ایملی ہاتھ میں ٹوکری اٹھائے ہوئے بچوں کے ساتھ دروازے کی طرف جارہی تھی۔ لیمپ ایک ایک کرکے بجھائے جارہے تھے، میزوں کو صاف کیا جارہا تھا، بینڈ والے اپنی بساط سمیٹ رہے تھے اور لوگ ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔ باہر رات اور سرد ہوا تھی جو رخساروں میں خنکی بھر رہی تھی۔ سیاہ آسمان پر جڑے ستارے ٹمٹا رہے تھے۔
’’مس ایملی!‘‘ وہ اپنا نام سن کر پلٹی۔ مسز لنڈا اس سے مخاطب تھی۔ ’’تم تھوڑی دیر کے لیے اندر آئو گی۔ تم کوئی چیز بھول گئی ہو۔‘‘
’’بچو! تم انکل ولیم کے پاس ویگن میں چلو، میں ایک منٹ میں آتی ہوں۔‘‘ ایملی نے ٹوکری میریان کو دیتے ہوئے کہا۔
وہ مسز ولیم کے ساتھ اندر ایک ہال میں آگئی جو صرف ایک لیمپ کے روشن ہونے کی وجہ سے نیم تاریک سا معلوم ہو رہا تھا۔ ’’ہاں! میں کیا بھول گئی تھی؟‘‘ ایملی نے ہلکے پھلکے لہجے میں پوچھا۔
وہاں مسز لنڈا کے علاوہ چند اور خواتین بھی تھیں جن میں سے وہ ایک آدھ کو ہی جانتی تھی۔
’’مس ایملی! ہم لوگ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ مسز لنڈا نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ ’’یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میرا اس سے کیا تعلق ہے؟‘‘ ایملی نے ناگواری سے کہا۔ ’’آپ نے جو کہنا ہے، جلدی کہیں، باہر بچے میرا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ اس نے اپنا بازو اس کی گرفت سے چھڑانا چاہا لیکن اس نے اور مضبوطی سے تھام لیا۔
’’ہمیں اپنی تہذیب اور اخلاقیات بہت عزیز ہیں۔ اس بارے میں ہم بہت حساس ہیں۔ ہمیں ان کا خیال رکھنا ہے۔‘‘ ایک خاتون نے کہا۔
’’میرا بازو چھوڑو۔‘‘ ایملی نے اپنے بازو کو جھٹکا دیا۔ اس نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔ ایملی نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’میں نے کچھ ایسا نہیں کیا جس کے بارے میں آپ لوگ اس طرح بات کررہے ہیں۔‘‘
’’یہاں ہمارے کچھ معیار ہیں جن کی تمہیں خبر ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں ایسی تقریبات میں ملازم شریک نہیں ہوتے، ان کے لیے ان کی اپنی تقریبات ہیں۔‘‘
ایملی کو ان لفظوں نے سخت دھچکا لگایا۔ شدید طیش کے عالم میں اس کے اندر ایک ابال سا اٹھا لیکن اس نے اپنے لہجے کو پھر بھی نرم بنایا۔ ’’محترمہ! میں یہاں کسی کی ملازم نہیں ہوں۔ میں رضاکارانہ طور پر بچوں کو سنبھال رہی ہوں۔ آئندہ آپ میں سے کوئی مجھ سے اس قسم کی بات کرنے کی جرأت نہ کرے۔ سمجھیں آپ…‘‘ اس نے ایک خشمگیں نگاہ ان پر ڈالی اور سر اٹھائے تیز قدموں سے باہر آگئی۔
وہ بغیر کچھ کہے آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ بچوں کے سامنے کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی لیکن اس کا وجود کھول رہا تھا۔ اس توہین نے اسے مضطرب کردیا تھا۔ ولیم کو ان اصولوں کی خبر ہونی چاہیے تھی۔ اس نے اسے اس تقریب میں آنے کے لیے کیوں کہا تھا جہاں اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ وہ تمام راستے خاموش رہی۔ بچوں کے سوالات کا بھی اس نے ’’ہوں ہاں‘‘ میں جواب دیا۔ اسے باربار ان خواتین کا توہین آمیز رویہ کچوکے لگا رہا تھا۔
گھر آکر اس نے بچوں کے کپڑے بدلوا کر انہیں بستر میں لٹایا۔ وہ شرارت کے موڈ میں تھے، اس سے باتیں کرنا چاہتے تھے لیکن ایملی نے انہیں سونے پر مجبور کیا اور لیمپ بجھا کر نیچے لائونج میں چلی آئی۔
ولیم اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھا پائپ سلگا رہا تھا۔ نیلا دھواں اس کے سر کے گرد گھوم رہا تھا۔ ایملی چند لمحے اس کی جانب تکتی رہی، پھر تنے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘ پھر چند لمحے توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’کیا میں یہاں ایک ملازمہ ہوں؟‘‘
ولیم نے آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’کیوں … تمہیں یہ خیال کیسے آیا؟‘‘
’’میں پوچھ رہی ہوں کہ کیا میں تمہاری ملازمہ ہوں؟‘‘
’’ایک ہائوس کیپر کو ملازم بھی کہا جاسکتا ہے۔‘‘ وہ بے نیازی سے بولا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ایملی نے ترش لہجے میں کہا۔ ’’تو پھر یہاں ملازموں کے تقریبات میں شریک ہونے کے بارے میں کیا قوانین ہیں؟‘‘
’’مجھے کوئی خاص علم نہیں ہے، اس بارے میں۔‘‘
’’تمہیں کیوں علم نہیں ہے، اپنی تہذیب کے بارے میں؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تم نے مجھے اس تقریب میں آنے کے لیے کیوں کہا تھا جہاں میری توہین کی گئی۔‘‘
’’تمہیں کسی نے کچھ
کہا؟‘‘ ولیم نے اپنا پائپ نیچے رکھ دیا۔
’’ہاں! تمہاری اسی مسز لنڈا اور اس کے ساتھ دوسری خواتین نے میری توہین کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک ملازمہ ہوں اس لیے مجھے اس تقریب میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ملازمین کی پارٹیاں علیحدہ ہوتی ہیں۔‘‘ اس کا سانس تیز چل رہا تھا اور وہ غصے میں کھول رہی تھی۔
’’تم خود کو پریشان مت کرو۔ یہ ان کی حماقت تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم جاکر سو جائو۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
