’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ اس نے رسمی انداز میں پوچھا۔
’’شاندار! مجھے خودکشی ہمیشہ نئی امنگ دیتی ہے۔‘‘
’’ان لوگوں کو تمہارے بچنے کی امید نہیں تھی۔‘‘
’’اوہ۔ بڑا افسوس ہوا کہ تمہیں مایوسی ہوئی۔‘‘
’’تمہیں اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں۔‘‘
’’یہ باتیں ٹھیک نہیں ہیں کیا؟ اس طرح تمہیں مجھ سے نجات مل جاتی۔‘‘
’’کچھ خیال کرو… میں تم سے اس طرح نجات حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ میں اگر کچھ چاہتا ہوں تو بس طلاق۔‘‘
کیتھرین نے اس کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ اس کا شوہر تھا جسے اس نے اپنی ساری محبت، اپنی زندگی کے سات سال، اپنے خواب، اپنے سپنے، اپنی آرزوئیں، اپنی امنگیں، اپنا سب کچھ دے دیا تھا۔ وہ ان سب کو کھو کر اپنی زندگی کو ایک ویران صحرا کی طرح بنا لے۔ وہ اب بھی لیری سے محبت کرتی تھی۔ اسے کبھی اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتی۔ وہ اپنی بات کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔
کیتھرین نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’نہیں… ہرگز نہیں! میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گی۔‘‘
اس کے بعد لیری نے ہر کوشش کر دیکھی۔ کیتھرین کے ساتھ بحث کی، تکرار کی، ہزاروں دلیلیں دے ڈالیں۔ اسے ایک معقول رقم کی پیشکش بھی کی لیکن کیتھرین ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اگر لیری اسے ایک اور موقع دے تو وہ پھر اس کی محبت جیت سکتی تھی۔
لیری نے اس موضوع پر نولی سے بات کی۔ وہ اسے اپنی اور کیتھرین کی گفتگو سے باخبر رکھتا تھا۔ وہ ساحل سمندر پر نولی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے بولا۔ ’’وہ نہیں مان رہی۔‘‘
’’کیا کہتی ہے وہ؟‘‘
’’وہ کہتی ہے کہ میری زندگی میں تم ہی میرے شوہر رہو گے۔ یہاں تک کہ مجھے موت آجائے۔‘‘
’’اچھا! یہ بات ہے۔‘‘ نولی نے ایک خاص لہجے میں کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ لیری نے اس کی بات میں چھپے ہوئے مفہوم کو جاننا چاہا۔
’’تم اس سے پیچھا چھڑائو۔‘‘ وہ تحکمانہ لہجے میں بولی اور تیز قدموں سے بنگلے کی طرف چلی گئی۔
لیری کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نولی اس سے کیا چاہتی تھی؟ اس بات کا کیا مطلب تھا؟ اس نے اس انداز میں یہ بات کیوں کہی تھی؟
نولی کا مطلب لیری پر اس وقت واضح ہوا جب دونوں ٹیرس پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
’’تمہاری بیوی کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ وہ خواہ مخواہ تم پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ وہ تمہاری زندگی برباد کررہی ہے۔ وہ ہم دونوں کی زندگی میں زہر گھول رہی ہے۔‘‘
رات کے کھانے کے بعد کافی پیتے ہوئے وہ بولی۔ ’’کیا تم اس کی دلی آرزو پوری کردو گے۔ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی نا…وہ مرنا چاہتی ہے۔‘‘
’’میں نے اس طرح کا کام کبھی نہیں کیا نولی۔‘‘
’’میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
لیری دل ہی دل میں پریشان ہوا۔ اس نے نولی کے حسین چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوچکا تھا۔ وہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اسے ہیلنا یاد آئی۔ اس کی تباہ حالت یاد آئی اور نولی کا فقرہ یاد آیا۔ اگر کوئی عورت تمہارے قریب آئی تو میں اسے قتل کردوں گی۔
لیری کے ذہن پر یہ بات سوار ہوگئی تھی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ نولی کو چھوڑنا بھی اس کے بس میں نہیں تھا جو اس کی خاطر اپنے ارب پتی شوہر کو چھوڑ رہی تھی۔ عیش و عشرت سے بھری ہوئی زندگی کو خیرباد کہہ رہی تھی۔ وہ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب تھی۔ مگر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا تھا؟ یہ سوچ کر ہی اسے ٹھنڈے پسینے آجاتے تھے۔ اس نے اپنے اندیشوں کا اظہار نولی سے کیا۔ ’’اگر ہم پکڑے گئے تو؟‘‘
’’اگر ہم ہوشیاری سے کام لیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’دیکھو نولی! یہاں سب کو معلوم ہے کہ میرے کیتھرین کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں۔ اس نے میری وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر اب اسے کچھ ہوا تو سب مجھ پر شک کریں گے۔‘‘
’’ہاں! اس کا امکان ہے۔‘‘ وہ بڑے سکون سے بولی۔ ’’اسی لیے ہمیں منصوبہ بندی بہت ہوشیاری سے کرنی ہوگی۔‘‘
لیری اندر ہی اندر لرز گیا لیکن جیسے جیسے وہ اس بارے میں بات کرتے رہے، تمام معاملہ واضح ہوتا گیا۔ آہستہ آہستہ اس کے دل سے خوف بھی نکلتا گیا اور ایک ٹھوس منصوبہ سامنے آتا گیا۔
