میری ایک ہی خالہ تھیں۔ امی سے چھوٹی تھیں، تبھی ہم ان کو چھوٹی خالہ کہا کرتے تھے۔ بہت پیاری صورت اور من موہنی شخصیت کی مالک تھیں، وہ ہم سے اور ہم ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی شادی ہوئی تو امی جان نے انہیں جہیز میں کافی کچھ دیا چو نکہ نانا جان وفات پاچکے تھے اور ماموں ہم لوگوں کی بات نہ پوچھتے تھے۔ وہ ایک امیر گھرانے کے گھر داماد ہو گئے تو ہم سے رشتہ ناتا ختم کر دیا۔ یوں ایک طرح سے چھوٹی بہن کی شادی کا فرئضہ امی جان نے ادا کیا۔ صد شکر کہ خالہ کی شادی اچھے گھرانے میں ہو گئی۔ بے حد شریف لوگ تھے۔ سفید پوش تھے اور مختصر فیملی تھی۔ ہم خالہ سے ملنے جاتے تو وہ بہت ہماری قدر کرتے۔ مقدور بھر خاطر مدارت کرتے اور گویا بچھ بچھ جاتے تھے۔ مجھے خالہ کے سسرال والے اچھے لگتے۔ وہاں ہم لوگوں کو محبت اور عزت ملتی۔ امی جان، خالہ کی طرف سے مطمئن ہو گئیں کہ وہ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔
کہتے ہیں کہ خوشیوں کے دن سدا نہیں رہتے ، یہی ہماری خالہ جان کے ساتھ ہوا۔ خدا کی کرنی، ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی کہ خالو جان کا عین جوانی میں ہارٹ فیل ہو گیا اور ہماری پیاری چھوٹی خالہ بھری جوانی میں بیوہ ہو گئیں۔ وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔ بیٹی چھ سال کی اور بیٹا احمد ابھی آٹھ برس کا تھا۔ دونوں ہی پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے۔ نانی جان نے کافی سمجھایا کہ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے اور زندگانی کاسفر لمبا ہے۔ نکاح ثانی کر لو، بچوں کو بھی تحفظ مل جائے گا اور میں سکون سے مر سکوں گی۔ خالہ نے انکار کر دیا، نجانے دوسرا شوہر کس قماش کا ہو۔ خالہ کے ساس سسر بوڑھے تھے۔ نندیں بیاہتا تھیں۔ چھوٹی خالہ نے اپنے ضعیف ساس سسر کو تنہا چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ خالو کا مکان ذاتی تھا جس میں یہ لوگ رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چلتی ہوئی کتابوں کی دکان تھی جس کو ان کے چھوٹے دیور نے سنبھال لیا۔ یوں ان کی گزر بسر بہ دستور سفید پوشی میں ہوتی رہی اور ان کے دونوں بچے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ نسیمہ اور احمد جوان ہو گئے اور انہوں نے تعلیم مکمل کر لی۔ نسیمہ کی شادی اس کی پھپھو کے گھر ہو گئی اور احمد نوکری کی تلاش میں سر گرداں پھرنے لگا کہ بیوہ ماں کو سکھ پہنچا سکے۔ میں دسویں جماعت میں تھی، ہم اب بھی خالہ کے گھر جاتے اور میں احمد سے ملتی، باتیں کرتی۔ ہمارے درمیان پسندیدگی کارشتہ استوار ہو گیا۔ یہ والدہ نے محسوس کر لیا، تبھی دونوں بہنوں نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا اور میری نسبت احمد سے ٹھہرادی گئی۔ جن دنوں بی اے کے فائنل ایئر میں تھی، والد صاحب بیمار پڑ گئے۔ ان کے علاج پر کافی خرچہ آیا جس کی وجہ سے ہمارے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو گئے۔ ضرورت وقت کے تحت والدہ نے مکان کے درمیان دیوار اٹھا کر گھر کا آدھا حصہ کرائے پر دے دیا۔ ہمارے کرایہ دار کا لڑ کا فہد خوبرو نوجوان تھا۔ وہ پہلے ہی روز اچھا لگا۔ ہم ان کے گھر جاتے اور وہ ہمارے گھر آتے ۔ رفتہ رفتہ میں اور فہد ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے ۔ بی اے کے فائنل پرچے ہونے والے تھے۔ امتحان کی تیاری کے لئے اپنی ایک کلاس فیلو مدیحہ کے گھر روز شام کو جانے لگی۔ اس کا گھر ہمارے مکان کے عقب میں تھا۔ مدیحہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور اس کے والد بیرون ملک رہتے تھے۔ گھر میں صرف یہ ماں بیٹی ہوتیں۔
