جن دنوں میری عمر بارہ برس تھی پاشا بھائی کالج میں پڑھتے تھے۔ ہم تب اپنی زمینوں کے وسط میں بنے گھر میں رہتے تھے، البتہ پاشا بھائی کا تعلق اپنے گائوں سے بہت کم رہ گیا تھا کیونکہ وہ شروع سے ہی شہر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ وہ ابھی کم عمر تھے جبھی والد صاحب نے ان کو شہر بھجوادیا تھا۔ پرائمری سے لے کر کالج تک شہر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی۔ صرف چھٹیوں میں گھر آتے تھے۔ میرا یہ بھائی سب سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھا۔ زیادہ وقت شہر میں گزارنے کی وجہ سے وہ بالکل شہری بابو لگتا تھا۔ جن دنوں وہ میٹرک کا امتحان دے رہے تھے، والد صاحب کا اپنے چازاد بھائی سے زمین کے معاملے میں تنازع ہوا، جس میں دو افراد ان کے مارے گئے اور ہمارے بھی دو مزارع قتل ہوئے۔ کچھ عرصے بعد دونوں طرف سے فریقین نے مقدمات تو خارج کروا دیئے مگر دلوں میں رنجشیں باقی رہیں۔ یوں دونوں گھرانوں کے آپس میں تعلقات منقطع تھے اور آنا جانا متروک تھا۔ اس واقعہ کا علم بھائی پاشا کو نہیں تھا۔ وہ آس پاس کے لوگوں کو بھی بہت کم جانتے تھے۔ ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آئے تو شکار کا پرو گرام بنایا اور بندوق لے کر صبح ہی کھیتوں کی طرف نکل گئے۔ اس بار وہ اکیلے پرندوں کے شکار کو چلے گئے تھے۔ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ گندم کی فصل کٹ چکی تھی۔ سارے کھیت ویران پڑے تھے۔ شکار کیا ملتا، شکار کی تلاش میں چلتے چلتے پیاس لگی۔ قریب ہی ایک مکان نظر آیا۔ اُدھر چلے گئے۔ یہ صباحت خان کا مکان تھا جو والد صاحب کے وہی کزن تھے جن کے ساتھ تنازع چلا تھا۔ پاشا بھائی بے شک، گائوں کے رسم ورواج سے نابلد تھے۔ ان کو بڑوں کے جھگڑوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ہمارے خاندان کا کوئی فرد صباحت خان کی زمینوں کی طرف نہیں جاتا تھا مگر بھائی آج اُسی جانب جا نکلے تھے۔ سامنے ان کو ایک حویلی نظر آرہی تھی۔ پیچھے ٹیوب ویل تھا۔ اس پر ایک حوض بنا تھا، جس میں پانی گرتا تھا۔ حوض کے کنارے ایک لڑکی پانی میں پیر ڈالے بیٹھی تھی۔ وہ لڑکی اتنی خوبصورت تھی کہ اس کا حسن آنکھوں کو چکا چوند کر دیتا تھا۔ میرے بھائی کو علم نہیں تھا کہ یہ صباحت خان کی بیٹی کندن تھی۔
بھائی کی نظر اس لڑکی پر پڑی تو پانی پینا بھول گئے۔ وہ اسے یک ٹک دیکھے جارہے تھے ، یہاں تک کہ کندن کی بھائی سے نگاہیں ملیں تو وہ شرماگئی۔ بھائی نے اُسے سلام کیا تو اس نے سوال کیا۔ کیا تم صاحب داد کے بیٹے ہو ؟ شہر میں پڑھتے ہو، میں نے تمہارے بارے سُنا ہے پاشا نام ہے نا! ہاں، میں وہی ہوں۔ تم اگر وہی ہو تو ہمارے ٹیوب ویل پر کیا کرنے آئے ہو ؟ تمہارے اور ہمارے خاندانوں کا تو آپس میں جھگڑا چل رہا ہے۔ مجھے جھگڑے سے کیا؟ میں تو ادھر پانی پینے آیا ہوں۔ مجھے پیاس لگی ہے لیکن کوئی برتن نہیں ہے، کیسے پانی پیوں۔ اپنے ہاتھوں کی اوک بنا کر پی لو۔ اوک سے پانی پینا مجھے نہیں آتا۔ سارے کپڑے گیلے ہو جائیں گے۔ یہ جواب سن کر وہ ہنسنے لگی، پھر اپنی ہتھیلیوں کو جوڑ کر اوک بنا دی اور پانی پی کر دکھایا۔ پاشانے بھی ویسے ہی کیا لیکن ٹیوب ویل سے گرتے تیز پانی سے اس کے کپڑے بھیگ گئے جس پر کندن ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اس کی یہ ادا میرے بھائی کے دل میں کھب گئی۔ یوں پہلی ہی ملاقات میں ان دونوں کی دوستی ہو گئی۔ اب میرے بڑے بھائی کا یہ روزانہ کا معمول ہو گیا کہ وہ چھوٹی بندوق کندھے پر لٹکا لیتے اور صباحت خان کے ٹیوب ویل کی طرف نکل جاتے ، جہاں دوپہر کو یہ دونوں چپکے سے مل لیتے تھے۔ جب مجھے گائوں کی ایک لڑکی نے یہ بات بتائی تو پیروں تلے سے زمین نکلتی محسوس ہونے لگی۔ ان کی ملاقاتوں کا علم اگر دونوں گھرانوں میں سے کسی کو ہو گیا تو ان کی خیر نہیں، دشمنی تو الگ بات ، دونوں کے خاندان انتہائی قدامت پسند تھے۔ ہمارے یہاں گائوں میں تو لڑکوں کو بھی اتنی آزادی نہیں تھی کہ وہ کسی غیر لڑکی کی طرف دیکھیں لیکن یہ دونوں ناعاقبت اندیش اپنے انجام سے ہی بے پروا ہو گئے تھے۔
میرے بھائی کی حالت یہ تھی کہ ان کو گھر میں ایک پل بھی چین نہیں آتا تھا۔ گرمیوں میں کھیت خالی ہوتے تھے اور کندن کا گھر بھی ان کی زمینوں کے بیچ تھا، لہذا ان کو ملاقات میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ ایک دن میں نے خود بڑے بھائی کو کندن سے کھیتوں میں باتیں کرتے دیکھ لیا۔ چھوٹی بہن ہونے کے باوجود ان کو سمجھایا کہ بھیا تم اس لڑکی سے باتیں نہ کیا کرو، وہ ہمارے والد کے دشمن کی بیٹی ہے۔ آخر آپ کو اس سے میل جول رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ بھائی بولے۔ چھوٹی ، تو چُپ رہ تو بڑی عقل مند ہو گئی ہے۔ میں چپ نہیں رہ سکتی بڑے بھیا! جبکہ جانتی ہوں کہ کندن ہمارے گھرانے کی بہو بن کر نہیں آسکتی۔ اگر دشمنی کی بات نہ بھی ہوتی ، تب بھی یہ رشتہ ممکن نہیں تھا کیونکہ آپ کی منگنی عالیہ سے ہو چکی ہے۔ وہ ہمارے چچا کی بیٹی ہے اور یہ پتھر پر لکیر ہے۔ بڑے بھائی نے میری بات سنی تو ان کا چہرہ گہری سوچ سے سنولا گیا۔ اس بات کا کندن کو علم تھا پھر بھی وہ اپنے قدم روک نہیں پارہی تھی۔ اس کے بعد میں نے ایک روز بڑے بھائی کو والدہ سے یہ کہتے سنا کہ میں عالیہ سے منگنی پر خوش نہیں ہوں کیونکہ یہ منگنی میرے بچپن میں کی گئی تھی۔ والدہ نے جواب دینے کی بجائے کانوں کو ہاتھ لگا دیئے۔ مطلب کہ منگنی توڑنے کا اب سوچنا بھی نہیں اور کہا۔ کسی کے سامنے آئندہ یہ بات نہ کرنا۔ بھائی کو غصہ آرہا تھا، وہ کہنے لگے۔ آخر یہ کون سا طریقہ ہے کہ اولاد سے پوچھے بغیر اس کی مرضی جانے بنا رشتہ طے کیا جائے۔ اب بڑے بھیا چاہتے تھے کہ کسی صورت عالیہ سے منگنی ختم ہو جائے۔ دل میں بغاوت اُبھر رہی تھی۔ ان کا من کرتا کہ سارے خاندان سے ٹکرا جائیں۔ وہ بہت الجھے ہوئے اور پریشان رہنے لگے تبھی ایک روز میں نے اُن سے کہا۔ بڑے بھیا ! اس طرح پریشان رہنے سے تو آپ کچھ بھی حاصل نہ کر سکو گے۔ میں بڑے بھیا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بات کرتی تھی، مبادا غصہ کریں اور والد صاحب کا بھی ڈر تھا کہ کہیں ان کے کانوں بھنک نہ پڑ جائے۔ بھیا بھی اس امر کو بخوبی سمجھتے تھے ، لہذاوہ میری بات سُن کر خاموش رہتے۔ دیکھتے دیکھتے، بھائی، بے جان د کھنے لگے۔ اب بہت مجبور سے نظر آتے تھے۔ میں جان چکی تھی کہ کندن کو ذہن سے نکالنا، ان کے بس کی بات نہ رہی تھی۔ ہمہ وقت اسی کے بارے سوچتے رہتے۔ چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں، تبھی وہ ایک روز صباحت کی زمینوں کی طرف گئے اور کندن سے ملے ۔ کہا کہ شاید میں تم کو حاصل نہ کر پائوں لہذا تم میرا انتظار مت کرنا۔ امتحان دینے کے بعد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک چلا جائوں گا۔ بھائی کی بات سُن کر وہ بہت روئی۔ وہ بہت دل گرفتہ اور اداس تھی۔ بڑے بھائی شہر چلے گئے۔ انہوں نے امتحان دیا اور جب گھر لوٹے تو امی جان سے اس بارے آخری بار بات کی۔
امی نے ان کو باور کرایا کہ تم بھول رہے ہو ، روایات کے مطابق یہ ممکن نہیں کہ جہاں دُشمنی چل رہی ہو وہاں سے لڑکی کارشتہ طلب کیا جائے اور خاندان کی لڑکی سے دیرینہ منگنی کو ختم کر دیا جائے۔ ایسا ہم سب کی تباہی کا باعث ہو گا لہٰذا دوبارہ یہ بات سوچنا بھی نہیں۔ مایوس ہو کر بڑے بھائی نے سر جھکا لیا اور والدہ سے رقم لے کر شہر چلے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اسٹوڈنٹ ویزا کے لئے اپلائی کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے بالکل ہی چپ سادھ لی اور ایک بار والدہ کو فون کے بعد دوبارہ بات نہ کی۔ تین سال تک گھر والوں سے سرسری رابطہ رکھا۔ امتحانات کے بعد وہ کسی اور جگہ چلے گئے، کسی کو کچھ نہ بتایا کہ کہاں اور کیوں جارہے ہیں۔ چار سال تک ان کا کچھ پتا نہ چلا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں ؟ انہوں نے سوچا ہو گا کہ گھر اور وطن سے دُور جا کر وہ جب ایک نئی دنیا میں چلے جائیں گے تو کندن کو بھول جائیں گے ، اسی سبب خُدا جانے کہاں کہاں کی خاک چھانی اور وطن نہ لوٹے۔ بھائی کو گئے چوتھا سال تھا جب ایک دن والد نے بتایا کہ صباحت خان سے ان کی صلح کے لئے بات چیت ہو رہی ہے ، جس کے بعد دونوں خاندانوں میں کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ یہ بات خوش کن تھی کیونکہ ہم سب دُعا کرتے تھے کہ صلح ہوتا کہ آئندہ خون خرابے کی نوبت نہ آئے۔ صلح ہو گئی، طے پایا کہ اس صلح کو مضبوط کرنے کے لئے صباحت خان کی بیٹی کندن کی شادی میرے چھوٹے بھائی بخت پاشا سے ہو گی۔ بڑے بھائی تو جانے کہاں روپوش ہو گئے سواب ہم لوگوں کی تمام خوشیاں چھوٹے بھائی سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ یوں، کندن جس کی خاطر بڑے بھیانے بن باس لیا تھا، اس کی شادی بخت پاشا سے ہو گئی۔ یہ صلح کی خاطر فیصلہ ہوا تھا اور برادری کی موجودگی میں ، مردوں میں ہو گیا۔ والدہ اس معاملے بارے کچھ نہ بول سکتی تھیں۔ شاید یہی تقدیر میں لکھا تھا۔ کندن ہمارے گھر میں بہو بن کر آگئی اور اب ہمارے گھر ان کی عزت اور میری بھا بھی تھی۔ اس نے نجانے کتنی دُعائیں کی تھیں کہ وہ ہمارے گھر کی بہو بنے۔ خدا نے اس کی دُعائیں سُن لیں لیکن جس کی دلہن بنا چاہتی تھی اس کی نہ بن سکی۔ بڑے بھائی اگر رابطے میں ہوتے یا وطن میں موجود ہوتے تب شاید ان کی ہی مراد بر آتی، مگر وہ تو لا پتا تھے اور یہ ان کی غلطی تھی۔
