تاش، شطرنج اور دوسرے کھیل بھی سکھا دیے تھے۔ اس لیے وہ دن بھر مصروف رہتے تھے۔ اتوار کو نولی نے مزیدار پکنک باسکٹ تیار کی۔ وہ ساحل پر پہنچے۔ نیلے سمندر پر سورج کی سنہری کرنوں کا رقص دیکھتے ہوئے انہوں نے لنچ کیا۔ ابھی وہ کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دو لوگوں کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا۔
’’چلو۔ فوراً اندر چلو۔‘‘ نولی نے گھبراہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
’’اتنا مت گھبرائو۔ یہ گائوں کے باسی ہیں۔ اتفاقاً اس طرف آنکلے ہیں۔‘‘
’’ابھی… اسی وقت۔‘‘ نولی نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
’’اوکے!‘‘ لیری نے نولی کے اس انداز اور ناخوشگوار واقعے کی بدمزگی پر سر جھٹکا۔
’’جلدی جلدی چیزیں اٹھانے میں میری مدد کرو۔‘‘ وہ بولی۔
’’تم انہیں نظرانداز کیوں نہیں کردیتیں۔‘‘ لیری نے جھلّا کر کہا۔
’’تمہیں نہیں معلوم کہ اس میں کتنا خطرہ ہوسکتا ہے۔‘‘
انہوں نے جلدی جلدی ساری چیزیں پکنک باسکٹ میں ٹھونسیں اور تیز قدموں سے گھر واپس آگئے۔ لیری غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ وہ لائبریری میں آکر یونہی ایک کتاب پڑھنے لگا لیکن درحقیقت اس کا ذہن صبح کے واقعے میں الجھا ہوا تھا۔ وہ بار بار اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ نولی کچن میں مصروف تھی۔
کافی دیر بعد نولی لائبریری میں آئی اور اس کے پائوں کے قریب بیٹھ گئی اور اس کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے بولی۔ ’’اب بس کردو۔ ان کے بارے میں سوچنا۔‘‘
لیری نے اس کی جانب دیکھا۔ ’’مجھے اس طرح مجرموں کی طرح چھپنا بالکل پسند نہیں۔ میں یہ بھی نہیں چھپانا چاہتا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
نولی کے دل میں لیری کے ان لفظوں نے پھول سے کھلا دیے۔ یہ لفظ سننے کی آرزو میں اس نے زمانے گزار دیے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ دل سے کہہ رہا ہے۔ اس نے ایک عرصے تک یہی سمجھا تھا کہ وہ اس سے شدید نفرت کرتی ہے۔ جب بھی اسے موقع ملے گا، وہ اس کو تباہ و برباد کرکے رہے گی لیکن جب وہ اس کے سامنے آیا تھا تو ساری نفرت پل بھر میں اس طرح محبت میں بدل گئی کہ اسے احساس بھی نہیں ہوا تھا۔ اسے یوں لگا تھا جیسے وہ اب بھی اسی دور میں تھے جب دونوں نے ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہا تھا۔
٭…٭…٭
اگلے تین ماہ نولی اور لیری کے لیے اس طرح جادو بھرے تھے جیسے وہ ہوا میں تیرتے پھرتے تھے۔ ایک خوبصورت سہانے دن سے اگلے دن تک… لیری جب بھی اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہوتا۔ وہ سمندر کے کنارے بنگلے میں چلا جاتا۔ نولی بھی وہاں پہنچ جاتی اور دونوں کبھی ایک دن، کبھی ہفتے وار چھٹی اور کبھی کبھی پورے ہفتے وہاں ایک ساتھ گزارتے۔ لیری محسوس کررہا تھا کہ وہ نولی کی محبت میں اتنا ڈوب چکا تھا کہ اس کے بغیر رہنا مشکل لگتا تھا۔ اس کا اندازہ اسے اس وقت ہوا جب بنگلے میں چند دن گزارنے کا پروگرام نولی نے ملتوی کردیا کیونکہ اسے ڈیمارس کے ساتھ کہیں جانا تھا۔ لیری پھر بھی بنگلے میں چلا گیا اور تنہا اداس اور پریشان وقت گزارتا رہا۔
اگلے ہفتے جب اس کی نولی سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا۔ ’’تم نے مجھے یاد کیا؟‘‘
’’بہت… بہت…!‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ وہ خوشی کے لہجے میں بولی۔
’’ڈیمارس کیسا ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ سرد لہجے میں بولی۔
’’کیوں؟ خیریت!‘‘
’’لیری۔ اب ڈیمارس کے ساتھ رہنا بہت مشکل لگتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردینی چاہیے۔‘‘
’’مثلاً کیا؟‘‘
’’اگر میں اس سے علیحدگی کا فیصلہ کرلوں تو وہ اتنا مغرور ہے کہ مجھے کبھی نہیں روکے گا۔ قانونی کارروائی میں کچھ وقت لگے گا۔ ہم اس ملک کو چھوڑ دیں گے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ میرے پاس بہت پیسہ ہے۔ ہم ایک ایئرلائن بھی شروع کرسکتے ہیں اور تم پسند کرو تو تم ایک ٹریننگ اسکول کھول سکتے ہو۔ ہم ایک بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘
لیری اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور اندر ہی اندر ان باتوں کا تجزیہ بھی کرتا جارہا تھا کہ وہ کیا حاصل کرے گا اور کیا کھوئے گا لیکن نولی؟ نولی کے لیے تو سب کچھ قربان کیا جاسکتا تھا۔ ٹریننگ اسکول، اپنی ایئرلائن… یہ ایسے خواب تھے جن کے پورے ہونے کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا تو پھر تامل کیسا؟ وہ نولی کی پیشکش پر توجہ دیتے ہوئے بولا۔ ’’مگر میری بیوی کا کیا ہوگا؟‘‘
’’اسے بتا دو کہ تم طلاق چاہتے ہو۔‘‘
’’پتا نہیں وہ مانے گی یا نہیں؟‘‘
’’تم اس سے پوچھتے کیوں ہو۔ اسے بتائو کہ تم طلاق چاہتے ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو ڈارلنگ! تمہیں اس فیصلے پر کبھی پچھتانا نہیں پڑے گا۔‘‘
٭…٭…٭
لیری اب کم ہی گھر آتا تھا۔ اس کے رویّے میں اتنا فرق تھا کہ اس کا آنا نہ آنا ایک برابر تھا۔ کیتھرین کے لیے بدلے ہوئے وقت کے ساتھ نباہنا بہت مشکل تھا۔ اس نے دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔ اس میں ان کا سامنا کرنے اور لیری کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ بہت کم فون سنتی، کسی کو فون کرتی یا گھر سے باہر نکلتی۔ اس نے خود کو نشے کا عادی بنا لیا تھا تاکہ حالات کی تلخیوں کو کم سے کم محسوس کرے۔ وہ خود ترسی کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہوچکی تھی جس سے نکلنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔
ایک روز دروازے کی گھنٹی کئی بار بجی تو کیتھرین بے دلی سے اٹھی۔ اس نے دروازہ کھولا۔ اس کے سامنے ولیم تھا۔ کیتھرین نے حیرت اور بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور اتنا ہی کہہ سکی۔ ’’اوہ! ولیم تم۔‘‘
ولیم کی آنکھوں میں حیرت اتری اور وہ پریشان سا اس کی طرف دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔
آخر کیتھرین نے ہی اسے مخاطب کیا۔ ’’تم یہاں کیسے آئے؟‘‘
’’میں یہاں بزنس کے سلسلے میں آیا تھا۔ تمہیں فون کرتا رہا مگر کسی نے اٹھایا نہیں۔‘‘
کیتھرین اسے لائونج میں لے آئی۔ جہاں چیزیں بے ترتیب تھیں۔ اخبار بکھرے ہوئے تھے۔ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا پڑا تھا۔ کیتھرین نے کچھ شرمندگی سے کہا۔ ’’میں مصروف تھی۔ اس لیے صفائی کی طرف دھیان نہیں دے سکی۔‘‘
وہ بڑی فکرمندی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’کیتھرین! تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘
’’میں؟ ہاں۔ ہاں میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے الجھا ہوا سا جواب دیا۔
’’لیری کہاں ہے؟‘‘ ولیم نے پوچھا۔
’’لیری! ہاں لیری! وہ دنیا کے کسی حصے میں اپنا طیارہ اڑا رہا ہوگا۔ وہ آج کل دنیا کے امیر ترین انسان کا پائلٹ ہے۔ تم جانتے ہو کہ ڈیمارس کے پاس دنیا کی ہر شے ہے حتیٰ کہ لیری بھی!‘‘
ولیم نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’لیری کو معلوم ہے کہ تم نشہ کرتی ہو؟‘‘
کیتھرین اس کے قریب آئی اور درشت لہجے میں بولی۔ ’’اس سے تمہارا کیا مطلب ہے کہ میں نشہ کرتی ہوں… کون کہتا ہے کہ میں نشہ کرتی ہوں… تم اتنے عرصے بعد اس لیے یہاں آئے ہو کہ مجھ پر یہ الزام لگائو۔‘‘
’’کیتھرین!‘‘ ولیم نے نرمی سے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’تم غلط سمجھ رہے ہو؟‘‘ اس نے چڑچڑے پن سے کہا۔ ’’مجھے کسی کی کوئی مدد نہیں چاہیے۔‘‘
’’مجھے ایک کانفرنس میں شرکت کرنی ہے۔ فی الحال میں جارہا ہوں۔ آج رات میرے ساتھ ڈنر پر چلو۔ وہاں بیٹھ کر آرام سے بات کریں گے۔‘‘
’’اوکے!‘‘
’’میں آٹھ بجے تمہیں لے چلوں گا۔‘‘
کیتھرین، ولیم کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ وہ دروازے سے باہر نکل گیا تو وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے بیڈ روم میں آئی اور الماری کا دروازہ کھول کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ وہ بہت دیر تک ساکت کھڑی رہی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ آئینے میں وہی ہے یا کوئی اور! وہ حسین لڑکی کہاں چلی گئی جسے اس کا باپ میز پر کھڑا کرکے اپنے دوستوں سے کہتا تھا۔ ’’دیکھو! میری بیٹی کتنی خوبصورت ہے۔‘‘
ولیم اور دوسرے لوگ اس کی ستائش کتنی حیرت اور خوشی سے کرتے تھے۔ ’’اوہ۔ خدایا! تم کتنی خوبصورت ہو۔ میں نے تم جیسی خوبصورت لڑکی کوئی اور نہیں دیکھی۔‘‘
اور لیری کتنی محبت اور فخر سے کہتا تھا۔ ’’کیتھی! تم کتنی خوبصورت ہو۔ اسی طرح حسین رہنا، ہمیشہ ایسی ہی دلکش رہنا۔‘‘
لیکن یہ آئینے میں کون تھا؟ کیتھرین نے نظروں ہی نظروں میں پوچھا تو آئینے میں نظر آنے والی موٹی، بھدی اور بجھے ہوئے چہرے والی عورت کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سیاہ حلقوں میں گھری آنکھوں میں آنسوئوں کی دھار بہتی جارہی تھی۔
