Friday, March 21, 2025

Namoos Ki Hifazat

دولت اتنی تھی کہ سنبھالی نہ جاتی تھی، دل مگر ویران تھے۔ شادی کے آٹھ سال تک اولاد نہ ہوئی۔ بارے ، اللہ نے سن لی اور بچی کے آنگن میں مراد کا پہلا پھول کھلا۔ پہلوٹی کی اولاد بیٹی تھی۔ چلو، یہ عقدہ تو حل ہوا کہ چچی بانجھ نہیں ہیں۔ ان کے دل سے بھی سوتن کا خوف ملا۔ اب شوہر کو دوسری شادی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ بیٹی کو رحمت جانا اور کلیجے سے لگا لیا۔ اس کے بعد تو لائن لگ گئی۔ یکے بعد دیگر چار لڑکیاں پیدا ہو گا ہیں تو میاں بیوی کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ اب چچا کا سر جھکا جھکا اور چچی جان کا منہ اترا اترا رہنے لگا۔ دولت کا وارث ابھی نہیں ملا تھا، پھر سے دعا اور دوا میں مصروف ہو گئے۔ پیروں کے مزاروں پر منتوں ، مرادوں کے دیے جلانے لگے۔ دو سال کے انتظار کے بعد اصلی خوشی اللہ نے اولاد نرینہ کی صورت دکھائی۔ نام ، مراد زمان رکھا گیا۔ جو مال و دولت اس رب نے دیا تھا، اس کو سنبھالنے والا آ گیا تھا۔ والدین کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ حویلی کی دیواروں کو اصلی گھی کے چراغوں سے سجایا گیا، رشتہ داروں کو تھال بھر بھر مٹھائیاں بھیجوائی گئیں، غریب غربا میں لنگر تقسیم ہوا۔ جہاں جہاں مراد مانگنے گئے ، وہاں دیگیں چڑھائیں اور صدقے کے بکرے ذبح کیے، نیازیں بانٹیں، بچے کی عمر درازی کے لیے دعائیں کروائی گئیں۔ بے شک اللہ تعالی نے دیرینہ خواہش پوری کی تھی لیکن عور تیں جب احساس دلاتیں کہ چار لڑکیوں کی بھی تو فکر کرنا ہے۔  چچی کو یہ باتیں اداس کر دیتیں لیکن چچا، حقیقی معنوں میں اولاد نرینہ کو پاکر بہت خوش تھے ، ورنہ یہ ساری زمینیں، کھیت کھلیان اور جائیدادیں اکارت جاتیں۔ داماد سب ہی کچھ بٹور کر لے جاتے اور کوئی باپ دادا کا نام لیوانہ ہوتا۔ بیٹوں سے ہی تو نسل آگے چلتی ہے۔ مراد ایک خوب صورت لڑکا تھا۔ اس کی پرورش بھی شہزادے کی طرح ہوئی۔ جہاں وہ پیر دھرتا ، ماں باپ اس جگہ اپنا دل رکھ دیتے۔ نوکر چاکر اس کے ہاتھ سے گری چیزوں کو اپنی پلکوں سے سمیٹتے تھے۔ یہ قدرت کی مصلحت کہ مراد زمان اکلوتے ہی رہے ، اس وجہ سے اور بھی خاندان بھر کی آنکھوں کا تارا ہو گئے۔ روپے، پیسے کی کمی نہ تھی۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی خوشامدی، دوستوں کے روپ میں ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔ یہ ہمہ وقت اس کی لمبی کار میں اس کے ساتھ گھومتے اور اس کی فیاضی کے قصیدے پڑھا کرتے۔ ایک روز چند دوستوں نے اس کو گھیرا اور ایک گانے والی کے کوٹھے پر لے گئے۔ کہا کہ آج تو نئی دنیا کی سیر کریں گے اور رقص و سرود کی محفل سے دل کو خوش کریں گے۔ مراد کی جیبوں میں نوٹ تھے۔ دل کا سکون تو خرید سکتے تھے ، وقتی ہی سہی۔