’’اسے ایک حادثہ لگنا چاہیے تاکہ پولیس کا عمل دخل نہ ہو اور ہم پولیس کی تفتیش سے بچ سکیں۔‘‘
’’مگر یہ کیسے ہوگا؟‘‘
’’یہ حادثہ یہاں نہیں ہوگا۔‘‘ وہ بولی۔
وہ آدھے گھنٹے تک اسے تمام منصوبہ سمجھاتی رہی۔ لیری اس پر غور کرتا رہا۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ یہ ایک زبردست منصوبہ ہے جس میں کوئی سقم نہیں۔
ہفتے کی شام کیتھرین کچن میں اپنے لیے آملیٹ بنا رہی تھی کہ اچانک آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ دروازے میں لیری کھڑا تھا۔ وہ ٹھٹھک گئی۔ وہ مسکراتا ہوا اندر آگیا۔
’’سوری! میرا مقصد تمہیں خوف زدہ کرنا نہیں تھا۔ میں تمہاری خیریت پتا کرنے آگیا تھا۔‘‘
کیتھرین کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔ اسے احساس ہوا کہ اپنی تمام تر بے وفائی کے باوجود وہ اب بھی اس کے لیے کتنی اہمیت رکھتا تھا۔ اس نے سرد سے لہجے میں کہا۔ ’’میں ٹھیک ہوں؟‘‘ اس نے فرائنگ پین سے آملیٹ باہر نکال کر پلیٹ میں رکھا۔
’’بہت اچھی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ وہ خوش مزاجی سے بولا۔ ’’مجھے کھانا کھانے کا وقت نہیں ملا۔ اگر زحمت نہ ہو تو میرے لیے بھی ایک آملیٹ بنا دو۔‘‘
کیتھرین ایک طویل لمحے تک اس کی جانب تکتی رہی۔ پھر ایک جھرجھری سی لے کر اس کے لیے کھانا تیار کرنے لگی۔ وہ میز پر بیٹھ کر اطمینان سے کھانے لگا۔ لیکن کیتھرین ایک نوالہ بھی نہیں کھا سکی۔ اسے لیری کی موجودگی عجیب سی لگ رہی تھی حالانکہ وہ بڑے اطمینان سے یوں باتیں کررہا تھا جیسے ان کے درمیان کبھی کوئی بدمزگی ہوئی ہی نہیں تھی۔ وہ پہلے جیسا خوش مزاج اور بے تکلف لیری تھا۔
کھانا کھا کر اس نے برتن دھونے اور خشک کرنے میں اس کی مدد کی اور بے تکلفی سے کہنے لگا۔ ’’تم نے آملیٹ بہت اچھا بنایا ہے۔ مجھے بہت مزہ آیا۔ شکریہ کیتھی!‘‘
چند دن بعد لیری کا فون آیا کہ وہ گھر آرہا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ڈنر کرنا کہاں پسند کرے گی۔ کیتھرین کو اپنی سماعت پر اعتبار نہیں آیا۔ وہ اس کے دوستانہ لہجے کے باوجود چاہتی تھی کہ انکار کردے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ وہ خود کو یہ کہنے سے نہیں روک سکی کہ وہ ضرور اس کے ساتھ ڈنر پر چلے گی۔
اگلے اتوار کو وہ اسے اپنے ساتھ ایک نزدیکی قصبے میں لے گیا۔ جہاں انہوں نے بہترین ڈنر کیا اور واپسی کی فلائٹ سے رات گئے واپس پہنچے۔ یہ ایک بے حد خوبصورت شام تھی، جو دل میں گھر کر گئی تھی لیکن کیتھرین کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا جیسے یہ اس کے لیے نہیں تھی۔ یہ کسی اور کے لیے تھی۔ جب وہ اپارٹمنٹ پہنچے۔ کیتھرین نے کچھ تکلف سے کہا۔ ’’شکریہ لیری! اس پرلطف ڈنر کے لیے۔‘‘
لیری نے کیتھرین کا ہاتھ تھامنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن جیسے ہی اس کا ہاتھ کیتھرین کے ہاتھ سے مس ہوا، وہ یوں پیچھے ہٹی جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔
’’نہیں!‘‘ وہ سختی سے بولی۔
’’کیتھی؟‘‘ وہ لجاجت سے کہنے لگا۔
’’نہیں!‘‘ کیتھرین نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں سمجھتا ہوں۔‘‘
’’کیا واقعی تم سمجھتے ہو؟‘‘ کیتھرین کا جسم لرز رہا تھا۔
’’ہاں! میں جانتا ہوں کہ میرا روّیہ بہت برا تھا۔ میں نے جو کیا غلط کیا لیکن تم مجھے ایک بار آزمائو تو! اب میں تمہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔‘‘
اوہ خدایا! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیتھرین نے اپنے لب بھینچتے ہوئے خود کو رونے سے روکتے ہوئے سوچا۔ اس کی آنکھیں بن روئے آنسوئوں سے چمک رہی تھیں۔ وہ مدھم سے لہجے میں بولی۔ ’’بہت دیر ہوچکی ہے لیری!‘‘
لیری بغیر کچھ کہے دروازے سے نکل گیا۔ کیتھرین وہیں کھڑی اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
اگلے ہفتے لیری نے اس کے لیے پھول بھیجے۔ جس کے ساتھ کارڈ پر چند جذباتی سے لفظ لکھے ہوئے تھے۔ چند دن بعد فون کی گھنٹی سن کر کیتھرین نے ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف لیری تھا۔
’’ہیلو کیتھی! یہاں میں نے ایک بہت اچھا ریستوران تلاش کیا ہے۔ جہاں بہترین کھانا ملتا ہے۔ تم چلو گی میرے ساتھ؟‘‘
کیتھرین کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’ہاں۔ ضرور۔ لیکن میں اتنا انتظار کیسے کروں گی۔‘‘
اور یہی وہ وقت تھا جب دونوں کے درمیان کھنچی ہوئی اجنبیت کی دیوار آہستہ آہستہ گھٹنے لگی۔ کچھ تامل کے ساتھ، کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ کیونکہ کیتھرین ڈرتی تھی کہ اگر اس نے ایک بار پھر اس کی محبت کے سامنے ہار مان لی اور اس نے پھر اسے دھوکا دیا تو وہ ہمیشہ کے لیے برباد ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس کے ساتھ تفریح کے لیے باہر چلی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ اچھے کھانے کھاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہنسی میں شریک ہوتی تھی۔ اس کی دلچسپ باتوں کا لطف اٹھاتی تھی لیکن وہ کبھی پوری طرح خود کو اس کے مسحور کردینے والے کشش کے دائرے میں نہیں آنے دیتی تھی۔
