اریبہ نے ٹیکسی سے اتر کر کرایہ دیا اور گھر کی جانب بڑھی۔ وہ ہلکی پھلکی شاپنگ اور اپنی سہیلی فاریحہ سے ملنے کے تقریباً دو گھنٹے بعد گھر لوٹی تھی۔ ایک ڈپلی کیٹ چابی اس کے پاس بھی ہوتی تھی۔ کچھ روزمرہ کا سودا سلف کچن میں رکھنے کے بعد وہ جیسے ہی اسٹڈی روم میں داخل ہوئی تو اس کی چیخ نکل گئی۔
اس کے سامنے ایک خوفناک منظر تھا۔ زبیر کو اس نے بالکل مردہ حالت میں پایا۔ اس نے اپنے شوہر کی دھڑکن، نبض یا سانس کے سہارے اس کے زندہ ہونے کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ زبیر کے مردہ ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہ رہا تھا۔
اس کا سر میز پر ٹکا ہوا تھا جو تڑخ چکا تھا اور اس سے خون بہہ کر میز پر جم چکا تھا۔ اس کے جھولتے ہوئے ہاتھ کے نیچے فرش پر ریوالور پڑا تھا جسے اریبہ اچھی طرح پہچانتی تھی کہ یہ اس کے شوہر ہی کا ہے۔ فرش پر چاروں طرف کاغذ ہی کاغذ بکھرے ہوئے تھے۔
میز پر پیپر ویٹ تلے ایک رقعہ دبا تھا جس پر صرف اتنا لکھا تھا۔ ’’اریبہ! مجھے معاف کردینا۔‘‘
زبیر کی تحریر پڑھ کر اس کے جسم میں پہلی بار خوف کی لہر ابھری۔ وہ خوف زدہ سی کمرے سے نکلی اور پھٹی پھٹی آواز میں چلائی۔ ’’نجو! سیما! جلدی آئو۔‘‘
پھر اسے خیال آیا کہ آج دونوں نوکرانیاں چھٹی پر ہیں۔ وہ راہداری میں پڑی ایک کرسی پر ڈھیر ہوگئی اور چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی۔ رونا تنہائی کے اس احساس سے آرہا تھا کہ اسے تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔ اچانک نہ جانے اسے کیا خیال آیا کہ اس کے آنسو یک لخت تھم گئے۔
اپنی اسی انجانی سوچ کے بوجھ تلے دبی وہ مشینی انداز میں اٹھی اور دوبارہ مطالعہ گاہ کی طرف بڑھی۔ لاش پر نظر ڈالے بغیر اس نے جھک کر فرش سے ریوالور اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے پیپر ویٹ کے نیچے دبا ہوا رقعہ کھینچ لیا… پھر وہ مشینی انداز میں آتش دان کی طرف بڑھی جس میں کوئلے دہک رہے تھے۔ رقعہ اس نے کوئلوں میں پھینک دیا اور اس وقت تک کھڑی دیکھتی رہی جب تک کہ وہ جل کر راکھ نہ ہوگیا۔
٭…٭…٭
جمشید الارم بجنے سے پہلے ہی بیدار ہوگیا۔ اس کے اعصاب پر تنائو طاری تھا جیسے اس نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہو۔ ذہن پر زور دینے سے احساس ہوا کہ اس نے کوئی خواب نہیں دیکھا بلکہ رات کو سونے سے پہلے ہی اس کے اعصاب پر بوجھ تھا۔ آج ایک ایسے مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا تھا جو اس کے لیے بے حد اہم تھا۔ وہ اس مقدمے میں ملزم کا وکیل تھا اور اس کے خیال میں اس کی ساری شہرت اور ساکھ دائو پر لگی ہوئی تھی۔ اس نے آج تک کوئی مقدمہ نہیں ہارا تھا لیکن اس مقدمے کے بارے میں عدالت کا متفقہ فیصلہ سامنے آنے سے پہلے ہی افواہیں اڑنا شروع ہوگئی تھیں کہ اس کا موکل سزا یاب ہوگا۔
وہ بستر سے اٹھ بیٹھا اور اپنی بیوی پر نظر ڈالی جو اس سے پہلے بیدار ہونے کے بعد نیم وا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’کیا وقت ہوا ہے؟‘‘ اس کی بیوی نے پوچھا۔
’’سات بجنے والے ہیں۔‘‘ جمشید نے جواب دیا۔ ’’میرا خیال ہے عذرا! اب تم اٹھ جائو اور مجھے ناشتہ دے دو۔‘‘
’’ابھی سے…؟‘‘ عذرا نے حیرت سے کہا۔ پھر اچانک اسے کچھ یاد آگیا۔ وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ ’’اوہ…! مجھے تو یاد ہی نہیں کہ آج کا دن کتنا اہم ہے۔‘‘
’’ہاں! آج ہارے ہوئے جواری کو یادگار قسم کا ناشتہ چاہیے۔‘‘ جمشید نے مسکرا کر کہا۔
’’ایسی باتیں نہ کرو۔‘‘ عذرا بولی۔ ’’تم نے ابھی سے اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھنا شروع کردیا۔ میں ہرگز پسند نہیں کروں گی کہ آج کمرئہ عدالت میں داخل ہوتے وقت تمہاری گردن پہلے سے جھکی ہوئی ہو۔‘‘
’’گردن جھکانے یا اکڑانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل اہمیت تو عدالت کے فیصلے کی ہے۔‘‘ جمشید نے کہا۔
’’میرے لیے تو فرق پڑتا ہے۔ وعدہ کرو کہ کم ازکم میری خاطر سر اٹھا کر کمرئہ عدالت میں داخل ہوگے۔‘‘ عذرا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ڈارلنگ! میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ جمشید نے جواب دیا۔
٭…٭…٭
کمرئہ عدالت میں پہنچ کر جمشید نے اپنا وعدہ یاد رکھا اور اپنے کسی انداز سے مایوسی و دل شکستگی کا اظہار نہیں ہونے دیا۔
ملزم سلیم کٹہرے میں موجود تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی مشینیں فروخت کرنے والا ایک معمولی سا ایجنٹ تھا اور لوگوں کو بجا طور پر حیرت تھی کہ جمشید جیسے معروف اور بڑے وکیل نے کس طرح اس کا مقدمہ لڑنا منظور کرلیا تھا۔ جمشید کا جواز اس ضمن میں صرف اتنا تھا کہ اسے سلیم بے گناہ محسوس ہوا تھا اس لیے اس نے اس کا دفاع کرنے کی ہامی بھرلی تھی۔
کمرئہ عدالت میں اخباری نمائندوں کی فوج ظفر موج موجود تھی۔ کچھ ہی عرصے میں یہ مقدمہ شہرت حاصل کرگیا تھا اور آج اس کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ گویا کوئی بم پھٹنے والا تھا۔ اخباری نمائندوں میں منصور بھی موجود تھا۔ وہ روزنامہ ’’قرطاس‘‘ کا رپورٹر تھا۔ اس اخبار کے چیف ایڈیٹر جمشید کے سسر کلیم بیگ تھے۔ مقدمہ غیر معمولی ہونے کی وجہ سے چار سینئر وکلا کا ایک بینچ بھی موجود تھا۔ جمشید نے ان چاروں ارکان کے چہروں کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی تو اسے وہاں کچھ اچھی علامات نظر نہ آئیں۔ پھر اس نے حاضرین کا جائزہ لیا۔ آج خلاف معمول شوکت اور فاریحہ کے چہرے حاضرین میں نظر نہیں آرہے تھے۔
مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی اور جیوری نے جیسے ہی اپنا تحریری فیصلہ جج کو پیش کیا، جمشید کو الہام سا ہوگیا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ برسوں کی پیشہ ورانہ مہارت نے اس میں یہ صلاحیت پیدا کردی تھی کہ وہ چہروں کو دیکھ کر فیصلے پڑھ سکے۔ وہ وکیل تھا، خود ملزم سلیم نے آنے والے لمحوں کا عکس دیکھ لیا تھا۔ اس نے جھک کر جمشید کے کان میں کہا۔ ’’ضروری نہیں کہ انسان ہمیشہ جیتتا ہی رہے۔‘‘
جمشید نے دل میں کہا۔ ’’شاید ہم جیت جاتے بشرطیکہ تم نے حقیقتِ حال دیانتداری سے مجھے بتا دی ہوتی۔‘‘ اس کے بعد وہی ہوا جس کی جمشید کو توقع تھی۔ ملزم کے قصور وار ثابت ہونے کا فیصلہ دے دیا گیا کہ اس نے حقیقتاً ایک لڑکی کی خاطر ایک شخص کو قتل کیا ہے۔
کمرئہ عدالت میں ضابطے کی کارروائی ختم ہوئی تو وہ بجھا بجھا سا ذہن لیے باہر آگیا۔ دفعتاً عقب سے کسی نے اسے پکارا۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ سلطان پور کا پولیس انسپکٹر اکرم جو آج عدالت میں موجود تھا، جمشید کی طرف تیزی سے آرہا تھا۔ جمشید سے اس کی شناسائی تھی۔
’’ہیلو اکرم!‘‘ جمشید نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’آخر تمہارا گرفتار کردہ ملزم، قصوروار قرار دے دیا گیا۔‘‘
’’ہاں! جبکہ مجھے اس کے مجرم ہونے کا پورا یقین نہ تھا۔‘‘ انسپکٹر اکرم نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ’’آئو… کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔‘‘
’’اس وقت تو میں معذرت چاہوں گا۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’میری ایک ملاقات طے ہے اور مجھے اپنے دفتر پہنچنا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
جمشید کے دفتر میں فاریحہ اس کی منتظر تھی۔ اس کی سیکرٹری نے اسے انتظار گاہ میں بٹھا رکھا تھا۔ جمشید کو دیکھ کر فاریحہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی۔ ’’جمشید! میں تنگ آگئی ہوں۔ مجھے قانونی کارروائی کرنا ہی پڑے گی۔‘‘
’’کس کے خلاف…؟‘‘ جمشید نے اس کے لیے اپنے دفتر کا دروازہ کھولتے ہوئے ہنس کر کہا۔ وہ اس کی یونیورسٹی فیلو بھی رہ چکی تھی۔ اسی لیے وہ اس سے خاصا بے تکلف تھا۔ بے تکلفی سے بولا۔ ’’کیا کسی دکاندار نے کوئی ناقص کپڑا تمہارے ہاتھ فروخت کردیا ہے؟‘‘
’’میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔‘‘ فاریحہ بدستور برہم تھی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ تم ان افواہوں کو روکنے کے لیے کوئی قانونی کارروائی کرسکتے ہو۔‘‘
’’افواہیں…؟‘‘ جمشید نے حیرت سے کہا۔
’’افواہیں بھی نہیں بلکہ بہتان تراشی۔‘‘ فاریحہ بولی۔
’’مگر کس پر ہورہی ہے بہتان تراشی۔‘‘
’’اریبہ پر۔‘‘ فاریحہ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’تمہیں شاید پتا ہو کہ وہ میری کتنی عزیز دوست ہے۔‘‘
’’بہتان تراشی کی نوعیت کیا ہے؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے شوہر کو قتل کیا ہے۔‘‘
جمشید کے چہرے پر پہلی بار دلچسپی کے آثار نظر آئے۔ وہ بولا۔ ’’لیکن یہ اریبہ ہے کون؟ میری اس سے غالباً کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘
’’ایک بار ہوئی ہے۔‘‘ فاریحہ نے یاد دلایا۔ ’’ہل ٹاپ کلب میں، ابھی گزشتہ دنوں ایک تقریب میں تمہارا اس سے تعارف ہوا تھا شاید تمہارے ذہن میں نہیں رہا۔ بہرحال اگر تم اس عورت سے اچھی طرح واقف ہوتے تو اس قسم کی افواہوں پر ایک لمحے کے لیے بھی یقین نہ کرتے۔‘‘
’’لیکن لوگ کیوں یقین کررہے ہیں؟‘‘
’’لوگوں کی تو فطرت ہوتی ہے کہ دوسروں کے بارے میں ہر بری بات پر فوراً یقین کرنے کی۔‘‘ فاریحہ نے جواب دیا۔
’’لیکن اس ضمن میں بھلا کیا قانونی کارروائی ہوسکتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ میں یہی کرسکتا ہوں کہ اگر اریبہ باضابطہ طور پر میری خدمات حاصل کرے تو میں ان لوگوں کے نام ایک رونگٹے کھڑے کردینے والا نوٹس جاری کرسکتا ہوں۔‘‘
’’اریبہ کے بجائے کیا میں تمہاری خدمات حاصل نہیں کرسکتی؟‘‘
’’معاف کرنا میں موکل در موکل والے طریقۂ کار کا قائل نہیں۔ بہرحال یہ بتائو کہ اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘ جمشید نے کہا۔
’’میرا خیال تھا کہ تمہیں پتا لگ چکا ہوگا۔‘‘ فاریحہ بولی۔
’’مجھے یہ تو علم ہے کہ اریبہ نامی ایک عورت کا شوہر زبیر پچھلے دنوں قتل کردیا گیا ہے۔‘‘ جمشید نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’لیکن تفصیلی حالات کا مجھے علم نہیں۔ تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں بے حد مصروف تھا۔‘‘
’’ہاں! اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آج تمہارے موکل کے خلاف فیصلہ دے دیا گیا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ اس فیصلے سے تمہیں ذہنی دھچکا لگا ہوگا۔‘‘ فاریحہ نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں! بہرحال ابھی امید کی کرن باقی ہے۔‘‘
’’تم سلیم کو جانتے ہو؟‘‘ فاریحہ اصل موضوع کی طرف پلٹی۔
’’غالباً وہ کسی کمپنی کا مالک تھا۔‘‘ جمشید نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہاں! اس کے خاندان نے اسی ذریعے سے دولت کمائی تھی لیکن میرا اندازہ ہے کہ اب اس کے پاس زیادہ دولت نہیں رہی کیونکہ اس کی موروثی کمپنی عرصے سے بند پڑی ہے۔ تقریباً پندرہ برس سے اس کمپنی نے ایک بھی کار تیار نہیں کی۔‘‘
’’میری معلومات کے مطابق مقتول زبیر کو سماج سدھار جیسی این جی اوز بنانے سے زیادہ دلچسپی تھی۔‘‘
’’ہاں! اس کے خاندان کے بیشتر افراد ایسی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں اور اسی راستے سے وہ شہری اور ضلعی انتظامیہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔‘‘
’’اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس کا خیال ہے کہ وہ کسی ڈاکو کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔‘‘
’’حقیقت یہی ہے۔ میں اس کی بیوی اریبہ سے شاپنگ مال میں ملی تھی۔‘‘
’’پھر یہ ڈاکو والا قیاس درست معلوم ہوتا ہے۔ اریبہ شاپنگ کے لیے نکلی ہوگی۔ وہ لٹیرا جو موقع کی تاک میں تھا، یہی سمجھا ہوگا کہ گھر خالی ہے مگر اندر پہنچ کر اس کا سامنا زبیر سے ہوگیا ہوگا۔‘‘ جمشید نے کہا۔
’’یقیناً ایسا ہی ہوا ہوگا۔‘‘ فاریحہ نے پرجوش سے انداز میں تائید کی۔ ’’کیونکہ گھر کی نوکرانی بھی چھٹی پر تھی اس روز…‘‘
’’ضروری تو نہیں کہ جس طرح ہم سوچ رہے ہیں، حالات بھی اسی طرح پیش آئے ہوں۔‘‘ جمشید نے کہا۔
’’پھر بھی اریبہ پر تو اس قتل کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا، وہ ساڑھے دس بجے تک میرے ساتھ تھی۔‘‘
’’جائے واردات سے اس کی عدم موجودگی کا یہ جواز کام تو آسکتا ہے بشرطیکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں زبیر کی موت کا صحیح وقت متعین کیا جائے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے وقت کا صحیح تعین نہیں ہوپاتا۔‘‘
’’مقصد بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ ان کی شادی کو صرف دو برس ہوئے تھے۔ اس لیے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اریبہ اس سے اُکتا چکی تھی۔ جہاں تک مالی مفادات کا تعلق ہے تو زبیر کی کمپنی پر قرضے زیادہ تھے اور اثاثے کم۔‘‘ فاریحہ نے بتایا۔
’’کوئی مقصد نہ ہونے کے باوجود لوگ افواہیں پھیلا رہے ہیں؟‘‘ جمشید نے حیرت سے کہا۔
’’لعنت بھیجو لوگوں پر! ہم کس کس کی زبان پکڑ سکتے ہیں۔‘‘ فاریحہ اٹھتے ہوئے بولی۔
