’’آج دوپہر وہ آپ کے دفتر گئی تھی۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ آپ سے کیوں ملنے گئی تھی؟‘‘
’’تمہارا اس سے کیا تعلق ہے؟‘‘ جمشید نے ناگواری سے کہا۔
’’غصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ذکی مسکرایا۔ ’’بات یہ ہے کہ پالیسی بہت لمبی ہے۔‘‘
’’کس کی پالیسی؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’زبیر کی پالیسی جو اس کی بیوہ اریبہ کے نام ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’قاتلوں کو رقم ادا کرتے وقت ہمیں بہت کوفت ہوتی ہے جبکہ معاملہ پچاس لاکھ کا ہو۔‘‘
’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اریبہ اپنے شوہر زبیر کی قاتل ہے؟‘‘ جمشید نے استفسار کیا۔
’’اس صورت میں اور کیا سوچا جاسکتا ہے جبکہ وہ پالیسی بھی اسی کے نام ہے۔‘‘ ذکی بولا۔ ’’مزید یہ کہ سعد سلمان کا معاملہ ہے۔ اس پر شبہ کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر اریبہ کو اپنے شوہر سے قطعاً محبت نہیں تھی۔ وہ ایک مفلوک الحال لڑکی تھی اور اس نے زبیر سے محض دولت کے لیے شادی کی تھی۔‘‘
جمشید نے کہا۔ ’’مسٹر ذکی! تم خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کررہے ہو۔ اریبہ میری موکلہ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اس کیس سے کوئی دلچسپی ہے۔‘‘
’’اگر یہ بات کسی طرح ثابت ہوجائے کہ قاتل زبیر کی بیوہ ہے تو ہماری کمپنی کو پچاس لاکھ ادا نہیں کرنا پڑیں گے۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ یہ میں ثابت کروں؟‘‘ جمشید نے حیرت سے پوچھا۔
’’اگر آپ یہ کیس جیت گئے تو ہم آپ کو انعام دیں گے۔ پورے پندرہ لاکھ روپے۔‘‘
جمشید نے غصے سے اسے دیکھا تو ذکی کھڑا ہوگیا۔ پھر اس نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کے گھر کا فرنیچر پرانا ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے وقتاً فوقتاً تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔‘‘
جمشید جب کھانے کی میز پر بیٹھا تو صبح سے اس کے دماغ میں چبھنے والا سوال پوری وضاحت سے اس کے سامنے آگیا۔ اریبہ زبیر اس پر بضد کیوں تھی کہ سعد سلمان بے گناہ ہے؟
٭…٭…٭
سنیچر کی صبح جمشید نے انشورنس کمپنی کو فون کیا اور ان سے ذکی کا نمبر مانگا۔ ذکی کا نمبر ملانے پر اسے احساس ہوا کہ وہ اب تک بستر پر تھا۔
’’ہیلو!‘‘ اس نے غنودہ آواز میں کہا۔
’’میں جمشید بول رہا ہوں۔‘‘
’’اس وقت فون کرنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا تمہیں میری پیشکش منظور ہے؟‘‘ ذکی نے سوال کیا۔
’’میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی مقتول زبیر نے پچاس لاکھ کی پالیسی لے رکھی تھی اور کب سے…؟‘‘
’’جب سے اس نے اریبہ سے شادی کی تھی۔‘‘ ذکی نے جواب دیا۔ ’’میرا مطلب ہے انیس ماہ پہلے اپنا بیمہ کرا کے اس نے پالیسی اپنی بیوی کو تحفتاً دی تھی۔‘‘
’’اس وقت زبیر کی صحت کیسی تھی؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔
’’بالکل ٹھیک!‘‘ ذکی نے جواب دیا۔ ’’لیکن مسٹر جمشید! آپ کس بات کی تفتیش کررہے ہیں؟‘‘
’’وہ شخص جس نے پالیسی لی ہے، اگر خودکشی کرلے تو؟‘‘ جمشید نے اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’اس صورت میں ہم اسے پچاس لاکھ کی بجائے محض چند لاکھ ادا کریں گے۔‘‘ ذکی نے جواب دیا۔ جمشید نے مزید کوئی سوال کیے بغیر ریسیور رکھ دیا۔ اس کے دماغ میں ایک نیا سوال برچھی کی مانند چبھ رہا تھا کہ زبیر نے خودکشی کیوں کی؟ اپنی موت سے اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟
٭…٭…٭
’’وکیل صاحب! میں صحیح کہہ رہی ہوں کہ اس رات جب میں گھر میں داخل ہوئی تو میں نے زبیر کو مُردہ پایا تھا۔ اس نے خودکشی کی تھی۔ مطالعہ گاہ میں روشنی تھی اور اس کا ریوالور قریب ہی پڑا تھا نیز اس کی کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا۔‘‘
’’مگر ریوالور کی موجودگی اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ زبیر نے خودکشی کی تھی۔‘‘ جمشید نے کہا۔
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے خودکشی کی تھی کیونکہ اس نے میرے نام ایک معذرتی خط بھی تحریر کیا تھا۔‘‘ اریبہ بولی۔ ’’وہ تحریر میں نے آتش دان میں ڈال دی اور کاغذ راکھ ہوجانے کے بعد اسے سلاخ سے برابر کردیا پھر میں نے ریوالور اٹھا کر اپنی خواب گاہ میں رکھ لیا۔ پہلے مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس گھر کی تلاشی نہ لینے لگے مگر شاید انہوں نے اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔‘‘