’’تمہیں میری عزت کی کوئی پروا نہیں۔ تم خود کو کیا سمجھتے ہو۔ میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں جو تم مجھ پر حکم چلا رہے ہو۔‘‘ وہ روہانسی ہورہی تھی۔
’’خواہ مخواہ مجھ سے تکرار نہ کرو ایملی۔ جائو جاکر سو جائو۔‘‘
’’میرا جو دل چاہے گا، کہوں گی۔ میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’ایملی! جائو اپنے کمرے میں۔‘‘ وہ دانت بھینچ کر بولا، جیسے غصہ ضبط کررہا ہو۔
چند لمحے ایملی اپنی جگہ کھڑی اس کو گھورتی رہی۔ پھر اس نے لیمپ اٹھایا اور زینے پر قدم رکھ کر قدرے بلند آواز میں بولی۔ ’’تم جانتے تھے… تمہیں معلوم تھا کہ یہ سب ہوگا لیکن تمہیں پروا ہی نہیں کسی کے جذبات کی، کسی کی عزت نفس کی۔‘‘
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایملی کو تسلی تھی کہ اس نے دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔ کم ازکم اسے اتنا تو کہنا ہی چاہیے۔ اس کی جو توہین ہوئی تھی، اس کے لیے کچھ تو احتجاج کرنا چاہیے تھا۔
’’ایملی!‘‘ عقب سے ولیم کی آواز پر وہ ٹھٹھک گئی۔ لیمپ اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ بھی چند سیڑھیاں اوپر چڑھ آیا تھا۔
’’کسی عورت کو جرأت نہیں کہ وہ اس طرح سے بات کرے۔ تم خود کو ہم سے بہتر سمجھتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ایملی نے اعتماد کے ساتھ کہا۔
’’ہوں۔‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولا اور چند سیڑھیاں طے کرکے اس کے قریب آنے لگا۔ لیمپ کی روشنی میں وہ عجیب سا نظر آرہا تھا۔
ایملی گھبرائی۔ یہ اٹھارہویں صدی تھی جہاں خواتین کی حفاظت کرنے والے قوانین نہیں تھے۔ وہ خوف زدہ ہوئی کہ وہ تنہا اس کے رحم و کرم پر تھی۔ وہ اس کا مقابلہ کرسکتی تھی، نہ یہاں کوئی ایسا تھا جو اس کی حفاظت کرتا۔ لیکن اس نے اپنا خوف اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور ہمت کرکے اپنے قدموں پر جمی رہی۔
ولیم ایک زینہ اور اوپر چڑھا۔
’’خبردار! میرے قریب نہ آنا۔‘‘ ایملی نے اپنے خوف کو دبانے کے لیے کہا۔
مگر وہ رکا نہیں۔ ایک ایک زینہ چڑھتا اس کے قریب آنے لگا۔ لیمپ کی تھرتھراتی روشنی میں اس کا سنگین چہرہ اسے خوف زدہ کررہا تھا۔ وہ رکا نہیں، ایک اور سیڑھی چڑھا۔
’’اگر تم…‘‘ ایملی نے کہنا چاہا لیکن وہ بالکل اس کے برابر پہنچ چکا تھا اور اپنی نیلی آنکھوں سے اسے کڑی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایملی سانس روک کر خود کو سہارا دینے کے لیے دیوار کے ساتھ لگ گئی ورنہ وہ شاید گر پڑتی۔
’’تم جانتی نہیں کہ ان عورتوں نے جو کچھ کیا، اس میں میرا کوئی دخل نہیں۔ میں تمہیں ملازمہ نہیں سمجھتا۔ تم گھر کی ایک فرد ہو۔ تم نے اس گھر کو رہنے کے قابل بنا دیا ہے۔‘‘ وہ بعض لفظ رک رک کر ادا کررہا تھا اور کئی اَن کہی باتیں اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ایسی باتیں جنہیں ایملی اس کی زبانی سننا چاہتی تھی مگر ولیم کہہ نہیں پایا تھا۔
ایملی کے ہاتھ میں موجود لیمپ لرز رہا تھا۔ ایسی باتوں کو برداشت کرنا بہت دشوار ہو چلا تھا۔ اس نے قدم بڑھایا کہ اپنے کمرے میں داخل ہوجائے مگر وہ اس کے راستے میں حائل ہوگیا اور اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ ’’آئندہ ایسی بات مت سوچنا۔‘‘
٭…٭…٭
اگلی صبح ایک انجانی سی خوشی ایملی کے اندر پھوٹ رہی تھی جو اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک بن گئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ محبت میں گرفتار ہوگئی ہے۔ مغرور ولیم کی شاندار شخصیت کے پرت کھلے تھے تو وہ اس کے دل کے بہت قریب ہوگیا تھا۔ اب یہ بات حقیقت نہیں رکھتی تھی کہ حالات کیا تھے، زمانہ کون سا تھا اور وقت الٹی چال چلتا ایک صدی پیچھے آگیا تھا۔ اب صرف ولیم ہی سب کچھ تھا۔
جب وہ شام پانچ بجے واپس آیا تو ایملی نے مسکراتے ہوئے اس کے لیے دروازہ کھولا۔ اس کا ہیٹ اور دستانے تھامتے ہوئے اسے ’’ہیلو‘‘ کہا۔
’’ہیلو۔ ایملی!‘‘ وہ بولا۔ ہمیشہ کی طرح وہ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال اور گہری نیلی آنکھیں، جادو
مسحور کردینے والی تھیں۔
’’تمہارے پاس تھوڑا سا وقت ہوگا؟‘‘ وہ بولا۔ ’’تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
’’کیا بات؟‘‘ ایملی نے پوچھا۔
’’ادھر آئو۔‘‘ وہ اسے بازو سے پکڑ کر لائونج میں لے آیا اور ایک صوفے پر بٹھا دیا اور پھر بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔
ایملی نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’خیریت تو ہے؟‘‘
’’دیکھو ایملی! میں ابھی کسی کو بھیجتا ہوں کہ شہر سے فادر کو لے آئے پھر ہم شادی کرلیں گے۔‘‘
’’نہیں ولیم!‘‘ ایملی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’میں ایسا نہیں کرسکتی۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوکر بولا۔
’’میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ولیم۔ یہ میرا زمانہ نہیں ہے، یہ میرا گھر نہیں ہے۔ مجھے واپس جانا ہوگا۔ نہ جانے کب میں اسی طرح سب کچھ چھوڑ کر چلی جائوں جس طرح میں یہاں آگئی تھی۔ میرا اس دور سے، اس صدی سے تعلق نہیں ہے۔‘‘
