پاپا کی جو پہلی یاد اس کے ذہن میں محفوظ تھی۔ وہ مقامی کلب کا وہ چھوٹا سا ہال تھا جہاں وہ اپنے دوستوں کے ہجوم میں لکڑی کی اونچی میز پر کھڑا کردیتے تھے۔ اس وقت اس کی عمر پانچ سال تھی لیکن پھر بھی وہ محسوس کرسکتی تھی کہ پاپا کو اس پر کتنا فخر تھا۔ پاپا اپنے تمام دوستوں کو مشروبات لے کر دیتے اور اسے ہوا میں اچھال کر کہتے۔ ’’یہ ہے میری ننھی پری کیتھرین۔‘‘ ان کے دوست بھی اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریف کرتے اور سارے مل کر خوب ہلا گلا کرتے۔
جانتی تھی کہ وہ جلد ہی پھر سفر پر چلے جائیں گے۔ وہ ایک سیلزمین تھے۔ انہیں مختلف علاقوں میں جاکر کمپنی کا مال فروخت کرنا ہوتا تھا۔ وہ اسے سمجھاتے کہ ان کا جانا ضروری ہے تاکہ وہ بہت سا پیسہ کما سکیں اور کیتھرین اور اس کی ماں کے لیے اچھے اچھے تحفے لا سکیں۔ کیتھرین ان کے ساتھ بحث کرتی کہ وہ کوئی تحفہ نہیں لینا چاہتی۔ اس کی صرف یہ خواہش ہے کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں تو وہ ایک زبردست قہقہہ لگا کر کہتے۔ ’’واہ۔ تم تو بہت پیاری بچی ہو۔‘‘
مگر پھر انہیں جانا ہی پڑتا۔ کئی ماہ بعد ان کی واپسی ہوتی۔ اور گھر خوشیوں سے بھر جاتا۔ کیتھرین کو وہ ایک خوبصورت اور ہنس مکھ انسان کے طور پر یاد تھے۔ جب وہ سات سال کی ہوئی تو انہیں نوکری سے جواب مل گیا۔ وہ اپنے شہر واپس آکر ایک جیولر کے یہاں ملازمت کرنے لگے۔ اب وہ ہر رات گھر آجاتے۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور مزے مزے کی باتیں کرتے۔ کیتھرین کے لیے یہ دن خوشی سے بھرپور تھے۔ اسے محسوس ہوتا کہ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ایک مکمل خاندان ہیں۔
اتوار کو وہ ساحل سمندر پر جاتے، کرائے پر گھوڑے لیتے اور دیر تک گھڑ سواری سے لطف اندوز ہوتے لیکن یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی۔ پاپا کی یہ ملازمت بھی ختم ہوگئی اور انہیں ایک اور قصبے میں رہائش اختیار کرنی پڑی۔ کیتھرین کا اسکول بھی بدل گیا۔ نئے اسکول میں نئے بچوں کے ساتھ دوستی کرنے میں اسے کافی مشکل پیش آئی۔
کم آمدنی کی وجہ سے گھر میں اکثر جھگڑے ہونے لگے۔ پاپا اور ممی میں اکثر تلخ کلامی شروع ہوجاتی جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی۔ ایسے ہی ناقابل برداشت ماحول میں وہ بڑی ہورہی تھی۔ دیکھنے والے اسے خوبصورت کہتے تھے لیکن اس کے لیے یہ بات سوہان روح تھی کہ اگر وہ حسین تھی تو فلم کی اداکارہ کیوں نہیں بن سکتی تھی۔ فلموں کی مشہور اداکارائیں اتنی حسین تو نہیں تھیں لیکن ان کا نام تھا۔ وہ مشہور شخصیات تھیں اور ہزاروں لوگ ان کے پرستار تھے۔ دن، رات وہ اسی خیال میں رہتی تھی کہ کب اسے موقع ملے اور وہ شہرت اور دولت حاصل کرسکے۔
دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے اچانک ممی کا انتقال ہوگیا اور زندگی جیسے ایک دم بدل گئی۔ پاپا کے بھائی انکل رالف بھی تعزیت کے لیے آئے۔ انہوں نے پیشکش کی کہ وہ دونوں یہاں تنہا رہنے کے بجائے ان کے ساتھ چلیں۔ اس کے سوا چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ پاپا کے پاس کوئی ملازمت نہیں تھی۔ انکل نے انہیں اپنے کاروبار میں ہاتھ بٹانے کے لیے کہا تھا۔
کیتھرین پر مایوسی سی چھا گئی تھی۔ اس دور دراز شہر میں اس کے سارے خواب چکناچور ہوجائیں گے لیکن مجبوری تھی۔ اگلے دن وہ پرنسپل سے ملنے گئی تاکہ وہ اس کا ٹرانسفر دوسرے اسکول میں کردیں۔ انہوں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور وہ بات کہی جو اس نے کبھی سوچی بھی نہیں تھی۔
’’مبارک ہو کیتھرین۔ تم نے یونیورسٹی کا اسکالر شپ جیت لیا ہے۔‘‘
کیتھرین کو قسمت کی اس مہربانی پر یقین نہیں آیا۔ وہ بہت دیر تک خود کو یقین دلاتی رہی کہ اس نے جو کچھ سنا ہے، وہ درست ہے۔
گھر آکر اس نے یہ خوشخبری پاپا کو سنائی اور دونوں نے اس پر کافی دیر غور کیا۔ بالآخر پاپا نے طے کیا کہ وہ انکل کے ساتھ چلے جائیں اور کیتھرین یونیورسٹی میں اپنی پڑھائی جاری رکھے۔ پاپا سے بچھڑنے کا جہاں دکھ تھا، وہیں کیتھرین کے اندر وہ پرجوش جذبہ بھی عروج پر تھا کہ وہ ایک آزاد زندگی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جہاں وہ خود مختار ہوگی۔ یہ وہ دروازہ تھا جس میں داخل ہوکر وہ اپنے تمام خوابوں اور آرزوئوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتی تھی۔
٭…٭…٭
نولی کسی پیدائشی شہزادی کی طرح تھی۔ وہ ایک خوبصورت جھولے میں ہوتی تھی جو ربنوں اور لیس کی جھالروں سے سجا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد خوبصورت گڑیاں، بھس بھرے ہوئے جانور اور طرح طرح کے کھلونے رکھے رہتے تھے۔ ڈیڈی اسے گود میں اٹھا کر کھڑکی میں آن کھڑے ہوتے۔ جہاں سے اونچی اونچی شاندار عمارتیں اور سبزہ زار نظر آتے تھے۔
ڈیڈی بڑے پیار سے کہتے۔ ’’دیکھو شہزادی! یہ تمہاری سلطنت ہے۔‘‘ پھر وہ خلیج میں تیرتے ہوئے جہازوں کے مستولوں اور بادبانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے۔ ’’تم یہ سب جہاز دیکھ رہی ہو نا! ایک روز یہ سب تمہاری ملکیت ہوں گے۔ ان سب بحری بیڑوں پر تمہارا حکم چلے گا۔‘‘
