کیتھرین کو کچھ حوصلہ ہوا۔ اس نے ٹوٹی ہمت پھر باندھ لی۔ وہ دائیں مڑ گئے۔ فلیش لائٹ سلیٹی دیوار پر ان سے آگے آگے چلتی مختلف نمونے بناتی جارہی تھی۔ کیتھرین نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہاں تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اس تاریکی میں فلیش لائٹ چند فٹ تک روشنی کی ایک لکیر سی بنا رہی تھی۔
لیری اچانک رک گیا۔ ’’اوہ! یہ کیا ہوا؟‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ کیتھرین نے پوچھا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم غلط سمت میں مڑ گئے ہیں۔‘‘
’’چلو واپس چلتے ہیں۔‘‘ کیتھرین نے کہا۔
’’ٹھہرو! میں ذرا صحیح اندازہ کرلوں کہ ہمیں کس طرف جانا ہے۔‘‘
کیتھرین نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تم کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’میں چند فٹ پیچھے جاکر دیکھتا ہوں کہ غار کا دہانہ کس طرف ہے۔‘‘ وہ تیزی سے بولا۔
’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘
’’میں دوڑ کر دیکھ آتا ہوں۔ مجھے دس سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ تم یہاں ٹھہرو۔‘‘ اس کی آواز کچھ غیر فطری سی لگ رہی تھی۔ وہ تیزی سے قدم آگے بڑھا رہا تھا۔
’’اچھا! لیکن تم جلدی آجانا۔‘‘ وہ پریشان کن لہجے میں بولی۔
’’بس! میں یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر موڑ مڑ گیا۔
فلیش کی ہلکی ہلکی روشنی اب بھی کیتھرین تک آرہی تھی۔ چند ہی لمحوں میں وہ روشنی بالکل غائب ہوگئی۔
کیتھرین اتنی گہری تاریکی میں گھر کر رہ گئی جس کا تصور کرنا بھی محال تھا۔ وہ گہری سیاہ تاریکی میں کھڑی کانپتے ہوئے ایک ایک سیکنڈ گن رہی تھی۔ پھر یہ سیکنڈ منٹوں میں بدل گئے اور پھر خوف اور پریشانی میں منٹ، سیکنڈ اور گھنٹے سب کچھ فراموش ہوگیا۔ لیری واپس نہیں آیا۔
کیتھرین بے قراری سے انتظار کررہی تھی۔ تاریکی کے اس سمندر میں اندھیرے کی لہریں اس سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس نے پوری قوت سے لیری کو پکارا۔ ’’لیری!‘‘
اس کی آواز کچھ دور جاکر اندھیرے کے سمندر میں ڈوب گئی۔ گویا یہاں کسی کا بھی زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔
پہلی بار خوف کی سنسناتی ہوئی سرد لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی لیکن اس نے خود کو حوصلہ دیا کہ لیری آتا ہی ہوگا۔ اسے وہیں کھڑا رہنا چاہیے تھا جہاں وہ اس کو چھوڑ کر گیا تھا تاکہ اسے تلاش کرنے میں دشواری نہ ہو۔
اندھیرے میں ڈوبے ہوئے سیاہ منٹ گھسٹ گھسٹ کر گزرتے رہے۔ کیتھرین پریشان ہوئی کہ کہیں لیری کو کوئی حادثہ تو نہیں پیش آگیا۔ وہ غار کے فرش پر لڑھکتے ہوئے پتھروں پر جلدی میں پھسل نہ گیا ہو۔ اسے کوئی چوٹ نہ لگ گئی ہو۔ اس کی فلیش لائٹ خراب ہوگئی ہو اور وہ اندھیرے میں بھٹک گیا ہو۔
کیتھرین کو ایک گھٹن کی سی کیفیت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک جگہ کھڑے رہنے سے بہتر سمجھا کہ حرکت کرے تاکہ دوران خون بحال ہو اور اسے راستہ بھی مل جائے۔
وہ اندازے سے اس طرف چل پڑی جس طرف سے وہ آئے تھے۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر لیری کہیں زخمی پڑا ہوا ہوگا تو وہ اس کو تلاش کرلے گی۔
اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ پھر اسے پروں کی پھڑپھڑاہٹ جیسی آواز سنائی دی۔ وہ ٹھٹھک کر رک گئی۔ اس کے سر کو اپنے پنجوں کے ذریعے کسی نے کھسوٹ ڈالا۔ اس کے چہرے کے ساتھ کوئی بجلی سی شے ٹکرائی۔ بڑے بڑے پروں کی عجیب سی ہوا اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ اس کے رخساروں پر ایک لمبی خراش آگئی۔ خوف سے اس کی آواز بھی نہیں نکلی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
نہ جانے کتنی دیر وہ بے سدھ رہی۔ پھر وہ کمر میں ہونے والی شدید چبھن سے ہوشیار ہوئی۔ اس کے رخساروں میں اکڑن سی تھی۔ کیتھرین نے ہاتھ لگایا تو اسے خون محسوس ہوا۔ وہ کانپ گئی۔
یہ یقیناً خون آشام چمگادڑیں تھیں یا وہ اڑنے والے چوہے جن کے بارے میں اس نے کتابوں میں پڑھ رکھا تھا۔ یہ سوچ کر ہی اسے جھرجھری سی آگئی۔
اس نے اس سوچ کو دماغ سے نکالنے کی کوشش کی۔ ہمت کرکے اٹھی۔ اس کے ہاتھ نوکیلے پتھروں کے لگنے سے زخمی ہوگئے تھے۔ اس نے خود کو سنبھالا اور طے کیا کہ ایک جگہ بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اسے آخری دم تک کوشش کرکے نجات کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
لیکن اسے کس سمت جانا چاہیے؟ وہ چاروں طرف دیکھتی ہوئی سوچ رہی تھی۔ اگر وہ غلط راستے پر نکل جاتی تو غار کے اندر دور تک چلی جائے گی، پھر واپسی کا راستہ کس طرح ملے گا۔
