Friday, October 11, 2024

Naiki Ka Badla | نیکی کا بدلہ

ہمارے خاندان میں خالہ کو بہت زیادہ خوش قسمت تصور کیا جاتا تھا کیونکہ وہ بے حد خوشیوں بھری زندگی گزار رہی تھیں ۔ثمینہ میری خالہ زاد تھی، وہ ایک اعلی خاندان سے تعلق رکھتی تھی ۔ اس کے دادا گاؤں کے چوہدری تھے اور والد بہت بڑے افسر تھے، ان کی پوسٹنگ مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی تھی اور وہ جہاں جاتے ، بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ۔ خالو جان کی ہم سے دور کی رشتہ داری تھی لیکن وہ ہمیں خاصی اہمیت دیتے ۔ جب بھی ان کے گھر جاتے خاطر تواضع میں کسر نہ چھوڑتے تھے، مجھ کو اپنی بیٹی جیسا جانتے۔ثمینہ ان کی چھوٹی بیٹی تھی ۔ خالہ جان کے دو بیٹے بھی تھے جن کے نام علی اور عبّاس تھے ۔ دونوں ہی پیارے بچے تھے لیکن ثمینہ سب سے زیادہ پیاری تھی۔ خالو جان کو دو ملازم سرکار کی طرف سے ملے ہوۓ تھے۔ ایک کا نام باری تھا جو گھریلو کام کرتا تھا اور دوسرا گیٹ کیپر تھا۔ جب بھی وہ گاؤں جاتے ، یہ ملازم خالو کے گھر پر موجود رہتے اور ان نے گھر کی حفاظت کرتے تھے۔ یہ لوگ کم ہی گاؤں آتے تھے ۔ خالہ جان کا کہنا تھا، میں اپنے بچوں کومٹی میں گندا ہوتے نہیں دیکھ سکتی کیونکہ گاؤں میں مٹی ہوتی ہے ۔ وہ اپنے بچوں کو گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہ دیتی تھیں ۔ اللہ تعالی نے خالہ جان کو اتنی نعمتیں دیں کہ بیان نہیں کرسکتی ،لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اچانک ایک حادثے میں خالو جان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد خالہ جان کو سرکاری مراعات اور ملازمین سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ وہ مجبورا سسر صاحب کے گھر گاؤں آ گئیں جہاں ان کی زمینداری تھی۔ ثمینہ کے پاس آب بھی زندگی کی سب نعمتیں تھیں کسی شے کی کمی نہ تھی ، زمینیں ان کی اپنی تھیں لیکن باپ کی شفقت اور ان کا سایہ موجود نہ تھا۔ یہ ایسی کمی تھی جس کو کسی صورت پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ زمینوں پر کام کرنے والے مزارعے نے اپنا بارہ سالہ بیٹا خالہ جان کے سپرد کر دیا اور کہا کہ اسے آپ کی خدمت پر مامور کر دیا ہے جو کام کرانا ہو، کروا لیا کریں۔ ثمینہ اس وقت صرف دو سال کی تھی۔ جو لڑکا اس کی امی کے پاس بطور ملازم آیا تھا ، اس کا نام انور تھا۔ وہ بہت اچھا، نیک، تابعدار اور خوبصورت تھا۔ خالہ جان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی اور شرافت کو دیکھ کر اس کو اسکول بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وقت گزرتا رہا۔ انور صیح اسکول جا تا اور باقی وقت وہ خالہ جان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی ۔اب خالہ جان کے بچے بڑے ہو گئے تھے، انور بھی جوان تھا ، اس نے ایف ایس سی پاس کر لیا۔ اس کی تابعداری میں سرموفرق نہیں آیا تھا۔ یہ لڑکا ایسی خوبیوں کا مالک تھا کہ خالہ جان کو اس سے محبت ہوگئی اور وہ اس کو ا پنی اولاد کی طرح چاہنے لگیں، بالکل اپنے بیٹوں کی طرح رکھتیں ،کسی کو پتا نہ چلتا کہ یہ لڑکا کا ان کا بیٹا نہیں ہے بلکہ مزارع کا بیٹا ہے۔ انسان کے گنوں سے ہی اس کی قدر ہوتی ہے۔ انور نے بھی اپنے گنوں سے مقام پایا۔ وہ پڑھائی میں اول نمبر تھا اور دوسرے کام دیانتداری سے کرتا تھا۔ خالہ کی زمین بہت زیادہ تھی ۔ سوچا کہ اس میں سے اس لڑکے کو کچھ دوں گی تاکہ اس کی زندگی بن جاۓ، پڑھ لکھ کر اسے مزدوری نہ کرنی پڑے ۔ دادا جان فوت ہو گئے ۔ اب خالہ جان ہی سب سے بڑی تھیں، بہت سے فیصلے خود ان کو کرنے تھے۔ بچوں کی شادی کا مرحلہ آیا تو سوچ میں پڑگئیں، ثمینہ کے رشتے کے لئے پریشان تھیں ۔ خاندان میں جولڑ کے تھے، وہ صاحب جائداد ضرور تھے لیکن ان میں عیب بھی موجود تھے- خالہ جان کو انور سے بیٹوں جیسی محبت تھی۔ کچھ سوچ بچار کے بعد نظر انتخاب اسی پر ٹہر گئی ۔انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ انور کو گھر داماد بنا کر بیٹی کو اسی سے بیاہ دیں گی ۔ وہ روشن خیال تھیں ، امیری ،غریبی اور ذات پات کو اہمیت نہ دیتی تھیں ۔ انور کا باپ مزارع ضرور تھا مگر اس کا تعلق اچھی ذات سے تھا۔ جب خالہ نے اپنے خیال کا اظہار ثمینہ اور دونوں بیٹوں سے کیا تو انہوں نے مخالفت نہیں کی کیونکہ ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے وہ سب بھی انور سے انسیت رکھتے تھے۔ جب ثمینہ کے چچا کو اس امر کا علم ہوا تو وہ بہت خفا ہوئے ۔ یہ رشتہ ہرگز نہیں ہوسکتا ، ہم اپنی لڑکی کو کسی جاہل اور غریب خاندان میں نہیں بیاہ سکتے ، ہم گاؤں کے چوہدری ہیں، ہماری بیٹی مزارعوں میں کیسے جاسکتی ہے؟ رشتہ اپنے ہم پلہ گھرانے میں کیا جا تا ہے، ایسے ان پڑھوں میں نہیں ۔ ان کا کہنا بھی غلط نہ تھا۔ صرف انور ہی پڑھا لکھا تھا باقی اس کا پورا خاندان ان پڑھ تھا۔ جب خالہ جان اس رشتے پر اڑ گئیں تو سارا خاندان ان سے ناراض ہو گیا مگر خالہ کو انور سے لگاؤ تھا، انہوں نے کسی کی نہیں سنی ۔ سب سے کہہ دیا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی انور سے کروں گی، وہ دیکھا بھالا ہے ، میرے ہاتھوں پلا بڑھا اور جوان ہوا ہے ، وہ میرے طابع رہے گا ، شادی کے بعد میری بیٹی کو دکھ نہ دے گا جبکہ سسرال میں سارے لڑکے آوارہ مزاج ہیں ، ان میں سے کسی سے رشتہ کیا تو وہ ثمینہ کو دکھ دیں گے ، شراب پیتے ہیں ، دولت لٹاتے ہیں حتی کہ بازارحسن جاتے ہیں اور برے لوگوں کی صحبت کو برا نہیں سمجھتے جبکہ انور میں ایسی کوئی برائی نہیں ہے۔ بہر حال ان کا فیصلہ نہ بدلا البتہ چچا، چچی اور دوسرے لوگوں کے واویلا کرنے پر ثمینہ ضرور پریشان ہوگئی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے جبکہ وہ بطور بھائی انور سے انسیت رکھتی تھی ۔ اس کے دماغ میں دوسری کوئی بات نہ تھی ۔ اب رشتے دار طرح طرح کی باتیں بنانے لگے ۔ ان کے خیال میں ثمینہ کی مرضی اس میں شامل تھی مگر وہ کچھ نہ جانتی تھی ، کبھی اس کے دل میں انور کے لئے کوئی ایسا ویسا خیال جا گزیں نہیں ہوا تھا۔ ان کے گھر کا ماحول بہت پا کیزہ تھا۔ کسی کے منہ پر کون ہاتھ رکھ سکتا تھا۔ جتنے لوگ اتنی باتیں ہونے لگیں ۔ رشتے داروں نے ثمینہ کے کانوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کر دیں کہ وہ ڈسٹرب رہنے لگی ، مضطرب ہوتی گئی ۔ جب خالہ نے یہ صورتحال دیکھی ، انہوں نے سسرالی رشتے داروں سے ناتا توڑ لیا اور ثمینہ کے نکاح کی تاریخ رکھ دی گئی۔ پہلے میرا نکاح خالہ کے بیٹے علی سے ہونا تھا، ہمارے نکاح سے اگلے روز انور اور ثمینہ ہمارے نکاح سے اگلے روز انور اور ثمینہ کو نکاح کے بندھن میں باندھا جانا تھا۔ خالہ نے بیٹے کے نکاح پر اپنے سسرالی رشتے داروں کو مدعو کیا لیکن ثمینہ کے نکاح کی بات ان سے پوشیدہ رکھی گئی ، تاہم ان کو کچھ سن گن مل گئی تھی شاید جب میرا اور مصطفی کا نکاح ہور ہا تھا اور سب لوگ ادھر مصروف تھے، ثمینہ کے چچا نے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر لے گئے جو بالکل خالہ کے گھر کے قریب تھا۔ انہوں نے وہاں ثمینہ پر بندوق تان لی اور کہنے لگے ۔ تم انور سے پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو اور اپنی ماں کو آڑ بنا لیا ہے، ہم یہ شادی ہرگز نہیں ہونے دیں گے ، ہم اس گاؤں کے چوہدری ہیں، ملازم کے لڑکے کو داماد بنا کر عزت مٹی میں نہیں ملا سکتے۔ انہوں نے ایک سادہ کاغذ ثمینہ کے سامنے رکھا کہ اس پر دستخط کرو۔ وہ گھبرا گئی اور ڈر کر رونے لگی ۔ اس کے رونے کی آواز سن کر چچازاد بھائی کمرے میں آ گیا۔ اس نے وکالت پاس کر رکھی تھی ۔ اپنے باپ سے کہا۔ بابا جان، آپ یہ بہت غلط کر رہے ہیں ، ایسا مت کریں اور ثمینہ سے زبر دستی کسی کاغذ پر دستخط نہ لیں، اس مسئلے کو ہم بعد میں پیار ومحبت اور بات چیت سے حل کر لیں گے۔ اس نے بندوق باپ سے لے لی اور یہ کہہ کر چچا زاد نے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور کہا۔ ثمینہ ، فورا چلی جاؤ۔ وہاں سے بچ کر وہ گھر آ گئی مگر اب ماں سے مقابلہ مشکل تھا، وہ بیٹے کی رسم نکاح میں مصروف تھیں ۔ ثمینہ نے کچھ کہنا چاہا خالہ نے بیٹی کی بات نہ سنی ۔ وہ بہت سہمی ہوئی تھی، اپنے کمرے میں دیر تک اکیلی بیٹھی روتی رہی۔ اگلے دن شام کو اس کا انور سے نکاح تھا جس کے لئے خالہ نے کافی راز داری سے کام لیا تھا، صرف انور کے والد اور چچا کو بلایا تھا۔ ادھر ثمینہ کے بھائی گواہ بنے اور یہ مرحلہ راز داری سے طے ہو گیا۔ ثمینہ نے ماں سے منع بھی کیا کہ چچا سے دشمنی مول نہ لیں ، ورنہ وہ جینا حرام کر دیں گے، انور ہمارا بھائی بن کر یہاں رہا ہے تو بھائی ہی رہنے دیں مگر خالہ نے ایک نہ سنی۔ ایک سال تک خالہ جان نے اس بات کو راز رکھا، یہاں تک کہ میں ان کی بہو بن کر سسرال آگئی، سال بعد انہوں نے بیٹی کی سادگی سے رخصتی کر دی اور وہ انور کی دلہن بن کر ان کے گھر چلی گئی۔ خالہ کا خیال تھا معاملہ ٹھنڈا ہو جاۓ گا تو پھر بیٹی اور داماد کو واپس بلوالوں گی لیکن معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ ثمینہ کے چچاؤں اور دیگر رشتے داروں نے کہہ دیا اگر انور اور ثمینہ نے دوبارہ اس گھر میں قدم رکھا تو ہم انور کو گولیوں سے چھلنی کر دیں گے ، وہ اب یہاں دوبارہ نہیں آ سکتا۔ انور ثمینہ کو پا کر بہت خوش تھا لیکن ثمینہ کافی پریشان تھی کیونکہ اس کے سسرال والوں کا ماحول بالکل مختلف تھا۔ وہاں کوئی فرد بھی پڑھا لکھا نہیں تھا۔ انور گریجویٹ ضرور تھا مگر وہ بیروزگار تھا۔ آخر کار اسے ریلوے میں کلرکی مل گئی اور وہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر تعینات ہو گیا۔ ڈیوٹی کیلئے اس کو اسٹیشن پر رہنا پڑتا تھا جبکہ ثمینہ سسرال والوں کے ساتھ گاؤں میں رہتی تھی ۔ انور ہر ماہ صرف ایک بار چھٹی پر ملنے آتا تھا۔ شرفساد کے ڈر سے ثمینہ کے بھائیوں نے بھی اس کو میکے آنے سے منع کر دیا تھا۔ وہ بچاری وہاں بہت اداس اور پریشان تھی ۔ ایک سال بعد ایک بیٹی کی ماں بھی بن گئی جس کی پرورش اچھے ماحول میں نہ ہو پا رہی تھی۔ وہ مچھروں سے تنگ تھی اور گرمی سے نڈھال ہو جاتی تھی ، پینے کو صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ خالہ چوری چھے کچھ رقم ہر ماہ بھجواتی تھیں مگر یہ رقم اس کے سرالی اپنے اوپر خرچ کر لیتے تھے، وہ خالی ہاتھ رہ جاتی تھی ۔ وقت گزر رہا تھا۔ ہم سب موزوں اور مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ معاملات چچا والوں سے درست ہوں گے تو ثمینہ کو لے آئیں گے۔ پھر ڈیڑھ برس بعد اس کو اللہ تعالی نے بیٹا دے دیا مگر وہ خوش نہ تھی۔ کھانے پینے کو اس کی مرضی کا نہ ملتا تھا۔ بیٹا پیدا ہوتے ہی بیمار ہوگیا، اسے ٹائیفائیڈ ہوا، وہ بڑی مشکل سے بچا۔ ثمینہ کی ساس واحد ہستی تھی جو ایک ماں کی طرح بہو کا خیال رکھتی تھی ، اس کی قدر کرتی تھی اور پیار دیتی تھی ۔ وہ بھی چل بسی ، اس کی وفات کے بعد گھر کا ماحول ثمینہ کے لئے اور خراب ہو گیا۔ اس کی جٹھانی اور دیورانی دونوں ہی اس سے جلتی تھیں اور جہالت کے باعث طرح طرح سے تنگ کرتی تھیں ۔ کہتی تھیں کہ یہ مہارانی ہے تو اپنے گھر کی ہے ، ہم کیوں اس کا کام کریں ، اسے کھانا بنا کر دیں ، میں اپنے سارے کام خود کرے۔ پہلے ساس ساتھ دیتی تھی ، اب وہ اس سے برتنوں کی دھلائی ، جھاڑ وصفائی اور کھانا بنانے پر اصرار کرتیں اور لڑتیں۔ شوہر گھر موجود نہ ہو تو اکیلی عورت ان مسائل کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ثمینہ کو گھر کے ایسے کام کرنے کی عادت نہ تھی۔ وہ ایک زمیندار گھرانے کی لڑکی تھی ، شہزادیوں کی طرح پلی بڑھی تھی ، اس کے گھر میں دس نوکرانیاں تھیں ۔ آج وہ سارے کام خود کر نے پر مجبورتھی ۔ جو پہلے کبھی اس کی نوکرانیاں کرتی تھیں۔ جٹھائیوں، دیورانیوں، نندوں ، ان کے بچوں اور شوہروں نے ثمینہ کا جینا دوبھر کردیا، ان کے طرز زندگی پر بھی اس لڑکی کو سخت الجھن ہوتی تھی ۔ اب اسے احساس ہوا کہ یکساں طرز زندگی نہ ہونے سے حیات کتنی مشکل ہوجاتی ہے۔ ماں نے اس کی شادی کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی ، شاید ان کو اپنے سسرالی رشتے داروں کی طاقت کا اندازہ نہ تھا جو اب ثمینہ اور انور کو میکے آنے نہ دیتے تھے۔ جب انور سے ثمینہ نے رورو کر مطالبہ کیا کہ مجھ کو اپنے گھر کے جلتے جہنم سے نکالوتو وہ دو بچوں سمیت اسے اپنے ساتھ لاہور لے آیا۔ بڑی مشکل سے ایک کوارٹر الاٹ کرا سکا ، تنخواہ تھوڑی تھی جس میں گزارہ مشکل تھا۔ انور اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے آیا تھا تا کہ ثمینہ گھر میں اکیلی نہ رہے۔ لاہور میں اس نے منصور کو اسکول داخل کرا دیا۔ ثمینہ منصور کا بہت خیال کرتی تھی۔اس کو پڑھا لکھا کر اپنے بھائی سے کہہ کر دبئی بھجوادیا۔ جوخرچہ خالہ بھیجتی تھیں ، ثمینہ اپنے دیور کی پڑھائی پر لگا دیتی تھی تا کہ سسرال کے خاندان کا ایک فرد تو پڑھ لکھ کر سدھر جاۓ ، کمانے کے لائق ہو جاۓ ، ایک تو اس کا ہم نوا ہو۔ خالہ جان نے بڑی مشکل سے کچھ زمین اپنے اختیار میں لی اور اس کی پیداوار بیٹی کو دینے لگیں جس سے ثمینہ کی مشکلات آسان ہوگئیں ۔ حالات بھی بہتر ہوۓ ۔ اب اس کے چاروں بچے اچھے اسکولوں میں پڑھنے لگے، انور کی بھی ریلوے میں ترقی ہوگئی ۔ یوں کافی مسائل پر قابو پالیا گیا۔ مجھ کو ثمینہ سے ملنے کی اجازت نہ تھی لیکن جب میکے جاتی ، اس سے ملنے جاتی تھی ، امی ساتھ ہوتیں ۔ ثمینہ اپنے دکھ بیان کرتی اور روتی تو کافی افسوس ہوتا تھا کہ خالو کی ایک ہی بیٹی تھی، شہزادیوں جیسی، دیکھو کیسی اس کی قسمت نکلی ۔ دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ منصور نے کچھ دن وفا کی ، دبئی سے کافی کما کر وہ اپنے والدین کو بھجوانے لگا ، کچھ رقم انور کو بھی بھجواتا تھا مگر پھر اس نے بھائی اور بھابی سے ناتا توڑ لیا اور اپنی ساری کمائی والدین کے لئے وقف کردی۔ ثمینہ کو اس بات کا شکوہ نہ تھا ، افسوس تھا تو یہ کہ اپنی بھابھیوں کے کہنے میں آ کر اس نے ثمینہ اور انور سے قطع تعلق کر لیا تھا جبکہ ثمینہ نے اسے بچوں کی طرح پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا تھا۔ اب ثمینہ کہتی تھی ۔ سچ ہے پرائی اولاد کی پرورش بڑے جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ باپ کی زمینوں سے بھی بہت کم حصہ دیا گیا، بعد میں اس کے بھائی بھی اپنے چچاؤں کے ہم خیال ہو گئے ، صرف ماں کے حصے میں آئی زمین ہی اسے مل سکی اور یہ سزا تھی انور سے شادی کی، ماں کے اس اقدام کو ان کے بیٹوں نے معاف بھی نہ کیا ، بہوؤں نے ساس کو برا بھلا کہا اور وہ ان کے ساتھ حقارت کا سلوک کرنے لگیں ۔ان کی بہویں ان کے سسرال سے تھیں ۔ وضاحت کرتی چلوں کہ مجھ کو شادی کے بعد جب اولاد نہ ہوئی تو میرے شوہر نے دوسری شادی اپنی چچازاد سے کر لی تھی کہ ان کی زمین دگنی ہوجاۓ۔ خدا نے اولاد بھی دے دی اور چچاؤں نے دشمنی بھی ختم کر دی ، گرچہ بظاہر عزت کرتے تھے مگر دل میں مجھ سے وہ سب لوگ خار کھاتے تھے کیونکہ میں خالہ جان کی بھانجھی تھی اور ان کی طرف داری کرتی تھی ۔ ان کا خیال رکھتی تھی ۔ اس پر میری سوتن اور د یورانی دونوں ہی جلتی تھیں اور مجھے سے بدظن رہتی تھیں ۔ وہ اپنے شوہروں کو بھی مجھ سے بدظن کرتی تھیں ، تنگ آ کر بالآخر خالہ جان ثمینہ کے گھر منتقل ہوگئیں ۔ وہ بیٹی تھی ، ہر حال میں ماں کا خیال رکھتی تھی ۔ انور نے بھی وفا کی بیٹا بن کر دکھایا۔ آخری عمر میں خالہ جان کا خیال ایک بیٹے کی مانند رکھا ، ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔ جب وہ بیمار ہوگئیں تو ان کی خدمت سگے بیٹوں سے بڑھ کر کی جبکہ سگے بیٹوں نے پوچھا تک نہیں۔ سچ ہے کسی کے ساتھ نیکی کر و تو رائیگاں نہیں جاتی ۔ انور نے بھی بیٹا ہونے کا آخر کار حق ادا کر دیا-

Latest Posts

Related POSTS