ملینا کو بہت عجیب لگ رہا تھا کہ وہ رات کے ساڑھے بارہ بجے ایک عادی چور کے ساتھ ایک نیم تاریک جگہ پر کھڑی تھی۔ اسے اس ملاقات کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑی تھی۔ اسے امید تھی کہ اسے اس شخص سے وہ معلومات حاصل ہوسکیں گی جن کے لئے اس نے دن رات ایک کر رکھا تھا۔
چاروں طرف خاموشی تھی۔ صرف ہوا کے ساتھ زمین پر لڑھکنے والے سوکھے پتوں کی سرسراہٹ تھی یا رات کو جاگ کر گزارنے والے حشرات الارض کی ہلکی ہلکی سی مختلف آوازیں جو وقفے وقفے سے سنائی دینے لگتی تھیں۔
’’فریڈی بتائو… تمہارے پاس کیا معلومات ہیں؟ تم نے جب فون کیا تھا تو کہا تھا کہ تم مجھے کچھ بتانا چاہتے ہو۔‘‘
’’ہاں مس ملینا… میں تمہیں وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ تم جو کچھ کر رہی ہو اسے بند کردو۔‘‘ وہ بولا۔
ملینا نے محسوس کیا کہ اس کی آواز میں کچھ گھبراہٹ اور تیزی ہے۔ یوں جیسے اپنی بات جلد ختم کرنا چاہتا ہو۔ وہ بولی۔ ’’تمہارے مشورے کا شکریہ…! لیکن میں اس لئے یہاں آئی ہوں کہ تم مجھے کچھ معلومات دو گے۔‘‘
’’تم نے ایک بار مجھ پر جو احسان کیا تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات پر عمل کرو… بہتر یہی ہے کہ تم یہاں سے اپنا بوریا بسترا باندھو اور یہ جگہ چھوڑ دو۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
ملینا اس کے پیچھے پیچھے تیز قدم اٹھاتی ہوئی بڑھی۔ ’’سنو فریڈی، میری بات سنو… تم میری مدد کرسکتے ہو… میں وعدہ…‘‘ بات اس کے منہ میں ہی رہی اور تیز چلتے ہوئے فریڈی کا جسم جیسے سفید روشنی میں نہا گیا۔
کچھ ہلکی سی آوازیں سنائی دیں… فریڈی کو ٹھوکر لگی۔ وہ دائیں بائیں لہرایا۔ اس کی جیکٹ پر دو بڑے بڑے گول نشان نظر آئے۔ پھر وہ جھٹکا کھا کر گرا۔ اس کی جیکٹ بھیگنے لگی۔ حالانکہ بارش نہیں ہو رہی تھی۔
ملینا ایک طرف ہٹ کر زمین پر گر پڑی… وہ بالکل بے حس و حرکت ایک بڑے ڈسٹ بن کی اوٹ میں بیٹھ گئی۔ فریڈی کا جسم تڑپ رہا تھا۔ ایک وین کے پہیوں کی آواز اور روشنی قریب ہی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے شیشے سے پستول کی نال جھانک رہی تھی۔
اچانک کوئی شخص بالکل اس کے برابر آ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اسے کھینچ کر اس نے کوڑے دان کے دوسری طرف کرلیا۔
وین برابر سے گزر گئی۔ وہ دونوں دبکے ہوئے بیٹھے رہے۔
کافی دیر گزر گئی۔ وین دوبارہ واپس نہیں آئی۔ وہ شخص اس سے مخاطب ہوا۔ ’’آئو… ملینا… چلتے ہیں… اس سے پہلے کہ پھر کوئی تمہارے تعاقب میں چلا آئے۔‘‘
ملینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’تم مجھے جانتے ہو؟‘‘
’’یہ میں بعد میں بتائوں گا… فی الحال تم چلو… مقصد تمہاری حفاظت ہے۔‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میرا نام انتھونی ہے۔‘‘
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ ملینا نے پوچھا۔
’’جو تم کر رہی ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ہم دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔‘‘
’’یعنی!‘‘
’’ٹائین۔‘‘ وہ بھینچے ہوئے لبوں کے ساتھ بولا۔
ملینا نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا۔‘‘
’’تمہارے اخبارات کے بارے میں انٹرنیٹ پہ سب کچھ موجود ہے۔ مجھے پتا ہے سب… اور بہتر یہی ہے کہ تم ہوٹل سے اپنا سامان اٹھائو… اب وہاں رہنا تمہارے لئے مناسب نہیں… تم میرے ساتھ چلو۔ وہاں میں تمہارے باقی سوالات کا جواب دے دوں گا۔‘‘
’’اگر تم مجھے ٹائین کے بارے میں کوئی معلومات دے سکو تو پھر میں تمہارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
’’تو چلو… تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں… اپنا سامان اٹھانے کے لئے۔‘‘ وہ بولا۔
’’تم مجھ سے کیا چاہتے ہو… مجھے اندازہ ہے کہ تم میرا پیچھا کر رہے تھے۔ اسی لئے تو تم عین موقعے پر وہاں پہنچ گئے۔‘‘ ملینا نے کہا۔
’’مجھے تمہاری فائل چاہئے۔‘‘
ملینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’تم ہوش میں تو ہو۔‘‘
’’ہاں…! میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس پولیس سے بھی زیادہ معلومات ہیں۔ تم ایک عرصے سے ٹائین کے بارے میں تحقیق کر رہی ہو… کچھ معلومات میرے پاس بھی ہیں جو مجھے اس تک لے جا سکتی ہیں۔‘‘
’’اچھا… تو تم بھی رپورٹر ہو… کس پرچے میں کام کرتے ہو؟‘‘
’’نہیں… میں رپورٹر نہیں ہوں… نہ ہی صحافت سے میرا کوئی تعلق ہے۔ مجھے دلچسپی ہے تو صرف ٹائین سے…‘‘
ملینا نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے نقوش میں کرختگی تھی۔ اس نے شانوں تک لمبے بالوں کو ایک بینڈ میں باندھ کر پونی ٹیل سی بنا رکھی تھی۔ اس کے کان میں سونے کی ایک چھوٹی سی بالی تھی۔
’’میں تمہیں یہ کبھی بھی نہیں بتائوں گی کہ ٹائین کہاں ہے۔ یہ میری اسٹوری ہے۔ میں نے مہینوں اس پر محنت کی ہے۔ جب اس کو گرفتار کیا جائے گا تو میں وہیں ہوں گی۔‘‘
’’تم کیا سمجھ رہی ہو کہ وہ تم سے بے خبر ہے۔ آج کے حملے سے تمہیں پتا چل گیا ہوگا کہ وہ تمہارے کتنے قریب ہیں… آج کے حملے میں نشانہ تم بھی تھیں۔‘‘
