ساجد اور سارہ کی دوستی بچپن کی تھی۔ دونوں ایک ہی گائوں کے رہنے والے تھے۔ سارہ ایک محنت کش کسان کی بیٹی تھی جبکہ ساجد خوشحال خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ اس کے والد کی ملازمت شہر میں تھی۔ ان لوگوں کا رکھ رکھائو بھی شہر والوں جیسا تھا لیکن سارہ کو شہری اور دیہاتی کا فرق ہی معلوم نہ تھا۔ وہ بس اتنا جانتی تھی کہ سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ رہن سہن کے مختلف ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ ساجد کے والدین شہر میں رہائش پذیر تھے لیکن وہ اپنے بوڑھے دادا کی وجہ سے گائوں میں ہی رہتا تھا۔ اس کو دادا سے پیار تھا اور گائوں میں رہنے کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ دادا نے اس کی بہنوں کو بھی شہر نہ جانے دیا تھا جس کے ساتھ اس کا بچپن بیتا تھا۔ جب تک ساجد اور سارہ بچپن کی حدود میں تھے ، ان پر بھی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ وہ آپس میں کھیلتے، کھیتوں میں گھومتے پھرتے ، گنے توڑتے اور نہر پر مچھلیاں پکڑنے جاتے۔ تاہم جب ساجد تیرہ سال اور سارہ گیارہویں برس میں آگئی تو بڑوں نے سمجھایا کہ اب تم لوگوں کا آپس میں میل جول ٹھیک نہیں، لہذا سارہ صرف ہم جولیوں سے اور ساجد اپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ میل جول رکھے گا۔ یہ پابندی اگرچہ دونوں کو شاق گزری لیکن وہ تھے تو اسی سماج کے پروردہ، جہاں ریت رواج کی پابندی کی جاتی تھی لہذا انہوں نے اپنے بڑوں کی باتوں کو ذہن نشین کر لیا اور کھلے بندوں ایک ساتھ کھیتوں کو جانا اور گھومنا پھرنا ترک کر دیا۔ سارہ کے چاروں بھائی جوان تھے۔ اس کی ہمجولیاں کھیتوں میں ساگ توڑنے اور اپنے جانوروں کے لئے چارہ کاٹنے جاتیں، لیکن وہ نہیں جاتی تھی کیونکہ اس کام کے لئے اس کے بھائی موجود تھے۔ وہ اب ساجد سے بھی شاذ و نادر ہی ملتی تھی، تاہم دلوں میں بچپن کی انسیت تو موجود تھی۔ نزدیک ہی لڑکوں کا اسکول تھا۔ سامنے میدان تھا جس کا ایک حصہ سارہ کے گھر کے مقابل تھا۔ جب چھٹی ہوتی ، ساجد اور دیگر لڑ کے مل کر میدان میں کھیلتے ،سارہ اپنے گھر کی دیوار سے ان کو گرائونڈ میں کھیلتا ہوا د یکھتی رہتی۔ ایک دن سب لڑکے کھیل رہے تھے کہ ساجد گر پڑا ، اس کو چوٹ لگ گئی۔ سارہ اپنی دیوار سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ وہ دوڑی ہوئی آئی اور اس نے ساجد کو سہارا دیا۔ دوست کے ساتھ مل کر اس کے سر کا زخم صاف کیا اور پٹی باندھی۔ وہ تکلیف کے باعث اٹھ نہیں سکتا تھا، تبھی سارہ گھر گئی اور ماں کو احوال بتا کر اپنے ساتھ لے آئی، جس نے ساجد کو سہارا دے کر اٹھایا اور اسے گھر لے آئی۔ جب وہ کچھ ٹھیک ہوا تو گھر چلا گیا۔ اب جب بھی موقع ملتا، وہ اپنے بچپن کے ساتھی سے اس کے زخم کے ٹھیک ہونے کے بارے میں پوچھتی۔ برسوں سے پڑوسی ہونے کے ناتے دونوں گھرانوں کی عورتوں اور مردوں کا آپس میں میل جول رہتا تھا۔ سارہ اکثر ساجد کے گھر اس کی بہنوں کے پاس جا بیٹھتی اور باتیں کرتی۔ ساجد کی ایک بہن بہت اچھی کڑھائی جانتی تھی، یوں سارہ کو ان کے گھر زیادہ دیر تک رکنے کا بہانہ مل گیا۔ وہ اب کڑھائی سیکھنے کو ان کے گھر آنے لگی لیکن حقیقت وہ اپنے بچپن کے ساتھی کے دیدار کے لئے یہاں آتی- انہی دنوں گائوں میں بجلی آگئی۔ ساجد کے دادا نے ٹی وی خرید لیا۔ اب تو گائوں کی اور بھی لڑکیاں ٹی وی دیکھنے کو ان کے گھر آنے لگیں۔ سارہ کو بھی ڈرامے دیکھنے کو من کرتا اور ڈرامے کے وقت ساجد بھی گھر میں ہوتا، مگر وہ ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کرتے تھے۔ بڑوں کی اس نصیحت پر ان کے سامنے کار بند رہتے کہ اب بڑے ہو گئے ہیں تو زیادہ میل جول ٹھیک نہیں۔ دراصل دونوں ہی اپنے گھر والوں کو شکایت کا موقع دینا نہ چاہتے تھے۔ یہ ایک خوشیوں بھر اروشن دن تھا۔ ساجد کے چچا سعودی عربیہ سے آرہے تھے ، گھر کے سبھی لوگ کام میں مصروف تھے۔ لڑکیاں کچن میں کھانا پکار ہی تھیں جبکہ دادا اور چچا باہر کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ وہ کمرے میں ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ سارہ آگئی۔ اس نے ساجد کو کمرے میں اکیلا بیٹھے دیکھا تو واپس جانے لگی تبھی وہ کہنے لگا۔ سارہ ، کیوں واپس جارہی ہو؟ دیکھو تو اتنا اچھا پرو گرام لگا ہوا ہے۔ آئو بیٹھو، ٹی وی دیکھو۔ واقعی بہت اچھا پروگرام لگا ہوا تھا۔ وہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔ سوچا کہ ابھی تو کوئی یہاں نہیں ہے ، تھوڑا سا دیکھ لوں، چلی جائوں گی۔ وہ شود یکھنے میں محو تو ہو گئی لیکن اسے اپنے بھائی قاسم سے ڈر لگ رہا تھا۔ دراصل سب سے بڑے بھائی سے اس کو زیادہ ڈر لگتا تھا کیونکہ قاسم ہی اس کو کسی کے گھر جا بیٹھنے سے منع کیا کرتا تھا۔ اس روز وہ دیر تک بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہی، یہاں تک کہ دادی اس کو لینے آ گئی۔ دادی کو دیکھ کر اس کا دل دھڑکنے لگا۔ کیوں آئی ہو دادی؟ یہ جملہ اس کے منہ سے بے ساختگی میں نکل گیا۔ تم کو لینے آئی ہوں، تم یہاں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہو، کچھ بھائیوں کی بھی فکر ہے ، ادادی، شو بہت اچھا ہے، آئو تم بھی دیکھو۔ وہ اس کا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھانے لگی۔ اتنے میں ساجد کی دادی آ گئیں۔ کہنے لگیں۔ ہاں بہن، بچی صحیح کہ رہی ہے، پرو گرام تو بہت شاندار ہے ، ذرا دیر کو اسے دیکھ لینے دیا کرو، بچی ہی تو ہے۔ دونوں خواتین باتیں کرنے لگیں ، ان کی بانہیں تمام نہ ہو ئیں اور پروگرام ختم ہو گیا۔ دادی، پوتی گھر چلی آئیں۔ دروازے پر اس کی چچی مل گئی۔ بولی۔ سارہ ، تم اب تک گھر جونہی وہ صحن میں پہنچی ، اس کا بڑا بھائی کمرے سے نکلا۔ پوچھنے لگا کہ یہ کہاں گئی تھی اور اتنی دیر سے کہاں سے آرہی ہے؟ یہ میرے ساتھ میرے گھر گئی تھی اور اب میں اس کو چھوڑ نے خود آ گئی ہوں۔ چچی نے پردہ رکھ لیا تو بات بن گئی۔ آج چچی ساتھ نہ دیتیں تو یقیناً بھائی اس کو مارتا۔ سارہ نے سوچا اور وہ دل ہی دل میں چچی کی شکر گزار ہو گئی۔ جب تک ساجد نے میٹرک نہ کیا، سارہ روز ہی اس کو اپنے گھر کی دیوار سے دیکھتی تھی اور کبھی دونوں بات بھی کر لیتے تھے۔ میٹرک کے امتحان ختم ہو گئے تو ساجد نے اسکول جانا چھوڑ دیا مگر وہ روز شام کو گرائونڈ میں آکر کھیلتا تھا۔ ایک دن وہ کھیلنے آیا تو میدان خالی پڑا تھا۔ وہ لڑکوں کے انتظار میں درخت کے سائے میں بیٹھ کر اپنی دھن میں سیٹی بجانے لگا۔ سیٹی کی آواز سن کر سارہ کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ دیوار کے پاس جا کر جھانکنے لگی۔ساجد بور تو ہو ہی رہا تھا، اسے جھانکتے پایا تو اٹھ کر دیوار کے پاس چلا آیا اور باتیں کرنے لگا۔سے باہر تھیں، رات ہو رہی ہے، کچھ خدا کا خوف کرو، تمہارے سارے بھائی گھر آگئے ہیں۔ انہوں نے اگر تمہارے بارے پوچھ لیا ہوتا تو ہم کیا جواب دیتے ؟ جونہی وہ صحن میں پہنچی ، اس کا بڑا بھائی کمرے سے نکلا۔ پوچھنے لگا کہ یہ کہاں گئی تھی اور اتنی دیر سے کہاں آرہی ہے؟ یہ میرے ساتھ میرے گھر گئی تھی اور اب میں اس کو چھوڑ نے خود آ گئی ہوں۔ چچی نے پردہ رکھ لیا تو بات بن گئی۔ آج چچی ساتھ نہ دیتیں تو یقیناً بھائی اس کو مارتا۔ سارہ نے سوچا اور وہ دل ہی دل میں چچی کی شکر گزار ہو گئی۔ جب تک ساجد نے میٹرک نہ کیا، سارہ روز ہی اس کو اپنے گھر کی دیوار سے دیکھتی تھی اور کبھی دونوں بات بھی کر لیتے تھے۔ میٹرک کے امتحان ختم ہو گئے تو ساجد نے اسکول جانا چھوڑ دیا مگر وہ روز شام کو گرائونڈ میں آکر کھیلتا تھا۔ ایک دن وہ کھیلنے آیا تو میدان خالی پڑا تھا۔ وہ لڑکوں کے انتظار میں درخت کے سائے میں بیٹھ کر اپنی دھن میں سیٹی بجانے لگا۔ سیٹی کی آواز سن کر سارہ کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ دیوار کے پاس جا کر جھانکنے لگی۔ساجد بور تو ہو ہی رہا تھا، اسے جھانکتے پایا تو اٹھ کر دیوار کے پاس چلا آیا اور باتیں کرنے لگا۔ پوچھا کہ کافی دنوں سے ٹی وی دیکھنے کیوں نہیں آتی ہو ؟ اب تو ڈرامہ بھی بہت اچھا چل رہا ہے۔ بھائیوں کے ڈر سے نہیں آتی ، وہ منع کرتے ہیں۔ ابھی وہ یہ بات کر رہی تھی کہ اس کے بھائی نے باہر سے آتے ہوئے اس کو ساجد کے ساتھ بات کرتا دیکھ لیا۔ بڑے بھائیوں سے تو بہن کی شکایت نہ لگائی ماں کو جا کر بتادیا کہ تم اپنی لڑکی کو سمجھ لو ، یہ دیوار سے جھانک کر ساجد سے باتیں کرتی ہے۔ اس پر ماں بولی بیٹا ، یہ اپنے پڑوس کے لڑکے ہیں اور ہمیشہ سے میدان میں کرکٹ کھیلنے آتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں تو مجھ سے پانی مانگ لیتے ہیں۔ تب سارہ پانی کا جگ بھر کر ان کو دیوار سے پکڑا دیتی ہے۔ اس میں ایسی کوئی بری بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ہمارے پڑوسی ہیں ، لیکن دیوار سے ادھر کھڑے رہ کر ہماری بہن سے بات کرنے کا کیا مطلب؟ جب وہ گھر کے اندر پانی پینے آتے ہیں اور ان کو گھر میں آنے سے منع کرتی ہوں تو باہر کھڑے رہ کر ہی پانی لیں گے نا، اور جب ان کی گیند اچھل کر ہمارے صحن میں آتی ہے تو وہ گیند بھی لینے آتے ہیں۔ سارہ اس وجہ سے دیوار کے پاس گئی تھی۔ ماں نے بیٹے سے بہانہ کر دیا مگر اب بیٹی کے پیچھے پڑ گئی۔ کہا کہ خبردار جو تم نے اب کبھی دیوار سے سر نکال کر کسی سے بات کی۔ اگر کبھی تیرے بڑے بھائیوں نے دیکھ لیا تو یادرکھ کہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔ اس واقعے کے بعد سے سارہ بہت احتیاط برتنے لگی تھی۔ اب اس کا جی گھبراتا تو دیوار کے ادھر جھانکنے کی بجائے اپنی سہیلی سونی کے گھر چلی جاتی۔ سونی کا گھر اس کے کھیتوں کے پارندی کی طرف تھا۔ سارہ کے تمام بھائی دن بھر اپنے کھیتوں میں کام کرتے ، ایسے میں وہ ماں کو بتا کر سونی کے گھر چلی جاتی۔ اتفاق کہ ساجد کے ایک دوست شانی کا گھر بھی اسی جانب تھا۔ ساجد بھی اکثر اپنے اس دوست کے گھر چلا جاتا۔ اتفاقاً راستے میں ساجد سے مڈ بھیٹر ہو جاتی، سونی ایسے وقت ڈھال بن جاتی اور ان دونوں کو باتیں کرنے کا موقع دے دیتی۔ ایک بار سونی کی ماں نے بھی سارہ اور ساجد کو کھیتوں میں باتیں کرتے دیکھ لیا۔ سونی کو اس نے بہت ڈانٹا کہ یہ لڑکی اتنی دور سے تمہارے گھر تم سے ملنے آتی ہے یا اس چھوکرے سے ، میں اس کی دادی سے جاکر شکایت کروں گی، تبھی وہ لڑنے گھر پہنچی اور دادی سے کہا کہ اپنے پوتے کو سنبھالو، اس کو منع کرو کہ وہ مٹھو کسان کی لڑکی سے راستے میں باتیں نہ کیا کرے۔ اگر کسان کے بیٹوں نے دیکھ لیا تو وہ تمہارے پوتے کی ہڈیوں کا سرمہ بنادیں گے۔ ساجد کی دادی نے اس سارے معاملے سے اپنے شوہر کو آگاہ کر دیا کیونکہ بات مردوں سے چھپائی جائے تو آگے مزید خرابی کا باعث بنتی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں مرد بات کو سنبھال لیتے ہیں۔ دادا نے سوچا کہ میٹرک کا امتحان تو دے چکا ہے ، اب ساجد کو اس کے والد کے پاس شہر بھجوادینا چاہئے تاکہ بات یہیں پر ختم ہو جائے۔ دادا نے ایسا ہی کیا۔ پوتے کو کالج پڑھنے کے بہانے شہر بجھوانے کی بات کر دی۔ ساجد شہر جانا نہ چاہتا تھا۔ اس نے لاکھ کہا کہ وہ گائوں میں ہی رہ کر پڑھے گا۔ بزرگ نے ایک نہ سنی تب ساجد نے سوچا جانے سے پہلے سارہ سے مل کر اس کو بتا دے کہ کس وجہ سے دادا اس کو دیس نکال دینے پر مصر ہیں۔ بہر حال وہ نہ مل سکے اور بے چارا ساجد شہر چلا گیا۔ وہاں اس کا بالکل بھی دل نہ لگا۔ رزلٹ آیا وہ پاس ہو گیا لہذا باپ نے اس کو ایک اچھے کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ وہ کالج جاتا مگر بے دلی ہے۔ دوماہ بعد کچھ دنوں کے لئے چھٹیاں ہو گئیں۔ وہ بہت خوش تھا کہ چھٹیوں میں گائوں جا رہا تھا۔ ادھر سارہ بھی اس کو یاد کرتی تھی لیکن ملنے سے مجبور تھی۔ ساجد آیا تو سیدھا شانی کے پاس گیا۔ کہنے لگا کہ یار، میر دل شہر میں نہیں لگتا، کیا کروں ؟ مجھے شہر پسند نہیں، اپنے گانوں کی زندگی بہت اچھی ہے۔ گائوں پسند ہے یا کہ مٹھو کسان کی لڑکی ؟ یار، گائوں بھی پسند ہے اور مٹھو کی لڑکی بھی ، لیکن اس بار تو اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، ملے بغیر جانا پڑ گیا تھا۔ یہ کون سی مشکل بات ہے ، سارہ روزانہ میری خالہ کے گھر سونی سے ملنے آتی ہے ، اب آئے گی تو تم کو بتادوں گا۔ تم یہاں آ کر مل لینا۔ تو آج شام اس کو بلوا دے۔ میں اس کے لئے شہر سے ڈرائنگ کاپی اور کلر والی پنسلیں لایا ہوں۔ شہر کا تحفہ اس کو دوں گا، کیا یاد کرے گی۔ ٹھیک ہے میں آج سونی کو کہتا ہوں وہ اس کو گھر سے بلا لائے گی۔ جب وہ یہ بات کر رہے تھے ، کھیتوں میں سراسر اہٹ ہوئی۔ ساجد نے غور کیا تو اس کی سمجھ میں بات آگئی کہ کوئی نزدیک ہی کھیت میں موجود تھا جو ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے قریب جا کر اس شخص کو دیکھنا چاہا مگر شانی نے منع کر دیا۔ کہنے لگا۔ تو اپنے کام سے کام رکھ اور مزید اس معاملے میں مت الجھ ۔ کاپی، پنسلیں سونی کو دے دے، وہ اس کو پہنچا دے گی۔ دیہات کی لڑکیاں رنگین پنسلوں پر مرتی ہیں اور میرے پاس یہ ایک ہی سیٹ ہے، سونی کو دیا تو وہی رکھ لے گی۔ میں اپنے ہاتھ سے سارہ کو دوں گا۔ اچھا تیری مرضی۔ میں سونی کو کہ دیتا ہوں، وہ میرا پیغام سارہ تک پہنچادے گی۔ پیغام تو اس تک پہنچ گیا، اب تو اس کو ادھر آنے سے روکنا تھا۔ وہ کیوں؟ تو نے کھیت میں سرسراہٹ نہیں سنی اور یہ کھیت کا آخری کنارہ مٹھو چاچا کی ملکیت ہے۔ یقینا ان کا کوئی بیٹا ادھر ہے۔ اس نے اگر ہماری باتیں سن لی ہیں تو یقینا وہ یہاں آ کر تاک لگا ئیں گے ۔ آج سارہ کو روکنا ہو گا، وہ ہر گزادھر کو نہ آئے۔ اچھا، میں سونی سے کہہ دیتا ہوں۔ ساجد گھر گیا تو اس کے دادا کہیں جانے کے لئے تیار تھے ، بولے۔ بیٹا، میں اکیلے سفر نہیں کر سکتا تو میرے ساتھ شہر چل ، دو چار دن میں لوٹ آئیں گے۔ یوں ساجد اپنے دادا کے ساتھ شہر چلا گیا، اس یقین کے ساتھ کہ سونی اپنی سہیلی کے گھر جا کر اس کو منع کر دے گی کہ وہ آج شام کو کھیتوں میں نہ جائے۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ سونی کے گھر مہمان آگئے ، وہ سارہ کے گھر اس کو آگاہ کرنے نہ جاسکی۔ اس نے سوچا کہ شانی خود اس معاملے کا دھیان کرے گا۔ ادھر اکبر خان کا ایک اہم کیس لگا ہوا تھا جس میں شانی نے لازمی گواہی دینی تھی۔ اس نے اکبر کو کہلوادیا کہ وہ نہیں آسکے گا، کیس کی پیشی لے لیں۔ اکبر خان خود اس کے پاس آگیا۔ کہا کہ گواہی کی یہ اہم پیشی ہے، ابھی وکیل کے پاس چلو، میں گھنٹہ بھر میں تم کو واپس لے آئوں گا۔ دوستی سے مجبور ہو کر وہ خان کے ساتھ چلا گیا لیکن واپسی میں دیر ہو گئی۔ وہ سارہ کو منع کرنے نہ جاسکا۔ اب ایک ہی حل تھا کہ وہ خود اس جگہ بیٹھ جائے جہاں سارہ نے ساجد سے ملنے آنا تھا۔ شانی وہاں جا کر بیٹھ گیا اور سارہ کا انتظار کرنے لگا۔ شام سے رات ہو گئی، تبھی وہ آتی دکھائی دی۔ جونہی شانی کے قریب پہنچی ، اس کے بھائیوں نے جو جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے ، ان پر حملہ کر دیا۔ حملہ ناکام کیونکر ہوتا، تین بھائی تاک میں بیٹھے تھے اور تین کلہاڑیاں چلی تھیں۔ سارہ کے ساتھ شانی بے قصور صرف لڑکی کو بچانے اور ساجد کا پیغام اسے دینے کی وجہ سے مارا گیا۔ اے کاش ! وہ ساجد کی جگہ وہاں نہ بیٹھتا۔ بے شک سارہ کو پیغام نہ ملتا، بے شک وہ اکیلی آتی تو شاید اس کے بھائی اسے اکیلا بیٹھے دیکھ کر نہ مارتے یا پھر جان سے مارنے کی بجائے ویسے ہی مارتے ہوئے گھر لے جاتے مگر اب تو شانی پہلے سے موجود تھا اور سارہ کا آنا یہی یقین دلاتا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں گھر والوں سے چھپ کر شانی سے ملنے آگئی ہے۔ ساجد تو بچ گیا کہ خدا کو اس کا بچانا مقصود تھا لیکن دوست کی جگہ وہ قربان ہو گیا حالانکہ وہ تو سارہ کو بہن جیسی جانتا تھا تبھی تواس کی جان بچانا چاہتا تھامگر جو جان لینے کے ارادے سے نکلے تھے، انہوں نے دریغ نہ کیا۔ اس پورے قصے میں کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ قتل ہو جانے والے قصور وار تھے یا انہوں نے کوئی بڑا جرم کیا تھا لیکن دیہات میں لوگ ذرا سے شک پر بھی جان کے درپے ہو سکتے ہیں، خصوصاً جب معاملہ بیٹی یا بہن کا ہو۔