گھنٹوں بعد دروازے کی گھنٹی بجنے لگی۔ پھر ولیم کی آواز سنائی دینے لگی تھی۔ ’’کیتھرین… کیتھرین۔ کیتھی۔‘‘ لیکن کیتھرین نے دروازہ نہیں کھولا۔ ولیم چلا گیا اور کیتھرین آئینے میں دکھائی دینے والی موٹی، بھدی، اجنبی عورت کے ساتھ تنہا رہ گئی۔
اگلی صبح کیتھرین نے ٹیکسی پکڑی اور سیدھی ڈاکٹر کے پاس پہنچی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ خود کو دنیا کی سب سے مظلوم عورت سمجھ رہی تھی لیکن جب وہ ڈاکٹر کے کلینک سے نکلی تو وہ ایک نئی عورت تھی۔ ڈاکٹر نے ہمدردی سے اس کی بات سنی تھی اور اس سے کچھ وعدے لیے تھے۔ وہ اس کے سمجھانے پر قائل ہوگئی تھی کہ وہ نشہ چھوڑ دے گی، اپنا وزن گھٹائے گی، بالوں کو نئے انداز میں ترشوائے گی، ہر ہفتے بیوٹی پارلر اور جم جائے گی اور اپنے حسن اور دلکشی کو بحال
کرے گی تاکہ اس کا شوہر اس میں دلچسپی لے۔ وہ اپنے سارے آنسو وہاں بہا آئی تھی۔ خود ترسی کی کیفیت کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔ اب وہ صحیح سمت میں سوچ رہی تھی اور اپنے حالات کو بہتر طور پر سمجھ رہی تھی۔
اسے خیال آرہا تھا کہ وہ لیری کی عدم دلچسپی کو لیری کی خطا قرار دیتی تھی لیکن اصل میں قصور اس کا تھا۔ وہ ایک موٹی، بھدی عورت سے کیوں محبت کرنے لگا جو نشے کی عادی ہوچکی تھی۔ اس کے لیے گھر میں کوئی کشش رہی ہی نہیں تھی تو وہ کیوں گھر آتا۔ یہی سوچتی ہوئی وہ ڈاکٹر کے کلینک سے نکلی اور اس نے پیدل گھر جانے کا فیصلہ کیا کہ آج ہی سے ورزش شروع کردے اور سنجیدگی سے اپنا وزن گھٹانے کی طرف توجہ دے۔
راستے میں اس نے ایک بیوٹی پارلر اور جمنازیم سے بھی ٹائم لے لیا۔ اس نے دل میں یہ ٹھان لی تھی کہ وہ ڈاکٹر کی تمام ہدایات پر عمل کرے گی۔ اس کا موڈ بہت بہتر تھا اور وہ مختلف دکانوں میں جھانکتی ہوئی چل رہی تھی کہ اس کی نگاہ ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا۔ ’’میڈم پائرس سے قسمت کا حال معلوم کیجئے۔‘‘
اسے یاد آیا کہ وہ ایک بار کائونٹ کے ساتھ یہاں سے گزری تھی تو اس نے بتایا تھا کہ یہ خاتون بہت صحیح قسمت کا حال بتاتی ہے۔ کیتھرین کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ذرا معلوم کرے کہ مستقبل میں اس کے لیے کیا چھپا ہوا ہے۔ حالانکہ وہ اس پر یقین نہیں رکھتی تھی لیکن پھر اس خیال سے وہ اس کے آفس میں داخل ہوئی کہ قسمت کا حال سن کر خود کو تقویت دے۔
تیز روشنی کے بعد اس کی آنکھیں نیم تاریک کمرے کے ماحول میں کچھ دیر بعد مانوس ہوئیں۔ اس نے میڈم کی اسسٹنٹ کو آنے کا سبب بتایا۔ وہ اسے انتظار کرنے کا کہہ کر اندر چلی گئی۔ چند منٹ بعد کیتھرین کو احساس ہوا کہ کوئی بالکل اس کے پہلو میں کھڑا ہے۔ اس نے چونک کر دیکھا۔
میڈم پائرس دبلی پتلی، ادھیڑ عمر عورت تھی۔ وہ سیاہ لباس میں ملبوس تھی۔ اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر وہ بولی۔ ’’تم مجھ سے ملنا چاہتی تھیں؟‘‘
’’ہاں۔ میں اپنی قسمت کا حال جاننا چاہتی ہوں۔‘‘ کیتھرین نے جواب دیا۔
اس نے گھنٹی بجائی۔ تھوڑی دیر میں اس کی اسسٹنٹ ایک پیالی میں سیاہ کافی لے کر آئی۔ وہ کپ اس کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ ’’پیو۔‘‘