ڈیڈی کے دوست اسے دیکھنے کے لیے آتے اور وہ اپنے آراستہ گلابی جھولے میں لیٹی ہوتی تو ڈیڈی بڑے فخر سے کہتے۔ ’’ہے نا یہ بنی بنائی شہزادی!‘‘ اس کے سنہری بال، ناک اور سبک خدوخال، ملائم دودھ، شہد جیسی جلد دیکھ کر سب ہی ڈیڈی کی تائید کرتے۔
ڈیڈی اس کے جھولے پر جھک کر کہتے۔ ’’ایک روز ایک حسین شہزادہ آئے گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائے گا۔‘‘ پھر وہ اس کا گلابی کمبل اس کے گرد لپیٹ دیتے اور وہ خوابوں کی دنیا میں کھو جاتی۔ وہ محلوں، بحری بیڑوں، شہزادوں اور سلطنتوں کے خواب دیکھتے دیکھتے پانچ برس کی ہوگئی تو اس پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ ماہی گیر کی بیٹی تھی۔ وہ جن محلوں کو اپنے چھوٹے سے گھر کی کھڑکی سے دیکھتی تھی۔ درحقیقت ان لوگوں کے گھر تھے جو مچھلی منڈی میں کاروبار کرتے تھے۔ اس کا باپ ان کا ایک معمولی سا ملازم تھا۔
اس کا بحری بیڑہ وہ جہاز اور کشتیاں تھیں جنہیں ماہی گیر صبح صبح لے کر مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں جاتے تھے اور دوپہر کو آکر انہیں بندرگاہ میں الٹ دیتے تھے۔ یہی سب نولی پیگی کی ریاست تھی۔
ڈیڈی کے دوست اکثر اس سے کہتے کہ تم بچی کے سامنے اس قسم کی باتیں کرکے اس کا دماغ مت خراب کرو۔ اس طرح وہ خود کو دوسرے لوگوں سے مختلف سمجھنے لگے گی تو وہ بڑے فخر سے کہتا کہ وہ تو ہے ہی سب سے مختلف، ایک بنی بنائی شہزادی! اس کے جیسی بچی تو مچھیروں کی پوری بستی میں نہیں تھی۔
نولی اپنے باپ کی محبت اور تعریف سن کر بہت خوش ہوتی۔ وہ بھی ڈیڈی سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ رہنا پسند کرتی تھی لیکن اس وقت وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوجاتی جب وہ اس کی ماں پر چیختے چلاتے تھے۔ اس کو بری طرح مارتے پیٹتے تھے اور وہ زور زور سے چلاتی، دہائی دیتی۔ ڈیڈی کو کوستی اور بالآخر خود ہی خاموش ہوکر بیٹھ جاتی۔ لیکن ڈیڈی کا سلوک نولی سے بہت اچھا تھا۔ وہ اسے گھمانے پھرانے لے جاتے، ساحل سمندر پر اس کے ساتھ کھیلتے اور اپنے دوستوں کی تعریفیں سمیٹتے کہ ان کی بیٹی کتنی خوبصورت اور دلکش ہے۔ نولی کو سب شہزادی کہنے لگے تھے۔ وہ بھی اس نام پر بہت خوش تھی۔ جب وہ اسے شہزادی کہہ کر پکارتے تو فخر و غرور سے اس کا سر بلند ہوجاتا۔
وہ ڈیڈی کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی کیونکہ وہ اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس نے ماں سے کھانا پکانا سیکھ لیا تھا۔ وہ ان کی پسند کے کھانے بناتی، ان کے کپڑے دھوتی اور ان کے سارے کام خود کرتی۔ یہاں تک کہ وہ سترہ سال کی ہوگئی۔
اس کا حسن اور نکھر گیا۔ اس کی آواز بہت رسیلی اور مدھر ہوگئی۔ اس کے انداز اور اطوار میں ایک طرح کی معصومیت تھی جو دوسروں پر جادو کردیتی تھی۔ وہ
اس کی شخصیت سے مسحور ہوکر رہ جاتے تھے۔ جب وہ کبھی شہر جاتی تو ہر ایک کی نگاہ اس پر ہوتی۔ قریب سے گزرنے والے اس کے حسن کی ستائش میں کوئی نہ کوئی فقرہ کہہ جاتے۔ ڈیڈی کو اپنی بیٹی کے غیر معمولی حسن اور لوگوں میں اس کی مقبولیت کا اندازہ تھا۔ وہ اس کے لیے معاشرے میں ایسا مقام چاہتا تھا جو بچپن سے وہ اس کے دل و دماغ میں بٹھاتا رہا تھا لیکن وہ ابھی طے نہیں کرسکا تھا کہ وہ یہ سب کس طرح حاصل کرسکتا تھا۔
نولی اسکول جانے سے بیزار ہوتی جارہی تھی۔ اس نے اپنے دل کی بات بالآخر ڈیڈی سے کہہ دی کہ وہ کوئی ملازمت کرنا چاہتی ہے۔ اسے اسکول جانا پسند نہیں۔
’’کس قسم کی ملازمت؟‘‘ ڈیڈی نے پوچھا۔
’’مجھے صحیح علم تو نہیں کہ یہ میں کس طرح کرسکتی ہوں لیکن میں ماڈل بننا چاہتی ہوں۔‘‘
یہ بات اس کے ذہن میں آگئی۔ اگلا تمام ہفتہ کام سے آکر وہ اچھی طرح سے نہاتا کہ اس کے ہاتھوں سے مچھلی کی ناگوار بُو دور ہوجائے۔ اپنا بہترین لباس پہنتا اور باہر چلا جاتا اور کہیں رات گئے گھر آتا۔ پھر ایک روز وہ نولی سے بولا کہ انہیں شہر جانا ہوگا تاکہ اس کے لیے کوئی مناسب کام تلاش کیا جائے۔ نولی نے بھی اپنا بہترین لباس پہنا اور دونوں امید و بیم کی کیفیت میں ایک نئی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈیڈی اس مارکیٹ میں پہنچے جہاں لباس تیار کئے جاتے تھے اور اس مارکیٹ کو سب سے مہنگی اور جدید مارکیٹ سمجھا جاتا تھا جہاں شہر کی امیر خواتین لباس خریدنے آتی تھیں۔
وہ جس دکان میں داخل ہوئے اس کا مالک آگسٹی ایک ادھیڑ عمر، بدصورت شخص تھا۔ جس کا سر بالوں سے صاف تھا۔ اس کی بیوی ایک چھوٹے قد کی بدمزاج اور کرخت عورت تھی جو دن بھر دکان پر کام کرنے والے درزیوں پر چیختی چلاتی رہتی تھی۔ جب وہ دکان میں داخل ہوئے تو ڈیڈی کے پرانے لباس اور ابتر حلیے کی وجہ سے ناگواری کے ساتھ اس کی طرف دیکھا لیکن جیسے ہی اس کی نظر ڈیڈی کے پیچھے آتی ہوئی نولی پر پڑی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
ڈیڈی نے اسے مخاطب کیا۔ ’’یہ ہے میری بیٹی۔ جس کے بارے میں، میں نے تمہیں کل بتایا تھا۔‘‘
نولی نے مسکرا کر کہا۔ ’’میرے ڈیڈی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ مجھے ملازمت دے سکتے ہیں۔‘‘
آگسٹی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا بولا۔ ’’ہاں۔ ہم کچھ نہ کچھ کرسکتے ہیں۔‘‘ اس نے ایک بھرپور نگاہ نولی کے حسین سراپے پر ڈالی اور اثبات میں کئی بار سر کو جنبش دی۔
