ہجوم چھٹنا شروع ہوگیا تھا مگر ولیم کا ابھی جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ ان بندوق برداروں کے جانے تک وہیں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ اس کے ایک ساتھی نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے ہمیں ایک میٹنگ فوراً کرنی ہوگی ولیم۔ تم بھی سیدھے اُدھر ہی آجانا۔‘‘
’’میں پہنچ جائوں گا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
گھوڑوں کا دستہ آگے بڑھ گیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ انہیں بینک کے باہر تعینات کیا جارہا ہے۔ ولیم ان کے ساتھ میٹنگ ہال تک آیا لیکن لوگ وہاں سے پہلے ہی ایک بے ترتیب سے جلوس کی صورت میں باہر نکل رہے تھے۔ ہر شخص غصے میں تھا، جو جس کے منہ میں آرہا تھا، بولتا جارہا تھا۔
’’اس سے پہلے کہ یہ کچھ کریں، ہم ان کو شوٹ کردیں گے۔‘‘
’’بینک کے پاس ہمارا سونا ہے، ہم اسے لے کر رہیں گے۔‘‘
’’ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں۔ ہمارا حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘‘
ایملی کا بس نہیں چلتا تھا کہ ان کا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی اور انہیں سمجھاتی کہ تشدد اور جوش سے اپنا ہی نقصان ہوگا۔ بینک کے ذمے داروں کے ساتھ بات کرنے سے ہی معاملہ حل ہوگا مگر وہ جانتی تھی کہ اس طرح کوئی اس کی بات نہیں سنے گا۔ وہ اگر ولیم کے ذہن میں یہ بات ڈال سکے تو شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔
سارے گن مین بینک کے سامنے صف باندھے کھڑے تھے۔ کوئی بھی ہجوم کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ بالکل لاتعلق سے کھڑے تھے۔
جب ہجوم ان کے مقابل پہنچ گیا تو وہ سب تیزی سے ان کے سامنے آگئے اور شعلے برساتی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اچانک بینک کا دروازہ کھلا۔ گورنر نے اپنے بندوق برداروں کو اشارہ کیا۔ وہ بغیر کچھ کہے ایک ایک کرکے اندر چلے گئے اور دروازہ بند ہوگیا۔
ہجوم نے جیسے اطمینان کا سانس لیا۔ ایک بڑا تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ ان کی جرأت نے بینک والوں کو بتا دیا تھا کہ قصبے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے، ان میں اتحاد ہے اور وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایملی کی جان میں جان آئی تھی۔ یہ خطرناک موقع بغیر کوئی نقصان پہنچائے گزر گیا تھا۔
ولیم اب بھی فکرمند تھا۔ اس وقت تو بات ٹل گئی تھی لیکن بینک ان مسلح لوگوں سے فائدہ اٹھا سکتا تھا جیسا کہ پہلے بھی کئی بار ہوچکا تھا۔ مویشی چوری ہوئے تھے، فصلوں کو آگ لگائی گئی تھی اور گھروں کو لوٹا گیا تھا۔ شام کو ولیم نے اپنے مزارعوں کو مختلف جگہوں پر حفاظت کے لیے مامور کردیا تاکہ کوئی رات کی تاریکی سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
باہر جاتے ہوئے ایملی نے اسے روک کر کہا۔ ’’تم کب واپس آئو گے؟‘‘
’’کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘ اس نے اتنا کہا اور اچھل کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور لمحوں میں نظروں سے غائب ہوگیا۔
ایملی بچوں کو سلا کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔ ولیم ابھی نہیں آیا تھا۔ اس کے انتظار میں اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ اس کی طرف سے پریشان تھی۔ کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اسے حیرت تھی کہ وہ اٹھارہویں صدی کے ان لوگوں سے کتنی قریب ہوگئی تھی جیسے وہ ان میں سے ایک ہو۔ لیکن وہ اس غیرتہذیب یافتہ دور میں ہمیشہ نہیں رہ سکتی تھی، اسے واپس جانا تھا۔ مگر اس مغرور شخص کو چھوڑنا اتنا آسان نہیں تھا جس کی محبت اس کے انگ انگ میں بس چکی تھی۔
٭…٭…٭
ولیم کچن میں داخل ہوا تو ایملی اوون میں کچھ رکھ رہی تھی۔ کچن کی حدت سے اس کا دلکش چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ اس نے اپنی آستینیں اوپر اٹھا رکھی تھیں۔ اس نے نظر اٹھا کر ولیم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’بہت خوب! تم وقت پر آگئے ہو۔ کھانا بس تیار ہوا ہی چاہتا ہے۔‘‘
اس نے ہیٹ میز پر ایک طرف رکھا اور جگ سے پانی کا ایک گلاس بھر کر پینے لگا۔ ایملی نے سوالیہ نگاہوں اس کی طرف دیکھا۔ ’’دن کیسا رہا؟‘‘
’’کچھ نہیں بدلا۔ وہ گن مین بینک کے باہر موجود ہیں اور گورنر نے لوگوں کو نوٹس دینے شروع کردیئے ہیں کہ وہ کچھ رقم فوراً ادا کریں ورنہ ان کے مویشیوں پر قبضہ کرلیا جائے گا۔‘‘
’’کیا لوگوں کے پاس اتنی نقد رقم موجود ہے؟‘‘
’’نہیں! کسی کے پاس بھی نہیں ہے اور بینک یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوگا؟‘‘
ولیم نے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ ’’کسی کو کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’اوہ۔ ولیم۔‘‘ ایملی میز پر اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے
بولی۔ ’’تمہیں چاہیے کہ بینک کے ساتھ مذاکرات کرو۔‘‘