کیتھرین ہچکچائی اور اس نے بمشکل ایک گھونٹ حلق سے اتارا۔ کافی بہت تلخ تھی۔ اس نے بدمزہ ہوکر کپ میز پر رکھ دیا۔
’’کچھ اور پیو۔‘‘ وہ تحکمانہ لہجے میں بولی۔
کیتھرین نے برا سا منہ بنا کر ایک گھونٹ بھرا تو اس نے ایک مرتبہ اور پینے پر اصرار کیا۔ کیتھرین کو نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً وہ بدمزہ سیال پینا پڑا۔ اسے خود پر غصہ آرہا تھا کہ وہ اتنی سمجھدار ہوکر ایک بیکار مشغلے میں پھنس گئی ہے۔
میڈم نے کپ لے لیا اور اس میں یوں جھانکنے لگی جیسے اسے اس میں کچھ نظر آرہا ہو۔ پھر اس سے مخاطب ہوئی۔ ’’تم کسی دور دیس سے آئی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ کیتھرین نے اثبات میں سر ہلایا۔
پھر بوڑھی عورت نے اس کی آنکھوں میں اس طرح دیکھا کہ کیتھرین کے سارے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر وہ اچانک بولی۔ ’’اپنے گھر واپس چلی جائو۔‘‘
’’اب میرا گھر یہی ہے۔‘‘ کیتھرین نے زور دے کر کہا۔
’’نہیں۔ وہ گھر جہاں سے تم آئی ہو۔ اس جگہ سے فوراً چلی جائو۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
عورت نے سر جھٹکا اور جیسے مناسب الفاظ تلاش کرتے ہوئے بولی۔ ’’یہ تمہیں گھیرے ہوئے ہے۔ ہر طرف سے۔‘‘
’’کیا چیز؟‘‘ کیتھرین نے اصرار کیا۔
’’چلی جائو یہاں سے، چلی جائو۔‘‘ وہ عجیب غیر انسانی آواز میں چلائی۔
’’تم مجھے خوف زدہ کررہی ہو۔ تم بتاتی کیوں نہیں کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟‘‘
اس عورت نے سر دائیں بائیں جھٹکا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔ ’’یہاں سے چلی جائو۔ اس سے پہلے کہ وہ تم پر اپنی گرفت مضبوط کرلے۔‘‘
نیم تاریک ماحول میں اس عورت کی باتوں کی ہولناکی کیتھرین پر بری طرح طاری ہورہی تھی۔ اس کا سانس اس کے حلق میں اٹکنے لگا۔ ’’وہ کون ہے؟ تم بتاتی کیوں نہیں؟‘‘
عورت کے چہرے پر ایک عجیب کربناک کیفیت ابھری۔ ’’موت…! موت تمہارا پیچھا کررہی ہے۔ موت بڑی تیزی سے تمہاری طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر اٹھی اور پچھلا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی جہاں سے وہ آئی تھی۔
کیتھرین سن سی وہاں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے ایک دوسرے میں پکڑ کر خود کو سنبھالا۔ اس نے خود کو ملامت کی۔ یہ اسے کیا ہوگیا تھا۔ وہ اتنی پڑھی لکھی ہوکر ایک احمق پاگل عورت کی باتوں میں آگئی تھی۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھی خود کو سمجھاتی رہی۔ خود پر قابو پاتی رہی۔ پھر اپنا پرس اور دستانے اٹھا کر دروازے سے باہر نکل آئی۔
اس نیم تاریک کمرے سے باہر آکر جب اس نے سورج کی سنہری روشنی میں دیکھا تو اس نے خود کو بہت بہتر محسوس کیا۔ خوف اور مایوسی کی کیفیت زائل ہوگئی۔ وہ بوڑھی عورت کو کوستی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
