وہ پولیس کمشنر کے آفس پہنچا تو وہاں آدھی درجن آفیسر اس کے منتظر تھے۔ ڈیمارس پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔ ’’کیا میری بیوی کے بارے میں کوئی اطلاع ملی ہے؟‘‘
چیف بولا۔ ’’مسٹر ڈیمارس! اصل بات تو یہ ہے کہ کچھ باتوں نے ہمیں متذبذب کردیا ہے۔ آپ کچھ رہنمائی کریں۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا۔ مجھے بھی اس خبر سے بہت سخت دھچکا لگا ہے۔‘‘
’’آپ کو اپنی بیوی سے تین بجے ساحلی گھر پر ملنا تھا؟‘‘
’’نہیں۔ اس نے مجھے سات بجے کا وقت دیا تھا۔‘‘
’’مگر ایک ملازمہ نے ہمیں بتایا ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو تین بجے وہاں پہنچنے کے لیے کہا تھا اور ہدایت کی تھی کہ وہ وہاں اکیلی آئے اور آپ کا انتظار کرے۔‘‘
’’یقیناً ملازمہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
چیف نے دراز سے ایک لفافہ نکالا جس میں ایک سونے کا بٹن تھا۔ ’’یہ بٹن قالین کے نیچے سے ملا ہے۔ کیا آپ اسے پہچانتے ہیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’معذرت کے ساتھ ہمارے ایک سراغرساں نے آپ کی اجازت کے بغیر آج صبح آپ کی وارڈروب کا معائنہ کیا تھا۔ یہ آپ کی جیکٹ کا بٹن ہے۔ دھاگا بھی وہی ہے۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
’’آپ کی بیوی نے ایک سراغرساں ایجنسی سے رابطہ کررکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ آپ سے اسے جان کا خطرہ ہے اور وہ اس کی حفاظت کریں۔‘‘
’’یہ کس قسم کی باتیں آپ لوگ کررہے ہیں۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
چیف اَن سنی کرکے بولا۔ ’’اور اس خون آلود چاقو کے دستے پر آپ کی انگلیوں کے نشان ہیں۔‘‘ ڈیمارس نے حیرت سے چاقو کی طرف دیکھا۔
’’میرے فنگر پرنٹ… مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے۔‘‘ اس کا دماغ ان تمام الزامات پر تیزی سے غور کررہا تھا۔ چند لمحے بعد وہ غصے سے سر جھٹک کر چلایا۔ ’’تم لوگ دیکھ نہیں رہے کہ یہ باقاعدہ ایک منصوبہ بنایا گیا ہے مجھے پھنسانے کے لیے۔‘‘
’’مگر چاقو کے دستے پر آپ کے فنگر پرنٹ کس طرح سے آئے؟‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ مجھے یاد آیا۔ میری بیوی نے ایک پیکٹ پر بندھی ہوئی ڈوری ایک چاقو کے ساتھ مجھ سے کٹوائی تھی۔ اس طرح اس پر میرے فنگر پرنٹ آگئے ہوں گے۔‘‘
’’بنگلے کے قالین پر پائے جانے والے خون کے داغ؟‘‘
’’یقیناً یہ سب میلانیا کا منصوبہ ہے۔ اس نے خود کو کٹ لگایا اور پھر ساحل تک گئی تاکہ خون کے نشانات بنتے جائیں۔ وہ خواہ مخواہ مجھے پریشان کرنے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ میں اسے طلاق دینا چاہتا تھا۔ اب بھی وہ ضرور وہیں کہیں چھپی ہوگی تاکہ میری بے بسی کا تماشا دیکھ کر مجھ پر ہنس سکے۔ وہ یقیناً زندہ ہے مگر مجھے اپنا قاتل ثابت کرکے گرفتار کروانا چاہتی ہے۔‘‘
چیف نے گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’سر! کاش آپ کی یہ بات درست ہوتی لیکن افسوس کہ ہم نے صبح ہی آپ کی بیوی کی لاش سمندر سے نکالی ہے۔ اسے چاقو کے وار کرکے زخمی کرنے کے بعد ڈبویا گیا ہے اور ہم آپ کو آپ کی بیوی کے قتل کے جرم میں گرفتار کررہے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
کیتھرین باقاعدگی کے ساتھ ڈاکٹر ایلن کے کلینک جارہی تھی۔ وہ خود کو پہلے سے بہت بہتر محسوس کررہی تھی لیکن ایک بات نے اسے پریشان کررکھا تھا کہ ڈاکٹر ایلن اس کے لیے ڈاکٹر سے کچھ زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا تھا۔
وہ ہر آنے والی ملاقات کا انتظار بے تابی سے کرتی تھی۔ اس کی ہر بات، اس کا ہر انداز، اس کی نگاہیں، اس کی گفتگو اس کے دل میں گھر کرنے لگی تھی۔ وہ پریشان ہوجاتی۔ وہ خود کو ملامت کرنے لگتی۔ اس کے لیے ایسا سوچنا مناسب نہیں تھا۔ وہ ایک شادی شدہ انسان تھا۔ اسے اس کے گھر میں دراڑ نہیں ڈالنی چاہیے تھی۔
لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتی جس کی دھڑکنوں میں ڈاکٹر ایلن چپکے سے بس گیا تھا اور اسے خبر بھی نہیں ہوئی تھی۔ جب اسے اگلی ملاقات کے لیے ڈاکٹر ایلن کے کلینک جانا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے ڈاکٹر ایلن کا علاج چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ حالات کوئی سنگین رخ اختیار کریں۔ لہٰذا آج اسے ڈاکٹر ایلن کو الوداع کہہ دینا چاہیے۔ اس سے کبھی نہ ملنے کے لیے۔
وہ مقررہ دن اس کے کلینک میں داخل ہوئی تو اس کا دل اداسی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈاکٹر ایلن معمول کی گفتگو کررہا تھا۔ اس سے مختلف سوال پوچھ رہا تھا لیکن کیتھرین کا دھیان اس طرف بہت کم تھا۔ وہ اندر ہی اندر کچھ اور سوچ رہی تھی۔ وہ اپنے پاگل دل کے فیصلوں کو اپنے دل میں کمزور پڑتے ہوئے محسوس کررہی تھی۔ پھر اس نے غیر ارادی طور پر بغیر سوچے سمجھے ڈاکٹر ایلن سے پوچھا۔ ’’تمہاری شادی کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟‘‘