٭…٭…٭
مچھیروں کی بستی میں رہنے والی نولی کے لیے یہ بالکل ایک نئی دنیا تھی۔ جس کا اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ یہاں جو خواتین آتی تھیں ان کے لباس بے حد خوبصورت اور خوشبو میں بسے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کا رکھ رکھائو بہت باوقار اور دل موہ لینے والا ہوتا۔ ان کے ساتھ آنے والے مرد بہت نرم طبیعت اور مہذب تھے۔ ان ماہی گیروں کے برعکس جو اپنی بیویوں پر درندوں کی طرح چنگھاڑتے رہتے تھے۔ جن کے درمیان پَل بڑھ کر وہ جوان ہوئی تھی۔ نولی کو محسوس ہوتا تھا کہ زندگی میں پہلی بار مچھلی کی ناگوار بُو اس کے نتھنوں سے نکلی تھی۔ وہ پہلے اس سے بے خبر تھی۔ کیونکہ یہ بُو جیسے اس کے وجود کا ایک حصہ بن چکی تھی۔ ساری بستی میں یہ بُو رچی بسی تھی۔
لیکن اب تو ہر چیز بدل گئی تھی۔ نولی اس بدلی ہوئی خوبصورت دنیا میں لانے کا احسان بھی ڈیڈی کا ہی مانتی تھی۔ وہ ایک خوش اخلاق انسان تھے۔ انہوں نے بہت جلد آگسٹی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ وہ ہفتے میں دو تین بار دکان پر آتے تھے اور آگسٹی سے ان کی گاڑھی چھننے لگی تھی۔ شروع شروع میں نولی اسے بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی نے اسے بتایا تھا کہ ایک بار آگسٹی کی بیوی نے اسے ایک ماڈل کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ اس نے قینچی پکڑ کر آگسٹی پر حملہ کردیا تھا۔ آگسٹی نے بمشکل اپنی جان بچائی تھی۔
نولی محسوس کرتی تھی کہ اس کی آنکھیں مستقل اس کا تعاقب کرتی ہیں لیکن بظاہر اس کے رویے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی۔ نولی کا خیال تھا کہ وہ اپنی بیوی یا اس کے ڈیڈی سے ڈرتا ہے۔ نولی کے گھر کا ماحول بھی تبدیل ہوگیا تھا۔ ڈیڈی کے رویے میں خوشگوار تبدیلی آئی تھی۔ اب ہر وقت اس کی ماں کے ساتھ لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ گھر میں اچھا کھانا پکنے لگا تھا۔ ڈیڈی نے کچھ نئے کپڑے بنا لیے تھے۔ تمباکو نوشی کے لیے انہوں نے ایک نیا پائپ خرید لیا تھا۔
ایک شام دکان بند ہونے والی تھی کہ ایک گاہک آگیا۔ نولی نے اسے تین چار لباس پہن کر دکھائے۔ جب وہ خریداری کرکے چلا گیا اور نولی ڈریسنگ روم میں کپڑے تبدیل کرنے گئی تو اسے اپنے پیچھے ایک آہٹ سی محسوس ہوئی۔ وہ گھبرا کر پلٹی۔ اس نے دیکھا۔ آگسٹی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔
’’تم بہت خوبصورت ہو نولی۔‘‘ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
نولی پیچھے ہٹنے لگی۔ اسے بچائو کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا کہ اچانک آگسٹی کی بیوی نے اسے پکار لیا جو آفس میں بیٹھی اس روز کا حساب کتاب کررہی تھی۔ وہ مجبوراً باہر نکل گیا۔
نولی نے کئی بار سوچا کہ ڈیڈی کو اس بارے میں بتائے۔ اسے یقین تھا کہ ڈیڈی اس کا منہ توڑ کر رکھ دیں گے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی شہزادی کے لیے ایک شہزادے کی آرزو کی تھی تو یہ بدصورت بڈھا کھوسٹ کیوں اس پر نظر لگائے بیٹھا تھا لیکن وہ کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔ اسے اور اس کے گھر کو اس ملازمت کی ضرورت تھی۔ اگر ڈیڈی اور اس کی لڑائی ہوگئی تو اسے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ یہی سوچ کر اس نے ڈیڈی سے فی الحال بات کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ اس نے دل میں طے کیا کہ وہ خود ہی اس معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کرے گی۔
اگلے دن آگسٹی کی بیوی کی ماں بیمار ہوگئی۔ آگسٹی اسے چھوڑنے کے لیے اسٹیشن گیا۔ اسے گاڑی پر چڑھا کر وہ جلدی سے پلٹا۔ اس نے نولی کو اپنے آفس بلایا اور بولا کہ وہ ہفتہ وار چھٹی کے دن اسے کہیں باہر لے کر جائے گا۔ اس کے لیے وہ تیاری کرلے۔
نولی حیرت سے اس کی جانب تکنے لگی کہ شاید وہ مذاق کررہا ہے لیکن یہ مذاق نہیں تھا۔ وہ پوری طرح سنجیدہ تھا۔
’’میں تمہیں شہر لے کر جائوں گا۔ وہاں ایک بہت اچھا ہوٹل ہے۔ وہ مہنگا ضرور ہے لیکن اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں ان کے لیے بہت مہربان ہوں جو میرے ساتھ تعاون کریں۔ میرے ساتھ اچھا رویہ رکھیں۔ اچھا یہ بتائو کہ تم کب تک تیار ہوجائوگی؟‘‘
نولی نے اس کے کریہہ چہرے، بالوں سے خالی سر کی طرف دیکھا اور اپنے اندر کی پوری نفرت اپنے لفظوں میں بھرتے ہوئے بولی۔ ’’نہیں… کبھی نہیں۔‘‘ اور بھاگ کر دکان کے اگلے حصے کی طرف چلی گئی جس کا دروازہ باہر کی طرف کھلتا تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ وہ اس کا پیچھا کرے گا لیکن وہ آفس سے باہر نہیں آیا۔
مگر گھنٹے بھر بعد ڈیڈی آگئے۔ وہ سیدھے نولی کے پاس پہنچے۔ انہیں دیکھ کر نولی کا حسین چہرہ کھل اٹھا۔ ڈیڈی کو پتا چل گیا تھا کہ وہ پریشان ہے۔ اسی لیے وہ آگئے تھے۔ اس بڈھے کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے۔ وہ اپنے آفس کے دروازے میں کھڑا بری بری شکلیں بنا رہا تھا۔ نولی کے ڈیڈی نے اس کا بازو پکڑا اور تیزی کے ساتھ اسے آگسٹی کے آفس میں لے آیا۔ آگسٹی پیچھے ہٹ کر کرسی پر جا بیٹھا۔
نولی نے جلدی سے کہا۔ ’’شکر ہے ڈیڈی آپ آگئے میں آپ کو…‘‘
ڈیڈی نے اس کی بات کاٹی۔ ’’مجھے مسٹر آگسٹی نے بتایا ہے کہ انہوں نے تمہیں ایک زبردست پیشکش کی تھی۔ تم نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔‘‘
نولی ہکا بکا رہ گئی۔ ’’پیشکش! انہوں نے مجھے چھٹیوں میں باہر چلنے کو کہا ہے۔‘‘
’’اور تم نے انکار کردیا۔‘‘ وہ دانت پیس کر بولے اور اس سے پہلے کہ نولی کوئی جواب
; دیتی۔ انہوں نے ایک زوردار تھپڑ اس کے گلابی رخسار پر رسید کیا۔
نولی حیرت اور بے یقینی سے ساکت رہ گئی۔ اس کے کانوں میں سنسناہٹ ہونے لگی اور اس کی آنکھوں کے سامنے گہری دھند چھانے لگی۔ جب اس نے ڈیڈی کو کہتے ہوئے سنا۔ ’’بے وقوف لڑکی… تمہیں کسی کا کچھ خیال نہیں۔ تم کتنی خود غرض ہو کہ صرف اپنے لیے سوچتی ہو۔ احمق، پاگل، بے وقوف!‘‘ ایک اور زناٹے کا تھپڑ پھر اس کے ملائم رخسار پر پڑا۔
تقریباً آدھ گھنٹے بعد وہ آگسٹی کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھی۔ شہر کی طرف جارہی تھی اور ڈیڈی پیچھے رہ گئے تھے۔
٭…٭…٭
ڈیڈی نے اس کے ساتھ کیسا فریب کیا تھا۔ وہ بچپن سے اسے ایک حسین شہزادے کے خواب دکھاتے رہے تھے لیکن انہوں نے اسے ذلت کے کس غار میں دھکیل دیا تھا۔ اسے یہ سب کچھ ایک ڈرائونے خواب کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔ ڈیڈی کی باتیں اس کے دماغ میں گونج رہی تھیں۔ ’’تمہیں مسٹر آگسٹی کا ممنون ہونا چاہیے کہ وہ تم پر کتنے مہربان ہیں۔ تمہیں جو کچھ کہا جارہا ہے، تم وہی کرو گی۔ اپنی بہتری کے لیے، ہمارے لیے۔ کسی خوش قسمت لڑکی کو ہی ایسا سنہری موقع ملتا ہے۔‘‘
اب نولی کی سمجھ میں آرہا تھا کہ گھر کے حالات کیسے تبدیل ہوئے تھے۔ ڈیڈی کا لباس، ان کے ہونٹوں میں دبا ہوا قیمتی پائپ جس میں وہ خوشبودار تمباکو استعمال کرتے تھے، کہاں سے آرہے تھے؟ یہ بدصورت جانور ڈیڈی کے ساتھ سازش کررہا تھا۔ اس کے ڈیڈی جو اس کی محبت کا مرکز تھے۔ انہوں نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ قے کردے۔
نولی کو محسوس ہو رہا تھا، جیسے چھٹی کے ان دنوں میں وہ مر گئی تھی اور ایک مرتبہ پھر اس نے نیا جنم لیا تھا۔ اب وہ ایک مختلف نولی تھی۔ اس نے خود کو ایک نئے زاویے سے دیکھا تھا۔ اس کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ کیا کچھ کرسکتی تھی اور کس طرح کرسکتی تھی۔
آگسٹی اس پر اتنا مہربان ہوچکا تھا کہ اس نے وعدہ کیا تھا۔ ’’نولی! میں تمہیں ایک خوبصوت اپارٹمنٹ لے کر دوں گا۔ کیا تم کھانا پکا سکتی ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘ نولی نے سر ہلایا۔
’’بہت خوب! میں ہر روز دوپہر کو کھانا کھانے تمہارے پاس آئوں گا۔ دیکھوں گا کہ تم کیسا پکاتی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم اتنا اچھا کھانا پکائو گی جتنی تم خوبصورت ہو۔ تمہیں کیسا لگے گا۔‘‘
’’بہت اچھا!‘‘ نولی کو معلوم تھا کہ ہاں میں ہاں ملانے میں ہی فائدہ ہے۔
’’تمہارا باپ بہت لالچی ہے۔ وہ تمہاری ساری تنخواہ ہضم کر جاتا ہے۔ میں تمہیں کچھ فالتو رقم دوں گا جو صرف تمہارے لیے ہوگی۔ تم اس سے اپنی پسند کی چیزیں خریدنا۔‘‘
’’بہت شکریہ!‘‘ نولی نے مسکرا کر کہا۔
تین چھٹیاں گزارنے کے بعد، وہ آتی مرتبہ راستہ بھر خاموش ہی رہے۔ آگسٹی اپنے خوابوں میں مست تھا اور نولی اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب وہ دکان پر پہنچے تو آگسٹی نے اپنے بٹوے سے چند نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھا کر بولا۔ ’’تم کل دوپہر یہاں کوئی چھوٹا سا خوبصورت اپارٹمنٹ دیکھ لینا۔ یہ رقم فی الحال ایڈوانس کے طور پر دے دینا، باقی حساب بعد میں ہوتا رہے گا۔‘‘
نولی نے رقم ہاتھ میں نہیں لی اور مایوسی کا تاثر لیے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ وہ حیران ہوکر بولا۔ ’’کیا بات ہے؟ میں نے کچھ غلط کہا؟‘‘
’’نہیں۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں کسی بہت خوبصورت گھر میں رہوں۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے کہ میں کوئی زیادہ امیر آدمی نہیں ہوں۔‘‘ وہ بولا۔
نولی نے اب بھی رقم کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا اور خاموش کھڑی اس کی جانب معنی خیز نظروں سے تکتی رہی تو آگسٹی نے پھر اپنا بٹوہ کھولا اور نوٹوں کی گڈی میں سے بڑے نوٹ علیحدہ کرنے لگا۔ وہ نوٹ نکالتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ جب نولی کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی تو اس نے وہ سارے نوٹ اس کے حوالے کردیئے اور اپنی اس سخاوت پر خود بھی فخر محسوس کرنے لگا۔
وہ چلا گیا تو نولی اپنے کمرے میں آئی۔ اس نے اپنا مختصر سا سامان اکٹھا کیا اور خفیہ جگہ سے اپنی بچائی ہوئی رقم نکالی۔ اپنے پرس میں رکھی۔ جیسے ہی رات کے دس بجے، وہ باہر نکلی اور ٹرین میں بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