رفتہ رفتہ یہ قربتیں اس قدر بڑھیں کہ وہ ہر شام ایک ساتھ گزارنے لگے۔ کبھی باہر کھانے کے لیے چلے جاتے اور کبھی کیتھرین خود کھانا پکاتی اور دونوں باتیں کرتے، ہنستے مسکراتے اس کا لطف اٹھاتے۔ اب وہ ایک بار پھر اتنے بے تکلف ہوچکے تھے کہ اس نے لیری سے یہ بھی پوچھ لیا تھا کہ وہ عورت کون تھی جس سے اسے محبت ہوگئی تھی۔
اس نے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور بے نیازی سے بولا۔ ’’چھوڑو اس بات کو… وہ معاملہ ختم ہوچکا ہے۔‘‘
کیتھرین بغور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی کہ کہیں وہ اسے دھوکا تو نہیں دے رہا لیکن وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ اس کی طرف بھرپور توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اپنے گزشتہ رویے کی تلافی چاہتا ہو۔ لگتا تھا جیسے وہ اس کی جانب لوٹ آیا ہے۔
برف پگھلنے لگی تھی۔ وہ اب اسے اپنے ساتھ پارٹیوں میں بھی لے جانے لگا تھا۔ وہ بھی بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ ان پارٹیوں میں شریک ہوتی۔ جہاں خواتین رشک بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتیں کہ اس کی زندگی کا ساتھی کتنا خوبصورت اور پُرکشش ہے۔
انہی دنوں وہ ایک پارٹی سے لوٹے تو صبح کے چار بج چکے تھے۔ وہ بہت ہی حسین شام گزری جس نے دونوں کو شگفتہ اور تازہ دم کردیا تھا۔
جب وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور کیتھرین لائٹ جلانے لگی تولیری نے اسے روک دیا۔ ’’ٹھہرو! مجھے تم سے کچھ کہنا ہے اور میں یہ سب کچھ اندھیرے میں زیادہ بہتر طور پر کہہ سکوں گا۔‘‘
کیتھرین ٹھٹھک گئی۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس کا رواں رواں اس تاریکی میں وہ بات سننے کے لیے بے قرار تھا جو لیری کہنے والا تھا۔
’’کیتھرین! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو اتنا نہیں چاہا جتنا تمہیں چاہتا ہوں۔ کیا تم مجھے ایک اور موقع دو گی؟‘‘
پھر اس نے لائٹ جلا دی۔ سارا کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ وہ اپنی بات کا جواب کھوجنے کو اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ کیتھرین ششدر سی خاموش کھڑی تھی۔ اس کے گلابی تراشیدہ لبوں پر کوئی بات تھی جو وہ کہتے کہتے رک گئی تھی جو اس کی دلکش آنکھوں میں نمی بن کر تحلیل ہوگئی تھی۔ لیری مسکرایا اور پوری تعظیم کے ساتھ جھک کر بولا۔ ’’کیا خیال ہے کیتھی؟ کیا تم میرے ساتھ سیکنڈ ہنی مون پر چلنا پسند کرو گی؟ ایک بہت ہی پیاری، چھوٹی سی جگہ ہے۔ وہاں ہم اپنی نئی دنیا بسائیں گے۔‘‘
٭…٭…٭
اس خوبصورت، فطرت کے حسین شاہکار جزیرے تک پہنچنے میں انہیں پورے نو گھنٹے لگے۔ تمام راستہ اتنا خوبصورت تھا کہ انہیں سفر کی تھکن کا ذرا بھی احساس نہیں ہوا۔ وہ سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے بہت سی حسین بستیوں کے قریب سے گزرے۔ جہاں سفید چھتوں والے گھروں پر صلیبیں آویزاں تھیں۔ پھلوں سے لدے ہوئے باغات جن میں لیموں، چیری، سیب اور مالٹوں کے درخت، سبزے میں رنگوں کی ایک بہار سی لائے ہوئے تھے۔
یہاں زمین کا ایک انچ بھی ایسا نہیں تھا جہاں کاشتکاری نہ کی گئی ہو۔ گھروں کے ٹیرس، کھڑکیاں اور چھتیں دلکش نیلے رنگوں میں رنگے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ اونچے، خوبصورت درخت قطار در قطار نظر آرہے تھے۔
’’اوہ! یہ کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں لیری!‘‘ کیتھرین گردوپیش کے مناظر سے مسحور ہوکر بولی۔
’’ہاں! لیکن یہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ان کے ساتھ کچھ بری رسومات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ اس کی شاخوں کو قبروں کو سجانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ لیری نے بتایا۔
تقریباً دوپہر کے قریب وہ ایک گائوں کے قریب سے گزرے جو ڈھلان پر واقع تھا۔ یہاں سے وہ کشتی میں سوار ہوئے جو انہیں جزیرے تک لے جانے والی تھی۔ کشتی کے عرشے پر بیٹھ کر انہیں جزیرہ دوپہر کی گہری دھند میں گھرا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ یوں جیسے ایک منحوس اور پرآشوب جگہ ہو۔ جسے دیکھ کر دل میں ہول سے اٹھتے ہوں۔ اس کے بارے میں سنا گیا تھا کہ یہ دیوتائوں کے رہنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ پتھریلے پہاڑوں کے درمیان تھا جہاں انسان نے اپنی عظمت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک راستہ بنا لیا تھا۔
