والد صاحب علاقے کے زمیندار دین محمد کے کھیتوں کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ وہ خود نہ پڑھ سکے لیکن اپنے بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ میں ان کی پہلوٹی کی بیٹی تھی، میرے بعد دو بھائی اور پھر بہن تھی۔ والد صاحب نے گائوں کے اسکول سے پانچویں تک تعلیم دلوائی، اس کے بعد پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا کیونکہ یہاں گرلز اسکول پرائمری تک تھا۔
بھائیوں نے تعلیم جاری رکھی اور دونوں نے میٹرک پاس کرلیا۔ ابا کا خیال تھا کہ ان کے بیٹے مزید پڑھیں گے لیکن بڑے شہر جانے کے وسائل نہ تھے۔ میٹرک کے بعد ملازمت کا حصول ممکن نہ ہوا تو انہوں نے رحمت کو زمیندار کی بھینسیں چَرانے کا کام سونپ دیا جبکہ شوکت ابا کے ہمراہ رکھوالی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگا۔
مجھے اس امر کا قلق تھا کہ بھائیوں کے خواب ادھورے رہ گئے تھے۔ وہ اجلے کپڑے پہننا تو سیکھ گئے مگر میٹرک کرکے بھی بھینسیں ہی چَراتے تھے۔ بہرحال ہم لوگ صبر و شکر سے وقت گزار رہے تھے کہ اچانک وقت نے کروٹ لی اور معمولاتِ زمانہ درہم برہم ہوکر رہ گئے۔
دو وقت کی روٹی سکون سے کھا رہے تھے کہ ایک روز رحمت بھائی کو نیند آگئی اور زمیندار کی ایک بھینسیں گھاس چَرتے کہیں آگے نکل گئی۔ دراصل وہ اپنے مالک کا کھیت پار کرکے دوسرے زمیندار کے علاقے میں چلی گئی تھی۔ ان لوگوں نے بھینس غائب کردی اور شام تک جب بھینس نہ ملی تو رحمت بھائی ڈر سے گھر چھوڑ کر چلا گیا اور خود بھی غائب ہوگیا۔
اس پگلے نے یہ نہ بتایا کہ وہ کیوں اور کہاں جارہا ہے۔ اس دن شوکت ساتھ تھا اور بھینس کو ڈھونڈنے میں شام تک اس کے ہمرکاب رہا تھا، تبھی ہم لوگوں کو علم ہوا کہ کس وجہ سے رحمت بھائی نے اپنا گھر اور دین محمد کا علاقہ چھوڑا ہے۔
علاقے کے لوگوں کا خیال تھا کہ رحمت جیسا نیک چلن لڑکا ایسا نہیں کرسکتا کہ زمیندار کی بھینس چُرا کر بھاگ گیا ہو، اس کی یہ ہمت ہو بھی نہیں سکتی تھی، یہ ضرور دشمنوں کا کام تھا البتہ خوف کی وجہ سے وہ روپوش تھا۔
والد صاحب نے زمیندار دین محمد کو اصل واقعہ بتایا تو اس کو بھی یقین آگیا کہ رحمت ڈر سے چلا گیا ہے۔ ابا کی برسوں کی خدمات کے پیش نظر دین محمد نے نقصان تو برداشت کرلیا لیکن اس سے یہ اہانت برداشت نہ ہوپا رہی تھی کہ علاقہ کا دوسرا زمیندار اس کی بھینس کو یوں ہڑپ کرجائے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہے۔ پس اس نے بھی معاملے پر سوچ بچار شروع کردیا کہ اپنے حریف کو کیونکر نیچا دکھانا چاہیے۔
کھلم کھلا اعلان جنگ میں سراسر گھاٹا تھا لہٰذا اپنے کارندوں کے ذمے لگا دیا کہ جب بھی پڑوسی ہوشیار خان کے کسی جانور سے سامنا ہوجائے تو اس کو جہنم رسید ضرور کرنا ہے، چاہے ہنسوں کا جوڑا ہو یا کہ اس کے پالتو کتے، انہیں دیکھتے ہی گولی مار دینا، آگے میں خود نمٹ لوں گا۔