’’گویا تم نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ ترک کردیا ہے؟‘‘
’’تم سے باتیں کرکے میرے دل کا بوجھ خاصا ہلکا ہوگیا ہے۔‘‘
فاریحہ کے رخصت ہوتے ہی جمشید کی سیکرٹری ردا کوئی فائل لینے کے لیے اندر آئی اور کاغذات الٹتے پلٹتے ہوئے دھیمی آواز میں متاسفانہ بولی۔ ’’بے چاری اریبہ؟‘‘
’’کیا ہوا اسے…؟‘‘ جمشید نے چونک کر پوچھا۔
’’آپ کے آنے سے پہلے فاریحہ مجھ سے اسی کے بارے میں باتیں کررہی تھی۔ میں نے کہا کہ میں اب افواہوں پر بالکل یقین نہیں رکھتی۔‘‘ ردا نے کہا۔
’’کون سی افواہیں؟‘‘
’’وہی اریبہ اور اس آدمی کے متعلق!‘‘
’’کس آدمی کے متعلق؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’سعد سلمان!‘‘ ردا نے جواب میں کہا۔ ’’لوگ اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ اریبہ اور وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ پھر پتا نہیں کیوں ان کی شادی نہ ہوسکی۔‘‘
’’لیکن یہ سعد سلمان ہے کون؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’اس کا کزن تھا۔ غریب تھا بے چارہ۔ بعد میں یتیم بھی ہوگیا۔ کسی دور کی رشتے کی خالہ کے ہاں پلا بڑھا۔ اب اس کی کیا تربیت ہوئی ہوگی۔ اس کا اندازہ اس کے کلیبر سے لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ ردا چند لمحوں کے لیے خاموش رہی پھر بولی۔ ’’چنگاری ہوتی ہے تو دھواں بھی اٹھتا ہے۔ افواہوں کی اصل وجہ یہی ہے کہ شادی کے بعد لوگوں نے اریبہ اور سعد کو ساتھ دیکھا تھا۔‘‘
’’یہ اتفاقیہ ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ جمشید نے کہا۔
٭…٭…٭
زبیر مرڈر کیس کا تفتشی افسر انسپکٹر اکرم اپنے گھر میں بیوی پروین کے ساتھ کھانے کی میز پر موجود تھا اور نہایت بے دھیانی سے کھانا کھا رہا تھا۔
’’اکرم! تم کسی ذہنی الجھن میں گرفتار ہو۔‘‘ پروین نے بغور اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’الجھنیں اور پولیس کی نوکری لازم و ملزوم ہیں۔‘‘ اکرم نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’کیا زبیر قتل کیس والے معاملے میں الجھے ہوئے ہو؟‘‘ پروین نے جاننا چاہا۔
’’ہاں! میں دراصل ایک فون کا منتظر ہوں جو کسی وقت بھی آسکتا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ معاملہ کچھ آگے بڑھا ہے۔‘‘ پروین نے پُراشتیاق لہجے میں کہا۔ ’’کیا انکشافات ہوئے ہیں؟‘‘
’’بتا نہیں سکتا۔‘‘
’’اتنا تو بتا سکتے ہو کہ کوئی گرفتاری متوقع ہے یا نہیں؟‘‘
’’گرفتاری تو عمل میں آچکی ہوگی۔ میں اطلاع کا منتظر ہوں۔‘‘ اکرم نے جواب دیا۔
تقریباً دس منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی۔
’’ہاں! اکرم بول رہا ہوں۔‘‘ اس نے سیل فون کھانے کی میز پر اپنے سامنے رکھا تھا۔ دوسری جانب کی باتیں سننے کے بعد اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے… اسے حراست میں رکھو۔‘‘
’’کیا نام ہے اس کا…؟‘‘ پروین نے پوچھا۔
’’سعد سلمان…!‘‘ اکرم نے جواب دیا۔
٭…٭…٭
’’مسز اریبہ زبیر آپ سے ملنے آئی ہیں۔‘‘ جمشید کی سیکرٹری ردا نے انٹرکام پر اطلاع دی۔ ’’آپ سے ان کی ملاقات طے نہیں تھی لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کا آپ سے ملنا نہایت ضروری ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، اسے اندر بھیج دو۔‘‘ جمشید نے کچھ سوچ کر کہا۔
اریبہ اندر داخل ہوئی۔ جمشید کو اسے دیکھ کر احساس ہوا کہ اب تک اس نے لوگوں سے اریبہ کے متعلق جو کچھ سنا تھا، اس میں کہیں بھی اس کی خوبصورتی کا تذکرہ نہیں آیا تھا حالانکہ یہ اس کی شخصیت کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی۔ تاہم اس وقت اس نے اپنے چہرے کی زردی اور ہونٹوں کا پھیکا پن چھپانے کے لیے گہرا میک اَپ کررکھا تھا۔
’’مجھے آپ کی اسسٹنٹ فاریحہ نے مشورہ دیا تھا۔‘‘ اریبہ نے کھنکار کر گلا صاف کیا۔ ’’کہ… میں آپ سے بات کروں۔‘‘
’’کس سلسلے میں؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’اس شخص کے سلسلے میں جسے میرے شوہر کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کا نام سعد سلمان ہے۔‘‘ اریبہ نے جواب دیا۔
’’ہاں! میں نے اس کے متعلق سنا ہے۔ اسے غالباً کرم پور سے گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘
’’جی ہاں! لیکن وہ فرار نہیں ہو رہا تھا بلکہ اپنے کام کے سلسلے میں مصروف رہا تھا۔ اسی مصروفیت کے درمیان اسے پولیس نے گرفتار کیا۔ بڑی مشکل سے تو اس بے چارے نے اپنا کاروبار سیٹ کیا تھا۔‘‘
’’اوہ… کافی جان کاری رکھتی ہیں آپ سعد سلمان کے بارے میں۔‘‘ جمشید نے طنزاً کہا۔
’’جی…؟‘‘ اریبہ نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو جمشید کو ایک دَم اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کے خیال میں ابھی اس طرح کی بات قبل اَز وقت تھی۔
’’میرا مطلب تھا کہ ابھی اس سلسلے میں مجھے زیادہ علم نہیں۔‘‘ جمشید نے کہا۔ اسے اندازہ ہو چلا تھا کہ وہ سعد سلمان کی سفارش یا ضمانت کے سلسلے میں آئی ہے۔
’’فاریحہ تو بتا رہی تھی کہ پولیس انسپکٹر اکرم آپ کا قریبی دوست ہے۔‘‘
’’وہ میرا دوست ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے ہر کیس کے بارے میں مجھے سب کچھ بتاتا ہو۔ مجھے تو اپنے سُسر سے پتلا چلا تھا جو روزنامہ قرطاس کے چیف ایڈیٹر ہیں۔‘‘ جمشید نے جواب دیا۔
’’کیا آپ کو یہ معلوم ہے کہ سعد میرا مطلب ہے مسٹر سعد سلمان نے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کر دیا ہے؟‘‘ اریبہ نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ جمشید نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’اس بات کا مجھے علم نہیں۔ بہرحال، اگر وہ مسلسل انکار کرتا رہا تو پھر سرکاری طور پر اسے وکیل مہیا کیا جائے گا۔‘‘
’’لیکن یہ اس کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ اس پر قتل کا سنگین الزام ہے اور اپنے مؤثر دفاع کے لیے اسے کسی اچھے وکیل کی ضرورت پڑے گی۔ آپ جیسے وکیل کی…!‘‘
’’مسز اریبہ زبیر!‘‘ جمشید نے پوچھا۔ ’’کیا آپ سعد سلمان کے لیے میری خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! لیکن سعد سلمان نے مجھ سے یہ درخواست نہیں کی، میں اپنے طور پر فاریحہ سے مشورہ کرنے کے بعد آپ کے پاس آئی ہوں۔ بہرحال، میرا اندازہ ہے کہ جب سعد سلمان کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوگا تو وہ اس بات پر میرا شکر گزار ہوگا کہ میں نے اس کے لیے آپ سے رجوع کیا تھا۔‘‘
’’لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ پولیس نے جس شخص کو آپ کے شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے آپ اس کے لیے وکیل کیوں ڈھونڈتی پھررہی ہیں؟‘‘ جمشید نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔ اس کے خیال میں اب صاف بات کرنے کا وقت آ گیا تھا۔
’’صرف اس لیے کہ میرے خیال میں وہ بے گناہ ہے۔‘‘ اریبہ نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
’’آپ کے اس خیال کی کوئی معقول وجہ ہے؟‘‘ جمشید نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
اریبہ نے نگاہیں جھکا لیں اور چند لمحے تک کچھ نہ بولی۔ پھر کہا۔ ’’بظاہر میرے پاس کوئی جواز نہیں۔‘‘
’’کوئی ایسا نکتہ جسے جواز بنایا جا سکتا ہو؟‘‘
’’میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ مجھے قانونی باریکیوں کا علم نہیں، بہرحال، مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ قتل اس نے نہیں کیا۔‘‘ اریبہ نے پُریقین لہجے میں کہا۔
’’گرفتاری کے بعد کیا آپ کی اس سے ملاقات ہوئی ہے۔‘‘ جمشید نے کسی خیال کے تحت استفسار کیا۔
’’میں اپنے شوہر کے قتل سے تقریباً ایک ماہ پہلے اس سے آخری بار ملی تھی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ جمشید نے کچھ اس طرح ہنکاری بھری جیسے اس نے اریبہ کے ایک لفظ پر بھی یقین نہ کیا ہو۔
اس تاثر کو محسوس کر کے اریبہ کے چہرے پر ناگواری اُبھر آئی۔ وہ بولی۔’’ آپ کی جتنی تعریف سنی تھی، میں نے آپ کو ویسا نہیں پایا۔ فاریحہ نے کہا تھا کہ آپ انسان کے چہرے سے حقائق پڑھ لیتے ہیں۔‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ مسز اریبہ زبیر!‘‘
’’آپ ایسا سوچ تو رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ جب کوئی شخص قتل کرتا ہے تو اس کے متعلق کچھ لوگوں یا اس کے اپنے کنبے کے کچھ افراد کی یہ رائے ہوتی ہے کہ نہیں، وہ قاتل نہیں ہو سکتا، وہ اس قسم کا آدمی نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن میں نے سعد سلمان کے متعلق یہ نہیں کہا، میرے خیال میں تو وہ یقیناً اسی قسم کا آدمی ہے۔‘‘ اریبہ نے کہا۔
’’کیا کہا آپ نے…؟‘‘ جمشید کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