’’ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ ان کے پاس ہر بات کا جواب گولی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ وہ اتنا کہہ ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کوئی پکارا۔ ’’مسٹر ولیم۔ مسٹر ولیم!‘‘
ولیم جلدی سے اٹھا۔ ’’یہ تو مارٹن کے بیٹے کی آواز ہے۔‘‘
اس نے دروازہ کھولا۔ لڑکا اندر آیا۔ وہ پریشان اور گھبرایا ہوا تھا۔ وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’مسٹر ولیم! گن مین ہمارے مویشی لے جارہے ہیں۔‘‘
’’تم چلو، میں آتا ہوں۔‘‘ وہ دوڑ کر میز تک پہنچا اور پستول نکالا۔
ایملی پریشان ہوکر اس کی طرف بڑھی اور بولی۔ ’’ولیم! یہ تم کیا کرنے جارہے ہو؟‘‘
’’میں مارٹن کا ساتھ دوں گا۔ ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔‘‘ وہ دانت پیس کر بولا۔ پستول لوڈ کرنے کے بعد اس نے ہولسٹر کندھے پر ڈالا اور چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔ ’’ان بینک والوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ ہمیں کمزور سمجھ رہے ہیں۔‘‘
’’لیکن ولیم! پلیز، خونریزی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ ایملی اس کے راستے میں آگئی۔
’’میں احتیاط کروں گا۔ تم بچوں کا خیال رکھنا۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔
پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ تصادم ہوا، بات بڑھ گئی۔ بینک کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس عدالت کے آرڈر ہیں، اس لیے وہ مارٹن کے مویشی لے جاسکتے ہیں۔ جس پر وہ جذباتی ہوگیا۔ اس نے ہوائی فائرنگ کی۔ جوابی فائرنگ میں اس کو شانے پر گولی لگ گئی۔ اسے اسپتال میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ بینک اس کے مویشی لے گیا تھا۔ ولیم گھر آیا۔ اس نے دیکھا ایملی فکرمندی سے ٹہل رہی تھی۔ ولیم نے اسے مختصراً حالات سے آگاہ کیا۔
’’مارٹن کی حالت کیسی ہے؟‘‘
’’کچھ عرصہ اسے اسپتال میں رہنا پڑے گا لیکن شکر ہے کہ جان بچ گئی۔‘‘
’’مارٹن نے حماقت کی۔‘‘
’’یہ تم کہہ رہی ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس نے جو کیا، ٹھیک کیا۔ وہ اپنی زندگی بھر کی کمائی بچانا چاہتا تھا۔‘‘
’’ہاں! شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اگر مجھ سے بھی کوئی میری عزیز شے چھیننے کی کوشش کرے تو میرا بھی غالباً یہی ردعمل ہوگا۔‘‘ ایملی نے کہا اور کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی۔ ’’میں نے کھانا اوون میں رکھا ہوا ہے۔ پلیز، تم کچھ کھا لو ولیم۔‘‘
وہ اس کے ساتھ کچن میں آگیا۔ اس نے بے دلی سے کچھ کھایا اور پھر پائپ سلگاتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے بچوں کا خیال رکھوں گا، جائداد میں ان کے حصے کی حفاظت کروں گا۔ لیکن اب سوچتا ہوں کہ اگر بینک نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہم کیا کرسکیں گے؟‘‘
’’گھبرائو نہیں ولیم! اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔‘‘ ایملی نے تسلی دی۔
٭…٭…٭
فضا میں بہت تنائو تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں جیسے محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ بہت کم لوگ باہر نکلتے تھے۔ بینک کے باہر پہرہ برقرار تھا۔ معاشی بحران شدت اختیار کرتا جارہا تھا۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بینک دیوالیہ ہورہے تھے۔ حصص کا برا حال تھا اور عوام کو اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑ رہا تھا۔
کچھ ضروری خریداری کے لیے ایملی کو مارکیٹ جانا تھا لیکن ولیم کا اصرار تھا کہ اسے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ تمام چیزیں خود لے آئے گا۔ ایملی نے بھی اپنی بات منوانے کی کوشش کی۔ ’’نہیں! گھر میں رہ کر میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ میں باہر جانا چاہتی ہوں کھلی ہوا میں، کچھ مختلف ماحول میں۔‘‘
اگرچہ ولیم اس پر دل سے راضی نہیں تھا لیکن ایملی نے اپنی بات منوا ہی لی۔ ولیم کے ساتھ شہر جانا، اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ فضا میں حدت بڑھ رہی تھی۔ سورج ان کے سروں پر چمک رہا تھا۔ بینک کے باہر گن مین اپنی ڈیوٹی پر مستعد تھے۔
’’میرا خیال ہے کہ پہلے میں گھوڑوں کے لیے چارہ خرید لوں، پھر مارکیٹ چلیں گے۔‘‘
’’اس طرح وقت ضائع ہوگا۔ تم مجھے مارکیٹ کے باہر اتار دو اور چارہ لے آئو۔‘‘
’’نہیں… نہیں۔ تم میرے ساتھ رہو گی۔‘‘ وہ زور دے کر بولا۔
’’پریشان مت ہو، میں اپنی حفاظت کرسکتی ہوں۔‘‘ ایملی نے اعتماد سے کہا۔
ولیم نے اسٹور کے سامنے گاڑی روکی اور چارے کی بوریاں ویگن میں رکھنے لگا۔ اسٹور کا مالک اس سے گفتگو میں لگ گیا اور ایملی نے ویگن سے چھلانگ لگائی۔
ولیم چونکا۔ ’’کہاں جارہی ہو ایملی! ٹھہرو۔‘‘
’’مارکیٹ۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر تیز قدموں سے مارکیٹ کی طرف چل
پڑی۔ وہ اپنی رو میں آگے بڑھ رہی تھی کہ نہ جانے کیسے ایک گن مین اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔
ایملی نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’میرا راستہ چھوڑ دو۔‘‘