بھاگ دوڑ میں اس کے ایک پائوں کا جوتا کہیں رہ گیا تھا۔ اس نے دوسرے پائوں کا جوتا بھی اتار پھینکا اور اندازے سے محتاط قدموں سے ایک سمت چل پڑی۔ وہ خود کو حوصلہ دے رہی تھی کہ اگر وہ اسی طرح چلتی گئی تو ضرور کسی سیاح یا خود لیری سے ٹکرا جائے گی جو شاید غار میں کہیں بھٹک گیا ہے۔ اب اسے چلتے رہنا تھا۔
ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اسے ایک عجیب سا شور اپنی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہوا جیسے تیز ہوا کا جھکڑ ہو۔ خوف سے اس کا دل بیٹھنے لگا۔ اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔
اگلے ہی لمحے وہ سب کے سب کیتھرین پر حملہ آور ہوچکے تھے۔ ایک لمبی قطار کی صورت جن کی تعداد سیکڑوں میں معلوم ہوتی تھی۔ وہ اس کے اوپر چکرا رہے تھے۔ ان کے پنجے اسے اپنے سر میں گڑھتے محسوس ہورہے تھے۔ ان کے کراہت آمیز لجلجے بدن اس کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے۔
وہ بری طرح چیخنے لگی۔ یہ جیسے ایک ڈرائونے خواب کی طرح تھا، کسی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح لیری کو پکار رہی تھی اور ان اَن دیکھی بلائوں سے خود کو چھڑانے کی کوشش کررہی تھی۔
اس کے حواس بحال ہوئے تو وہ ٹھنڈے سیلن زدہ فرش پر پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں لیکن اس کا دماغ جاگ رہا تھا۔ اس کے دماغ میں عجیب عجیب خیال آرہے تھے۔ گزشتہ تمام واقعات ایک ایک ایک کر کے اس کے ذہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح گردش کررہے تھے۔
اسے معلوم تھا کہ وہ اس تاریک سیاہ مقبرے میں زندہ دفن ہوچکی ہے۔ اڑنے والے چوہے جا چکے تھے لیکن ان کی کراہت آمیز بُو اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اسے متلی سی ہورہی تھی اور وہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ خود کو ان کے ایک اور حملے سے بچا سکے گی۔ وہ بے حس سی زمین پر پڑی ہوئی تھی، اس میں اٹھنے کی طاقت بھی نہیں رہی تھی۔
اسے پھر ایک شور سا سنائی دیا جو کبھی اس کی جانب بڑھتا تھا اور کبھی دور چلا جاتا تھا۔ پھر جیسے کوئی زور سے چیخا۔ ایک لمبی چیخ جیسے کوئی کسی کو پکارتا ہو۔
کیتھرین پر کپکپی سی طاری ہونے لگی۔ یہ کوئی نئی مصیبت تھی جو اس گہرے سیاہ اندھیرے میں اس پر ٹوٹنے والی تھی۔ پھر اندھیرے میں ہلکی سی روشنی نمودار ہوئی پھر کسی نے کوئی نام پکارا۔ نہ جانے اس کا یا کسی اور کا۔ پھر دو ہاتھوں نے اسے اٹھایا۔
وہ بے حس و حرکت لیٹی ہوئی تھی کہ کہیں اس کی کوئی جنبش اڑنے والے چوہوں کو پھر اس کی طرف متوجہ نہ کردے۔ وہ ان کے پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز سن رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ رکھی تھیں۔
پھر اسے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ ’’یہ ایک معجزہ ہی ہے کہ ہم نے اسے تلاش کرلیا ہے۔‘‘
’’وہ ٹھیک تو ہوجائے گی نا!‘‘ اس نے پہچان لیا، یہ لیری کی آواز تھی۔
اوہ… لیری! جو اسے مرنے کے لیے غار میں چھوڑ گیا تھا۔ وہ کسمسائی۔ ’’نہیں!‘‘
خوف اس کے اندر پھیلتا جارہا تھا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں۔ وہ اپنے بیڈ روم میں تھی۔ لیری بیڈ کے پائنتی کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور شخص تھا جسے وہ نہیں جانتی تھی۔ لیری اس کی طرف بڑھا۔ ’’کیتھرین!‘‘
وہ فوراً پیچھے ہٹ کر بولی۔ ’’مجھے مت چھونا۔‘‘
’’کیتھرین!‘‘ لیری نے پریشانی سے پھر اسے پکارا۔
’’اس کو ہٹا دو یہاں سے… اس کو کہو چلا جائے یہاں سے۔‘‘
’’وہ ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہے۔‘‘ اجنبی نے کہا۔ ’’اسے اس صدمے سے نکلنے میں کچھ وقت لگے گا۔ مسٹر ڈگلس! فی الحال آپ دوسرے کمرے میں چلے جائیں۔‘‘
لیری کچھ دیر بے تاثر چہرے کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا رہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر یہ اس کے لیے بہتر ہے تو میں چلا جاتا ہوں۔‘‘
اجنبی قریب آیا۔ وہ چھوٹے قد اور بھاری جسم کا ایک ایسا انسان تھا جس کا چہرہ مہربان اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’’میں ڈاکٹر کیزو ہوں مسز ڈگلس! آپ بہت کٹھن حالات اور مشکل سے گزری ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔ ابھی آپ صدمے کی کیفیت میں ہیں۔‘‘ پھر وہ جیسے خود سے بولا۔ ’’ان لوگوں کو ان فضول غاروں کو بند کردینا چاہیے۔ اس سال یہ تیسرا حادثہ ہے۔‘‘
’’یہ حادثہ نہیں تھا… اس نے مجھے مارنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ کیتھرین بھاری آواز میں بولی۔
ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’کس نے تمہیں مارنے کی کوشش کی؟‘‘