’’سعد سلمان ایک کرخت آدمی ضرور ہے۔ اس کا مزاج بھی کافی حد تک تشدد کی طرف مائل ہے۔ لڑکپن ہی سے وہ اپنی اس فطرت کی بدولت سزا پاتا رہا ہے لیکن وہ کبھی کسی کو قتل کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’گویا وہ اس قسم کا آدمی نہیں ہے کہ قتل کر سکے؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’وہ غصہ ور ہے اور غصے کی انتہا میں اس سے قتل کی توقع بھی کی جا سکتی ہے لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ وہ باقاعدہ منصوبہ بنا کر یا ارادتاً کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔‘‘
’’بالفرض اس نے یہ قتل کیا ہے تو آپ کے خیال میں اس نے کسی جواز یا کسی مقصد کے تحت یہ قدم اُٹھایا ہوگا؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’اگر میں شہر میں اُڑتی ہوئی افواہوں پر یقین کر لوں تو مجھے ان کا مقصد بھی نظر آتا۔ ان افواہوں کا مجھ تک پہنچنے کا سب سے بڑا ذریعہ میرے اپنے والد ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’آپ کے والد؟‘‘ جمشید کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’جی ہاں، وہ ریٹائرڈ ڈاکٹر ہیں اور ان کا بیشتر وقت کلینک اور ادھر اُدھر لوگوں سے گپ شپ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ وہ جو کچھ سنتے ہیں، آ کر مجھے بتا دیتے ہیں۔ یہ شہر نما قصبہ ہے ہی کتنا بڑا، بات نکلنے کی دیر ہوتی ہے اور گوٹھوں تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘
’’افواہیں تو خیر میں نے بھی سنی ہیں، مسز اریبہ!‘‘ جمشید بولا۔
’’لیکن وہ غلط ہیں۔‘‘ اریبہ نے ان کی نوعیت پوچھے بغیر کہا۔ ’’سعد کے پاس زبیر کو قتل کرنے کا اگر کوئی مقصد ہو سکتا تھا وہ صرف کاروباری ہو سکتا ہے۔‘‘
’’وہ کس طرح؟‘‘
’’میرے شوہر نے سعد کا کاروبار خرید لیا تھا۔ وہ گھاٹے میں جا رہا تھا۔‘‘
’’ہاں، میں نے سُنا تو تھا کہ ان کے درمیان اس قسم کا کوئی معاہدہ ہوا تھا، کیا وہ معاہدہ تسلی بخش ثابت نہیں ہوا تھا؟‘‘
’’تنازع رقم کا نہیں بلکہ شرائط کی نوعیت کا تھا۔‘‘ اریبہ نے جواب میں کہا۔
’’میں سمجھا نہیں؟‘‘ جمشید نے اُلجھن آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’سعد سلمان کی ابتدائی زندگی کے حالات بڑے سخت گزرے تھے، مگر وہ حقیقت پسند اور محنتی آدمی ہے۔ وہ بہت ذہین ہے، مگر حد سے زیادہ خود اعتمادی اس کی بڑی بُرائی ہے۔ اس کے خیال میں یہی بات ہوتی ہے کہ وہ جو کر رہا ہے صحیح ہے۔ میکینکل انجینئرنگ میں اس نے ڈپلومہ لیا اور ایک موٹر کمپنی میں لگ گیا، بعد میں تجربہ حاصل کر کے اس نے اپنا کاروبار شروع کر دیا، مگر شاید جوش میں اس سے جلدبازی ہوگئی، نقصان ہونے لگا، جس طرح وہ اس وقت کسی وکیل کی خدمات حاصل نہیں کر رہا، اسی طرح میرے شوہر سے معاہدہ کرتے وقت بھی اس نے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اگرچہ سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوگئے تھے اور اس وقت اسے کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی۔ بعد میں اسے احساس ہوا کہ معاہدے کی رُو سے وہ اپنی مصنوعات کا فارمولا زبیر کو فروخت کر چکا ہے اور اب ان میں کوئی ترمیم و اضافہ کر کے اپنے طور پر انہیں کہیں اور فروخت نہیں کر سکتا۔ البتہ وہ دُوسری کوئی اور چیز ایجاد کر سکتا تھا اور اپنا کام جاری رکھ سکتا تھا لیکن اسے یہی محسوس ہوا کہ جن ایجادات پر وہ اب تک تکیہ کیے ہوئے تھا وہ کسی دُوسرے کے قبضے میں چلی جانے سے اس کے ہاتھ کٹ گئے ہیں۔ حالانکہ اس نے معاہدے پر پوری رضامندی سے دستخط کیے تھے۔ لیکن اس کے نتائج کا احساس اسے بعد میں ہوا۔ اس نے معاہدہ منسوخ کرنے کی کوشش کی مگر ظاہر ہے میرا شوہر اس پر رضامند نہیں ہو سکتا تھا۔ یوں اس کی موٹر کمپنی مدتوں سے بند پڑی تھی۔ زبیر کو اُمید نظر آ رہی تھی کہ سعد کے فارمولے کے سہارے وہ اس میں تھوڑا بہت اپنا سرمایہ لگا کر اسے دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ زبیر کے انکار پر سعد نے کئی مرتبہ غم و غصے کا اظہار کیا۔‘‘ اریبہ اتنی صراحت کر کے چپ ہو گئی۔
’’پولیس کے خیال میں یہی معاہدہ قتل کا محرک ہے؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ پولیس کا نقطۂ نظر
کیا ہے؟‘‘
’’بہرحال، اسی معاہدے کی تکمیل کے دوران آپ کی سعد سلمان سے ملاقات ہوئی ہوگی؟‘‘ جمشید نے سرسری لہجے میں پوچھا۔
’’جی ہاں، ہم تینوں کے درمیان دوستانہ فضا قائم ہوگئی تھی۔‘‘
’’افواہیں کہتی ہیں کہ اس مثلث میں سعد سلمان کا کردار آپ کے محبوب کا سا تھا۔‘‘
’’یہ غلط ہے۔‘‘ اریبہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’میں سعد کی مداح ضرور ہوں لیکن اس کی محبوبہ ہرگز نہیں ہوں۔ میں صرف اس لیے آپ کے پاس آئی تھی کہ مجھے اس کی بے گناہی کا یقین ہے۔ کیا آپ کسی کو بے گناہ سمجھتے ہوئے بھی اسے سزا بھگتتے دیکھ سکتے ہیں؟‘‘
’’چند روز پہلے تک میں ایک اور شخص کو بھی بے گناہ سمجھ کر اس کا کیس لڑتا رہا تھا۔ لیکن اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ شاید میں غلطی پر تھا۔‘‘ جمشید نے کہا۔
’’لیکن میں غلطی پر نہیں ہوں۔‘‘
’’اس یقین کی وجہ؟‘‘
’’میں نہیں بتا سکتی۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ یہ کیس لڑ سکتے ہیں یا نہیں۔ فیس جتنی آپ طلب کریں گے میں دوں گی۔‘‘
’’مسز زبیر!‘‘ جمشید نے کہا۔ ’’میں موکل در موکل والے طریقِ کار کا قائل نہیں ہوں۔ سعد سلمان کو اگر میری خدمات کی ضرورت ہے تو وہ خود مجھ سے کیوں بات نہیں کرتا؟‘‘
’’میں نے آپ کو بتایا تو ہے کہ …‘‘
’’مسز زبیر!‘‘ جمشید نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’جب سے آپ یہاں آئی ہیں، آپ نے درحقیقت مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔‘‘
اس پر اریبہ نے قدرے خم ہو کر جمشید کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’میں حیران ہوں کہ فاریحہ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ آپ چہروں سے حقائق پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے پرس اُٹھایا اور دفتر سے نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد جمشید عجیب سی بے چینی میں مبتلا ہوگیا۔ اس کی اگلی ملاقات کسی کلائنٹ سے طے تھی لیکن جمشید پوری توجہ سے اس کے ساتھ گفتگو نہ کر سکا اور وہ اس کی بے توجہی کو محسوس کرتے ہوئے جلد رُخصت ہوگیا۔
٭…٭…٭
’’کیا تم اس کیس کو لے رہے ہو؟‘‘ انسپکٹر اکرم نے جمشید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔
’’نہیں۔‘‘ جمشید نے جواب دیا۔
’’تو پھر تم سے اس کیس پر تحقیق کرنے کو کس نے کہا ہے؟‘‘ اکرم نے پوچھا۔
جمشید نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اکرم! میں اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم نے کرم پور جا کر سعد کو کیوں گرفتار کیا ہے؟ کیا تمہارے پاس اس کے خلاف کوئی ناقابلِ تردید ثبوت ہے؟‘‘
’’پتا نہیں تم کس انداز سے سوچ رہے ہو؟‘‘ اکرم نے جھلّا کر کہا۔ ’’یہ کیس روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس رات زبیر اپنے گھر میں تنہا تھا اور اسے ایک ملاقاتی کا انتظار تھا۔‘‘
’’اور… اس ملاقاتی نے آ کر اسے ہلاک کر دیا۔‘‘ جمشید اچانک درمیان میں بول پڑا۔
’’ہاں…!‘‘ اکرم نے جواب میں سر ہلایا۔ ’’قاتل کمرے کی کھڑکی سے اندر گیا۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ اس لیے اسے کوئی دُشواری نہیں ہوئی مگر اس کے جوتے گندے تھے اس لیے اس کے جوتے کا نشان قالین پر بن گیا۔ دروازے پر بھی اس کی اُنگلیوں کے نشانات پائے گئے۔ اندر جا کر اس نے زبیر کو گولی ماری اور چلتا بنا۔ نہایت آسان سا کیس ہے تم خواہ مخواہ اس میں اُلجھائو پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے کہ وہ ملاقاتی سعد سلمان ہی تھا؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔
’’ہاں۔‘‘ اکرم بولا۔ ’’سعد غصے میں پاگل ہو رہا تھا۔ اس نے پہلے بھی اسے جان سے مار دینے کی دھمکی دی تھی۔ بہرحال، اس رات جب وہ کمرے میں پہنچا تو زبیر وہاں تنہا تھا۔ اس نے پرانی بات دُہرائی اور اس سے معاہدہ تبدیل کرنے کو کہا۔ زبیر نے انکار کیا تو سعد نے اسے ہلاک کر دیا۔‘‘
’’اس سلسلے میں تمہیں کوئی ثبوت ملا؟‘‘
’’ہاں… سعد کی اُنگلیوں کے نشانات وہاں کئی جگہ پائے گئے ہیں۔‘‘ اکرم نے جواب دیا۔
’’اور آلۂ قتل کہاں گیا؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا۔ شاید سعد نے اسے کہیں دفن کر دیا ہے۔‘‘
’’سعد نے اقبال جرم کیا؟‘‘ جمشید نے استفسار کیا۔
’’نہیں… مگر اس نے یہ اعتراف ضرور کیا ہے کہ وہ اس رات زبیر کے گھر گیا تھا۔ ہمارے لیے فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ دُوسرے اعترافات بھی کر لے گا۔‘‘
