Sunday, April 27, 2025

Naqaab | last Episode 3

جمشید نے قدرے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ پھر پوچھا۔ ’’کون سی بات…؟‘‘ ’’یہی کہ نوید کی تصویر پولیس ریکارڈ میں موجود نہیں۔‘‘ شوکت بولا۔ ’’اعجاز اس شخص کو نوید کہہ کر پکار رہا تھا مگر اصل میں اس کا نام دلشاد ہے۔‘‘ ’’تمہیں یہ حرکت نہیں کرنا چاہیے تھی۔‘‘ جمشید نے منہ بگاڑ کر کہا۔ ’’جب پولیس نے ہمیں اتنی سہولتیں فراہم کی ہیں تو ہمیں بھی چاہیے تھا کہ پولیس کی رہنمائی کریں۔ بہرحال اب تو اس کا موقع نہیں رہا۔‘‘ ’’تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ وہ ایک عرصے سے پولیس کو مطلوب ہے۔ وہ منشیات کا کاروبار کرتا ہے۔‘‘ ’’منشیات!‘‘ جمشید جیسے سانس لینا بھول گیا۔ اس نے سرگوشی میں کہا۔ ’’پھر تو یہ معاملہ خاصا سنگین ہے۔‘‘ ’’تو پھر؟‘‘ ’’کسی طرح اعجاز کو قابو میں کرلیا جائے تو اس راز سے پردہ اٹھ سکتا ہے کہ وہ زبیر کو کیوں بلیک میل کررہے تھے۔‘‘ اس نے چند لمحے توقف کے بعد دوبارہ کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ نوید یا دلشاد منشیات کا کاروبار کرتا ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کو جو اس عادت بد میں مبتلا ہوچکے ہیں، انہیں اعجاز کے سپرد کردیتا ہے تاکہ وہ انہیں بلیک میل کرسکے۔‘‘ ’’مگر اب ہم اس معاملے کی تہ تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟‘‘ شوکت بولا۔ ’’کم از کم میں تو اس سلسلے میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔‘‘ ’’میں اور فاریحہ اس معاملے کو دیکھیں گے۔‘‘ جمشید پُر سوچ انداز میں بولا۔ ’’تمہارا اب اس طرف جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔‘‘ ٭…٭…٭ فاریحہ اس مہنگے ہوٹل میں داخل ہونے سے پہلے کچھ نروس سی تھی لیکن جب اس نے یہاں اور لڑکیوں کو دیکھا تو اس کے دل کو قدرے ڈھارس ہوئی کہ وہ وہاں اکیلی نہیں تھی۔ جمشید نے اپنے ایک پولیس والے دوست سے پوچھ کر وہاں بھیجا تھا کہ نوید کا کھوج لگائے اور اس سے ملاقات کی کوشش کرے۔ جمشید کی تحقیق کے مطابق نوید وہاں تقریباً روزانہ آتا تھا اور ڈھکے چھپے انداز میں منشیات کا کاروبار کرتا تھا۔ کیونکہ ہوٹل میں اس سے ہر قسم کے مرد اور عورتیں ملاقات کرتی تھیں۔ وقت گزارنے کے لیے وہ سوپ سے شغل کررہی تھی اور پرسکون تھی مگر جب صدر دروازے سے نوید اندر آیا تو اس کی ٹوٹی ہوئی ناک اور مضروب چہرے کو دیکھ کر فاریحہ کو جُھرجھری سی آگئی تھی۔ نوید کے چہرے پر زخموں کے لاتعداد نشانات تھے جو یقیناً اسے مختلف ’معرکہ آرائیوں‘ میں حاصل ہوئے تھے۔ نوید نے کائونٹر کے ساتھ پڑا ہوا اسٹول کھینچا اور ویٹر کو کافی کا آرڈر دیا۔ پھر اس نے چاروں طرف طائرانہ نظر ڈالی۔ دفعتاً اس کی نظر ایک میز پر بیٹھی ہوئی فاریحہ پر پڑی۔ اس کی نظریں فاریحہ سے چار ہوئیں تو فاریحہ پر بھی اس کا ردعمل ظاہر ہوا۔ اس کے چہرے پر حیرت کی پرچھائیں دکھائی دی۔ یوں فاریحہ نے بھی جواباً اس کی طرف بے خوفی سے گھورنا شروع کردیا اور اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ تھوڑی دیر بعد فاریحہ اپنی جگہ سے اٹھی اور کائونٹر کی طرف بڑھی۔ ’’اگر کوئی حرج نہ ہو تو میں یہاں بیٹھ جائوں؟‘‘ نوید نے اپنے شانے اچکا کر بے پروائی کا اظہار کیا جیسے اسے فاریحہ کے بیٹھنے یا نہ بیٹھنے سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ فاریحہ اسٹول کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا پرس کائونٹر پر رکھ دیا تھا اور اس سے مخاطب ہوکر بولی۔ ’’میری ایک سہیلی مصیبت میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم اس کی مدد کرسکتے ہو۔‘‘ ’’اوکے! بتائو۔ تمہاری دوست کو کس قسم کی مدد درکار ہے؟‘‘ ’’اس کو طبی امداد چاہیے۔ وہ بیمار ہے۔ صرف تم ہی اسے مخصوص قسم کی ’’دوائیں‘‘ فراہم کرسکتے ہو۔ وہ کسی ایسے آدمی سے واقف نہیں ہے اس لیے میں نے سوچا کہ تم سے…!‘‘ نوید نے اپنی جیب سے بیش قیمت موبائل نکالا اور اسے یونہی دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ یہ جگہ ایسی باتیں کرنے کے لیے درست نہیں ہے۔ میرا ہوٹل میں ایک کمرہ ہے، اگر تم مناسب سمجھو تو وہاں چل کر بات کرلیتے ہیں۔‘‘ فاریحہ تھوڑا ہچکچائی۔ چند لمحوں بعد اس نے ہامی بھر لی۔ وہ دونوں کمرے میں آگئے۔ ’’تمہیں مال چاہیے؟‘‘ نوید نے پوچھا۔ ’’کیا؟‘‘ فاریحہ نے آنکھیں پھاڑیں۔ ’’مجھ سے گھما پھرا کر گفتگو مت کرو۔ اپنی دوست کا تذکرہ کرنے کی بجائے تم یہ کیوں نہیں کہتیں کہ تمہیں خود ’’مال‘‘ کی ضرورت ہے؟‘‘ فاریحہ نے شکست خوردہ انداز میں اپنی آنکھیں بند کرلیں اور پھیکے انداز میں مسکرا کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’چلو یوں ہی سہی!‘‘ دفعتاً اس کی نظر فاریحہ کے پرس پر پڑی۔ اس نے جھپٹا مار کر پرس اٹھا لیا اور کھول کر جائزہ لینے لگا۔ اس میں موجود رقم کو اس نے گنا اور لپ اِسٹک اور کنگھے کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر فاریحہ سے بولا۔ ’’اب تم واپس جاسکتی ہو۔‘‘ ’’کیا؟‘‘ وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’یہاں سے چلتی پھرتی نظر آئو۔‘‘ نوید بولا۔ ’’سمجھ لو کہ تم نے کسی غلط آدمی کا انتخاب کیا ہے۔ میں اس قسم کے معاملوں سے کوسوں دور رہتا ہوں۔‘‘ ’’تم شاید کسی غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہو۔‘‘ فاریحہ بولی۔ ’’میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے۔‘‘ ’’خاتون! تم سے ایک فاش غلطی ہوئی ہے۔ بہتر ہوگا کہ جہاں سے آئی ہو، وہیں لوٹ جائو۔‘‘ ’’مگر تمہیں میری مدد کرنا پڑے گی۔ میں تمہیں منہ مانگی رقم دوں گی۔‘‘ نوید نے اس کی بات پر قطعاً کان نہیں دھرے۔ وہ یکدم کھڑا ہوگیا۔ جب وہ کمرے سے نکل گیا تو فاریحہ دیر تک وہاں بیٹھی سوچتی رہی کہ اس سے آخر کیا غلطی ہوئی ہے؟ ٭…٭…٭ ’’تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔‘‘ جمشید نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ’’اس نے یہ بات محض اس لیے کہی تھی کہ اگر تم واقعی پولیس انفارمر ہو تو گڑبڑا کر حقیقت بتا دو۔‘‘ ’’تو پھر اسے میری صداقت پر یقین کیوں نہیں آیا؟‘‘ فاریحہ نے پوچھا۔ ’’اسے تمہاری صداقت پر یقین آگیا ہے مگر اس نے پولیس کے ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے ایک لمبا راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ جمشید نے اس کے پرس سے بٹوہ نکال کر اس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہے۔ اگر اسے تم سے رابطہ قائم کرنا ہوگا، وہ اس پتے پر ایک خط کے ذریعے رابطہ کرلے گا۔‘‘ پھر انہیں نوید کے پیغام کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دوسرے روز دوپہر میں اس کا فون آیا۔ ’’مس فاریحہ! میرا نام نوید ہے۔‘‘ ’’اوہ… اچھا!‘‘ فاریحہ کی آواز سے مسرت جھلک رہی تھی۔ ’’میں آپ کی سہیلی کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ نوید بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہم اس موضوع پر کہیں بیٹھ کر گفتگو کریں۔‘‘ ’’کیا میں ہوٹل آجائوں؟‘‘ فاریحہ نے سوال کیا۔ ’’نہیں۔‘‘ نوید بولا۔ ’’وہ جگہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کے گھر پر آجائوں؟‘‘ ’’نہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ فاریحہ بولی۔ ’’کیوں؟ آپ کے شوہر کو آپ کی سہیلی کی بیماری کا علم نہیں ہے؟‘‘ ’’میری شادی نہیں ہوئی لیکن میرے گھر والے…!‘‘ ’’سمجھ گیا۔‘‘ وہ ایک دم بولا۔ پھر اس نے ایک جگہ کا نام، پتا بتایا اور وقت کا تعین کیا اور سلسلہ منقطع کردیا۔ شوکت کو جب پتا چلا تو وہ بولا۔ ’’اب تم وہاں نہیں جائو گی۔ وہاں خطرہ ہے۔‘‘ فاریحہ کُسمسا کر رہ گئی۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اپنی سہیلی اریبہ کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر شوکت جو اسے پسند کرتا تھا اور وہ بھی اسے چاہنے لگی تھی، اس نے اس پر پابندی عائد کردی تھی۔ شام کو جمشید آیا تو اس کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا۔ اس نے کچھ سوچ کر گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’شوکت صحیح کہہ رہا ہے۔ وہاں خطرہ ہے۔ تم ہوٹل فون کرکے انکار کردو۔ مجھے امید ہے کہ وہ وہاں مل جائے گا۔‘‘ فاریحہ نے ہوٹل فون کیا تو نوید مل گیا۔ فاریحہ نے اس سے معذرت طلب کی تو وہ بولا۔ ’’یہ تو بہت غلط فیصلہ کیا آپ نے! میرا مطلب ہے کہ آپ کے گھر والوں پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ جب لوگوں تک آپ کی بیماری کی خبریں پہنچیں گی تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘‘ ’’میں سمجھی نہیں؟‘‘ فاریحہ نے کہا۔ ’’میرا مطلب ہے آپ منشیات کی عادی ہیں نا؟‘‘ ’’تم ایسا نہیں کرسکتے۔‘‘ فاریحہ نے کہا۔ ’’کیوں نہیں کرسکتا۔‘‘ نوید بولا۔ ’’قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ اگر آپ کا تعلق ارفع طبقے سے ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ غیر قانونی کام کرکے بچ جائیں۔ قانون آپ پر بھی گرفت کرسکتا ہے۔‘‘ ’’مگر میرے جرم سے تمہارا جرم بڑا ہے۔ تم منشیات کا کاروبار کرتے ہو۔‘‘ ’’کون! میں؟‘‘ نوید نے چونک کر معصومیت سے کہا۔ ’’آپ مجھ پر یہ الزام کیسے عائد کرسکتی ہیں؟ میں نے آپ کے ہاتھ ایسی کوئی غیر قانونی چیز فروخت نہیں کی۔ اب آپ پولیس سے اپنا دامن بچانا چاہتی ہیں تو آپ کو کچھ عطیات دینا ہوں گے۔‘‘ ’’گویا تم مجھے بلیک میل کرو گے؟‘‘ فاریحہ نے سوال کیا۔ ’’اس کے لیے اتنا خراب لفظ استعمال مت کیجیے۔‘‘ نوید بولا۔ ’’آپ خیرات اور ثقافت کے نام پر عطیہ دیجیے۔ اس سے ثقافت اور کلچر ترقی پائیں گے۔ میں آپ کے گھر والوں کو بھی دعوت نامہ ارسال کروں گا۔ وہ موسیقی تو پسند کرتے ہیں نا؟‘‘ ٭…٭…٭ کارڈ اسی قسم کا تھا جیسا زبیر کی اسٹڈی روم سے ملا تھا۔ اسی کے ذریعے شوکت نے محفل موسیقی میں شرکت کی تھی۔ مگر اس بار دعوت نامے پر چند سطریں بھی تحریر تھیں۔ شوکت نے فاریحہ کا دیا ہوا کارڈ دیکھ کر کہا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ مچھلی نے کانٹے پر منہ مار دیا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ ’’تم اب وہاں نہیں جاسکتے کیونکہ نوید تمہیں فوراً پہچان لے گا۔‘‘ فاریحہ بولی۔ ’’تم ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’میں اب شوکت کی حیثیت سے وہاں جائوں گا۔‘‘ ٭…٭…٭ جمشید نے اپنی جیب میں پڑے ہوئے پستول کو تھپتھپا کر اطمینان کیا اور پھر اطلاعی گھنٹی بجا دی۔ نوید نے دروازہ کھولا اور اسے سرتاپا تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔ قوی امکان تھا کہ نوید اسے پہچان لے گا مگر جب اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر پوچھا۔ ’’آپ شاید مس فاریحہ کے گھر سے…؟‘‘ ’’یہی سمجھ لیں۔ وہ میری کزن اور بچپن کی دوست ہیں۔‘‘ جمشید نے کہا۔ ’’ویسے میرا نام جمال ہے۔‘‘ ’’اندر تشریف لے آئیں مسٹر جمال! مسٹر اعجاز خان آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ ایک چھوٹے سے ہال سے گزر کر وہ بائیں جانب ایک کمرے میں پہنچے۔ وہاں مدھم روشنی ہورہی تھی اور ایک شخص بیٹھا تھا۔ جمشید کو دیکھتے ہی وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ ’’مسٹر جمال؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے اعجاز کہتے ہیں۔ اگر آپ موسیقی سے لگائو رکھتے ہیں تو اس بات سے واقف ہوں گے کہ پیانو بجاتے وقت توجہ اور ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ’’مجھے موسیقی سے لگائو نہیں۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’آہ… یہ میری بدقسمتی ہے۔ میرے تمام دوست اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر موسیقی سے کسی کو دلچسپی نہیں۔‘‘ اعجاز بولا۔ ’’تاہم میں مہینے میں ان کے لیے ایک بار تقریب ضرور منعقد کراتا ہوں اور اگر کوئی نیا ممبر شامل ہوتا ہے تو۔ ویسے نوید نے آپ اور آپ کی فرینڈ کے متعلق تفصیل سے بتا دیا ہے۔ آپ ہمارے ممبر بن سکتے ہیں۔‘‘ ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ جمشید بولا۔ ’’میں کسی نوید کو نہیں جانتا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ کوئی شخص اسے پریشان کررہا ہے۔ اسی لیے میں یہاں آگیا کہ…‘‘ ’’جی ہاں! میں سمجھ گیا۔ نوید کا انداز بعض اوقات بہت تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ وہ لوگوں سے تمیز سے گفتگو کیا کرے۔ بہرحال اگر آپ اس تنظیم کی سرپرستی فرمائیں گے اور ہمیں باقاعدگی سے عطیات دیتے…!‘‘ ’’عطیات؟ میرا خیال ہے کہ تمہیں بلیک میلنگ کی رقم چاہیے؟‘‘ جمشید بول پڑا۔ ’’پلیز مسٹر جمال!‘‘ وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ’’میری تنظیم سراسر قانونی ہے۔ کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں… تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر آپ کی مالی حالت بہتر ہے… تو آپ کو ہر ماہ صرف پچاس ہزار کا عطیہ…!‘‘ ’’پچاس ہزار…؟‘‘ جمشید نے اس کا جملہ قطع کیا۔ ’’کہیں تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟‘‘ ’’کیش دینے میں کوئی حرج ہو تو آپ چیک کے ذریعے ادا کریں۔ کیونکہ یہ کام بالکل قانونی…!‘‘ ’’اور اگر میں یہ قانونی کھیل کھیلنا نہ چاہوں تو؟‘‘ جمشید بولا۔ ’’مثال کے طور پر اگر میں اس تنظیم کا دشمن بن جائوں تو؟‘‘ ’’مسٹر جمال! آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس انداز سے گفتگو مت کریں۔‘‘ ’’مگر میں اس قسم کی گفتگو کروں گا۔ میں تمہیں عطیات کیوں دوں جبکہ مجھے موسیقی سے رتی برابر بھی لگائو نہیں ہے۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’نوید نے آپ کو کچھ نہیں بتایا؟‘‘ ’’بتایا تھا۔‘‘ جمشید نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔ ’’اس نے دھمکی دی تھی کہ وہ میری فرینڈ کو منشیات کا عادی مشہور کرکے پولیس کو اطلاع دے دے گا۔ اخباری نمائندوں کو ہمارے پیچھے لگا دے گا اور شہر بھر میں ہمارا نام اچھال دے گا۔‘‘ اعجاز کے چہرے پر ایسے آثار دکھائی دیے جیسے اسے یہ تذکرہ سن کر روحانی کوفت ہورہی ہو۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ جمشید غرایا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے جیسے زبیر کے لیے…!‘‘ اعجاز بولا۔ ’’کون؟‘‘ ’’تم اس طرح انجان بن کر پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’میرا اشارہ اس شخص کی طرف ہے جو قتل ہوچکا ہے۔‘‘ ’’یہ درست نہیں ہے۔‘‘ ’’میں زبیر سے واقف ہوں۔ وہ تمہاری تنظیم کا رکن تھا۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’تمہارا ایک دعوت نامہ میں نے اس کے گھر میں دیکھا تھا۔‘‘ ’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘ اعجاز چلایا۔ ’’اگر یہ بات مجھے معلوم ہوگئی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ ’’ہم اس کا مکمل خیال رکھتے ہیں کہ ایک ممبر کو دوسرے ممبر کے بارے میں علم نہ ہونے پائے… نوید!‘‘ اعجاز نے آواز دی۔ نوید تھوڑی دیر بعد نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ نقاب تھا۔ اس نے جمشید کی طرف اسے بڑھایا اور بولا۔ ’’یہ آپ کا ہے۔ جب بھی یہاں تشریف لائیں، اسے ساتھ رکھیں۔ فی الحال اسے پہن لیجیے اور ہال میں چلے جایئے۔ میں تھوڑی دیر بعد موسیقی کا پروگرام شروع کرنے والا ہوں۔‘‘ ’’تم نے ابھی تک میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔‘‘ جمشید نے کہا۔ ’’باتوں میں زیادہ وقت ضائع مت کیجیے مسٹر جمال!‘‘ نوید اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا اور اسے ہال میں لے جاکر بٹھادیا۔ جہاں پیانو رکھا تھا۔ اس ہال میں تین آدمی نقاب لگائے بیٹھے تھے۔ بیس منٹ کے اندر اندر چار آدمی مزید آگئے۔ پھر بھاری پردوں کے عقب سے اعجاز خان نکل کر سب کے سامنے مؤدبانہ جھکا اور چند جملے کہہ کر پیانو پر جاکر بیٹھ گیا۔ اس نے ’’کی بورڈ‘‘ پر انگلیاں رکھیں اور پیانو سے ایک خوبصورت نغمہ اُبلنے لگا۔ پہلا نغمہ ختم ہوا تو جمشید نے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں اس وقت کوئی نہیں تھا۔ جمشید نے جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا پستول پکڑ لیا اور کھڑا ہوگیا۔ اعجاز کی انگلیاں یکلخت ساکت ہوگئیں۔ ہال میں سکوت چھا گیا۔ اس نے چونک کر جمشید کی طرف دیکھا اور بھاری آواز میں بولا۔ ’’آپ اس پروگرام میں دخل اندازی کیوں کررہے ہیں؟ اپنی جگہ پر بیٹھ جایئے۔‘‘ اعجاز دانت پیس کر بولا۔ ’’ورنہ میں…‘‘ ’’ورنہ تم کیا کرو گے؟‘‘ جمشید نے استہزائیہ انداز میں پوچھا۔ اعجاز غصے میں کھڑا ہوگیا۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔ بولا۔ ’’تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں…!‘‘ ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میری فرینڈ پر کیچڑ اچھالنا شروع کردو گے اور ہم شہر بھر میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے مگر میری بلا سے! تمہاری سمجھ میں جو آئے، وہ کرو۔‘‘ جمشید نے یہ کہہ کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دیا۔ اس ڈرامائی عمل سے لوگ ششدر رہ گئے۔ جمشید نے ان سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’آپ سب لوگ میرا چہرہ اچھی طرح دیکھ لیں۔ میں اسے نقاب میں چھپانا پسند نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ آپ لوگ بھی اپنے نقاب اتار پھینکیں۔ یہ مسخرہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘ ’’نوید… نوید…!‘‘ اعجاز چیخا۔ نوید ہال میں داخل ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس طرف آتا۔ جمشید نے پستول نکال لیا اور تحکمانہ لہجے میں بولا۔ ’’خبردار! آگے بڑھنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘ ’’پولیس!‘‘ اعجاز نے کانپتی آواز میں کہا۔ ’’نوید! تم کتنے احمق ہو۔ تم نے ایک پولیس والے کو اندر…‘‘ ’’نہیں، مسٹر اعجاز! میرا پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’میں تمہارا ایک شکار ہوں۔ شاید تم مجھے بلیک میل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے مگر میں اس کا انتظام کرکے آیا تھا۔ یہ لوگ بھی اگر اپنے نقاب اتار پھینکیں تو تمہارے چنگل سے آزاد ہوسکتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد جمشید نے ان لوگوں کی طرف رخ کرکے کہا۔ ’’برائے مہربانی اپنے نقاب اتار دیجیے۔‘‘ ’’نوید…! اسے روکو… یہ سارا کھیل بگاڑ دے گا۔‘‘ اعجاز خان ہاتھ اٹھا کر دوبارہ چیخا۔ نوید کے حلق سے بھیڑیوں جیسی غراہٹ نکلی مگر وہ سینہ پھلانے اور پچکانے کے سوا کچھ نہ کرسکا کیونکہ جمشید کے پستول کی نال اس کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ ’’اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش مت کرو۔‘‘ جمشید نے تحکمانہ انداز میں اس سے کہا۔ ایک ایک کرکے سب لوگوں نے اپنے نقاب اتار دیے اور اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان میں سے ایک شخص جس کا تن و توش بھاری تھا۔ اعجاز کی طرف بڑھا۔ اس نے کرخت آواز میں کہا۔ ’’جب تک یہ خبیث زندہ رہے گا، ہمیں اس کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑے گا۔‘‘ ’’ٹھہرو۔‘‘ جمشید نے اسے حکم دیا۔ ’’تم اس پر ہاتھ نہ اٹھانا۔‘‘ مگر وہ آدمی اس کی پروا کیے بغیر جوشِ غیظ میں اعجاز کی سمت بدستور بڑھتا رہا۔ ’’اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘ اس نے جنونیوں کی طرح کہا اور اعجاز کا گریبان پکڑ کر اسے فرش سے اٹھا لیا۔ ’’اپنے ہاتھ ہٹائو۔ یہ کیا مذاق ہے۔‘‘ وہ کانپتے لہجے میں اس غصہ ور آدمی سے بولا۔ پھر جمشید نے بھی اسے وارننگ دی۔ ’’مسٹر! یہ کیا کررہے ہیں۔ میں کہتا ہوں…‘‘ مگر اس شخص نے جمشید کی پروا نہیں کی اور اعجاز کو گلے سے پکڑ لیا۔ اعجاز روہانسی آواز میں بولا۔ ’’مجھے مت مارو… خدا کے لیے مجھے مت مارو… تم جو کچھ کہو گے، میں کروں گا۔ میں تمہاری رقم لوٹا دوں گا۔‘‘ ’’شٹ اَپ…‘‘ نوید دھاڑا۔ دوسرے آدمیوں نے ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر اعجاز کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ ’’اس کے پاس سے ہٹ جائو۔‘‘ جمشید بلند آواز میں بولا۔ ’’ہم اس جعلساز کو پولیس کے حوالے کردیں گے۔‘‘ ’’مجھے یہ منظور ہے۔‘‘ اعجاز گھگھیایا۔ جمشید کی ساری توجہ اعجاز اور اس آدمی کی طرف تھی جو اسے ختم کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس لیے نوید نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر چھلانگ لگا دی اور پستول پر ہاتھ مارا۔ جمشید کے ہاتھ سے پستول گر گیا۔ نوید کا گھونسا اس کے پیٹ میں پڑا تو اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی۔ وہ بے پناہ طاقتور تھا۔ نوید کا دوسرا ہاتھ اس کی کنپٹی پر پڑا اور اس کا شعور تاریکی میں جاسویا۔ جب اسے دوبارہ ہوش آیا تو اس نے ہال خالی دیکھا۔ تمام کرسیاں اُلٹی پڑی تھیں اور ہال میں ابتری پھیلی ہوئی تھی جیسے کچھ دیر پہلے وہاں ہاتھیوں کا غول تباہی مچا کر گیا ہو۔ اعجاز پیانو کے قریب ہاتھ پھیلائے پڑا تھا۔ اس کی گردن مڑی ہوئی تھی۔ جمشید اس کے قریب گیا تو اس نے اعجاز کو گہری گہری سانسیں لیتے دیکھا۔ اس کے سینے سے خون ابل کر فرش پر بہہ رہا تھا۔ جمشید نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کا نام پکارا اور اس کے چہرے کو تھپتھپایا تو اعجاز نے اٹک اٹک کر کہا۔ ’’مجھے… نوید نے ہلاک… کیا ہے… گولی ماری ہے مجھے… اس نے…‘‘ ’’تم ٹھیک ہوجائو گے۔‘‘ جمشید نے اسے تسلی دی۔ ’’میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔‘‘ ’’اس… کا خیال… تھا کہ… میں اسے دھوکا دے رہا ہوں۔‘‘ اعجاز بڑبڑایا۔ پھر اس نے آنکھیں پھاڑ کر جمشید کو دیکھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہو۔ جمشید بولا۔ ’’اعجاز! خدا کے لیے میری بات سنو۔ میں اس وقت تمہیں پوری کہانی نہیں سنا سکتا۔ بس یوں سمجھ لو کہ ایک بے گناہ آدمی کی زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے۔‘‘ ’’نہیں… نہیں…‘‘ اعجاز ڈوبتی آواز میں بولا۔ سینے کے علاوہ اس کے منہ سے بھی خون بہتا دکھائی دیا۔ اس نے کہا۔ ’’میں… نے کوئی جرم نہیں کیا ہے… وہ لوگ عطیات… میری موسیقی سن کر…‘‘ جمشید نے مایوسی سے ٹھنڈی سانس لی۔ اعجاز زندگی ہار رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑتی جارہی تھی۔ ’’میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا اعجاز!‘‘ وہ بولا۔ ’’میں سعد سلمان کی بات کررہا ہوں جسے زبیر کے قتل کے الزام میں پولیس نے پکڑ لیا ہے۔ زبیر تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہورہا تھا؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ اعجاز نے جیسے سرگوشی کی۔ ’’کیا زبیر منشیات کا عادی تھا؟ تم اسے اس وجہ سے بلیک میل کررہے تھے؟‘‘ ’’موسیقی…‘‘ اعجاز بولا۔ اس کی ذہنی رو بہک رہی تھی۔ ’’میں پیانو بجا رہا ہوں… نوید! تم عطیات… جمع کرلو… حاضرین…!‘‘ جمشید نے اس وقت بہت بے بسی محسوس کی۔ موت اعجاز کو اتنی مہلت نہیں دے رہی تھی کہ وہ اس کے سوالوں کا جواب دے سکے۔ اس نے اپنا سوال دو تین بار کیا اور پھر وضاحت سے بولا۔ ’’میں زبیر کی بات کررہا ہوں۔ وہی زبیر جو این جی اوز کی داغ بیل ڈالنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی اس نے اپنی فیکٹری کی بھی ابتدا کر ڈالی تھی۔ کیا نوید اس کے ہاتھ منشیات فروخت کررہا تھا؟‘‘ ’’نہیں… نہیں…‘‘ اعجاز نے آخری سانسوں کے درمیان کہا۔ ’’وہ… وہ… عورت!‘‘ ٭…٭…٭ ’’مجھے اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آرہا ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اریبہ نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ جمشید اس وقت اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ رات گئے اس سے ملاقات کرنے پہنچا تھا اور اس وقت تمام ملازم وہاں سے جا چکے تھے۔ ’’یہ معاملہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’مگر جب منشیات فروش نوید کا کردار بیچ میں آیا تو سارا کیس حل ہوگیا۔‘‘ ’’مگر تم نے غلط اندازہ لگایا۔‘‘ کہتے ہوئے اریبہ نے پھر کافی کا ایک گھونٹ بھرا۔ ’’کیا میں ایسی عورت دکھائی دیتی ہوں؟