کیتھرین کا منہ خشک ہورہا تھا اور اس کی زبان جیسے موٹی ہوگئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے کہا۔ ’’میرا شوہر!‘‘
’’نہیں! یہ ایک حادثہ تھا۔ میں آپ کو سکون آور دوائیں دوں گا۔ آپ کچھ دیر سو جائیں تو کافی بہتر محسوس کریں گی۔‘‘
کیتھرین نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے سر میں اتنا شدید درد اٹھا کہ وہ تکیے پر گر پڑی۔ اس کی پیشانی پسینے میں بھیگ گئی۔ اس کے سر میں ناقابل برداشت درد ہورہا تھا۔
’’مسز ڈگلس! ابھی آپ حرکت نہ کریں، آپ ایک بہت بڑے حادثے سے گزری ہیں۔‘‘ اس نے انجکشن بھرا اور بولا۔ ’’اس انجکشن سے آپ کو نیند آجائے گی۔ جب آپ اٹھیں گی تو ایک نئی خاتون ہوں گی۔‘‘
’’نہیں! میں نہیں اٹھوں گی… وہ مجھے نیند میں ہی مار دے گا۔‘‘
ڈاکٹر نے اس کی طرف ہمدردی سے دیکھا اور نرمی سے اسے انجکشن لگا دیا تو وہ ہولے سے بولی۔ ’’تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو۔ تم نے مجھے مارنے کے لیے انجکشن لگایا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں بے چارگی تھی۔
ڈاکٹر تھوڑا سا جھکا اور ملائمت سے بولا۔ ’’مسز ڈگلس! تمہارا شوہر ہی ہمیں تم تک لایا تھا۔ وہ غلط موڑ مڑنے کی وجہ سے تم سے بچھڑ گیا تھا۔ پھر وہ جیسے تیسے باہر نکلا اور اس نے پولیس کو اطلاع دی۔ وہ بچارا سخت پریشان تھا۔ ہم نے فوراً ایک ٹیم تشکیل دی اور تمہیں ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑے۔‘‘
کیتھرین نے حیران آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’کیا لیری نے تمہیں میری تلاش میں بھیجا تھا؟‘‘
’’ہاں! وہ بہت پریشان تھا اور خود کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا کہ تم غار میں گم ہوگئی تھیں۔‘‘
کیتھرین ساکت سی ہوگئی۔ اس کے دل میں کیا تھا؟ اور وہ لیری سے کتنی بدگمان تھی۔ ایک جانب اس کے لیے یہ خوشی تھی کہ لیری اب بھی اسے چاہتا تھا اور دوسری جانب احساس ندامت کہ وہ اس سے اتنی بدگمان ہوگئی کہ اسے اپنا قاتل ٹھہرا دیا۔
ڈاکٹر اس کے زرد حسین چہرے کی بدلتی کیفیات کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے بالوں کو تھپک کر ہمدردی سے بولا۔ ’’مسز ڈگلس! تم سونے کی کوشش کرو۔ جب تم سو کر اٹھو گی تو خود کو بہت بہتر محسوس کرو گی۔‘‘
٭…٭…٭
کیتھرین کی آنکھ ایک کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے شور سے کھلی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی نبض کی رفتار بہت زیادہ تھی۔ وہ غور سے سننے لگی۔ پھر اسے احساس ہوا کہ یہ بارش کا طوفان ہے جو بیڈ روم کی کھڑکیوں پر بڑے زور سے دستک دے رہا تھا۔ وقفے وقفے سے بجلی کی چمک اردگرد کی فضا کو زردی مائل نیلے رنگ میں رنگ دیتی تھی۔ تیز ہوا یوں کھڑکیوں اور دروازوں کو بجا رہی تھی جیسے زبردستی اندر آنا چاہتی ہو۔ کھڑکیوں اور چھت پر موسلادھار بارش کا شور کسی ڈرم کے بجنے کی طرح سنائی دے رہا تھا۔ وقفے وقفے سے بجلی کی چمک کے بعد بادل بڑے زور سے گرجتے تھے۔
اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ صبح کے تین بجے تھے۔ وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ لیری شاید دوسرے کمرے میں تھا۔ اس خیال سے کہ اس کے آرام میں مخل نہ ہو۔ وہ یقیناً اس کے لیے پریشان ہوگا۔
کیتھرین کے دل میں شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ لیری کے پاس جائے۔ اس سے معذرت کرے۔ اپنی غلط سوچ پر اور اسے بتائے کہ وہ ٹھیک ہے اور بہت جلد پوری طرح ٹھیک ہوجائے گی۔
اس کے سارے جسم میں کھنچائو تھا لیکن وہ ہمت کرکے اٹھی۔ دیوار اور دروازے کا سہارا لے کر وہ لائونج میں آئی۔ کمرہ خالی تھا۔ لیری وہاں نہیں تھا۔ اسے کچن میں روشنی نظر آئی۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی کچن کی طرف بڑھی۔
لیری کچن میں تھا، اس کی پشت کیتھرین کی جانب تھی۔ کیتھرین نے نحیف آواز میں پکارا۔ ’’لیری!‘‘
لیکن اس کی آواز طوفان کے شور میں کھو کر رہ گئی۔ وہ لیری تک نہیں پہنچی۔ اسی لیے وہ متوجہ نہیں ہوا۔
کیتھرین تھوڑا آگے بڑھی۔ وہ لیری کو پکارنے ہی والی تھی کہ اسے ایک عورت کی جھلک نظر آئی۔
وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ لیری کی اس عورت کے ساتھ گفتگو طوفان کے شور میں کبھی اسے سنائی دینے لگتی اور کبھی لفظ ہوا میں اڑ جاتے۔
’’تم نے کتنی بڑی حماقت کی۔ آخر اسے ڈھونڈنے کیوں چل پڑے تھے۔‘‘
’’میرا خیال تھا کہ وہ اتنے عرصے میں چمگادڑوں اور چوہوں کی غذا بن چکی ہوگی… یہ ایک حادثہ معلوم ہوگا لیکن وہ!‘‘
’’اچھا چھوڑو۔ جو ہونا تھا ہوگیا لیکن اب کوئی غلطی نہ کرنا۔ وہ سکون آور دوا کے زیراثر ہے۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے۔‘‘
