آج کافی عرصے بعد وہ میرے کلینک آئی تھی۔ وہ لڑکی جو ہمیشہ بہت متوازن چال چلتی ہوئی آتی تھی ، آج اس کی ٹانگوں میں ایک عجیب سی لڑکھڑاہٹ محسوس ہو رہی تھی، یوں لگا جیسے وہ شدید تھکن کا شکار ہے۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ کوئی بھی اسے اس حال میں دیکھتا تو تڑپ اٹھتا۔ دُکھ تو مجھے بھی ہوا مگر میرا تو روز کا کام تھا۔ ایک نفسیات دان ہونے کے ناتے مجھے ہر روز نہ جانے ایسے کتنے کیسسز کا سامنا کرنا پڑتا تھا، مگر حوریہ تو میرے لئے بہت خاص تھی۔ وہ پانچ سال سے میرے پاس لگاتار آرہی تھی۔ میں اسے پیار سے حور کہہ کر بلاتی تھی۔ میرے لئے وہ مریض سے زیادہ دوست تھی، بہن جیسی ، اس میں مجھ کو بہت سے رشتے نظر آتے تھے۔ حوریہ نے بیٹھتے ہی پشت کرسی سے لگا کر اپنی آنکھیں موند لیں۔ آج وہ بہت خاموش تھی اور میں اُس کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔ پھر مجھ سے صبر نہیں ہوا اور میں بول پڑی۔ حور ! بہت دنوں بعد آئی ہو، کیسی ہو ؟ میرے سوال پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ آپ مجھے دیکھیں اور بتائیے کہ میں کیسی ہوں ؟ اس کے چہرے کی ویرانی نے مجھے لرزا دیا۔ حوریہ کے بنجر لہجے میں اتنا درد تھا کہ ایک پل کے لئے میرا دل رک سا گیا۔ حور ، دل بڑا کرو گڑیا ! میں نے حوصلہ دینا چاہا۔ اور کتنا بڑا کروں دل اور کون سادل، کہاں کا دل … اب میرے پاس دل رہا ہی کہاں ہے۔ آپا ! آپ جانتی ہیں کہ والدین نے ساری زندگی مجھ پر بس ایک ہی احسان کیا ہے کہ مجھے آپ سے ملوایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے آج تک میرے لئے کچھ اچھا نہیں کیا۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ آپ بھی نہ ہو تیں تو میرا کیا ہوتا۔ میں اپنے دل کی باتیں کس سے کہتی، کون مجھے سمجھتا؟ کون میرے غم کو اپنا غم جانتا؟ آپ نے مجھے اپنا بہت سا وقت دیا ہے میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتی۔ کبھی اس احسان کا بدلہ نہ چکا پائوں گی۔ خیر مجھے تو احسان چکانے کا موقع ملے گا بھی نہیں۔ آخری بات اس نے بہت آہستہ سے کہی تھی اور اس بات پر میں چونک اٹھی تھی۔ تم کیا سوچ رہی ہو حور ادھر ؟ میری طرف دیکھو۔ اس نے زخمی نظروں میری طرف دیکھا۔ آپا میں اب بہت تھک گئی ہوں۔ میں نے اتنا کچھ سہا ہے، پر ایک وقت آتا ہے ، جب آپ بہت تھک جاتے ہیں۔ میں کسی سے بھی کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہتی، لیکن بات کبھی زبان پر آہی جاتی ہے۔ آخر میں کیوں آپا ! میری ہی زندگی میں یہ سب کیوں لکھ دیا گیا ہے ؟ نہ کوئی کامیابی اور نہ کوئی خوشی اور نہ ہی کوئی دوست جان سے پیاری بہن بچھڑ گئی۔ والدین بھی ایسے ملے، جنہوں نے پیدا کر کے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ سوچاتھا، شوہر ہو گا تو شاید زندگی بدل جائے گی مگر شوہر بھی ملا تو بٹا ہوا اور میں پھر سے اسی گھر میں آکر بیٹھ گئی، جہاں ساری زندگی لاوارثوں کی طرح گزاری۔ جہاں اپنے والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کا سا احساس ہوتا رہا۔ میری تو کسی سے گلہ کرنے کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