مچھیروں کی چھوٹی سی بستی میں رہنے والی نولی ایک بڑے شہر میں آگئی تھی۔ اسٹیشن پر جیسے ایک نئی دنیا آباد تھی۔ لوگ آجارہے تھے۔ کچھ مسرت و شادمانی کے ساتھ آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور کچھ جدا ہونے والوں کو آنسو بھری آنکھوں سے الوداع کہہ رہے تھے۔ بھیڑ کی وجہ سے ٹرین پکڑنے کی جلدی میں کئی لوگ نولی سے ٹکرائے تھے لیکن اسے برا نہیں لگا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ اس گہما گہمی، شور، ہنگامے اور چہل پہل کو حیرت و اشتیاق سے دیکھ رہی تھی۔ یہ سب کچھ اب اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ اس نے اپنا چھوٹا سا سوٹ کیس اٹھایا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
باہر سورج کی سنہری روشنی میں ٹریفک رواں دواں تھا۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔ نولی نے نگاہ چاروں طرف ڈالی تو اچانک اسے احساس ہوا کہ اتنے بڑے شہر میں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں وہ جاسکتی لیکن وہ آگے بڑھی اور ٹیکسیوں کی قطار میں لگی پہلی ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔
’’کہاں جانا ہے؟‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔
نولی کچھ ہچکچا کر بولی۔ ’’کوئی سستا سا ہوٹل ہوگا یہاں؟‘‘
ڈرائیور نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں ستائش جھلکی۔ ’’تم اس شہر میں نئی آئی ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’پھر تو تمہیں ملازمت بھی چاہیے ہوگی؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیا تم نے کبھی ماڈلنگ کی ہے؟‘‘
نولی کے دل کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ’’ہاں! کچھ عرصہ…‘‘
’’میری بہن یہاں ایک بڑے فیشن ہائوس کے لیے کام کرتی ہے۔ وہاں ایک ماڈل کی ضرورت ہے۔ اگر ابھی تک انہوں نے کسی اور کو نہیں رکھ لیا تو تمہیں وہ جگہ مل سکتی ہے۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھا ہوگا۔‘‘ نولی نے خوش ہو کر کہا۔
ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور سڑک پر رواں دواں ٹریفک میں شامل ہوگیا۔ نولی نے سیٹ سے ٹیک لگا لی۔ باتونی ڈرائیور مسلسل باتیں کررہا تھا لیکن نولی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ اس جادو بھرے شہر کو دیکھ کر مسحور ہو رہی تھی۔ اس شہر کا ایک انداز تھا، ایک وقار تھا اور ایک خاص خوشبو تھی جو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی اس شہر میں موجود ہے۔ یہ بالکل ایک سلطنت کی طرح تھا اس کی سلطنت، جس کی وہ شہزادی تھی۔
ٹیکسی ایک سلیٹی رنگ کی عمارت کے سامنے رک گئی۔ ’’لو۔ تمہاری منزل آگئی۔ تم اندر چلی جائو۔‘‘ نولی نے کرائے کے علاوہ ڈرائیور کے مطالبے پر اسے کچھ زیادہ رقم دی اور ٹیکسی سے نیچے اتر آئی۔ ٹیکسی والا چلنے لگا تو نولی کو یاد آیا۔ اس نے بلند آواز سے پوچھا۔ ’’تمہاری بہن کا کیا نام ہے۔‘‘
’’جینٹ۔‘‘ اس نے جواب دیا اور ٹیکسی آگے بڑھا لے گیا۔
نولی نے سر اٹھا کر عمارت کی طرف دیکھا۔ وہاں کوئی بورڈ نہیں تھا لیکن نولی کو یہاں قسمت آزمائی تو کرنی تھی کیونکہ اس کے پاس کوئی جگہ تو تھی نہیں، جہاں وہ چلی جاتی۔ اس نے گھنٹی بجائی تو ایک ملازمہ نے باہر جھانکا۔ ’’ہاں! کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہاں کسی ماڈل کی جگہ خالی ہے؟‘‘
’’تمہیں کس نے بھیجا ہے؟‘‘
’’جینٹ کے بھائی نے۔‘‘
اس نے دروازہ کھول دیا۔ نولی اندر داخل ہوئی۔ ریسپشن ایک بڑے ہال میں تھا، جہاں ایک قیمتی فانوس چھت سے لٹک رہا تھا۔ نولی نے اپنا سوٹ کیس قالین پر رکھ دیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
’’ابھی میڈم آتی ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
نولی کی نگاہ سامنے لگے ہوئے قدآدم آئینے پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ اس کا لباس سلوٹ زدہ تھا۔ اس کے بال بھی سنورے ہوئے نہیں تھے۔ وہ پچھتائی کہ اسے
کچھ بن سنور کر آنا چاہیے تھا، مگر اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ دروازے سے ایک بھدے جسم کی درمیانی عمر کی عورت اندر داخل ہو رہی تھی۔ اس نے قیمتی گائون پہن رکھا تھا۔ اس نے ایک بھرپور نگاہ سے اسے سر سے پائوں تک دیکھا اور بولی۔ ’’ملازمہ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ملازمت چاہیے۔‘‘
’’جی میڈم!‘‘
وہ قریب آئی اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔ ’’تمہاری عمر کیا ہے؟‘‘
’’اٹھارہ سال۔‘‘
’’ہوں!‘‘ اس نے سر ہلایا۔ ’’بہت خوب! میرے گاہک اس کو پسند کریں گے۔ یہاں تمہارے کوئی رشتے دار ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’بہت خوب! کیا تم ابھی سے کام شروع کرنا چاہو گی؟‘‘
’’اوہ… یقیناً۔‘‘ نولی نے بے صبری سے کہا۔
سامنے لائونج میں آنے والے زینے سے ہنسی کی آواز آرہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ایک سرخ بالوں والی خوبصورت لڑکی ایک مرد کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگی۔ دونوں آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے کہ اس شخص کی نگاہ نولی پر پڑی۔
’’یہ کون ہے۔ ننھی منی حسینہ؟‘‘
’’یہ ایک بادشاہ کی بیٹی ہے۔‘‘
’’یعنی شہزادی!‘‘ وہ لڑکھڑاتی ہوئی زبان کے ساتھ بولا۔
وہ دونوں آپس میں کچھ بھائو تائو کررہے تھے کہ نولی دبے قدموں سے اس طرح باہر نکل آئی کہ انہیں پتا بھی نہیں چلا۔
٭…٭…٭