فیری بوٹ یہاں لنگر انداز ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد کیتھرین اور لیری جزیرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کیتھرین گائیڈ بک سے پڑھ پڑھ کر لیری کی رہنمائی کررہی تھی۔ دور سے جزیرہ ایک بہت بڑے عقاب کی مانند نظر آرہا تھا۔ اس کے پنجوں کی جانب گہری جھیل تھی جس کے سبز پانیوں پر رواں دواں کشتیاں مسافروں کو جزیرے تک لے جاتی تھیں۔ انہیں وہاں پہنچتے پہنچتے شام ہو چلی تھی۔ وہ کنارے پر پہنچتے ہی سیدھے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے جو ایک اونچی پہاڑی پر ایک منزلہ شاندار بلڈنگ کی صورت میں کھڑا تھا اور جزیرے سے بلند معلوم ہوتا تھا۔
ایک بوڑھا گارڈ ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھا اور ان کے خوش باش چہرے دیکھ کر بولا۔ ’’ہنی مون پہ آئے ہو؟‘‘
کیتھرین اور لیری نے ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ ’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’ہر شخص اپنی داستان خود ہی بیان کردیتا ہے۔‘‘ وہ انہیں لابی میں لے کر آیا اور ان کے نام لکھے۔ بنگلے کی چابی ان کے حوالے کردی۔ یہ ایک لائونج، بیڈ روم اور ایک خوبصورت ٹیرس پر مشتمل تھا۔ جہاں سے پورے جزیرے کا حسین منظر اپنے تمام تر حسن کے ساتھ پیش نگاہ تھا۔ اس طرح کہ اس سے نگاہ ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ نیچے جھیل کا پانی تھا۔ جس کے گرد ہرے بھرے درخت گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔
’’یہ اتنا تو نہیں جو میں تمہیں دینا چاہتا ہوں لیکن جو کچھ بھی ہے، وہ سب تمہارا ہے۔‘‘ لیری نے مسکرا کر کہا۔
’’مجھے قبول ہے۔‘‘ کیتھرین تھوڑا سا خم ہوکر جھکی۔
’’خوش ہو؟‘‘
’’بہت!‘‘ اس نے خوشی کے ساتھ چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ سر ہلایا۔ ’’مجھے یاد نہیں کہ میں اس سے زیادہ کبھی خوش ہوئی ہوں۔‘‘ وہ قریب آئی اور ارمان بھرے لہجے میں بولی۔ ’’مجھے کبھی چھوڑ کر نہ جانا۔‘‘
’’نہیں۔ کبھی نہیں!‘‘ لیری نے وعدہ کیا۔
سامان کھولے بغیر لیری نے تجویز کیا کہ انہیں نیچے گائوں میں جاکر کھانا کھانا چاہیے۔ گائوں تک کا راستہ خاصا دشوار، ناہموار اور بالکل سیدھی ڈھلان پر تھا۔ اس چھوٹے سے گائوں تک یہی پتھریلی، ناہموار سڑک جاتی تھی۔ آگے جاکر یہ تین راستے بن جاتے تھے جو گائوں کے مختلف حصوں کی طرف جاتے تھے۔ بلڈنگیں اور گھر پتھروں سے بنے تھے۔ سخت موسم کے اثرات ان پر نمایاں تھے۔
یہاں ایک خوبصورت پارک بھی تھا جس کے درمیان میں بنے ہوئے مینار میں گھڑیال بھی لگا ہوا تھا۔ تمام سڑکیں بل کھاتیں، جھیل پر ختم ہوتی تھیں۔ جھیل کو دیکھ کر نہ جانے کیوں ایک عجیب سا خوف دل پر چھا جاتا تھا۔ اس کا پانی گہرا سبز تھا۔ اس کے اردگرد سبز جھاڑیاں تھیں۔ اس کے بارے میں مقامی لوگ بتاتے تھے کہ جھیل کی گہرائی کا علم کسی کو نہیں۔ یہ جھیل کسی آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد سطح زمین پر نمودار ہوگئی تھی۔
لیری اور کیتھرین آہستہ آہستہ چلتے مارکیٹ تک آگئے۔ جہاں دکانیں سجی سجائی اور سیاحوں سے بھری ہوئی تھیں۔ کیتھرین کو حیرت ہورہی تھی کہ اس جیسے مقام پر ضروریات زندگی کی ہر شے موجود تھی۔ ہر طرف گہماگہمی اور خوشی تھی۔
لیری اس کے برابر چل رہا تھا اور تمام لوگوں سے زیادہ دراز قد معلوم ہورہا تھا۔ اس کی دلکش شخصیت کسی یونانی دیوتا کی طرح نظر آتی تھی۔ انہوں نے ایک ہوٹل میں کھلے آسمان تلے کھانا کھایا۔ جہاں پورا چاند اتنا خوبصورت اور روشن تھا کہ یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اصلی ہے۔
صبح کیتھرین اور لیری نے گاڑی میں سارے گائوں کا چکر لگایا۔ اس سڑک پر جو سارے گائوں کے گرد گھومتی تھی اور پھر پتھریلے ساحل پر دور تک چلی جاتی تھی۔ اس کے بعد پہاڑیوں میں کھو جاتی تھی اور جنگل تک جاتی تھی۔
گردوپیش کے مناظر اتنے حسین تھے کہ وہ دونوں ان میں کھو کر رہ گئے تھے۔ دن بے حد خوبصورت اور راتیں سہانی تھیں۔ کیتھرین محسوس کررہی تھی کہ لیری بہت بدل گیا ہے۔ وہ اب اس کے لیے محبت ہی محبت تھا۔ جس کا اظہار وہ بار بار کرتا تھا چاہے ان کے گرد سیاحوں کا ہجوم ہو یا ان کے کمرے میں ویٹر کوئی آرڈر لینے کے لیے آئے۔
کیتھرین کا دل خوشی سے بھر جاتا۔ یہ احساس ہی کتنا مسرت بھرا تھا کہ لیری اسے چاہتا تھا اور ساری دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ روز ایک نیا پروگرام بناتا اور وقت کو مسرت اور شادمانی سے بھر دیتا۔