’’ایملی!‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
’’نہیں ولیم! تم کچھ بھی کہو، اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ میں اس موضوع پر پھر تم سے بات کروں گی تاکہ تم میرا مسئلہ سمجھ سکو۔‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ گرم آنسو اس کی آنکھوں میں سلگ رہے تھے۔ وہ روتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ روش طے کرتی مرکزی دروازے سے باہر نکل آئی اور غیر ارادی طور پر کسی سمت کا تعین کئے بغیر بھاگتی چلی گئی۔
یہاں تک کہ اس کا سانس پھول گیا لیکن وہ بھاگتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ اس طرح بھاگتے بھاگتے اسے اپنے گھر کا راستہ مل جائے گا۔ جیسے جیسے تھکتی گئی، اس کے قدموں کی تیزی میں کمی آتی گئی۔ اس کے آنسوئوں کی روانی بڑھتی گئی۔ سورج اس کے سر پر چمک رہا تھا۔
وہ ریل کے اس راستے تک پہنچنا چاہتی تھی جہاں اب تک جائے حادثہ پر سب کچھ اسی شکستہ حالت میں پڑا تھا۔ شاید کسی ذریعے سے وہ اپنے زمانے، اپنے وقت میں پہنچ جائے۔ اس شادی کا کوئی انجام نہیں تھا۔ یہ محبت بے ثمر تھی جس کا نصیب بچھڑ جانا تھا۔ یہ ولیم اور بچوں کے ساتھ بھی زیادتی تھی۔ اونچے نیچے راستوں پر اس کے پائوں پھسل رہے تھے اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر رہے تھے۔ وہ اپنے آنسو اپنی انگلیوں سے صاف کررہی تھی۔
سورج اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔ اب وہ غروب کی منزل کی طرف جارہا تھا۔ اسے چلتے رہنا تھا، آگے بڑھتے رہنا تھا۔ اگر وہ واپس چلی جاتی اور محبت کی ادھوری کہانی میں رنگ بھرتی تو شاید ہمیشہ کے لیے کھو کر رہ جاتی۔ اس دنیا سے بہت دور جو اس کی دنیا تھی، اسے اپنے گھر جانا تھا۔ ہر حالت میں گھر جانا تھا۔ وہ خود کو ماضی میں گم نہیں کرسکتی تھی۔
ابھی تک وہ جگہ اسے نظر نہیں آئی تھی لیکن راستے میں آنے والی نشانیوں سے اسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ صحیح سمت میں جارہی ہے۔ دریا پر بنا ہوا پل، شہر کی طرف جانے والی سڑک اور ساتھ ساتھ بہتا دریا… وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی اپنی منزل پر پہنچ سکتی تھی جہاں یقیناً اس کے لیے کوئی دروازہ کھل جائے گا جہاں سے وہ اپنے زمانے، اپنے وقت میں داخل ہوجائے گی۔ کبھی نہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے لیے…!
وہ بہت تھک گئی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر ٹھہر کر آرام کرلے تاکہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ وہ ایک باڑ کا سہارا لے کر رک گئی کہ اچانک کسی نادیدہ قوت نے اس کا سر پیچھے کی طرف موڑ دیا۔ وہ اب سامنے دیکھنے کے بجائے پیچھے دیکھ رہی تھی۔ ایک بار پھر ماضی اس کے سامنے تھا جس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے اتنا سفر کیا تھا۔
اس وقت ایملی نے اس کو دیکھا۔ وہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا چلا آرہا تھا۔ سورج کی آخری کرنوں میں اس کے گھوڑے کے سموں سے اُٹھنے والا غبار سنہری معلوم ہورہا تھا۔ ایملی کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا۔ وہ پریشان ہوگئی۔ اسے پیچھے نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ وہ کہیں پتھر کی نہ ہوجائے، کہیں ماضی کے اس لمحے میں منجمد نہ ہوجائے۔
بھاگو۔ بھاگو! اس کے دماغ نے کہا لیکن وہ ایک قدم بھی نہ اٹھا سکی، وہیں ساکت ہوکر رہ گئی۔ اس کے اندر کوئی کہنے لگا کہ ولیم کو آنے دو… خود کو اس کی محبت میں کھو جانے دو… یہی زندگی ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نہ ماضی، نہ حال، نہ مستقبل۔
اگلے ہی لمحے ولیم وہاں موجود تھا۔ وہ چھلانگ لگا کر گھوڑے سے اترا اور اس کی لگامیں کھلی چھوڑ دیں۔ ایملی میں اپنی جگہ سے ہلنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ کھلی آنکھوں سے ساکت کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی
پلکیں خوشی کے آنسوئوں سے بھیگ رہی تھیں۔ ولیم کو اس کی پروا تھی، اس کے دل میں بھی محبت تھی، تب ہی وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔
وہ قریب آیا، بہت قریب اور بولا۔ ’’تم احمق عورت… پاگل ہوگئی ہو۔‘‘ اس کی آواز میں جھنجھلاہٹ اور غصہ تھا۔ ’’بے وقوف! تم اپنی طرف کہاں جارہی ہو۔ تم کیا کررہی ہو؟‘‘
’’میں گھر جارہی تھی ولیم، اپنے گھر۔‘‘ وہ رک رک کر بولی۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ ولیم کو اپنی بات کبھی نہیں سمجھا سکے گی۔
’’تمہارا گھر اب میرے ساتھ ہے۔ بچوں کے ساتھ ہے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ ایملی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی ولیم نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھایا اور گھوڑے پر بٹھا دیا۔ وہ اچک کر خود گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ مستقبل کی امید پیچھے رہ گئی اور ماضی کی جانب سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا۔
٭…٭…٭
شام کو ایک بار پھر ولیم اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’ایملی! دیکھو اب دوبارہ بھاگ نہ جانا۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ایملی نے اپنی چیزیں ایک طرف رکھیں۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔
’’ہاں۔ میں تم سے کہنا چاہتا تھا کہ تم ایک مرتبہ پھر میری تجویز پر غور کرو۔‘‘ وہ فرش کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے مناسب ہیں۔‘‘
ایملی نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’ولیم! میں اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ شادی کامیاب نہیں ہوگی۔‘‘
’’تم جہاں سے تعلق رکھتی ہو، کیا وہاں کوئی ایسا ہے جسے تم…‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’نہیں۔ ایسا کوئی نہیں ہے لیکن میں اس ماحول میں ہمیشہ کے لیے خود کو نہیں بسا سکتی۔ میں اصل میں ایک بڑے شہر اور جدید دنیا کی لڑکی ہوں۔‘‘
’’تم جہاں جانا چاہتی ہو، میں تمہیں وہاں کا ٹکٹ لے دوں گا۔ تم وہاں جاکر اپنے معاملات سمیٹ کر واپس آجانا۔ ہم تمہارا انتظار کریں گے۔‘‘ اس نے کہا اور پھر تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ ’’تم مجھ سے شادی کرو یا نہ کرو ایملی لیکن میرے پاس واپس ضرور آجانا۔ پلیز! مجھ سے دور نہ چلی جانا۔‘‘
’’یہ اتنا آسان نہیں ہے، جتنا تم سمجھ رہے ہو۔ میرا وعدہ ہے کہ میں اب تم سے دور نہیں بھاگوں گی۔ جب مجھے یقین ہوجائے گا کہ میں واپس اپنی دنیا میں جاسکتی ہوں تو میں تمہیں بتا دوں گی۔ تم اور بچے مجھے الوداع کہنے میرے ساتھ چلنا۔ ہم ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے۔ میں تمہیں یاد رکھوں گی۔ ہمیشہ ہمیشہ۔ چاہے میں تم سے کتنے ہی زمانوں کے فاصلے پر رہوں۔‘‘
’’ایسا کب ہوگا؟‘‘
وہ اس کی شکوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں کا سامنا نہیں کرسکی۔ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولی۔ ’’ابھی میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘
’’دیکھو ایملی! میں نے آج تک کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ نہ کبھی کسی کی منت سماجت کی۔ میں تمہارے لیے جس حد تک جاسکتا تھا، چلا گیا ہوں اور بس… میں تمہیں کبھی مجبور نہیں کروں گا۔ تم اپنے بارے میں بہتر سمجھتی ہو۔‘‘
’’شکریہ ولیم۔‘‘ ایملی بس اتنا ہی کہہ سکی۔
’’تو پھر اب بھی تم میری ہائوس کیپر ہو؟‘‘
’’ہاں۔ اس سے کچھ زیادہ شاید… تمہاری دوست۔‘‘
’’میری دوست…‘‘ وہ طنزیہ ہنسی ہنسا۔ ’’اور یہ دوستی کب تک چلے گی؟‘‘ وہ پلٹ کر دور جاکھڑا ہوا۔ اس کے انداز میں تنائو تھا۔
’’ولیم!‘‘ ایملی نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی۔
ولیم نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا مزاج برہم تھا۔ ’’تم اور تمہارے جدید طور طریقے ایملی… تم شادی نہیں کرنا چاہتیں اور یہاں دوست کے طور پر رہنا چاہتی ہو۔ یہ ایسی بات ہے جو یہاں پسند نہیں کی جاتی۔ لوگ جو کچھ کہیں گے، وہ یقیناً تمہیں پسند نہیں آئے گا۔‘‘
’’تو پھر بہتر یہی ہے کہ میں یہاں سے کہیں اور چلی جائوں۔‘‘
’’تم نے پہلے بھی تو کوشش کی تھی۔‘‘ اس کا لہجہ تلخ تھا۔
’’لیکن اب مجھے جانا ہوگا، اس جگہ کو چھوڑنا ہوگا۔‘‘
وہ اس کے قریب آکر بولا۔ ’’تم اپنے حواسوں میں تو ہو۔ آخر تم کیا سوچ رہی ہو؟ خدا کے لیے مجھے بتائو تو تمہارے دل میں کیا ہے؟ تم کوئی کمسن لڑکی تو ہو نہیں جسے خبر نہ ہو کہ اس کے ذہن میں، اس کے دل میں کیا ہے؟‘‘
ایملی نے آہستہ آہستہ اپنی پلکیں اٹھائیں۔ اس کی نیلی آنکھیں، اس کی آنکھوں کی منتظر تھیں کہ نگاہوں سے کچھ بات کرسکیں۔ وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر نگاہوں نے جو کہا، وہ اس کے لبوں پر آیا۔ ’’ایملی! میں تمہیں
گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اپنا اور صرف اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہوں۔ میرا دل تمہاری محبت سے آباد ہے۔ میرا گھر تمہارے بغیر سُونا ہے۔‘‘
’’میں تمہیں ہمیشہ اپنے دل میں رکھوں گی ولیم… تم پہلے مرد ہو جس سے میں نے پیار کیا ہے۔ صرف تم سے۔‘‘ وہ سرگوشی کے انداز میں بولی جیسے اندیشہ ہو کہ کوئی سن نہ لے۔
’’رو کیوں رہی ہو؟‘‘ ولیم نے پوچھا۔ ایملی کو احساس ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
’’پتا نہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسوئوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں کبھی اتنا نہیں روئی تھی لیکن اب یہاں کی ہر چیز، ہر بات مجھے رُلا دیتی ہے۔ نہ جانے کیوں؟‘‘
’’اوہ! تم عورتیں بھی۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’تم مرد بھی تو رونا چاہتے ہو لیکن رو نہیں سکتے۔ تم اسے کمزوری سمجھتے ہو۔‘‘
’’ہاں۔ شاید!‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’ہماری اس محبت کا انجام کیا ہوگا ولیم؟‘‘ ایک بار پھر اس کی پلکیں بھیگ رہی تھیں۔
’’شش… کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔‘‘
٭…٭…٭