وہ اندر کمرے میں آ کر اپنی چیزیں اکٹھی کرتے ہوئے بولی۔ ’’اگر تم میری فائلیں چرانے کا سوچ رہے ہو تو اس کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ میں ایسی چیزیں محفوظ کرنے کے لئے کوڈ استعمال کرتی ہوں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔‘‘
’’میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں… ہاں… میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اپنے کارڈ ایک دوسرے کو دکھائیں تاکہ پتا چل سکے کہ ہم ایک دوسرے کا کس حد تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر تمہیں یہ منظور ہے تو ہم ایک جگہ چل کر کافی پیتے ہیں… وہیں بات بھی ہو جائے گی۔‘‘
ملینا بیگ میں اپنی چیزیں رکھتے ہوئے کچھ دیر اس کی پیشکش پر غور کرتی رہی۔ پھر اس نے ہاتھ میں تھاما ہوا بیگ شانے پر ڈالا۔
انتھونی آگے بڑھا اور بولا۔ ’’لائو… میں اٹھا لیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں شکریہ…! میں اپنا بوجھ اٹھانے کی عادی ہوں۔‘‘ وہ اس کے برابر سے گزرتی ہوئی باہر چلی آئی۔
انتھونی نے اپنی جیپ کی طرف اشارہ کیا۔ اپنا بیگ پچھلی سیٹ پر رکھ کر وہ اس کے برابر بیٹھ گئی۔
وہ کچھ ایسے راستوں سے جن سے وہ واقف نہیں تھی… ہوتا ہوا ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں پہنچا۔ جہاں فرنیچر سستا اور صفائی کا معیار اچھا نہیں تھا۔
ویٹر کافی اور سینڈوچز رکھ کر چلا گیا تو ملینا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں معلوم ہوتا تھا۔ ملینا نے چمچے سے پیالی کو بجا کر اسے متوجہ کیا۔ وہ مسکرایا تو اس کے چہرے کی سنگینی قدرے کم ہوگئی۔
ملینا نے اسے مخاطب کیا۔ ’’ہاں… کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم ٹائین کے بارے میں کیا جانتے ہو۔‘‘
’’وہ دوائوں کے ایک گھنائونے کاروبار میں ملوث ہے۔ اس کا تعلق ایسے لوگوں سے بھی تھا جو مختلف تجربات کر کے غیرمعمولی بچے پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس نے ایک خانہ بدوش جوڑے سے معاہدہ کیا… کچھ رقم کے عوض انہیں دوائیں استعمال کرائیں۔ وہ چاہتا تھا کہ خانہ بدوشوں کی مخصوص قوتیں ان بچوں میں منتقل ہو جائیں اور انہیں بڑھایا جائے۔‘‘
’’کیسی قوتیں؟‘‘ ملینا نے سوال کیا۔
’’کسی کے دل کی بات جان لینے کی طاقت… کسی کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی فعل انجام دینے پر مجبور کردینا اور کچھ ایسی ہی پراسرار قوتیں…‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’اس خانہ بدوش عورت کے یہاں تین جڑواں بچے پیدا ہوئے… دو لڑکیاں اور ایک لڑکا پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ٹائین ایک روز اچانک آیا۔ وہ گرمیوں کی ایک رات تھی۔ اس عورت نے گرمیوں کا ہلکا لباس پہن رکھا تھا… پتا نہیں کیا ہوا کہ وہ اس کو بری طرح سے مارنے لگا۔ اس کا لباس خون میں بھر گیا… پھر اس نے اپنی جیکٹ اتاری اور اس کے گلے میں ڈال کر پورا زور لگایا۔ اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔‘‘
انتھونی نے سر جھکا لیا۔ اس کے چہرے پر بلا کا کرب تھا۔ پھر وہ آہ بھر کر بولا۔ ’’یہ آج سے پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت چار سال کا تھا۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا… لیکن ٹائین کو اس کی خبر نہیں تھی۔‘‘
’’مگر تم وہاں کیا کر رہے تھے؟ تم نے اتنی چھوٹی سی عمر میں قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔‘‘
’’وہ میرا گھر تھا اور وہ خانہ بدوش عورت میری ماں تھی۔‘‘
’’اوہ… خدایا…! میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ تمہارے ساتھ ایسا ہوا… اوہ…! یہ سب کتنا افسوسناک ہے انتھونی۔‘‘ ملینا نے رنجور ہو کر کہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیسے اظہار ہمدردی کرے۔
’’میں اور میری دونوں جڑواں بہنیں یتیم خانے لے جائے گئے۔ مختلف لوگوں نے ہماری پرورش کی… جیسے ہی میں نے ہوش سنبھالا… میں اس شخص کی تلاش میں ہوں۔ اسے اپنے اس جرم کا حساب دینا ہوگا۔ میری ماں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘ اس نے ملینا کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’اب تمہاری باری ہے… ملینا…! تمہیں اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے… مجھے بتائو… میں اس مردود کو تلاش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ملینا نے چند لمحوں کے لئے سوچا… پھر محتاط سے لہجے میں بولی۔ ’’خفیہ ایجنسیوں نے اس کا ڈرگ سسٹم تقریباً ختم کردیا تھا۔ انہوں نے اس کی لیبارٹری پر بھی چھاپہ مارا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں آیا۔‘‘
’’میں تم سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم نے ذاتی طور پر اس کے بارے میں کیا معلومات اکٹھی کی ہیں۔‘‘ وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا۔
’’میں اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتا سکتی… ہاں مجھے اس تک پہنچنے کا ایک راستہ معلوم ہے۔ اگر تم میرے ساتھ چلو تو ہم اس کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔‘‘