نولی گھنٹوں سڑکیں ناپتی رہی۔ اس کا سوٹ کیس وہیں رہ گیا جس میں اس کی کل پونجی تھی۔ اسے زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ شام شہر میں اترنے لگی تھی۔ بھوک کے مارے نولی کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔ اسے کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا تھا جو اسے اچھا سا گرم کھانا کھلا سکے۔ وہ ہمت کرکے ایک ہوٹل میں داخل ہوئی اور ایک گوشے میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ خاموشی سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی کہ اسے کوئی ایسا شخص نظر آئے جو تنہا ہو تو وہ اس سے بات کرے۔
’’معاف کیجئے گا محترمہ!‘‘ اس آواز پر نولی نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ ایک اونچا لمبا شخص تھا، جس نے سیاہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ نولی ٹھٹھکی۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سراغرساں کو نہیں دیکھا تھا لیکن یہ شخص اپنے حلیے سے ہی سراغرساں محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اندر ہی اندر مستعد ہوگئی۔
’’محترمہ! کیا آپ کسی کا انتظار کر رہی ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ نولی نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’میں ایک دوست کا انتظار کررہی ہوں۔‘‘
’’آپ کا دوست اس ہوٹل کا باقاعدہ گاہک ہے؟‘‘
وہ اندر ہی اندر کچھ اور زیادہ گھبرا گئی۔ ’’وہ… ہاں…! میرا خیال ہے شاید نہیں۔‘‘
اس نے غور سے نولی کا جائزہ لیا اور نسبتاً سخت لہجے میں بولا۔ ’’کیا میں آپ کا شناختی کارڈ دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں۔ وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ نولی ہچکچا کر بولی۔ ’’وہ گم ہوگیا ہے۔‘‘
’’آپ ذرا میرے ساتھ آئیں محترمہ!‘‘ اس نے نولی کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
اسی وقت اس کا دوسرا بازو کسی اور نے گرفت میں لے لیا۔ ’’اوہ چیری! مجھے معاف کرنا۔ مجھے دیر ہوگئی۔ تمہیں بہت انتظار کرنا پڑا۔ تم ناراض تو نہیں ہو؟‘‘ نولی فوراً ہی اس کی طرف پلٹی کہ اس اجنبی شہر میں یہ کون اس کا شناسا تھا جو فرشتۂ رحمت بن کر اس نازک موقع پر آن وارد ہوا تھا۔
وہ ایک دبلا پتلا، دراز قد انسان تھا جس کے بال بے حد سیاہ اور آنکھوں میں نیلے سمندروں جیسا رنگ تھا۔ اس کا چہرہ ایسا تھا جو ہر وقت مسکرانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اس کی مضبوط ٹھوڑی میں ایک گہرا گڑھا تھا۔ وہ سراغرساں سے مخاطب ہوا۔ ’’تم اس معزز خاتون کو خواہ مخواہ کیوں پریشان کررہے ہو؟‘‘
’’نہیں… نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ نولی نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے کہا۔
’’دراصل یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ محترمہ میری معذرت قبول کیجئے۔‘‘ سراغرساں بولا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ نولی بولی۔
’’مسٹر! یہ محترمہ کی مہربانی ہے کہ انہوں نے تمہارے خلاف انتظامیہ سے کوئی شکایت نہیں کی، ورنہ تمہارے ہوش ٹھکانے آجاتے۔‘‘
’’شکریہ میڈم۔‘‘ سراغرساں نے وہاں سے ٹل جانے میں ہی غنیمت سمجھی۔
’’چلو۔ کہیں اور چلتے ہیں۔‘‘ اجنبی بولا اور اس نے نولی کا بازو پکڑ لیا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔
جب وہ باہر سڑک پر آگئے تو نولی نے ممنون لہجے میں کہا۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تمہارا کس طرح شکریہ ادا کروں۔‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے بے نیازی سے کہا۔ پھر بولا۔ ’’میں تمہیں ٹیکسی لے دوں؟‘‘
نولی گھبرائی کہ اس سے کیا کہے۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو پھر میں چلتا ہوں۔ گڈ نائٹ۔‘‘ وہ وہاں کھڑی ہوئی ٹیکسی کی طرف بڑھا اور اس میں بیٹھنے کو تھا کہ پھر وہ نولی کے پاس آیا۔ ’’یہاں سے ٹل جائو محترمہ! وہ حضرت اب بھی تمہاری تاک میں ہیں۔‘‘
’’میں کہاں جائوں؟ میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ نولی نے بے چارگی سے کہا۔
اجنبی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور جیب میں ہاتھ ڈالا۔
’’نہیں۔ نہیں۔ مجھے تمہارے پیسے کی ضرورت نہیں۔‘‘ نولی نے تیزی سے اسے روکا۔
’’تو پھر۔ تم کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میں تمہارے ساتھ کھانا کھانا چاہتی ہوں۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔ ’’سوری! میں نے کسی سے وعدہ کر رکھا ہے اور میں پہلے ہی کافی لیٹ ہوچکا ہوں۔‘‘
’’تو پھر جائو۔‘‘ نولی نے کہا۔ ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا اور ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا۔
نولی حسرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ ایک اچھا انسان تھا۔ اس کی کشش اپنی طرف کھینچتی تھی لیکن اس پر اس کے حسن اور دلکشی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ پتا نہیں کس کے ساتھ ڈنر کرنا چاہتا تھا۔ وہ شاید اس کو پھر کبھی نہیں دیکھ سکے گی۔ دنیا کی بھیڑ میں شاید وہ کبھی اس سے نہیں مل پائے گی۔ اس کے دل میں ایک ہُوک سی اٹھی۔