کیتھرین جیسے مفلوج سی ہوگئی۔ اسے اپنی جگہ سے ہلنے کی طاقت بھی نہیں رہی۔ یہ اس کی موت کی خبر خود اسے سنائی دے رہی تھی۔ بارش کے شور میں کچھ جملے غائب بھی ہورہے تھے لیکن اتنا صاف ظاہر تھا کہ لیری اس عورت کے ساتھ اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں جلدی کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ وہ جاگ جائے۔‘‘
اوہ! وہ کیا کرے۔ وہ دل تھام کر سوچنے لگی۔
اس کا شک صحیح تھا۔ اس کا محبوب شوہر اسے قتل کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان سے کیسے اپنی جان بچائے۔ وہ ان کے لیے آسان شکار نہیں بننا چاہتی تھی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ وہ لوگ اس کے دل کے دھڑکنے کی آواز سن کر کہیں ہوشیار نہ ہوجائیں۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ مرکزی دروازے کی طرف بڑھی۔ اس نے کمزور ہاتھوں سے دروازہ کھولا۔ ہوا کا ریلا تیزی سے اندر آیا۔
دروازہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس نے برستی بارش، شاں شاں کرتی ہوا اور رات کی تاریکی میں قدم رکھ دیا۔ بارش کی تیز بوچھار سے وہ سر سے پائوں تک شرابور ہوگئی۔
اسے احساس ہوا کہ وہ ایک باریک سا نائٹ گائون پہنے ہوئے تھی لیکن اسے اس کی پروا نہیں تھی۔ اصل مقصد ان لوگوں سے دور جانا تھا جو اسے قتل کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اگر وہ ہوٹل میں کسی سے مدد کی درخواست کرتی تھی تو وہ اسے اس کے دماغ کی خرابی سمجھ کر پھر لیری کے حوالے کردیں گے۔ اس لیے اس نے شہر کی طرف جانے کا فیصلہ کیا اور پتھریلی ڈھلوان پر اتر گئی۔
پتھر اس کے پیروں کو زخمی کررہے تھے۔ بارش اور ہوا کے تھپیڑے اسے آگے کی جانب دھکیل رہے تھے۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ کوئی خوفناک خواب دیکھ رہی ہے۔ کبھی وہ گر پڑتی، کبھی اٹھ کر پھر چلنے لگتی۔ اسے اپنے گردوپیش تیز برستی بارش اور طوفانی ہوا کا کوئی احساس نہیں تھا۔ وہ اپنے قاتلوں سے بھاگ رہی تھی اور جلد از جلد آگے نکل جانا چاہتی تھی کہ خود کو کسی طرح محفوظ کرلے۔
بالآخر وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے تیز چلتی ہوا اور بارش کی برستی بوندوں سے جھیل کی سطح پر لہروں کے دائرے اور ٹوٹتے بنتے بلبلوں کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کی نگاہ کنارے پر لنگرانداز رنگ برنگی کشتیوں پر پڑی جو پانی اور ہوا کے ساتھ بڑی تیزی سے حرکت کررہی تھیں۔
پھر ایک کشتی کی رسی ٹوٹ گئی اور وہ پانی پر حرکت کرنے لگی۔ بغیر سوچے سمجھے کیتھرین گرتی، سنبھلتی کشتی میں بیٹھ گئی۔ اس نے چپو اٹھائے اور اندازے سے انہیں پانی میں مارنے لگی۔ اس کے ذہن میں بڑے عجیب خیالات پیدا ہورہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا جیسے جھیل کے دوسرے کنارے پر ولیم اس کا انتظار کررہا ہے۔ اسے جلدی وہاں پہنچنا تھا کہ دونوں شادی کرسکیں۔
ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے اس کے دانت بجنے لگے تھے۔ باربار اسے کپکپی سی آرہی تھی۔ اسے پائوں میں کسی چیز کا احساس ہوا۔ اس نے دیکھا کہ کشتی میں پانی بھر رہا ہے۔ اس کا سفید عروسی لباس بھیگتا جارہا تھا۔ وہ پریشان ہورہی تھی کہ شادی میں شریک مہمان کیا کہیں گے۔ شاید ولیم کو بھی یہ اچھا نہیں لگے گا۔
کنارہ ابھی بہت دور تھا۔ موسلادھار بارش اور ہوا کے تھپیڑے اسے کبھی ایک طرف لے جاتے تھے تو کبھی دوسری جانب… مگر اب وہ خوف زدہ نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ ولیم اسے بچا لے گا۔ ایک زبردست لہر آکر کشتی سے ٹکرائی اور کشتی الٹ گئی۔ کیتھرین کو لگا کہ وہ نیچے اتھاہ گہری جھیل میں ڈوبتی چلی جارہی ہے۔
٭…٭…٭
کمرئہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی بھی مقدمے کو سننے کے لیے کبھی اتنے اہم لوگ یوں اکٹھا نہیں ہوئے تھے۔ وہ تمام لوگ جن کا نولی کے ساتھ تعلق رہا تھا۔ وہ سب وہاں موجود تھے۔
لیری ڈگلس بھی اپنے شعبے میں ایک اہم شخص تھا۔ اس کے بہت سے پرستار تھے۔ اتنی پُرہجوم عدالت میں نولی پیگی اور لیری ڈگلس دونوں مجرموں کے کٹہرے میں بیٹھے تھے۔ دونوں طرف کے وکیلوں کی بحث اور اپنے خلاف گواہوں کے بیانات سن رہے تھے۔
حیرت اور پریشانی نے انہیں چکرا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں کیوں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ان پر کیتھرین کے قتل کا الزام تھا۔ ان کے لیے وکیل کا انتظام بھی ڈیمارس نے کیا تھا حالانکہ نولی کے دل میں یہ خوف تھا کہ ڈیمارس اس بے وفائی کو کبھی معاف نہیں کرے گا لیکن وہ خلاف توقع بڑا فراخدل ثابت ہوا۔ ان کی گرفتاری کے چند روز بعد وارڈن نے نولی کو اطلاع دی کہ کانسٹینٹن ڈیمارس اس سے ملنے آیا ہے۔
وہ دل و دماغ میں کچھ ملے جلے جذبات لیے وارڈن کے آفس میں آئی۔ ایک ملازم اس کا میک اَپ باکس دے گیا تاکہ وہ خود کو ڈیمارس سے ملنے کے قابل بنا سکے۔ نولی نے میک اَپ کی ان چیزوں کو نظرانداز کردیا اور کھڑکی کے قریب چلی گئی۔
اسے یوں لگا جیسے وہ صدیوں بعد دنیا کو دیکھ رہی ہے۔ جیل کے چھوٹے سے کمرے میں تو یوں لگتا تھا جیسے ساری دنیا ختم ہوگئی ہے۔ زندگی میں پہلی بار نولی نے محسوس کیا کہ خوف اس کے دل کو جکڑ رہا ہے۔ زندگی کی اہمیت اب اس پر واضح ہوئی تھی۔ اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ کتنی شدت سے جینا چاہتی تھی۔
اس کے لیے اسے ڈیمارس کی مدد کی ضرورت تھی لیکن ڈیمارس اسے کس نگاہ سے دیکھ رہا تھا، اس کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ اس میں معاف کرنے کی خُو نہیں تھی۔ نہ جانے وہ اس کو معاف کرے گا یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جو اس کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔
آفس کا دروازہ کھلا اور اس نے ڈیمارس کو باہر کھڑے ہوئے دیکھا لیکن اس پر ایک نظر ڈال کر ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ اسے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اس تھوڑے سے عرصے میں ڈیمارس دس سال بڑا معلوم ہونے لگا تھا۔ وہ پریشان حال معلوم ہوتا تھا۔ اس جیسے مانے ہوئے خوش لباس انسان کا لباس اس کے جسم پر جیسے لٹکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ اس کے بال بھی صحیح طرح نہیں بنے ہوئے تھے اور سب سے زیادہ نولی کو اس کی آنکھوں نے پریشان کیا تھا۔
وہ ایک ایسے شخص کی آنکھیں تھیں جو جہنم سے اس کے عذاب برداشت کرکے آیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ذہانت کی چمک غائب ہوچکی تھی۔ وہ چند لمحے کھڑا ان اداس آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا جن میں صدیوں کی اذیت جھیلنے کا دکھ تھا۔ وہ چپ رہا اور اس کی خاموشی کے عذاب نے نولی کو پہلے بولنے پر مجبور کردیا۔ ’’میں معذرت چاہتی ہوں۔ مجھے افسوس ہے۔‘‘
اس نے آہستگی سے سر ہلایا۔ یوں جیسے اسے حرکت کرنے میں اذیت ہورہی ہو۔
’’میں تمہیں قتل کردینا چاہتا تھا؟‘‘ اس کی آواز میں دکھ تھا۔
’’تو پھر تم نے کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’کیونکہ تم نے مجھے پہلے قتل کردیا۔ مجھے اس سے زیادہ اذیت پہلے کبھی نہیں ہوئی۔‘‘
’’اوہ … ڈیمارس!‘‘
’’پہلے مجھے بات مکمل کرنے دو۔ میں ایک ایسا شخص نہیں جو آسانی سے معاف کردے۔ اگر میرا گزارہ تمہارے بغیر ہوسکتا تو یقیناً میں ایسا ہی کرتا لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ تم میری مجبوری بن چکی ہو۔ میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ نولی۔‘‘
نولی کو اپنے جذبات چھپانے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑی۔ جو وہ اندر ہی اندر محسوس کررہی تھی۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’ایسا میرے اختیار میں کب ہے؟‘‘
’’لیکن اگر ایسا ہوجائے تو ہم ایک نئی زندگی شروع کرسکتے ہیں۔ اس اذیت ناک ماضی کو بھلا کر… یہ وقت گزر چکا ہے، کوئی اس کو تبدیل نہیں کرسکتا۔‘‘ اس کی افسردگی میں کچھ زندگی پیدا ہوئی۔ ’’میں تمہارے لیے ایک اچھے وکیل کا انتظام کررہا ہوں۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’نپولین چوٹاس!‘‘ اس نے بتایا۔
نولی کے دل میں یکدم خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ ہار کر بھی جیت گئی تھی۔
چوٹاس ایک نامور وکیل تھا۔ وہ ڈیمارس کے قانونی ماہرین کے عملے میں شامل تھا۔ وہ کیس کو مہارت سے لڑ رہا تھا۔ کئی ہفتے گزر چکے تھے کہ ایک پیشی میں وکیل چوٹاس، نولی کے قریب آیا اور قدرے رازداری سے بولا۔ ’’عدالت کے صدر نے مجھے اجازت دے دی ہے کہ میں ان کے چیمبر میں تم سے کچھ ضروری گفتگو کرسکوں۔ لیری ڈگلس اور اس کا وکیل بھی ہمارے ساتھ اندر آسکتے ہیں۔‘‘
گارڈ انہیں چیمبر تک لے آیا۔ وہ اندر آکر بیٹھ گئے تو چوٹاس نے محتاط لفظوں میں بولنا شروع کیا۔ ’’میں نے جیوری ممبرز سے بات کی ہے۔ میں نے انہیں قائل کیا ہے کہ تم لوگوں کو سزا دینے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر ملزم جرم کا اعتراف کرلیں تو انہیں زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی قید ہوگی۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’جس میں سے چار سال مختلف شقوں کی صورت کٹ جائیں گے۔ باقی ایک سال رہ جائے گا جس کو چھ ماہ کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ پھر وہ لیری کی طرف پلٹا۔ ’’کیونکہ تم ایک غیر ملکی ہو۔ تمہیں واپس تمہارے ملک بھیج دیا جائے گا۔ تمہیں اس کی اجازت نہیں ہوگی کہ تم دوبارہ اس سرزمین پر قدم رکھ سکو۔‘‘