’’وہ ریوالور اب کہاں ہے؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’میں نے اسے ایک نالے میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’کون سے نالے میں اور کس جگہ؟‘‘
’’یہ تو مجھے یاد نہیں رہا۔‘‘ اریبہ نے جواب دیا۔
’’مگر تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’تاکہ پولیس یہ فرض کرلے کہ یہ کسی معمولی چور کا کارنامہ ہے۔ اسی لیے میں نے دونوں ثبوت ضائع کردیے اور کمرے کی چیزوں کو الٹ پلٹ دیا۔ ہمارے گھر میں اس سے پہلے بھی دو چوریاں ہوچکی ہیں چنانچہ پولیس کو یہ مفروضہ قائم کرتے دیر نہ لگتی کہ یہ کسی چور کی حرکت ہے۔‘‘
’’مگر پولیس نے سعد کو پکڑ لیا کیونکہ اس رات وہ بھی تمہارے گھر آیا تھا۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’جبکہ بیمہ کمپنی کا خیال ہے کہ یہ قتل تم نے کیا ہے تاکہ تم پچاس لاکھ روپے حاصل کرسکو۔‘‘
اریبہ نے اس کی بات سن کر بے اختیار گہرا سانس لیا۔ چند لمحوں بعد اس نے کانپتی آواز میں کہا۔ ’’یہ قتل میں نے نہیں کیا۔‘‘
’’مگر تمہیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ زبیر کی خودکشی کو تم نے قتل کا رنگ اسی لیے دیا تھا کہ تم بیمے کی رقم حاصل کرلو۔‘‘
اریبہ کچھ نہ بولی اور پائوں کے انگوٹھے کو قالین پر رگڑنے لگی۔
’’میرا خیال ہے کہ تم معاملات کو یونہی رہنے دو۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’اس طرح سعد سلمان کو پھانسی ہوجائے گی اور تمہیں بیمے کی رقم مل جائے گی۔‘‘
’’میں ایک بے گناہ شخص کو پھانسی کے پھندے پر نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
’’اگر تمہیں سعد کا اتنا ہی خیال تھا تو تم نے اس کے گرفتار ہوتے ہی پولیس کو یہ کیوں نہیں بتا دیا کہ زبیر نے خودکشی کی ہے؟‘‘
’’میں بیمے کی رقم حاصل کرنا چاہتی ہوں اور سعد کی رہائی بھی چاہتی ہوں۔‘‘ اریبہ بولی۔ ’’اسی لیے میں تمہارے پاس آئی تھی کہ شاید تم کوئی راہ نکال لو۔‘‘
٭…٭…٭
انسپکٹر اکرم سے جب جمشید نے یہ خیال ظاہر کیا تو اس کا موڈ خراب ہوگیا۔ اس نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ زبیر نے خودکشی کی ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ جمشید نے جواب دیا۔
’’کیا اس لیے کہ یہ بات اریبہ نے کہی ہے؟‘‘ اکرم نے سوال کیا۔
’’ہاں…!‘‘
’’تمہیں شاید ابھی تک یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہے؟‘‘ اکرم بولا۔ ’’وہ چاہتی ہے سعد محفوظ رہے۔‘‘
’’مگر سعد بے گناہ ہے۔ اگر اسے بچا لیا جائے تو کیا حرج ہے؟‘‘
’’میں ایسا نہیں سمجھتا۔‘‘ اکرم غرایا۔
’’مگر مجھے اس کی بات پر یقین ہے۔‘‘ جمشید کا لہجہ ٹھوس تھا۔
’’کیوں؟‘‘ اکرم نے چڑ کر سوال کیا۔ ’’تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ صحیح کہہ رہی ہے۔ اریبہ نے کوئی ثبوت پیش کیا؟‘‘
’’نہیں!‘‘ جمشید نے جواب دیا۔
’’وہ ریوالور کہاں ہے جس سے زبیر نے خودکشی کی تھی؟‘‘
’’میں تمہیں پہلے بتا چکا ہوں کہ اریبہ نے اسے نالے میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’اور زبیر نے خودکشی سے پہلے جو تحریر چھوڑی تھی، اسے اریبہ نے جلا دیا!‘‘ اکرم نے مضحکہ خیز لہجے میں کہا۔ ’’اس کہانی پر کیسے یقین آسکتا ہے جمشید…؟ اچھا یہ بتائو کہ زبیر نے خودکشی کیوں کی؟ کیا وہ بیمار تھا؟ اس کا کاروبار تباہ ہوچکا تھا؟ ذہنی طور پر کسی اذیت میں مبتلا تھا یا کسی کی محبت میں گرفتار ہوکر اس نے یہ قدم اٹھایا تھا؟‘‘
’’میں اس پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہوں۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’ہوسکتا ہے اس نے اس لیے خودکشی کی ہو کہ اس کی ازدواجی زندگی…‘‘
’’تم نے لوگوں کو اس سے بھی خراب ازدواجی زندگی گزارتے دیکھا ہوگا۔‘‘ اکرم نے کہا۔ ’’کیا ایسے لوگ خودکشی کرلیتے ہیں؟‘‘ اس نے کچھ توقف کے بعد دوبارہ کہا۔ ’’پولیس آنکھیں بند کیے نہیں بیٹھی جمشید! ہم نے زبیر کی زندگی کی ہر بات کا سراغ لگا لیا ہے۔ ایسے افراد خودکشی نہیں کرسکتے۔ زبیر کے پاس اتنی دولت تھی کہ وہ بغیر ہاتھ، پائوں ہلائے کافی عرصے تک زندگی گزار سکتا تھا۔ اس نے نیا کاروباری معاہدہ کیا تھا جس پر عمل کرکے وہ مزید دولت حاصل کرسکتا تھا۔ گزشتہ سالوں سے وہ سماجی خدمات میں حصہ لینے لگا تھا۔ بھلا اسے خودکشی کرنے کی کیا ضرورت تھی، جمشید؟‘‘