’’سعد، زبیر کے گھر کیوں گیا تھا؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’اس کا کہنا تھا کہ وہ کاروباری گفتگو کرنے گیا تھا اور مجھے اس پر یقین ہے۔‘‘ اکرم نے جواب دیا۔ پھر قدرے توقف سے بولا۔ ’’جمشید! کیا تم سعد کے وکیل ہو؟‘‘
’’میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ نہیں۔‘‘ جمشید نے جواب میں کہا۔
’’تو پھر وکیلوں کی طرح سوال و جواب کیوں کر رہے ہو؟‘‘
’’مجھے اس کیس سے دلچسپی ہوگئی ہے۔‘‘ جمشید نے جواب دیا۔
’’میرا مشورہ ہے کہ تم اس کیس سے دُور رہو۔‘‘ اکرم نے ناصحانہ انداز میں کہا۔ ’’ابھی تم ایک مقدمہ ہار چکے ہو… اگر تم نے سعد کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی تو تمہارے ماتھے پر بدنامی کا ایک اور داغ لگ جائے گا۔‘‘
جمشید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میں سعد کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ محض اپنی دل چسپی کے لیے اصل واقعات جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
جمشید کو اس دوپہر میں اس کی بیوی نے جلدی بلا لیا تھا اس لیے وہ گھر چلا گیا۔ وہ خوش تھا کہ عذرا حسبِ وعدہ آج اس کی پسندیدہ ڈش تیار کرے گی… مگر اب بھی کوئی بات اس کے ذہن میں چُبھ رہی تھی۔ کوئی ایسی بات جو واضح طور پر اس کے تخیل میں تشکیل نہیں پا سکی تھی۔
٭…٭…٭
عذرا اسے دروازے پر ہی پر مل گئی۔ اس نے سرگوشی میں کہا۔ ’’معاف کرنا جمشید! میں نے اس سے کہا تھا کہ تم واپس آتے ہی کھانا کھائو گے مگر بضد تھا کہ …‘‘
’’کون؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔ ’’تم کس کی بات کر رہی ہو؟‘‘
’’انشورنس کمپنی کے مسٹر ذکی اقبال۔‘‘ عذرا نے جواب دیا اور آگے بولی۔ ’’وہ اس وقت مطالعے کے کمرے میں بیٹھا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ کھانے میں مخل نہیں ہوگا… صرف دس منٹ گفتگو کرے گا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ انشورنس کمپنی کا کوئی نمائندہ میری مطالعہ گاہ میں اس لیے بیٹھا ہے کہ تاکہ میرے ہاتھ کوئی پالیسی فروخت کر سکے؟‘‘
’’نہیں جمشید!‘‘ عذرا نے جواب دیا۔ ’’یہ کوئی اور ہی معاملہ ہے۔‘‘
’’اور معاملہ؟‘‘ جمشید نے تعجب سے دُہرایا۔ ’’اگر وہ اس مقصد سے نہیں آیا تو پھر مجھ سے کیا چاہتا ہے…؟ ٹھہرو، میں خود دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ اس نے مطالعہ گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
ذکی اقبال نے جمشید سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ جمشید نے اس سے ہاتھ ملایا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا ہاتھ کسی شکنجے میں آ گیا ہو۔
ذکی کی طرف دیکھنے ہی سے یہ احساس ہوتا تھا کہ وہ پہلوان ہے اور اس نے تن سازی میں خاصی محنت کی ہے۔ وہ جمشید کی طرف دیکھ کر خالص کاروباری انداز میں مسکرایا تھا۔ جمشید جانتا تھا کہ یہ خالصتاً کاروباری مسکراہٹ ہے جو انشورنس ایجنٹ اپنے شکار کو پھانسنے کے لیے ہونٹوں پر سجا لیتے ہیں۔
ذکی اقبال نے کہا۔ ’’جمشید صاحب! آپ غلط سمجھے، میں کوئی پالیسی فروخت کرنے نہیں آیا۔ میں آج کل کلیم ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہا ہوں۔‘‘
’’لیکن میں نے تو تمہاری کمپنی سے کسی قسم کا کلیم نہیں کیا ہے۔‘‘ جمشید بولا۔
’’آپ نے نہیں مگر زبیر نے تو کیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
یہ سن کر جمشید کا چہرہ ایک دَم سپاٹ ہوگیا۔ اس نے سادہ سے لہجے میں کہا۔ ’’میں زبیر نامی کسی شخص سے واقف نہیں ہوں۔‘‘
’’میں اس شخص کی بات کر رہا ہوں جس کا قتل گزشتہ دنوں ہوا ہے۔‘‘
’’اوہ… وہ… جس کا گاڑیوں کا کاروبار ہے؟‘‘ جمشید انجان بن کر بولا۔
ذکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں مذاق ختم کر دینا چاہیے۔ آپ زبیر کو جانتے ہیں اور اس کی بیوہ سے بھی واقف ہیں… آپ کی پیاری بیوی کھانے پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا… اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اصل مدعا بیان کروں…؟‘‘
جمشید نے اثبات میں اپنے سر کو جنبش دی۔
’’اریبہ زبیر آج دوپہر آپ کے پاس کیوں آئی تھیں؟‘‘ اس نے براہ راست ایک غیر متوقع سوال کیا۔
’’کیا…؟‘‘ جمشید نے چونک کر کہا۔ (جاری ہے)