’’اچھا۔ تو تم لوگ اب ہم پر حکم چلائو گے۔‘‘ وہ منہ بگاڑ کر بولا۔
ایملی نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اردگرد کوئی بھی نہیں تھا۔ لمحے بھر میں اس نے سوچ لیا کہ اسے کوئی فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے۔ اس نے جوڈو کا ایک وار اس پر آزمایا۔ وہ درد سے دہرا ہوگیا۔ ایملی موقع غنیمت جان کر بھاگی۔ سامنے ولیم گاڑی سے چھلانگ مار کر اترتا نظر آیا۔
’’ولیم۔ ولیم!‘‘ وہ اس کی طرف دوڑی۔ اس سے بے خبر کہ گن مین نے اپنی بندوق اس کی طرف سیدھی کردی تھی۔ ولیم نے اسے اپنی اوٹ میں کرلیا اور ساتھ ہی پستول نکال لیا۔ کچھ سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ شخص فائر کرتا، ولیم نے ٹریگر دبا دیا۔ گن مین کی بندوق اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور اس نے اپنا بازو پکڑ لیا جس پر سرخ دھبہ پھیلتا جارہا تھا۔ ولیم، ایملی کی طرف پلٹا۔ ’’چلو ایملی، جلدی کرو۔ آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے جو تم نے کردیا ہے۔‘‘
ایملی ساکت سی کھڑی تھی۔ گولی چلنے کی آواز سن کر لوگ باہر نکلنے لگے تھے۔ گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں کھلنی شروع ہوگئی تھیں۔ دوسرے گن مین بھی اس طرف دوڑے چلے آرہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے غصے میں چنگاریاں نکل رہی تھیں اور ان کے بھاری بوٹ مٹی اچھال رہے تھے۔ ان کی بندوقوں کی نالیاں چمک رہی تھیں۔
’’جلدی چلو۔‘‘ ولیم نے اس کا بازو کھینچا۔
لیکن اس سے پہلے ایک گن مین ولیم کے مقابل آچکا تھا۔ انہوں نے ویگن کا راستہ روک لیا تھا۔ ولیم اپنا پستول سیدھا کرکے سنگین لہجے میں بولا۔ ’’میرے راستے سے ہٹ جائو۔‘‘
وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ولیم نے پھر اپنے پستول سے ہٹنے کا اشارہ کیا تو وہ بے دلی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ ولیم اپنا پستول تانے ہوئے ایملی کو تقریباً گھسیٹتا ہوا گاڑی تک لے آیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھے۔ پستول اس نے سیٹ پر اپنے قریب رکھ لیا اور پورے زور سے لگامیں گھوڑوں کی پشت پر ماریں تو وہ گرد اُڑاتے چل پڑے۔
لوگ کافی جمع ہوچکے تھے۔ وہ ان کے درمیان سے راستہ بنا کر چلتا جارہا تھا۔ وہ راستے بھر ایک لفظ نہیں بولا تھا لیکن اس کا رویہ، اس کا انداز اس کے اندر کی ساری کیفیت کو ظاہر کررہا تھا۔ ایملی کو لگ رہا تھا کہ یہ واقعہ اس کے اور ولیم کے درمیان ایک وسیع خلیج بن کر حائل ہوگیا ہے۔ اب معذرت کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں تھا۔ اس کی جلد بازی اور حماقت کی وجہ سے جو نقصان ہوچکا تھا، اس کا ازالہ ممکن نہیں تھا۔
ایملی سوچ رہی تھی کہ اس ایک صدی پہلے کی تہذیب میں گزارہ کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ولیم چاہتا تھا کہ قصبے کی دیگر عورتوں کی طرح ایملی بھی اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ کوئی مشورے دے، نہ اپنی رائے کا اظہار کرے جبکہ وہ اس انداز کی زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ اسے اس جگہ کو جلد از جلد چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اس سے پہلے کہ ولیم کی محبت اُسے اسیر کرلے۔
سارا وقت یہ خوفناک سوال اس کے دماغ میں چبھتا رہتا تھا کہ وہ کہاں جائے۔ اس کے یہاں ٹھہرنے سے پھر کوئی ایسا واقعہ ہوسکتا تھا جو ولیم اور اس کے خاندان کے لیے خطرناک ثابت ہوتا۔ سب سے پریشان کن ولیم کا رویہ تھا جو سخت سرد مہری کا تھا۔ وہ اس میں حق بجانب بھی تھا۔ سارا قصبہ پہلے ہی اسے طعنے دیتا تھا کہ وہ اپنی ہائوس کیپر کی بات مانتا ہے اور اب تو یہ اور سنگین بات تھی کہ اس نے ایک عورت کے لیے خود کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
ولیم اور اس کے درمیان فاصلے بڑھ گئے تھے۔ وہ بہت کم اس سے بات کرتا تھا۔ وہ اس سے اپنا راستہ الگ کرنے کا فیصلہ تو کرچکی تھی لیکن چاہتی تھی کہ ولیم اور اس کے خاندان کو اس بحران سے نکال دے۔ اپنے علم اور اپنی معلومات سے کام لے کر اس خطرے کو ٹال دے جو قصبے کے ہر گھر کے اوپر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔
رات کو جب بچے سو چکے تھے اور گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، ولیم اکیلا نیم تاریک پورچ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایملی ہمت کرکے پورچ میں داخل ہوئی اور بولی۔ ’’کیا میں تمہارے پاس بیٹھ سکتی ہوں؟‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ وہ لاتعلقی سے بولا۔
’’ولیم! تم ناراض ہو مجھ سے؟‘‘ وہ اس کے ساتھ سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’جھوٹ مت
بولو۔ تمہارا موڈ خراب رہتا ہے۔‘‘
’’ایملی! تم بتا کیوں نہیں دیتیں کہ تم کون ہو؟‘‘
’’میں تمہیں یہ بات سمجھا نہیں سکتی ولیم۔‘‘ ایملی نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’لیکن میں یہ ضرور ثابت کرسکتی ہوں کہ میں جو کچھ جانتی ہوں اور میرے پاس جو علم ہے، وہ تمہارے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر تم میری بات پر غور کرو۔‘‘
