ان دنوں ہم اپنے آبائی گاؤں دیپالپور میں رہا کرتے تھے اور ہمارے پڑوس میں ظہور احمد رہتے تھے ، جن کی ایک بیٹی کی سادگی کی وجہ سے اس کی دادی نے اس کا نام سادیہ رکھ دیا تھا۔ وہ میری کلاس فیلو تھی۔ اس کو اپنی خوبصورتی پر بڑا ناز تھا۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس کا یہ یہ غرور کسی کونہیں کو نہیں بھاتا تھا، تھا، مگر اس کو احساس بھی نہ تھا کہ وہ کتنی مغرور ہو گئی ہے۔ وہ چار بہنیں تھیں۔ باجی کی شادی ہو گئی تھی اور اب سادیہ کا ہی نمبر تھا۔ ماں اس کی شادی کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی، لیکن باپ سخت آدمی تھا، اس لئے لوگ رشتہ لے جانے سے بھی ڈرتے تھے۔ اگر چہ وہ بھی سادیہ کے فرض سے جلد سبکدوش ہونا چاہتا تھا، مگر کوئی معقول رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ بالآخر ایک رشتہ آیا، لیکن ماں باپ نے چھوٹی کی شادی کر دی کہ سادیہ کے لیے کوئی اور رشتہ آجائے گا، پھر شادی کر دیں گے کہ یہ شکل کی اچھی ہے۔ اس کے لئے رشتے آتے رہیں گئے۔
سادیہ کے گھر کے سامنے کتابوں کی دکان تھی۔ ان کے مکان کے آگے بھی دکانیں تھیں۔ وہ صبح اسکول آجاتی مگر دعا کے وقت جب لڑکیاں لائن بنا کر اسمبلی میں جارہی ہو تیں، وہ غائب ہو جاتی تھی۔ ایک دوبار میں نے پوچھا بھی کہ تم تو ہمارے ساتھ اسکول آئی تھیں پھر کہاں غائب ہو گئیں ؟ تب اس نے بہانہ بنادیا۔ اس کی دوست آنسہ تھی۔ وہ ہماری بھی دوست تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ یہ ایک لڑکے سے پیار کرنے لگی ہے اور اس کے پیچھے جاتی ہے اس کا نام احسان تھا۔ وہ ہمارے گھر کے سامنے رہتا تھا۔ ایک دن میں نے سادیہ سے اس بارے میں پوچھ لیا تو وہ انجان بننے لگی۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم بد نام ہو جاؤ۔ تم اسکول سے مت جایا کرو۔ اس پر وہ کہنے لگی۔ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں کسی احسان کو نہیں جانتی۔ اسکول سے جانا میرا ذاتی معاملہ ہے۔ اس جواب کے بعد بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی تھی، لہٰذا میں خاموش ہو گئی۔ ٹیسٹ شروع ہو گئے تو میں پڑھائی میں مصروف ہو گئی، کیونکہ اس کے سالانہ امتحانات بھی ہونے والے تھے۔ ٹیسٹ ختم ہوئے ، تو ہمیں کچھ دن کے لیے فری کر دیا گیا تا کہ سالانہ امتحان کی تیاری کر سکیں۔ کچھ لڑکیاں اسکول آجاتی تھیں اور کچھ گھر پر تیاری کر رہی تھیں۔ کسی کو کسی کا پتا نہ تھا۔ جب ایڈمٹ کارڈز آئے تو ہم سب لڑکیاں اسکول آئیں، مگر سادیہ نہیں آئی۔ آنسہ اس کے گھر کے سامنے ہی رہتی تھی، میں نے اس سے پوچھا کہ سادیہ رول نمبر لینے نہیں آئی۔ کیا امتحان نہیں دے گی ؟ وہ بولی تمہیں کچھ پتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ؟ وہ تو اس شہر میں ہی نہیں ہے ، پھر اس نے ہم سب کو بتادیا کہ اس کے گھر کے سامنے احسان رہتا تھا۔ اس کا موبائل چوری ہو گیا۔ اس وجہ سے وہ اپنی دکان پر سونے لگا کہ اور چیزیں نہ چوری ہو جائیں۔
سادیہ ایک رات اس سے ملنے دکان پر چلی گئی۔ محلے کے کسی آدمی نے اسے دکان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ یہ رات کے بارہ بجے کا وقت تھا۔ اس بد خواہ شخص نے جلدی سے دکان کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور سب ۔ محلے والوں کو کو جمع کر کے تالا کھول کر دکھایا کہ دیکھو دونوں لڑکی اور لڑکا اندر ہیں ، آؤا نہیں پکڑ لو۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان کو پولیس کے حوالے کر دینا چاہیے ، مگر کچھ لوگ ان دونوں کے گھرانوں کو اچھی طرح جانتے تھے، لہٰذا انہوں نے بات پولیس تک نہ جانے دی کہ بد نام کرنے سے کیا فائدہ، یہ برے ہیں تو کیا ہوا؟ شریفوں کی اولاد ہیں۔ ان بیچاروں کو رسوا کرنے سے بات بہت بڑھ جائے گی۔ لوگ سادیہ کے باپ کو بلا لائیے۔ وہ بیچارا تو شرم کے مارے منہ نہ اٹھا سکتا تھا۔ ہجوم کے درمیان سے جب وہ اپنی بیٹی کو لے گیا تو اس کی بری حالت تھی۔ اس کی عزت دو کوڑی کی نہ رہی تھی۔ وہ محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا تھا۔ مجمع میں زیادہ تر تماشبین تھے ، مگر کچھ لوگ دردمند دل بھی رکھتے تھے ۔ وہ لڑکی کے باپ کے ساتھ گھر تک آئے اور جب باپ نے لڑکی کو مارنے کی کوشش کی تو انہوں نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کرادیا۔ انہوں نے باپ کو صلاح دی کہ اب لڑکی کو گھر مت رکھو، لہذا سادیہ کو اس کے نانا کے گھر بھیج دیا گیا۔ ہم نے میٹرک کے پیپرز دیئے تو سکون ملا۔ ایک دن میں اور امی پڑوسن کے گھر گئے تو پتا چلا کہ سادیہ اپنے نانا کے گھر سے بھی چلی گئی تھی اور اب وہاں کے دارالامان میں ہے۔ دار الامان والوں نے اس کے والدین سے رابطہ کیا مگر گھر والوں نے کہہ دیا کہ اس کو اپنے پاس رکھیں۔ ہمارا اس لڑکی سے اب کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سادیہ دار الامان میں خدا جانے کس حال میں تھی۔ جب سے محلے میں یہ واقعہ ہوا، کافی لڑکیوں کے والدین ڈر گئے اور ان کے معاملے میں پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئے۔ خود میری والد و جو پہلے ہمیں سہیلیوں کے گھر جانے سے نہیں روکتی تھیں ، اب کہیں آنے جانے نہیں دیتی تھیں۔ کیوں کہ بیٹی زمانہ خراب ہے۔ تم نے دیکھا نہیں سادیہ کا کیا حال ہوا ہے۔ گھر میں رہو گی تو محفوظ رہو گی۔ باہر گھومنے پھرنے سے لڑکیوں کا گھروں میں رہنا زیادہ اچھا ہے۔ بھلا ہو سادیہ تیرا کہ ہمیں تو بالکل قید نا گہانی ہو گئی۔ خیر ، وقت گزرتا گیا۔ ہم نے تعلیم مکمل کر لی ، ہم بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ میرے میاں ہوائی کمپنی میں تھے۔ اچھی زندگی گزر رہی تھی۔ کبھی کبھی ہیں سوچتی تھی کہ جانے سادیہ کا کیا ہوا ؟ دار الامان میں کب تک رہی۔ اب بھی وہاں ہے یا قدرت نے اس کے لئے کوئی اچھا فیصلہ کر دیا ہے۔
اپنی زندگی کے کچھ فیصلے انسان خود کرتا ہے تو کچھ اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور اللہ کے فیصلے تو بہترین ہوتے ہیں۔ وہ بندوں کی بہتری ہی کے لئے ہوتے ہیں جب اس کے بندے غلطیاں کرتے ہیں اور وہ بھی نا کبھی میں ، تو زمانہ ان کو سزاد یتا ہے ، ماں باپ خفا ہوتے ہیں۔ کچھ محض سرزنش کر کے بعد میں معاف کر دیتے ہیں، مگر کچھ والدین معاف نہیں کرتے۔ خاص طور پر بیٹیوں کو ، جب وہ گھر سے بھاگ جائیں یا کسی سبب ان کی اور خاندان کی بدنامی کا باعث بن جائیں تو انہیں یا تو دار الامان میں پناہ لینی پڑتی ہے یا پھر وہ ظالم زمانے کے ہاتھوں مزید دکھ سہتی ہیں اور برباد ہوتی رہتی ہیں۔ بیٹیوں سے نا سمجھی میں کم سنی کے باعث اگر کوئی غلطی ہو جائے تو بہتر ہو گا کہ والدین ان کو معاف کر دیں اور در بدر ہونے کے لئے نہ چھوڑیں۔ خدا کا شکر ہے کہ حکومت نے ایسی مجبور لڑکیوں اور خواتین کے لئے دار الامان بنوائے تا کہ یہ بے سہار ا وہاں پناہ لے لیں اور مزید در بدر ہونے سے بچ جائیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ ہم بیرون ملک چلے جائیں تاکہ وہاں اپنے بچوں کو جدید خطوط پر اعلیٰ تعلیم دلوا سکیں ، انہوں نے اپنی جائیداد بیچی ، تمام جمع پونجی اکٹھی کی اور ہم کینیڈا آگئے۔ یہاں کی شہریت لئے ہمیں دو برس ہوئے تھے کہ ایک روز شاپنگ مال میں میری ملاقات اچانک سادیہ سے ہو گئی۔ وہ پہلے سے زیادہ سیدھی سادی نظر آرہی تھی۔ اس نے میک آپ بھی نہیں کیا ہوا تھا۔ میں نے اسے فوراً پہچان لیا۔ وہ تو واقعی اپنے نام کی طرح سادہ تھی ۔ اتنا وقت گزرنے کے بعد کبھی واقعی اپنے نام کی نسبت سے سادیہ ہی تھی۔ ہم دونوں آگے بڑھیں اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملیں۔ میں نے پوچھا۔ تم یہاں ، ہم نے سنا تھا کہ تم دار الامان میں ہو ؟ تمہارا تو کوئی پتا ہی نہ رہا۔ وہ بولی۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ اباجان نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو دار الامان کے سوا کہیں پناہ کا در نظر نہ آیا۔ کافی عرصہ وہاں رہی۔ ایک روز ادارے کے نگراں افسر نے کہا کہ ہم نے تمہارا عرصے تک مشاہدہ کیا ہے۔ تم بہت اچھی اور نیک چلن لڑکی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی کروادیں ، اگر اگر تم راضی ہو تو۔ آخر کب تک یہاں رہو گی ؟ اس وقت ایک رشتہ میرے پاس موجود ہے۔ تمہاری زندگی بن جائے گی۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ شادی کی عمر نکل جائے تو پھر باقی زندگی تنہا گزار نا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے کچھ دیر سوچا۔ علوی صاحب ایک نہایت شریف اور اعلیٰ کردار افسر تھے۔ مجھے ان پر اعتبار تھا۔ ایک باپ کی طرح انہیں درجہ دیا ہوا تھا۔ میں نے فیصلہ ان پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے ایک دوست کے بیٹے وقار سے میری شادی کروادی جو کینڈین نیشنل تھے۔ اس طرح میں یہاں آگئی اور اب سکون کی اچھی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ والدین نے معاف نہ کیا لیکن اللہ تعالی غفور الرحیم ہے۔ اس نے میرے لئے اچھا فیصلہ کیا، میں یہاں خاوند کے ساتھ خوش اور مطمئن ہوں۔ ہاں واقعی اللہ غفور الرحیم ہے۔