ابا بیچارے سدا کے شریف طینت تھے، وہ اس قسم کے جھگڑوں سے دور بھاگتے تھے۔ انہوں نے تو دین محمد خان سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مالک! اپنا مکان فروخت کرکے آپ کی گمشدہ بھینس کا ہرجانہ چکتا کردیتا ہوں لیکن مجھ سے یہ کام نہ ہوگا۔ لیکن زمیندار نے منع کردیا۔ کہنے لگا۔ عابد میاں! دشمنی تم سے نہیں ہے، تم تو میرے خیرخواہ ہو۔ جس سے دشمنی ہو، اس سے دو دو ہاتھ کرتے ہیں، تمہاری خیرخواہی اسی میں ہے کہ چپ رہو اور مزید اس معاملے میں ٹانگ نہ اَڑائو۔
یہ بات تو ابا کو گرہ میں باندھ لینا چاہیے تھی، سو انہوں نے باندھ لی۔ اصل پریشانی رحمت کی طرف سے تھی کہ جانے کہاں ہوگا اور کس حال میں ہوگا۔ پیسے بھی تو نہیں تھے اس کے پاس کہ، گھر سے دور رہ کر دو دن بھی گزارا کرسکتا۔
ان دنوں میں ہر نماز کے بعد اپنے بھائی کے لیے دعائیں مانگتی تھی کہ خیریت کے ساتھ آجائے تو سو نفل شکرانہ ادا کروں گی۔ سلیمہ بھی دعا کرتی تھی کہ رحمت بھائی جہاں بھی ہوں، خیر سے ہوں۔ خود نہیں آسکتے تو ان کی خیریت کی اطلاع ہی آجائے۔
اماں نے تو جائے نماز کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ جب دیکھو بیٹھی دعا کررہی ہیں۔ رحمت کے بغیر ایک منٹ ان کے دل کو قرار نہیں تھا۔
اللہ نے ہماری سن لی۔ رحمت کو گئے چھ ماہ ہوچکے تھے کہ اس کا ایک دوست جو سعودی عربیہ کمانے کی غرض سے گیا ہوا تھا، وہ والدین اور گھر والوں سے ملنے آیا۔ اس نے ابا کو بلا کر تسلی دی کہ فکرمند نہ ہوں، رحمت خیریت سے ہے اور وہ ان دنوں جدہ میں ہے۔ اسے ایک اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ گھر سے گیا تو اس نے لاہور میں اپنے ایک دوست کے پاس رہائش اختیار کی۔ جہاں نوکری کی تلاش میں گیا تھا، اتفاق سے قادر میرا بھی دوست تھا۔ جب قادر نے مجھے رحمت کا احوال بتایا تو میں نے اس کے ویزے اور پھر ملازمت کا بندوبست کیا، یوں وہ جدہ آگیا۔ اب وہ اچھی تنخواہ لے رہا ہے اور مالک اس سے خوش ہے۔ رحمت نے آپ لوگوں کے لیے کچھ رقم اور تحائف بھی بھجوائے ہیں۔
والد تو یہ احوال سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ گھر آکر سجدئہ شکر ادا کیا کہ ان کا بیٹا نہ صرف زندہ و سلامت تھا بلکہ اس کا مستقبل روشن ہوگیا تھا۔ بے شک پردیس میں کمانا آسان نہیں ہوتا۔ ایک تو گھر سے جدائی اوپر سے روزی کمانے کی سختیاں… وہاں کیا کچھ نہیں جھیلنا پڑتا، تاہم اس کی خیریت کی اطلاع کے ساتھ یہ خوشخبری کم خوش کن نہ تھی کہ وہ اب کمانے کے لائق ہوگیا تھا۔ گائوں کے جو نوجوان دبئی یا سعودیہ جاتے تھے، وہ نوٹوں سے جھولی بھر لاتے تھے اور ان کی غربت دور ہوجاتی تھی۔
رحمت اب صحیح معنوں میں ابا کا سہارا بن گیا تھا۔ زمیندار کی بھینس کی گمشدگی نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ ابا بڑھاپے کی جانب محوسفر تھے، آگے رحمت ہی کو کنبے کا بوجھ اٹھانا تھا۔ بھائی برسرروزگار ہوگیا تو ہمیں سکون ملا۔