‘‘ ’’پہلے میرا خیال تھا کہ زبیر اس عادتِ بد میں مبتلا ہوگا۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’چونکہ وہ ایک این جی اوز کی داغ بیل ڈالنے والا تھا اور اپنا کاروبار بھی ملکی سطح پر پھیلا رہا تھا اس لیے نوید کے دھمکانے پر ڈر گیا ہوگا مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ اریبہ! زبیر منشیات استعمال نہیں کرتا تھا۔‘‘ ’’تم اس بارے میں اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو۔ جبکہ اس کی لاش قبر میں…!‘‘ اریبہ بولی۔ ’’اعجاز کے اس ہلکے سے اشارے کے بعد مجھے تمہاری بیماری یاد آئی۔ اچانک تمہارے ہاتھ، پیر کانپنا اور آنکھیں چڑھ جانا وغیرہ۔ تم مخصوص قسم کی پلز استعمال کرتی ہو اور پوری آستین کا لباس پہنتی ہو۔‘‘ ’’مجھے پوری آستین کی قمیص اور فراک پسند ہیں اور جہاں تک پلز کا تعلق ہے تو میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ میں صحت مند عورت ہوں۔‘‘ اریبہ بولی۔ ’’اریبہ! کیا تم مجھے اپنے بازو دکھا سکتی ہو؟ کیا تمہارے بازوئوں پر انجکشن کے نشانات نہیں ہیں؟‘‘ ’’تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے جمشید! میرے بازوئوں پر ایسے نشانات ہیں مگر تم نے یہ نتیجہ کیونکر اخذ کرلیا کہ میں منشیات کی عادی ہوں؟ تم میرے والد سے پوچھ سکتے ہو۔ میں تو وٹامنز کے انجکشن لے رہی ہوں۔‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’اریبہ! تم بظاہر اس لیے نارمل دکھائی دیتی ہو کہ تمہیں ایسی ادویات مسلسل ملتی رہی ہیں۔ ان میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی ہے‘‘ ’’بکواس بند کرو۔‘‘ اریبہ برہم ہوکر بولی۔ ’’میں نے تمہاری خدمات اس لیے حاصل نہیں کی تھیں کہ تم میرے ہی پیچھے پڑجائو اور مجھ پر الزامات عائد کرنا شروع کردو۔‘‘ ’’میں تمہارا وکیل ضرور ہوں۔‘‘ جمشید بولا۔ ’’مگر حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں تو کیا اپنی بیوی کو بھی معاف نہیں کرسکتا۔ اگر اس نے بھی کوئی غیر قانونی کام کیا تو میں اس پر بھی
گرفت کروں گا۔ میں وکیل ہوں اور ہر حالت میں قانون کی سربلندی چاہتا ہوں۔‘‘ ’’جمشید! تم نے بہت بکواس کرلی۔‘‘ اربیہ بولی۔ ’’اب تم یہاں سے جاسکتے ہو۔‘‘ ’’کیا تم یہ چاہتی ہو کہ سعد پھانسی پر لٹک جائے؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔ اریبہ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور اس کے ہونٹ کانپنے لگے۔ ’’یہاں سے دفع ہوجائو۔‘‘ وہ چیخی۔ ’’میں تمہاری خدمات حاصل نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ ’’میں صرف اپنے لیے کام کررہا ہوں، اریبہ!‘‘ جمشید بولا۔ ’’صرف اپنے لیے… اپنے تجسس کو دور کرنے کے لیے تمہیں سب بتانا پڑے گا۔‘‘ ’’اگر تم یہاں سے نہیں جانا چاہتے تو میں چلی جاتی ہوں۔‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھی۔ جمشید اس کی راہ میں حائل ہوگیا۔ بولا۔ ’’میں تمہیں یہاں سے حقیقت حال معلوم کیے بغیر نہیں جانے دوں گا۔ تمہیں بتانا پڑے گا کہ یہ لت تمہیں کہاں سے لگی تھی؟‘‘ ’’جمشید! پلیز مجھے جانے دو۔‘‘ اریبہ نے بے چارگی سے اصرار کیا۔ ’’تم کیا استعمال کرتی ہو؟ ہیروئن؟ تم نے اس کا آخری ڈوز کب لیا تھا؟‘‘ جمشید بولا۔ ’’اس سے پہلے کہ میں پولیس کو بتا دوں، مجھے حقیقت بتا دو۔‘‘ اسی وقت کمرے میں ڈاکٹر شاہ نواز داخل ہوا۔ اریبہ اسے دیکھ کر ’’ڈیڈی‘‘ کہتے ہوئے اس کی طرف لپکی اور بڑے سکون سے اپنا سر باپ کے شفیق سینے پر رکھ دیا۔ باپ بھی پیار سے اس کے بال سہلانے لگا۔ ٭…٭…٭ ’’میری بات سمجھنے کی کوشش کرو جمشید!‘‘ ڈاکٹر شاہ نواز بولا۔ ’’میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں کس قسم کا آدمی ہوں۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی تباہ کرلی اور گھر برباد کرلیا۔ جس کا اریبہ پر برا ردعمل ہوا اور وہ اس لت میں مبتلا ہوگئی۔‘‘ ’’آپ نے اس کا علاج کرنے کی کوشش نہیں کی؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔ ’’میں نے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی تھی مگر جب بات میرے علم میں آئی تو پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا۔ وہ نشے کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ میں اس کا علاج کرنے سے قاصر رہا۔