اس روز بھی اس نے پہاڑی پر چڑھنے کا ارادہ کیا اور دونوں ان حسین مرغزاروں میں پہنچے جہاں سے پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک کھانے پینے کی چیزوں کا اسٹال لگا ہوا تھا۔ لیری نے وہاں سے سینڈوچز، فروٹ، چاکلیٹ اور ایک بڑا تھرماس کافی کا خریدا اور دکاندار سے بولا۔ ’’یہ کتنی خوبصورت جگہ ہے۔ میں اپنی دلہن کے ساتھ آج رات یہیں گزاروں گا۔‘‘
دکاندار معنی خیز انداز میں ہنس پڑا۔ کیتھرین کچھ محجوب سی ہوگئی۔
دونوں نے پہاڑی راستے پر قدم رکھا تو انہیں چڑھائی اتنی زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوئی۔ راستہ کافی چوڑا تھا اور ڈھلوان زیادہ سیدھی نہیں تھی لیکن جب وہ پہاڑ کی بلندی کی طرف نظر کرتی تھی تو وہ بہت خوفناک اور ناقابل تسخیر معلوم ہوتا۔
کیتھرین کو اندازہ ہورہا تھا کہ وہ زیادہ اوپر نہیں جاسکیں گے۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ جہاں وہ تھک جائیں گے، وہیں کوئی اچھا سا گوشہ تلاش کرکے پکنک منائیں گے۔
لیری نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بائیں جانب چلنے کا اشارہ دیا۔ کیتھرین نے دیکھا کہ دکاندار جو نیچے کھڑا ان کی طرف دیکھ رہا تھا، اس کے چہرے پر کچھ فکرمندی کے آثار تھے۔ اس نے انہیں رکنے اور آگے نہ جانے کا اشارہ کیا۔ لیکن لیری نے شاید دیکھا نہیں اور اسے لے کر آگے بڑھ گیا۔
سورج گرم ہورہا تھا لیکن وہ اوپر چڑھتے رہے۔ ٹھنڈی ہوا ہولے ہولے بہنے لگی۔ سورج کی گرمی کے ساتھ خنکی کی یہ آمیزش بے حد پُرلطف معلوم ہورہی تھی۔ یہ ایک بے حد خوبصورت دن تھا اور وہ اپنے محبوب کے ساتھ تھی جو اس کا شوہر بھی تھا۔ اس کا ساتھی بھی تھا۔ کیتھرین جب نیچے دیکھتی تھی تو کچھ اور زیادہ پرجوش ہوجاتی کہ باتوں باتوں میں وہ اتنا اوپر چڑھ آئے تھے۔
اب ہوا کم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ سانس پھولنے لگا تھا۔ اب راستہ تنگ ہوتے ہوتے اتنا تنگ ہوگیا تھا کہ اس میں ایک وقت میں ایک ہی فرد چل سکتا تھا۔ لیری اس سے آگے تھا۔ کیتھرین تھکنے لگی تھی۔ اس کی رفتار میں بہت کمی آگئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے کب وہ پڑائو ڈالیں گے اور پکنک کا لطف اٹھائیں گے۔ مگر لیری پر چوٹی پر پہنچنے کی ایسی دھن سوار تھی کہ وہ بغیر ادھر ادھر دیکھے ہوئے آگے بڑھتا جارہا تھا۔ مجبوراً کیتھرین کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑ رہا تھا۔ اس نے پکار کر کہا۔ ’’لیری! ہم بہت دور آگئے ہیں۔ ہمیں واپس جانے میں بھی اتنی ہی دیر لگے گی۔‘‘
’’نہیں۔ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
صرف ہوا کی ایک مخصوص رفتار کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ کبھی کبھی کوئی پرندہ بولتا تھا اور پھر خاموشی چھا جاتی تھی۔ اچانک کیتھرین ٹھٹھک کر رک گئی۔ یہ دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ آگے ہزاروں فٹ گہری کھائیوں پر رسیوں اور لکڑی کا پل تھا جو ہوا اور لیری کے وزن سے دائیں بائیں کسی جھولے کی طرح جھول رہا تھا۔ یہ پل نہ جانے کب کا بنا ہوا تھا۔ اگر لیری کے وزن سے اس کی رسیاں ٹوٹ گئیں تو اس سے آگے وہ کچھ نہیں سوچ سکتی تھی۔ اس کے سارے بدن میں جیسے کپکپی سی دوڑ رہی تھی۔
وہ دوسرے کنارے پر بحفاظت پہنچ گیا تھا اور اب اس کو بلا رہا تھا۔ کیتھرین نے جھولتے ہوئے پل کو دیکھا اور کانپ کر بولی۔ ’’نہیں۔ میں نہیں آسکتی لیری!‘‘
’’پاگل مت بنو کیتھرین! لوگ ہر روز اسی پل سے آتے جاتے ہیں۔ میں بھی تو اسی پل سے آیا ہوں۔ تم بھی آجائو۔ یقین کرو۔ کچھ نہیں ہوگا بلکہ ایک ایڈونچر کا لطف آئےگا۔‘‘
کیتھرین نے اپنے دانت بھینچ لیے اور ڈرتے ڈرتے پل پر پائوں رکھا۔ اس نے رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور سیکڑوں فٹ گہرے کھڈ کی طرف دیکھے بغیر ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتی آگے بڑھنے لگی۔ خوف سے اس کے ہاتھ پائوں سن ہونے لگے تھے۔ اس کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ اس کے ہر قدم کے ساتھ پل کسی جھولے کی طرح دائیں بائیں جھول رہا تھا۔ خوف کے مارے اس کی بری حالت ہورہی تھی۔ جب وہ لیری تک پہنچی تو برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں سے آنے والی سرد ہوا اور خوف کے مارے وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔
’’دیکھا نا تم نے یہ پار کرلیا۔ بہادر لڑکی…!‘‘ وہ بولا۔
’’بس یہ بہت کافی ہے۔ اب میں مزید اوپر نہیں جاسکتی۔ چلو واپس چلو۔‘‘ وہ زرد چہرے کے ساتھ ہانپتی ہوئی بولی۔
’’یہ کیا بات ہوئی کیتھی۔ ساری محنت برباد کرو گی۔ چوٹی سے ہم نے نظارہ تو کیا ہی نہیں۔‘‘
’’بس! اتنا بہت کافی ہے جو ہم نے دیکھ لیا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
’’ارے کیوں ہمت ہار رہی ہو بہادر لڑکی! اوپر جانے کی جو خوشی ہے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ پہاڑ کو تسخیر کرنا اپنی ہی لذت رکھتا ہے۔ پھر اوپر ایک بہت ہی خوبصورت جگہ ہے۔ جہاں پکنک منانے کا مزہ آجائے گا۔ میری بات مانو۔ تھوڑی ہمت کرو۔ اب ہماری منزل زیادہ دور نہیں۔‘‘
کیتھرین نے بے دلی سے ہاں کہی۔ لیری نے نعرہ مارا اور دونوں ایک بار پھر چل پڑے۔
کیتھرین کو بھی احساس ہورہا تھا کہ اردگرد نظر آنے والے نظارے اتنے حسین تھے کہ تھوڑی دیر کے لیے سب کچھ بھلا دیتے تھے۔ اس کے اندر ایک سرخوشی سی جاگی تھی۔ اب وہ خوش تھی کہ وہ یہاں تک آگئی تھی۔ لیری بھی بہت پرجوش تھا۔ جیسے جیسے وہ اوپر جارہے تھے۔ دلی مسرت سے اس کا خوبصورت چہرہ چمک رہا تھا۔ وہ اسے ان پہاڑوں کے بارے میں کچھ معلوماتی باتیں بتا رہا تھا۔ ہر چیز بہت خوبصورت تھی۔ گردوپیش کے نظارے، رنگ برنگے پھول جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور منزل کے لمحہ لمحہ قریب آنے کی خوشی۔
لیری کو اوپر چڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہورہی تھی۔ البتہ کیتھرین کا سانس کافی پھول گیا تھا۔ اس کی ٹانگیں اکڑ سی گئی تھیں۔ راستہ تنگ اور ڈھلان سیدھی ہوتی جارہی تھی۔ کیتھرین نے اپنا ہاتھ پہاڑ پر بڑی مضبوطی سے جما رکھا تھا کہ کہیں لڑکھڑا نہ جائے۔ یوں لگتا تھا جیسے یہاں کبھی کسی انسان نے قدم نہیں رکھا۔ پہاڑی پر پھول اور سبزہ بہت کم ہوگیا تھا۔ پتھروں سے کچھ سرکنڈوں نے سر نکال رکھا تھا۔ اچانک ایک موڑ آیا اور اس سے آگے راستہ بالکل غائب ہوگیا۔
’’لیری!‘‘ کیتھرین کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔
لیری لپک کر قریب آیا اور اس نے کیتھرین کو سہارا دیا۔ موڑ مڑ کر اسے پھر پگڈنڈی پر لے آیا۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ اس کا سر چکرارہا تھا۔ اس نے احتجاج کرنا چاہا۔ ’’لیری! بس اب میں اور نہیں چل سکتی۔‘‘
’’اوپر تو دیکھو۔‘‘ لیری بولا۔
کیتھرین کو یقین نہیں آیا۔ وہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے بالآخر اس بلند و بالا پہاڑ کو تسخیر کر لیا تھا۔ کیتھرین وہیں زمین پر گر پڑی۔ اس کی سانس سے سانس نہیں مل رہی تھی لیکن اسے اطمینان تھا کہ واپسی کا سفر دشوار نہیں ہوگا۔ لیری بھی اس کے برابر زمین پر بیٹھ گیا اور چند لمحوں بعد بولا۔
’’اب کچھ بہتر محسوس کررہی ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘ کیتھرین نے سر ہلایا۔ اس کے دل کی دھڑکنیں معمول پر آگئی تھیں۔ سانس بھی بحال ہوگئی تھی۔ اس نے مسکرا کر لیری کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’مشکل حصہ تو ختم ہوگیا ہے؟‘‘
لیری چند لمحے اس کی طرف غور سے دیکھتا رہا پھر بولا۔ ’’ہاں۔ ختم ہوگیا۔‘‘
کچھ دیر بعد کیتھرین ہمت کرکے اٹھی اور اردگرد کے نظاروں کو دیکھ کر اس کی ساری تھکن زائل ہوگئی۔ اس نے لیری کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’اوہ۔ لیری! یہ کتنا خوبصورت ہے۔ شاید کہیں اور یہ نظارہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔‘‘
لیری دوسری جانب دیکھ رہا تھا اور کیتھرین کو لگا کہ لیری نے اس کی بات نہیں سنی۔ اس کے چہرے پر تنائو تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اندر ہی اندر کچھ سوچ رہا ہے یا کچھ فکرمند تھا۔ کیتھرین نے آسمان کی طرف دیکھا اور ایک خوشگوار تحیّر سے بولی۔ ’’اوہ۔ لیری! دیکھو! دیکھو! کتنا عجیب، کتنا پیارا جیسے روئی کا گالا… وہ بادل ہے نا۔ ہوا کے ساتھ اڑتا ہوا کتنی تیزی سے میری طرف آرہا ہے۔ میں نے کبھی کسی بادل کو اتنا قریب نہیں دیکھا۔ اف! یہ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ناقابل یقین…! میں اس کے اندر جاتی ہوں۔‘‘
اگلے ہی لمحے کیتھرین سلیٹی دھند میں غائب ہوچکی تھی۔ لیری چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا لیکن معلوم نہیں ہورہا تھا کہ کیتھرین کدھر ہے۔ صرف اس کی مسرت بھری آواز سنائی دے رہی تھی۔
’’اوہ لیری! یہ بہت ہی انوکھا اور بہت خوبصورت ہے۔ میرے پاس آجائو بادل کے اندر۔ یوں لگ رہا ہے جیسے نرم نرم سی بارش ہورہی ہے۔ لیری! آجائو نا تم کہاں ہو؟‘‘
گہری دھند کچھ کم ہونے لگی تھی۔ کیتھرین اس میں ایک ہیولے کی طرح نظر آرہی تھی۔ کچھ دور یہ ٹیلا ختم ہورہا تھا۔ کیتھرین کو چھونے کے لیے وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ اپنے ہاتھ سامنے کی جانب پھیلائے ہوئے! وہ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ بادل ہوا کے ساتھ اڑتا آگے نکل گیا۔ دھند چھٹ گئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے سامنے پایا۔ کیتھرین ایک قدم پیچھے ہٹی تو اس کا پائوں بالکل کنارے پر آگیا۔ ’’اوہ۔ تم نے مجھے ڈرا دیا۔‘‘
لیری ایک قدم اس کی جانب بڑھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے ہاتھ سامنے پھیلائے ہوئے تھے جیسے اس کو تھامنا چاہتا ہو۔
’’اوہ خدایا! ہم نے یہ کر دکھایا۔‘‘ کسی نے یکایک بلند آواز سے کہا۔
لیری نے مڑ کر دیکھا۔ اس کا چہرہ سفید تھا اور ماتھے پر پسینے کے قطرے۔ اس نے دیکھا کہ وہ سیاحوں کا ایک گروپ تھا جو پہاڑ کی دوسری جانب سے چڑھ کر اوپر آئے تھے۔ ان کا گائیڈ لیری اور کیتھرین کو دیکھ کر رک گیا۔ ’’گڈ مارننگ۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ ’’میرا خیال ہے تم مشرقی ڈھلان سے اوپر آئے ہو۔‘‘
’’ہاں!‘‘ لیری نے کچھ بے رخی سے جواب دیا۔
’’یہ کیسے لوگ ہیں۔ انہیں تم لوگوں کو بتانا چاہیے تھا کہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ جس راستے سے ہم آئے ہیں، وہ بہت آسان ہے۔‘‘
’’اگلی مرتبہ میں خیال رکھوں گا۔‘‘ لیری نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
کیتھرین کو محسوس ہوا کہ تمام راستے جو خوشی اور جوش لیری میں نظر آیا تھا، وہ یوں ختم ہوگیا تھا جیسے کسی نے اس کے اندر کوئی سوئچ بند کردیا ہو۔
’’چلو۔ یہاں سے نکلیں۔‘‘ وہ بیزاری سے بولا۔
’’لیکن لیری! ہم ابھی تو آئے ہیں۔ آخر ہوا کیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ بدمزاجی سے بولا۔ ’’میں یہاں آیا تھا کہ صرف ہم تم ہوں گے لیکن یہ بدتمیز، گنوار لوگ پتا نہیں کہاں سے آن ٹپکے۔‘‘
اب لیری نے آسان راستہ اختیار کیا لیکن راستے بھر اس نے کوئی بات نہیں کی۔ اس کا روّیہ سرد تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہ اندر ہی اندر کسی بات پر پیچ و تاب کھا رہا ہے۔
کیتھرین دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ شاید وہ اتنی خوبصورت جگہ پر تنہائی کا خواہاں تھا لیکن سیاحوں کے اس گروپ نے اس کا سارا پروگرام ملیا میٹ کردیا تھا جس کے لیے اس نے اتنی مشقت اٹھائی تھی۔ سیاحوں کے شور کی وجہ سے وہ اس کا صحیح طور پر لطف نہیں اٹھا سکے تھے۔ ہوٹل آکر بھی اس کا موڈ پہلے جیسا شگفتہ نہیں ہوا۔
٭…٭…٭
کیتھرین ایک پرانے برگد کے نیچے کرسی ڈالے کچھ پڑھ رہی تھی کہ لیری آیا۔ وہ رات کے مقابلے میں تازہ دم نظر آرہا تھا۔ ’’ہیلو! کیسی ہے کتاب؟‘‘
’’کچھ اتنی خاص نہیں!‘‘
وہ اس کے قریب اکڑوں بیٹھ گیا۔ ’’ہوٹل کے کلرک نے مجھے بتایا ہے کہ یہاں کچھ غار بھی ہیں۔‘‘
’’غار؟‘‘
’’ہاں! وہ کہتا ہے کہ ہنی مون پر آنے والے تمام جوڑے وہاں جاتے ہیں۔ وہاں ایک ایسی جگہ ہے کہ جو خواہش کی جائے وہ پوری ہوجاتی ہے۔ وہ نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
کیتھرین کچھ ہچکچائی۔ پھر اس نے لیری کے اشتیاق کو دیکھا۔ وہ بالکل کسی نوخیز لڑکے کی طرح خوش نظر آرہا تھا اس لیے اس کا دل رکھنے کو کیتھرین کو اس کی بات ماننی پڑی۔ وہ بولی۔ ’’اگر تمہیں پسند ہے تو پھر ٹھیک ہے۔‘‘
’’بہت خوب! ہم وہاں لنچ کے بعد چلیں گے۔ تم کتاب پڑھو۔ میں نیچے قصبے میں جاکر کچھ ضروری چیزیں لے آتا ہوں۔‘‘
’’میں بھی چلوں تمہارے ساتھ؟‘‘
’’نہیں… نہیں… رہنے دو۔ میں تھوڑی دیر میں واپس آجاتا ہوں۔‘‘
لنچ کے بعد وہ غاروں کی طرف روانہ ہوئے جو شہر سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ ان غاروں کی دیواروں پر پرانی تہذیب کے نقش و نگار اور دیوتائوں کی تصویریں بنی تھیں جو سیاحوں کے لیے بڑی کشش کا باعث تھیں۔ وہ دونوں جب وہاں پہنچے تو پانچ بج چکے تھے۔ لیری نے دو ٹکٹ خریدے اور غاروں کے بارے میں ایک معلوماتی کتابچہ لیا۔
بھدے سے لباس میں ملبوس ایک گائیڈ ان کے قریب آیا۔ ’’میری فیس سب سے کم ہے لیکن میں آپ کو بہترین معلومات فراہم کردوں گا۔‘‘
’’نہیں۔ ہمیں گائیڈ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ لیری درشتی سے بولا۔
کیتھرین نے اس کے سخت لہجے پر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے کیتھرین کا بازو تھام کر کہا۔ ’’چلو… آئو چلو۔‘‘
’’لیری! کیا واقعی ہمیں گائیڈ کی ضرورت نہیں؟‘‘
’’آخر کس لیے؟ ان لوگوں نے خواہ مخواہ یہاں مافیا بنایا ہوا ہے۔ ہم نے اندر جاکر غار کو دیکھنا ہی تو ہے اور کیا کرنا ہے۔ ہمارے پاس یہ کتابچہ موجود ہے۔‘‘ لہجہ تلخ تھا۔
’’ٹھیک ہے… جیسا تم چاہو۔‘‘
وہاں کئی غار تھے لیکن وہ سب سے مشہور غار کے دہانے پر پہنچے۔ داخلے کا راستہ کافی کشادہ تھا۔ جہاں بہت سی روشنیاں چاروں طرف اجالا پھیلا رہی تھیں۔ بہت سے سیاح یہاں جمع تھے جو غار کی چھت اور دیواروں پر بنے ہوئے نقش و نگار اور تصویریں دیکھنے میں مگن تھے۔ دیواروں سے ابھری ہوئی چٹانوں کو بڑی مہارت سے تراش کر دیوی، دیوتائوں کے بتوں کی شکل دی گئی تھی جو بہترین فن کا شاہکار تھے۔
’’بہت خوب!‘‘ کیتھرین نے محظوظ ہوکر کہا اور اس کی آواز چھت اور دیواروں سے ٹکرا کر کئی بار گونجی۔
سامنے ایک سرنگ نما راستہ ایک دوسرے حصے کی طرف جاتا تھا۔ یہ حصہ بھی بجلی سے روشن تھا۔ یہاں آرٹ کے مزید خوبصورت نمونے نظر آئے۔ اس کے کچھ فاصلے پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا۔ ’’خطرناک! اس سے دور رہو۔‘‘
اس بورڈ کے پیچھے ایک اور غار کا دہانہ نظر آرہا تھا۔ کیتھرین دیواروں پر آرٹ کا ایک نمونہ دیکھنے میں مصروف تھی۔ لیری دبے پائوں آگے بڑھا اور اس نے وہ بورڈ اٹھا کر دوسری طرف رکھ دیا۔
’’یہاں بہت سیلن ہے۔ کیا خیال ہے واپس چلیں؟‘‘
’’نہیں… نہیں… کیوں؟‘‘ لیری فیصلہ کن لہجے میں بولا۔ ’’ابھی ہم نے دیکھا ہی کیا ہے… یہاں بہت کچھ دیکھنے کو ہے… اگر ہم نے یہ نہیں دیکھا تو یہاں آنے کا فائدہ؟‘‘
’’مگر کہاں؟‘‘ کیتھرین نے پوچھا۔
’’تم آئو تو سہی یا یہیں کھڑی سوال پہ سوال کرتی رہو گی۔‘‘ وہ اس کا بازو پکڑ کر غار کے دہانے تک آگیا جس میں اندھیرا بھرا ہوا نظر آرہا تھا۔
’’نہیں۔ ہم اندر نہیں جاسکتے۔ دیکھو اندر کتنا اندھیرا ہے۔‘‘
’’فکر مت کرو۔ مجھے کلرک نے کہا تھا کہ میں فلیش لائٹ اپنے ساتھ رکھوں۔ یہ دیکھو۔‘‘
اس نے جیب سے لائٹ نکال کر روشن کی اور اس کی طاقتور روشنی میں ایک تنگ راہداری دور تک جاتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کیتھرین نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور بولی۔ ’’لیری! کیا تمہیں یقین ہے کہ یہاں کوئی خطرہ نہیں؟‘‘
’’بالکل نہیں… یہاں تو وہ اسکول کے بچوں کو بھی لاتے ہیں۔‘‘
کیتھرین کو کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ اسے اس تمام ماحول سے خوف بھی آرہا تھا لیکن لیری کے اصرار پر وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔ انہوں نے چند فٹ کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پیچھے غار سے آنے والی روشنی یوں یکدم ختم ہوگئی جیسے اسے تاریکی نے نگل لیا ہو۔ راستہ پہلے بائیں جانب مڑا پھر فوراً ہی اس کا رخ دائیں جانب ہوگیا۔ وہ دونوں جیسے ایک ٹھنڈی خنک نیم تاریک دنیا میں تھے جہاں وقت کا کوئی احساس نہیں رہا تھا۔
فلیش لائٹ کی روشنی میں کیتھرین نے لیری کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر ایک ایسا تاثر تھا جو اس نے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ کیتھرین نے گھبرا کر اس کے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔
اس سرنگ نما راہداری کی چھت میں کھردرے پتھر یہاں وہاں نظر آرہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ان کے سر سے ٹکرائے تو انہیں زخمی کردیں گے۔ وہ اب بھی آگے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ لیری اس سے پہلے بول اٹھا۔ ’’اب ہمیں بائیں طرف جانا ہوگا۔‘‘
کیتھرین نے محتاط لہجے میں کہا۔ ’’اب ہمیں واپس چلنا چاہیے لیری! شام گہری ہورہی ہے۔‘‘
’’تم گھبرائو مت… ہم ابھی واپس چلے چلیں گے۔ میں ایک خاص غار کو تلاش کررہا ہوں۔ وہ بہت ہی خوبصورت اور حیرت انگیز ہے۔‘‘ وہ آگے قدم بڑھانے لگا۔
’’مجھے کھو نہ دینا لیری!‘‘ وہ بھی بے دلی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔
فرش پر پتھر بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں محتاط قدم اٹھانے پڑ رہے تھے۔ ہر آن لگتا تھا جیسے ابھی پھسل جائیں گے۔ غار کی چھت نیچی ہوتی جارہی تھی۔ سیلن بھی بڑھ رہی تھی۔ کیتھرین نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ ’’مجھے لگتا ہے جیسے یہاں ہم لوگ اکیلے ہی ہیں۔‘‘
’’ہاں۔ زیادہ لوگوں کو اس غار کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔‘‘
وہ آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ راستہ کچھ اور تنگ ہوتا جارہا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بار بار دیواروں میں ابھرے ہوئے پتھروں سے ٹکرا جاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں اس تاریک سرنگ میں چلتے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے۔
’’اور کتنا آگے جانا ہوگا؟‘‘
’’بس۔ زیادہ دور نہیں۔‘‘ لیری نے جواب دیا اور ان کی آواز کی گونج بہت دیر تک اس طرح سنائی دیتی رہی کہ کیتھرین خوف سے کانپ گئی۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی غیر انسانی مخلوق ان کے گرد گھیرا ڈال رہی ہے۔ خنکی اتنی بڑھ گئی تھی کہ کیتھرین کو سردی محسوس ہونے لگی تھی۔
’’اب تو ہم کافی دور آگئے ہیں لیری۔‘‘
’’بس تھوڑا سا فاصلہ اور رہ گیا ہے۔ ہم دائیں مڑیں گے تو سامنے وہ نظارہ ہوگا۔‘‘
’’لیری! مجھے اب سردی لگنے لگی ہے۔ چلو واپس چلتے ہیں۔‘‘
وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تھوڑی ہمت اور کرلو کیتھی! ہم بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ وہاں جاکر تم ساری پریشانی بھول جائو گی۔‘‘ (جاری ہے)