رحمت باقاعدگی سے پیسے بھیجنے لگا اور ہمارے حالات سدھرنے لگے۔ پہلے میری شادی تایا کے بیٹے فاضل سے ہوگئی، پھر چھوٹی بہن سلیمہ بھی بیاہی گئی۔ ابا دو بڑے فرائض سے سبکدوش ہوگئے، جھکی ہوئی کمر سیدھی ہوگئی مگر اس بات پر ہم سب دکھی تھے کہ وہ بھائی جو ہماری خاطر پردیس کی صعوبتیں سہہ رہا تھا، پانچ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک گھر نہیں آسکا تھا اور نہ ہم بہنوں کی شادیوں میں بھی شریک ہوا تھا۔
رحمت ہماری مفلسی دور کرنے کی کوششوں میں پردیس میں پائوں جمائے رکھنا چاہتا تھا۔ دونوں بہنوں کی شادیوں کے اخراجات اسی نے اٹھائے تھے۔ بھائی کو بھی پڑھنے کے لیے رقم بھجواتا تھا اور اب شوکت نے لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا تھا۔ والدصاحب گرچہ اب بھی زمیندار کے راکھی تھے مگر ہمارے دن پھر چکے تھے۔
ہر طرح کا سکون ہونے کے باوجود والدین کو رحمت کی جدائی ستاتی تھی اور اس کی بے حد کمی محسوس ہوتی تھی۔ والد بیمار رہنے لگے تو تقاضا بڑھ گیا۔ بار بار وہ بیٹے کو خط میں یہی بات لکھتے تھے کہ ہماری زندگی کا بھروسا نہیں، ایک بار آکر ماں اور باپ سے مل جائو۔
پانچ برس بعد بالآخر رحمت نے وطن آنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ یہ خوشخبری ملی تو سبھی بہت خوش ہوگئے۔ سلیمہ کی شادی گائوں میں ہوئی تھی مگر شوہر ارشد اسے لاہور لے گیا تھا کیونکہ اس کی نوکری محکمہ پولیس میں تھی اور اس کا لاہور تبادلہ ہوا تھا۔
رحمت کو سعودی عربیہ سے لاہور آنا تھا، پھر وہاں سے بذریعہ بس گائوں پہنچنا تھا۔ اس نے ارشد کو فون کیا کہ میں فلاں دن کی فلائٹ سے لاہور پہنچوں گا، مجھے ایئرپورٹ لینے آجانا۔
مذکورہ روز کا تو تبھی کو انتظار تھا مگر سلیمہ کو زیادہ تھا کہ اس کی ملاقات ہم سب سے پہلے اپنے پیارے بھائی سے ہونے والی تھی۔ ہوائی جہاز کی آمد سے آدھ گھنٹہ پہلے ارشد ایئرپورٹ پہنچا اور جب فلائٹ آگئی تو وہ رحمت کو گھر لے آیا۔
مدت بعد سلیمہ نے بھائی کو دیکھا خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ رحمت کے لیے آج اس نے خاص طور پر پلائو اور مرغ قورمہ پکایا تھا کیونکہ اسے یہ دونوں کھانے پسند تھے۔ کھانا کھانے کے بعد رحمت نے تھوڑی دیر آرام کیا، پھر وہ بہن اور بہنوئی کے ساتھ حال احوال سنانے بیٹھ گیا۔
مدت سے بچھڑے ہوئوں نے دیر تک باتیں کیں، پھر رحمت نے سونے کی اجازت مانگی کیونکہ وہ لمبے سفر سے تھک گیا تھا۔ بستر پر لیٹتے ہی گہری نیند سو گیا۔ سلیمہ نے بھی بھائی کی آئو بھگت میں دن گزارا تھا، کھانا وغیرہ تیار کیا تھا، وہ بھی بستر پر لیٹتے ہی سو گئی۔ لیکن آج ارشد کو نیند نہیں آرہی تھی۔ رحمت نے باتوں باتوں میں بتا دیا تھا کہ اس نے سعودیہ سے سونا خریدا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ ابا اس سونے کو بیچ کر کچھ زرعی اراضی خرید لیں کیونکہ وہ کاروبار تو کر نہ سکتے تھے اور بھائی کو واپس وطن آکر ذریعہ معاش کا کچھ بندوبست کرنا ہی تھا۔ کھیتی باڑی کا تجربہ تھا اور یہی کام ابا کو پسند بھی تھا۔