یہ ایسا سوال تھا جمشید کے پاس جس کا جواب نہیں تھا۔
٭…٭…٭
سعد سلمان سے لاک اَپ میں جمشید کی ملاقات ہوئی تو وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’مسٹر! میں نے تمہیں یہاں نہیں بلایا۔‘‘
’’میں خود یہاں آیا ہوں۔‘‘ جمشید نے برا منائے بغیر کہا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ اریبہ نے تمہیں یہاں بھیجا ہے حالانکہ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ مجھے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’اگر تم کسی وکیل کی خدمات حاصل کرکے یہاں سے رہائی پا لو تو کیا حرج ہے؟‘‘ جمشید بولا۔
’’مجھے جیل میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔‘‘ سعد نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
’’سعد! اگر کوئی حرج نہ ہو تو مجھے بتائو کہ اس رات کیا ہوا تھا؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’میں عدالت کی طرف سے مقرر کیے گئے وکیل کو تمام باتیں بتا چکا ہوں۔‘‘ سعد بولا۔ ’’بہرحال تم بھی سن لو کہ اس رات کیا ہوا تھا۔ اریبہ تمہاری بہت تعریفیں کرتی ہے اس لیے میں تمہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ تمہیں اس معاہدے کا تو علم ہوگیا ہوگا جو میرے اور اس کے درمیان ہوا۔ معاہدہ کرنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ میرے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اپنی بیوی کو بھی نہیں بخشا۔‘‘
’’تم اریبہ کو پسند کرتے ہو؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔
’’پسند؟‘‘ سعد ہنسا۔ ’’سارا شہر جانتا ہے کہ میں اس پر جان دیتا ہوں۔ زبیر اگر یوں نہ مرتا تو شاید اریبہ کے سلسلے میں میرے ہاتھوں قتل ہوجاتا۔‘‘ اس نے قدرے توقف سے کہا۔ ’’مگر میں یہ کام نہایت ہوشیاری سے کرتا۔ ایسے نہیں جیسے پولیس سمجھتی ہے کہ میں نے زبیر کے گھر پہنچ کر اس کی کنپٹی میں گولی ماری اور پھر ہر جگہ اپنی انگلیوں کے نشانات چھوڑ کر چلا آیا تاکہ پولیس مجھے گرفتار کرلے۔ کیا میں صورت سے اتنا احمق دکھائی دیتا ہوں؟‘‘
’’تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ تم وہاں کیوں گئے تھے؟‘‘
’’میں اس سے کاروباری گفتگو کرنے گیا تھا۔‘‘ سعد بولا۔ ’’اس نے معاہدے میں ایسی شق شامل کردی تھی جس کی رو سے میں نئی ایجاد نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں زبیر ہی کی کمپنی میں کام کروں۔ وہ بلاشبہ مجھے اچھی تنخواہ دیتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’میں اپنا کام کرنے کی بجائے زبیر کا کام کرنا چاہتا تھا۔‘‘ سعد نے جواب دیا۔ ’’میں نے زبیر کو اطلاع دی کہ میں اس سے گفتگو کرنے آرہا ہوں۔ میں تقریباً ساڑھے آٹھ نو بجے اس کے گھر پہنچا چونکہ مطالعے کے کمرے میں روشنی تھی اس لیے میں سمجھ گیا کہ وہ وہاں موجود ہے۔ میں نے اطلاعی گھنٹی بجائی مگر کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ میں نے دروازہ کھولا تو اسے پڑے پایا۔‘‘ سعد نے آنکھیں بند کرکے سر جھکایا پھر سیدھا ہوکے دوبارہ بولا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ مر چکا تھا۔ اس کی کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا اور ریوالور اس کی انگلیوں کے پاس پڑا تھا۔ کمرے میں کاغذ ہی کاغذ بکھرے ہوئے تھے اور اس کے ایک ہاتھ کے نیچے بھی کاغذ دبا ہوا تھا۔ شاید خودکشی کرنے سے پہلے وہ کچھ لکھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’تم نے دیکھا، اس کاغذ پر کیا لکھا تھا؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔
’’نہیں۔‘‘
’’آتش دان اس وقت جل رہا تھا؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔
’’ہاں! اس میں سے لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔‘‘
’’پھر تم نے کیا کیا؟‘‘ جمشید نے استفسار کیا۔
’’میں کیا کرسکتا تھا؟ میں وہاں سے بھاگ اٹھا۔‘‘
’’تم بھاگے کیوں؟ تم وہاں رہ کر پولیس کو اطلاع بھی تو دے سکتے تھے۔‘‘ جمشید بولا۔
’’بالکل یہی بات عدالت کے وکیل نے بھی کہی تھی مگر میں کیوں رکتا۔ کیا پولیس مجھے گولڈ میڈل دیتی؟‘‘
’’تم آج جیل میں نہ ہوتے۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد اس نے پوچھا۔ ’’تم کوئی اندازہ قائم کرسکتے ہو کہ زبیر نے خودکشی کیوں کی؟ کیا وہ اپنی زندگی سے عاجز تھا؟‘‘