وہ کچھ دیر سوچتا رہا… پھر بولا۔ ’’تو گویا ہم اس میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔‘‘
’’اگر تم پسند کرو تو۔‘‘ ملینا نے کہا۔
’’میں یہ پسند کیوں نہیں کروں گا۔ میں اس سے انتقام لینے کے لئے بے چین ہوں۔‘‘ وہ غصے میں ہونٹ بھینچ کر بولا۔
ملینا چونکی… ’’مگر تم قانون ہاتھ میں نہیں لو گے… ہم پولیس سے رابطہ کریں گے اور یہ خبر میں بریک کروں گی۔‘‘
’’یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اس نے گمبھیر سنجیدگی سے جواب دیا۔
ملینا نے مزید بحث کو کسی اور وقت کے لئے ملتوی کردیا اور چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
٭ … ٭ … ٭
پہاڑی سلسلوں پر دن بھر کا سفر تھکا دینے والا تھا۔ وہ رات گئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اترے… کھانا کھا کر وہ اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو انتھونی
برآمدے میں رک گیا… ’’ملینا…! تم ابھی کسی کو فون نہیں کرو گی… نہ اپنے آفس نہ خفیہ والوں کو۔‘‘ ملینا بھی ٹھہر گئی… ’’کیوں؟‘‘
’’ابھی ہمیں کچھ وقت چاہئے کہ ہم ان کے مزید قریب پہنچ جائیں… فون کرکے ہم اپنا سراغ انہیں خود دے دیں گے۔‘‘ وہ بولا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ملینا نے اثبات میں سر ہلایا۔
چاندنی میں لپٹی ہوئی رات میں اس کے کان میں پہنی ہوئی سونے کی چھوٹی سی بالی چمک رہی تھی۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں کوئی عکس، کوئی ان کہی بات تھی۔
ملینا ان آنکھوں میں جھانکے بغیر دروازہ کھول کر کمرے میں چلی آئی۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا یہ ساتھ اس وقت تک ہی ہے جب تک وہ ٹائین کو تلاش نہیں کر لیتے۔ اس لئے وہ خود کو کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ جب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ بغیر کسی ملال کے، بغیر کسی پریشانی کے ایک دوسرے سے رخصت ہوجائیں۔
وہ اپنے لیپ ٹاپ میں اپنے ضروری نوٹس دیکھ رہی تھی کہ موبائل میں ارتعاش پیدا ہوا۔ ملینا نے اس کی روشن ہوتی ہوئی اسکرین پر نگاہ ڈالی۔ اس کے ایڈیٹر کا نام چمک رہا تھا۔ ملینا نے موبائل آن کیا۔
’’ہیلو… ملینا تم کہاں ہو؟ ہم تمہاری طرف سے فکرمند ہیں۔‘‘
ملینا نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اگر وہ یہاں بات کرتی تھی تو ساتھ والے کمرے میں انتھونی تک آواز چلے جانے کا اندیشہ تھا۔ اس نے فون کرنے سے منع کیا تھا لیکن وہ یہ بھی چاہتی تھی کہ کم از کم ایڈیٹر کو اس کے بارے میں کچھ خبر ہو تاکہ ہنگامی حالت میں اس سے مدد کے لئے رابطہ قائم کیا جاسکے۔
وہ موبائل لے کر کمرے سے باہر نکلی۔
رات اور گہری ہو چکی تھی۔ باہر خاموشی تھی۔ وہ پارکنگ لاٹ میں آئی اور انتھونی کی جیپ کی اوٹ میں ہو کر اس نے مدھم لہجے میں کہا۔ ’’میں ٹھیک ہوں جیمز… میں اپنی اسٹوری کے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہوں… جلد ہمارے پاس ایک بہت بڑی خبر بریک کرنے کے لئے ہوگی۔‘‘
’’بہت خوب… لیکن تم یہ تو بتائو کہ تم کہاں ہو اور تمہارے ساتھ کون ہے؟‘‘
’’میرے ساتھ انتھونی…!‘‘
بات اس کے منہ میں ایک بڑے سے ہاتھ نے وہیں روک دی۔
ملینا نے بے ساختہ اپنی کہنیوں سے مزاحمت کرنا چاہی لیکن کسی نے اس کے دونوں بازوئوں کو عقب میں لے جا کر اتنی زور سے پکڑا کہ اس کے بازوئوں میں درد ہونے لگا۔
اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹک کر خود کو آزاد کرانا چاہا لیکن وہ اپنے منہ سے اس کا ہاتھ ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس نے اپنی آنکھ کے گوشے سے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ دو ہیں۔ ایک نے اس کا بازو پکڑ رکھا ہے اور دوسرے کا ہاتھ اس کے منہ پر ہے اور پستول کی نال اس کی کنپٹی سے لگی ہوئی ہے۔
اس کے موبائل سے ایڈیٹر کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔ ’’ملینا… کیا تم واقعی وہیں ہو؟‘‘
انہوں نے فون اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔ پھر اسے پلاسٹک کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ گویا اس کا فون توڑ دیا گیا تھا۔
ملینا نے اپنے پائوں کی ٹھوکروں سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کی مگر لاحاصل… اس کے سر کے پچھلے حصے میں کسی نے زور سے ضرب لگائی۔
درد کی ایک شدید لہر نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے شرارے سے ناچنے لگے… رفتہ رفتہ مکمل تاریکی چھا گئی۔
کسی کے زور زور سے جھنجھوڑنے سے وہ ہوشیار ہوئی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ٹھیک طور پر دیکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کو جگانے والے شخص نے اسے بازو سے پکڑ کر یکلخت سیدھا کھڑا کردیا۔
ملینا کی ٹانگوں میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دوران خون رکا ہوا ہے۔
وہ شخص اسے آگے دھکیلتا ہوا بولا۔ ’’کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو تمہارا انجام بھی ایک خبر بن جائے گا۔‘‘