پہلے روز جس بالا خانے کا زینہ طے کیا تھا، بعد میں مراد نے اسی جگہ جانے کا دستور بنالیا۔ اسے ہر روز نئی منزلیں طے کرنے کا شوق نہ تھا۔ لکیر کے فقیر کی مانند جس راہ لگتا، لگ لیتا۔ وہ ایک سال، اس ماہ لقا پر دولت نثار کرتارہا، پھر احساس ہوا کہ رنگ روپ نہیں رہا ہے۔ اس کا دل اوبنے لگا تھا۔ ایک دوست سے بیزاری کا اظہار کیا۔ وہ بولا۔ کیا ہوا؟ کوئی خار دلا دی ہے موہنی بائی نے ؟ بس یوں ہی، جی نہیں چاہتا اب۔ بے کار چیزیں ہیں۔ اس کی ادائوں میں اب وہ دلکشی نہیں رہی ہے۔ تو چلو پھر ، نئی ماہ لقا تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کی بات سن کر مراد خاموش ہو رہا۔ موہنی جان بڑی گھاگ عورت تھی، اس نے مراد کی منشا کو بھانپ لیا تھا۔ اس عورت کی تو عمر ہی اس دشت کی سیاحی میں گزری تھی – موہنی جان بھلا کیونکر چاہتی کہ یہ   جال سے نکل جائے۔ مراد ہفتہ بھر نہ گیا، تو اس نے اپنا خاص خدمت گار ان کی طرف دوڑایا۔ جو سندیسہ لایا کہ ماہ لقا کی طبیعت ناساز ہے اور آپ کے دیکھے بن ٹھیک نہ ہو گی۔ آپ سے سماجت ہے ذرا دیر کو تشریف لے آئے۔ آپ کو ماہ لقا کی قسم ہے ، اس کی آرزو کو نہ ٹھکرایے گا، ورنہ اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ مراد نے سمجھ لیا کہ دوست نے اس کے منہ سے نکلی بات موہنی کے کوٹھے تک پہنچادی ہے۔ دل بھی جیسے ، اسی سندیسے کا منتظر تھا۔ اس نے تو بس یوں ہی کہہ دیا تھا۔ کیا خبر تھی کہ وہ نازنین ایسی نازک طبع ہے کہ بیمار ہی پڑ جائے گی۔ بھلا کہیں، اتنی جلدی رنگین راتوں سے رشتے ٹوٹے ہیں۔ وہ اسی روز شام ڈھلے ، موہنی بائی کے ہاں جا پہنچا۔ دو ساتھی تھے۔ چار شوقین ساتھ مین جو اس کو اپنا ساتھی کہتے تھے، پہلے سے موجود تھے۔ گرچہ وہ اس سے زیادہ اس کی مایا کے ساتھ انتظار کر رہے تھے کہ مراد آئے تو محفل ہے۔ یہ مایا بھی خوب چیز ہے۔ تصرف میں نہ لائی جائے تو محفل سونی ہی رہتی ہے۔ جب مراد آ گیا تب ہی سر جاگ گئے، ساز بھی بجنے لگے۔ وہ مایا خوب تصرف میں لائی جا رہی تھی جو اس کے باپ دادا نے مدت سے تجوری میں بند کر رکھی تھی۔ سچ ہے ایسے متمول خاندانوں میں ، کبھی تو کوئی مراد جیسا سپوت بھی جنم لے لیتا ہے جو ان تجوریوں کا منہ کھول کر نوٹوں کو ہوا میں اڑانے لگتا ہے۔ مراد وہاں اپنے ساتھیوں کو موجود پاکر خوش ہو گیا۔ اسے خوشامدیوں کی عادت پڑ گئی تھی۔ ان میٹھی چھریوں کے بغیر ، وہ خود کو نہتا محسوس کرتا تھا۔ تب ہی ماہ لقا بھی سنوری ہوئی اپنی آواز کا جادو جگانے آ گئی۔ جب وہ مغنیہ کے قدموں میں نوٹ رکھتا تو ساتھی واہ واہ کرتے اور مراد پھولے نہ سماتا۔ اسے تب ہی احساس برتری کا نشہ چڑھ جاتا اور و ترنگ میں آکر زیادہ نوٹ وارنے لگتا اور ان مفت خوروں کا دھیلا بھی خرچ نہ ہوتا۔ وہ ، واہ واہ کرتے اور مفت کے مزے لیتے۔ تب مراد نخوت میں خود کو زمین پر نہیں آسمان پر پرواز کرتے محسوس کرتا۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ اس سرپٹ گھوڑے کو قابو کرنے کا یہی ایک حل تھا کہ دولت لٹاتے وقت واہ واہ میرے شاہ کار ، کہنے والے بھی ہمراہ ہوں۔ سو موقع پرست دوست اس کے بازو بن گئے۔ وہ بھی دوست تھا، دوست خاص ، جس نے موہنی جان کو باخبر کر دیا تھا کہ ہمارا پنچھی اڑنے کو پر تول رہا ہے ، تب ہی آج اس کے کمرے کی چاندنی کچھ زیادہ اجلی ، نکھری   تھی، جیسے ابھی ابھی دودھ کی نہر سے دھلوا کر بچھائی گئی ہو۔ ساز  بھی پہلے سے زیادہ چمک دار ہو رہے تھے لیکن آواز کا جادو اس وقت تک نہ جگا، جب تک مراد نہیں آ گیا۔ سب ہی اس کی راہ دیکھ رہے تھے کہ سندیسہ لانے والے کو اس نے انعام دے کر پلٹایا تھا، جس کا مطلب تھا کہ وہ بس آیا ہی چاہتا ہے۔ ووجب مسند خاص پر براجمان ہوا تو ایک دو غزلیں ماہ لقا نے گائیں، پھر وہ خرابی طبیعت کا بہانہ کر کے اٹھ کر چلی گئی۔ ذرادیر بعد جب پھر سے پردے کو جنبش ہوئی تو موہنی  جان نے باقی احباب محفل سے کہا۔ معذرت خواہ ہوں ، آپ سب آج تشریف لے جائے ، مزید محفل کل پر رکھیے۔ ہماری بچی کی طبیعت ابھی درست نہیں ہے۔ دوست احباب چلے گئے مگر مراد اسی طرح بیٹھا ہوا تھا کیونکہ اسے تو خاص طور پر بلایا گیا تھا۔

ماہ لقا دوا کھا کر آرام کرنے چلی گئی ہے لیکن ہم آپ کو مایوس نہ کریں گے۔ یہ کہہ کر موہنی جان نے کسی کو پکارا۔ پردے کو پھر سے جنبش ہوئی اور ایک سولہ سترہ سال کی نازک اندام لڑکی ، آہستہ خرامی سے چلتی آئی اور نظریں نیچی کیسے سلیقے سے بیٹھ گئی۔ وہ لڑکی تھی یا قیامت ! مراد تو بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ موہنی بائی کے ترکش میں ایسے تیر موجود تھے کہ جن کا گھائل کبھی ثابت لوٹ کر گھر نہیں جاتا۔ یہ بالکل نئی ہے ، آج پہلی بار آپ کی خاطر اسے چاندنی پر بٹھایا ہے۔ یہ بہت شرمائے گی، برا مت ماننا۔ شرم و حیا جاتے جاتے ہی جاتی ہے۔ مراد حیرت سے اس بے حجاب عورت کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ، کہتی تو ٹھیک ہے شرم جاتے جاتے ہی جاتی ہے اور جب چلی جائے تو پھر لوٹ کر نہیں آتی۔ وہ بھی تو پہلی بار اس زینے کو چڑھتے ہوئے کس قدر شرما رہا تھا۔ موہنی جان کہہ رہی تھی۔ مہک ، چلو اب شروع بھی کرو، کتنا شرمائو گی ؟ اس قدر بھی نہ شرمائو کہ قدر دان تھک کر اٹھ کر چل دیں۔ یہ کہہ کر موہنی اٹھ کر اندر چلی گئی۔ مراد اس من موہنی کو دیکھے جاتا تھا، جیسے پتھر کی مورت ہو۔ اسے گانا کب آتا تھا ؟ سازندے بھی یہ بات جانتے تھے ، لہذا وہ بھی ایک ایک کر کے کھسک گئے۔ ادھر پلکوں کی بو جھل جھالر اٹھتی تھی، نہ آنسو ہی ٹپک کر کرتے تھے۔ نوک مژگاں پر ہی اٹکے ہوئے تھے۔ ستاروں کی طرح جھلملا رہے تھے۔ مراد سے اس معصوم کی بے بسی دیکھی نہ گئی۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اسے کسی اور ہی مقصد سے اس کے ساتھ تنہائی میں بٹھایا گیا ہے۔ وہ اس کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کرنا چاہتا تھا تا کہ اس کی بے بسی کا دکھ جان سکے ، مگر موہنی جان ایک ملازمہ کے ساتھ لوٹ کر آگئی، جس کے ہاتھ میں ایک ٹرے میں کچھ خاطر مدارت کا سامان تھا۔ موہنی جی ! مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کی گڈی نکالی اور اس کی طرف بڑھا کر بولا۔ آج سننے سنانے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ عورت اشارہ سمجھ گئی۔ اس نے ملازمہ کو اشارہ کیا۔ وہ مراد کو ایک کمرے میں لے گئی جو  خواب گاہ تھی۔ یہاں مکمل خاموشی تھی، لیکن ادھ کھلی کلیوں کی بھینی بھینی مہک فضا میں رچی بسی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد خواب گاہ میں ، مہک دھیرے دھیرے چلتی ، نئی دلہن کی طرح شرماتی ، آکر بستر پر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی تک سر جھکائے ہوئے تھے۔ کچھ دیر خاموش رہی۔ پہلی بار یہاں مراد کا دل دھڑکا تھا۔ وہ صوفے پر مہر بلب بیٹھا تھا۔ آخر کب تک بالآخر اٹھ کر نازنین کے پہلو میں جا بیٹھا۔ تب ہی اس نے کہا۔ مہک ، تم واقعی بہت خوب صورت ہو مگر گونگی ہو۔ کاش تم بول بھی سکتیں۔ میری محبت کا ساتھ دینے کے لیے کاش تم کو بھی خالق نے قوت گویائی دی ہوتی۔ یہ سنتے ہی مہک نے بھری بھری بھیگی آنکھوں سے مراد کی جانب دیکھا اور بولی۔ مجھے گونگا ہی رہنے دیجئے ، اگر میں بولی تو پھر آپ سن نہ سکیں گے۔ سچ ہے بھئی ، کہتے ہیں عورت سو دفعہ مرتی ہے ، تب کہیں جا کر ایک طوائف پیدا ہوتی ہے، پھر تو اس ناگن کی زبان کے زہر سے بڑے بڑے جان دار پناہ مانگتے ہیں۔ مراد کو اس کم عمر سے ایسے چیتے جواب کی توقع نہ تھی۔ وہ دنگ رہ گیا اور ماحول کو خوشگوار کرنے کی خاطر بولا۔ تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔ آج ہی کھلے بازار میں لائی گئی ہوں، نئی چیز ہوں اور نئی چیز ظاہر ہے ، ہر کسی کو اچھی لگتی ہی ہے۔ بات تو جب ہے کہ اٹھا کر کوئی گلے سے لگانے سے قبل اپنے گھر لے جائے۔ گلے لگانے کو یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔ یہ جگہ کیوں اچھی نہیں ؟ آپ جانتے ہی ہیں۔ پاکیزہ جگہ تو عورت کے لیے اس کا گھر ہی ہوتا ہے ، ورنہ ہر ایک کے ہاتھوں کھلونا بننا پڑتا ہے اور کھلونا بننے کی مجھ میں تاب نہیں ہے۔ ٹوٹ کر ختم ہو جائوں گی۔ تم کوئی فلاسفر ہو یا لکھاری ؟ مراد نے سوچا، تب ہی وہ لڑکی سسکیاں لے کر رونے لگی۔ مراد پریشان ہو گیا۔