’’وکیل صاحب! آپ مذاق تو نہیں کررہے؟‘‘ سعد مضحکہ خیز لہجے میں بولا۔ ’’زبیر اور اپنی زندگی سے ناخوش…؟ اس کے پاس موٹروں کی کمپنی تھی، آئندہ چند ماہ میں وہ موٹر آٹو انجینئرنگ کی ورکشاپ بھی کھولنے والا تھا۔ وہ بھلا اپنی زندگی سے ناخوش کیوں ہونے لگا۔ نہیں، میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے خود کشی کیوں کی۔‘‘
٭…٭…٭
اربیہ نے جمشید کی ہدایت کے مطابق کچھ خطوط اکٹھا کرکے اسے پہنچائے۔ یہ وہ خطوط تھے جو اس کے شوہر زبیر کی خودکشی یا قتل سے چند روز پہلے اس کے نام آئے تھے۔ جمشید نے ان کی چھانٹی کی تو اسے صرف ایک خط کیس کے سلسلے میں اہم محسوس ہوا اور وہ تھا ایک موسیقی کے پروگرام کا دعوت نامہ! لفافے پر تو زبیر کا نام لکھا تھا مگر کارڈ پر اس کا نام نہیں لکھا تھا۔ پروگرام میں ابھی دو روز باقی تھے۔
’’بس! ٹھیک ہے اس دعوت میں، میں زبیر کی حیثیت سے شرکت کروں گا۔‘‘ فاریحہ کے ساتھی کولیگ اور جمشید کے اسسٹنٹ شوکت نے کہا۔ ایسا اس نے جمشید کے ایماء پر ہی کہا تھا۔ جانے کیوں جمشید کو اس دعوت میں کوئی غیر معمولی بات محسوس ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
شاد باد ایونیو میں تمام مکانات پتھروں سے تعمیر کئے گئے تھے۔ وہ مکان دو منزلہ تھا۔ اس کی نچلی منزل کی کھڑکیاں اوپری منزل کے مقابلے میں لمبی تھیں۔ عمارت کی طرف دیکھتے ہی یہ احساس ہوتا تھا کہ وہ کچھ پراسرار سی ہے۔ عمارت کی تمام کھڑکیوں پر سرخ پردے پڑے تھے اور ان کے عقب میں بے حد دھیمی روشنی ہورہی تھی۔
عمارت کے دروازے پر جہاں اطلاعی گھنٹی لگی تھی، ایک تختی پر خوبصورت سا پیانو بنا تھا اور اعجاز خان لکھا تھا۔
شوکت نے اپنی ٹائی درست کی اور اپنے بالوں پر مضطربانہ ہاتھ پھیرا اور پھر گھنٹی کے پُش بٹن پر انگلی رکھ دی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک شخص نے شکل دکھائی۔ وہ ایک دراز قد آدمی تھا اور اس کے ہاتھ، پائوں مضبوط تھے۔ اس کے چہرے پر جگہ جگہ زخموں کے نشانات تھے اور ناک طوطے کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی تھی۔
شوکت کا خیال تھا کہ وہ اعجاز خان کے پاس کام کرنے سے پہلے ضرور باکسنگ کرتا ہوگا۔
’’جناب! آپ کا دعوت نامہ؟‘‘ اس شخص نے نرم لہجے میں پوچھا۔
’’یہ رہا۔‘‘ شوکت نے اس کی طرف کارڈ بڑھایا۔ ’’معاف کرنا مجھے تھوڑی سی دیر ہوگئی۔ دراصل یہاں کی تمام عمارتیں ایک جیسی ہیں اس لیے یہ مکان تلاش کرنے میں…‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے جملہ قطع کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ سب سے بعد میں آئے ہیں مگر تردد کا شکار نہ ہوں، مسٹر اعجاز خان نے ابھی اپنا پروگرام شروع نہیں کیا۔ اندر تشریف لایئے۔‘‘ وہ ایک طرف ہٹتا ہوا بولا۔
شوکت ہال میں پہنچا تو خادم نے دروازہ بند کردیا۔ اس ہال میں مدھم روشنی تھی۔ خادم اسے وہاں سے ایک دوسرے کمرے میں لے گیا جسے عرف عام میں کلاک روم کہا جاتا تھا پھر اس خادم نے نہایت ادب سے اس کا کوٹ اتارا اور کہا۔ ’’برائے مہربانی اب نقاب پہن لیجیے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ شوکت نے حیرت سے سوال کیا۔
’’نقاب!‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’موسیقی کا پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ کیا آپ اپنا نقاب نہیں لائے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ شوکت بولا۔ ’’میں اپنا نقاب نہیں لایا۔‘‘
’’آپ یقیناً مسٹر اعجاز کے پرانے کرم فرما ہوں گے؟‘‘ خادم نے سوال کیا۔
’’آہ… ہاں!‘‘ شوکت نے مختصراً کہا۔
’’مسٹر اعجاز نے آپ کو نقاب لانے کی ہدایت نہیں کی تھی؟‘‘ خادم نے پوچھا۔
’’ہاں… ہاں، کہا تو تھا مگر میں ان کی یہ ہدایت بھلا بیٹھا۔‘‘
وہ آدمی مشرقی جانب رکھی ہوئی الماری کی طرف بڑھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک سیاہ نقاب لیے واپس آگیا۔
’’یہ لیجیے۔‘‘ اس نے خشک لہجے میں کہا۔ ’’اور آئندہ اسے ہمیشہ ساتھ لے کر آیئے گا۔‘‘
شوکت نے نقاب اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ کپڑے کے اس بڑے سے نقاب کو پہننے کے بعد اس کا سر، منہ، ناک اور آنکھیں چھپ گئیں۔ آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے جن سے تھوڑا بہت دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا تماشا تھا؟ تاہم وہ اس کی وجہ پوچھنے کی ہمت نہ کرسکا۔
’’اندر جایئے۔‘‘ خادم نے کہا۔ اس کے لہجے کی شگفتگی اب عنقا ہوچکی تھی۔ شوکت ایک لحظے کے لیے ٹھٹھکا تو خادم نے ایک طرف اشارہ کیا اور غرایا۔ ’’اس طرف۔‘‘
شوکت اس طرف بڑھا۔ وہ ایک وسیع و عریض ہال تھا جس کی چھت بہت بلند تھی۔ وہاں پہنچ کر شوکت ایک دم سکتے میں آگیا۔ اسے شبہ ہوا کہ شاید وہ عالمِ خواب میں ہے۔
اس ہال کے اختتامی سرے پر ایک بڑا سا پیانو رکھا تھا۔ ابھی وہ شخص نہیں آیا تھا جسے وہ محفل سجانا تھی تاہم سامعین حاضر تھے۔ ان کی تعداد صرف چھ تھی۔ سب کے جسموں پر سوٹ اور چہروں پر سیاہ نقاب تھا۔ شوکت پر اس قدر حیرت طاری تھی کہ وہ آگے نہیں بڑھا اور وہیں کھڑا پلکیں جھپکاتا رہا۔ اس کی آمد پر انہوں نے مڑ کر دیکھا تھا مگر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ خادم نے جب عقب سے اسے ٹہوکا دیا تو وہ آگے بڑھا۔ تین، چار کرسیاں ابھی خالی تھیں۔ اس نے خوابیدہ انداز میں ایک کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گیا۔
شوکت نے محسوس کیا کہ وہ سب اس بھاری پردے کو تک رہے ہیں جس کے پیچھے سے کسی موسیقار کو آنا تھا۔ پھر پردہ ہلا اور اعجاز اندر آگیا۔ شوکت کو یقین تھا کہ اس کے چہرے پر بھی نقاب ہوگا مگر اس وقت اسے حیرت ہوئی جب اس نے اعجاز کو عام حالت میں دیکھا۔ اعجاز کے نقوش تیکھے اور آنکھیں چمکدار تھیں۔ مونچھیں گہری سیاہ تھیں اور بھورے بالوں سے مناسبت نہیں رکھتی تھیں جو پیچھے کھینچے ہوئے تھے حالانکہ اس کا قد ساڑھے پانچ فٹ کے لگ بھگ تھا مگر وہ سامعین کے سامنے یوں جھک کر چل رہا تھا جیسے اس کا قد سات فٹ کے قریب ہو۔
’’دوستو!‘‘ اس نے گونج دار آواز میں کہا۔ ’’آپ کی تشریف آوری کا شکریہ! میں نے آج مشہور موسیقاروں کی دھنوں سے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے، امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔‘‘ اس نے پیانو کے سامنے نشست جمائی اور جب ’’کی بورڈ‘‘ پر انگلیاں رکھیں تو شوکت اس کے سحر میں کھو گیا۔ اعجاز کی انگلیاں برق رفتاری سے حرکت کررہی تھیں اور پیانو سے ایک خوبصورت نغمہ بلند ہورہا تھا۔ وہ کسی بڑے موسیقار کے نغمے کی ایک مشہور دھن تھی۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا نغمہ شروع ہوا تو سامعین نے پہلو بدلنا شروع کردیئے۔ شوکت نے محسوس کیا کہ اعجاز کے دوست موسیقی کے اس پروگرام میں قطعاً دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اعجاز اپنا پانچواں پروگرام پیش کرنے جارہا تھا کہ ان میں سے کسی نے آواز لگائی۔ ’’اعجاز!‘‘
اعجاز ٹھٹھک گیا۔ اس کی انگلیاں ’’کی بورڈ‘‘ پر ساکت ہوگئیں۔ اس نے مستفسرانہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔
’’اعجاز! اب اسے بند کرو۔‘‘ وہ شخص بولا۔
ایک اور شخص نے اس کی تائید کی اور اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر کہا۔ ’’خدا کے لیے اسے ختم کرو۔‘‘
اعجاز کے ہونٹ کانپے اور اس کا چہرہ تاریک ہوگیا۔ شوکت کا خیال تھا کہ وہ اب رو دے گا مگر اعجاز نے سر اٹھایا تو اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ چمک رہی تھی۔ اس نے حیرت انگیز طور پر اپنے اوپر قابو پا لیا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’یہ آخری آئٹم ہے۔ میں کچھ اور دھنیں پیش کرنا چاہتا ہوں، اجازت ہے؟‘‘
معترض اپنی جگہ دوبارہ بیٹھ گیا۔ ہال کے دروازے پر خادم اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔ پتا نہیں وہ ضرورتاً وہاں کھڑا تھا یا اسے بھی موسیقی سے شغف تھا۔ اعجاز نے دوسرے موسیقار کی دھنیں بجائیں اور پھر پیانو سے ہٹ گیا۔ حسب سابقہ وہ حاضرین کے سامنے جھکا اور پھر بولا۔ ’’میں آپ کی تشریف آوری کا ایک بار پھر احسان مند ہوں۔ امید ہے کہ آپ اس موسیقی کے پروگرام سے محظوظ ہوئے ہوں گے۔ مجھے اب آپ کے عطیات وصول کرتے ہوئے خوشی ہوگی۔ نوید؟‘‘ اس نے خادم کو آواز دی پھر پردوں کے عقب میں غائب ہوگیا۔ دروازے پر کھڑا ہوا خادم ہال میں آگیا اور سب سے پہلی کرسی کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ بھاری تن و توش والے ایک شخص نے اپنی جیب سے لفافہ نکالا اور خادم کے ہاتھ میں دے دیا پھر وہ بغیر کچھ کہے دروازے سے نکل گیا۔ خادم نوید دوسرے شخص کی طرف بڑھا تو اس نے بھی ایک لفافہ نکالا اور خادم کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر بغیر کچھ کہے دروازے سے نکل گیا۔ نوید دوسرے شخص کی طرف گیا تو اس نے بھی ایک لفافہ نکال کر اسے تھما دیا۔ دفعتاً شوکت پر انکشاف ہوا کہ وہاں موجود ہر شخص لفافہ لے کر آیا ہے۔ بلاشبہ اس میں کچھ رقم ہوگی جسے بطور عطیہ پیش کیا جارہا ہے۔ شوکت کا نمبر سب سے آخر میں آیا۔ جب نوید اس کے قریب پہنچا تو ہال سے باقی چھ آدمی جا چکے تھے۔ نوید نے اس کے آگے ہاتھ پھیلا کر بھاری آواز میں کہا۔ ’’جناب! عطیہ دیجیے۔‘‘
’’ہوں… عموماً یہاں کتنا دینا پڑتا ہے؟‘‘ شوکت نے سوال کیا۔
’’میں سمجھا نہیں جناب!‘‘ نوید بولا۔
’’میں آج پہلی بار آیا ہوں۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ عطیہ بھی…!‘‘
نوید غرایا۔ ’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’یہی کہ آج میرا پہلا اتفاق ہے۔‘‘
’’تم مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے؟‘‘ نوید کا لہجہ بدل گیا۔
شوکت نے مسکرانے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’نہیں! میں مذاق نہیں کررہا۔‘‘
’’اچھا! اس نقاب کو اتارو۔‘‘ وہ بولا۔
شوکت نے سیاہ نقاب اتار کر اس کے حوالے کردیا۔
’’اعجاز!‘‘ نوید چیخا۔ جب تھوڑی دیر تک کوئی ردعمل نہ ہوا تو اس نے موسیقار کو دوبارہ پکارا۔
موسیقار پردوں کے پیچھے سے نکلا اور قریب آکر بولا۔ ’’کیا بات ہے نوید؟ کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے؟‘‘
’’ساری گڑبڑ یہ شخص ہے۔‘‘ وہ شوکت کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔
’’میں نے تو اس شخص کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ اعجاز بولا۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘
’’بات دراصل یہ ہے کہ…‘‘ شوکت نے اپنا گلا صاف کرکے کہا۔ ’’میں آج یہاں مدعو نہیں تھا بلکہ کسی دوسرے شخص کے کارڈ…!‘‘
’’بکواس بند کرو۔‘‘ نوید دھاڑا۔ ’’میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔‘‘
’’تم نے اسے اندر کیوں آنے دیا؟‘‘ اعجاز نے نوید سے پوچھا۔
’’اس شخص کے پاس دعوت نامہ تھا۔‘‘ نوید نے جواب دیا۔
’’یہ ایک ذاتی نوعیت کی تقریب تھی۔‘‘ اعجاز نے شوکت سے کہا۔ ’’تمہیں اندر آنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ میں تمہیں پولیس کے حوالے بھی کرسکتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ شوکت نے کہا۔ ’’تم پولیس کو بلا لو تاکہ میں اس کے سامنے وضاحت کرسکوں۔‘‘
’’دعوت نامہ تم نے کیسے حاصل کیا اور تمہیں کس نے یہاں بھیجا ہے؟‘‘ اعجاز نے سوال کیا۔
شوکت نے کوئی جواب نہ دیا تو نوید نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کا بٹوا نکال لیا۔ اس میں موجود کارڈ پر ’’ایم۔ اے احسان‘‘ لکھا تھا۔
شوکت نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ ’’میں ایک سیلزمین ہوں۔‘‘
’’تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟‘‘ اعجاز نے اپنا سوال دہرایا۔
’’وہ دعوت نامہ مجھے سڑک پر پڑا ملا تھا۔‘‘ شوکت بولا۔ ان دونوں کے سوال و جواب اور نوید کی غیر دوستانہ گرفت سے اب وہ پریشان ہوگیا تھا۔ وہ چاروں جانب نگاہ دوڑا کر منصوبہ بنانے لگا کہ نوید کی گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کرانے کے بعد اسے کس طرف سے فرار ہونا ہے لیکن اس کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی کیونکہ نوید نے غرا کر کہا۔ ’’تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘ اور اس کے جبڑے پر مکا مارا۔ شوکت نے بھاگنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ نوید کا دوسرا مکا اس کی کنپٹی پر پڑا اور اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔ شوکت نے مدافعت کے لیے ہاتھ، پیر مارے مگر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔
٭…٭…٭
فاریحہ نے اس روز اپنی سہیلی اریبہ اور اس کے باپ شاہ نواز کو شام کی چائے پر بلایا۔ ایسا جمشید کے ایماء پر کیا گیا تھا۔ وہ خود بھی وہاں موجود تھا۔ اچانک اریبہ کو دورہ پڑ گیا۔ اس کی آنکھیں چڑھ گئیں اور ہاتھ، پائوں ڈھیلے پڑ گئے۔ جمشید نے اٹھ کر اسے سہارا نہ دیا ہوتا تو یقیناً وہ فرش پر گر پڑتی۔ چائے کی دعوت جہاں کی تہاں رہ گئی۔ شاہ نواز نے کہا کہ انہیں گھر چھوڑ
آئے۔ جمشید نے گاڑی نکالی اور شاہ نواز نے اپنی بیٹی کو سہارا دے کر اس پر سوار کرایا۔ انہیں ان کے گھر چھوڑ کر جمشید واپس آنا چاہتا تھا کہ شاہ نواز نے اسے روک لیا اور مطالعہ گاہ میں چائے پینے کی دعوت دی۔
جمشید نے مطالعہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’جناب شاہ نواز صاحب! آپ تو ڈاکٹر ہیں۔ یہ درست ہے کہ آپ نے اب اپنی پریکٹس چھوڑ دی ہے مگر یہ بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ آپ کی بیٹی اریبہ کو کیا بیماری ہے؟ اسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں؟‘‘ جمشید نے اپنی اسسٹنٹ فاریحہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق شاہ نواز سے یہ سوال پوچھا تھا۔
’’اریبہ کو کوئی بیماری نہیں ہے۔‘‘ شاہ نواز بولا۔ جمشید کے ذہن میں پلز کی وہ شیشی ناچنے لگی جو وہ اریبہ کو بارہا استعمال کرتے دیکھ چکا تھا۔ تاہم اس کا حوالہ دے کر اس نے بات آگے نہیں بڑھائی۔
’’اس کے ذہن پر زبردست دبائو ہے۔‘‘ شاہ نواز بولا۔
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ جمشید نے کہا۔ ’’اس کا شوہر پراسرار طریقے سے مر گیا اور پھر سعد سلمان کا قصہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ان دونوں چیزوں نے یقیناً اس کے ذہن پر…‘‘
شاہ نواز نے بھنویں سکیڑیں اور چائے کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔ ’’اریبہ کے ذہنی دبائو کی وجہ زبیر کی موت نہیں ہے۔ تم غلط انداز میں سوچ رہے ہو۔‘‘
’’پھر؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔
’’اس کی ذہنی بیماری کی اصل وجہ میں ہوں۔‘‘ شاہ نواز نے آہستہ سے کہا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ جمشید حیرت سے بولا۔
’’غلطیوں پر غلطیاں ہوئی ہیں مجھ سے، کچھ میرے والدین سے۔ ان کا اثر کسی نہ کسی نسل کو تو بھگتنا ہی تھا سو اب بے چاری اریبہ اسے بھگت رہی ہے۔‘‘
’’آپ اور آپ کے والدین سے کیا غلطیاں ہوئی تھیں؟‘‘ جمشید نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’اریبہ کی پیدائش کے بعد، میں نے اس کی ماں کو چھوڑ دیا تھا۔‘‘ وہ بتانے لگا۔ ’’اس سے محض اس بنا پر کنارہ کشی کرلی تھی کہ میں کسی اور عورت کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔ اریبہ کی ماں کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ جانبر نہ ہوسکی۔ میں نے اس وقت اس کی موت کا کوئی اثر نہ لیا اور اریبہ کی پرورش اپنے ذمے لے لی۔ لیکن جب میں ایک اچھا شوہر نہ بن سکا تھا تو ایک اچھا باپ کیسے بن سکتا تھا؟ مجھ سے اس سلسلے میں کوتاہیاں ہوئیں۔ اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے میں اسے بہتر معاشی تحفظ نہیں دے سکا۔ تاہم یقین کرو اپنی اس نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے میں نے اس کی شادی زبیر خان سے کر دی۔‘‘
’’اس شادی کے بعد تو میرا خیال ہے معاشی ناہمواریاں دور ہوگئی ہوں گی؟‘‘ جمشید نے درمیان میں اپنا اظہار خیال کرنا ضروری سمجھا۔ آگے بولا۔ ’’کیونکہ آپ کا یہ قدم صائب تھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ شاہ نواز نے تلخ لہجے میں کہا۔ ’’یہ میری ایک اور بڑی غلطی تھی۔ معاشی ناہمواری تو دور ہوگئی مگر یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی۔ تم نے بھی زبیر اور اریبہ کی ازدواجی زندگی کے افسانے سن رکھے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اس شادی کی بنیاد ہی لالچ پر رکھی گئی تھی، یہ کیسے کامیاب ہوتی؟‘‘
جمشید کچھ نہ بولا۔ باپ، بیٹی کی اس کہانی میں جدید عہد کا المیہ پوری آب و تاب سے جھلک رہا تھا۔ بے اصولی اور بے ضابطگی نے جس نئے معاشرے کو جنم دیا تھا، اس میں ہر فرد اپنے کنبے سے جدا ہورہا تھا۔ ساری اکائیاں منتشر ہورہی تھیں۔ بے اعتدالیوں نے معاشی ناہمواریوں کو بھی جنم دیا تھا۔
اچانک جمشید کے سیل فون کی بیل بجی۔
’’ایک منٹ۔‘‘ اس نے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر شاہ نواز سے کہا۔
’’کیا ہوا؟ آپ کو دیر ہوگئی؟‘‘ دوسری طرف سے اس کی اسسٹنٹ فاریحہ کی آواز ابھری۔
’’ہاں! میں ذرا شاہ نواز صاحب سے باتیں کررہا تھا، ابھی نکلتا ہوں۔ کیوں خیریت؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’سول اسپتال سے فون آیا تھا۔‘‘
’’اسپتال سے؟ کیوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’انہوں نے وضاحت سے تو کچھ نہیں بتایا مگر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ شوکت کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔‘‘
’’شوکت کو حادثہ؟‘‘ جمشید نے سراسیمگی سے دہرایا۔ ’’اچھا! میں اسپتال پہنچتا ہوں۔‘‘
جمشید نے شاہ نواز سے معذرت چاہی اور وہاں سے نکل آیا۔ یوں شاہ نواز کی کہانی ادھوری رہ گئی۔