وہ گھر میں داخل ہوئی اور لائونج کی ابتر حالت دیکھی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ پہلی بار اپنے گھر کو دیکھ رہی ہے۔ اس کا گھر کبھی اتنا گندا اور بے ترتیب نہیں ہوا تھا۔ اس نے سب سے پہلے اسی کمرے کی صفائی کرنے کی ٹھانی۔ وہ بکھرے ہوئے اخبار اکٹھا کررہی تھی کہ اسے بیڈ روم میں دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ وہ چونک گئی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ اس کا مطلب تھا کہ لیری گھر آگیا تھا۔ نہ جانے کتنے دنوں بعد یا شاید صدیوں بعد… وہ بیڈ روم کی طرف بڑھی۔
لیری وہاں موجود تھا۔ بیڈ پر ایک سوٹ کیس بند پڑا تھا اور دوسرے سوٹ کیس میں وہ جلدی جلدی کپڑے ٹھونس رہا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ بولا۔ ’’میں جارہا ہوں۔‘‘
’’ایک اور فلائٹ پر مسٹر ڈیمارس کے ساتھ؟‘‘
’’نہیں… میں یہ گھر چھوڑ رہا ہوں۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
’’لیری!‘‘ کیتھرین صرف اتنا ہی کہہ سکی۔ دھچکے سے وہ سن سی ہوگئی تھی۔ بمشکل قدم اٹھاتی وہ بیڈ روم میں آئی۔ ’’بہت سی باتیں کرنے والی ہیں ہمیں سکون سے بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے یوں اتنے بڑے فیصلے ایکدم تو نہیں کرلیتے… میں آج ڈاکٹر کے پاس گئی تھی میں بہت جلد پہلے جیسی کیتھرین بن جائوں گی۔‘‘ لفظ اس کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔
’’کیتھی! بس اب یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ میں طلاق چاہتا ہوں۔‘‘
یہ لفظ جیسے ایک شدید ضرب کی طرح اس کے دل پر لگا۔ وہ کانپ اٹھی اس کا سارا جسم ہولے ہولے لرزنے لگا۔ وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔ ’’ہاں۔ لیری۔ اس میں میرا ہی قصور ہے۔ میں نے اپنا خیال نہیں رکھا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا تم مجھے ایک موقع تو دو۔‘‘
لیری اس کی طرف پلٹا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی جذبہ نہیں تھا۔ وہ سرد اور بے تاثر لہجے میں بولا۔ ’’مجھے کسی اور سے محبت ہوگئی ہے۔ تم اتنی مہربانی کرو کہ طلاق کے پیپر پر دستخط کردو۔‘‘
کیتھرین دیر تک خاموشی سے اسے سوٹ کیس میں چیزیں رکھتے ہوئے دیکھتی رہی۔ پھر وہ لائونج میں آگئی۔ ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ میز پر پڑے ہوئے ایک میگزین کی ورق گردانی کرنے لگی۔
وہ دونوں سوٹ کیس اٹھا کر باہر آیا اور نسبتاً بلند آواز میں بولا۔ ’’میرا وکیل تم سے رابطے میں رہے گا۔‘‘ پھر وہ دروازہ زور سے بند کرکے باہر نکل گیا۔
کیتھرین میگزین کے ورق ایک ایک کرکے پلٹتی رہی۔ جب وہ ختم ہوگیا تو اٹھی۔ واش روم میں آئی۔ دوائوں والا دراز کھولا۔ اس میں سے بلیڈ نکالا اور اپنی کلائیوں کو کاٹ ڈالا۔
٭…٭…٭
اس کے چاروں طرف سیاہ دھند تھی جو کبھی سفید دھند میں بدل جاتی اور کبھی سرخ خون کے رنگ کی ہوجاتی تھی۔ وہ خود جیسے خون کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے تھپیڑے کھا رہی تھی۔ پھر وہ غفلت سے ہوشیار ہوئی۔ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ اس کے چاروں طرف عام روشنی تھی۔ اسے اپنے ہی خون کی موجوں اور اپنے ہی دل کے دھڑکنے کی آوازیں اب سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ اس کا مرتا ہوا جسم جیسے زندہ ہورہا تھا۔