معلوم نہ تھا کہ آگے ایسا معاملہ پیش آئے گا، ورنہ وہ یہاں آتا ہی نہیں۔ اس نے کہا۔ تم پر کوئی زبردستی نہیں، میں بھی عیاش آدمی نہیں ہوں۔ بس خوشی کو پانے کی خاطر دل بہلانے آ جاتا ہوں۔ میں اب چلتا ہوں، تم سوچ رکھو، میں کل آجائوں گا۔ تم  موہنی کو کچھ مت بتانا، یہ کہہ کر مراد کمرے سے نکل گیا۔ رات بھر وہ بے چین رہا، اسے نیند نہ آئی ، اس لڑکی کے بارے سوچتا رہا۔ فیصلہ کر لیا کہ کل موہنی جان کی طرف جائو ں گا ہی نہیں، بلکہ کبھی نہیں جانوں گا۔ ماں باپ شادی کی تیاریاں کر رہے ہیں، اس کے بعد تو یوں بھی وقت نہ ملے گا، ان بلائوں سے آپ ہی جان چھوٹ جائے گی۔ سارا دن وہ اسی فیصلہ پر قائم رہا۔ شام ہو گئی تو اس کا دل بے چین ہونے لگا۔ بار بار نگاہوں میں اس مجبور کی آنسوئوں بھری آنکھیں، آنے لگیں۔ سوچا، نہ جانے کتنی مجبور ہو گی، خبر نہیں موہنی بائی اس بے چاری کو کب اور کہاں سے لے آئی۔ کم از کم اس سے یہی بات پوچھ لیتا، کچھ اس کی سن لیتا۔ ایک مجبور کا دل ہلگا ہو جاتا۔ ایسے خیالات پھر سے وہاں جانے کا بہانہ بنتے گئے۔ ذہن چالیں چلنے لگا،بالآخر قدم خود بخود اس راستے پر اٹھ جاتے تھے۔ اس نے اپنے دوست کو فون کر کے کہہ دیا کہ یار آج والد صاحب کے ساتھ زمینوں پر جانا ہے، اس لیے تم لوگوں کو کو کمپنی نہیں دے سکتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں قدم دھر نے کے لیے بھی پیسے لگتے ہیں، نوٹ برسانے پڑتے ہیں۔ لہذا دوست ، باقیوں کو یہ پیغام پہنچادے گا ، پھر وہاں کوئی نہیں جائے گا۔ یہ پیغام دے کر مراد خود وہاں چلا گیا۔ موہنی نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ جانتی تھی کہ ضرور آئے گا۔ چیز ہی ایسی دکھائی تھی۔ مراد نے آج کچھ زیادہ رقم نذر کی اور مہک کے پاس جانے کی آرزو سے آگاہ کر دیا۔ مہک کمرے میں بغیر میک آپ کے بیٹھی تھی، ابھی ہار سنگھار نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جلدی آگیا تھا۔ بغیر میک آپ ، دھلی دھلی، اجلی اجلی مورت ، آج وہ اور زیادہ اچھی لگی۔ کہنے لگا۔ تم میک آپ نہ کیا کرو۔ اس کے بغیر زیادہ خوب صورت لگتی ہو۔ ٹھیک کہا آپ نے ، لیکن انسان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ انسان کی واقعی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں، جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ میں بھی اتناہی مجبور ہوں جتنی تم ہو۔ آپ کی کیا مجبوری ہے ؟ میرا خاندان، میری سگی پھوپھی کی بیٹی جو میری منگیتر ہے، مجھ پر لازم ہے کہ اس سے بیاہ کروں ، ورنہ ہمارے خاندان میں ، خونی رشتوں میں بھونچال آجائے گا۔ میری بہن کو طلاق ہو جائے گی اور پھو پھی کو ملکیت میں حصہ دینا ہو گا۔ جہاں خونی رشتے ٹوٹیں گے ، وہاں خاندان کی دولت و جائیداد بھی بٹوارے کی نذر ہو جائے گی جو میرے بزرگوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔ اگر یہ رشتوں کا گٹھ جوڑ نہ رہے تو سب بکھر جائیں گے ۔ اس نے وہ بات کہہ دی جو کہنا دشوار تھی تاکہ مہک اس کے ساتھ شادی کے خواب نہ دیکھے۔ میں ان مجبوریوں کو پھلانگ سکتا ہوں مگر ، مہک کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر اس نے کہا۔ کسی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا جو طوائف کے کوٹھے پر رہتی ہو۔ تم ہی سوچو کہ ایک باعزت اور شریف خاندان کا چشم و چراغ، کیسے بچوں کے ننھیال کو گھر میں لا سکتا ہے جن کو لوگ گالیوں جیسے گندے ناموں سے پکارتے ہیں۔ میرے خاندان والے اپنے گھر میں ایسے اضافوں کی جرات نہیں کر سکتے۔ میں نے پہلے روز ہی سمجھ لیا کہ تم مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہو ، تب ہی میں چلا گیا۔ مانا کہ تم بہت خوب صورت ہو، مجھے اچھی بھی لگتی ہو۔ یقینا اچھی بھی ہو کہ یہاں بیٹھنے کی بجائے شریفانہ جیون جینا چاہتی ہو مگر اس معاشرتی ڈھانچے کا کیا کروں، جس کو ضرب لگانے سے اس کا سارا ملبہ میرے والد کی ناموس پر گر کر ، ہم سب کو گھائل کر دے گا۔ میری بچپن کی منگیتر اور اس کے بدلے میں اس کے بھائی کو بیاہی ہوئی میری بہن، پھر میری پھو بھی۔ میری بہن کی ایک طلاق سے ہی سارا خاندان تلپٹ ہو جائے گا۔ بے شک ہم پڑھے لکھے اور بڑے لوگ کہلاتے ہیں مگر اندر سے بہت مفاد پرست ہیں، اسی لیے روایتی کہلاتے ہیں۔ بس کرو۔ مہک نے کہا۔ کچھ مت کہو۔ مختصر الفاظ میں یہی کہ میں تم سے شادی کی تمنا نہ کروں۔ میں نے بھی تم کو دوسروں سے مختلف پایا تو دل میں اس آرزو کو بسا لیا۔ اب بے شک تم یہاں مت آنا۔ میرا نصیب میرے ساتھ ہے، مگر ایک وعدہ کرو۔ تم جلد از جلد اپنی منگیتر سے شادی کر لو گے ، پھر اس بازار کا رخ نہ کرو گے۔ اگر اپنے ناموس سے اتنا پیار ہے تو اپنی جائیداد اور دولت کو بھی بچائو ۔ یہ طوائف کے کوٹھے پر لٹانے کی چیز نہیں۔ یہ بری جگہ ہے۔ یہ شریفوں کو برے دن دکھاتی ہے اور امیروں کو غریب بنادیتی ہے۔ مراد حیران تھا۔ وہ جو کہہ رہی تھی سچ کہہ رہی تھی۔ اس نے مہک سے وعدہ کر لیا۔ اس رات دونوں نے صبح تک خوب باتیں کیں۔ مراد ، مہک کی زندگی کا پہلا خریدار تھا۔ اس نے تین ماہ کے لیے اس کی نام نہاد ماں کو کافی بھاری رقم ادا کی تھی۔ اگر چاہتا تو اپنی دی ہوئی قیمت کسی اور طرح سے وصول کر لیتا۔ نہ جانے مہک سے کیسی ذہنی وابستگی ملی کہ اس کا ذہن مہک کی باتوں تک رہا، اس کے جسم کی طرف گیا ہی نہیں۔ یہ ان کی دسویں اور آخری ملاقات تھی۔ وہ معصوم ، باتیں کرتی رہی، کبھی روتی، کبھی ہنستی رہی۔ کبھی تاسف کرتی کہ وہ اس سے نہ ملا ہوتا یا پھر وہ اس سے شادی کر سکتا۔ مراد کی شادی ہو گئی۔ اس نے مہک سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور پھر کبھی حسن کے بازار کا رخ نہیں کیا۔ اپنی دولت کو پھر سے تجوری میں بند کر کے تالا لگادیا کہ اس کی بدولت لوگ اس کو جھک جھک کر سلام کرتے تھے اور ان کا خاندان شرفا کا خاندان کہلاتا تھا۔