٭…٭…٭
شوکت کا چہرہ بگڑ چکا تھا۔ جمشید نے اسے پٹیوں سے ڈھکا دیکھ کر استفسار کیا تو شوکت نے اپنی کہانی سنائی۔ اس نے کہا۔ ’’اگر تم اجازت دو تو میں اس نوید کے بچے کو مزا چکھائوں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’اس طرح وہ لوگ ہوشیار ہوجائیں گے۔ مجھے اس واقعے میں کسی بڑے جرم کی بو آرہی ہے۔‘‘
’’جرم… کیسا جرم؟‘‘ شوکت نے سوال کیا۔
’’بلیک میلنگ!‘‘ جمشید نے جواب دیا۔ ’’تم نے اس واقعے سے کوئی نتیجہ نہیں نکالا؟ آخر اتنے معزز آدمیوں کو منہ چھپا کر عطیات دینے کی کیا ضرورت تھی؟ تم نے بتایا کہ وہ سب وہاں بے چینی محسوس کررہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب وہاں بحالت مجبوری بیٹھے تھے۔ اعجاز خان سے کوئی خوش نہیں تھا۔ عطیات لینے کے یہی ڈھونگ ہوتے ہیں۔ کوئی کنسرٹ کرتے ہیں، کوئی میوزیکل پروگرام اور اسی طرح کے سلیبرٹیز ایونٹ کہ ان کی آمدنی چیرٹی اداروں کو جائے گی۔ خیر! اپنی اپنی نیت اور ایمان کی بات ہے۔ ہم کیوں کسی کی نیت پر شبہ کریں۔‘‘
’’مگر بلیک میلنگ کے لیے اتنا بڑا کھٹ راگ پھیلانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ شوکت نے پوچھا۔
’’تاکہ ان کے کسی خفیہ کاروبار پر پردہ ڈالا جاسکے۔ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ لوگ موسیقی کے پروگرام میں شریک ہوئے۔ پھر انہوں نے عطیات دیے اور چلے گئے۔ اس میں قانونی گرفت کہاں ہوئی؟‘‘
’’مگر لوگوں کو نقاب لگانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ شوکت نے پوچھا۔
’’اگر تمہیں کوئی شخص بلیک میل کررہا ہو تو کیا تم چاہو گے کہ کوئی اس سے واقف ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ شوکت نے جواب دیا۔
’’بس! اسی لیے اعجاز خان نے یہ طریقہ نکالا تاکہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’مگر تم یہ باتیں کسی اور کو نہ بتانا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ… زبیر کو کسی وجہ سے بلیک میل کیا جارہا تھا۔‘‘
’’اوہ!‘‘ شوکت بولا۔ ’’مگر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اسے کس وجہ سے بلیک میل کیا جارہا تھا تو اس کی خودکشی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
جمشید، انسپکٹر اکرم کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تو جمشید نے پوچھا۔ ’’تم نے اعجاز خان کو پولیس ریکارڈ میں تلاش کیا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اکرم نے جواب دیا۔ ’’اور تمہیں یہ سن کر مایوسی ہوگی کہ وہ مجرم نہیں ہے۔ ریکارڈ کی رو سے وہ نہایت معصوم ثابت ہوتا ہے۔‘‘ اس نے توقف سے دوبارہ کہا۔ ’’کم ازکم وہ ایسا شخص ہرگز نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کسی سے ہاتھا پائی کرے۔‘‘
جمشید نے اس شخص اعجاز کا ریکارڈ دیکھا تو ایک بات سامنے آئی کہ وہ ایک دماغی اسپتال میں چار سال تک زیرعلاج رہا ہے۔ اس نے اکرم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرے لیے یہ بات سب سے زیادہ کارآمد ہے۔‘‘
٭…٭…٭
اسی سہ پہر شوکت کو بھی تھوڑی دیر کے لیے پولیس ہیڈ کوارٹر کے ریکارڈ روم میں لے جایا گیا۔ جہاں اکرم اور جمشید پہلے سے موجود تھے۔ شوکت کو نامی گرامی بدمعاشوں کی تصاویر کا البم دکھایا گیا۔
انسپکٹر اکرم تھوڑی دیر تک وہاں بیٹھا رہا پھر اکتا کر چلا گیا۔ اس نے اپنے ایک نائب آصف کو وہاں مقرر کردیا تھا کہ جوں ہی شوکت، اعجاز یا نوید کو شناخت کرلے، وہ تصویر لے کر اس کے پاس آجائے۔
شوکت نے ایک ایک کرکے تمام البم پلٹ ڈالے مگر اس کا مطلوبہ شخص کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اس نے آصف سے معذرت کرتے ہوئے کہا۔ ’’معاف کرنا، اس ریکارڈ میں تو ان کی تصاویر کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ عادی مجرم نہ ہو۔‘‘
’’ممکن ہے۔‘‘ آصف نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ شوکت اور جمشید نے آصف سے مصافحہ کیا اور ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے باہر آگئے۔
جب وہ دونوں کار میں بیٹھ رہے تھے تو شوکت بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میں نے یہ بات چھپا کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘
’’کون سی بات…؟‘‘ جمشید نے بری طرح چونک کر اپنے اسسٹنٹ کی طرف دیکھ کر کہا۔
شوکت کے چہرے پر ایک گہری اور اسرار بھری مسکراہٹ رقصاں تھی؟(جاری ہے)