اپنی بے بسی پر ملینا کی آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے مگر وہ ان کو ضبط کرگئی۔ وہ ان دونوں مسٹنڈوں پر اپنی کسی کمزوری کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ چپ چاپ ان کے ساتھ چلنے پر مجبور تھی۔ اس کے ذہن میں کئی سوال ابھر رہے تھے۔ وہ کہاں تھی؟ کیا انتھونی کو بھی یہ لوگ اسی طرح پکڑ کر لے آئے تھے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو انتھونی کہاں تھا؟ وہ اسے بچانے کے لئے کیوں نہیں آیا تھا۔
وہ گرد و پیش کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی، تاکہ تمام تفصیلات کو یاد رکھ سکے۔ مگر انہیں یاد رکھنا مشکل تھا۔
وہ جس راہداری سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، وہ بھول بھلیاں سی معلوم ہوتی تھی۔ وہاں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کھڑکیاں یا روشن دان نہیں تھے۔ جہاں سے تازہ ہوا کا کوئی جھونکا ادھر آ سکتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ کسی غار کا اندرونی حصہ ہے۔
پھر وہ ایک برقی زینے کے ذریعے نیچے ہی نیچے اترتے گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ زمین کے پاتال میں ہی پہنچ کر دم لیں گے۔ بالآخر وہ ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوئے جو تیز روشنی میں نہایا ہوا تھا… درمیان میں ایک بیضوی میز پڑی تھی۔ جس کے اردگرد چار اونچی پشت کی کرسیاں تھیں۔ ایک طرف مکمل کمپیوٹر سسٹم تھا۔ جس کی اسکرین ابھی تاریک پڑی تھی، درمیان والی کرسی پر کوئی بیٹھا تھا۔
ملینا کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ شخص ٹائین ہی ہے جس کو تلاش کرنے میں اس نے ایک عرصہ لگایا تھا۔ وہ اس وقت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا لیکن وہ مجبور تھی۔ وہ اس نیوز کو بریک نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اپنی اس اسٹوری کو مکمل کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
اس نے سلیٹی رنگ کا بہترین سوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کے ہلکے سلیٹی بال بڑے سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔ وہ اپنے انداز نشست سے کسی بڑی کمپنی کا ذمہ دار افسر لگتا تھا۔ اسے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایک بے رحم قاتل بھی ہوسکتا ہے۔
ملینا کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ وہ اپنے تنے ہوئے اعصاب کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی تھی کہ حالات کا مقابلہ کرسکے۔ ٹائین کے اشارے پر جو شخص اسے تھامے ہوئے تھا اس نے اسے ایک کرسی پر بٹھا دیا اور اس کے شانوں پر دبائو ڈالا تاکہ اسے یہاں سے اٹھنے کی جرأت نہ ہو۔
ٹائین نے براہ راست اس کی طرف دیکھا، اس کی نگاہوں میں ایک سرد کر دینے والی کیفیت تھی۔ جس سے خوف آتا تھا۔
لیکن ملینا نے خود کو اس کے زیر اثر نہیں آنے دیا اور جرأت کر کے پوچھا۔ ’’تم لوگ مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘
’’فی الوقت تو تمہاری حیثیت ایک جال کی ہے۔‘‘ وہ گمبھیر آواز میں بولا۔ ’’لیکن میں تمہاری سرگرمیوں سے اس وقت سے آگاہ ہوں، جب سے تم نے اپنی اس نام نہاد اسٹوری پر کام شروع کیا تھا… تمہاری ہر حرکت کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ تمہاری ہر کال ہمارے مانیٹر میں موجود ہے… ہمیں اس کا بھی علم ہے کہ تم نے کب سے اس احمق انتھونی کے ساتھ مل کر ہمارے ٹھکانے کا سراغ لگانے کا ڈھونگ رچایا ہے… تم جتنی بھی کوشش کرلیتے… تم قیامت تک اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔‘‘
’’انتھونی ہر حال میں تمہیں تلاش کر لے گا۔ تم اس کی ماں کے قاتل ہو۔‘‘
’’یہ ضروری تھا۔ اس عورت نے ہمیں دھوکا دیا تھا۔ ہم نے یہ بچے اس لئے تخلیق کئے تھے کہ ان میں کچھ خصوصیات کو انتہا پر پہنچا سکیں۔ مگر اس عورت نے ہمارے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ تب وہ اس انجام سے کیسے بچ سکتی تھی۔‘‘
ملینا کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس قیمتی سوٹ کے اندر کوئی انسان نہیں وحشی درندہ تھا۔ جس کے نزدیک کسی انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا… اس کی کرسی کے قریب آیا اور اس کے بالوں کی ایک لٹ کو اپنی چٹکی میں مسلتے ہوئے بولا۔ ’’اب وہ تمہاری تلاش میں یہاں آئے گا۔ میرے لوگ اسے یہاں تک آنے کا کھلا راستہ دیں گے… جب وہ ایک دفعہ یہاں آ جائے گا تو پھر اس پر ہمارا اختیار ہوگا۔‘‘
’’نہیں…! وہ نہیں آئے گا۔ اسے کیا پڑی ہے کہ میرے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالے۔‘‘ ملینا ناپسندیدگی سے سر جھٹک کر بولی۔
’’یہ تمہیں ابھی پتا چل جائے گا۔‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
دروازہ کھلا اور دو گارڈ کسی کو گھسیٹتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ اس شخص کے کپڑے دھول میں اٹے ہوئے تھے۔ اس کے گردن تک لمبے بال اس کے چہرے کے گرد جھول رہے تھے۔
ملینا دھک سے رہ گئی۔ وہ اس کا چہرہ صاف طور پر تو نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس حالت میں بھی وہ اسے پہچان سکتی تھی… وہ انتھونی تھا…!!