کندن پر خدا جانے کیا بیتی ہو گی مگر وہ مجبور تھی کہ اس کے والد ایک سخت گر باپ تھے۔ وہ ان کے سامنے منہ نہیں کھول سکتی تھی۔ میں جانتی تھی اپنی بھابی کا دکھ ، لیکن میں بھی ایک مجبور لڑکی تھی۔ میرے سینے میں ایک راز دفن تھا ۔ اس راز کو کسی کے آگے افشا کرنے کا مجھے حوصلہ نہ تھا جبکہ ایک بڑے دُشمن سے صلح ہونے کا معاملہ طے ہوا تھا۔ ماں بھی اسی سبب سے چُپ رہیں۔ چھوٹے بھائی کی شادی کے سات برس بعد بڑے بھیا نے ہم سے رابطہ کیا۔ ہم سب بہت خوش ہوئے کہ وہ خیریت سے اور زندہ سلامت ہیں۔ یہ خط انہوں نے سعودی عربیہ سے لکھا تھا، جہاں وہ عمرے کے ویزے پر گئے تھے۔ گھر والوں نے فورا رابطہ کر کے اصرار کیا کہ گھر آجائو ، تب وہ وطن کو روانہ ہو گئے۔ دل میں طرح طرح کے خیالات سمائے ہوئے تھے۔ تمام راستہ سوچتے آئے کہ خدا کرے کندن کی شادی نہ ہوئی ہو۔ گرچہ یہ ناممکن بات تھی اور ان کی منگیتر عالیہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھی۔ بھیا نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر کندن کی شادی ہو چکی ہو گی تو وہ ان کے علاقہ کی طرف نہ جائیں گے۔ انہی خیالات میں گم گھر پہنچے۔ پورا خاندان استقبال کو پُرجوش اور بے قرار تھا۔ ہر آنکھ نم تھی، میں خود بھی رورہی تھی۔ یہ خوشی کے آنسو تھے جو ان کو مدت بعد دیکھنے سے بہہ نکلے تھے۔
جب وہ سب سے گلے مل چکے تو والدہ پاشا کو ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے آئیں۔ کہا کہ اپنی بھابی سے صبر و تحمل کے ساتھ ملنا۔ ایسا ہم نے مجبوراً کیا کیونکہ یہ رشتہ کئے بغیر صباحت خان سے دشمنی ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ پاشا بہت خوشی کے ساتھ اپنی بھابی کے سواگت کو اس کے کمرے میں والدہ کے ہمراہ گئے مگر چہرے پر نظر پڑتے ہی اُن کے دل کی موت واقع ہو گئی ، جیسے زلزلہ آکر سبھی کچھ کھنڈر بنا گیا۔ ایسے ان کی رُوح میں دھماکہ ہوا کہ جس کی آواز صرف میں ہی سُن سکتی تھی۔ وہ جہاں کھڑے تھے وہیں جھول گئے۔ والدہ تھام نہ لیتیں تو گر پڑتے۔ میں اور امی ان کو ان کے کمرے میں لے گئے۔ وہ بستر پر لیٹ گئے اور اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ امی سے کہا کہ کمرے کا دروازہ بند کرتی جائیں، میں سونا چاہتا ہوں۔ وہ یقیناً اپنے آنسو چھپارہے تھے کہ جن کی وجہ سے ان کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ والدہ کو بھی معلوم تھا کہ ان کے بیٹے پر کون سی قیامت گزر گئی ہے، لہذا انہوں نے پاشا بھائی سے کوئی کلام نہیں کیا۔ کندن نے میرے بڑے بھائی کو دیکھ کر نظریں جھکالی تھیں۔ دو دن بھیا اپنے کمرے میں رہے۔ طبیعت کی خرابی تو ایک بہانہ تھی بالآخر سب گھر والے خیریت دریافت کرنے ان کے کمرے میں گئے۔ اب گھر والوں نے اُن کو گھیر لیا۔ سبھی کی زبان پر یہی ایک سوال تھا کہ سچ بتائو گھر سے کیوں اور کس سے ناراض ہو کر گئے تھے ؟ یہ ایسا سوال تھا کہ جس کا جواب بھائی کے پاس نہیں تھا۔ بالآخر انہوں نے کہا کہ میں نے کسی کی خاطر دُنیا کی خاک نہیں چھانی۔ اب تک میں یہی سوچ رہی تھی کہ کاش ! بڑے بھائی اس طرح گھر چھوڑ کر نہ جاتے تو شاید والدہ کوشش کر کے ان کا رشتہ کندن سے کروا دیتیں کہ والدہ کو ان کی خوشی پیاری تھی اور دشمن سے صلح، عالیہ سے منگنی ختم کرنے کا بہانہ بن سکتی تھی۔
اب گھر میں رہنا پاشا بھائی کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ برسوں بعد گھر لوٹ کر آنا، مگر ماں کی ریاضت پھیکی پڑگئی کہ وہ یہاں مدت بعد آکر بھی خوشی کا منہ نہ دیکھ سکے۔ بے شک کندن بھابھی بھی ایسے ہی عذاب میں گرفتار تھی، مگر وہ تو صلح کے بدلے آئی تھی۔ وہ عورت تھی، جس کو اپنے جذبات چھپانے کی تربیت بچپن سے ملی تھی۔ ماں نے اصرار کیا کہ اب بڑے بیٹے کا گھر بس جانا چاہئے۔ منگیتر کو ابھی تک ان کا انتظار تھا۔ بھلا اس بچاری کا کیا قصور تھا۔ والد ، چچا اور خاص طور پر چچی بیٹی کے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے تھے۔ ماں نے پاشا بھائی سے کہا۔ بیٹا اب تم کس سوچ میں ہو ؟ اپنے چاچا اور منگیتر پر رحم کرو۔ اس فرض کو ادا ہونے دو تا کہ ہم تیرا سہرا سجانے کی تیاریاں کریں۔ بڑے بھیا شادی نہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ تو اب یہاں رہنا ہی نہ چاہتے تھے مگر ماں کے آنسوئوں نے مجبور کیا۔ آپ کیا جانیں دیہاتی ماحول اور دیہات کے باشندے کیسے ہوتے ہیں، بہرحال بھیا بولے ۔ ٹھیک ہے ماں تم اپنی خوشی پوری کرو۔ میرے سر پر سہرا باندھ لو، لیکن میں یہاں نہیں رہوں گا۔ مجھے واپس جانا ہی ہے۔ پھر مجھ سے شکایت مت کرنا مجھے بددعا بھی مت دینا۔ بیٹا کون سی ممتا ہو گی جو اپنے لخت جگر کو بد دعا دے گی۔ تم ایک بار اپنی منگیتر کو دلہن بنالو۔ بے شک اس کے بعد جہاں چاہو چلے جانا۔ کم از کم وہ کنواری سے بیاہی تو کہلائے گی۔ تیرا چاچا سکون سے تو مر سکے گا۔ بڑے بھیا نے والدین کی خوشی کے لئے ، ان کے مجبور کرنے پر سہرا باندھ لیا اور عالیہ میری بھابھی بن کر آگئی۔ کیا بتائوں کہ وہ اس دن کتنی خوش تھی، جس روز دُلہن بنی تھی۔ اس خوشی سے ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا۔ بعض لوگ بڑی مدت تک خوشیوں کا انتظار کرتے ہیں، مگر یہ خوشیاں عارضی ہوتی ہیں۔ بہت تھوڑے عرصے کے لئے ، ان کی خوشی کے پھول کھلتے ہیں اور پھر دل کی کلیاں مرجھا جاتی ہیں، ایسے ہی نصیب ہماری عالیہ بھابھی کے تھے۔ ولیمے کے بعد بڑے بھٹیا نے اپنا بیگ تیار کیا اور کسی کو بھی خدا حافظ کہے بغیر چلے گئے اور وہ آج تک واپس نہیں لوٹے، تیس برس گزر گئے۔ کون جانے ہماری عالیہ بھابھی نے یہ مدت ، یہ پہاڑ سے سال، کتنی صدیاں سمجھ کر گزارے ہیں ۔ یہ تو ان ہی کا دل جانتا ہے کہ جن کو اب سبھی نصیبوں جلی کہتے ہیں۔