ظاہر ہے ، وہ خاندانی عزت کو کھو کر، اپنی عزت گنوانا نہ چاہتا تھا۔ شادی کے بعد بھی مراد کو کئی بار اس کے سابقہ دوستوں کے ذریعے مہک کے پیغامات ملے۔ وہ کہلواتی کہ ایک بار آکر مل جائو ، مگر وہ نہ گیا کیونکہ ایک بار جانے کا مطلب ، سنہرے جال میں خود کو گرا دینا تھا اور وہ دوبارہ پھنسنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک روزا سے ایک پرچہ ملا۔ اس میں لکھا تھا، صرف ایک بار مل جائو، کہیں یہ آنکھیں تم کو دیکھنے کو ترستی نہ رہ جائیں اور قبر میں بھی کھلی رہیں۔ مراد کی بیوی نے اس کے ہاتھ میں پرچہ دیکھ کر پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ کچھ نہیں ہے، یہ کہہ کر اس نے پرچے کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ چند روز بعد اس کو خبر ملی کہ مہک چل بسی ہے۔ اس نے خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کر لی تھی، کیونکہ شرافت کی زندگی بسر کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ایک پرچہ پولیس کے نام بھی لکھا تھا۔ میں اپنی مرضی سے موت کو گلے لگارہی ہوں، کیونکہ اس گناہ آلود زندگی کو میرا ذہن قبول کرنے سے قاصر ہے۔ میں ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھی، کسی نے مجھے بچپن میں اغوا کیا اور موہنی بیگم نے مجھے خرید لیا، جو اس بازار سے تعلق رکھنے والی عورت تھی۔ بہت چاہا کہ شرافت کی زندگی اپناؤں مگر کوئی مجھ سے شادی کرنے کو راضی نہ ہوا۔ میرا محبوب بھی آخری بار ملنے نہ آیا، لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور ہمارے بازار سے تعلق توڑ لیا۔ بس یہی ایک خوشی ہے ، جو میں اپنے ساتھ لے جارہی ہوں۔ میری موت کا ذمے دار کسی کو نہ سمجھا جائے۔ جب یہ خط اخبار میں شائع ہوا تو مراد دنگ رہ گیا۔ وہ خود کو اس قصور سے بری نہ کر پایا۔ وہ سوچتا تھا کہ میں نے تو اسے دھوکا نہیں دیا، ایسے واقعات کا ذمہ دار تو معاشرہ ہوتا ہے۔ اگر سزادینی ہے ، تو معاشرے کو ملنی چاہئے۔ لیکن کیا معاشرے کو سولی پر لٹکایا جا سکتا ہے ؟ جہاں ہزاروں معصوم بچیاں اور شریف عور تیں اغوا کر کے زبر دستی ایسی جگہوں پر لا کر بٹھادی جاتی ہیں جہاں دولت کی کند چھری سے ہر بار عورت کا قتل عام ہوتا ہے۔ اس قتل عام کو کوئی بھی قتل عام نہیں کہتا اور نہ اس جرم کے مرتکب کی کوئی سزا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS