فاخرہ سے بچپن کا ساتھ تھا۔ دسویں تک ہم جماعت رہے۔ وہ میری بہت اچھی دوست تھی۔ لائق اور پڑھائی میں نمبرون۔ والد کا ارادہ اسے ڈاکٹر بنانے کا تھا مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ انکل کی اچانک بیماری کے بعد گھر کا تمام بوجھ فاخرہ پر آپڑا۔
شروع دنوں میں تو حالات کی سنگینی کا زیادہ احساس نہ ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مالی حالات نے گھر کی بنیادوں کو ہلانا شروع کیا تو اسے پڑھائی چھوڑ کر ملازمت کی تلاش کرنا پڑ گئی۔ چھ ماہ کی مسلسل تلاش و جانفشانی کے بعد بالآخر ایک اسکول میں ٹیچر لگ گئی۔ تنخواہ زیادہ نہ تھی تاہم گزارہ ہونے لگا۔ پرنسپل نے کہا کہ پہلے تین ماہ آپ کی کارکردگی دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا جائےگا کہ آپ کا مستقل تقرر کیا جائے یا نہیں۔ تنخواہ کا انحصار بھی حسن کارکردگی پر ہو گا۔ ضرورت مند تھی، کیوں نہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی۔ بہت لگن اور محنت سے بچوں کو پڑھانے لگی۔ یہاں تک کہ اس کی محنت نے پرنسپل کو متاثر کیا۔
میری یہ اچھی دوست ٹیچر بھی اچھی ثابت ہوئی۔ اسکول میں بہترین کارکردگی کے چرچے ہونے لگے۔ اس کی تین چھوٹی بہنیں تھیں جو ابھی پڑھ رہی تھیں۔ والد کی کتابوں کی چھوٹی سی دکان تھی۔ جب سے انکل بیمار پڑے تھے، دکان ان کا ملازم چلا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ملازم وہ کمائی تو نہ دے پاتا تھا جو انکل کے دکان پر بیٹھنے سے ہوا کرتی تھی۔ تاہم بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق وہ تھوڑی کمائی کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے۔ یہ ملازم ان کی ایک غریب رشتے دار بیوہ کا بیٹا تھا، اس لیے دکان اس کے حوالے کر دی تھی کہ دونوں گھرانوں کا بھلا ہوتا رہے گا۔
جلد ہی فاخرہ کو احساس ہوگیا کہ اس نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر غلطی کی ہے۔ اس نے شام کی کلاسیز میں دوبارہ داخلہ لے لیا اور فاضل وقت میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم کا خرچہ نکالنے لگی۔ اب ایک لمحہ بھی فراغت کا اسے میسر نہ تھا۔ وہ ایک حساس لڑکی تھی۔ اپنے والدین اور بہنوں سے محبت کرتی تھی۔ ان کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھتی۔ چھوٹی بہن عاطفہ نے میٹرک کیا تو وہ فرسٹ ایئر میں داخلے کے لئے ضد کرنے لگی۔ حالات اس کی اجازت نہ دیتے تھے۔ پھر بھی فاخرہ نے اس کا دل نہ توڑا اور جوں توں کر کے کالج میں داخلہ کروا دیا۔ والدین کو بیٹی کی قربانیوں کا احساس تھا۔ وہ اسے بہت دعائیں دیا کرتے تھے۔
وہ صبح سویرے بیدار ہو جاتی۔ پہلے گھر والوں کے لئے ناشتہ تیار کرتی۔ بعد میں جاب پر جاتی تاکہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔ وہ گھر سے نکلتے وقت پہلے اپنے والد اور پھر والدہ کے پاس جاتی، ان کے آگے سر جھکا کر دعا لیتی۔ وہ والدین کی دعا لئے بعیر کبھی گھر سے نہ نکلتی تھی۔
تین ماہ پلک جھپکتے گزر گئے۔ پرنسپل نے اسے اپنے آفس میں بلوایا۔ دھڑکتے دل سے وہ ان کے سامنے گئی۔ ڈر تھا کہیں ملازمت سے جواب نہ دے دیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ انہوں نے اس کی محنت اور حسن کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے تقرر کا لیٹر دے کر کہا کہ تنخواہ میں بھی معقول اضافہ کر دیا ہے۔ امید ہے آپ آئندہ بھی اسی طرح لگن سے کام کریں گی اور ہمارے اسکول کا نام روشن کریں گی۔ پرنسپل صاحب کے یہ امید افزا الفاظ سن کر وہ خوشی سے نہال ہو گئی۔ اس نے سوچا یہ سب میرے والدین کی دعائوں کا ثمر ہے، ورنہ میں کس قابل ہوں کہ کوئی میری تعریف کرے۔ وہ بڑی منکسر المزاج تھی اور اس کی یہی صفت سب کو پسند تھی۔
فاخرہ لگاتار محنت کرتی رہی۔ اس کی کلاس کا رزلٹ ہر سال اچھا آتا تو اسے شاباش ملتی اور یوں اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا رہا۔ پرنسپل صاحب خاص طور پر اس کے گرویدہ ہو گئے تھے کہ اسکول کے تمام فنکشن فاخرہ ہی کی زیر نگرانی تربیت پاتے تھے۔ وہ پڑھانے کے علاوہ اسکول کی اور بھی بہت سی ذمہ داریاں قبول کر کے انہیں خوش اسلوبی سے انجام دیتی تھی۔
پرنسپل صاحب کا نام امجد تھا اور یہ ان کا ذاتی اسکول تھا۔ ان کو احساس ہو گیا تھا کہ فاخرہ کی صورت میں اسکول کی ترقی و ترویج کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک انعام دیا ہے۔ وہ چالیس برس کے تھے۔ بیوی وفات پا چکی تھی اور ابھی تک انہوں نے دوسری شادی نہ کی تھی۔ اکثر ان کو تنہائی کا احساس شدت سے ستاتا تھا مگر کوئی موزوں جیون ساتھی نہ مل پایا تھا۔ فاخرہ کو جب سے دیکھا تھا، اسے پرکھتے رہے اور اب ان کے دل میں یہ خیال جا گزین ہو چلا تھا، اگر یہ خاتون ان سے شادی کرنا قبول کر لے تو ان کی زندگی میں خوشیاں آسکتی ہیں۔ تاہم وہ اس خواہش کا اظہار فاخرہ سے کرتے ہوئے جھجکتے تھے۔ جانے وہ کیا جواب دے، کہیں برا نہ مان جائے یا نوکری ہی چھوڑ کر چلی جائے۔ ردّعمل کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ فاخرہ سے شادی کی خواہش کو دل میں دبائے امجد صاحب اب کچھ پریشان سے رہنے لگے۔ وہ بات کرتے کرتے بھول جاتے۔ ایک دن فاخرہ نے ان سے پوچھ لیا کہ سر پہلے تو آپ اس طرح نہ تھے۔ اب کیا ہوا ہے کہ ہر بات بھولنے لگے ہیں۔ کیا میں آپ کی پریشانی کے بارے میں پوچھ سکتی ہوں۔
امجد صاحب اسی لمحے کے انتظار میں تھے۔ انہوں نے حال دل کہہ دیا کہ وہ اس سے شادی کے آرزو مند ہیں۔ یہ بات کہنا چاہتے تھے مگر کہہ نہ پا رہے تھے۔ آج پوچھا ہے تو بتا دیا ہے… اور فیصلہ اس کا آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔ سوچ کر جواب دیں۔ فاخرہ کو اس بات کی قطعی امید نہ تھی کہ پرنسپل صاحب اس سے ایسی بات کریں گے۔ وہ پریشان ہو گئی۔ کوئی جواب دیئے بغیر ان کے آفس سے نکل آئی۔ اگلی صبح وہ اسکول جانے کو تیار نہ ہوئی تو ماں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
یونہی چار دن گزر گئے اور وہ ڈیوٹی پر نہ جاسکی تو اس کی والدہ پریشان ہو گئیں کہ ضرور کوئی بات ہے جو یہ اسکول نہیں جا رہی ورنہ کبھی وہ اتنی زیادہ چھٹیاں نہیں کرتی تھی۔ ماں نے اصرار کیا۔ مجھے بتائو کیا بات ہے۔اس نے کچھ نہ بتایا۔ اگلے روز اسکول جانے کی تیاری کرنے لگی مگر ڈر رہی تھی کہ جب امجد صاحب چھٹیوں کے بارے میں پوچھیں گے تو کیا جواب دے گی۔ سر امجد کلاس روم میں آئے وہ سہم گئی کہ اب کیا کہے گی مگر جیسا وہ سوچ رہی تھی، ایسا کچھ نہ ہوا۔ انہوں نے چھٹیوں کے بارے میں کوئی سوال کیا اور نہ کوئی دوسری بات کی۔ بس خیریت دریافت کی اور چلے گئے۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔
وقت معمول کے مطابق گزرتا گیا۔ پھر کوئی بات پرنسپل صاحب نے نہ کی جس سے وہ تذبذب میں پڑتی… عاطفہ نے بی اے کر لیا تو ایک رشتہ آگیا۔ یہ لڑکا کالج میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا۔ ریان اچھے گھرانے کا تھا۔ والدین نے لڑکے کو دیکھا اور رشتہ پسند کر لیا۔ عاطفہ کی شادی کر دی۔ اس کی شادی پر فاخرہ نے اپنی کولیگز سے کافی قرضہ لیا تاکہ بہن کو عزت سے رخصت کر سکے اور اب یہ قرضہ اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی تنخواہ سے اتارنا تھا۔ اس وجہ سے مالی حالات پھر سے تنگ ہو گئے تھے ۔ یہ بات کسی طرح پرنسپل صاحب کو بھی معلوم ہو گئی تو انہوں نے بونس کے طور پر معقول رقم فاخرہ کی تنخواہ میں شامل کر دی۔ وہ سمجھ گئی کہ پرنسپل صاحب نے اس کی خودداری کا بھرم رکھا ہے ورنہ اور کسی کو بونس کیوں نہ دیا۔ اسی کو کیوں دیا؟ بہرحال مجبوری کا نام شکر سمجھ کر خاموش رہی۔
انہی دنوں اس کے لئے بھی دوچار اچھے رشتے آئے۔ اس نے انکار کیا۔ چاہتی تھی ایک اور بہن شادی شدہ ہو جائے تو پھر اپنے گھر کو بسانے کے بارے میں سوچے۔ مگر وقت تیزی سے بیت رہا تھا اور امجد صاحب اب مزید گومگو کی کیفیت میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ میں براہ راست فاخرہ کے والدین سے بات کرلوں، اگر رشتہ ہونا ہو گا تو ہو جائے گا، ورنہ اس امید کو دل سے نکال دوں گا کہ فاخرہ میری شریک حیات بنے۔
ایک روز جب کہ فاخرہ کے والد کی طبیعت خراب تھی، وہ اسکول نہ آسکی، تب امجد صاحب اس کے گھر والد کی عیادت کے بہانے چلے گئے اور باتوں باتوں میں جب انکل نے فاخرہ کی شادی کے بارے میں فکر کا اظہار کیا تو انہوں نے اپنا مدعا بیان کر دیا۔ امجد صاحب کی طرف سے پیغام ملنے پر وہ خوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری خوش نصیبی ہو گی اگر میری زندگی میں یہ بیٹی آپ کی شریک حیات بن جائے۔ میں بیمار رہتا ہوں۔
آپ صاحبزادی کی رضا مندی معلوم کر لیں۔ امجد صاحب نے کہا تو انکل بولے۔ میں جہاں کہوں گا فاخرہ انکار نہیں کرے گی۔ میں اسے جانتا ہوں۔ وہ میری فرمانبردار بیٹی ہے۔ والدین کی طرف سے ہاں ہو گئی۔ امجد صاحب خوش ہو گئے۔ فاخرہ نے بھی انکار نہ کیا۔ غالباً اس کے دل میں بھی پرنسپل صاحب کی محبت جاگزین ہو چکی تھی۔ یوں منگنی کی رسم خوش اسلوبی سے انجام پا گئی لیکن اس رشتے کے بارے میں فی الحال اسکول میں کسی کو خبر نہ دی گئی تاکہ شادی تک معاملہ راز ہی رہے۔
منگنی کے ایک ماہ بعد انکل کی طبیعت قدرے بہتر ہو گئی۔ وہ اب چلنے پھرنے لگے تھے۔ امجد کے والدین شادی کی تاریخ لینے گھر آئے۔ انہوں نے ایک ماہ بعد کی تاریخ دے دی۔ ابھی شادی کی تیاریاں شروع ہوئی تھیں کہ اچانک انکل کی طبیعت بگڑ گئی اور اللہ تعالیٰ کی رضا سے وہ وفات پا گئے۔ گھر میں سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ شادی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
کچھ دن وہ اسکول نہ جا سکی۔ بالآخر ڈیوٹی پر جانا شروع کیا۔ مگر اب وہ امجد صاحب سے نگاہیں نہ ملا سکتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ افسردہ ہے۔ درحقیقت وہ اپنا ارادہ بدل چکی تھی کیونکہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی ذمے داریاں اور بڑھ گئی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی اگر اب میں نے شادی کر لی تو میری بہنوں اور بھائی کا کیا ہو گا۔ ماں کیسے ان کی ذمے داریوں سے نبردآزما ہو سکے گی۔ چھوٹی بہن کی منگنی خالہ زاد سے ہو چکی تھی۔ خالہ کئی بار شادی کے لئے تقاضا کر چکی تھیں۔ ان کے بیٹے کو بیرون ملک جانا تھا، اس لئے جلدی رخصتی چاہتی تھیں۔ فاخرہ بہنوں کی شادیاں اچھے طریقے سے کرنا چاہتی تھی۔ اس نے امجد صاحب سے اپنی مجبوری بیان کر دی اور کہا کہ فی الحال وہ اپنی شادی کو ملتوی کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کی بہنیں اپنے گھروں کی ہو جائیں، تب تک بھائی کو بھی کوئی نوکری مل جائے گی، وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا توماں کو سنبھال لے گا۔ اس کی شادی کی صورت میں چھوٹی بہن پر ذمے داری آپڑے گی تو اسے ملازمت کرنی پڑے گی۔
امجد صاحب نے مالی مدد کی پیش کش کی۔ فاخرہ نے منظور نہ کیا اور چھوٹی دونوں بہنوں کی شادیوں تک خود شادی نہ کرنے کا حتمی فیصلہ سنا دیا۔ دونوں بہنوں کی شادیاں خوش اسلوبی سے ہوگئیں۔ شادی میں امجد اور اس کے والدین نے بھی شرکت کی۔ یہاں ان کا تعارف فاخرہ کی والدہ نے اپنے بھائی اور ان کی فیملی سے کروایا جو بیرون ملک سے آئے تھے۔ ماموں زاد بھائی جو خاصا خوبرو اور تعلیم یافتہ تھا، اس موقع پر اس نے فاخرہ کو پسند کیا اور اپنے والدین سے کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ بھائی نے بہن کو بہت مجبور کیا۔ وہ بھائی کے مان کو نہ توڑ سکی مگر جانتی تھی کہ امجد سے پہلے رشتے کی بات ہو چکی ہے اور منگنی بھی ہو گئی ہے لہٰذا اب فاخرہ کو فواد کے ساتھ شادی پر رضامند کرنا آسان نہ ہوگا۔ تبھی آنٹی نے ایک چال چلی۔ امجد کو اعتماد میں لیا۔ کہا کہ بیٹا تم میرا ساتھ دو اور فاخرہ کو فواد سے شادی پر راضی کرو۔ تم کسی اور لڑکی سے شادی کرلینا مگر میں نے اپنے بھائی کو انکار کیا تو ہم بہن بھائی جدا ہو جائیں گے۔ اس بات کا مجھے بہت قلق ہوگا۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں کہ آپ خود راستے سے ہٹ جائیں۔ مجھ پر احسان کریں اور میرا ساتھ دیں۔
امجد نے ایک لمحے کو سوچا، اس کے دل پر جو گزری سو گزری مگر اس نے آنٹی سے وعدہ کر لیا کہ وہ ان کا ساتھ دے گا۔ شادی کا ہنگامہ سرد ہو گیا فاخرہ کو ایک دن فون کر کے امجد نے کہا۔ تم نے بہت دیر کر دی ہے اب وہ وقت گزر چکا ہے جب میں تمہیں اپنانے کے لئے بے تاب تھا، اب نہیں ہوں۔ میرے والدین نے ارادہ بدل لیا ہے۔ بہتر ہے کہ تم وہاں شادی کرلو جہاں تمہاری والدہ چاہتی ہیں۔ خوددار فاخرہ کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ اگلے دن امجد صاحب کے اسکول استعفیٰ بھجوا دیا اور افسردہ ہو کر کمرے میں بند ہو کر بیٹھ گئی۔ تب ماں سمجھ گئی کہ امجد نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔
اس نے بیٹی کو سمجھایا کہ وہ فواد سے شادی پر راضی ہو جائے جہاں والدین کے لیے اتنی قربانیاں دی ہیں اور دعائیں لی ہیں، مزید ایک فرمانبرداری کر کے ان کی دعائیں لے۔ اِن شاء اللہ یہ دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ ہمیشہ خوش رہے گی۔ فاخرہ نے سر جھکا لیا اور کیا کرتی۔ یوں اس کی شادی فواد سے ہو گئی کہ فواد سے ہی قسمت میں شادی لکھی گئی تھی۔
آج کل وہ لندن میں ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ اسے امجد سے شادی نہ ہو سکنے کا افسوس وقتی طور پر ضرور ہوا تھا لیکن امجد صاحب نے جو قربانی دی، وہ زیادہ قابل قدر ہے۔ ایک ماں کے دل کو سکھ اور خوشی دینے کے لیے اس نے اپنی خوشی قربان کر دی۔ ایسے لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں جو دوسروں کی خوشیوں پر اپنی خوشیوں کو قربان کر دیا کرتے ہیں۔ (رخسانہ … فیصل آباد)