اس دن موسم کافی گرم تھا۔ وہ برآمدے میں بیٹھے غروب آفتاب کا منظر دیکھ رہے تھے۔ ڈوبتے سورج کی شفق میں نہائی کرنیں ولیم کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ اس کی نیلی آنکھوں کے رنگ پل پل بدل رہے تھے۔ اس کے سبک نقوش، شانوں تک بکھرے ہوئے گھنگھریالے بال، وہ بے حد وجیہ اور خوبصورت تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ یہیں رہ جائے ولیم کی دنیا، اس کے زمانے میں تو وہ بہت محبت کرنے والا شوہر ہوگا، اس کا بہت خیال رکھنے والا… اس آنگن میں اس کے بچے دوسرے بچوں کے ساتھ بڑے ہوں گے۔ وہ ان کے لیے گھر کو سجائے سنوارے گی۔ وہ سارے کام کرے گی جو عورتیں صدیوں سے کرتی آئی ہیں لیکن کیا یہ سب اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہوگا؟
ولیم اخبار پڑھ رہا تھا۔ اس نے اچانک اخبار کو میز پر زور سے رکھ دیا اور اپنے پائپ کی راکھ جھاڑتا ہوا غصے سے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ ایملی نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ بولا۔
ایملی نے اخبار اٹھا لیا اور پہلے صفحے کی سرخی دیکھنے لگی۔ معاشی بحران کی خبریں نمایاں تھیں۔ چاندی کے ذخائر کی خریداری، سونے کے ذخائر میں کمی، بینکوں کی ابتر حالت… وہ ساری باتیں جو اکیسویں صدی میں تاریخ کا حصہ تھیں اور جن کے بارے میں وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی لیکن یہاں کوئی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ان کے یہاں یہ تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی عورت معاشیات میں دخل دے، پھر بھی اسے کوشش تو کرنی چاہیے تھی۔
’’ولیم۔‘‘ اس نے اخبار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم اس کے لیے پریشان ہو؟‘‘
’’ظاہر ہے۔ کوئی بھی شخص اس سے لاتعلق کس طرح رہ سکتا ہے۔‘‘
’’دیکھو۔ اس کو اس انداز میں بھی لیا جاسکتا ہے۔‘‘ ایملی نے بہت محتاط انداز میں کچھ موٹی موٹی باتوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’دیکھو ایملی! میں نے پہلے بھی تمہیں بتایا ہے کہ یہ میرا مسئلہ ہے۔ تمہیں اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’مگر میری ایک بات ضرور سن لو ولیم۔ اگر بینک دیوالیہ ہوگیا تو تم لوگ مصیبت میں پھنس جائو گے۔‘‘
’’ہاں۔ مگر بینکر ایک مضبوط آدمی ہے۔ وہ اتنا بے خبر اور لاپروا نہیں۔‘‘
’’تو پھر یقیناً پہلے وہ اپنا فائدہ سوچے گا؟‘‘
’’ایملی… ایملی۔ اس قصے کو بھول جائو۔ یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
’’یہ میرا مسئلہ ہے، میرا بھی اس سے تعلق ہے۔ مجھے تمہاری اور بچوں کی فکر ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تم لوگوں کے ساتھ یا تمہارے فارم کے ساتھ کچھ غلط ہو۔‘‘
’’ہم اسے ٹھیک کرلیں گے۔‘‘
’’لیکن ولیم… میں تمہاری مدد کرسکتی ہوں۔‘‘ ایملی نے کہا۔ ’’میں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ اس نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ ’’وہی ڈگری جس کا ذکر تم اکثر کرتی رہتی ہو اور وہ بینک جہاں تم کام کرتی تھیں؟ وہ تمہارے ذہن میں نہ جانے کیسے جم گیا ہے۔ ان تمام تصوراتی چیزوں کے ساتھ تم مدد کرو گی لیکن تم لوگوں کو کیسے روک سکتی ہو کہ وہ بینک سے پیسہ نہ نکلوائیں؟‘‘
ایملی کچھ کہنے والی تھی کہ تینوں بچے دوڑتے ہوئے آئے۔ ’’انکل ولیم… انکل ولیم! ہم نے ڈیزی کا ننھا بچہ دیکھا ہے۔‘‘ وہ بڑے جوش سے بولے۔
’’وہ بہت ہی پیارا ہے۔‘‘ میریان نے خوش ہوکر کہا۔
’’وہ باربار گر پڑتا ہے۔ بیچارہ چل ہی نہیں سکتا۔‘‘ چھوٹا بولا۔
’’وہ ابھی بہت چھوٹا ہے، اس کی ٹانگیں کمزور ہیں۔‘‘ جیسکا نے اسے بتایا۔
’’میں اسے
دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ ایملی نے اشتیاق سے کہا۔ پھر بچوں کی طرف دیکھ کر بولی۔ ’’پہلے تم تینوں کو سلا دوں۔‘‘
جب بچے سو گئے تو ایملی، ولیم کے ساتھ اصطبل کی طرف چل پڑی۔ ولیم نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ اس کی مدھم روشنی میں چیزوں کے سائے لمبے لمبے نظر آرہے تھے۔ تاریکی میں ولیم اس کے ساتھ ساتھ قدم اٹھا رہا تھا۔
’’میں نے کبھی گھوڑے کا نوزائیدہ بچہ نہیں دیکھا۔‘‘ ایملی نے کہا۔
’’کیوں۔ کیا وہاں گھوڑے نہیں ہوتے؟‘‘
’’ہاں۔ ہوتے ہیں لیکن بچے نہیں۔‘‘
اصطبل قریب آگیا تھا اور وہ بڑا کمرہ جہاں سالوں سے گھوڑے اور ان کے چھوٹے بچے رکھے جاتے تھے، سارا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ گھوڑوں کی مخصوص بو اور ان کے چارے کی خوشبو فضا میں بکھری ہوئی تھی۔ گھوڑوں کے اِدھر اُدھر پہلو بدلنے اور زمین پر سم مارنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ولیم گھوڑوں کے آخری اسٹال تک پہنچا اور اس نے لالٹین اونچی اٹھائی اور بولا۔ ’’ہیلو ڈیزی! اولڈ گرل کیسی ہو تم؟‘‘
ڈیزی اس کی آواز پہچان کر قریب آگئی اور اس نے اپنی ناک ولیم کے ہاتھ پر رگڑی۔ ولیم اس کی گردن کو پیار سے سہلانے لگا۔
’’بچہ کہاں ہے؟‘‘ ایملی نے مدھم لہجے میں پوچھا۔
اس نے لالٹین کی روشنی کو اِدھر اُدھر گھمایا تو ایک کونے میں ایک سایہ سا نظر آنے لگا۔ اس نے روشنی سے گھبرا کر اٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی۔ تھوڑی کوشش کے بعد وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگیا اور چند قدم آگے بڑھ کر اپنی ماں کے برابر کھڑا ہوگیا۔
’’اوہ! کتنا پیارا ہے۔‘‘ ایملی نے مدھم روشنی میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
دونوں کچھ دیر لکڑی کے چھجے پر جھکے ان دونوں کو دیکھتے رہے۔ ایملی کو یہ سب کسی سہانے خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ یوں تاریکی میں فطرت کو اپنی تکمیل کے عالم میں دیکھ کر ولیم کے ساتھ کھڑے ہوکر اسے اپنے جانوروں کے ساتھ محبت اور لگائو کے ساتھ پیش آتے ہوئے دیکھ کر یہ احساس کتنا حسین تھا کہ آسمان تلے دور دور تک پھیلا ہوا تمام علاقہ، مویشی، پرندے، لہلہاتی فصلیں، سرسبز باغات اور ان کا یہ رکھوالا۔ یہ سب کچھ اس کا تھا کیونکہ یہ یونانی دیوتائوں ایسا حسین اور باوقار شخص اس سے محبت کرتا تھا۔ اسے شریکِ زندگی بنانا چاہتا تھا۔
وہ شہر کی جدید اور ہنگاموں بھری زندگی چھوڑ کر سکون، محبت اور آسودگی کی تلاش میں نکلی تھی لیکن اب جبکہ یہ سب اس کی دسترس میں تھا تو اسے لگتا تھا کہ وہ روزمرہ کے یکساں معمول سے بہت جلد تنگ آجائے گی۔ وہ ایک صدی پہلے کے ماحول میں دن بھر گھر کے کام کرنے اور بچے پالنے میں زندگی نہیں گزار سکے گی۔ جہاں نہ اس کی شخصیت کی کوئی اہمیت تھی، نہ اس کی قابلیت کی۔ ولیم ہمیشہ اس سے یہی کہتا تھا کہ وہ اپنے معاملات سے خود نمٹ لے گا۔ اسے ان میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔
’’چلو۔ واپس چلتے ہیں۔‘‘ ولیم نے اس کا بازو چھوا۔
وہ اپنے خیالات سے چونک کر باہر آئی۔ اسے طلسم ٹوٹنے کا احساس ہوا۔ اس نے بے دلی سے کہا۔ ’’ہاں۔ چلو۔‘‘ حالانکہ اس رومانی تاریکی اور ستاروں بھرے آسمان کے تلے پوری زندگی گزار دینے کو دل چاہتا تھا۔
ولیم نے تاریکی میں اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے کے خدوخال ہلکے سے روشن تھے۔ اس کے ہاتھ میں موجود لالٹین کی روشنی روش پر پڑ رہی تھی تاکہ انہیں راستہ دیکھنے میں آسانی ہو۔
’’ایملی! میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔ حالانکہ مجھے اس کے لیے خود پر بہت جبر کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ہاں۔ میں جانتی ہوں۔‘‘ وہ سوچتی ہوئی آواز میں بولی۔
’’یوں لگتا ہے جیسے ساری کائنات سمٹ گئی ہے اور یہاں صرف ہم دونوں ہیں، ایک دوسرے کے لیے… کیا تمہیں وہ نغمہ سنائی نہیں دیتا جو روحوں میں گونجتا ہے اور صرف دل ہی اس کے معنی سمجھتے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہوجاتے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
معیشت میں ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا تھا۔ کیٹل مین ایسوسی ایشن کے کئی اجلاس اوپر تلے ہوئے تھے۔ قصبے کے بینک کے بند ہونے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ بینک کا سربراہ افراتفری میں جلد جلد فیصلے کررہا تھا۔ اس نے لوگوں سے قرضے واپس لینے کا اشارہ کردیا تھا۔ جن کے پاس رقم نہیں تھی، ان سے اپنے مویشی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ سونے کے ذخائر بہت کم ہوگئے تھے اور بینک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے کچھ نہ
ضروری تھا۔
ولیم صبح ہی گھر سے نکل رہا تھا تاکہ ہنگامی اجلاس میں شرکت کرسکے۔ ایملی نے اس کے گھوڑے کی لگام تھامتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو ولیم! جوش سے کام نہ لینا۔ اس وقت بہت سمجھداری کی ضرورت ہے۔ سب کو ملا کر رکھنا۔ سب کا فیصلہ بینک کے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ میں جانتی ہوں۔‘‘ تیز ہوا سے اس کے بال اُڑ رہے تھے اور اس کا لمبا اسکرٹ لہرا رہا تھا۔
ولیم مسکرایا۔ ’’واہ۔ تم بھی مجھے وعظ اور نصیحت سے لاد رہی ہو۔‘‘
’’میں سنجیدہ ہوں۔ پلیز! میری بات پر غور کرو۔ کسی کو جلدبازی نہ کرنے دینا اور پہلے دیکھنا کہ بینک کے مطالبات کیا ہیں؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہاری بات سمجھ رہا ہوں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ میرے اثرورسوخ کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں۔‘‘
’’مگر تم کوشش تو کرسکتے ہو؟‘‘
’’مجھے خوشی ہے کہ تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو۔‘‘ وہ محبت سے بولا۔
ایملی نے مسکرا کر سر ہلایا اور اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر اسے یقین دلایا کہ وہ جو کچھ سمجھ رہا ہے، وہ ٹھیک ہے۔
دوپہر تک ولیم گھر نہیں آیا۔ ایملی لمبی دوپہر میں مغرب کی طرف سے آتے ہوئے سیاہ بادلوں کو دیکھتے ہوئے اس کا انتظار کرتی رہی۔ اس نے بچوں کو کھانا کھلایا اور ولیم کا انتظار کرتی رہی۔ بارش شروع ہوگئی، آسمان پر بجلی لہریں بنانے لگی اور بادلوں کی گرج خوفناک ہوگئی۔ پہاڑوں سے پانی تیزی کے ساتھ وادیوں میں اترنے لگا۔
ایملی پریشان ہوگئی۔ یہاں موبائل فون تو ایک طرف رہا، لینڈ لائن بھی نہیں تھی کہ ولیم سے کوئی رابطہ کیا جاسکتا۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ ان کی میٹنگ میں کیا طے ہوا اور وہ اس شدید موسم میں کس طرح گھر آئے گا۔ انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے دن کو ہی شام کا سماں پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے لیمپ جلا لیا تھا جس کی لو ہوا سے تھرتھرا رہی تھی۔ اس کے کان دروازے کی طرف لگے ہوئے تھے کہ کب ولیم واپس آتا ہے۔
آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ دروازے پر ولیم کے بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی۔ بارش اب بھی ہورہی تھی، بادل گرج رہے تھے۔
’’ولیم!‘‘ وہ اس کی جانب والہانہ انداز میں بڑھی۔
وہ اپنے بڑے کوٹ میں لپٹا کھڑا تھا۔ اس کے ہیٹ کے بڑے چھجے سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس کے پائوں میں پانی اکٹھا ہوگیا تھا۔
’’میں بہت فکرمند ہوگئی تھی۔ تمہیں آنے میں بہت دیر ہوگئی۔ موسم کتنا خراب ہوگیا ہے۔ طوفان کتنا شدید تھا۔ تم بالکل ہی بھیگ گئے ہو۔‘‘
’’سانس تو لو خاتون۔‘‘ اس نے اپنا کوٹ اور ہیٹ ایک طرف رکھا اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے بوٹ اتارنے لگا۔ ’’بعض اوقات تم سوالوں کی بوچھار کردیتی ہو۔‘‘
وہ اس کا گیلا کوٹ اور بوٹ اٹھاتے ہوئے بولی۔ ’’کھانا کھائو گے؟‘‘
وہ اپنے بالوں سے پانی کے قطرے انگلیوں سے جھاڑتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’نہیں۔ ابھی نہیں۔‘‘
’’کیا تم کھانا کھا کر آئے ہو؟‘‘
’’نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ٹھہر جائو، مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
ایملی چلتے چلتے رک گئی۔ اس کا گیلا کوٹ اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ اس سے معلوم کرنا چاہتی تھی کہ میٹنگ میں کیا ہوا لیکن پوچھتے ہوئے ڈرتی تھی۔ اس کی کیفیت سے مایوسی، تھکن اور پریشانی جھلک رہی تھی۔
’’کافی مل جائے گی؟‘‘
’’ابھی بناتی ہوں۔‘‘ ایملی کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
بھاپ چھوڑتی کافی ایملی نے اس کے برابر میز پر رکھی۔ وہ چند گھونٹ لے کر بولا۔ ’’بات نہیں بن سکی۔ انہوں نے بینک بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔‘‘ اس نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔‘‘
ایملی افسردگی سے اس کی جانب تکتی رہی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ تاریخ کے دھارے میں تو یہ دور اس سے بھی زیادہ برا تھا جتنا ولیم سمجھ رہا ہے۔ اگر وہ کوشش کرے تو اس مشکل وقت کو ٹال سکتی ہے مگر کوئی اس کی بات تو سمجھے۔
٭…٭…٭
گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ ولیم اپنے کارکنوں کے ساتھ کام میں لگا ہوا تھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ دور سے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کوئی اس طرف آرہا تھا۔ آنے والا جونی تھا۔
لڑکے کا چہرہ گرمی سے سرخ ہورہا تھا۔ وہ قریب آیا۔ ’’مسٹر ولیم!‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’میرے پاپا نے مجھے بھیجا ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ بینک بند کردیا گیا ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ولیم نے حیرت اور پریشانی سے کہا۔
’’پاپا نے کہا ہے
ایک میٹنگ اور ہوگی۔ یہ بہت برا ہوا ہے مسٹر ولیم! سب لوگ پاگل ہورہے ہیں۔‘‘
’’تم اپنے پاپا سے کہہ دینا کہ میں میٹنگ میں پہنچ جائوں گا لیکن پہنچنے میں ایک گھنٹہ تو لگ جائے گا۔‘‘
’’مسٹر ولیم! ابھی میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی بتانا ہے۔ گھر پہنچ کر پاپا کو بتا دوں گا۔‘‘ لڑکے نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور مٹی کا ایک بادل اُڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
ولیم کچھ متفکر سا اندر آیا۔ اس نے ایملی کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہوگئی۔ ولیم نے اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور ایملی سے تولیہ لے کر اپنا چہرہ پونچھتا ہوا بولا۔ ’’مجھے ابھی شہر جانا ہوگا، ایک اور میٹنگ اٹینڈ کرنے۔‘‘ وہ بظاہر عام سے لہجے میں کہہ رہا تھا لیکن درحقیقت وہ فکرمند تھا۔
ایملی وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’یہ تو بہت برا ہوا ولیم۔ اب کیا ہوگا؟‘‘
’’کچھ نہیں ہوگا۔ ہم بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’لیکن دیکھو، تمہیں یہ سوچنا پڑے گا۔‘‘ ایملی نے کہنا چاہا۔
’’ایملی۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا۔ ’’تم اپنی ان باتوں سے مجھے پاگل کرکے رہو گی۔ تم اسے ہم پر چھوڑ دو خاتون، یہ مردوں کا معاملہ ہے۔‘‘
وہ اس کے ساتھ اصطبل تک آئی۔ ولیم نے اپنے گھوڑے کی زین کسی۔ ایملی نے اس معاملے سے متعلق پھر کچھ کہنا چاہا لیکن ولیم کچھ سنے بغیر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور بولا۔ ’’اسے تم چھوڑو۔ مجھے یہ بتائو کہ تم کب تک مجھ سے دامن چھڑاتی رہو گی؟‘‘
’’یہ کون سا وقت ہے ایسی بات کرنے کا ولیم… میں نے کہا ہے نا، میں جو بھی کروں گی، تمہیں اس کے بارے میں ضرور بتائوں گی کہ مجھے کب جانا ہوگا۔‘‘
’’اور شاید تم کبھی نہیں جاسکو گی۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
’’میں تمہارے لیے کھانا تیار رکھوں گی۔‘‘ ایملی نے اس کے عقب سے کہا۔
’’معلوم نہیں، میں کس وقت فارغ ہوسکوں گا۔‘‘
’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘
اس نے بغیر جواب دیئے گھوڑے کو موڑا، اسے ایڑ لگائی اور گھوڑا ہوا ہوگیا۔ ایملی اسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔
انتظار کی طویل گھڑیاں گزارنے کے بعد جب ولیم واپس آیا تو ایملی کی جان میں جان آئی۔ وہ بچوں کو سلا چکی تھی اور کھانا گرم تھا۔ ولیم نے کھانا تو کھایا لیکن ایملی دیکھ رہی تھی کہ وہ بے دلی سے اس طرح کھا رہا ہے جیسے بھوک نہ ہو۔ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا لیکن اس کی مسکراہٹ نے اس کی آنکھوں کو نہیں چھوا تھا۔ ایملی اس سے کچھ پوچھ کر اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی، اسی لیے خاموش رہی حالانکہ وہ جانتی تھی کہ ولیم پریشان ہے۔
اگلی صبح روشن اور خوبصورت تھی۔ سنہری کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف سے منعکس ہوکر سات رنگوں میں بدل رہی تھیں۔ ولیم کا موڈ اچھا تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے ان کی باتوں میں دلچسپی لے رہا تھا۔
لیکن قصبے کے ماحول میں تنائو تھا۔ ولیم نے ایملی کو بتایا تھا کہ بینک کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکا تھا۔ لوگ اپنا سونا واپس مانگ رہے تھے، اس لیے بینک کی حفاظت کے خیال سے شہر سے بندوق بردار محافظوں کو بلایا جارہا تھا جو دوپہر کی گاڑی سے قصبے میں پہنچنے والے تھے۔
ولیم کام پر جا چکا تھا۔ ایملی کچھ گھریلو خریداری کے لیے میریان کے ساتھ مارکیٹ گئی ہوئی تھی لیکن وہ دیکھ رہی تھی کہ لوگ اسٹیشن کی طرف جارہے ہیں۔
ولیم اور دونوں بچے بھی انہیں راستے میں مل گئے۔ ایملی نے فکرمند لہجے میں کہا۔ ’’ولیم! میں گھر جارہی ہوں، کہیں یہاں کوئی ہنگامہ نہ ہوجائے، بچوں کا ساتھ ہے۔‘‘
’’نہیںٖ۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا… اور بچوں کو ایسی چیزیں دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ چلتے چلتے اسٹیشن قریب آگیا جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب لوگ ان بندوق برداروں کو دیکھنا چاہتے تھے جو اس ٹرین میں آرہے تھے۔ ایک طرف گھوڑا گاڑیاں اور بگھیاں کھڑی تھیں۔ گھوڑوں کو ایک دوسرے مقام پر باندھ دیا گیا تھا۔
ایملی نے پھر ولیم کی آستین چھو کر کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں گھر چلنا چاہیے۔ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عوام کا موڈ اچھا نہیں۔‘‘
’’نہیں ابھی کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ ان کے عقب سے کسی نے کہا۔ ’’جب تک گن مین بینک کے سامنے تعینات نہیں کردیئے جاتے یا وہ حملہ کرکے کسی کی زمین یا جانوروں پر قبضہ نہیں کرلیتے،
پھر ہنگامے شروع ہوسکتے ہیں۔‘‘
پھر ٹرین کی سیٹی سنائی دی اور وہ دھواں چھوڑتی آتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ لوگ اشتیاق سے آگے بڑھتی ریل گاڑی کو دیکھنے لگے۔ ایملی نے میریان کا ہاتھ تھام کر اسے قریب کرلیا۔ ولیم نے چھوٹے کو کندھے پر بٹھا لیا اور بڑے کا ہاتھ پکڑ لیا۔
دھویں کا ایک بڑا بادل چھوڑتے ہوئے ریل گاڑی کی رفتار کم ہونے لگی۔ انجن نے دو مرتبہ سیٹی بجائی اور ٹرین ایک جھٹکے سے رک گئی۔ کنڈیکٹر نے باہر نکل کر سیڑھی اس کے ساتھ لگائی۔ دھواں ابھی تک فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ کچھ عام مسافر آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے باہر آنے لگے۔ سبھی حیرت سے باہر جمع ہجوم کو دیکھ رہے تھے جو ایک غیر معمولی بات تھی۔
پھر ایک شخص سیاہ لباس میں باہر نکلا۔ چند لمحے ٹھہر کر اس نے ہجوم پر نگاہ ڈالی اور اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ وہ لمبا، اونچا اور تنومند شخص تھا اور اس کے پہلو میں دو پستول لٹک رہے تھے۔ پھر اس کے بعد ایک کے بعد ایک ایسا ہی سیاہ یونیفارم پہنے ہوئے گن مین باہر نکلنے لگے۔ ان کے چہروں پر سنگین مسکراہٹ تھی اور ان کی آنکھیں بے تاثر تھیں جیسے قاتلوں کی ہوتی ہیں۔
’’پورے بارہ ہیں۔‘‘ ولیم نے اپنے کسی ساتھی سے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ بینک خطرہ محسوس کررہا ہے۔‘‘
’’اور اسے کرنا بھی چاہیے۔‘‘ اس کا ساتھی تلخ لہجے میں بولا۔
مجمعے پر خاموشی طاری تھی۔ تمام چہرے اسی جانب مڑے ہوئے تھے جس طرف وہ گن مین تھے۔ ایملی کو لگ رہا تھا جیسے یہ کسی پرانی فلم کا منظر ہے۔ گن مین جس طرف جارہے تھے، لوگ بھی آہستہ آہستہ ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہوگئے تھے۔
ایملی نے ولیم سے پوچھا۔ ’’یہ لوگ کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’اپنے گھوڑے لینے کے لیے۔‘‘ وہ بولا اور اس کی طرف پلٹ کر تشفی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔ ’’گھبرائو مت ایملی! یہ لوگ بھی انسان ہیں، کوئی اور مخلوق نہیں۔‘‘
وہ لوگ ایک جگہ اپنے گھوڑوں کے انتظار میں ٹھہر گئے تھے۔ ان کی بندوقوں کی نالیاں دور سے چمک رہی تھیں۔ ریل گاڑی کا دھواں ابھی تک فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ پٹریوں پر پہیوں کی رگڑ سے ہوا میں ایک عجیب سی بو پھیل گئی تھی۔ (جاری ہے)