’’شادی؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا اور کیتھرین کی نگاہ کے تعاقب میں اس نے دیکھا کہ وہ میز پر پڑی تصویر کی طرف دیکھ رہی ہے۔
’’اوہ! وہ میری بہن اور اس کے بیٹے کی تصویر ہے۔‘‘
کیتھرین کے اندر سے بے ساختہ خوشی کی ایک لہر سی پھوٹی۔ ’’اوہ! یہ تو بہت اچھا ہے۔‘‘ پھر وہ فوراً ہی سنبھلی۔ ’’میرا مطلب ہے۔ تصویر بہت اچھی ہے۔‘‘
’’ہاں! میری بہن اس سے زیادہ خوبصورت ہے۔‘‘ وہ بولا۔
’’تو تم شادی شدہ نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد کچھ سوچ کر بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہماری کافی نشستیں ہوچکی ہیں، اب تم ٹھیک ہو۔ اس لیے آج ہماری آخری نشست ہوگی۔‘‘
کیتھرین کا دل ڈوبنے لگا۔ ’’کیوں؟ کیا کچھ غلط ہوگیا ہے؟‘‘ اس نے بمشکل کہا۔
’’نہیں… نہیں۔ دراصل میرے پیشے میں یہ بات میرے نزدیک غیر اخلاقی ہے کہ کوئی ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق محسوس کرنے لگے۔‘‘
کیتھرین کی آنکھوں میں ایک چمکتی ہوئی خوشگوار حیرت اتری۔ ’’تمہارا مطلب ہے کہ تم میرے ساتھ…‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ کر مفہوم کو اپنی مسکراتی نگاہوں سے مکمل کیا۔
’’ہاں!‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’اور اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ…‘‘
’’اور میں چاہتی ہوں کہ اس پر گفتگو ہم آج رات ڈنر پر کریں۔‘‘
وہ ہنسا۔ ’’اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘
اسی رات وہ ایک چھوٹے سے خوبصورت ریسٹورنٹ میں ملے جہاں ماحول رومانی اور پرسکون تھا اور وہ دونوں اپنی باتوں میں اس قدر ڈوب چکے تھے کہ دونوں کو کھانے کا ہوش نہیں رہا تھا جو ابھی ابھی انہوں نے منگوایا تھا۔
کیتھرین نے آہستگی سے کہا۔ ’’ایلن! تم تو میرے بارے میں سب کچھ جانتے ہو۔ مگر تم نے مجھے اپنے بارے کچھ نہیں بتایا۔ کیا تم نے شادی نہیں کی؟‘‘
’’ہم نے منگنی کی تھی اور شادی کرنے والے تھے۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’پھر؟‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
’’پھر وہ دہشت گردی کی ایک واردات کی بھینٹ چڑھ کر مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی۔‘‘ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’اوہ۔ ایلن! مجھے بہت افسوس ہے۔‘‘
’’مجھے اس حادثے کو بھلانے میں بہت وقت لگا۔ مجھے کبھی کوئی ایسا نہیں ملا جو اس کی جگہ لے سکتا۔ ابھی تک…‘‘ اس کی نگاہوں کا زاویہ کیتھرین پر مرکوز ہوا لیکن اس نے لبوں سے کچھ نہیں کہا۔
وہ دونوں ریسٹورنٹ میں تقریباً چار گھنٹے بیٹھے رہے اور انہوں نے ہر موضوع پر بات کی۔ موسیقی، ڈرامہ، طب، سیاست اور نہ جانے کیا کیا کچھ لیکن جو دل کی اصل باتیں تھیں، وہ کسی کی زبان پر نہیں آئیں مگر سب سے زیادہ اظہار ان ہی جذبوں کا ہوا جو دونوں کے دلوں میں دھڑک رہے تھے۔ دونوں اس کو محسوس بھی کررہے تھے۔ جب وہ وہاں سے اٹھے تو ان کے درمیان ایک اَن دیکھا تعلق استوار ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭
کیتھرین کو اخبار کی سرخیوں سے ڈیمارس کی گرفتاری کے بارے میں علم ہوا تھا کہ اس پر اس کی بیوی کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ یہ اس کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ آفس آئی تو آفس کا ہر کارکن پریشان تھا۔
اس کی ساتھی روہانسی ہوکر بولی۔ ’’کیتھرین! دیکھو۔ یہ کیا ہوگیا ہے۔ اب ہم لوگ کیا کریں گے؟‘‘
’’جس طرح ہم پہلے کام کرتے تھے۔ ہم اسی طرح کرتے رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ مسٹر ڈیمارس کو کسی غلط فہمی کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ بہت جلد واپس آجائیں گے۔ میں ان کو فون کرنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
مگر ڈیمارس سے بات ہونا بہت مشکل تھی۔ وہ ایک ایسا قیدی تھا جسے خاص حفاظت میں رکھا گیا تھا۔ اس کے وکیل کے علاوہ کوئی اور اس سے نہیں مل سکتا تھا۔ نہ بات کرسکتا تھا۔
ڈیمارس جیل کی کوٹھری میں بیٹھا اس انقلاب پر حیرت زدہ تھا۔ وہ کس طرح آسمان سے زمین پر آن گرا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ سب کچھ میلانیا کا کیا دھرا تھا۔ اس نے خودکشی کی تھی لیکن ایسے حالات پیدا کرگئی تھی کہ سارا الزام ڈیمارس پر آئے۔ دونوں بہن، بھائی میں بہت محبت تھی اور اس نے یقیناً یہ سب اپنے بھائی کے لیے کیا تھا۔ وہ اس کا ارادہ بھانپ گئی تھی کہ وہ اس کے بھائی کی جان کا دشمن بن چکا تھا۔
ڈیمارس کی آنکھوں کے سامنے نولی اور لیری کی صورتیں گھوم رہی تھیں۔ جب کمرئہ عدالت میں انہیں گرفتار کیا جارہا تھا تو لیری چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا لیکن کوئی اس کی نہیں سن رہا تھا۔ اسی طرح وہ بھی ایسے ہی حالات میں گھر کر رہ گیا تھا۔ وہ باربار کہتا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا لیکن کوئی اس کی بات نہیں سنتا تھا۔
جیلر نے دروازے پر آکر کہا۔ ’’اس کا وکیل اس سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘
ڈیمارس اپنی جگہ سے اٹھا اور جیلر کے پیچھے دوسرے کمرے میں پہنچا۔ جیلر نے کرخت لہجے میں حکم سنایا۔ ’’تمہارے پاس پندرہ منٹ ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔
ڈیمارس نے وکیل کو مخاطب کیا۔ ’’تم مجھے کب یہاں سے نکالو گے؟‘‘
وکیل نے اپنے ہونٹوں کو تر کیا اور کچھ دیر سوچ کر بولا۔ ’’مسٹر ڈیمارس! ضمانت منظور نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی مشکل کا سامنا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ ڈیمارس نے استفسار کیا۔
’’آپ کی بیگم کے بھائی نے پولیس سے رابطہ کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ ایک عورت کیتھرین ڈگلس ابھی تک زندہ ہے جس کے قتل کے الزام میں دو لوگوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔‘‘
ڈیمارس سناٹے میں آگیا۔ اس اچانک گرفتاری کی وجہ سے وہ بھول ہی گیا تھا کہ جو گروہ اس نے کیتھرین کو ختم کرنے کے لیے بھیجا تھا اس نے اپنا کام کیا ہے یا نہیں۔ کیتھرین کا زندہ رہنا اس کے لیے موت کا پیغام تھا۔ اس طرح اس پر دو مزید لوگوں کے قتل کا الزام آرہا تھا۔ وہ آگے جھکا اور اس نے سختی کے ساتھ وکیل کا بازو پکڑا۔ ’’میری بات غور سے سنو! میرا ایک پیغام فوراً ہیڈ آفس میں بھیجو۔ اس میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
٭…٭…٭
تقریباً سب لوگ آفس سے جا چکے تھے۔ کیتھرین ان کے قدموں کی آواز سن رہی تھی۔ اس نے بھی اپنا کام سمیٹا، کوٹ پہنا اور پرس اٹھا کر راہداری کی طرف جارہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ وہ چند لمحے متذبذب رہی کہ فون سننے کے لیے واپس جائے یا نہیں۔
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ بالآخر وہ پلٹ آئی، کہیں کوئی ضروری کال نہ ہو۔ اس نے ریسیور اٹھایا۔ ’’ہیلو!‘‘
’’کیتھرین!‘‘ دوسری طرف ڈاکٹر ایلن تھا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ ’’شکر خدایا کہ تم مل گئیں۔‘‘
’’خیریت تو ہے ایلن؟‘‘
’’نہیں خیریت نہیں۔ تم خطرے میں ہو… کوئی تمہیں قتل کرنے کی کوشش میں ہے۔‘‘
کیتھرین کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ کیا اس کا ڈرائونا خواب حقیقت میں بدلنے والا تھا۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔ ’’کون؟‘‘
’’مجھے اس کا علم نہیں۔ تمہارے آفس کا ایک شخص میرا مریض ہے۔ آج کی نشست میں اس نے اچانک یہ بات کہہ دی کہ تمہیں قتل کرنے کے لیے کوئی پیغام آیا ہے مگر تم گھبرائو مت! تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ تم جہاں ہو، وہیں رہو۔ کسی سے کوئی بات نہ کرنا۔ میں تمہیں لینے آرہا ہوں۔‘‘
’’ایلن میں…‘‘ وہ خشک حلق کے ساتھ آگے کچھ نہیں کہہ پائی۔
’’گھبرائو نہیں۔ ہمت کرو۔ میں چل پڑا ہوں۔ تم اپنا کمرہ لاک کرلو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
کیتھرین نے آہستہ سے ریسیور رکھ دیا۔ ’’اوہ… میرے خدایا!‘‘ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
اچانک اسٹاوچ نے راہداری سے گزرتے ہوئے اندر جھانکا۔ وہ تیز قدموں سے اندر آگیا اور بولا۔ ’’مس کیتھرین! خیریت ہے۔ آپ گھبرائی ہوئی کیوں ہیں؟‘‘
اسے دیکھ کر کیتھرین کو حوصلہ ہوا۔ ’’کوئی… کوئی مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’کون ایسا کرنا چاہتا ہے؟‘‘
مرکزی دروازے پر دستک ہوئی۔ کیتھرین لرز گئی۔ اسٹاوچ نے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’میں دیکھوں۔ کون ہے؟‘‘
’’نہیں…نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر ایلن مجھے لینے کے لیے آنے والے ہیں۔‘‘
دستک پھر ہوئی اور پہلے سے زیادہ زور سے… اسٹاوچ بولا۔ ’’مس کیتھرین! آپ تہہ خانے میں چھپ جائیں۔ وہاں آپ محفوظ رہیں گی۔‘‘
کیتھرین کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اسے یہ تجویز بہتر معلوم ہوئی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’آپ کو وہاں ڈر تو نہیں لگے گا؟‘‘
’’نہیں!‘‘
اسٹاوچ نے ایک لائٹ جلائی۔ ’’میرے ساتھ آجائیں۔‘‘ وہ راہداری کے پچھلے دروازے پر آگئے جو بیسمنٹ میں جاتا تھا۔
’’جب ڈاکٹر ایلن آجائیں تو انہیں بتا دینا کہ میں یہاں ہوں۔‘‘ کیتھیرین نے کہا۔
’’یہاں کوئی بھی آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ وہ تسلی آمیز لہجے میں بولا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد پوچھا۔ ’’آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ کون آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔ مجھے کچھ پتا نہیں۔‘‘ کیتھرین نے پریشانی سے کہا۔
’’مگر میں جانتا ہوں۔‘‘ وہ مدھم لہجے میں بولا۔
’’کون؟‘‘ کیتھرین نے پوچھا۔
’’میں!‘‘
کیتھرین نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’نہیں!‘‘
اس نے اچانک جیب سے چاقو نکال کر اس کا بٹن دبایا۔ اس کا چمکتا ہوا پھل باہر آگیا۔ وہ اس کی نوک کیتھرین کی گردن پر رکھ کر بولا۔ ’’ہاں! میں تمہیں قتل کروں گا۔‘‘