لیری نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کے تنے ہوئے اعصاب معمول پر آنے لگے۔
چوٹاس نے نولی کو مخاطب کیا۔ ’’یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ عدالت چاہتی ہے کہ تمہارے ساتھ کچھ نرمی اس لیے برتی جائے کہ اس کیس کو پہلے ہی بہت شہرت مل چکی ہے کہ تم خود بھی ایک مشہور ایکٹریس رہی ہو۔ وہ لوگ کیس کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’میں سمجھتی ہوں۔‘‘
چوٹاس بہت دیر تک انہیں قانونی موشگافیاں سمجھاتا رہا۔
نولی کو اندازہ تھا کہ اس میں یقیناً ڈیمارس کا ہاتھ تھا۔ جیوری کے فیصلے کو متاثر کرنے کے لیے اسے بہت خرچ کرنا پڑا ہوگا۔ نولی کو اس بات نے اطمینان پہنچایا تھا کہ ڈیمارس اب بھی اس سے محبت کرتا تھا۔ اسے اس کا اتنا خیال تھا کہ اس کی بے وفائی فراموش کرکے اس کی خاطر یہ سب کچھ کررہا تھا۔
تقریباً آدھ گھنٹے بعد عدالت کی کارروائی پھر شروع ہوگئی اور وکیل چوٹاس نے اپنی بات شروع کی۔ ’’یور آنر! میرے موکل چاہتے ہیں کہ اپنے بیان میں تبدیلی کرلیں۔‘‘ اس نے کچھ قانونی نکتے کھولے۔
جیوری کے ممبروں نے آپس میں مشورہ کیا اور بولے۔ ’’کیا آپ اپنے وکیل سے متفق ہیں؟‘‘
انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
’’کیا آپ کے وکیل نے آپ پر قانون واضح کردیا ہے؟‘‘ جج نے پوچھا۔
دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ جیوری نے آپس میں پھر مشورہ کیا۔ چند سوالات پوچھے گئے اور پھر جج سنجیدہ لہجے میں بولا۔ ’’عدالت بیان میں اس تبدیلی کو تسلیم کرتی ہے۔ اگر بیان تبدیل نہ ہوتا تو انہیں شک کا فائدہ دیا جاسکتا تھا کیونکہ ابھی قتل ثابت نہیں ہوا لیکن دونوں ملزم اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں اور یہ قابل تعریف ہے۔‘‘
نولی جیسے جیسے ان کا بیان سن رہی تھی، اس کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ اسے فریب دیا گیا تھا۔ اسے ایسے جال میں پھانس لیا گیا تھا جس سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ ڈیمارس نے اپنا انتقام لے لیا تھا۔ اس کی کبھی نہ معاف کرنے والی فطرت نے بڑی ہوشیاری سے جال بچھایا تھا۔
’’اس سزا پر عملدرآمد ملکی قوانین کے مطابق نوے دن کے اندر کردیا جائے گا۔‘‘
نولی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ ساکت ہوکر ایک نشست کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں ڈیمارس بیٹھا تھا۔ یہ اس ڈیمارس سے بہت مختلف تھا جو اسے جیل میں ملنے کے لیے آیا تھا۔ اس نے تازہ شیو بنا رکھی
تھی، اس کے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔ اس نے بہترین نیلا سوٹ، ہلکی نیلی قمیص اور قیمتی ٹائی پہن رکھی تھی۔ وہ ویسا ہی خوش لباس نظر آرہا تھا جس کے لیے وہ مشہور تھا۔ اس کی آنکھیں روشن اور حرکت میں تھیں۔ ان میں ایک گہرا اطمینان نظر آرہا تھا۔ یوں جیسے اس کی شکست کا تماشا دیکھ کر محظوظ ہورہا ہو۔
لیری جج کا فیصلہ سن کر جیسے سکتے میں رہ گیا تھا۔ وہ چہرے پر حیرت لیے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ ایک پولیس اہلکار نے اس کا بازو پکڑا تو اس نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا لیا اور جیوری سے مخاطب ہوکر پاگلوں کی طرح چلایا۔ ’’ٹھہرو… میری بات سنو! میں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ انہوں نے مجھے پھنسایا ہے۔‘‘
ایک اور پولیس والا تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ اس نے لیری کا دوسرا بازو پکڑ لیا۔ ان میں سے ایک نے ہتھکڑی نکال لی۔
لیری بری طرح چیخ رہا تھا۔ ’’کوئی میری بات سنے… میں نے قتل نہیں کیا… نہیں کیا۔‘‘ اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس اہلکاروں نے اسے ہتھکڑی پہنا دی اور کھینچتے ہوئے کمرئہ عدالت سے باہر لے گئے۔
گم صم کھڑی نولی کو اپنے بازو پر کچھ دبائو محسوس ہوا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ ایک میٹرن اسے لے جانے کے لیے تیار تھی۔ اسے متوجہ دیکھ کر وہ بولی۔ ’’چلو… وہ انتظار کررہے ہیں۔‘‘
نولی کو یوں لگا جیسے یہ تھیٹر میں لگائی جانے والی وہ آواز ہے جو اسے اس کا کردار ادا کرنے کے لیے لگائی جاتی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اس بار جب پردہ گرے گا تو پھر کبھی نہیں اٹھے گا۔ ایسا آخری بار تھا جب وہ عوام کے سامنے تھی۔ ان لوگوں کے سامنے جو اس کے پرستار تھے جو اس کی زندگی میں کچھ عرصے کے لیے آئے تھے لیکن انہوں نے اس سے محبت کی تھی، آگے بڑھنے میں اس کی مدد کی تھی۔
یہ گویا اس کی آخری پرفارمنس تھی۔ اس نے کھچا کھچ بھری عدالت پر نظر ڈالی۔ وہ ان میں سے بہت سے چہروں کو پہچانتی تھی جو ساکت ہوکر اس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہیں اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آتا ہو۔
نولی کو انہیں مایوس نہیں کرنا تھا۔ اسے سر بلندی کے ساتھ اپنے انجام کی طرف بڑھنا تھا۔ میٹرن نے اس کا بازو تھام لیا تھا اور اسے چلنے کے لیے کہہ رہی تھی۔
نولی نے ایک الوداعی نگاہ سب پر ڈالی اور پروقار چال چلتی کمرئہ عدالت سے باہر چلی گئی۔
اگلے دن انہیں اس مخصوص جزیرے پر لے جایا جانا تھا جہاں ایسے مجرموں کو سزا دینے کے لیے لے جایا جاتا تھا۔ وہاں فائرنگ اسکواڈ ان کا منتظر تھا۔
٭…٭…٭
وہ ہر رات چیخیں مارتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ ہر رات اسے ایک ہی خواب ڈراتا تھا۔ وہ جھیل کے درمیان میں شدید طوفان میں گھری ہوئی ہے۔ بجلی چمک رہی ہے اور بادل گرج رہے ہیں۔ ایک عورت اور ایک مرد اس کا سر پوری قوت کے ساتھ پانی میں ڈبو رہے ہیں۔ پھر اس کی آنکھ کھل جاتی۔
وہ خود کو خوف زدہ اور پسینے میں بھیگا ہوا پاتی۔ اس کی سانس سے سانس نہیں ملتی تھی۔ اس کا ذہن کسی صاف سلیٹ کی طرح تھا۔ اسے کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ کس ملک سے تعلق رکھتی ہے؟ وہ یہاں کس طرح پہنچی ہے۔ اس چھوٹے سے کانوینٹ میں اسے کون لایا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا۔ اسے کبھی کبھی کوئی بات اچانک یاد آجاتی تھی جو اسے بری طرح پریشان کردیتی تھی لیکن پھر فوراً ہی وہ اس کے دماغ سے گزر کر نہ جانے کہاں چلی جاتی تھی اور وہ ایک عجیب تذبذب کی حالت میں اس کے بارے میں سوچتی رہ جاتی تھی۔
شروع شروع میں اس نے بہت سے سوالات کیے تھے۔ کانوینٹ میں رہنے والی ننوں کو بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہاں ہر وقت گہری خاموشی چھائی رہتی تھی۔ صرف سسٹر ٹریسا کو بات کرنے کی اجازت تھی جو وہاں کی انچارج تھی۔
’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘
’’نہیں، میں نہیں جانتی۔‘‘ سسٹر جواب دیتی۔
’’میں یہاں کیسے پہنچی؟‘‘
’’یہاں پہاڑیوں کے دامن میں ایک گائوں ہے۔ تم وہاں جھیل کے اندر طوفان میں گھر گئی تھیں۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے۔ تمہاری کشتی ڈوب گئی لیکن خداوند کی مہربانی سے ہماری دو سسٹرز نے تمہیں دیکھا اور کسی طرح تمہیں ڈوبنے سے بچایا۔ وہی تمہیں یہاں لے کر آئی تھیں۔‘‘
’’مگر اس سے پہلے میں کہاں تھی؟ میرا تعلق کس علاقے سے تھا؟‘‘
’’سوری! مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔‘‘
’’کیا کبھی کسی نے میرے بارے میں کوئی رابطہ کیا یا کسی نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
بے بسی اور مایوسی سے اس کا سر پھٹنے لگتا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ زور زور سے چیخے۔ اپنا سر دیواروں سے ٹکرائے۔ کیا وہ لاوارث تھی۔ اس دنیا میں اس کا کوئی نہیں تھا جو اسے تلاش کرتا۔ اخباروں، ٹی وی پر اس کی گمشدگی کا اشتہار دیتا۔ یہ بات اس نے سسٹر سے پوچھی۔
سسٹر ٹریسا نے ہمدردی سے اس کی طرف دیکھا اور پیار سے بولی۔ ’’ہمیں خدا کی مرضی کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ ہمیں ہر وقت اس کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ اس کے رحم و کرم کے لیے تمہارے لیے یہی بہت ہے کہ اس نے تمہیں نئی زندگی دی ہے۔‘‘
اس کا اسے بھی احساس تھا۔ شروع شروع میں وہ بہت کمزور اور بیمار تھی۔ اس وقت اسے اپنے بارے میں کچھ سوچنے کا ہوش نہیں تھا لیکن جیسے جیسے وہ تندرست ہوتی گئی اس کے جسم میں طاقت آتی گئی۔ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی تو اس کا زیادہ وقت کانوینٹ کے سرسبز باغ میں گزرتا جن کی کیاریاں پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔
ماحول میں خاموشی اور سکون تھا لیکن وہ پرسکون نہیں تھی۔ اسے یہ خیال ستاتا رہتا تھا کہ وہ ایک گمشدہ یا فالتو عورت ہے۔ جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ جس کی کسی کو کوئی پروا نہیں مگر ایسا کیوں تھا؟
کیا اس نے کوئی اتنا بڑا گناہ کیا تھا جس کی سزا اسے مل رہی تھی۔ آخر وہ کون تھی؟ کون تھی؟ کون تھی؟ کوئی اسے نہیں بتاتا تھا۔ کانوینٹ میں بہت سکون اور امن تھا لیکن وہ بے سکون اور بے قرار تھی۔
کبھی کبھی اس کے ذہن میں کچھ نقوش اور کردار ابھرتے تھے۔ چند لمحوں بعد وہ اس طرح غائب ہوجاتے جیسے کسی نے ان کا سوئچ آف کردیا ہو۔
ایک صبح وہ اٹھی تو دفعتاً اسے ایک خوبصورت شخص کا چہرہ نظر آیا۔ وہ اس سے ہنس ہنس کے باتیں کررہا تھا۔ اسے احساس تھا کہ یہ خواب نہیں تھا لیکن یہ شخص کون تھا۔ اس کا شوہر یا کوئی اور؟ کیا وہ شادی شدہ تھی؟ کچھ معلوم نہیں تھا۔ وہ اجنبیوں کے درمیان اجنبیوں کی طرح رہ رہی تھی۔ گمنام بغیر کسی تعلق اور رشتے کے…
اس کا دماغ ایک بھول بھلیاں بن چکا تھا جس میں بہت سے واقعات اور چہرے تھے۔ لیکن ان کے وقوع کا پتا نہیں چلتا تھا جس سے اس کی بے چینی میں اضافہ ہوجاتا تھا۔
پھر ایک روز اس نے دیکھا کہ وہ اسی شخص کو ایئرپورٹ پر الوداع کہہ رہی ہے لیکن اس کی جدائی اسے پریشان کررہی ہے۔ اسے کھو دینے کا خیال اس کے لیے سوہان روح ہے۔
پھر ایک رات اچانک ایک نام اس کے لاشعور سے ابھر کر اس کے شعور میں آیا۔ وہ چونک گئی۔ یہ کس کا نام تھا۔ ’’کیتھرین‘‘ کہیں یہ اس کا نام تو نہیں؟ شاید یہ اس کا نام ہی تھا کہ اسے کچھ آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔
’’تم جانتی ہو کہ تم ایک بہت خاص لڑکی ہو کیتھی! جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو اسی وقت مجھے اس کا احساس ہوگیا تھا۔‘‘
’’سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ بس مجھے طلاق دے دو… مجھے کسی اور سے محبت ہوگئی ہے۔‘‘
’’میں اپنے رویّے پر شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کردو۔ آئو۔ ہم نئی زندگی شروع کریں۔‘‘
’’میں راستہ بھول گیا۔ تم ٹھہرو۔ میں چند سیکنڈ میں آتا ہوں۔‘‘
اور ایسی ہی بہت سی آوازیں جن کا پس منظر یاد نہیں آتا تھا لیکن ان آوازوں نے اس کے ذہن کو بری طرح الجھا رکھا تھا۔ یہاں کوئی آئینہ نہیں تھا جو اسے بتاتا کہ وہ کیسی ہے؟ اور وہ یہ دیکھنے سے ڈرتی بھی تھی۔
ایک صبح باغ کی سرسبز و شاداب گھاس پر چہل قدمی کرتے ہوئے وہ تالاب کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس نے غیر ارادی طور پر تالاب میں نگاہ ڈالی تو اسے پانی کی آئینے جیسی شفاف سطح پر ایک خوبصورت لڑکی نظر آئی۔ سبک نقوش اور سیاہ بالوں والی۔ جس کی سیاہ آنکھیں دکھ اور اذیت سے بھری تھیں۔ اس کے ترشے ہوئے دلربا ہونٹ مسکراہٹ سے محروم تھے۔
کیا یہ وہ خود تھی یا کوئی اور؟ وہ تو ایک گمشدہ، بے نام عورت تھی۔ اسے کسی کی مدد کی ضرورت تھی جو اس کی الجھن کو رفع کرسکے ورنہ اس کا الجھا ہوا دماغ اتنا دبائو برداشت نہیں کرسکے گا۔ یہی سوچ کر وہ سسٹر ٹریسا کے آفس جا پہنچی۔
’’ہاں۔ کیا حال ہے تمہارا۔‘‘ سسٹر نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔
’’میرا خیال ہے سسٹر کہ مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت ہے یا کوئی ایسا جو میری اس الجھن کو دور کرسکے کہ میں کون ہوں۔ ورنہ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔‘‘
سسٹر ٹریسا چند لمحے اس کی جانب تکتی رہی پھر بولی۔ ’’بیٹھ جائو۔‘‘
وہ سسٹر کے مقابل ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسی وقت اس کے ذہن میں ایک ہیولا سا ابھرا۔ ایک منظر۔ باغ میں کوئی شخص اسے کوئی چیز دے رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی، یہ منظر یکدم اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ میرا تعلق اس جگہ سے نہیں۔‘‘
’’تو پھر تم کہاں سے تعلق رکھتی ہو؟‘‘
’’یہی تو واضح نہیں ہورہا جس نے مجھے الجھن میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
سسٹر ٹریسا اس کے چہرے پر جیسے کچھ پڑھنے کی کوشش کرتی رہی۔ ’’اگر تم اس جگہ کو چھوڑدو گی تو پھر کہاں جائو گی؟‘‘
’’مجھے کچھ پتا نہیں۔‘‘ وہ بے بسی سے بولی۔
’’مجھے غور کرنے دو۔ ہم پھر اس پر بات کریں گے۔‘‘
’’شکریہ سسٹر!‘‘
چند روز بعد سسٹر ٹریسا اس کے چھوٹے سے کمرے کے دروازے پر آئی۔ اس نے دروازہ کھول کر کہا۔ ’’میرے پاس تمہارے لیے ایک خاص خبر ہے۔‘‘
’’یس سسٹر…!‘‘
’’میں نے اپنے ایک دوست کو تمہارے بارے میں لکھا تھا۔ وہ کانوینٹ کے ان محسنوں میں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ادارہ اتنی کامیابی سے چل رہا ہے۔ وہ تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔‘‘
’’وہ میری مدد کریں گے؟ کیسے؟‘‘
’’یہ وہ تمہیں خود ہی بتائیں گے۔ ویسے وہ بہت فراخدل اور مہربان انسان ہیں۔ وہ تمہیں مایوس نہیں کریں گے۔ اب تم جلد ہی کانوینٹ سے چلی جائو گی۔‘‘
’’اوہ!‘‘ اس کے سارے جسم میں سنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔
ایک طویل عرصے بعد وہ پھر ایک ایسی دنیا میں جائے گی جسے وہ بالکل بھول چکی تھی۔ وہ ایک اجنبی دنیا میں جائے گی۔ اس شخص کے ساتھ جو اس کے لیے اجنبی تھا لیکن سسٹر ٹریسا کے بقول ایک فراخدل انسان تھا۔ (جاری ہے)