’’چھوڑ دو اسے۔‘‘ ٹائین نے آرڈر دیا۔
گارڈ پیچھے ہٹ گئے۔ انتھونی گرتے گرتے بچا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہو۔ اس نے اپنے چہرے سے بال جھٹکے تو ملینا اس کا زخمی چہرہ دیکھ کر کانپ گئی۔ اس کے منہ کے ایک گوشے سے خون کی ایک لکیر سی بہہ رہی تھی۔ اس کے رخسار پر ایک لمبا زخم تھا… اس کی دائیں آنکھ سوج کر بند ہوچکی تھی۔ اس کے گرد ایک گہرا سیاہ حلقہ تھا۔
اس نے سر اٹھایا تو اس کی نگاہ ملینا پر پڑی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم ٹھیک ہو؟‘‘
ملینا اس کی حالت دیکھ کر اس قدر پریشان ہوچکی تھی کہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ اس نے صرف اثبات میں سر ہلایا۔
انتھونی نے اپنے منہ سے بہتے ہوئے خون کو اپنے ہاتھ سے پونچھا اور ٹائین سے بولا۔ ’’ملینا کو جانے دو… میں یہاں آگیا ہوں… تمہارا مقصد حاصل ہوگیا ہے۔‘‘
ٹائین ہنسا۔ ’’تم اس پوزیشن میں نہیں ہو کہ اپنے مطالبات منوائو۔‘‘ پھر اس نے ایک گارڈ کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر پستول ملینا کی کنپٹی سے لگا دیا اور بولا۔ ’’اگر یہ کوئی حماقت کرے تو اس کو فوراً گولی مار دینا۔‘‘
ملینا غیرارادی طور پر پیچھے ہٹی۔ ’’تم ہمیں زیادہ دیر قید نہیں رکھ سکتے… پولیس تمہیں…!‘‘
’’مس ملینا…!!‘‘ ٹائین نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’ہم ہر اس محکمے کو کھلاتے پلاتے ہیں جس کی طرف سے کوئی خطرہ ہو… سو پولیس یہاں نہیں آ سکتی… ویسے میری ہی بنائی ہوئی یہ مخلوق نہیں چاہتی تھی کہ پولیس مجھے گرفتار کرے… یہ مجھے خود قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ وہ مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔ ’’ہم نے کہا اس بہادر نوجوان کو اس کا موقع ملنا چاہئے۔‘‘
انتھونی نے غصے سے دانت بھینچتے ہوئے سوجی ہوئی آنکھ سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’اگر تم اتنے ہی مہربان ہو تو مجھے اس کا موقع
اپنے ان بندوں سے کہو کہ مجھے چھوڑ دیں۔‘‘
’’اب تمہیں چھوڑنے کے لئے یہاں نہیں لایا گیا تھا۔ اب ہمیں تم سے وہ کام لینا ہے۔ جس کے لئے تمہیں تخلیق کیا گیا تھا۔ اس وقت ہمارا نیٹ ورک اتنا مضبوط نہیں تھا کہ تمہیں اور تمہاری بہنوں کو ہم اپنے زیر تربیت رکھ سکتے… مگر اب ہمارے پاس ایک ترقی یافتہ لیبارٹری ہے۔ ہم کامیاب تجربات کر رہے ہیں۔‘‘
’’کیسے کامیاب تجربات؟‘‘ ملینا پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’آئندہ میری بات نہ کاٹنا… سمجھیں۔‘‘ گارڈ پستول کی نال کو ملینا کی کنپٹی کے ساتھ رگڑا تو وہ لرز گئی۔
وہ پھر انتھونی سے مخاطب ہوا۔ ’’ہم نے تمہاری پرورش کی ہوتی تو تم میں تمہاری خانہ بندوش ماں کی صلاحیتیں پورے عروج پر ہوتیں… تم مستقبل کو پہلے سے جان سکتے تھے مگر اب بھی تمہارے اندر وہ صلاحیتیں موجود ہیں… ہم اگلی نسل جو پیدا کر رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے بہترین صلاحیتوں کی حامل ہوگی… پھر مستقبل میرا ہوگا… کوئی مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہوگا۔‘‘
’’تمہارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔‘‘
’’خاموش رہو!‘‘ اس نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’مجھے تمہاری بکواس نہیں سننا… اب تم ہمارے اختیار میں ہو… تم باپ بنو گے اور یہ صحافی وہی کام کرے گی جو تمہاری ماں نے کیا تھا۔ ہمارے پاس ایک اضافی صلاحیت یہ بھی ہوگی۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
’’اوہ خدایا!‘‘ ابھی اس نے کیا سنا تھا… ملینا کو اپنی سماعت پر اعتبار نہیں آ رہا تھا جو کچھ ٹائین کہہ کر گیا تھا… وہ اس کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ اس کی ہمت، اس کی بہادری، اس کی جرأت جیسے کافور ہوگئی تھی۔ وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی۔
’’ملینا!‘‘ اپنا نام سن کر چونکی… انتھونی اس کے بہت قریب تھا۔ وہ اس کے آنسو صاف کر رہا تھا۔
’’اب کیا ہوگا انتھونی؟‘‘ ملینا نے بے چارگی سے سوال کیا۔
’’کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ وہ سر جھٹک کر مضبوط لہجے میں بولا۔ ’’ہم نے ٹائین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا تھا اور ہم اس کو پورا کرکے رہیں گے… خواہ ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے مگر ہم اس کے مکروہ ارادوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’مگر کیسے؟‘‘ ملینا کو حوصلہ ہوا تھا۔
انتھونی نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کسی باقاعدہ کمرے میں نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ترشی ہوئی چٹان تھی جسے کمرے کی شکل دی گئی تھی جہاں نہ کھڑکی تھی نہ روشندان۔
روشنی کے لئے ایک طاقچے میں مٹی کے تیل کی لالٹین رکھی ہوئی تھی۔ اسی چٹان میں سوراخ کر کے دروازے کے قبضے وہاں مضبوطی سے گاڑھے گئے تھے۔