اچانک اس نے ہوٹل کی طرف دیکھا۔ سراغرساں کی نظر اس پر تھی۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسی طرف آرہا تھا۔ نولی کی جان نکل گئی۔ وہ اس بار اس کی تفتیش سے نہیں بچ پائے گی۔ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہیے کہ اس کے بازو پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ مگر یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی یہ وہی اجنبی تھا۔ وہ اسے ٹیکسی تک لایا۔ اس کا دروازہ کھولا۔ اسے اندر دھکیل کر وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اجنبی نے ڈرائیور کو پتا بتایا اور ٹیکسی چل پڑی۔ نولی نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تمہارے وعدے کا کیا ہوگا؟‘‘
’’یہ ایک پارٹی تھی۔ اگر میں نہیں جائوں گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میرا نام لیری ڈگلس ہے اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’نولی پیگی!‘‘
’’تم کہاں سے آئی ہو؟‘‘
’’میں ایک بادشاہ کی بیٹی ہوں۔‘‘ نولی نے یونہی ایک جزیرے کا نام بتاتے ہوئے کہا۔
’’بہت خوب شہزادی صاحبہ!‘‘ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘ نولی نے پوچھا۔
’’میں پائلٹ ہوں۔‘‘ وہ بولا اور کچھ دیر تک وہ ہوا میں اڑنے اور جہازوں کی باتیں کرتا رہا۔ نولی نے کبھی ایسے شخص کو نہیں دیکھا تھا۔ اس طرح کی دلچسپ گفتگو کرتے ہوئے وہ ایک گرم جوش زندگی سے بھرپور اور زندگی کا لطف اٹھانے والوں میں سے تھا اور چاہتا تھا کہ دوسرے بھی اس کی خوشیوں میں حصہ بٹائیں۔ وہ کسی مقناطیس کی طرح سے تھا جو سب کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
وہ اسے اپنے ساتھ پارٹی میں لے آیا۔ یہ ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ تھا جو ہنستے، شور مچاتے نوجوان لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ لیری نے اس کا تعارف میزبان خاتون سے کروایا جو سرخ بالوں والی ایک حسین خاتون تھی۔ اس کے بعد وہ ہجوم میں گم ہوگیا۔ نولی کو کبھی کبھی اس کی تھوڑی سی جھلک نظر آجاتی لیکن یہ بھی ظاہر ہورہا تھا کہ حسین نوجوان لڑکیوں نے اس کو گھیر
تھا اور ہر ایک اس کے ساتھ بات کرنے کے لیے بے قرار تھی، اس کی توجہ کی طلبگار تھی۔
لیکن لیری میں غرور تھا اور نہ ہی اسے اندازہ تھا کہ وہ کتنا پُرکشش ہے۔ وہ بڑے فطری انداز میں سب سے گپ شپ کررہا تھا۔ کسی نے نولی کو پلیٹ میں کھانا نکال کر دیا۔ کوئی مشروب کا گلاس اس کے پاس رکھ گیا۔
یکایک نہ جانے کیوں نولی کو ایسا لگا جیسے اسے بالکل بھوک نہیں ہے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ سب لڑکیوں کو دور ہٹا کر لیری کے ساتھ کھانا کھائے۔ کچھ مرد اور لڑکے اس سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن نولی کا ذہن کہیں اور تھا۔ جب سے وہ پارٹی میں آئے تھے، لیری نے اسے بالکل نظرانداز کردیا تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نہیں تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ یہاں سے کہیں دور چلی جائے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ فرار کا کوئی راستہ مل جائے۔
اچانک اسے اپنے کان کے قریب ایک آواز سنائی دی۔ ’’چلو۔ چلتے ہیں۔‘‘
نولی نے چونک کر دیکھا۔ وہ لیری تھا۔ اس نے کھانے سے بھری ہوئی پلیٹ وہیں رکھ دی۔ اسے اس نے چھوا تک نہیں تھا۔ سڑکوں پر گاڑیاں یوں چل رہی تھیں جیسے سیاہ سمندر میں مچھلیاں تیر رہی ہوں۔
انہیں کوئی ٹیکسی نہیں ملی تو وہ پیدل ہی چل پڑے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس وقت نولی کو لگا کہ اسے سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ اس نے سامنے بیٹھے ہوئے لیری کو دیکھا اور سوچنے لگی کہ یہ اس کو کیا ہوگیا تھا؟ یوں لگتا تھا جیسے اس نے اس کے اندر کسی ایسے تار کو چھو لیا تھا جس سے وہ اب تک آگاہ نہیں تھی۔ انہوں نے ہر موضوع پر بڑی بے تکلفی سے باتیں کیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے بارے میں بتایا۔
اس رات وہ دیر تک شہر کی سڑکوں پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے رہے۔ جس درمیانے درجے کے ہوٹل میں لیری ٹھہرا ہوا تھا، اس نے وہاں نولی کو بھی ایک کمرہ دلوا دیا۔ صبح ہوئی تو وہ اس کے ساتھ میڈم کے بالاخانے سے اس کا سوٹ کیس اور پرس لے آیا۔ نولی کے لیے جیسے عید اور رات شب برات تھی۔ لیری نے اسے سارے شہر کی سیر کرائی، ایک ایک جگہ دکھائی۔ وہ کہیں لنچ کرتے تو کہیں ڈنر۔
اس نے نولی کو ہنسنا، قہقہے لگانا سکھایا۔ نولی کا انگ انگ اس کی محبت سے بھر گیا تھا۔ اس کی ایک ایک بات، ایک ایک ادا اس کے دل میں گھر کر گئی تھی۔ وہ اپنے ڈیڈی کے بارے میں سوچتی تھی کہ انہوں نے کس طرح سے اسے دھوکا دیا تھا۔ آگسٹی جیسے ہوس پرست مرد کتنے ظالم اور قابل نفرت تھے مگر لیری سب سے الگ تھا۔ اس جیسا اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ کسی اور کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔
اور یہ بات لیری کے دل میں نہ جانے کس طرح آگئی، جس طرح وہ سوچ رہی تھی، وہ بھی اسی طرح سوچ رہا تھا۔ دونوں کے دل اس طرح مل گئے تھے کہ اب کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ لیری نے بڑی چاہت سے کہا۔ ’’ہم شادی کیوں نہ کرلیں شہزادی؟‘‘
