ہمارے محلے میں ایک درزی کی دکان تھی۔ محلے بھر کے لوگوں ان سے کپڑے سلواتے تھے۔ جب دکان نئی نئی کھلی تو وہ اتنے مشہور نہ تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا ہنر سب پر کھلنے لگا اور وہ مشہور ہوتے گئے۔ ان کے ہاتھ میں بہت صفائی تھی۔ وہ کتر بیونت کے ماہر اور پختہ کار درزی تھے، تبھی محلے کے اطراف سے بھی لوگ ان سے کپڑے سلوانے کو آنے لگے۔ بیر جی ٹیلر اتنے مشہور ہو گئے کہ شہر بھر سے واسکٹ اور شیر وانیاں سلنے کو آنے لگیں۔ بیر جی بابا مسلمان تھے لیکن انہوں نے نام سکھوں والا رکھا ہوا تھا۔ دراصل جب بر صغیر کا بٹوارہ ہو رہا تھا، وہ بھی قافلے والوں کے ساتھ ہجرت کر کے آرہے تھے۔ جب وہ مشرقی پنجاب کے ایک گائوں تک پہنچے تو بلوائیوں نے حملہ کر دیا۔ کافی مسلمان مارے گئے لیکن ایک سکھ نے جس کا نام ” بیر جی“ تھا، ان کو اور ان کے کنبے کو کسی طور بچا لیا اور اپنے گھر میں چھپا دیا۔ اس طرح ان کی اور ان کے خاندان کے افراد کی جان بچ گئی۔ تبھی انیس احمد اس سکھ کے اتنے مشکور ہوئے کہ انہوں نے پاکستان صحیح سلامت پہنچ کر اپنا نام انیس سے “بیر جی“ رکھ لیا تا کہ اپنے محسن کو کبھی نہ بھلا سکیں۔ یہ گویا اس احسان کا بدلہ تھا جو بیر جی نامی سکھ نے ان پر کیا تھا۔ وہ ایک با کمال درزی تھے لہٰذا نئے وطن آ کر بھی اپنے ہی پیشے کو اپنایا۔ بڑی دقتوں سے کرایے پر دکان حاصل کی اور اپنے ہنر سے روزی کمانے لگے۔ پاکستان آنے کے سات ماہ بعد بیر جی کی بیوی نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا اور اللہ کو پیاری ہو گئی۔ بیر جی اپنی بیوی کو بہت چاہتے تھے۔ وہ ان کی زندگی کی ساتھی اور دکھ سکھ کی شریک تھی۔ بیوی کی موت کا ان کو اس قدر غم ہوا کہ وہ گم صم ہو کر رہ گئے۔ کئی دن گزر گئے حتی کہ دو تین ماہ وہ اس صدمے سے نہ نکل سکے ۔ اب ان سے کام بھی نہ ہوتا تھا۔ کپڑے سینے بیٹھتے تو الٹی سیدھی سلائی کر کے رکھ دیتے۔ کتر بیونت میں ایسی غلطیاں ہونے لگیں کہ سارے کپڑے کا ستیا ناس ہو جاتا۔ شیر وانی کا پاجامہ بن جاتا، پاجامے کا کرتا مل جاتا۔ ایسی ذہنی کیفیت ہوئی کہ کام پر گرفت باقی نہ رہی، اس طرح چند دنوں میں بیر جی کی ٹیلرنگ کی دکان بند ہو گئی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانا سو بیماریوں کی ایک بیماری ہوتی ہے۔ بیر جی کی بھی ذہنی حالت بگڑنے لگی۔ خالی وقت میں سوچیں اپنا دائرہ اس قدر تنگ کرنے لگیں کہ انہیں دم گٹھنے کی تکلیف ہو گئی ۔ جب اندر کی سوچ ان کی روحانی دنیا میں جبس کی سی کیفیت پیدا کر دیتی تو بار بار پانی پیتے، گلے پر ہاتھ رکھتے ، ہاتھ ملتے اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑتے۔ باپ کی اس عجیب بیماری سے ان کا بیس سالہ بیٹا و قار اور بہو روشن آراء بہت پریشان تھے۔ انہوں نے کئی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ سبھی نے کہا کہ ان کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ بس ذہن پر دبائو ہے۔ زیادہ غم کرنے سے ان کی ایسی حالت ہو جاتی ہے۔خوش رہیں گے تو خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے اور خوش رہنا بیر جی کے اپنے بس کی بات نہیں تھی۔ ابھی وہ سنبھلنے نہ پائے تھے کہ خدا نے ان کو ایک کو ایک اور کڑی آزمائش سے دوچار کر دیا۔
ہوا یہ کہ ایک روز صبح سویرے وقار سو کر اٹھا تو دیکھا، تل میں پانی نہیں آرہا ہے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ اسے مسجد جانے کی جلدی تھی، تبھی اس نے صحن میں رکھے گھڑے کا پانی بالٹی میں ڈالا اور نہا لیا۔ جب نماز پڑھ کر آیا تو اسے اپنا سر بھاری بھاری لگا۔ گھر آتے ہی وہ چکرا کر بستر پر گر پڑا، تبھی اسے تیز بخار نے آ لیا۔ ہاتھ پائوں میں کھنچائوں شروع ہو گیا اور وہ زور زور سے سر کو ادھر ادھر مارنے لگا۔ بیر جی بیٹے کی یہ حالت دیکھ گھبرا گئے اور بھاگے بھاگے حکیم صاحب کو بلا لائے۔ حکیم نے وقار کی حالت دیکھی تو کہا۔ اسے ڈبل نمونیہ ہو گیا ہے۔ یہ یک دم گرم کمبل سے نکل کر ، ٹھنڈے پانی سے نہا لیا ہے تبھی ٹھنڈ نے پکڑ لیا۔ اس کی زندگی خطرے میں ہے فورا اسپتال لے جائے۔ روشن تو روتے روتے نڈھال ہونے لگی۔ رحمدل پڑوسی اپنی گاڑی پر اسپتال لے گیا۔ بہر حال ، ڈاکٹروں نے اپنی سی کوشش کی مگر وقار کی زندگی تھوڑی تھی، وہ جانبر نہ ہو سکا اور تین دن بے ہوش رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملا۔ بیر جی تو پہلے ہی دل گرفتہ تھے۔ بیٹے کی موت نے رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔ جینے کی آرزو باقی نہ رہی۔ دیوانوں کی سی حالت ہو گئی۔ کم سن بہو کو اپنی بیوگی کا غم کچھ کم نہ تھا کہ نیم پاگل سسر کو بھی تھامنا پڑ گیا۔
اب بیر جی ایک زندہ لاش تھے۔ چلتے تو ہوش نہ ہوتا کہ کدھر پائوں پڑ رہے ہیں اور کدھر کو رستہ ہے۔ گھر آتے تو بہو روتی ہوئی ملتی۔ باہر جا بیٹھتے تو گلی محلے کے لڑکے چھیڑتے۔ بال الجھے ہوئے، میلے کپڑے ، بچے سودائی جان کر پتھر پھینکنے لگے۔ محلے پڑوس کے لوگ اچھے تھے۔ وہ اس کنبے کے حالات جانتے تھے ، اس لئے ہمدردی کرتے تھے۔ عور تیں روز ہی روشن کے پاس آتیں اور اس کو تسلی دیتیں، سمجھاتیں ، مدد بھی کرتیں۔ یوں زندگی کی گاڑی آگے جارہی تھی مگر یہ ہمدردیاں کب تک ، پیٹ کا دوزخ تو اپنی کمائی سے ہی بھرتا ہے۔ ایک صاحب دل پڑوسن نے روشن کو مشین لے دی۔ دوسری نے سلائی کٹائی میں مدد دی، اس طرح اس کا کچھ دھیان بٹا اور اس نے گھر بیٹھے سلائی کا کام شروع کر دیا۔ آس پاس کے سبھی عور تیں روشن سے کپڑے سلوانے لگیں یوں ایک تو کچھ پیسے آجاتے اور دوسرے روز کوئی نہ کوئی عورت گھر آجاتی اور کپڑے سلوانے کے بہانے تھوڑی دیر بیٹھ جاتی۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتی۔ باتوں باتوں میں پتا چل جاتا کہ آج روشن کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہے۔ وہ کچھ ڈھارس دیتی، ہمت بندھاتی اور گھر جا کر جو پکا ہوتا، اس میں سے کچھ کھانا بھیجوا دیتی۔ اس طرح بیر جی کی بہو کا نہ صرف دل بڑھا بلکہ اس کا رحجان کام کی طرف ہو گیا۔ وہ سسر کو بھی سمجھاتی کہ چچا صبر کرو، جو قسمت کا لکھا تھا، ہو گیا۔ اب رونے دھونے سے کچھ نہ ہو گا۔ آپ بھی دوبارہ دکان شروع کر دیں۔ کب تک تالا پڑا رہے گا۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ جلد ہم برے حالات سے نکل آئیں گے۔ سسر کو تو یہ غم کھائے جار ہا تھا کہ اگر میں بھی مر گیا تو جوان بہو کا کیا ہو گا، جو میرے بعد بالکل تنہا رہ جائے گی۔
روشن، بیر جی کی سگی بھتیجی بھی تھی، جو انہیں بیٹی کی طرح پیاری تھی۔ تاہم وہ دکان پر نہ بیٹھ سکے۔ اس پر ابھی تک تالا پڑا ہوا تھا اور دکان کا مالک بار بار تقاضہ کر رہا تھا کہ کرایہ بڑھا دو، ورنہ دکان بڑھائو۔ کسی دن تالا توڑ کر تمہار ا سامان باہر پھینک دوں گا اور جو پچھلا کر ا یہ تم پر واجب ہے ، وہ بھی کھڑے کھڑے وصول کرلوں گا۔ اگر تم نے نہ دیا تو پھر تمہاری بہو تو ہے ہی ، ہم کو کرایہ وصول کرنا آتا ہے۔ اس دھمکی نے بیر جی کا کلیجہ کاٹ کر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی سلائی مشین فروخت کر کے کرایہ ادا کیا، پھر بھی پوری ادا ئیگی نہ ہوئی۔ اب فروخت کرنے کو کچھ نہ تھا۔ دکان بہو واپس نہ کرنے دیتی تھی کہ گھر کے نزدیک اور مناسب جگہ پر ایسی دکان پھر نہ ملے گی۔ بالآخر بیر جی کو پھر سے دکان کی جانب متوجہ ہونا ہی پڑا۔ ان کا زیادہ وقت دوسروں کی دکانوں پر بیٹھ کر گزرتا تھا۔ ان دنوں وہ کافی بیمار بھی رہتے تھے۔ گلی میں چلتے چلتے گر پڑتے اور بے ہوش ہو جاتے۔ بہو آ کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ، ہاتھ پائوں ملتی اور سہارا دے کر گھر کے اندر لے جاتی۔ اس طرح محلے کے کچھ آوارہ خصلت لڑکوں نے اپنی گندی ذہنیت کی وجہ سے الٹی سیدھی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ یہ باتیں تیر کی طرح بیر جی کے دل کو لگیں۔ ایک روز بہو سے کہا۔ بیٹی روشن آراء آج تم سے ایک بات کہنا ہے۔ میری بات کا ہر گز بر امت ماننا۔ بیٹی ! تم دوسری شادی کر لو۔ محلے کے دکاندار کئی رشتے بتارہے ہیں۔ چچا گر میں نے شادی کر لی تو آپ کا کیا ہو گا ؟ آپ کو کون کھا نا دے گا۔ آپ تو در در کی ٹھوکریں کھائیں گے۔ سسر نے کہا۔ بیٹی تو میری پروا مت کر ۔ اگر تو نے شادی نہیں کی تو میں خود کشی پر مجبور ہو جائوں گا۔ یہ دنیا بری جگہ ہے۔ چچا ہم یہ محلہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ ہم یہ محلہ تبدیل کر لیں گے تو اگلے محلے والے ہمیں تنگ کریں گے۔ جگہ بدل لینے سے لوگ نہیں بدلتے۔ یہاں محلے کے آوارہ لڑے تمہارے بارے میں غلط فقرے کہتے ہیں ، وہاں بھی کہیں گے۔ چا، پھر مجھے چند دن سوچنے کا موقع دو۔ میں آپ کو ایک ہفتے کے بعد اپنے ارادے سے آگاہ کر دوں گی۔ محلے کی ایک بیوہ عورت ، خالہ محمودہ روشن کے پاس سلائی کے کپڑے لے کر آیا کرتی تھی۔ وہ محلے کے بہت سے گھروں سے کپڑے جمع کر کے اس کو لادیتی تھی۔ اس سلائی کی اجرت میں سے وہ تھوڑا سا کمیشن خالہ کو دے دیا کرتی، یوں روشن کو خود گھر گھر جانا نہیں پڑتا تھا۔ اس روز محمودہ خالہ آئی تو اس نے روشن کو بہت پریشان دیکھا۔ پریشانی کی وجہ پوچھی تو روشن رونے لگی اور تمام احوال بتا کر کہا۔ خالہ ! تم ہی میری مدد کر سکتی ہو۔ مجھ پر ایک احسان کرو۔ تم چاہو تو میری پریشانی دور ہو سکتی ہے۔ اس عورت نے وعدہ کر لیا۔ روشن بولی۔ خالہ تم بھی عین جوانی میں بیوہ ہو ئیں اور میرے چچا بھی ، ابھی آپ لوگ اتنے بوڑھے نہیں ہوئے۔ – چچا پینتالیس کے ہوں گے آب گے آپ بھی چالیس کی نہیں ہوئی ہو۔ چاہو تو دوسری شادی کر سکتی ہو۔ کیا مطلب ہے تمہارا روشن ؟؟ محمودہ خالہ نے حیرت سے پوچھا۔ میرا مطلب صاف ہے۔ روشن نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔ آپ کا کوئی سہارا نہیں، کوئی کفالت کرنے والا نہیں ہے۔ کبھی کسی نے گھر کام کرتی ہو، کبھی کسی گھر دو وقت کی روٹی کی خاطر خادمہ بن جاتی ہو۔ در در بھٹکتی ہو ، اس سے اچھا ہے کہ میرے سسرسے نکاح کر لو۔ کم از کم یہ گھر تو تمہارا اپنا ہو جائے گا اور سب کی زبانیں بھی بند ہو جائیں گی۔ میں چچا اور تمہاری خدمت کروں گی اور تم عزت کی زندگی جیو گی۔ روشن نے اس طرح بلک کر التجا کی کہ حالات کی ستائی ہوئی محمودہ بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ بیوگی کے بعد اپنے ماموں کے در پر پڑی تھی، جس کی بہو تو میں اس کو بہت تنگ کرتی تھیں۔ اکثر تو کھانے کو بھی نہیں پوچھتی تھیں۔ کچھ سوچ کر خالہ محمودہ نے نیم رضامندی سے کہا۔ اچھا ایک دو دن میں بتادوں گی۔ ماموں سے تو صلاح لے لوں۔ اس کا ماموں تو عرصے سے چاہتا تھا کہ بیوہ بھانجی نکاح ثانی کر دے تاکہ سر سے بوجھ ہلکا ہو۔ اس نے فورا رضامندی ظاہر کر دی۔ چار روز گزرے تب روشن نے سسر سے کہا کہ میں نے مسئلے کا حل سوچ لیا ہے۔ ساری بد نامی دور جائے گی اور آپ کو بھی سکون مل جائے گا۔ وہ کیسے بیٹی ! آخر کون سا ایسا حل تم نے سوچ لیا ہے ؟ چچا میں آپ کا نکاح خالہ محمودہ سے کروانا چاہتی ہو۔ بہت اچھی ہمدرد عورت ہے۔ بیوہ اور بے سہارا ہے۔ ان کو سہار امل جائے گا اور ہم کو بھی ، محلے بھر سے سلائی کے لئے کپڑے مجھ کو اکٹھے کر کے لادیتی ہے تو ہماری دو وقت کی روٹی کا وسیلہ ہو جاتا ہے۔ وہ خود بھی اچھی سلائی جانتی ہے۔ چچا نے بہت منع کیا مگر بھتیجی نہ مانی اور خالہ کے ماموں ممانی کو گھر بلوا لیا۔ انہوں نے بھی بیر جی کو سمجھایا کہ روزی دینے والا مالک ہے، لیکن تمہاری بر باد دنیا پھر سے آباد ہو جائے گی۔ تم سنبھل جائو گے تو دکان کو پھر سے چلا لو گے۔ تمہاری بھتیجی کے لئے بھی ہم کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈ لیں گے۔ فی الحال تم اس نیک کام کے لئے ہاں تو کرو۔ محمودہ کے آتے ہی بیر جی کے دل کی بر باد دنیا آباد ہو گئی، ذہنی حالت بھی سنبھلنے لگی۔ انہوں نے پھر سے اپنی دکان کا تالا کھولا اور محمودہ کے جہیز میں آئی نئی سلائی مشین دکان میں رکھ کر کام شروع کر دیا۔ اب بہو اور ساس گھر میں مل کر کام کر تیں اور بیر جی دکان پر ۔ گاہک آنے لگے ، پہلے اک دو اور پھر رفتہ رفتہ تانتا بندھ گیا۔ گھر کے حالات سدھر نے لگے ، مالی حالات اچھے ہوتے گئے۔ محمودہ کا قدم با برکت ثابت ہوا۔ بیر جی زندگی کی طرف لوٹ آئے تھے۔ دل میں نئی روح پڑ گئی۔ خدا کی شان کہ نکاح کے تین ماہ بعد محمودہ امید سے ہو گئی۔ روشن بہت خوش تھی۔ بیر جی کے گھر لڑکے نے جنم لیا۔
اس بچے کی پیدائش سے اللہ تعالی نے ان کے مرجھائے ہوئے دلوں کو خوشیوں سے ہمکنار کر دیا۔ ادھر محلے کی عور تیں روشن کے گن گانے لگیں، جس نے اپنے مایوس چچا کا گھر آباد کرایا تھا اور محمودہ جیسی بے آس عورت کی جھولی میں بھی خوشیوں کے پھول نصیب بنانے والے نے کھلا دیئے تھے۔ بچے کا نام بیر جی نے ندیم رکھا۔ جب وہ تین سال کا ہوا تو ایک روز دکان پر کام کرتے ہوئے ان کا ہارٹ فیل ہو گیا۔ تمام محلے والوں کو بہت افسوس ہوا۔ قدرت کے بھی کیسے نرالے کام ہیں۔ بہو کا تو براحال تھا اور محمودہ کا کہنا تھا کہ روشن ناعاقبت اندیش نے مجھ اچھی بھلی بیوہ کو اس عمر میں شادی کا روگ لگا کر اولاد والی بنا دیا۔ ایک بار کی بیوگی اچھی تھی کہ اپنا دم ، اپنا غم تھا۔ اب دوسری بار بیوہ ہو گئی اور بچے کا غم بھی عمر بھر کو اپنے ساتھ لگ گیا ہے۔ خیر ، جو خدا کی مرضی۔ دونوں عورتوں نے کچھ دنوں رو دھو کر پھر آپس میں سمجھوتہ کر لیا۔ وہ اب ایک سے دو تو تھیں۔ مل بیٹھ کر بات چیت کر لیتی تھیں۔ اکٹھے سلائی کر کے گھر کا گزارہ کرنے لگیں۔ ندیم پانچ سال کا ہو گیا تو اس کو اسکول میں داخل کرا دیا۔ جب چودہ برس کا ہوا تو محمودہ بیمار پڑ گئی۔ علاج ہوا، مرض بڑھتا گیا۔ بالآخر کینسر کی آخری اسٹیج پر پتا چلا کہ یہ خاتون چند دنوں کی مہمان ہے۔ روشن اور ندیم بہت روئے ۔ ایک دن محمودہ نے روشن کو بلا کر کہا کہ میرے بکس کا تالا کھولو۔ اس کی تہہ میں ایک ڈبار کھا ہے۔ اس ڈبے کو کھولو، جس کے اندر ایک لفافہ ہے ، جو تمہارے چچا بیر جی نے اپنی وفات سے چند روز قبل مجھے دیا تھا اور کلام پاک پر مجھ سے قسم لے کر وعدہ لیا تھا کہ اس لفافے کو مت کھولنا۔ یہ میری امانت ہے اور تب ندیم کو دینا جب وہ اٹھارہ برس کا ہو جائے۔ کسی مجبوری کے سبب پر لفافہ روشن کے حوالے کرنا، لیکن اس سے بھی کلام پاک پر قسم لے لینا کہ وہ ندیم کے اٹھارہ سال کا ہو جانے سے قبل ہر گزنہ کھولے گی ، ورنہ قیامت کے دن میں اسے معاف نہ کروں گا۔ روشن نے قسم کھائی اور لفافہ نہیں کھولا ، تاہم یہی سمجھتی رہی کہ یہ اس مکان کی ملکیت سے متعلق ہو سکتا ہے ، جو وہ اپنے بیٹے کے نام کرنا چاہتے ہوں گے۔ جب ندیم اٹھارہ برس کا ہو گیا، تب روشن نے ایک روز اس کو اپنے پاس بٹھا کر کہا۔ میں یہ لفافہ تمہاری امانت سمجھ کر تمہارے حوالے کرتی ہوں۔ خدا جانے میری زندگی کے کتنے دن باقی ہیں۔ میں نے چچی سے لفافہ لے لیا تھا مگر ان سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق اس کو نہیں کھولا۔ اب اس کو تم خود کھولو۔ یہ کہتے ہوئے روشن، بیر جی اور محمودہ چچی کو یاد کر کے رونے لگی۔ ندیم کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے۔ اس نے کہا۔ روشن بھا بھی ! اس لفافے کو آپ ہی کھولیں گی۔ آخر اتنے عرصہ تک جبکہ امی جان کا بھی انتقال ہو گیا، آپ نے اسے نہیں کھولا۔ مجھے قسم کا پاس تھا۔ میں امانت میں خیانت کو ٹھیک نہیں سمجھتی۔ میں خود کو آزمائش میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی، پھر میرا تمہارے سوا ہے ہی کون ، جو میں تم تم سے خیانت کرتی۔ گرچہ آدھا مکان میرے والد صاحب کی ملکیت میں آتا ہے ، لیکن دل سے سوچ لیا تھا کہ اپنے حصے کی یہ وراثت بھی تمہارے نام لکھ دوں گی کیونکہ میں نے تمہاری دیکھ بھال بھابھی کی طرح نہیں، ایک ماں کی طرح کی۔ سلائی کر کے تم کو پڑھایا لکھایا۔ محلے کی عورتوں نے میرے کان کھانے شروع کر دیتے ہیں کہ تم ندیم کی شادی کر دو۔ تم میرے دیور ہی نہیں چچازاد بھی ہو۔ روشن باجی! آپ نے کم سنی میں بیوگی جھیلی، کیوں اتنے سال پریشانی اور مصیبت جھیلی؟ دوسری شادی کیوں نہ کر لی ؟ میں اگر دوسری شادی کر لیتی تو چچا بالکل اکیلے رہ جاتے۔ وہ بھی اتنے بوڑھے تو نہ تھے۔ سوچا کہ یہ میرے باپ کی جگہ ہیں تو کیونکر ان کی شادی کرا دوں۔ بیر جی اور خالہ محمودہ کی شادی کا اچھا ثمر یہ ملا کہ تم پیدا ہو گئے ، ورنہ ہمارے خاندان کی نسل ختم ہو جاتی۔ یہ اللہ تعالی نے بڑا کرم کیا کہ اس نے میرے ایثار کو قبول کیا اور تم سے ہماری نسل باقی رہے گی۔ میری پیدائش کے بعد بھی تو آپ شادی کر سکتی تھیں ؟ ندیم نے آج وہ سوال پوچھ لیا جو وہ کب سے پوچھنا چاہتا تھا۔ کیونکہ تم کم سن تھے، پھر چی بیمار پڑ گئیں۔ ان کی اور تمہاری دیکھ بھال میں کافی وقت نکل گیا۔ تم لوگوں کی کفالت بھی میری ذمہ داری تھی، تبھی شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ روشن کی باتیں سن کر نیک دل ندیم کی آنکھوں سے بہتے آنسو تھمتے نہ تھے، تبھی روشن بولی۔ وقت گزر گیا ہے۔ اب رونا دھونا چھوڑو اور جو بات اہم ہے اس کی جانب توجہ دو۔ آپ اسے کھولیں۔ ندیم بولا۔ اس لفافے کو میں نہیں کھولوں گی اس کو تم ہی اپنے ہاتھوں سے کھولو۔ میں چاہتی تو اس وقت کھول لیتی جب تمہاری امی نے یہ امانت میرے حوالے کی تھی۔ بہر حال ندیم نے وصیت کا کاغذ کھول کر پڑھا۔ لکھا تھا۔
میرے پیارے بیٹے ندیم ! میری خواہش کا احترام کرنا اور شادی میری بھتیجی اور اپنے بڑے بھائی کی بیوہ روشن آراء سے ہی کرنا۔ روشن تم سے بڑی سہی مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تم دونوں میری اس آخری خواہش کو ضرور پورا کرنا والد کی تحریر پڑھ کر ندیم تو ششدر رہ گیا، روشن بھی سوچ میں پڑ گئی کہ چچا یہ کیسی وصیت کر گئے ہیں۔ تاہم وہ دونوں تا کہ میری روح کو سکون مل جائے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بیر جی کی اس خواہش کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ ندیم اس تحریر کولے کر محلے کے مولوی صاحب کے پاس چلا گیا تا کہ اس کی بے چین روح کو سکون مل جائے۔ مولوی صاحب نے بھی کچھ ایسی دانائی اور دانشورانہ طریقے سے باتیں کیں کہ ندیم کو قائل کر لیا۔ مولوی صاحب نے کہا۔ بیٹا ! ویسے تو باپ کی اس ہدایت کا ماننا یا نہ مانا تمہاری اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ تمہاری بیوہ بھابھی کو اگر تم سے نکاح کرنے پر اعترض نہیں ہے تو جو تمہارے دل کا فیصلہ ہو ، اس پر تم آزاد ہو اور دین میں نکاح کے لئے تمہاری اور جس کو تم شریک حیات بنائو اس کی قبولیت اور مرضی بھی اہم اولیت رکھتی ہے۔ تم روشن بی بی سے پوچھ لو کہ وہ راضی ہیں کہ نہیں ؟ ندیم نے گھر آکر روشن سے بات کی۔ وہ کہنے لگی کہ میں بھی روحانی طور پر چچا جان کی اس تحریر سے پریشان ہو گئی ہوں۔ چاہتی ہوں کہ تم مجھے مولوی صاحب کے پاس لے چلو۔ مولوی صاحب ایک سمجھ دار انسان تھے ، انہوں نے روشن سے کہا فیصلہ اور مرضی آپ کی اپنی ہے لیکن اگر آپ دونوں کا دل مانے تو یہ بھی اچھا فیصلہ ہو گا کہ آپ ہ ہو گا کہ آپ کی تمام ریاضت اور خدمت کا صلہ مل جائے گا۔ بہر حال جو فیصلہ کریں سوچ سمجھ کر کریں۔ روشن نے کافی سوچا۔ محلے کی کچھ خیر خواہ ملنے والیوں سے بھی تذکرہ کر کے مشورہ لیا۔ انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ اگر ندیم راضی ہو تو تم انکار مت کرنا۔ دونوں نے سوچ بچار کے بعد بالآخر یہ ہی فیصلہ کیا کہ وہ بیر جی مرحوم کی خواہش کا احترام کریں گے اور ان کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ جب دونوں کے دل ایک دوسرے کو قبول کرنے پر راضی ہو گئے تب انہوں نے مولوی صاحب سے سے کہا کہ وہ اپنی مرضی رضا اور خوشی سے ایک دوسرے کے شریک زندگی بننا چاہتے ہیں۔ روشن بیوگی کا دکھ سہ چکی تھی اور محنت مشقت کر کے اتنے برس برے حالات سے لڑتی رہی تھی ، جب کہ ندیم کا بھی اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کا بے حد خیال اور احترام کرتے تھے۔ یہ فیصلہ انہوں نے جذبات سے نہیں، سوچ بچار سے کیا، تبھی یہ شادی ان کو ر اس آ گئی۔ شادی کے بعد وہ پر سکون ہو گئے۔ اللہ تعالی نے انہیں تین بچوں سے نوازا۔ یوں انہوں نے خوش و خرم زندگی گزاری۔ عمروں کے فرق کی وجہ سے جب روشن زیادہ عمر رسیدہ ہو گئی تو اس نے ندیم کو اجازت دی کہ وہ بے شک اپنی مرضی اور خوشی سے دوسری شادی کر سکتا ہے لیکن اس نے دوسری شادی روشن کی زندگی میں نہیں کی ، البتہ اس کی وفات کے بعد ایک محلے دار کی لڑکی سے شادی کر لی ، جو روشن کو چاہتی تھی اس نے روشن کے بچوں کو اسی طرح خیال رکھا جیسا کہ روشن نے ندیم کا رکھا تھا۔