’’مجھے لگ رہا تھا جیسے میں جہنم میں ہوں۔‘‘ وہ سرگوشی کے سے انداز میں بولی۔
’’ہاں۔ یہاں آنے سے پہلے تم جہنم میں ہی تھیں۔‘‘ کسی نے جواب دیا۔
اس نے اپنی کلائیوں کی طرف دیکھا، جس پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اسے کچھ کچھ یاد آنے لگا۔
’’میں یہاں کب سے ہوں؟‘‘
’’پانچ دن سے۔‘‘
’’اوہ! میں نے حماقت کی تھی۔‘‘ وہ ندامت سے بولی اور اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ رات کا وقت تھا اور ولیم اس کے بیڈ کے قریب ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میز پر اس کے لائے ہوئے پھول اور چاکلیٹ کا ڈبہ پڑا ہوا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ وہ خوش دلی سے بولا۔ ’’تم پہلے سے کافی بہتر لگ رہی ہو کیتھرین۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا کیتھرین!‘‘
’’میں معذرت خواہ ہوں ولیم!‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔ یوں جیسے ابھی رو پڑے گی۔
’’میں تمہارے لئے پھول اور چاکلیٹ لایا ہوں۔ جب تم اور بہتر ہوجائو گی تو میں تمہیں اچھی اچھی کتابیں لا کر دوں گا۔‘‘
کیتھرین نے اس کے مہربان چہرے کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں پشیمان ہوئی کہ وہ اتنے اچھے انسان کو چھوڑ کر کیوں لیری کے دھوکے میں آگئی۔ اس نے پریشان سے لہجے میں کہا۔ ’’میں یہاں کیسے آگئی؟‘‘
’’ایمبولینس میں۔‘‘ ولیم بولا۔
’’میرا مطلب ہے وہاں مجھے کس نے تلاش کیا؟‘‘
’’میں نے۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’میں نے تمہیں کئی بار فون کیا جب تم نے جواب نہیں دیا تو میں فکرمند ہوگیا۔ یہاں تم دروازہ بھی نہیں کھول رہی تھیں۔ مجبوراً دروازہ توڑنا پڑا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ کیتھرین نے آہ بھری۔ ’’مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘
’’تم اس موضوع پر بات کرنا پسند کرو گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ مدھم سی آواز میں بولی۔
’’میں صبح واپس چلا جائوں گا لیکن تم سے رابطے میں رہوں گا۔‘‘ اس نے ہولے سے اس کی پیشانی کو چھوا۔
کیتھرین نے اپنے آنسو روکنے کے لیے آنکھیں بھینچ لیں اور کئی لمحوں بعد جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ کمرے میں تنہا تھی۔ ولیم جا چکا تھا۔
اگلی صبح اچانک لیری آگیا۔ کیتھرین خاموشی سے اسے ایک کرسی گھسیٹ کر اپنے بیڈ کے قریب بیٹھتے ہوئے دیکھتی رہی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ کچھ پریشان ہوگا۔ لیکن سچ یہ تھا کہ وہ بالکل تروتازہ، خوش باش اور خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔
کیتھرین کو شدت سے احساس ہوا کہ نہ جانے وہ کیسی لگ رہی ہے۔ (جاری ہے)