جب ارشد نے سونے کے بارے میں سنا تو اس کا دل بے ایمان ہوگیا۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ اگر ہمیں اپنے حالات سدھارنے ہیں تو پھر یہ کام کرنا ہی ہوگا۔ کسی طرح رحمت کو ایک دن اور روک لیتے ہیں، آج رات سونا نکال لیا تو صبح وہ سوٹ کیس کھولے گا، اسے خبر ہوجائے گی کہ سونا ہم نے نکالا ہے۔ بہتر ہے کہ کل رات ہم سونا نکال لیں گے اور پھر اسے زہر دے کر کسی طرح کام تمام کردیں۔
جب وہ یہ گفتگو کررہے تھے، پاس ہی ان کا ملازم لڑکا سو رہا تھا۔ دراصل یہ دونوں بھائی اسی ملازم کی کوٹھری میں آکر رحمت کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ لڑکا سو چکا ہے۔
یہ لڑکا جس کا نام دلدار تھا، وہ واقعی سو چکا تھا مگر ان دونوں بھائیوں کی کھسرپھسر سے اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے ان کی باتیں سن لیں۔
صبح ہوئی تو ارشد نے اصرار کیا۔ رحمت بھائی! مدت بعد آئے ہو تو ایک دن اور ہمارے پاس ٹھہر جائو، کل صبح آپ کو ہم خود گاڑی کرکے گائوں چھوڑ آئیں گے۔ سلیمہ کافی دنوں سے میکے نہیں گئی، اس کو بھی ساتھ لے چلیں گے، اماں اور ابا سے مل لے گی۔ غرض ارشد نے اتنا اصرار کیا تو رحمت نے سوچا جہاں اتنی مدت والدین سے جدائی سہہ لی ہے، ایک دن اور سہی…!
اس نے سوٹ کیس کھول کر وہ تحائف نکالے جو وہ ارشد اور سلیمہ کے لیے لایا تھا۔ یہ خوبصورت قیمتی تحفے پا کر سلیمہ بہت خوش ہوئی مگر ارشد کے چہرے پر بس بناوٹی مسکان تھی۔ رحمت نے اپنے دو سالہ بھانجے کے لیے بھی کھلونے خریدے تھے۔
جب وہ یہ تحائف دے رہا تھا، ملازم لڑکا دلدار دیکھ رہا
تھا۔ رحمت نے اس کی جانب دیکھا تو اسے اس غریب لڑکے پر ترس آگیا جس کے کپڑے ملگجے اور بوسیدہ تھے۔ تب اسے اپنی مفلسی کے دن یاد آگئے تو اس نے سوٹ کیس سے ایک عمدہ کپڑا نکال کر اس غریب لڑکے کو دے دیا اور کہا کہ یہ لو جوڑا، تم اپنے لئے سلوا لینا، عید قریب ہے، عید کے روز نیا جوڑا پہن لینا۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر بطور عیدی کے کچھ رقم دی کہ جوڑا سلوائو گے تو درزی سلائی بھی تو لے گا۔
ارشد خاموش رہا مگر سلیمہ نے کہا۔ بھائی جان! ہمارے لیے اتنا کچھ لائے ہیں، اب ہمارے ملازم کو بھی دے رہے ہیں، رہنے دیجئے، ارشد اسے خود جوڑا لے دیں گے۔ رحمت نے جواب دیا۔ ارشد بھی دے گا تو ٹھیک ہے مگر میں تو اللہ کی خوشنودی کے لیے دے رہا ہوں تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو۔ پھر اس نے ارشد کے بھائی انور کو بھی جوڑا اور ایک گھڑی تحفے میں دی۔ باقی جو تحفے وہ ہم سب گھر والوں کے لیے لایا تھا، وہ بھی ارشد اور سلیمہ کو دکھائے۔
شام کو ارشد اپنے بھائی کے ہمراہ تھوڑی دیر کے لیے کہیں چلا گیا اور سلیمہ کھانا بنانے میں مصروف ہوگئی تو ملازم لڑکے دلدار کا ضمیر جاگ گیا اور اس نے تنہائی پا کر رات کی سنی ہوئی گفتگو میرے بھائی رحمت کے گوش گزار کرکے کہا کہ بھائی جان! آپ آج رات یہاں نہ رہنا، کسی طرح بھی یہاں سے چلے جائو ورنہ آپ کی جان کو بہت خطرہ ہے۔
رحمت نے سلیمہ کو کچھ نہ بتایا کہ ملازم نے اسے کیا کہا ہے بلکہ چھت پر جاکر مجھے فون کیا کہ تم مجھے تھوڑی دیر بعد فون کرکے کہنا کہ ابا کی طبیعت بہت خراب ہے، جلدی آجائو۔
میں نے رات کو نو بجے کے قریب فون کیا۔ اس وقت تک ارشد گھر آچکا تھا اور رحمت کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ میں نے سلیمہ اور ارشد سے بھی بات کی۔ رحمت سے بھی کہا کہ جلدی پہنچو، ابا بہت بیمار ہوگئے ہیں، ان کو اسپتال لے جارہے ہیں۔ یہ فون سبھی نے سنا۔ اس کے بعد رحمت نے سامان اٹھایا اور کہا کہ مجھے ابھی گائوں جانا ہے۔ پرائیویٹ گاڑی کرائے پر لے کر چلا جائوں گا، آپ لوگ ساتھ چلنا چاہو تو ورنہ بعد میں آجانا۔
بھائی رحمت اسی وقت سلیمہ کے گھر سے نکل گیا اور وہ بس اسٹینڈ پر جانے کی بجائے ہوٹل چلا گیا۔
اگلے دن صبح سویرے پرائیویٹ کار کرائے پر لے کر وہ گائوں آگیا۔ سلیمہ اور ارشد نے جب ہمیں صبح فون کیا تو ہم نے یہی بتایا کہ ابا کی طبیعت سنبھل گئی ہے اور رحمت بھی خیریت سے گھر پہنچ چکا ہے۔
رحمت نے یہ بات صرف مجھے بتائی اور میرے سوا کوئی اس بات کو نہیں جانتا کہ رحمت اپنی بہن کے گھر سے راتوں رات کیوں نکلا تھا، حتیٰ کہ سلیمہ بھی یہ راز نہیں جانتی۔ سچ ہے انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی اور یہ بھی سچ ہے کہ نیکی اور خیرات رائیگاں نہیں جاتی بلکہ صدقہ و خیرات کرنے سے مصیبت ٹل جاتی ہے۔ ایسی کئی وارداتیں ہوئیں کہ بیرون ملک سے واپسی پر سامان یا مال و زر کے لالچ میں کسی قریبی عزیز نے اپنے رشتے دار کو جان سے مار دیا مگر میرے بھائی کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اپنے بہنوئی اور اس کے بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔
رحمت نے مجھے کہا تھا۔ نعیمہ بہن! اگر میں اس غریب لڑکے دلدار کو نئے جوڑے کے لے کپڑا اور عیدی کی رقم نہ دیتا تو ممکن ہے کہ خوف اس پر غالب رہتا اور وہ مجھے ارشد اور اس کے بھائی کی نیتوں سے آگہی نہ دیتا لیکن اللہ نے میرے دل میں اس کے لئے نیکی ڈال دی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں بھی میرے لئے رحم اور نیکی ڈال دی اور یوں اس نیکی کے بدلے میں میری جان بچ گئی۔
اب یہ تو خدا جانتا ہے کہ اس رات وہ کیا کرنے والے تھے۔ واقعی اپنی بری نیت کو عملی جامہ پہنانے والے تھے یا نہیں، اس میں کامیاب ہوتے یا نہیں؟ سلیمہ کو کیسے خاموش کرتے؟
یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ میرا پیارا بھائی رحمت آج بھی بقیدحیات ہے اور بہت اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ وہ امیر و کبیر ہوچکا ہے، اس کے بچے ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہیں جبکہ ارشد ایک پولیس مقابلے میں ڈاکو کے ہاتھوں زندگی کی قید سے آزاد ہوچکا ہے۔
(ن… لاہور)