وہ جواباً کچھ نہیں بولا۔ تھوڑے توقف کے بعد ایملی نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’میں تمہاری مدد کرسکتی ہوں کہ تم اپنی زمین اور مویشیوں کو کس طرح بچا سکتے ہو؟‘‘
وہ پھر بھی کچھ نہیں بولا۔ ایملی کو اپنی بات اس تک پہنچانی تھی۔ وہ بولتی رہی۔ ’’تم اپنے لوگوں کی ایک میٹنگ بلائو اور انہیں رضامند کرو کہ وہ بینک کے گورنر سے بات کریں۔‘‘
’’یہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘ وہ بیزاری سے بولا۔
’’تم بغیر کچھ کیے ہمت کیوں ہار رہے ہو۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر یہاں کے لوگ بینک سے وعدہ کریں کہ وہ اپنی رقومات صرف اسی بینک میں رکھوائیں گے۔ اگر اس طرح ہوگیا تو وہ اپنے قرضے واپس نہیں مانگے گا کیونکہ اس کے پاس کافی رقم ہوجائے گی۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن اس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ کسی کو نقصان نہیں ہوگا۔ آپس میں لڑائی کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔‘‘
بہت دیر تک دونوں بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ پھر ولیم نے کہا۔ ’’لوگ میری نہیں سنیں گے۔‘‘
’’تم انہیں سمجھانے کی کوشش تو کرو، وہ ضرور سنیں گے۔‘‘
’’اچھا۔ سوچتا ہوں۔‘‘ وہ مبہم سے انداز میں بولا۔
٭…٭…٭
ایملی کے کہنے پر ولیم نے قصبے کے نمایاں لوگوں سے ملاقاتیں شروع کردیں لیکن جب وہ تھکا ہارا واپس آتا تو ایملی کو کوستا کہ اس نے یہ تجویز دے کر اسے خواہ مخواہ سارے قصبے کے سامنے مطعون کر دیا تھا۔ ایملی اسے تسلی دیتی اور اس کی ہمت بڑھاتی اور وہ اگلی صبح پھر لوگوں سے مذاکرات کرنے کے لیے ہمت باندھ لیتا۔
آہستہ آہستہ اچھی خبریں آنے لگیں۔ ولیم کی تجویز سب ماننے پر تیار ہوگئے اور اس نے ان سب کو ایک میٹنگ کے لیے ہال میں بلا لیا تھا۔ مقررہ دن قصبے کے تمام قابل ذکر لوگ اکٹھا ہوچکے تھے۔ ولیم ان سے خطاب کررہا تھا۔ ’’میرے دوستو! ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ لڑائی ہو، خون بہے۔ ہم اپنی تجویزیں بینک کے گورنر کے سامنے رکھیں گے۔ اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں۔ وہ کس حد تک ہم سے اتفاق کرتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ لیکن کم ازکم گولیاں تو نہیں چلیں گی۔ ہمارے پیارے ان کی زد میں تو نہیں آئیں گے۔‘‘
اچانک بینک کے گن مین ہال کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ان کی انگلیاں ٹریگر پر تھیں۔ ولیم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو کیا بینک کے گورنر نے اعلان جنگ کردیا تھا۔ پھر ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا۔ ولیم نے دیکھا کہ یہ وہی شخص تھا جس کے بازو میں اس نے گولی ماری تھی۔
’’ولیم!‘‘ اس کی بلند آواز گونجی۔ ’’تم وہ شخص ہو کہ تمہارے ساتھ میرا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا؟‘‘ وہ ایک قدم آگے بڑھا اور ہال میں اکٹھا ہجوم پانی کی لہر کی طرح اس کے سامنے آگیا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
ولیم نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’اگر میرا اور تمہارا کوئی معاملہ باقی ہے تو میں حاضر ہوں۔ لیکن یہاں نہیں۔ ہم یہاں کسی اور مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تمہاری وجہ سے ہم اسے نظرانداز نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ اس نے اپنے ہیٹ کو اپنے سر پر جمایا اور آگے بڑھ کر بولا۔ ’’آئو فیصلہ کرلیتے ہیں۔‘‘
ایملی کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ کیا ہونے والا تھا۔ اس نے پریشان ہوکر سوچا۔ ولیم نے اس کی وجہ سے گن مین کو گولی ماری تھی اور اب وہ اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے مقابلوں کی طرح دونوں ایک دوسرے پر فائر کریں گے۔ دونوں میں سے جو چابکدست ہوگا، وہ زندہ بچ جائے گا۔
اوہ خدایا! یہ تو گن مین ہے اور ولیم… اُسے تو اس نے کبھی پستول چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر ولیم کو کچھ ہوگیا تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرسکے گی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ انہیں اس خونی کھیل سے روک دے۔
تمام لوگ ولیم کے ساتھ چل رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ایک بڑا دائرہ بنا کر کھڑے ہوگئے۔ درمیان میں ولیم اور گن مین کھڑے تھے اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اچانک ولیم نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’’مسٹر! میری بات سنو۔ میں ایک کاشتکار ہوں، مجھے نشانہ بازی کی مشق نہیں اور تمہارا
; بھی ابھی پوری طرح کام نہیں کررہا۔ میرے سامنے ایک بڑا مقصد ہے۔ میں اسے پورا کئے بغیر مرنا نہیں چاہتا… اور تم آخر کیوں مرنا چاہتے ہو؟‘‘