نولی کی زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی خوشی کا لمحہ نہیں آیا تھا۔ وہ اس ماحول میں بڑی ہوئی تھی جہاں اس کا باپ اسے شہزادی کہہ کر پکارتا تھا۔ لیری بھی اسے شہزادی کہتا تھا۔ لیری کے ساتھ وہ کتنی مختلف ہوجاتی تھی۔ لیری نے اس کے اندر زندگی کا اعتماد بحال کردیا تھا۔ وہ اس کی پوری دنیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اب اسے لیری کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہیے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنی خوش قسمت بھی ہوسکتی ہے۔
’’میں نے اتنی جلدی شادی کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا لیکن چھوڑو شہزادی منصوبے اسی لیے تو بنائے جاتے ہیں کہ ان میں تبدیلی ہوتی رہے۔‘‘ وہ ہنس کر بولا۔
نولی نے اثبات میں سر ہلایا۔ خوشی اس کے اندر پھوٹی پڑتی تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم کسی چھوٹے سے خوبصورت گائوں میں جاکر شادی کریں یا تم کسی بڑی شاندار تقریب میں شادی کرنا پسند کرو گی۔‘‘
’’نہیں یہ زیادہ اچھا لگے گا کہ سادگی سے چھوٹی سی تقریب ہو یا پھر تم ہو، میں ہوں اور فادر جو ہمیں اس بندھن میں باندھے گا۔‘‘
’’زبردست!‘‘ اس نے چٹکی بجائی۔ ’’تو پھر طے ہوگیا۔ آج تو مجھے اپنے اسکواڈرن میں رپورٹ کرنی ہے۔ کچھ اور بھی کام ہیں۔ اب میں تمہیں فرائی ڈے کو ملوں گا۔ ٹھیک ہے شہزادی!‘‘
’’پتا نہیں میں اتنے دن تم سے کیسے دور رہوں گی۔‘‘ نولی نے اداسی سے کہا۔
’’تم مجھ سے محبت کرتی ہو نا؟‘‘
’’اپنی زندگی سے بھی زیادہ۔‘‘
’’تو پھر انتظار میں بھی تمہیں لطف آئے گا۔ خوش رہنا شہزادی!‘‘ اس نے جیب سے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بولا۔ ’’اپنے لیے ایک ایسا شہزادیوں جیسا عروسی لباس خریدنا جیسا کبھی کسی نے نہ پہنا ہو، جو تمہارے حسن کو دوبالا کردے۔ میں اگلے ہفتے تمہیں اسی لباس میں دیکھوں گا۔‘‘ اور وہ چلا گیا۔
نولی نے اگلا ہفتہ خوشی اور شادمانی کی ایک ناقابل بیان کیفیت میں گزارہ۔ وہ ہر اس جگہ پر گئی جہاں لیری اس کو لے کر گیا تھا۔ دونوں نے گھنٹوں اپنے خوبصورت مستقبل کی باتیں کی تھیں۔ دن اتنی آہستگی سے گزر رہے تھے کہ نولی کو لگتا تھا کہ وہ پاگل ہوجائے گی۔
تقریباً درجن بھر دکانوں کو چھان کر بالآخر اسے ایک ایسا عروسی لباس پسند آگیا جیسا اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ موتیوں سے سجا ہوا دلکش سفید ریشمی لباس جو یقیناً اس کے حسن میں چار چاند لگا دے گا۔ اس کی قیمت اس کے اندازے سے بہت زیادہ تھی لیکن نولی اسے ادا کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچائی۔ آخر خوابوں کو خریدنا کوئی آسان تو نہیں تھا۔ وہ تمام رقم جو لیری نے اسے دی تھی اور اس کی اپنی جمع کردہ رقم سب کی سب صرف ہوگئی تھی لیکن نولی کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ اس کا سارا دھیان لیری میں لگا ہوا تھا۔ وہ ان میٹھی میٹھی باتوں کو سوچتی رہتی تھی جو وہ جانتی تھی کہ لیری اس کو اس عروسی لباس میں دیکھ کر کہے گا۔
آخر جمعہ آ گیا۔ اس روز نولی علی الصباح ہی اٹھ گئی۔ اس نے تقریباً دو گھنٹے خود کو سنوارنے سجانے میں صرف کئے۔ اس نے کئی لباس بدلے۔ یہ دیکھنے کے لیے کون سا لباس اس پر زیادہ اچھا لگتا ہے۔ لیری اس کو کس لباس میں دیکھ کر زیادہ خوش ہوگا۔ پورے دس بجے وہ تیار ہوکر کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ آج وہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے، اس لیے بھی کہ اس کا دل لیری کی محبت سے بھرا ہوا تھا اور اس نے اس کے حسن کو ایک نیا روپ اور دلکشی عطا کردی تھی۔ وہ اس کے خیالوں میں اتنی گم ہوگئی کہ اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور دوپہر ہوگئی۔
پھر چھ بج گئے مگر لیری کا کوئی پتا نہیں تھا۔ نہ ہی اس کی طرف سے کوئی پیغام آیا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھی فون کی طرف دیکھ رہی تھی لیکن فون بالکل خاموش تھا۔ یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی اور وہ وہیں کرسی پر بیٹھی بیٹھی سو گئی۔ اس کی آنکھ کھلی تو صبح ہوچکی تھی۔ وہ لباس جو اس نے بڑے چائو سے پہنا تھا۔ اس میں سلوٹیں پڑ چکی تھیں۔
ہفتے کا تمام دن وہ کمرے میں رہی۔ کھڑکی سے دیکھتی رہی۔ اس کے دل میں اب بھی امید کا پودا ہرابھرا تھا۔ اسے یقین تھا کہ جلد ہی وہ لیری کو گیٹ سے داخل ہوتا ہوا دیکھے گی لیکن جیسے جیسے دن دوپہر میں تبدیل ہونے لگا۔ نولی کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا کہ کہیں لیری کے جہاز کو حادثہ نہ پیش آگیا ہو۔ اسے خبر ہی نہیں کہ وہ کسی کھیت یا کسی اسپتال میں زخمی یا مردہ پڑا ہوا ہوگا۔ اس کے لیے ایک ایک پل گزارنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح خود کو لیری تک پہنچا دے۔ وہ تمام رات اس نے آنکھوں میں کاٹ دی۔
اتوار کو سارے دن کی کوشش کے بعد بالآخر اس کا فون لمحہ بھر کے لیے لیری کے اسکواڈرن کے بیس سے ملا لیکن آواز صاف نہیں تھی۔ نولی کے تنے ہوئے اعصاب جیسے ٹوٹ جانے کو تھے۔ آپریٹر کہہ رہا تھا۔ ’’مسٹر لیری ڈگلس، جنرل ڈیوس کی پارٹی میں گئے ہوئے
ہیں۔ معلوم نہیں وہ کب لوٹیں گے۔‘‘
اور پھر فون بند ہوگیا۔ (جاری ہے)