‘‘ ’’آپ نے پھر محبت میں اسے یہ چیزیں خود فراہم کرنا شروع کردیں؟‘‘ جمشید بولا۔ ’’ہاں!‘‘ شاہ نواز نے اعتراف کیا۔ ’’چونکہ میں ان دنوں پریکٹس کررہا تھا۔ اس لیے میرے لیے ایسی دوائیں فراہم کرنا دشوار نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور لحظہ بہ لحظہ موت سے قریب ہوتی جارہی ہے۔ مگر اسے نارمل رکھنے کے لیے میں خود اسے اپنے ہاتھوں سے زہر دیتا رہا۔ مگر یہ عمل زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی تحقیقات شروع کردیں۔ انہیں بھنک مل گئی تھی کہ ڈاکٹر صاحبان بھی چوری چھپے ہیروئن اور مارفیا سپلائی کررہے ہیں۔‘‘ ’’آپ کا لائسنس چھین لیا گیا ہوگا؟‘‘ جمشید نے استفسار کیا۔ ’’اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی میں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔‘‘ ’’پھر آپ نے اس کے بعد ان چیزوں کو حاصل کرنے کی غیر قانونی کوششیں کی ہوں گی؟‘‘ جمشید نے سوال کیا۔ ’’اور اس سلسلے میں نوید جیسے بدقماش لوگوں سے رابطہ کرنا پڑا ہوگا۔‘‘ ’’ہاں! یہی ہوا تھا۔‘‘ ’’پھر اریبہ کی شادی زبیر سے ہوئی تو منشیات اسے فراہم کرنا پڑی ہوں گی؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔ ’’نہیں! زبیر کو اریبہ کی اس عادت کا علم نہیں تھا۔ میں اریبہ کو یہ چیزیں مسلسل فراہم کرتا رہا اور نوبت دیوالیہ ہونے تک آگئی کیونکہ نوید نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کردیا تھا۔ میں اعجاز کے پھندے میں پھنس گیا۔‘‘ ’’گویا آپ بھی اس کے ہاں پیانو سننے جاتے تھے؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔ ’’ہاں! اعجاز نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اس کا مطالبہ پورا نہ کیا تو وہ زبیر کو سب کچھ بتا دے گا۔ میں اسے ہر ماہ خوف زدہ ہوکر ایک بڑی رقم ادا کرنے لگا۔‘‘ ’’مگر مجھے ایک دعوت نامہ زبیر کے مطالعہ گاہ سے ملا تھا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس کی خبر ہوگئی تھی؟‘‘ ’’ہاں! کیونکہ زبیر کو میں نے بتایا تھا۔‘‘ شاہ نواز بولا۔ ’’میں منشیات اور بلیک میلنگ کی رقم ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اگر میں اعجاز کو عطیات نہ دیتا تو وہ ساری دنیا میں اس بات کی تشہیر کردیتا۔ اس لیے میں نے اپنے داماد کو یہ باتیں بتانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں جانتا تھا کہ اسے یہ باتیں سن کر صدمہ پہنچے گا مگر مجھے یقین تھا کہ اریبہ کی محبت سے مجبور ہوکر وہ اسے بچا لے گا۔ وہ اسے بدنامی کے گڑھے میں نہیں گرنے دے گا۔ مگر میرا خیال غلط نکلا۔ وہ کچھ منصوبے شروع کرنے والا تھا۔ اسے اندیشہ ہوا کہ اگر یہ باتیں منظر عام پر آگئیں تو اس کی شہرت اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ پھر اس نے مجھ سے ایک بہت ہی ہولناک بات کہی۔‘‘ ’’وہ کیا…؟‘‘ ’’اس نے کہا کہ وہ اریبہ کو طلاق دے دے گا۔ وہ اریبہ کی مدد کرنے پر تیار نہیں تھا اور اس سے صاف طور پر دامن بچانا چاہتا تھا۔ یہ جواب سن کر مجھے طیش آگیا۔ میری بچی کی زندگی کا سوال تھا۔ وہ اسے زندہ درگور کرنے جارہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ مگر اس نے اپنی میز سے قلم اور کاغذ نکالا اور اس پر لکھا۔ ’’اریبہ! مجھے معاف کردینا…‘‘ وہ آگے طلاق کے متعلق بھی لکھنا چاہتا تھا مگر میں غصے میں دیوانہ ہورہا تھا۔ میں نے آئو دیکھا نا تائو، جھپٹ کر زبیر کی ڈیسک کی دراز کھولی اور پستول نکال لیا۔ اسے ڈرانے دھمکانے کے باوجود کام نہ بنا تو میں نے جنونیوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے گولی چلا دی۔ پھر میں نے پستول اس کے ہاتھ کے پاس پھینکا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔ یہ میری زندگی کی ایک اور بڑی غلطی تھی مگر جمشید! یہ سب میں نے اپنے لیے نہیں اپنی بچی کو خوش رکھنے کے لیے کیا تھا۔‘‘ بوڑھا باپ ڈاکٹر شاہ نواز خاموش ہوکر سسکیاں لینے لگا۔ (ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS