Monday, September 16, 2024

Neki Karo Ajar Paao| Teen Auratien Teen Kahaniyan

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب بنگلا دیش مشرقی پاکستان تھا اور ہمارے پیارے وطن کا حصہ تھا۔ کمپنی کی طرف سے فرید کو ڈھاکا جانے کا حکم ملا اور تنخواہ بھی دُگنی کردی گئی۔ ان دنوں وہاں حالات پُرامن تھے۔ تاہم بیٹے کی جدائی نے افسردہ کردیا تھا۔
فرید کے جانے کے بعد جی اُداس رہنے لگا۔ تنخواہ معقول تھی۔ نہیںچاہتی تھی میری خاطر نوکری چھوڑ دے۔ جبکہ وہ کہتا تھا۔ آپ یہاں اکیلی ہیں۔ میں مشرقی پاکستان نہیں جاتا، نوکری چھوڑ دیتا ہوں۔ میں نے اسے ملازمت چھوڑنے کی اجازت نہ دی اور وہ ڈھاکا چلا گیا۔ دو سال بعد جب وہ واپس آیا تو مجھے احساس ہوا کہ اب بیٹے کی شادی کردینی چاہئے۔ میں اس کے انتظار میں وقت گزار رہی تھی لیکن وہ کس کے انتظار میں گھر سے دوری برداشت کررہا تھا۔
وہ وہاں تنہا رہتا تھا۔ بے شک اچھے خطوط پر پرورش ہوئی تھی تاہم جوانی میں زیادہ میں زیادہ عرصے کی تنہائی انسان کو افسردہ خاطر کردیتی ہے۔ وہ بھی پژمردہ و اداس دکھائی دیتا تھا۔ فرید کا چہرہ بجھا بجھا دیکھ کر لڑکی کی تلاش شروع کردی۔ وہ ایک ماہ کی چھٹی پر آیا تھا اور میں چاہتی تھی، انہی دنوں اسے دولہا بنا دیکھوں۔
جب فرید سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے کہا۔ ماں جیسی آپ کی مرضی۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ امیر گھر کی لڑکی نہ ہو بلکہ غریب گھر سے بہو لانا۔ رشتہ طے کرتے وقت کسی طمع اور لالچ کو دل میں جگہ نہ دینا۔ ایسی شادیاں شاذ و نادر کامیاب ہوتی ہیں جن کی بنیاد طمع اور لالچ پر استوار ہو۔
فرید کو کمپنی کی طرف سے ڈھاکا میں ہائوس رینٹ تب ہی مل سکتا تھا جب وہ شادی شدہ ہو۔ ماں، چاہتا ہوں آپ بھی میرے ساتھ رہیں لیکن مکان کا کرایہ کمپنی صرف اپنے شادی شدہ کارکنوں کو ہی دیتی ہے۔
بیٹے کی منشا پاکر میں نے محلے میں واقف کار خواتین سے مدعا بیان کردیا۔ پندرہ دن ایک پڑوسن کے توسط سے اچھا رشتہ مل گیا۔ ان دنوں ہم ملتان اور وہ خانیوال میں رہائش پذیر تھے۔ جب خانیوال لڑکی دیکھنے گئی تو سچ کہتی ہوں، میں نے لڑکی کے والدین کی غربت پر ترس کھا کر رشتہ طے کرلیا اور لڑکی کے سوا ہم نے اس گھر سے کچھ نہ لیا۔
خدا کی کرنی ایک سال بعد یکے بعد دیگرے میری بہو یعنی فاخرہ کے والدین راہی ملک عدم ہوگئے۔ مرتے وقت دونوں نے ایک ہی استدعا کی تھی کہ خدارا ہماری بچی کا خیال رکھنا۔ اسے کوئی تکلیف نہ دینا۔ تمہارے سوا اس بچی کا اور کوئی نہیں۔
میں نے صدق دل سے پہلے فاخرہ کے والد اور کچھ عرصے بعد اس کی قریب المرگ ماں سے وعدہ کیا کہ میں جب تک زندہ رہوں گی، آپ کی بچی کو کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گی بلکہ اپنی اولاد سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گی۔
فرید کی شادی کے بعد میں اور فاخرہ فرید کے ساتھ ڈھاکا چلے آئے۔ کمپنی کو اس نے اطلاع کردی تھی کہ اب وہ فیملی والا ہے لہٰذا ڈھاکا میں آتے ہی اسے کمپنی نے رہائش بھی مہیا کردی۔ہم نے رفتہ رفتہ گھر کو سیٹ کیا۔ ساس بہو میں پیار بڑھنے لگا۔ اس جگہ نہ اس کے رشتے دار تھے اور نہ میرے۔ بس ہم دونوں ہی تھے جو ایک دوسرے کے رشتے دار تھے یا پھر فرید تھا جو صبح آفس چلا جاتا تو شام کو لوٹتا۔
اردگرد سب بنگالی رہتے تھے۔ ہماری ان سے جان پہچان نہ ہوئی کہ ان کی بولی ہم نہ سمجھ سکتے تھے۔ فاخرہ صلح جو تھی، بات میں مین میخ نکالنا میرا بھی شیوہ نہ تھا۔ دونوں مل کر گھریلو کام کاج میں لگی رہتیں۔ یوں پیار و محبت کی فضا بنتی گئی۔
فرید شام کو تھکا ہارا آتا۔ محبت کرنے والی ماں اور مخلص بیوی کا استقبال اسے سکون پہنچاتا۔ فاخرہ کا پیار بھرا دل، سارا دن اپنے محبوب جیون ساتھی کے انتظار میں محو رہتا۔ اس کی آمد بہار کا جھونکا بن جاتی۔ کبھی فرید کو کام کی وجہ سے دیر ہوجاتی تو فاخرہ اس وقت تک کھانا نہ کھاتی جب تک وہ نہ آجاتا۔ حالانکہ میں اصرار کرتی کہ بیٹی تم کھالو، جانے وہ کب تک آئے۔ صبح سے بھوکی بیٹھی ہو مگر اسے فرید کے بغیر نوالہ توڑنا بھی گوارہ نہ تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ تین برس بیت گئے لیکن اللہ نے اولاد نہ دی۔ اس دوران ماہر لیڈی ڈاکٹروں کو بھی دکھایا۔ انہوں نے بتایا کہ لڑکی میں نقص نہیں ہے، جب اللہ چاہے گا اولاد ہوجائے گی۔
میں محسوس کررہی تھی کہ کچھ دنوں سے بہو اداس اور اس کی
طبیعت گری گری ہے۔ ایک روز پوچھا۔ بیٹی کیا سبب ہے؟ کوئی تکلیف نہیں ہے ماں جی۔ اس نے جواب دیا۔ فکرمند ہوگئی کہ میرے بیٹے کی پُرسکون زندگی اور اس کی خوشی اپنی شریک حیات سے وابستہ تھی۔ ایک روز فرید اخبار لایا تو اس کے ایک صفحہ پر بچوں کی تصویریں تھیں۔ یہ ’’بچوں کا صفحہ‘‘ تھا۔ بہو اس صفحہ پر شائع ایک خوبصورت گول مٹول بچے کی تصویر چوم رہی تھی۔ اسے میری آمد کی خبر نہ ہوئی۔ یہ دیکھ کر دل بھر آیا کہ وہ تصویر کو ہونٹوں سے لگائے رو رہی تھی۔
اب احوال سمجھ گئی کہ اس کو اپنے بے اولاد ہونے کا شدت سے احساس تھا۔ اسی سبب وہ اداس رہنے لگی تھی۔ شاید مایوس ہوگئی تھی۔ میں نے فاخرہ کو گلے لگایا۔ اسے سمجھایا کہ مایوس نہ ہو۔ کسی لیڈی ڈاکٹر نے تم میں نقص نہیں بتایا۔ ضرور اللہ مہربانی کرے گا اور تم کو اولاد کی خوشی نصیب ہوگی۔
فرید گھر آیا تو اسے احوال دیا۔ اس نے بھی بیوی کو تسلی دی کہ غم نہ کرو۔ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی دین ہے جسے چاہے دے۔ تم صرف دعا کیا کرو۔ ہمارے نصیب میں اگر یہ نعمت نہیں تب بھی ہم کو اس محرومی کا غم نہ کرنا چاہیے۔ ہم کو ایک دوسرے کا پیار نصیب ہے، اور یہ بڑی چیز ہے۔
میں وقتاً فوقتاً بہو کو سمجھاتی۔ اس کی دلجوئی کرتی۔ مگر اس کی پیاسی ممتا کو اولاد کی تڑپ رہتی۔ شاید یہ فطری امر تھا۔ ڈھاکا میں ہم کو رہتے پانچ سال ہوچکے تھے۔ اس دوران کئی بار مغربی پاکستان گئے۔ ملتان میں اپنا مکان تھا جس کی دیکھ بھال میری ایک خالہ زاد بہن کرتی تھیں جب گھر آتے۔ یہاں بھی میں اچھے اچھے ڈاکٹروں کے پاس بہو کو لے کر گئی کہ شاید ان کے علاج سے ہماری اور اس کی مراد بر آئے۔ مگر گود ہری نہ ہوئی۔
ڈھاکا میں ہم جہاں رہتے تھے، قریب ہی منیب الرحمٰن کا مکان تھا۔ یہ شخص بنگالی تھا اور فیکٹری میں منیجر کا معاون تھا۔ فرید سے سلام دعا تھی۔ اس کی والدہ سے میری اور اس کی بہنوں منورہ اور خورشیدہ سے فاخرہ کی دوستی ہوگئی۔ پردیس میں یہ جان پہچان غنیمت لگی۔ بیشک مشرقی پاکستان بھی ان دنوں ہمارا وطن تھا لیکن زبان مختلف ہونے سے لگتا تھا ہم پردیس میں ہیں۔ منیب کے گھر والوں سے اسی باعث دوستی ہوئی تھی کہ وہ اردو سمجھتے تھے اور بول بھی سکتے تھے۔
منیب کا ایک بیٹا اور بیٹی کم سن تھے۔ یہ دادی کے پاس تھے جبکہ بیوی نے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ بظاہر منیب بہت ملنسار اور مہذب تھا۔ خدا جانے بیوی سے کیوں نہ بنی؟ ہم اس موضوع پر بات نہ کرتے لیکن معصوم بچوں پر بہت پیار آتا۔ اس کا بیٹا آٹھ برس اور بیٹی ماریہ ابھی صرف چار سال کی تھی۔ ماریہ کو فاخرہ بہت پیار کرتی۔ وہ اس کے ساتھ ہل گئی ۔ بچی خود دوڑ کر ہمارے گھر آ جاتی۔ تب ہی اس کے پیچھے کبھی منیب، کبھی اس کی ماں یا بہنیں آجاتیں۔
اس طرح آنا جانا بڑھ گیا۔ فاخرہ، منیب کو بھائی کہنے لگی۔
ملتان میں ہمارے گھر کا ماحول محتاط قسم کا تھا۔ کسی غیر کو منہ بولا بھائی بنانے کی اجازت نہ تھی۔ وہاں ہم پردہ کرتے تھیں لیکن ماریہ کی وجہ سے ڈھاکا میں بہو پر پابندی لگائی اور نہ اعتراض کیا بلکہ منیب، ماریہ کو ہمارے گھر سے لینے آتا تو روز ہی بہو سے بات کرلیتا۔ بھائی کہنے کی وجہ سے وہ اس شخص سے پردہ نہیں کرتی تھی۔ اس پر فرید نے اعتراض نہ کیا کہ ڈھاکا میں صرف اسی ایک گھرانے سے جان پہچان تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ ماریہ، فاخرہ سے حد درجہ مانوس ہوگئی۔ ماں کی محبت سے محروم یہ بچی درحقیقت میری بہو کو ماں جیسا سمجھنے لگی تھی۔ تبھی صبح اٹھتے ہی وہ آنٹی فاخرہ کی رَٹ لگا دیتی۔ جب اسے کوئی ہمارے گھر چھوڑ جاتا تو واپس جانے کا نام نہ لیتی، حتیٰ کہ شام ہوجاتی۔ تب منیب خود لینے آ جاتا۔
بلاشبہ بچوں سے زندگی پُررونق ہوتی ہے۔ ماریہ بہت پُرکشش بچی تھی، سانولی سلونی۔ اس بچی کی پیاری پیاری باتیں دل موہ لیتی تھیں۔ فاخرہ اس سے اب اردو میں بات کرتی تو وہ سمجھ لیتی اور ننھے منے جملوں میں جواب دیتی۔
فاخرہ اور فرید دونوں اس سے پیار کرتے تھے، وہ ہی نہیں میں بھی اس کی منتظر رہتی۔ کسی دن نہ آتی تو خود لینے چلی جاتی۔ اس بچی کے توسط سے دونوں گھرانے ایک دوسرے کے خاصے نزدیک آگئے تھے۔
ایک روز باتوں باتوں میں منیب نے فرید سے کہا۔ دوست تم لوگوں کی ماریہ سے محبت دیکھ کر میں اللہ سے ہر وقت دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو بھی اولاد کی نعمت سے


سرفراز کرے۔ اگر آپ پسند کریں تو یہاں ایک سنیاسی بابا ہے، اس کے پاس لئے چلتا ہوں۔ آپ میاں بیوی کو وہ دوا دے گا۔ اِن شاء اللہ مراد بر آئے گی۔ کیونکہ میرے کئی دوست اس سنیاسی کی دوا سے صاحبِ اولاد ہوچکے ہیں۔ میاں بیوی دونوں کو دوا کھانی ہوگی۔ آزما کو دیکھ لو۔
فرید نے کہا۔ دوست میں سنیاسیوں کے پاس جانا درست نہیں جانتا اور غیرشرعی باتوں سے دور بھاگتا ہوں۔ میں اس کے پاس نہ جائوں گا۔ گھر آکر مجھے بتایا کہ ماں منیب ایسا کہہ رہا تھا۔ مگر میں نے منع کردیا۔ جانے وہ آدمی کیسے عمل کرتا ہو۔ کالے جادو میں تو حرام حلال کی تمیز نہیں ہوتی۔
فاخرہ کے کانوں میں یہ بات پڑی تو سر ہوگئی کہ امی جان آپ میرے ساتھ چلئے۔ ایک بار آزمانا تو چاہئے۔ فاخرہ کا دل رکھنے کو میں نے منیب کو اعتماد میں لے لیا اور جب ایک روز فرید ڈیوٹی پر گیا ہوا تھا، بہو کو ساتھ لے کر منیب کے ہمراہ اس جادوگر کے ٹھکانے پر چلی گئی۔ وہ ڈھاکا سے چالیس میل دور ایک گائوں کے پاس ویرانے میں قیام پذیر تھا۔ اس کا حلیہ ہندو جوگیوں جیسا سا تھا۔ اس نے فاخرہ سے کچھ سوالات کئے اور فرید کے بارے میں مجھ سے معلومات لیں۔ پھر فاخرہ کو ایک دوا دی کہ یہ تین دن پانی سے کھانی ہے۔ کچھ منتر بھی پڑھے تھے۔ کہنے لگا۔ اس لڑکی پر اثر ہے، اسی وجہ سے اولاد نہیں ہوتی، میں چلّہ کاٹوں گا۔
منیب کے ہمراہ سات دفعہ وقتاً فوقتاً ہم اس بنگالی جادوگر کے پاس گئے۔ وہ ہر بار اپنے ہاتھ سے دوا بناکر فاخرہ کو پلاتا۔ اس نے ہنڈکلیاں بھی دیں کہ بغیر کھولے گھر میں دفن کردینا۔
آخری بار جب ہم اس شخص کے پاس سے لوٹے تو اسی رات اچانک فاخرہ کو دورہ پڑ گیا اور اس کی حالت غیر ہوگئی۔ میں ڈر گئی۔ دعا کی اے اللہ میری بہو ٹھیک ہوجائے۔ وعدہ کرتی ہوں اب کبھی اسے لے کر اس جادوگر کے پاس نہ جائوں گی۔
فرید بھی پریشان تھا کہ اچانک فاخرہ کو کیا ہوا جو وہ چیخیں مارنے لگی اور فرش پر گر کر دہری ہوگئی۔ ایسے تڑپنے لگی جسے ذبح کی ہوئی بکری جان دیتے وقت تڑپنے لگتی ہے۔ خوف سے میں نے فرید کو نہ بتایا کہ سنیاسی بابا کے پاس جاتے رہے ہیں اور وہ فاخرہ کو جانے کیسی دوا پلاتا رہا ہے۔ بیس منٹ بعد فاخرہ کا دورہ ختم ہوگیا۔ وہ بے سدھ ہوگئی۔ فرید نے اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔ وہ سو گئی۔
رات بھر سوتی رہی اور ہم ماں بیٹا اس کے سرہانے جاگتے رہے۔ صبح وہ اٹھی تو آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ رنگت پیلی اتنی جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔ تاہم اس نے رات والے دورے کے بارے میں کوئی بات نہ کی، جیسے خبر ہی نہ ہو کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔
میں اس واقعہ کے بعد ازحد خوفزدہ تھی۔ سوچتی تھی بہو کی اس حالت کی میں ہی ذمہ دار ہوں ۔ جانے وہ جادوگر کیسا تھا اور کس قسم کی دوا پلاتا تھا جو میری بہو کا ایسا حال ہوا ہے۔ اے کاش! میں منیب کے کہنے میں نہ آتی اور اپنا ایمان کمزور نہ کرتی۔
منیب کو حال بتایا۔ اس نے کہا کہ بے شک آپ اور فاخرہ وہاں نہ جاتے۔ میں خود جاکر بابا کو سارا حال بتاتا ہوں۔ دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔ شاید کوئی توڑ اس کے پاس ہوگا۔
وہ اکیلا ہی وہاں گیا۔ بابا نے ایک بوتل دی کہ اس پانی پر منتر پڑھا ہے، یہ اس اثر کا توڑ ہے جو فاخرہ پر ہوا ہے۔ یہ پانی پلائو گے تو صحیح ہوجائے گی اور دوبارہ دورہ نہ پڑے گا۔ ڈرتے ڈرتے پانی بہو کو پلایا۔ سات دن پلاتی رہی۔ جیسا منیب کو سنیاسی نے ہدایت کی تھی۔ شکر ہے کہ بہو کو دوبارہ دورہ نہیں پڑا۔ لیکن وہ اب بہت زیادہ تندخو ہوگئی۔
یہ وہی لڑکی تھی جس نے کبھی غصہ یا جھگڑا نہیں کیا تھا۔ وہ بات بات پر چیزیں پٹخنے لگی۔ مجھ پر چلّانے اور شوہر پر غصہ کرنے لگی۔ لگتا تھا جیسے وہ فاخرہ نہیں ہے، یہ کوئی اور ہستی ہے جو یکسر بدل گئی ہے۔
جب فاخرہ کے جھگڑے فرید کے ساتھ بڑھنے لگے تو میرا بیٹا بیچارا گھبرا گیا۔ وہ اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتا تھا۔ اگر اسے ہلکا سا بخار بھی ہوجاتا تو رات بھر اس کے سرہانے جاگ کر گزار دیتا۔ اس کا جھوٹا پانی پی کر دعا کرتا کہ اے خدا فاخرہ کی بیماری مجھے ہوجائے اور میری بیوی ٹھیک ہوجائے۔
فاخرہ ٹھیک نہ ہوئی۔ فرید نے اپنے باس سے بات کی اور خواہش کی اس کو مغربی پاکستان بھیج دیا جائے۔ یوں ہم فاخرہ کو لے کر ملتان آگئے۔ یہاں فرید کی ڈیوٹی کراچی میں لگی۔ اس نے آفس سے چھٹی لے لی کیونکہ ایسی حالت میں اپنی
حیات کو چھوڑ کر وہ دوسرے شہر میں نہیں رہ سکتا تھا۔
ملتان آکر فاخرہ کی حالت زیادہ خراب رہنے لگی۔ اب وہ رونے لگتی تو بلاوجہ گھنٹوں روتی رہتی، تنہائی میں منیب کا نام لے لے کر پکارتی۔ جب میں پوچھتی۔ فاخرہ بیٹی بتائو تو سہی، آخر تم منیب کو کیوں پکارتی ہو تو کہتی۔ وہ مجھے سنیاسی کے پاس لے گیا تھا اور بیمار کردیا۔ اب وہی اس بیماری سے نجات دلوائے گا۔ کبھی کہتی اسی نے مجھ پر جادو کرایا ہے۔ اب میرے اندر آگ سی بھڑکتی رہتی ہے، سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ اماں تم نہیں جانتیں، یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے۔
فاخرہ واقعی بیمار تھی۔ اس کی حالت ایسی نہ تھی کہ اس پر سختی یا غصہ کیا جائے۔ وہ ایک مجبور مخلوق نظر آتی۔ پتہ بھی کھڑکتا تو ڈر جاتی۔ ڈاکٹروں کی سمجھ میں اس کی بیماری نہ آسکی۔ مشورہ دیا کہ ماہر نفسیات سے علاج کرائیں۔ ان کو بھی دکھایا، سرمو فرق نہ آیا۔ وہ دوا دیتے تو خواب آور ہوتیں۔ کھا کر سو جاتی جب اٹھتی سراسیمہ اور وحشت زدہ ہوتی۔
میرا پُرسکون رہنے والا بیٹا ان دنوں اتنا پریشان تھا کہ زندگی بھر نہ ہوا تھا۔ میری اپنی حالت دیوانوں کی سی ہوچکی تھی۔ بالآخر فرید کی ملازمت جاتی رہی۔ جمع پونجی بہو کے علاج پر ختم ہوگئی میں۔ ہر نماز کے بعد حالات سدھرنے کی دعا کرتی۔ لیکن ہماری زندگی میں اب سکون کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آخرش سمجھ میں یہی آیا کہ بیٹے کو حقیقت حال سے آگاہ کردوں تاکہ وہ خود کو اس سنیاسی کے پاس لے جائے۔ تبھی فاخرہ کی حالت اس کو بیان کرکے مدد کی درخواست کروں گی۔
فرید کو احوال بتایا۔ پہلے تو وہ بہت خفا ہوا کہ اماں آپ سے یہ امید نہ تھی۔ مجھ کو ہمیشہ اللہ پر پختہ ایمان رکھنے کی تلقین کی اور خود سنیاسی کے چکر میں پڑ گئیں۔ بہرحال کوئی چارہ نہ دیکھ فاخرہ کو ڈھاکا لے جانے پر بہ دقت تمام وہ راضی ہوا۔ ہم نے اپنا مکان فروخت کردیا اور رقم پلے سے باندھ کر ڈھاکا آگئے۔ کمپنی کی رہائش تو باقی نہ رہی تھی، ناچار منیب کے گھر قیام کرنا پڑا۔
حیرت کی بات کہ منیب کو دیکھتے ہی فاخرہ کی حالت اچھی ہوگئی۔ وہ تندرست نظر آنے لگی۔ ہر کسی سے نارمل انداز میں باتیں کرتی تھی اور اپنے شوہر دیکھتی تھی تو تیوری پر بل ڈال لیتی تھی۔ یہ ہمارے لئے بڑے سوہانِ روح دن تھے۔
میں نے بیٹے سے کہا کہ میں سنیاسی بابا کا ٹھکانہ جانتی ہوں، تم اب منیب کو ساتھ نہ لو بلکہ ہم دونوں اس شخص کے پاس چلتے ہیں۔ جانتی تھی کہ فاخرہ ہمارے ہمراہ چلنے پر راضی نہ ہوگی۔ لہٰذا اسے منیب کے گھر چھوڑ کر میں اور فرید سنیاسی کے پاس گئے۔ اسے فاخرہ کی حالت سے آگاہ کیا۔
فرید نے بھی آہ و زاری کی کہ یہ کیا ہوا ہے؟ کیوں میرا گھر برباد ہورہا ہے۔ عزت و ناموس خاک میں مل گئی ہے۔ میری بیوی میرے سامنے غیر آدمی کا نام لے لے کر تڑپتی ہے اور اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کہ اس کی حالت مُردوں سے بدتر ہے۔ اس آہ و زاری پر سنیاسی کا دل نرم ہوگیا۔ اس نے کہا۔ نذرانہ دو گے تو معاملہ سلجھ جائے گا۔ مطلوبہ نذرانہ اس جادوگر کے سامنے رکھ دیا۔ تب کہا، اگر پہلے مل جاتے تو میں وہ عمل نہ کرتا جس کی وجہ سے تمہاری بیوی فاتر العقل ہوگئی ہے۔ دراصل منیب نے اس پر جادو کرایا ہے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور وہ اس کے ساتھ شادی کرلے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ اے بابا تم کچھ کرو کہ جادو کا اثر زائل ہوجائے اور فاخرہ پہلے کی طرح ہمارے ساتھ پیار و محبت سے رہنے لگے۔
مجھے دوبارہ عملیات کرنے ہوں گے۔ عملیات کے لئے اس نے عجیب و غریب چیزیں منگوائیں۔ کالے بکرے کی سری اور الّو وغیرہ۔ یہ اشیاء ہم کو بڑی مشکل سے ملیں۔ پھر کسی جانور کے خون سے لکھے گئے منتر جنتر دیئے۔ کہا، یہ چالیس دن تک پلانا ہیں۔ لڑکی آہستہ آہستہ حواسوں میں آ جائے گی۔ جادو کا اثر زائل ہوجائے گا لیکن عمل کے لئے مجھے اس کے سر کے بال اور استعمال شدہ کپڑے لا کردو۔
جونہی ہم سنیاسی کے پاس سے منیب کے گھر لوٹے۔ ہم کو دیکھ کر فاخرہ چلاّنے لگی کہ جائو جائو۔ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں، میں اب یہیں رہوں گی ڈھاکا میں۔ مجھے طلاق دو، تمہارے ساتھ نہیں جائوں گی۔
فرید نے اس کے واویلا کرنے کا اثر نہ لیا۔ ماہر دماغی امراض کے ڈاکٹر کی دوا کھلائی اور ہم بمشکل ایئرپورٹ تک لائے۔ دوا بھی منورہ نے کھلائی تو اس نے کھائی۔ یوں ہم ملتان آئے۔
اب وہ
ڈھاکا، ڈھاکا چلاّتی مگر فرید اس کی باتوں پر دھیان نہ دیتا۔ بنگالی جادوگر کے دئیے ہوئے تعویذ میں نے بڑی دقت سے اسے پلائے۔ آدھی رات کو سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی تھی کہ میری بہو صحت یاب ہوجائے۔
آخر میری دعا قبول ہوئی۔ فاخرہ ٹھیک ہونے لگی۔ اسے قرار آنے لگا۔ وحشت کم ہوگئی مگر چپ لگ گئی۔ گھنٹوں ایک جگہ بیٹھی رہتی اور منہ سے کچھ نہ بولتی۔ فرید نے بہت صبر و تحمل اور پیار و محبت سے کام لیا، تب وہ خود منہ سے پھوٹی کہ منیب نے مجھے بہکایا اور مجھ پر جادو کرایا۔ آپ سے دور کرنے کی کوشش کی۔ اپنی بچی ماریہ سے محبت کے صلے میں وہ آپ کی غیر موجودگی میں مجھے بہکاتا تھا۔ اس نے مزید کچھ باتیں بھی فرید کو بتائیں۔
فاخرہ کے منہ سے یہ باتیں سن کر فرید کے دل کی عجیب حالت ہوگئی۔ سکون لٹ گیا اور محبت بھرا دل پارہ پار ہوگیا۔ کافی دنوں سوچ بچار میں ڈوبا رہا۔ بالآخر کسی نتیجے پر پہنچ گیا۔ اس نے منیب کو خط لکھا کہ میری بیوی تمہارے عشق میں پاگل ہوئی ہے، بہتر ہے کہ تم اس کو اپنا لو اور میں اسے طلاق دیتا ہوں۔ اسے خط ملتے ہی جواب آگیا۔ منیب نے تحریر کیا تھا۔ ’’دوست بیوی کو طلاق دینے کی غلطی مت کرنا۔ میری روٹھی ہوئی بیوی گھر آگئی ہے، میں فاخرہ کو نہیں اپنا سکتا۔‘‘
یہ خط فرید نے فاخرہ کو دیا۔ اس نے پڑھا تو رنگ اُڑ گیا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ فرید کے پائوں پکڑ کر معافیاں مانگنے لگی اور منیب کو گالیاں دینے لگی۔ کہتی کہ اس نے مجھ پر جادو کرایا تھا۔ اب مجھے اس سے نفرت ہے، شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔
فرید آخر ایک مرد تھا۔ اس کی غیرت پر چوٹ لگی تھی۔ مجھ سے کہا۔ ماں اب یہ عورت مجھے کبھی سکون نہ دے سکے گی، خواہ یہ سونے کی بن جائے۔ میری نظروں میں اس کی قدر و قیمت کھوٹے سکے سے زیادہ نہیں رہی۔ میں اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔
میں صدمے سے نڈھال اور دم بہ خود تھی۔ بہو کا رونا بھی دیکھا نہ جاتا۔ اس کا کوئی سہارا نہ تھا۔ ہم اسے گھر بدر نہیں کرسکتے تھے۔ پھر مجھے اس کے والدین سے کیا ہوا وعدہ یاد تھا کہ جب تک زندہ رہوں گی، تمہاری بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھوں گی اور کبھی گھر سے نہیں جانے دوں گی۔ عجیب سی صورتحال ہوگئی تھی۔ آخرکار میں نے فرید کو سمجھا بجھا کر منا لیا کہ وہ فاخرہ کو اس موڑ پر بے سہارا نہ کرے جبکہ اس کا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ وہ سنیاسی بابا کی دوا اولاد کی خواہش میں کھاتی رہی ہے۔ ممکن ہے اس دوا کے اثر سے اس کے اعصاب متاثر ہوئے ہوں۔ تم نے آنکھوں سے اپنی بیوی کا کوئی گناہ نہیں دیکھا اور نہ میں نے دیکھا ہے۔ فاخرہ کو طلاق دینا یا علیحدگی اختیار کرنا زیادتی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس امر پر معاف نہ کرے گا۔
میری باتوں کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا تھا اور میں اپنے رب کی خوشنودی چاہتی تھی لہٰذا ہم فاخرہ کو بے سہارا کرنے سے باز رہے۔
رفتہ رفتہ حالات معمول پر آتے گئے۔ فاخرہ پہلے جیسی پیار و محبت کرنے والی بن گئی۔ گھر میں سکون کی فضا قائم ہوگئی تو میں نے بیٹے سے کہا کہ جو رقم باقی ہے، اس سے کاروبار کرلو، اللہ برکت دے گا لیکن پہلے ہم عمرہ پر چلتے ہیں۔
ہم نے عمرہ کیا۔ دل کو مزید سکون ملا اور پھر عمرہ سے آتے ہی فرید کو ایک دوسری اچھی ملازمت مل گئی، جو رقم باقی تھی اس سے ہم نے ایک چھوٹے علاقے میں چھوٹا سا گھر خرید لیا۔
زندگی پھر سے اسی طرح رواں دواں ہوگئی۔ میرا بیٹا اپنی بیوی سے پہلے جیسی محبت نہیں کرتا مگر اللہ کے خوف سے وہ اسے پہلے کی طرح رکھے ہوئے تھا۔
لاکھ بار شکر کرتی ہوں کہ اللہ نے میری تربیت کی لاج رکھ لی۔ میرا وہ بیٹا جو ہمیشہ اسکول اور کالج میں فرسٹ پوزیشن لاکر میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتا رہا، اس نے اس بار بھی ماں کی لاج رکھ لی اور میرے سمجھانے پر فاخرہ کو طلاق نہ دی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر اس سے حسن سلوک رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے لحت جگر کو اپنی اس نیکی کا اجر ضرور ملے گا۔ میری عمر 80سال ہے اور فاخرہ اس ضعیفی میں میرا بیٹی کی طرح خیال رکھتی ہے اور یہ اسی نیکی کا اجر ہے۔ سچ ہے کہ اللہ کسی کی نیکی اور حسن سلوک کو رائیگاں نہیں کرتا۔
(ج… لاہور)

Latest Posts

Related POSTS