دونوں گمبھیر خاموشی میں ڈوبے ہوئے چپ چاپ چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ اچانک انتھونی نے جھرجھری سی لی۔ اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔ ’’اوہ…! وہ یہاں آنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ملینا کو یوں لگا جیسے کمرے میں کسی خوشبودار ہوا کا جھونکا داخل ہوا ہے… جس میں خودرو جنگلی پھولوں کی ایک خوشگوار مہک تھی۔ لالٹین کا شعلہ بھی تھرتھرانے لگا تھا۔
’’تم کس کی بات کر رہے ہو انتھونی؟‘‘ ملینا نے پوچھا۔
’’میری جڑواں بہنیں… ڈینی اور میگی… وہ دونوں اس بڑی چٹان کی چوٹی پر ہیں۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتا؟‘‘ ملینا کو حیرت ہوئی۔
’’میں انہیں اطلاع دے کر آیا تھا کہ میں ٹائین کی طرف جا رہا ہوں۔ وہ مجھے اپنی طاقت دے رہی ہیں… وہ ہر لمحہ میری طاقت میں اضافہ کر رہی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تمہیں یہ تو معلوم ہے نا کہ ہم خاص بچے ہیں۔ ہماری تخلیق میں ٹائین کے خاص تجربات شامل تھے۔ جس وقت ہم پیدا ہوئے ٹائین کے پاس جدید آلات نہیں تھے۔ اس لئے ہمارے بارے میں اسے معلوم نہ ہوسکا کہ ہم کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ ہم تینوں جڑواں ایک برقی قوت کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔‘‘
دور کہیں زوردار دھماکہ ہوا… انتھونی کے سارے جسم کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا… چٹانوں میں زلزلے کی سی لرزش محسوس ہونے لگی۔ انتھونی نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ بولا تو آواز اس کی اپنی آواز سے بہت مختلف تھی۔ ’’میرا خیال ہے کہ مرکزی جنریٹر کے کیبل کو اڑا دیا گیا ہے۔‘‘
کمرے میں پھر ایک ہوا سی پھرنے لگی… لالٹین کا شعلہ لرزنے لگا۔ ان دونوں کے دیوار پر پڑتے ہوئے سائے بھی لرزنے لگے۔
ملینا نے انتھونی کی آستین تھام لی۔ اس سارے ماحول سے اسے خوف آنے لگا تھا، لیکن دوسرے ہی لمحے اسے کرنٹ سا لگا۔ انتھونی کی آستین اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔
’’ملینا… گھبرائو نہیں… حوصلہ رکھو… ہم تینوں جڑواں برقی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ میری بہنیں میری مدد کے لئے یہاں پہنچ چکی ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی انتھونی نے اپنے جسم کو ایک جھٹکا دیا۔ روشنی کا جھماکا سا ہوا اور دروازے کے اسٹیل کے قبضے خودبخود ٹوٹ گئے۔ دروازہ جھول کر نیچے گرا۔ لالٹین کا بھڑکتا ہوا شعلہ یکبارگی بجھ گیا۔ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی کا راج ہوگیا۔
ملینا کو انتھونی کی آواز سنائی دی۔ ’’ابھی آزادی کا راستہ بہت دور ہے۔ ہمیں ابھی چلنا ہوگا۔‘‘
دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ انہیں بہت دور سے محافظوں کے پکارنے اور دوڑنے بھاگنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
’’کس طرف چلنا ہوگا انتھونی؟‘‘ ملینا نے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے کہا۔
’’میں اپنی برقی لہروں سے کام لوں گا… تم میرے ساتھ ساتھ رہو۔‘‘ وہ بولا۔
ملینا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ چاروں طرف کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ انتھونی کا سہارا لئے… اندھیرے کی ان دبیز دیواروں کے درمیان بے سمت سفر کر رہی تھی لیکن اسے اپنے پیروں کے نیچے ڈھلوان محسوس ہو رہی تھی۔ گویا وہ غاروں کے اس جال میں نیچے کی جانب جا رہے تھے۔ وہ گھبرا رہی تھی کہ کہیں وہ تاریکی کی وجہ سے کچھ اور گہرائی میں نہ چلے جائیں۔
’’ٹھہرو… آگے دروازہ ہے۔‘‘ انتھونی نے اسے روک لیا اور بولا۔ ’’میں اس کا تالا کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
تھوڑی کوشش کے بعد ملینا کو دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ وہ انتھونی کے سہارے آہستہ آہستہ چار سیڑھیاں اتری۔ انہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کے پائوں کے نیچے سنگ مرمر کا فرش نہیں، قدرتی ناہموار زمین ہے۔
یہ کمرہ خالی معلوم ہوتا تھا، البتہ اس کے آخر میں ایک دروازہ تھا۔ انتھونی نے دروازے کو دھکیلا تو خلاف توقع وہ کھل گیا تھا۔ انہیں ہلکی ہلکی سی زرد روشنی پھیلی ہوئی محسوس ہوئی۔
یہ اطمینان کرکے کہ یہ کمرہ خالی ہے۔ وہ اندر داخل ہوئے۔ ملینا کی جان میں جان آئی۔ اتنی گہری تاریکی کے بعد یہ زرد روشنی کی سنہری سوغات غنیمت معلوم ہوئی تھی۔ انتھونی نے آگے بڑھ کر طاقچے میں رکھی ہوئی لالٹین اٹھا کر چاروں طرف گھمائی۔
ملینا پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ ’’انتھونی… تم کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
وہ اس پر لالٹین کی روشنی ڈالتے ہوئے بولا۔ ’’فی الحال تو میں اس لڑکی کو دیکھ رہا ہوں، جس کے بارے میں مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں مجھے اس سے محبت نہ ہو جائے۔‘‘
ملینا بھونچکی سی رہ گئی… اسے اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا… انتھونی ہنسا۔ ’’یہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو؟ ابھی تو صرف اندیشہ ہے۔‘‘
ملینا بھی ہنس پڑی۔ ’’جب یقین آ جائے تو مجھے بتانا۔‘‘
ان کا اگلا راستہ بہت ڈھلوان تھا۔ دونوں کے قدم پھسلتے جا رہے تھے۔ ملینا کو یاد آ رہا تھا کہ یہ شاید وہی راستہ تھا جس کے ذریعے اسے یہاں تک لایا گیا تھا۔ سرنگوں اور پتھروں میں ترشے ہوئے چھوٹے چھوٹے زینوں پر مشتمل… جن پہ بھول بھلیوں کا گمان ہوتا تھا۔
ملینا کے اندر خوف اب بھی حشرات الارض کی طرح رینگ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے ٹائین کے لوگوں کو ان کے فرار ہونے کی خبر ہوگئی ہے یا نہیں… کہیں وہ ان کے راستے میں تو گھات لگا کر نہیں بیٹھے ہوئے۔
لیکن انتھونی پراعتماد تھا۔ وہ سختی کے ساتھ اس کا بازو پکڑے ہوئے قدم آگے بڑھا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ آگے یہ زینے اس بلند چوٹی پر پہنچیں گے جہاں سے غاروں کی اس بھول بھلیوں کا آغاز ہوتا تھا۔
اچانک انہیں ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ ’’انتھونی تم اور کتنی دیر لگائو گے؟‘‘
یوں لگتا تھا جیسے یہ گونجتی ہوئی آواز اس بھول بھلیوں میں چکر لگا رہی ہے۔ کبھی وہ تیز ہو جاتی اور کبھی سرگوشیوں میں بدل جاتی۔ انتھونی ٹھٹھک گیا۔ غور سے سننے لگا۔
پھر ایک اور نسوانی آواز نے پکارا۔ ’’انتھونی…! ہماری بات کا جواب دو۔‘‘
انتھونی جیسے ایک دم ہوش میں آگیا۔ وہ جواباً پکارا۔ ’’ڈینی، میگی…! ہم یہاں ہیں۔‘‘
ایک موڑ سے یکدم تیز روشنی چمکی۔ جیسے کوئی طاقتور فلیش لائٹ ہو۔ اس کے ساتھ ہی دوڑتے ہوئے قدموں کی صدا سنائی دی۔
’’انتھونی… کیا یہ تمہاری بہنیں ہیں؟‘‘ ملینا نے پوچھا۔
انتھونی نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ دو لڑکیاں تیزی کے ساتھ اس موڑ پر نمودار ہوئیں۔ انتھونی پر نگاہ پڑتے ہی وہ آ کر اس سے لپٹ گئیں۔ دونوں کے انتھونی جیسے ہی سیاہ گھنے بال تھے۔ کم روشنی کے باوجود بھی ان تینوں کے نقوش کی مماثلت بڑی واضح تھی۔
’’انتھونی… یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟‘‘ ڈینی نے اس کا رخسار چھوتے ہوئے کہا۔
’’اب تم دونوں آگئی ہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ وہ مسکرا کر بولا۔ ’’تم لوگ ملینا سے ملو… میں نے اس کے بارے میں تمہیں بتایا تو تھا۔‘‘
ان دونوں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور گرمجوشی سے اس سے ہاتھ ملایا۔ میگی بولی۔ ’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم زیر زمین غاروں سے کافی اوپر آ چکے ہیں۔‘‘
ڈینی لائٹ لے کر آگے بڑھی اور ملینا کی طرف دیکھ کر شرارت سے بولی۔ ’’تم مجھے بہت ہی خاص لگتی ہو کہ تم نے میرے بھائی کو ان غاروں میں آنے پر مجبور کردیا ہے۔‘‘
ملینا بھی مسکرا اٹھی۔ وہ تنگ راستے پر آگے بڑھ گئی… جہاں ناہموار زمین پر ایک وقت میں ایک ہی انسان کے گزرنے کی جگہ تھی۔
’’کیا آگے راستہ محفوظ ہے؟‘‘ انتھونی نے پوچھا۔
’’ہم کچی گولیاں نہیں کھیلے جناب… ہم سارا انتظام کر کے آئے ہیں۔‘‘ میگی نے اپنے بیلٹ سے ایک چھوٹا
علیحدہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمام علاقہ پولیس کے گھیرے میں ہے۔ وہ صرف اس انتظار میں ہیں کہ تمہیں بحفاظت باہر نکال لیا جائے۔‘‘ اس نے ریڈیو آن کیا اور بولی۔ ’’وہ دونوں ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘
انتھونی نے ملینا سے کہا۔ ’’میگی کا شوہر پولیس کا ایک بڑا آفیسر ہے۔‘‘
چند قدم چل کر ہی وہ غار کے دہانے پر نکل آئے۔ تازہ ہوا خوشگوار تھی نیلے آسمان کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔
تاریکی کے بعد آنکھوں کو سورج کی سنہری روشنی بھلی لگی۔ ان کے اردگرد گائوں کے چھوٹے چھوٹے سے گھر دور دور تک پھیلے ہوئے ماچس کی ڈبیوں کی طرح معلوم ہو رہے تھے۔ چٹانوں کے اوپر ہوا تیز معلوم ہوتی تھی۔ عقابوں کی تیز چیخ نما آوازیں ہوا میں تیرتی پھرتی تھیں۔
تقریباً ایک درجن سے کچھ زیادہ ہی پولیس کے اہلکار مخصوص وردیاں پہنے… جدید ہتھیار سنبھالے… ان کے برابر سے گزرتے ہوئے اندر جا رہے تھے۔ فضا میں ہیلی کاپٹر بھی منڈلا رہا تھا۔ اس کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ کئی گھنٹوں کے مسلسل شدید دبائو کے بعد یقین نہیں آتا تھا کہ وہ خوفناک لمحے گزر گئے تھے۔
ملینا نے گہرا سانس لے کر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ انتھونی اور اس کی دونوں بہنوں کو ایک ساتھ کھڑے دیکھ کر اسے گہرے تحفظ کا احساس ہوا… اس نے انتھونی کا بازو پکڑتے ہوئے خوشی کے لہجے میں کہا۔ ’’یہ سب کتنا اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
ڈینی مسکرا کر بولی۔ ’’اور مجھے تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
اچانک ان کے برابر سے گزرتے ہوئے اہلکاروں میں سے ایک لپک کر آگے بڑھا۔ اس نے پلک جھپکتے میں ملینا کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اگلے ہی لمحے پستول کی نال اس کی کنپٹی سے لگی تھی۔
ملینا کے ہونٹوں سے چیخ نکل گئی۔ اس نے غیرارادی طور پر گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ خوفناک لمحہ پھر زندہ ہوگیا ہے۔
ٹائین اہلکاروں کی یونیفارم پہنے ٹوپی اپنے چہرے پر جھکائے ہوئے اس کے سامنے تھا۔ اس کی سرد کردینے والی نگاہیں ان سب پر گڑھی تھیں۔ ان کے اردگرد کچھ اور بھی اہلکار تھے۔ مگر اب یہ شناخت کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے کون ٹائین کا ایجنٹ ہے اور کون نہیں۔