’’اسٹاوچ! یہ مذاق کا کونسا وقت ہے؟‘‘ کیتھرین نے کہا۔
اسٹاوچ نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ ’’میں مذاق نہیں کررہا۔ نہ ہی مجھے مذاق کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا رویہ تمہیں حیران کررہا ہے۔ میں وہ سہما ہوا معصوم لڑکا نہیں ہوں بلکہ میں ایک بہت اچھا اداکار ہوں۔ میں تیس سال کا ہوں مگر پندرہ سال کا لگتا ہوں۔ تم جانتی ہو۔ کیوں؟ کیونکہ مجھے کبھی کھانے کے لیے اتنا نہیں ملا جو میرا پیٹ بھر سکے۔ میں کچرے سے اپنی خوراک تلاش کرکے کھاتا تھا راتوں کو چھپ چھپ کے۔‘‘ وہ اس کی گردن پر چاقو رکھے ہوئے اسے دیوار کے ساتھ لگا رہا تھا۔ ’’میں نے بچپن میں اپنے گھر پر غنڈوں کو حملہ کرتے دیکھا ہے۔ میں نے اپنی ماں کے ساتھ ان کی بدسلوکی دیکھی ہے۔ میں نے اپنے ماں، باپ کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
’’لیکن میں نے تو ہمیشہ تم سے اچھا سلوک کیا ہے۔ میں نے کبھی…‘‘
’’یہ ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ یہ بزنس ہے۔ مجھے ساری زندگی ایسا سنہری موقع کبھی نہیں مل سکتا۔ اگر میں اس سے فائدہ نہیں اٹھائوں گا تو میں ہمیشہ آفس بوائے بن کر ذلیل ہوتا رہوں گا۔ تم میرے لیے پچاس لاکھ کی اسامی ہو… میں ساری زندگی کوشش کروں۔ تو بھی اتنا پیسہ کبھی اکٹھا نہیں کرسکتا۔‘‘
کیتھرین کو اس کا چاقو اپنی گردن میں پیوست ہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کے حلق سے آواز نہیں نکلی۔ ’’اگر میرے پاس وقت ہوتا تو میں تمہیں قتل کرنے میں زیادہ وقت لگاتا مگر اب مجھے سب کچھ جلدی کرنا ہوگا۔ میں تمہیں ویسے ہی ماروں گا جس طرح غنڈوں نے میری ماں کو میری آنکھوں کے سامنے مارا تھا۔‘‘
’’دیکھو۔ میں تمہیں اس سے زیادہ رقم دے سکتی ہوں۔‘‘ کیتھرین نے بمشکل کہا۔
’’بکواس مت کرو۔‘‘ اسٹاوچ نے ایک اور زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ کیتھرین لڑکھڑا کر رہ گئی۔
’’چلو۔ وہاں۔ اس لکڑی کی بینچ پر بیٹھ جائو۔‘‘ اس نے حکم دیا۔
کیتھرین ڈرتے ڈرتے اس نشست کی طرف بڑھی۔
’’ہاں! ٹھیک ہے۔‘‘ وہ بولا۔ لمحے بھر کو اس کا دھیان دوسری طرف ہوا۔
بغیر سوچے سمجھے کیتھرین سیڑھیوں کی طرف دوڑی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے بھاگنے میں جان کی بازی لگا دی اور گرتی پڑتی آخری سیڑھی تک پہنچی ہی تھی کہ ایک مضبوط ہاتھ نے اس کی ٹانگ کو پکڑ کر کھینچ لیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
اسٹاوچ نے اسے بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے نزدیک لاتے ہوئے کہا۔ ’’اب اگر تم نے کوئی ایسی کوشش کی تو میں تمہاری دونوں ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘ اس نے چاقو اس کی پشت میں چبھوتے ہوئے کہا۔ ’’چلو… آگے…‘‘ وہ اسے نشست کے قریب لایا لیکن اس پر بٹھانے کے بجائے اس نے کیتھرین کو لکڑی کے ستون کے ساتھ زمین پر بٹھا دیا۔
کیتھرین خوف سے لرز رہی تھی۔ اس میں ہلنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی۔ وہ اسٹاوچ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ دور پڑے ہوئے کارڈ بورڈ کے ڈبوں پر بندھی ہوئی مضبوط ڈوری اپنے چاقو سے کاٹ کر لایا اور اس کے قریب آکر بولا۔ ’’اپنے دونوں ہاتھ ستون کے پیچھے لے جائو۔‘‘
’’پلیز اسٹاوچ…‘‘ کیتھرین نے اس کی منت کرنا چاہی۔
اس نے اس کے چہرے پر الٹے ہاتھ کا تھپڑ مارا اور اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لا کر دانت پیستے ہوئے بولا۔ ’’میرے سامنے کبھی کسی بات کے لیے انکار نہ کرنا۔ جو میں کہتا ہوں۔ وہ کرو۔ اس سے پہلے کہ میں تمہاری یہ خوبصورت گردن کاٹ دوں۔‘‘
کیتھرین نے اپنے دونوں ہاتھ ستون کے پیچھے رکھے اور اسٹاوچ نے انہیں ڈوری کے ساتھ اتنی مضبوطی سے باندھے کہ کیتھرین کو اپنی کلائیوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
’’اوہ… اسٹاوچ۔ یہ بہت سخت ہے۔‘‘ وہ کراہی۔
’’بالکل ٹھیک! میں یہی چاہتا تھا۔‘‘ وہ مسکرایا اور اس نے ڈوری کا دوسرا ٹکڑا لے کر اس کی دونوں ٹانگوں کو ٹخنوں سے مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ ’’اگر تمہارا وہ بدمعاش ڈاکٹر دوست یہاں نہ آرہا ہوتا تو ہمارے پاس کافی وقت تھا۔ میں نے تمہیں بتایا کہ ان غنڈوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری ماں کے ساتھ کیا کیا تھا۔ افسوس کہ اب وقت نہیں ہے۔ اس لیے مجھے سارا کام جلدی جلدی کرنا ہوگا۔‘‘
’’تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ کیتھرین نے خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں اس تمام معاملے کو ایک حادثہ بنائوں گا کیونکہ باس یہی چاہتا ہے کہ تمہاری لاش کی شناخت نہ ہوسکے۔‘‘
’’کون باس؟‘‘
’’مسٹر ڈیمارس۔ میں تمہاری موت کا منظر اتنا فطری بنائوں گا کہ مسٹر ڈیمارس خوش ہوکر مجھے دگنی رقم دیں گے۔‘‘ وہ خوش ہوتے ہوئے بولا۔ کیتھرین کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی جانب تکنے لگی۔
تہہ خانے میں لگا ہوا بڑا بوائلر جو تمام بلڈنگ کو گرم رکھتا تھا، وہ اس کے قریب گیا اور اس کی بیرونی پلیٹ علیحدہ کرلی۔ وہ کچھ دیر تک اس کے ساتھ کچھ ٹھوکا ٹھاکی کرتا رہا۔ پھر کیتھرین کے قریب آکر بولا۔ ’’یہ بوائلر آخرکار پھٹ جائے گا۔ میں نے اسے اس طرح سیٹ کردیا ہے کہ جب اس کا ڈائل چار سو ڈگری پر پہنچے گا تو یہ ایک دھماکے سے پھٹے گا۔ پھر تم جانتی ہو۔ کیا ہوگا؟ گیس کے پائپ پھٹ جائیں گے۔ اس کی گرم پلیٹوں کی وجہ سے انہیں آگ لگ جائے گی۔ اس سے اتنا زبردست دھماکا ہوگا کہ ساری کی ساری بلڈنگ بم کی طرح اڑ جائے گی۔‘‘
’’خدا کے لیے اسٹاوچ! ایسا نہ کرو۔ اس بلڈنگ میں بہت سے معصوم لوگ ہیں۔‘‘ کیتھرین نے روتے ہوئے کہا۔
’’یہاں کوئی معصوم نہیں ہے۔ سب اس قابل ہیں کہ انہیں دھماکے سے اڑا دیا جائے۔‘‘ پھر اس نے ڈوری کی گرہیں دیکھیں کہ وہ ٹھیک سے بندھی ہوئی ہیں یا نہیں۔ کیتھرین کی کلائیوں سے خون رس رہا تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس سے بولا۔ ’’گڈ بائے کیتھرین! گڈ لک…‘‘
’’پلیز! مجھے چھوڑ کر مت جائو۔‘‘ کیتھرین نے منت کی۔ ’’ہم بات کرسکتے ہیں۔‘‘
’’میں نے ابھی فلائٹ پکڑنی ہے۔ میں اپنا کام کرکے واپس جارہا ہوں۔‘‘ وہ سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ ’’لائٹ جل رہی ہے تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ یہ سب کس طرح سے ہوگا۔ مجھے امید ہے یہ سب تمہیں بہت دلچسپ لگے گا۔‘‘
وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں کیتھرین نے بھاری دروازے کے بند ہونے اور اس کے بولٹ لگنے کی آواز سنی۔ اس کے بعد چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ کیتھرین بیسمنٹ میں اکیلی رہ گئی۔ اس کا دل جیسے اس کے سینے کی دیواریں توڑنے لگا۔ وہ وحشت زدہ آنکھوں سے بوائلر کے ڈائل کی طرف دیکھنے لگی۔ ٹھنڈے پسینے کی ایک دھار سی اس کی پشت پر رینگنے لگی۔
ڈائل کی سوئی حرکت میں تھی۔ وہ ایک سو ساٹھ ڈگری سے ایک سو ستر تک پہنچی اور پھر مسلسل آگے بڑھنے لگی۔ آزمائش کا وقت لمحہ لمحہ قریب آنے لگا۔ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ کم ہونے لگا۔
کیتھرین نے دیوانہ وار خود کو ڈوری کی مضبوط بندھی ہوئی گرہوں سے آزاد کرنے کی کوشش کی مگر اس کی گرہیں اور زیادہ مضبوط ہوتی گئیں۔ وقت گزرتا جارہا تھا۔ ڈائل کی سوئی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ ایک ہندسے سے دوسرے ہندسے کی طرف… ڈائل پر ایک سو اسی کا ہندسہ دکھ رہا تھا مگر نجات کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ساری امیدیں دم توڑتی جارہی تھیں۔ وہ خود کو ایک اذیت ناک موت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کررہی تھی۔
ڈاکٹر ایلن ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اگر وہ آ بھی جاتا تو بھی اسے کون بتائے گا کہ وہ بیسمنٹ میں ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ خود کو آفس میں لاک کرلے۔ وہ اسے وہیں تلاش کرے گا لیکن اس وقت تک دھماکا ہوگیا تو…!
’’اوہ خدایا! کہیں ڈاکٹر ایلن اس کا شکار نہ ہوجائے۔‘‘ وہ پریشانی میں سوچنےلگی۔ بے بسی کے اس عالم میں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ موت اس کی آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھی۔ ڈائل پر سوئیوں کا سفر جاری تھا۔ اس وقت وہ دو سو پچاس ڈگری پر تھیں۔ کمرے میں گرمی بڑھنے لگی تھی۔
اسے کچھ کرنا ہوگا۔ اتنی آسانی سے وہ خود کو موت کے حوالے نہیں کرے گی۔ اسے خود کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگانی ہوگی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ کسی ایسی چیز کی تلاش میں جس سے وہ ڈوری کو کاٹ سکے۔ اچانک اس کی نظر شیشے کی ایک بوتل پر پڑی جو شاید کسی نے مشروب پی کر وہاں پھینک دی تھی۔
امید کی ایک کرن تو چمکی تھی لیکن بوتل اس کی پہنچ سے دور تھی۔ کیتھرین نے پورا زور لگا کر خود کو ستون کے ساتھ گھسٹتے ہوئے نیچے ہونے کی کوشش کی کہ اپنے پائوں بوتل تک پہنچا سکے۔ مسلسل کوشش سے اس کی پشت چھلنے لگی۔ اس کی کلائیوں میں رسی اس کی جلد کے اندر گھس گئی۔ درد کی شدت میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ وہ گھسٹ گھسٹ کر خود کو بوتل کے قریب کرنے میں مسلسل لگی رہی۔ بڑی احتیاط سے اس نے پائوں آگے بڑھائے کہ کہیں بوتل ٹھوکر لگنے سے آگے نہ لڑھک جائے۔
وہ اور نیچے کھسکی۔ اب بوتل اس کی پہنچ میں تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ بوتل کی گردن کو اس رسی میں پھنسایا جو اس کے ٹخنوں میں بندھی تھی۔ پھر اس نے آہستگی کے ساتھ بوتل کو اپنے قریب کھینچ لیا اور پھر ایک نظر بوائلر کے ڈائل پر ڈالی۔ سوئی دو سو اسی ڈگری تک پہنچ چکی تھی۔ حدت بڑھتی جارہی تھی۔
اس نے اپنی ٹانگوں کو دہرا کرکے بوتل کو اپنی پشت کی طرف پہنچایا یہاں تک کہ اس نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں سے اسے پکڑ لیا لیکن اس کے ہاتھ سختی سے بندھے ہونے کی وجہ سے سن ہوچکے تھے۔ کلائیوں سے بہنے والے خون کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں پھسلن سی ہورہی تھی جس کی وجہ سے بوتل اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ ڈائل کی سوئی تین سو پر پہنچ چکی تھی۔ گرمی ناقابل برداشت ہوچکی تھی۔ بوائلر سے بھاپ خارج ہونے لگی تھی۔
اس نے پوری ہمت جمع کرکے بوتل کو گرفت میں لیا۔ اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور بوتل کو زور کے ساتھ ستون پر باربار مارا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وہ گھبرا کر بلند آواز میں رونے لگی۔
اس نے ڈائل پر نگاہ ڈالی۔ سوئی تین سو پچاس پر پہنچ گئی تھی۔ وقت اس کے ہاتھ سے نکلتا جارہا تھا۔ یہ آخری موقع تھا۔ اس نے ایک لمبا سانس لے کر بوتل کو پھر پورے زور سے ستون کے ساتھ مارا۔ ایک چھناکا ہوا اور بوتل ٹوٹ گئی۔ کیتھرین نے ایک ہاتھ سے اسے پکڑا اور ڈوری کو کاٹنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کی کلائیاں زخمی ہونے لگی تھیں مگر وہ درد کی شدت برداشت کر گئی۔
کلائیوں کی چوٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ اپنی کوشش میں لگی رہی۔ اچانک اسے لگا کہ اس کے ہاتھوں پر ڈوری ڈھیلی ہوگئی ہے۔ اس نے زور لگایا تو دفعتاً اس کے ہاتھ مکمل طور پر آزاد تھے۔ اس نے جلدی جلدی بندھے ہوئے پائوں کھولے۔
ڈائل کی سوئی تین سو اسی پر تھی۔ بوائلر سے بہت گاڑھی بھاپ خارج ہورہی تھی۔ سارا بیسمنٹ تنور کی طرح تپ رہا تھا۔ کیتھرین بمشکل اپنے پائوں پر کھڑی ہوئی۔
اسے یاد تھا کہ اسٹاوچ نے کہا تھا کہ جب ڈائل کی سوئی چار سو پر پہنچ جائے گی تو بوائلر دھماکے سے پھٹ جائے گا جو تمام عمارت کو زمین بوس کردے گا۔ اسٹاوچ نے بیسمنٹ کا دروازہ باہر سے بند کردیا تھا۔ کیتھرین کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ دھماکے سے پہلے باہر نکل سکے۔ وہ دوڑ کر بوائلر کے پاس پہنچی کہ اس کے ڈائل کو گھما کر واپس لا سکے مگر وہ جام ہوچکا تھا۔ موت اور زندگی میں چند لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
کیتھرین تیزی سے دوڑتی ہوئی دوسرے دروازے تک پہنچی جہاں بمباری سے بچنے کے لیے ایک بنکر بنایا گیا تھا۔ اس نے اچھل کر اس میں چھلانگ لگائی اور اس کا بھاری دروازہ بند کردیا۔
وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔ وہ کنکریٹ سے بنے ہوئے بنکر میں لیٹی ہوئی تھی۔ دو یا تین سیکنڈ کے بعد ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ تمام کمرہ بری طرح یوں ہلنے لگا جیسے شدید زلزلہ آرہا ہو۔ وہ بنکر میں دبکی ہوئی دھماکوں اور لپکتے شعلوں کی آوازیں سنتی رہی۔
قیامت کے ایک گھنٹے میں کئی دفعہ مری اور کئی بار اس نے خود کو زندہ محسوس کیا۔ جب فائر بریگیڈ کا اہلکار اسے وہاں سے باہر نکال کر لایا تو ڈاکٹر ایلن اس کی طرف دوڑا۔
’’اوہ کیتھرین! میں بہت خوف زدہ تھا کہ شاید ایک بار پھر…‘‘ وہ بات مکمل نہیں کرسکا۔ اس کی آواز بھرا گئی۔
٭…٭…٭
ڈیمارس کے مقدمے کی عدالتی کارروائی سے پانچ دن پہلے جیلر نے اس کی کوٹھری کا دروازہ کھولا اور بتایا۔ ’’مسٹر ڈیمارس! آپ کی ملاقات آئی ہے۔‘‘
ڈیمارس نے بیزاری سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جیل والوں کے رویّے سے تنگ آچکا تھا۔ وہ اسے ایک عام ملزم کی طرح سمجھتے تھے۔ ان کا برتائو ناقابل برداشت تھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ جیلر کے پیچھے چل پڑا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے وکیل کے علاوہ کسی کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں۔
ڈیمارس ملاقات کے چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا اور فوراً ہی رک گیا۔ ایک بوڑھا، معذور شخص وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے بال برف کی طرح سفید تھے اور اس کے چہرے پر سرخ و سفید نشانوں کی کثرت تھی جو جلنے کے نشانات معلوم ہوتے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ خوفناک معلوم ہورہی تھی۔ ڈیمارس کو اسے پہچاننے میں کچھ دیر لگ گئی پھر وہ پریشان ہوکر اتنا ہی کہہ سکا۔ ’’اوہ… میرے خدا!‘‘
’’میں کوئی روح یا بدروح نہیں ہوں۔ ڈیمارس! اندر آجائو۔‘‘ وہ بولا تو اس کی آواز نے اس کی شناخت کی تصدیق کردی۔
’’چوٹاس! تم؟‘‘ ڈیمارس نے بے یقینی سے کہا۔
’’ہاں۔ میں اٹارنی چوٹاس۔ تم نے تو مجھے آگ میں جلوا ہی دیا تھا لیکن میں نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی تھی۔ جس سے میری ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا۔ میرے بٹلر نے میری زندگی بچائی۔ میں روپوش ہوگیا کیونکہ میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ میں زندہ ہوں۔ میں ایک معمولی وکیل تم جیسے بااثر انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔‘‘
ڈیمارس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ تم زندہ ہو۔‘‘
’’ہاں۔ تمہیں خوش ہونا ہی چاہیے کیونکہ میں تمہاری زندگی بچانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا واقعی!‘‘ ڈیمارس نے فوراً کہا۔ ’’اتنے عرصے سے مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔ اب مزید بنانا چاہتے ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنی زندگی تمہارے ہاتھ میں دے دوں گا۔‘‘
’’تمہیں یہ کرنا پڑے گا کیونکہ صرف میں ہی ہوں جو تمہیں بچا سکتا ہوں۔‘‘
’’مہربانی! تم مجھ پر یہ احسان نہ کرو تو بہتر ہے۔‘‘ ڈیمارس اٹھ کر دروازے کی طرف چلا۔
’’میں میلانیا کے بھائی سے ملا تھا… میں تمہارے مقدمے کو شروع سے بڑی گہری نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ جس دن میلانیا کا قتل ہوا، اس روز تم سپائرس سے تین بجے ملے تھے جو میلانیا کے قتل کا وقت تھا مگر سپائرس نے اپنی دشمنی اور نفرت کی وجہ سے پولیس کے سامنے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کہ اس روز تین بجے تم سپائرس کے ساتھ تھے لیکن میں نے اسے قائل کرلیا ہے کہ اب وہ عدالت میں یہ تسلیم کرے گا کہ جب میلانیا کا قتل ہوا تم اس کے ساتھ تھے۔‘‘
’’مگر کیوں؟ وہ ایسا کیوں کرے گا۔ وہ میرا جانی دشمن ہے۔‘‘
’’کیونکہ میں نے اسے سمجھایا ہے کہ وہ تمہاری زندگی لینے کے بجائے تمہیں زندہ رہنے دے اور تم سے زیادہ سخت انتقام لے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں نے سپائرس کو سمجھایا ہے کہ اگر وہ عدالت میں تمہارے حق میں بیان دے گا تو اس کے بدلے میں تم اپنی ہر چیز اسے دے دو گے۔ تمہارا بحری بیڑا، تمہاری کمپنیاں، بینک جو کچھ بھی تمہاری ملکیت ہے۔ وہ سب کچھ۔‘‘
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘
’’پاگل تم ہو۔ اگر تمہیں سزائے موت ہوجاتی ہے جو یقینی ہے تو تمہاری اس تمام دولت کا کیا فائدہ ہوگا تمہیں۔ لیکن اگر تم زندہ رہے تو پھر اپنی محنت سے یہ سب کچھ حاصل کرلو گے۔‘‘
’’اور تم کیا لو گے؟ ظاہر ہے تم مفت میں تو یہ کام نہیں کررہے۔‘‘ ڈیمارس طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’تم بظاہر اپنے تمام اثاثے سپائرس کو منتقل کرو گے لیکن درحقیقت تم ایک نئی کمپنی بنا کر خفیہ طور پر اپنے یہ اثاثے میرے نام کردو گے۔‘‘ وہ شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
وہ کچھ دیر سوچ کر بولا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ سپائرس کو کچھ نہیں ملے گا۔‘‘
’’ہاں! میں اسے ایسا چکمہ دوں گا کہ اسے پتا بھی نہیں چلے گا کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے۔ آخر اسے جھوٹ بولنے کی کچھ سزا تو ملنی چاہیے۔‘‘ وہ آنکھ دبا کر بولا۔
’’مگر میرے پاس اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم ایسا چکمہ مجھے نہیں دو گے۔‘‘
چوٹاس ہنسا۔ ’’ہم باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ کریں گے اور اس کے مطابق تمام معاملات طے کیے جائیں گے۔‘‘
ڈیمارس دل ہی دل میں غور کرتا رہا کہ یہ معذور شخص اس تمام سودے میں مجھ سے بھی انتقام لے رہا ہے۔ مجھے کوڑی کوڑی کا محتاج کرکے مگر یہ نہیں جانتا کہ جیل کی سلاخوں سے باہر آکر میں اس سے زیادہ ہوشیار اور بااختیار ہوں گا۔ اس نے بظاہر اثبات میں سر ہلایا۔ ’’ٹھیک ہے میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔‘‘
٭…٭…٭
میڈیا اور لوگوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز اور دلچسپ خبر تھی کہ ڈیمارس جیسے صاحب اختیار شخص پر اس کی بیوی کے قتل کا مقدمہ چلایا جارہا تھا اور ایک ایسا وکیل جو جرم و سزا کے مقدموں میں کرشمے دکھایا کرتا تھا، ڈیمارس کی پیروی کررہا تھا۔ معذور حالت میں، وہیل چیئر پر بیٹھ کر ایک طویل عرصہ گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد۔
دس دن تک مقدمہ مسلسل چلتا رہا۔ سب لوگ چوٹاس کی مہارت کے قائل ہوگئے تھے۔ اس نے بڑی عمدگی سے مقدمہ لڑا اور اپنے موکل کا دفاع بڑی مہارت سے کیا۔ جتنے دن یہ مقدمہ چلتا رہا، کمرئہ عدالت کھچا کھچ بھرا رہتا اور لوگ چوٹاس کا کرشمہ دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے۔
عدالت نے فیصلہ سنایا۔ ڈیمارس نے مقدمہ جیت لیا تھا۔ فیصلہ اس کے حق میں تھا۔ چوٹاس نے کارنامہ کر دکھایا تھا۔ ڈیمارس کا دل اطمینان سے بھر گیا۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے قدموں پر کھڑا ہوا اور چوٹاس کے قریب آکر بولا۔ ’’چوٹاس… تم نے یہ کر دکھایا۔ میں تمہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ تم جو مانگو گے میں تمہیں دوں گا۔‘‘
چوٹاس ہنسا۔ ’’ڈیمارس شکریہ! مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ اب میں سرمایہ دار ہوں اور تم قلاش… تم کچھ دینے کے قابل نہیں لیکن اس فتح کی خوشی ہم ضرور منائیں گے۔ یہ مقدمہ جیتنا کچھ آسان نہیں تھا۔ تم نے اپنی زندگی بہت بھاری قیمت پر حاصل کی ہے۔‘‘
’’جیسا تم کہو۔‘‘ ڈیمارس بولا اور چوٹاس کی وہیل چیئر دھکیلتا ہوا، اخباری نمائندوں کو ٹالتا، میڈیا کے کیمروں سے بچتا بچاتا وہ پارکنگ لاٹ میں آگیا۔
’’میری کار وہاں کھڑی ہے۔‘‘ چوٹاس بولا۔
’’تم نے کوئی شوفر نہیں رکھا؟‘‘