جب میں ان کے گھر جاتی، اکثر ان کی والدہ سوئی ہو تیں یا پھر ملنے ملانے اپنے رشتہ داروں کے یہاں گئی ہو تیں۔ مدیحہ ایک لاابالی سی لڑکی تھی مگر سنجیدگی سے پڑھائی کرتی۔ وہ کلاس میں اچھی پوزیشن لیتی تھی، خاص طور پر انگریزی میں شاندار نمبر آتے۔ میں اس سے مدد لیا کرتی۔ فہد کو علم ہوا کہ میں اپنے گھر کے عقبی مکان میں روز جاتی ہوں تو وہ وہاں آنے لگا۔ گلی میں ٹھہر کر میرا انتظار کرتا، میں اس سے کہتی جب ہم گھر میں باتیں کر سکتے ہیں تو تم یہاں آکر کیوں کھڑے ہوتے ہو۔ بلاخراس نے بتادیا کہ اس گلی میں ایک مکان ہے جو خالی پڑا ہوا ہے ، اس گھر کی چابی میرے پاس ہے۔ وہ کس کا مکان ہے اور تمہارے پاس چابی کیسے ہے… کبھی ہم دوست یہاں گپ شپ کرنے آ بیٹھتے ہیں۔ اپنے دوستوں کا انتظار کرتا ہوں۔ مکان کے مالک ابو کے دوست ہیں جو ان دنوں بیرون ملک گئے ہوئے ، مکان کی چابی ابو کو دے گئے ہیں۔ میں کبھی کبھی وہ چابی ان کی الماری سے اٹھا کر یہاں آجاتا ہوں اور اپنے نوکر سے صفائی کرا دیتا ہوں۔ یہ کام ابو نے میرے ذمے لگادیا ہے کیونکہ ان کو فرصت نہیں ملتی۔ اس نے بتایا۔ ایک دن وہ بدستور پچھلی گلی میں ملا۔ مجھے دیکھ کر ٹھہر گیا اور بولا۔ کیا تم ابو کے دوست کا مکان دیکھو گی ؟ بہت خوبصورت ہے اندر سے ، اس قدر شاندار ہے کہ دیکھو گی تو حیران رہ جائو گی۔ میں نے تجسس کے مارے کہا۔ اچھاد کھائو تو اس نے گیٹ کھولا اور مجھے اندر لے گیا۔ واقعی مکان بہت شاندار تھا۔اعلیٰ فرنیچر اور بیرون ملک سے لائی گئی سجاوٹ کی عمدہ اور قیمتی چیزیں تھیں۔ ہم چند منٹ وہاں بیٹھے اور پھر باہر آگئے ، میں اپنے گھر چلی گئی۔ وہ گیٹ کو تالا لگانے کے لئے وہیں رک گیا۔ مجھے علم نہ ہوا کہ ہم دونوں کو خالی مکان کے اندر جاتے اور اکٹھے باہر آتے ہمارے ایک پڑوسی کے نوکر نے دیکھ لیا ہے۔ اس نے ابو کو بتادیا کہ آپ کی بیٹی آپ کے کرایہ دار کے لڑکے کے ساتھ پچھلی گلی کے خالی مکان میں گئی تھی، میں نے خود دونوں کو وہاں جاتے دیکھا ہے۔ والد صاحب یہ سن کر آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے اطلاع دینے والے شخص سے منت کی کہ اس بات کا کسی سے تذکرہ نہ کرے۔ آتے ہی انہوں نے کرایہ دار کو مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا اور میرا بھی مدیحہ کے گھر آنا جانا بند کرادیا۔ کہا کہ بی اے کے پرچے دے کر اب تم گھر بیٹھ جائو گی۔ چھ ماہ تک اسے فون نہ کیا تھا۔ احمد کی نوکری لگ گئی۔ اگرچہ معمولی ملازمت تھی لیکن وہ بہت خوش تھا، تبھی خالہ بار بار آنے لگیں۔ وہ شادی کی تاریخ لینے آئیں۔ ان کے ساس سسر بوڑھے اور بیمار تھے۔ چاہتی تھیں کہ یہ دونوں بزرگ، پوتے کی شادی کی خوشی دیکھ لیں۔ ایک روز بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ خالہ تاریخ لینے آرہی ہیں، بالآخر ایک روز تاریخ رکھ دی جائے گی اور میں ہمیشہ کے لئے احمد کی ہو جائوں گی۔ شادی کے بعد تو فہد سے فون پر بات کرنا ممکن نہ ہو گا، کیوں نہ آخری بار فون کر کے اسے بتادوں کہ میں بابل کے گھر سے رخصت ہونے جارہی ہوں۔ اسی دن مدیحہ کے گھر چلی گئی اور اس کے گھر سے فہد کے دیئے ہوئے نمبر پر فون ملادیا۔ اتفاق کہ اس کے دوست نے اٹھالیا۔ بولا، آپ کو ثر بات کر رہی ہیں۔ اچھا ہوا کہ آپ کا فون آگیا، فہد آپ کو بہت یاد کر رہا ہے۔ دراصل اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ، وہ زخمی ہے اور فلاں اسپتال میں ہے۔ پلیزا اگر ممکن ہو تو ایک نظر اسے دیکھ لیں۔ یہ سن کر پریشان ہو گئی۔ مجھے فہد سے محبت نہ تھی۔ احمد ہی میرے بچپن کی پسند تھا لیکن فہد سے ایک لگائو ضرور تھا۔
پہلے دن سے ہی اچھا لگا تھا۔ دراصل وہ ایک بھولا بھالا سا لڑکا تھا، اس سے بات کر کے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا اور بس … اس نے کبھی مجھ سے غلط یا لغو قسم کی بات نہ کی تھی۔ اعتبار تھا تبھی اس کے دوست کے بتانے پر میں فہد کو دیکھنے اسپتال چلی گئی۔ وہ واقعی وارڈ میں داخل تھا اور زخمی ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوا اور خوشی سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہاں چند منٹ رکی اور فہد سے دوچار باتیں کیں۔ اسے بتایا کہ میری شادی احمد سے ہونے والی ہے ، شاید اب دوبارہ تم کو نہ مل سکوں، تمہاری خیریت فون پر پوچھ لوں گی۔ جب اسپتال سے نکلی تو اس کے دوست نے کہا، آپ پیدل مت جائیے۔ میں آپ کو جہاں کہتی ہیں، پہنچادیتا ہوں۔ میں چلی جائوں گی رکشہ لے کر میں نے کہا تو فہد بولا۔ صابر کے ساتھ چلی جائو کو ثر ، یہ تم کو گھر کے پاس اتار دے گا۔ یہاں سے رکشہ پر کیونکر جائو گی۔ یہ ادھر ہی جا رہا ہے۔ فہد نے اعتبار دلایا تو میں صابر کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ رستے میں اس نے کہا، تمہارے برابر ایک ڈبہ رکھا ہے۔ ذرا اسے کھول کر دیکھو شاید تم کو کچھ پسند آجائے۔ تمہاری شادی ہو رہی ہے تو فہد کی طرف سے تم گفٹ رکھ لینا۔ میں پچھلی نشست پر بیٹھی تھی۔ برقع لیا ہوا تھا۔ صابر کی گاڑی میں رکھا ڈبہ کھول کر دیکھا۔اس میں زیورات بھرے ہوئے تھے۔ ارے اتنے سارے زیور کیا سونے کے ہیں۔ میرے منہ سے نکل گیا۔ ہاں بھئی سونے کے ہیں۔ کس کے ہیں ؟ مارے تجسس سے پوچھا۔ میرے ہیں اور کس کے ہیں۔ میں جیولر کا بیٹا ہوں اور ہم سونے کا کاروبار کرتے ہیں، صراف ہیں۔ ہمارے لئے سونا کچھ نہیں۔ جو لینا ہے پسند کر لو۔ نہیں بھئی ۔ میں نے کچھ نہیں لینا۔ تحیر میرے لہجے میں تھا۔ ویسے یہ سب تمہارے ہو سکتے ہیں، اگر تم مجھ سے شادی کر لو… تم مجھے پسند آئی ہو۔ کیا تمہارے والدین با قاعدہ رشتہ لائیں گے ؟ میں نے یونہی سوال کر دیا۔ ہاں ہاں … بھئی میں تم کو عزت سے بیاہ کرلے جائوں گا اور سونے سے لاد دوں گا۔ بھلا احمد سے شادی کر کے تم کو کیا ملے گا۔ یقیناً وہ مجھ سا امیر نہ ہو گا، اس بارے سوچنا ضرور کیونکہ شادی ایک بار ہوتی ہے اور قسمت سے کسی لڑکی کو اتنا امیر گھر نصیب ہوتا ہے۔
گھر کے قریب وہ مجھے اتار کر چلا گیا اور میں اس کے کہے ہوئے جملے ذہن میں بٹھا کر گھر تک آگئی۔ رات بھر سونے کے زیورات سے بھر اوہ ڈبہ اور اس کے کہے ہوئے الفاظ ذہن میں گونجتے رہے۔ سوچتی رہی کہ احمد ایک معمولی تنخواہ دار ہے، وہ کبھی ترقی بھی نہ کرے گا۔ خالہ نے بیوگی میں عمر کاٹ دی، بھلا ان کے پاس کیا ہے اور مجھے کیا ملے گا؟ ساری عمر کی وہی سفید پوشی اور کھانے کو روکھی سوکھی۔ میرے بچوں کا بچپن کیا ہو گا۔ اگر اس وقت درست فیصلہ نہ کیا، عمر بھر کی غربت گلے پڑ جائے گی۔ صابر نے درست کہا ہے کہ ایسے امیر گھر کے رشتے کسی نصیب والی کو ہی ملتے ہیں۔ صبح تک سوچتی رہی اور جاگتی رہی۔ اگلے روز خالہ آئیں اور امی سے کہا کہ بری نہ جہیز ، بس دو کپڑوں میں کوثر کو بیاہ لیں گے۔ اپنے گھر کی تو بات ہے۔ مجھے ان کے یہ الفاظ برے لگے ۔ میرا ذہن تو زیورات سے بھرے ڈبے میں اٹک گیا تھا۔ میں نے احمد سے شادی سے انکار کر دیا اور جب والدہ نے پوچھا تو بتادیا کہ میں ایک امیر گھرانے کے لڑکے صابر کو پسند کرتی ہوں۔ وہ زندگی کی ہر نعمت سے مالا مال ہیں اور آپ کی بہن کے پاس رکھا ہی کیا ہے۔ بری میں چڑھانے کو دو جوڑے اور ایک زیور تک نہیں ہے۔ ماں نے کہا جہاں شادی کرنا چاہتی ہو ، ان لوگوں سے کہور شتہ لے آئیں، میں پھر فیصلہ کروں گی۔ میں نے صابر کو فون کر کے خوشخبری سنادی۔ وہ تو نہال ہو گیا۔ دو دن بعد اپنی بڑی سی گاڑی میں ماں کو لے آیا۔ امی نے گھر دیکھنے کی فرمائش کی تو انہوں نے گھر دکھایا۔ گھر کیا تھا گویا ایک نواب کا شاندار محل تھا۔ اعلیٰ قیمتی فرنیچر ، مخملیں پر دے، کیا شے نہیں تھی۔ والدہ توان کی امارت دیکھ کر بس دنگ رہ گئیں۔ والد بیمار رہنے لگے تھے، ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ انہی دنوں ان کا انتقال ہو گیا تو والدہ میرے لئے فیصلہ کرنے میں آزاد ہو گئیں۔ انہوں نے میری خوشی کے لئے اپنی بہن کے مفلس بیٹے کارشتہ رد کر دیا۔ بہن ان کو بہت پیاری تھی لیکن اولاد سے زیادہ پیاری نہ تھی۔ میری شادی صابر سے ہو گئی۔ بیاہ کر اس کے بنگلے میں آگئی ، بہت خوش تھی۔ اپنی قسمت پر نازاں رہنے لگی کہ واقعی اتنے سارے زیورات میرے پاس تھے کہ جن کا تو عام عورت تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ چھ ماہ خوشیوں بھرے گزرے۔ اس قدر عیش و آرام کب سوچا تھا۔ صابر سے شادی پر کوئی پچھتاوا نہ ہوتا تھا بلکہ احمد سے شادی نہ کر کے خوش تھی اور خود کو عقل مند سمجھتی تھی کہ بروقت فیصلہ کر کے اپنی قسمت جگالی تھی۔ یہ چار دن کی چاندنی تھی۔ وہی ملتا ہے جو نصیب میں ہوتا ہے۔ دولت ملی تو مگر خالہ کی سفید پوشی میں جو محبت اور شرافت تھی وہ نہ ملی۔ شادی کے چھ ماہ بعد ایک روز پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور وہ صابر کو پکڑ کر لے گئے۔ تب پتہ چلا کہ وہ ڈکیت ہے اور اس کا تعلق ڈکیتی کرنے والے ایک گروہ سے ہے۔ گھر میں زیورات اور سارا کچھ چوری کا تھا۔ صابر کو جیل ہو گئی اور سامان پولیس نے ضبط کر لیا۔ اب پتہ چلا کہ اتنی دولت کہاں سے آئی تھی۔ آج میں محفوظ ہوں اور نہ میری اولاد محفوظ ہے۔ صابر جیل سے رہا ہو کر بھی نہ سدھرا۔ میں نے پچھتاوے سے دامن بھر لیا ہے کہ خالہ کی شرافت اور سفید پوشی سونے سے زیادہ قیمتی تھی۔