وہ شخص بھی سوچ میں پڑ گیا۔ اسی وقت کسی نے صدا لگائی کہ بینک کا گورنر آگیا ہے۔ ولیم پلٹا اور گن مین پر نظر رکھتا ہوا، سیڑھیاں چڑھ کر ہال میں داخل ہوگیا۔ گورنر بھی اس کے عقب میں تھا۔ ایملی کی جان میں جان آئی۔ ولیم کم ازکم اس وقت اس قاتل سے محفوظ ہوگیا تھا۔ ولیم، گورنر سے کہہ رہا تھا۔ ’’مسٹر گورنر! آپ کو گورنر اس لیے بنایا گیا ہے کہ آپ ہماری تکلیفوں کو دور کریں، ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں یا اس لیے کہ آپ سارے قصبے کو ویران کردیں۔ لوگوں کی زندگیاں دشوار بنا دیں۔‘‘
گورنر نے ہجوم کی جانب رخ کیا۔ اس کا پیٹ اس کی جیکٹ سے باہر نکلا ہوا تھا۔ اس نے گلا صاف کیا اور بولا۔ ’’میں کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ ان لوگوں کو میں نے بینک کی حفاظت کے لیے بلایا ہے کیونکہ تم لوگوں نے سونے پر قبضہ کرنے کے ارادے ظاہر کیے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہم اپنی رقم بینک میں منتقل کریں گے۔ اس شرط پر کہ بینک ہم سے قرضوں کی فوری ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے اور کل سے بینک معمول کے مطابق کھول دیا جائے۔‘‘
بات طے پا گئی۔ گورنر نے گن مین واپس بھیجنے پر رضامندی دے دی۔ میٹنگ کے ختم ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ ہجوم چھٹنے لگا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے۔ ولیم بھی واپس پلٹا جہاں اس نے اپنی گاڑی کھڑی کی تھی۔
ایملی کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹی پڑتی تھی۔ ولیم کا گائوں تباہ ہونے سے بچ گیا تھا، خون ریزی ٹل گئی تھی۔ ولیم آنے والا تھا۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ ویگن میں چھپی بیٹھی تھی۔ سارے قصبے میں وہ واحد عورت تھی جو یہاں موجود تھی۔
ولیم جیسے ہی قریب آیا، ایملی ویگن سے نکل کر اس کے سامنے آگئی۔ ’’ہیلو!‘‘
وہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ ’’تم… تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘
’’مجھے بھی تو حق ہے کہ میں دیکھوں میری تجویز پر کس طرح عملدرآمد ہورہا ہے۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’ایملی! تم نے ہم سب کو بچا لیا۔‘‘
’’او۔ مغرور مرد… شکر ہے کہ تم نے مانا کہ عورت بھی کوئی بھلائی کا کام کرسکتی ہے۔‘‘ ایملی نے اس کے سر سے ہیٹ اُچک کر اپنے سر پر رکھ لیا۔
٭…٭…٭
ایملی کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی اور اطمینان کی کوئی بات نہیں تھی کہ قصبے میں امن ہوگیا تھا۔ بینک کے گورنر نے تمام بندوق برداروں کو واپس بھیج دیا تھا۔ بینک ایک مرتبہ پھر کھول دیا گیا تھا۔ لوگ اپنی رقوم وہاں جمع کروا رہے تھے، بینک نے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ ترک کردیا تھا۔
ایملی کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب ایک شام ولیم نے اعتراف کرلیا۔ ’’ایملی! میں نے تمہیں نہیں بتایا لیکن اب بتاتا ہوں کہ بینک کے بارے میں تمہاری رائے بہت مناسب تھی۔ تم نے جو تجویز پیش کی تھی، وہ بہترین تھی۔ تم نے ہمیں ایک بہت بڑے بحران سے نکالا جو اس قصبے کو تباہ کرسکتا تھا۔ میں تمہارا ممنون ہوں۔‘‘
’’اوہ۔ ولیم! کوئی بات نہیں۔ میں خوش ہوں کہ مسائل کا حل نکل آیا۔‘‘
’’قصبے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سب میری تجویز تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک کو پتا چلے کہ یہ تجویز تمہاری تھی جس نے قصبے کو بچا لیا۔‘‘
’’نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں ہے ولیم! لوگ اسے پسند نہیں کریں گے کہ کوئی خاتون، مردوں کے معاملات میں دخل دے۔‘‘ ایملی نے جواب دیا۔
’’ہاں… شاید۔‘‘ ولیم اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔
وہ بہت دیر تک اسی طرح خاموش بیٹھے رہے۔ بغیر کوئی بات کیے ایک دوسرے کی قربت کو محسوس کرتے رہے۔ ایملی محسوس کررہی تھی کہ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے سوچ رہا ہو کہ کہے یا نہ کہے۔ پھر اس نے نگاہ اٹھا کر ایملی کی طرف دیکھا۔
’’تم یہاں سے جانے کا پروگرام بنا رہی ہونا۔ بولو تم کب جانا چاہتی ہو؟‘‘
وہ سر جھکا کر بولی۔ ’’معلوم نہیں… لیکن جلد۔‘‘
ولیم یکدم بغیر کچھ کہے اٹھا اور تیز قدموں سے چلتا ریلنگ کے قریب جاکھڑا ہوا۔ اس کی پشت ایملی کی جانب تھی اور وہ غصے میں تنا ہوا تھا۔
ایملی نے مدھم سی آواز میں کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے ولیم۔ میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘
وہ ایک دم پلٹا اور ناراضی سے بولا۔ ’’اوہ عورت… عورت … عورت؟‘‘
ایملی نے سر اٹھایا۔ ’’ولیم! تم جانتے ہو کہ میرے دل میں
تمہارے لئے کیسے جذبات ہیں۔ دیکھو یہ کبھی مت بھولنا اور کبھی شک نہ کرنا۔‘‘ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اس شخص کو کبھی بھول پائے گی۔ کیا اسے چھوڑ کر جاسکے گی۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ اسے اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتی تھی۔ اپنے دل میں اس کا عکس اتار لینا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
اتوار کو وہ سب چرچ میں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایملی پہلی مرتبہ چرچ آئی تھی کیونکہ آج میریان کو انعام ملنے والا تھا۔ بچوں نے خوبصورت لباس پہنے تھے۔ ولیم بھی اپنے سیاہ سوٹ میں بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ ایملی کو محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔
تقریب شروع ہوئی۔ میریان کا نام پکارا گیا۔ اسے ایک گلدستہ اور بائبل انعام میں ملی۔ ایملی نے اسے گلے سے لگا لیا۔ ولیم نے بھی اسے تھپکی دی۔ انعامات تقسیم ہوچکے تو پادری اپنے خطاب کے لیے ڈائس پر گیا۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’ہم یہاں خدا کی پرستش کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، اسی سے اجر کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
وہ کچھ دیر تقریر کرتا رہا۔ پھر ایملی کو محسوس ہوا جیسے پادری کا انداز بدل رہا ہے۔ لوگوں نے اپنی نشستوں پر پہلو بدلے۔ ایملی کو یقین نہیں آیا کہ وہ جو کچھ سن رہی ہے، وہ حقیقت ہے۔ ’’جو لوگ خدا کی حدود کو توڑتے ہیں، وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔ ہم گناہوں کے گڑھے میں نہیں گرنا چاہتے۔ ہمیں اپنی صفوں سے برائی کو نکالنا ہوگا۔ اے خدا! تو گناہ کرنے والوں کو ہدایت دے۔ انہیں معاف کر یا ہمارے معاشرے سے دور کردے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی انگلی سے ایملی کی جانب واضح اشارہ کیا اور لوگوں نے سر گھما کر اس کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ ایملی وہیں ساکت ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ولیم نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا جیسے اسے یقین دلانا چاہتا ہو کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔
پادری کا خطاب ختم ہوتے ہی ولیم جلدی جلدی سب کے ساتھ باہر آگیا۔ ایملی خود پر بمشکل قابو پا رہی تھی۔ وہ گھر پہنچ کر تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ آنسو اس کے رخساروں کو تر کررہے تھے۔ پھر ولیم بغیر دستک دیئے کمرے میں داخل ہوا اور اس کے بیڈ کی پٹی پر بیٹھ کر اسے پکارا۔ ’’ایملی۔‘‘
ایملی نے کروٹ بدل کر اس کی طرف دیکھا۔ شدت گریہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ ولیم نے ملائمت سے کہا۔ ’’ایملی! سب لوگ برے نہیں ہیں۔ سب لوگ اس طرح نہیں سوچتے۔‘‘
’’ہاں۔ میں جانتی ہوں۔ یہ لوگ نہیں بدل سکتے، نہ ان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ مجھے جانا ہی ہوگا ولیم۔‘‘
’’کب؟‘‘ وہ جیسے اپنا سانس روک کر بولا۔
’’آج ہی۔‘‘
’’تم اس طرح قصبے سے کیوں بھاگ رہی ہو۔ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
’’انہیں کہنے دو جو کہتے ہیں۔‘‘
’’میں بچوں کو کیا بتائوں گا؟‘‘
’’میں خود انہیں بتائوں گی۔ وہ میری بات سمجھ لیں گے۔‘‘
ولیم چند لمحے خاموش کھڑا رہا۔ پھر اس پر جھک کر بولا۔ ’’میں نے تمہیں کبھی نہیں بتایا ایملی۔ میں نے کبھی کسی خاتون سے نہیں کہا جو میں آج تم سے کہہ رہا ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘
’’تم جانتے ہو ولیم۔ میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔ مجھے بھلا مت دینا۔‘‘ اس کے لفظوں میں آنسو تھے۔
’’میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میں ہمیشہ تمہیں یاد رکھوں گا۔ یہاں تک کہ میں بوڑھا ہوجائوں۔ میری سانسیں ختم ہوجائیں۔‘‘
’’تم شادی کرلینا۔ اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ خوش رہنا۔‘‘ ایملی نے کہا۔
’’تم حکم چلانے سے باز نہ آنا۔‘‘ وہ ایک رنجیدہ سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’میں اپنا سامان باندھوں اور بچوں سے ملوں۔ تم مجھے اسٹیشن تک چھوڑ دینا۔ پلیز…‘‘
ولیم نے منہ پھیر لیا اور اسے کمرے میں تنہا چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
یہ آخری سفر ولیم کے ساتھ بہت اداس کردینے والا تھا۔ دونوں خاموش تھے۔ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کہہ پا رہے تھے مگر بہت سی اَن کہی باتیں ہر سانس کے ساتھ ایک دوسرے تک پہنچ رہی تھیں۔ اسٹیشن آگیا۔ ولیم نے ٹکٹ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو تمہارا ٹکٹ اور یہ بھی رکھو۔‘‘ اس نے سبز کرنسی نوٹوں کی ایک گڈی اس کے ہاتھ میں رکھی۔
’’یہ کیوں؟ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ایملی نے کہا۔
’’اسے رکھ لو۔ تمہیں ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘ وہ بولا۔ دونوں وہیں کھڑے ایک دوسرے کی طرف حسرت سے دیکھتے رہے۔ پھر ایملی نے
کہا۔ ’’مجھ سے نفرت نہ کرنا ولیم۔‘‘
’’کاش! میں تم سے نفرت کرسکتا ایملی… تو یہ لمحے کتنے آسان ہوتے۔‘‘
’’پلیز ولیم! اب تم چلے جائو۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔
’’ٹرین تو آلینے دو۔‘‘
’’نہیں۔ چلے جائو ولیم۔ مجھے چھوڑ دو اکیلا، چلے جائو۔‘‘
’’کیا یہ تمہارا آخری حکم ہے؟‘‘
’’ہاں! تم گھر چلے جائو۔‘‘
ولیم نے اپنا ہیٹ اپنے سر پر رکھا اور بغیر کچھ کہے، بغیر مڑ کر دیکھے چلا گیا… ہمیشہ کے لیے۔ ایملی کا دل بیٹھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بڑی تیزی کے ساتھ بہتے چلے گئے۔ وہ تیز قدموں کے ساتھ اسٹیشن سے باہر نکل آئی۔ اس کا رخ جائے حادثہ کی طرف تھا، جہاں اب بھی تباہ شدہ ٹرین کا ملبہ پڑا ہوا تھا۔ راستے میں اس نے پہلے اپنے دستانے پھینکے، پھر جیکٹ اتار پھینکی اور پھر ہیٹ بھی۔ وہ ہلکا پھلکا سا محسوس کرنے لگی۔ اس کے قدموں میں اور تیزی آگئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے قدم زمین سے اٹھ گئے ہیں اور وہ ہوا میں تیرنے لگی ہے۔ اوپر… اور اوپر… ساری یادوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے۔
٭…٭…٭
ایک مردانہ آواز اسے آنکھیں کھولنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ پھر کسی نسوانی آواز نے کہا۔ ’’مس ایملی جیکب! پلیز آنکھیں کھولنے کی کوشش کرو۔‘‘
ایملی نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ ایک نرس اس پر جھکی ہوئی تھی۔ نرس نے اس کے گال تھپتھپائے اور نرمی سے بولی۔ ’’مس ایملی! اب آپ کی حالت بہت بہتر ہے۔ آپ ایک ہفتے سے کومے میں تھیں۔ آپ کے سر کی چوٹ کافی خطرناک تھی لیکن ہم نے اسے ٹھیک کرلیا ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے جب ٹرین کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا؟‘‘
ایملی کے دماغ میں جیسے روشنی کا جھماکا ہوا۔ اسے برف کا طوفان، ٹرین کو لگنے والے جھٹکے اور دھماکا… سب کچھ کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر چلنے لگا۔ لیکن ان میں ولیم کا چہرہ بھی تھا۔ تین بچوں کے معصوم چہرے اس کی یادداشت میں موجود تھے۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ جب اس نے آنکھیں کھولی تھیں تو ولیم بھی یہاں موجود تھا۔
شام کو جب نرس اس کے کمرے میں آئی تو اس نے اس سے پوچھا۔ ’’جب میں نے پہلی مرتبہ آنکھیں کھولی تھیں تو کیا کوئی مرد یہاں موجود تھا یا کوئی ڈاکٹر تھا؟‘‘
’’اوہ تو اس کا مطلب ہے کہ تمہیں یاد ہے۔ ہاں! وہ ولیم ڈچر تھا۔‘‘
ایملی حیران رہ گئی۔ کیا وہ ابھی تک اسی صدی میں تھی جہاں ولیم تھا۔ کیا وہ اس سے باہر نہیں آسکی تھی۔ اس کا سر چکرا کر رہ گیا۔ نرس نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ ’’مس ایملی! آپ ٹھیک تو ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ کچھ دیر آرام کریں، آنکھیں بند کرلیں۔‘‘
’’نہیں۔ مجھے ولیم ڈچر کے بارے میں بتائو، وہ کون ہے؟‘‘
’’ولیم ایک رضاکار ہے۔ اس تنظیم کا ممبر جو کسی حادثے کے موقع پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اسی نے تمہیں ٹرین کے ملبے سے نکالا تھا۔ تب سے وہ تمہاری عیادت کے لیے باقاعدگی سے آتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کہ تمہاری طبیعت کیسی ہے۔‘‘
’’وہ کہاں رہتا ہے؟‘‘
’’وہ یہاں سے کچھ دور اپنے فارم پر رہتا ہے۔ بے چارہ پریشان حال ہے۔ پچھلے سال اس کے بھائی اور بھابھی ایک حادثے کی نذر ہوگئے تھے۔ ان کے تینوں بچوں کی سرپرستی یہ کررہا ہے۔ یہ بہت محنتی ہے۔ ان بچوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔‘‘
’’ان میں بچی کا نام میریان ہے؟‘‘ ایملی نے بے ساختہ پوچھ لیا۔
’’ہاں۔ بچیوں کا یہ ایک عام نام ہے۔ لڑکوں میں ایک کا نام جیسکا ہے اور دوسرے کا…‘‘ نرس سوچنے لگی۔ ’’مجھے یہ نام کبھی یاد نہیں رہتا۔‘‘
’’شاید بُرک ہے۔‘‘ ایملی بولے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’اوہ! لیکن تمہیں کیسے معلوم ہے؟‘‘
’’شاید میں نے کسی کے منہ سے اس کا نام سنا ہے۔‘‘ ایملی نے بات بنائی۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
یہ سب کیا تھا۔ ولیم ڈچر تو ایک صدی پہلے کا کردار تھا۔ کیا وہ اس کے ساتھ اس صدی میں چلا آیا تھا۔ اس کی آواز بالکل ویسی ہی تھی۔ اس کا ہیولا جو اس نے نیم بے ہوشی کے عالم میں دیکھا تھا، وہ ولیم کا ہی تھا اور جب وہ شام کو اس کے کمرے میں آیا تھا تو ایملی کے خون کا ایک ایک قطرہ کبھی غم میں سلگنے لگتا اور کبھی خوشی سے کھلنے لگتا۔ وہ اس کے سامنے تھا۔ وہی گہری نیلی آنکھیں اور گھنگھریالے بال۔ وہی نقوش، ویسی ہی مونچھیں۔ اوہ وہ تو بنا بنایا ولیم ڈچر تھا۔ ایک صدی پہلے کا ولیم۔
اس نے ایک کرسی گھسیٹی اور بیٹھ کر اپنا ہیٹ اپنے گھٹنے پر اسی
رکھ لیا جیسے ولیم رکھا کرتا تھا۔ ’’اب تم بہت بہتر ہو۔ تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے حادثے سے گزرنے کے باوجود ٹھیک ٹھاک ہو۔‘‘
’’نرس نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے مجھے ٹرین کے ملبے سے نکالا تھا۔ میں اس کے لیے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔‘‘ ایملی نے کچھ الجھے سے انداز میں کہا۔ یہ عجیب موقع تھا وہ ولیم کے روبرو تھی لیکن وہ ایک اجنبی تھا۔ وہ ولیم تھا بھی اور نہیں بھی۔
’’نہیں، شکریے کی ضرورت نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں تمہاری مدد کرسکا۔ یہ ایک بہت برا حادثہ تھا۔ طوفان کی وجہ سے برف پہاڑ سے پھسل کر اس کے اوپر جم گئی تھی۔ تمہارے خاندان کا کوئی ایسا فرد ہے جسے تم اطلاع دینا چاہو گی؟‘‘
’’نہیں۔ میرے والدین بزرگ اور بیمار ہیں۔ میں انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ ان کے علاوہ کوئی اور نہیں۔‘‘ ایملی نے بتایا۔
’’اچھا۔ تم ٹھیک ہوجائو تو سوچتے ہیں۔ اب میں گھر چلتا ہوں، بچے انتظار میں ہوں گے۔‘‘ اس نے ولیم کے انداز میں ہی سر پر ہیٹ رکھا۔ ایملی کے دل کو جھٹکا سا لگا۔ اوہ خدایا! یہ کیسے ممکن تھا کہ ولیم ایک اجنبی کے روپ میں اس کے سامنے تھا۔ ایک صدی پہلے کا ولیم۔
جب وہ دوبارہ آیا تو اس کے لیے چاکلیٹ کا ایک ڈبہ لے کر آیا۔ ایملی نے ممنون لہجے میں کہا۔ ’’مجھے چاکلیٹ بہت پسند ہیں۔‘‘
’’مجھے خوشی ہے کہ تمہیں میرا تحفہ پسند آیا۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا تم کبھی ریفلی نامی قصبے میں رہے ہو؟‘‘
’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ وہ بولا۔ لیکن تھوڑے توقف کے بعد اس نے یوں کہا جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔ ’’ہاں! اٹھارہویں صدی میں ہمارے آبائو اجداد وہاں رہتے تھے۔ ان کی زمینیں، فارم اور باغات وہیں تھے۔ اس وقت وہ فارم، ڈچر فارم کہلاتا تھا۔ ولیم ہمارا خاندانی نام ہے۔ ہمارے خاندان میں بہت سے ولیم گزرے ہیں۔‘‘ وہ خاندان کی تاریخ بیان کرنے لگا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’میں بھی کیا تمہیں بور کررہا ہوں۔ چلو آئو تمہیں کیفے ٹیریا کا چکر لگوائوں، چل کے کافی پئیں۔‘‘
وہ اس کی وہیل چیئر دھکیلتا کیفے میں لے گیا۔ کافی کی پیالی سامنے رکھے وہ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔
وہ ہر شام آتا اور پوری شام اس کے ساتھ گزارتا تھا۔ جس روز نہیں آسکتا تھا، اسے فون کردیتا۔ ایملی اس کے آنے کی راہ تکتی تھی اور گھڑیاں گن گن کر گزارتی تھی۔ اسے لگتا کہ وہ ایک بار پھر ولیم ڈچر کی محبت میں گرفتار ہورہی ہے۔ یہ ایسی محبت تھی جس میں بچھڑنے کا خوف نہیں تھا۔
ایک شام وہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ لایا۔ یہ بچے پچھلی صدی کے بچوں سے اتنے مشابہ تھے کہ ایملی دنگ رہ گئی۔ یہ اتنے ہی مشابہ تھے جتنا ولیم، ولیم ڈچر سے مشابہ تھا۔ ایملی جیسے گنگ سی ہوگئی اور اس کی آنکھیں بن روئے آنسوئوں سے جلنے لگیں۔
ایک ہفتے میں وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی۔ نرس نے اسے بتا دیا تھا کہ اسے جلد اسپتال سے ڈسچارج کردیا جائے گا۔ ایک دوپہر ولیم ملنے آیا تو یوں لگتا تھا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ ایملی نے خود ہی بات کا آغاز کیا۔ ’’میں اب ٹھیک ہوں۔ مجھے اسپتال سے ڈسچارج کردیا جائے گا۔‘‘
’’تم کہاں جائو گی؟ واپس اپنے شہر جسے تم چھوڑ کر سکون کی تلاش میں یہاں آئی تھیں؟‘‘
’’مجھے کچھ پتا نہیں۔‘‘ اس نے الجھا الجھا سا جواب دیا۔ ’’میں نے ابھی کچھ نہیں سوچا۔‘‘
’’ایملی!‘‘ ولیم نے پکارا۔ ’’تم ابھی بہت کمزور ہو، پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی ہو۔‘‘
’’نہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔‘‘
وہ اچانک کھڑا ہوگیا اور اس نے پشت پھیر لی، بالکل ماضی کے ولیم کی طرح۔ پھر وہ پلٹا۔ اس کی نیلی آنکھوں نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’معلوم نہیں مجھے یہ کہنا چاہیے یا نہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ تم ہمارے ساتھ رہو جب تک کہ تم بالکل تندرست نہیں ہوجاتیں، پھر تم جو چاہو فیصلہ کرلینا۔ فی الحال تمہارا سفر کرنا مناسب نہیں۔ تمہاری صحت اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘
ایک مدھم سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی۔ ’’میں تمہارے لیے اجنبی ہوں۔ ولیم! کیا تم واقعی چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ چلوں؟‘‘
’’ضرور۔ بشرطیکہ تم بچوں سے تنگ نہ آجائو۔‘‘
’’نہیں۔ مجھے بچوں سے بہت پیار ہے۔‘‘
’’تم ایک محبت کرنے والی خاتون ہو۔‘‘ ولیم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اٹھایا۔ ایملی کو لگا جیسے یہ وہی ولیم ہے جس کے ساتھ اس نے ایک صدی پہلے محبت کی تھی۔ جس سے وہ اب بھی محبت کرتی تھی
اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔
وہ ولیم کے ساتھ دروازے تک آئی۔ نرس اس کی منتظر تھی۔ اس نے ایک بیگ اسے دیتے ہوئے کہا۔ ’’مس ایملی! یہ آپ کی چیزیں ہیں۔ مجھے امید ہے آپ دونوں بہت خوش رہیں گے۔‘‘
’’شکریہ سسٹر۔‘‘ ایملی نے کہا اور بیگ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
وہ ولیم کے ساتھ گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔ ایملی نے بیگ کی زپ کھولی۔ اس میں کنگھی، لپ اسٹک اور ایسی ہی چھوٹی موٹی چیزیں تھیں اور ایک کونے میں سبز کرنسی نوٹوں کی ایک چھوٹی سی گڈی پڑی تھی۔ ایملی کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ایک صدی پہلے کے کرنسی نوٹ جو ولیم نے اسے چلتے وقت زبردستی تھما دیئے تھے۔
اس نے ششدر آنکھوں سے اپنے برابر بیٹھے ہوئے ولیم کی طرف دیکھا اور سوچنے لگی۔ کیا ایک صدی پہلے کا ولیم اب بھی اس کے ساتھ ہے۔ (ختم شد)