’’چھوڑ دو اس کو۔‘‘ انتھونی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
ٹائین ملینا کا بازو مروڑ کر اس کے پیچھے لے گیا اور سنگین لہجے میں بولا۔ ’’میرے راستے میں نہ آنا… ورنہ میں اس کو شوٹ کردوں گا۔‘‘
انتھونی فوراً رک گیا۔ سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا۔ ’’ٹائین…! سب کچھ ختم ہوچکا ہے… تمہارے پاس اب کچھ نہیں رہا۔‘‘
’’پاگل کے بچے…! کچھ ختم نہیں ہوا۔‘‘ وہ غرایا۔
میگی اور ڈینی دونوں بڑھ کر انتھونی کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ ڈینی نے درشت لہجے میں کہا۔ ’’تم نے جن بچوں کو اپنے مکروہ ارادوں کی تکمیل کے لئے تخلیق کیا تھا وہی آج تمہارے راستے کی دیوار ہیں۔‘‘
’’تم بے بس ہو… تم کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘ میگی نے اسے للکارا۔
وہ ملینا کا بازو اس کی پشت کے پیچھے اس طرح لے گیا کہ وہ درد سے بے حال ہوگئی اور پستول میگی کی طرف سیدھا کرتے ہوئے بولا۔ ’’مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم میں سے کسی کو بھی شوٹ کردوں۔ میں نے جس طرح تمہیں تخلیق کیا ہے… میں تمہیں ختم بھی کرسکتا ہوں… اپنا ریڈیو آن کرکے آفیسر سے کہو کہ مجھے محفوظ راستہ دے۔‘‘
’’تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… ہم تمہارے کرتوتوں کے سامنے دیوار بنیں گے۔‘‘ انتھونی نے پورے یقین سے کہا۔
ملینا نے محسوس کیا کہ چاروں طرف ہوا کی ایک تیز لہر سی پیدا ہوئی۔ انتھونی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے سیاہ بال ہوا میں اڑ رہے تھے۔ اس کے کان میں پہنی ہوئی سونے کی بالی سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ تینوں ایک دوسرے سے طاقت حاصل کر رہے تھے۔
’’بہت ہوگئی!‘‘ ٹائین چلایا۔ اس نے پستول ملینا کی کنپٹی سے ایک بار پھر لگا دیا اور بولا۔ ’’تمہارے پاس تین سیکنڈ ہیں… میرے راستے سے ہٹ جائو… ایک…‘‘
ملینا کو حیرت تھی کہ موت کو اتنا قریب دیکھ کر بھی اسے خوف نہیں آ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں انتھونی پر تھیں… اس کی آنکھیں اسے تقویت دے رہی تھیں جو نڈر اور بے خوف تھیں… ٹائین گنتی گن رہا تھا۔
’’دو…! تین…!‘‘
لفظ ابھی پوری طرح سے ادا نہیں ہوا تھا کہ ایک بڑا عقاب نہ جانے اچانک کہاں سے نمودار ہوا۔ وہ اتنی نیچی پرواز کر رہا تھا کہ اس کا پھیلا ہوا پر ٹائین کے چہرے پر بڑے زور سے لگا۔ وہ اس اچانک آفت سے لڑکھڑایا اور ملینا کے بازو پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔
اس کے ہاتھ میں موجود پستول چل گیا اور دھماکے کے اثر سے وہ چٹان کے بالکل کنارے پر پہنچ گیا۔ اس نے سنبھلنے کے لئے دونوں بازو ہوا میں لہرائے… ایک نیلی روشنی کا جھماکا اس کے مکروہ چہرے پر یوں پڑا جیسے بجلی چمکتی ہے۔ اس نے چیخ کر بے ساختہ اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔
پھر ہوا کی ایک اور لہر آئی جس میں ایک عجیب و غریب گونج تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے چٹانیں لرز رہی ہیں۔ ہوا اور گرد کا وہ بگولہ ٹائین کی طرف بڑھا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
گرد کے اس بگولے کا رنگ اچانک سیاہ ہوا اور یوں محسوس ہوا جیسے اس نے ٹائین کو نگل لیا ہو۔ اس کے قدم اکھڑ گئے۔ اس کی ایک بھیانک چیخ فضا میں بلند ہوئی اور نہ جانے کب وہ چٹان سے غائب ہوگیا۔
خوف سے کانپتے ہوئے ملینا نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے اردگرد یہ سب کیا ہو رہا تھا۔ اس کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ اس کی آواز اسے اپنے کانوں میں آتی ہوئی سنائی دے رہی تھی۔ پھر اس نے انتھونی کو خود سے بہت قریب محسوس کیا۔ اس کی آواز اسے سکون دے رہی تھی۔ اس کا خوف آہستہ آہستہ کافور ہوتا جا رہا تھا۔
’’ملینا…! ہوش میں آئو… تم محفوظ ہو… سب ٹھیک ہوگیا ہے۔‘‘
ملینا نے بے ساختہ اپنے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹائے… وہ تینوں بہن بھائی اسے گھیرے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے جیسے فتح کی خوشی میں چمک رہے تھے۔
’’یہ… یہ سب کیا تھا؟‘‘
انتھونی مسکرایا۔ ’’یہ ہماری خانہ بدوش ماں کی طاقت تھی، جو اس نے ہم میں منتقل کی تھی لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ ٹائین اسے کسی غلط مقصد کے لئے استعمال کرے۔‘‘
’’کیا واقعی؟‘‘ ملینا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔
’’تم نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ نہیں دیکھا کیا؟‘‘ ڈینی نے ہنس کرکہا۔
’’دیکھا تو ہے۔‘‘ وہ ہونقوں کی طرح بولی۔ ’’لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘
’’یہ اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح تم نے ہمارے پیارے بھائی کے دل میں گھر کر لیا ہے۔‘‘ میگی نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
’’کیا واقعی؟ مجھے تو یقین نہیں آ رہا۔‘‘ ملینا بے ساختہ کہہ گئی۔
وہ تینوں ایک ساتھ ہنس پڑے… انتھونی نے اس کے کان کے قریب ایک مدھر سی سرگوشی کی۔ ’’میرا دل تمہارے پاس ہے اس کا خاص خیال رکھنا۔‘‘
(ختم شد)