’’نہیں! مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنی یہ کار کمپنی سے خاص طور پر بنوائی ہے۔ میں اسے آسانی سے چلا سکتا ہوں۔ مجھے اندر بٹھا دو۔‘‘
ڈیمارس نے اسے کار میں بیٹھنے میں مدد دی اور اس کی وہیل چیئر فولڈ کرکے پچھلی سیٹ پر رکھ دی۔ وہ اس کے برابر بیٹھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج چوٹاس نے بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اسے مقدمہ جتوا دیا تھا۔ اس لیے آج وہ اس کی ساری فرمائشیں پوری کرے گا اور پھر اسے اپنا سب کچھ اس سے واپس لینا ہوگا۔
’’تم واقعی اب بھی دنیا کے بہترین وکیل ہو۔‘‘ ڈیمارس نے مسکرا کر کہا۔
’’ہاں۔‘‘ چوٹاس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اب تم کیا کرو گے ڈیمارس؟‘‘
’’کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔‘‘ ڈیمارس نے اسے مہارت سے گاڑی چلاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ’’تم گاڑی کو بہت اچھے طریقے سے چلا رہے ہو۔‘‘
’’انسان جو چاہے، سیکھ سکتا ہے۔‘‘ وہ گاڑی کو ایک پہاڑی راستے کی طرف موڑتے ہوئے بولا۔
’’ہم لوگ کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’یہاں پہاڑی کے اوپر میرا ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ وہاں ہم کچھ کھائیں پئیں گے اور تم ٹیکسی لے کر واپس چلے جانا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈیمارس نے پُرپیچ پہاڑی راستے کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’ڈیمارس! میں اکثر سوچتا ہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ مل کر نولی اور لیری کو سزائے موت دلوائی۔ میں اس کے لیے خود کو کبھی معاف نہیں کرسکا۔ کیا تمہیں بھی کبھی تمہارا ضمیر ملامت کرتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔ وہ اسی قابل تھی۔ اس نے میرے ساتھ بے وفائی کی تھی۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ آخرکار ہمیں ہمارے اعمال کی سزا ضرور ملتی ہے۔ میں نے تمہیں ایک بات نہیں بتائی۔ جب میرے گھر کو آگ لگی، میں بری طرح سے اس کی لپیٹ میں آگیا تو میں نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر اپنی جان تو بچا لی لیکن میں ہمیشہ کے لیے معذور ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی لیکن وہ مجھے اس معذوری سے نہیں بچا سکے۔‘‘ اس نے گاڑی کا ایک لیور دبایا۔ گاڑی کی رفتار بڑھ گئی جو ایسے پہاڑی سلسلے کے لیے موزوں نہیں تھی۔ وہ کافی اوپر آگئے تھے۔ سمندر بہت دور بہت نیچے رہ گیا تھا۔ لیکن چوٹاس اپنی دھن میں رفتار مزید بڑھا رہا تھا ور اپنی رو میں بولتا جارہا تھا۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ میرے لیے سوہان روح ہے کہ میری زندگی ضائع ہوگئی ہے۔ میں ایک قابل وکیل ہوں لیکن میری حالت ایسی نہیں کہ اپنی پریکٹس کو اچھے انداز میں جاری رکھ سکوں۔ میں زندگی سے اکتا گیا ہوں۔ یہ معذوری کی زندگی جینے کے قابل نہیں۔‘‘ اس نے لیور کو پھر دبایا۔ گاڑی کی رفتار اور بڑھ گئی۔
’’چوٹاس! آہستہ چلو۔ راستہ خطرناک ہے۔ تم بہت تیز جارہے ہو۔‘‘
وہ اَن سنی کرتے ہوئے بولا۔ ’’مجھے اس حالت پر پہنچانے والے تم ہو۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ انجام کو پہنچیں۔‘‘
ڈیمارس نے پلٹ کر خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’یہ تم کس قسم کی باتیں کررہے ہو۔ گاڑی کی اسپیڈ کم کرو۔ تم اپنے ساتھ مجھے بھی مارنے پر تلے ہو۔‘‘
’’تم صحیح سمجھے ہو۔ میں یہی کرنے جارہا ہوں۔‘‘ اس نے پھر لیور دبایا۔ کار خطرناک طریقے سے اچھلی اور تیز رفتاری ہر لحظہ بڑھنے لگی۔
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔ تم کیوں مرنا چاہتے ہو۔ میری سب دولت تمہارے پاس ہے۔ ہوش کے ناخن لو۔‘‘ ڈیمارس نے دُہائی دی۔
وہ ایک خوفناک مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ’’نہیں۔ تمہاری وہ دولت اب میرے پاس نہیں۔ اب میں بھی امیر آدمی نہیں ہوں۔ میں بھی تمہاری طرح قلاش ہوں کیونکہ میں نے تمہاری تمام دولت سسٹر ٹریسا کے نام کردی ہے تاکہ وہ کانوینٹ کی بھلائی کے لیے اس کو خرچ کرے۔‘‘ وہ تیزی کے ساتھ ایک سیدھی ڈھلان پر گامزن تھے جس کے آگے اندھا موڑ تھا۔
’’گاڑی روکو بے وقوف!‘‘ ڈیمارس چلایا۔ اس نے اسٹیئرنگ وہیل کو چوٹاس سے چھیننے کی کوشش کی لیکن اس نے اپنے استخوانی ہاتھ اس پر اس طرح جما رکھے تھے کہ انہیں چھڑانا مشکل تھا۔
’’جو تم کہو گے، میں تمہیں دوں گا۔ چوٹاس! خدا کے لیے گاڑی روکو۔‘‘
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میرے پاس سب کچھ ہے۔‘‘ اگلے ہی لمحے تیز رفتار گاڑی اندھے موڑ کی خطرناک ڈھلان سے اڑتی ہوئی پہاڑی سے ٹکرا کر لڑھکتی ہوئی بالآخر پورے زور کے ساتھ انتہائی بلندی سے سمندر میں جاگری۔ جہاں چند ہی لمحے بعد ایک زور دار دھماکا ہوا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے پیٹرول میں آگ لگ گئی۔ سب کچھ ختم ہوگیا اور چاروں طرف ایک گمبھیر ڈرائونی خاموشی چھا گئی۔ (ختم شد)