حوریہ آج اپنی ہی دُھن میں بولے جارہی تھی۔ ان پانچ سالوں میں اُس نے مجھ سے ہمیشہ اپنی پریشانی، اپنی ہر بات شیئر کی تھی اور میں نے اسے ہر دفعہ بہت اچھے طریقے سے سمجھایا تھا۔ وہ کافی حد تک زندگی کی طرف لوٹ آئی تھی، مگر مجھے آج تو ایسا لگا جیسے اتنے سالوں کی ساری محنت بیکار جانے لگی ہے۔ حوریہ ایسا کچھ بھی مت کرنا کہ تم کو پچھتاوا ہو اور مجھے بھی۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما۔ بہت سوچ سمجھ کر میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں آپا کہ اس دُنیا میں میری ضرورت اب کسی کو نہیں ہے۔ میرا ہونا نہ ہونا بیکار ہے، خود میرے لئے بھی۔ میں رہوں نہ رہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ درست ہی کہتے ہیں کہ سزائیں ہمیشہ بے قصوروں کے حصے میں ہی آتی ہیں تو کیوں نہ میں رہوں ہی نہ۔ حوریہ کی باتوں سے میرا دل دہل گیا۔ وہ تو میرے گمان سے بھی زیادہ برا سوچ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ سبھی جانتے ہیں خود کشی ایک انتہائی مشکل امر ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کا ارادہ کر لیتا ہے تو پھر اس کو سمجھانا ایک کٹھن کام ہوتا ہے اور ہم ایسے شخص کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ اگلا شخص اس کا اثر بھی منفی ہی لیتا ہے۔ آپا ایسا کیوں ہے؟ اس پوری دُنیا کے ہوتے ہوئے بھی انسان خود کو اتنا اکیلا کیوں محسوس کرتا ہے۔ کوئی تو ایسا ہو جو میرے دکھوں کا مداوا کرے۔ کوئی تو ایسا ہو جو میرا پرسان حال ہو ، کوئی تو ہو جو مجھے اپنا کندھا میسر کرے۔ میں اب تھک گئی ہوں۔ یہ زندگی ایک بوجھ بن گئی ہے۔ آپ کو پتا ہے ” وان گو کھ“ جس کا سیف پورٹریٹ انیس سو اٹھانویں میں سات کروڑ پندرہ لاکھ ڈالر کا بکا، جس نے اپنی زندگی میں نو سو تصاویر اور گیارہ سو خاکے بنائے۔ اس نے سینتیں سال کی عمر میں بندوق کے ذریعے خود کشی کر لی ، آپ کو پتا ہے اس کے آخری سوسائیڈ نوٹ میں درج تھا کہ میرے بھائی یہ غم کبھی ختم نہیں ہو گا۔ حوریہ نے چند ساعتوں کا وقفہ لیا تھا۔ اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ خود کشی کتنی ریسرچ کر کے آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے اب یہ قدم اٹھانے سے کوئی روک نہ پائے گا۔ میں تو اس کی باتوں کی گہرائی میں قید سی ہو گئی تھی۔ کچھ پل بعد وہ دوبارہ گویا ہوئی۔ آپا! یہ تو دیکھیں نا، جب وان گوکھ جیسا انسان، جس کو پوری دنیا کی توجہ حاصل تھی، جو سب کا چہیتا تھا، جسے سب جانتے اور مانتے تھے۔ جب وہ یہ زندگی کے غم برداشت نہیں کر پایا تو میں تو ہوں ہی کیا شے، کچھ بھی نہیں۔ میرا اوجود تو انتہائی بیکار رہے۔ آپ سوچیں میں میں کیسے یہ زندگی کا بوجھ سہار لوں گی۔ اب وہ خاموش ہو گئی تھی یا شاید میرے کسی جواب کا انتظار کر رہی تھی۔ میرے پاس تو گویا الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔ وہ جو بھی کہہ رہی تھی حرف بہ حرف سچ تھا، حرف حرف درست تھا اور حرف بہ حرف حقیقت تھی۔ میں نے اپنی ساری ہمت مجتمع کی اور آگے ہو کر بیٹھ گئی۔ آخر اسے حوصلہ بھی تو دینا تھا۔ میں نفسیات دان تھی، اگر میں ہی پیچھے ہٹ جاتی تو پھر باقی کیا رہ جاتا۔ مجھے اپنے آپ پر بھروسہ بھی نہ رہتا۔
دیکھو ! ضروری نہیں کہ ایک ہنستا کھیلتا انسان یا ایک نہایت مشہور آدمی ہر لحاظ سے پر فیکٹ ہو۔ اُن کی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں، جو دنیا سے مخفی ہوتی ہیں۔ مشہور ہونا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ بعض اوقات مشہور لوگ جو دنیا کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، وہ ہی سب سے زیادہ اکیلے ہوتے ہیں۔ لیکن دیکھو، ہم ایک عام سے انسان ہیں۔ ہماری زندگی ان مشہور لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔ کیا پتا، وان گوکھ کے ایسے پوشیدہ دُکھ ہوں جو صرف وہی جانتا ہو اور ان دکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اپنی جان دے بیٹھا ہو۔ تم اُسے چھوڑو، خود کو دیکھو۔ دیکھو تم کہتی ہو تمہارے والدین نہیں اچھے۔ تمہارے دوست نہیں رہے ، سب تم سے بچھڑ گئے، تمہارا کوئی ساتھی نہیں، مگر تمہارے پاس میں تو ہوں نا ! دیکھو میں تو تم کو اپنا کندھا میسر کر رہی ہوں۔ میں ہر پل ہر گھڑی تمہارے لئے موجود ہوں۔ لوگ اس لئے یہ قدم اٹھاتے ہیں کہ وہ بالکل تنہا ہو جاتے ہیں۔ اُن کو کوئی بھی سمجھ نہیں پارہا ہوتا، یہاں تک کہ وہ خود بھی نہیں سمجھ پاتے کہ اُن کے اندر کیا جنگ چل رہی ہے۔ یو نہی اپنے آپ سے لڑتے لڑتے تھک ہار کر وہ اپنی جان دے دیتے ہیں۔ تم خوش قسمت ہو۔ تمہارے پاس میں ہوں، میرا کندھا ہے۔ اپنا سارا غم مجھے سنادو۔ میں سب کچھ سننے کو تیار ہوں۔ صرف سننے کو نہیں، میں تمہیں حوصلہ دوں گی، تم کو ایک بار پھر سے جینے کا ہنر سکھائوں گی میری جان ! تم یہ سوچ اپنے دل و دماغ سے جھٹک دو۔ یہ کندھا بھی کسی کسی کو میسر آتا ہے۔ میں کیا بولوں آپا ! میرے اندر سے جینے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔ میں چاہ کر بھی اب پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ بس میں نے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے اپنے بچپن سے لے کر آج تک کیا کچھ سہا ہے، دوستوں کے رویئے، گھر والوں سلوک، کیا کچھ کھویا ہے میں نے۔ شوہر ، بہن اور والدہ بھی تو نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔ ماں باپ جنہوں نے اپنی کا اپنی زندگیوں کے چکر میں اولاد کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا۔ کہتے ہوئے حوریہ کے منہ سے ایک ہلکی سی سسکاری نکلی، وہ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے اُٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ یہ زندگی بھی کیا چیز ہے، رب کی انمول نعمت ہے مگر بعض اوقات یہ کتنا تھکا دیتی ہے آدمی کو… حوریہ ! یہ زندگی ہے میری جان، یہ کوئی پھولوں کی سیج تو نہیں، جہاں ہمیں رنگ برنگے پھول ملتے ہیں، وہاں کانٹوں کی چبھن بھی سہنی پڑتی ہے۔ مشکل وقت ہر کسی پر آتا ہے۔ اس دُنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں جس نے مشکل وقت نہ دیکھا ہو یا جس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہ پہنچی ہو، مگر دیکھو، کوئی اس مشکل وقت میں بہادری سے جینا سیکھ لیتا ہے اور کوئی بزدلوں کی طرح اس سے ہار جاتا ہے۔ کیا تم بزدل ہو ؟ میں بزدل نہیں ہوں مگر مجھے بزدل بنا دیا گیا ہے۔ مجھ سے سب کچھ چھن گیا ہے آپا ! میرے پاس کچھ نہیں رہا۔ دیکھئے نا، میں سوچتی ہوں کہ کتنے غریب لوگ ہیں ہمارے معاشرے میں، جن کے پاس کھانے کو ایک لقمہ تیک میسر نہیں، جن کے پاس پہننے کو کپڑا تک نہیں۔ وہ لوگ آئے روز اپنی جان دے رہے ہوتے ہیں۔ کبھی غربت کے غم سے تو کبھی اولاد کی بھوک کے ڈر سے مگر آپا مجھ بد بخت کو دیکھیں۔ جس کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں، جو بھرے ہاتھوں کے ساتھ بھی تہی داماں ہے۔
وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پھیلائے کھڑی تھی۔ اس کی نظریں کھڑ کی سے باہر اڑتے پرندوں پر مرکوز تھیں۔ اس کے ایک ایک لفظ میں ایسا درد تھا کہ کوئی بھی نازک دل صرف اُس کے لہجے اور باتوں پر رو دیتا۔ ہمارے نزدیک جیسے بہت سے کردار موجود ہیں۔ بعض اوقات ہمارا تھوڑا سا بھی نرم اور ہمدردانہ رویہ ہی کسی کے لئے بہت بڑا سہار ا بن جاتا ہے۔ میں بھی خور کے لئے وہی سہارا بنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے مطابق زندگی میں سب سے بہادری کا کام یہ ہے کہ جب ہم بالکل تھک جائیں، جب ہم ایک حد تک بیزار ہو جائیں کہ ہمیں اور نہیں جینا اور ایسے وقت میں ہی اپنے آپ کو زندہ رکھنا سب سے بڑی بہادری ہے۔ میں نے حور کو بازو سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئی۔ دیکھو حور تم خود کشی کرنا چاہتی ہو تو تم کیا وجہ چھوڑ کر اس دُنیا سے جائو گی ، اپنے اس بزدلانہ عمل کی ؟ اتنا تو بتا دو۔ وجہ ؟ اس نے ویران نظروں سے میری طرف دیکھا۔ وجوہ تو بے شمار ہیں آپا ! جو شاید گنتی میں بھی نہ آئیں۔ میں تمام وجوہ تو نہیں لکھ سکتی۔ یہی تو بات ہے میری جان ، آخر تم اپنے ضمیر کو تو مطمئن کرنا چاہو گی نا! اس دُنیا کو خدا حافظ کہنے سے پہلے مجھے دوست سمجھتی ہو تو پلیز میری دلی خلش کو دور کرنے کی خاطر ہی بتا دو کہ تم اپنے آخری خط میں کیا وجہ لکھو گی ؟ قوی امکان ہے کہ وہ تمہاری خود کشی کی آخری وجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ تم اپنے اس آخری خط میں کبھی بھی وہ سب بیان نہیں کر پائو گی کہ تمہیں کس کس نے اس عمل پر مجبور کیا۔ دوستوں کی بے وفائیوں نے یا والدین کی کوتاہی نے، خاوند کا سلوک یا اپنی پیاری بہن کی موت کے صدمے نے۔ کیا تم یہ سب کچھ اپنے آخری خط میں بیان کر پائو گی کہ تم کو تمہاری بہن کے غم نے ، والدین کی لاپروائی نے یا خاوند کی بے وفائی نے اتناؤ بھی کر دیا کہ تم نے زندگی جیسی انمول شے کو مٹی میں ملا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اور یہ تو تم کو خوب پتا ہے کہ تمہارے جانے کے بعد لوگ تمہارے بارے میں اچھے الفاظ نہیں کہیں گے ، لوگ یہی کہیں گے کہ ایک مایوس اور ڈرپوک لڑکی تھی، جس نے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لی، کوئی تمہارے اندر کا درد نہیں سمجھ پائے گا، کیونکہ دیکھو، یہ ایسا عمل ہے جس کے بارے سوچنے سے بھی انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ آخر اپنے ہاتھوں اپنی جان لیناڈ نیا کا مشکل ترین کام ہوگا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایک انسان خود کشی کا ارادہ جب کرتا ہے تو وہ بالکل ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ آخر وہ کتنا تھک چکا ہوتا ہے کہ یہ عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہو گا، لیکن دیکھو ! سورہ یوسف میں ہمیں بہت پیارا سبق ملتا ہے کہ اگر زندگی میں ہمارے قریبی ہی ہم سے دغا کر جائیں اور ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں تب بھی ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے۔ اوپر بیٹھی رب کی ذات سب دیکھ رہی ہے کہ کون کس کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ اللہ ہمارے بھروسے کا ایسا انعام دے گا جو ہمارے وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔ وہ ایسا مقام عطا کرے گا کہ وہی لوگ عش عش کر اٹھیں گے لیکن ساری بات یقین کی ہے۔ تم اللہ پر بھروسہ رکھو، غلط راستہ مت اپنائو۔ خود کشی اللہ کی رحمت سے مایوسی کا نام ہے۔ اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے والا تو نماز جنازہ تک کا مستحق نہیں ہوتا۔ کیا تم دُنیاسے اسی طرح رخصت ہونا چاہو گی ؟ میں نے اس کی سوچ کو ایک نئے رخ سے روشناس کیا۔
آخر تو ہمارادین ہی مشعل راہ ہے اور وہ ہر لحاظ سے ہمارے لئے بہترین ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے مذہب، ہماری کتاب اور ہمارے دین میں ہر مشکل اور ہر پریشانی کا حل موجود ہے اور سب سے اچھی بات کہ تم تو ایک لکھاری ہو، تمہارے پاس تو قلم کی طاقت ہے۔ آخر کب تک تم صرف اپنی ڈائری کے صفحے کالے کرتی رہو گی۔ اپنی ڈائری کی دُنیا سے باہر نکلو، اپنا لکھ لوگوں تک پہنچائو۔ اپنے اندر کے غبار کو باہر نکالو۔ جو کچھ تمہارے اندر ہے سب لکھ ڈالو۔ اس سے تمہیں بہت سکون پہنچے گا۔ میری باتوں سے حور کے ذہن میں بہت سی سوچوں سے در وا ہو گئے تھے۔ میں جیسا چاہتی تھی وہ آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے لا تعداد سوالات مچلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ، جو وہ چاہ کر بھی اپنی زبان پر نہیں لاپا رہی تھی۔ کچھ دیر وہ خاموش سی بیٹھی رہی، پھر آخر اس نے اپنے بند لبوں کا قفل کھول ہی دیا۔ آیا ! کیا ہی قسمت ہے میری ، یعنی میں اب خود کشی بھی نہیں کر سکتی کہ وہ حرام ہے، یعنی اب میں مر بھی نہیں سکتی۔ لیکن اگر ایسا ہے تو میں تو پھر گناہگار ہو چکی۔ میں تو ایک زندہ لاش کی طرح ہوں جو اپنے بدن کی قبر میں قید ہے۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ رقص کر رہی تھی، ایک تکلیف دہ مسکراہٹ۔ کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولنے لگی۔ بعض اوقات حالات خود سے ہی فیصلہ کر لیتے ہیں آپا اور ہم چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ میری زندگی کا بھی فیصلہ اب ہو چکا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اُس کی آنکھوں میں نمی تھی، مگر چہرے پر مسکراہٹ۔ اُس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ہوا کے جھونکے کی طرح آنا فانا میرے کیبن سے غائب ہو گئی۔ میں چاہ کر بھی اسے نہیں روک پائی، شاید اس نے ٹھیک کہا تھا کہ کبھی کبھی ہم چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی مگر جانے اس کے دل و دماغ ع سے سے ، یہ یہ سوچ نکل پائے گی یا نہیں ، اس کا مجھے یقین نہ تھا۔ صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے سورج کی کرنیں کھڑکی پر لگے بھاری پردوں سے نکل کر اندر آنے کے لئے مچل رہی تھیں۔ کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر پڑے گلاب کے پودے پر موجود واحد سُرخ گلاب مرجھایا ہوا تھا۔ کھڑکی کے ساتھ لکڑی کی الماری رکھی تھی، جس کے دروازے پر ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا چپکا ہوا تھا۔ وہ پنکھے کی ہو اسے مسلسل پھڑ پھڑارہا تھا۔ کاغذ کے ٹکڑے پر ایک جملہ درج تھا۔ سو سائیڈ نوٹ … اے زندگی ! الوداع ، بہت غم سہے ہیں میں نے ، اب الوداع اے زندگی۔ کمرے کی دیوار پر ایک ایل ای ڈی نصب تھی جس پر ملکی آواز میں کوئی پرو گرام چل رہا تھا۔ جی تو ناظرین و حاضرین ! آج ہمارے ساتھ اسٹوڈیو میں موجود ہیں، ہماری ابھرتی ہوئی قلم کار حور عرش ! آیئے ان سے کچھ سوالات کرتے ہیں۔ جی تو حور عرش آپ ہمیں بتائیے کہ آپ کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے ؟ مہمان ایک مضبوط مسکراہٹ کے ساتھ اپنا جواب دینے لگی۔ میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میں نے اُس وقت اپنے آپ کو زندہ رکھا جب میں مرنے کے لئے بالکل تیار تھی۔ پورا اسٹوڈیو ایک دم تالیوں کے شور سے گونج اُٹھا۔ الماری پر چسپاں کا غذ کی پھڑ پھڑاہٹ نے حوریہ کی نیند میں خلل ڈالا تھا۔ وہ بیڈ پر چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ ایک طویل انگڑائی لیتے ہوئے وہ بستر سے اُٹھی اور واش روم کی جانب بڑھ گئی۔ الماری کے پاس سے گزرتے ہوئے غیر ارادی طور پر اس کے قدم تھے تھے۔ اُس نے وہ کاغذ کھینچ کر اُتارا اور اُس کے دو ٹکڑے کر کے ڈسٹ بن میں پھینک دیئے۔ ساتھ ہی اس نے کھڑکی کے آگے لگے پردے ہٹا دیئے اور وہاں کھڑے ہو کر باہر سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کو اپنے اندر جذب کرنے لگی کیونکہ اسے نئی زندگی مل گئی تھی۔