اس روز بانو کو عدالت کے احاطے میں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ ایک ماں تھی اور عدالت میں اپنے لئے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے آئی تھی۔ جب سے میں نے وکالت کے پیشے میں قدم رکھا تھا بہت سی کہانیاں د ل سوز سامنے آئی تھیں لیکن ہمارے گائوں کی اس عورت کی کہانی بہت دلگیر کرگئی۔
بخت بی بی ہمارے علاقے کی ایک محنت کش خاتون تھی۔ وہ جوانی میں بیوہ ہوگئی جبکہ ان دنوں اس کی بیٹی شہربانو ابھی کم سن تھی۔ بخت بی بی بہت خود دار عورت تھی۔ اپنی بچی کی پرورش کی خاطر اس نے زندگی بھر محنت کی مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
بخت بی بی کے شوہر کا نام موسیٰ خان تھا اور وہ شہر میں کسی دفتر میں نائب قاصد ہوا کرتا تھا۔ ایک دن اپنی ڈیوٹی پر گیا اور شام کو سائیکل پر گائوں لوٹ رہا تھا کہ ایک بھاری ٹرک نے اس کو کچل دیا۔ وہ بےچارا وہاں پر ہی ختم ہوگیا۔ موسیٰ خان کوئی امیر آدمی نہ تھا ،گائوں میں ایک مکان اور تھوڑی سی اراضی تھی، ایک گائے بھی تھی۔ بس یہی کل اثاثہ تھا۔ غلہ سال بھر کا اپنی بارانی زمین سے مل جاتا اور تنخواہ سے باقی خرچے پورے ہوتے یوں یہ مختصر کنبہ سکون کی زندگی بسر کررہا تھا۔
دیہات کے سادہ ماحول میں قانع مزاج لوگ تھے اور دکھ سکھ میں سب شریک، مل جل کر رہتے تھے۔ موسیٰ خان محنت کرتا تھا ۔وہ اپنے کنبے کا وزن خود اٹھا رہا تھا کسی پر بوجھ نہ تھا۔ لیکن زندگی بے وفا نکلی۔ مرنے والا مرگیا۔ بیوی اور اکلوتی معصوم بچی کی دنیا اندھیری کرگیا۔ کچھ عرصہ تک بےچاری خالہ بخت بی بی حواس باختہ رہی۔ اللہ نے آخر اس کو صبر دے دیا۔
شہر بانو بہت ذہین تھی، ان دنوں پانچویں جماعت میں تھی۔ وہ خوش الحانی سے اسکول کی تقریبات میں حمد اور نعتیں پڑھتی تو سب لڑکیوں میں نمایاں ہوگئی۔ استانی جی بہت خیال رکھتی تھیں۔ باپ کے غم کو معصوم ذہن نے محسوس کیا تو اس کی آواز میں رقت اور سوز دوچند ہوگیا۔ بانو کو دنیا کی اونچ نیچ کا کچھ پتہ نہ تھا، اسے زمانے کی ہوا ہی نہ لگی تھی۔ گھر سے اسکول اور پھر گھر ، یہاں تک سفر زندگی محدود تھا۔ باپ اور ماں بھی نیک دل اور نیک طبیعت تھے۔
گائوں میں ان کی کسی سے شکررنجی نہ تھی ، نہ کسی کو ان سے شکایت تھی اسی لئے گائوں والے ان کا خیال کرتے تھے۔ بخت بی بی کا ایک جیٹھ تھا مگر وہ بہت پہلے تنگ دستی سے تنگ آکر ولایت چلا گیا تھا۔ اس کے لئے اس نے اپنے حصے کی زمین بیچ دی تھی۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا۔ ایف ایس سی کے بعد ایک ٹیکنیکل کورس کیا اور شہر کے ہسپتال میں ایکسرے ٹیکنیشن بھی ہوگیا تھا مگر پھر ایک دوست کے ذریعہ ولایت کے لئے ویزا اپلائی کیا۔ اللہ نے ساتھ دیا، دوست نے مدد کی اور اس کی باہر جانے کی آرزو بر آئی۔
اس کا نام علیم خان تھا۔ اسے وطن چھوڑے برسوں ہوچکے تھے، وہ پھر نہ لوٹا البتہ اپنے بھائی یعنی موسیٰ خان سے کبھی کبھی رابطہ رکھتا تھا۔ جاتے وقت اپنی بیوی رابعہ بی بی اور بیٹے نور خان کو بھائی کے سپرد کر گیا تھا کہ ان کو بعد میں بلوالوں گا۔
ولایت جاکر عرصے تک اس نے بیوی اور بیٹے کی خبر نہ لی تو یہ بےچارے مشکلات بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ایسے میں بخت بی بی نے ہی رابعہ اور اس کے بیٹے کو سہارا دیا اپنے گھر رکھا ۔ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتی تھی۔ میاں بیوی خدا ترس تھے انہوں نے نور خان کو پڑھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ نکما لڑکا پڑھائی میں دلچسپی نہ لیتا تھا۔ موسیٰ کے انتقال کے بعد تو بالکل ہی آوارہ ہوگیا اور اسکول بھی چھوڑ دیا۔ انہی دنوں علیم نے گائوں کے نمبردار سے رابطہ کیا اور اپنے کنبے کو بلانے کا عندیہ دیا۔ کچھ رقم بھی ان کے لئے بھجوانے لگا۔یوں ایک دن نمبر دار کی کوششوں سے یہ دونوں بھی علیم کے پاس ولایت چلے گئے۔
اب علیم ولایت میں سیٹ ہوگیا تھا۔ اس کی آمدنی کافی تھی مگر کبھی اپنی بیوہ بھابی کا خیال کیا اور نہ مالی امداد دی بلکہ رابطہ بھی نہیں کیا البتہ نمبردار سے رابطہ رکھتا تھا اور فون پر بات چیت کرتا رہتا تھا۔ اسی کی زبانی بخت بی بی کو اپنے جیٹھ اور جیٹھانی کے حالات معلوم ہوتے رہتے تھے۔
وقت گزرتا رہا۔ شہربانو جوان ہوگئی ۔بخت بی بی کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ اس نے نمبر دار سے کہا۔ کوئی اچھا رشتہ ہو تو تم میری بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے میں مدد کرو کیونکہ اب تم ہی ہمارے علاقے کے بڑے اور سرپرست ہو۔
نمبردار نے علیم کو خط لکھا اور اس کی بھتیجی کی بہت تعریفیں لکھ بھیجیں کہ ایسی خوبصورت اورخوب سیرت لڑکی کو چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گے تو نہیں ملے گی۔ میرا مشورہ ہے کہ اپنے لڑکے کی شادی وہاں کسی گوری میم سے کرنے کی بجائے اپنی یتیم بھتیجی شہربانو سے کردو ، ماں بیٹی کو آسرا دو۔ انہوں نے بھی اس وقت تمہارے کنبے کی پرورش کی تھی، آسرا دیا تھا جب یہ یہاں کسمپرسی میں تھے اور تمہارا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔
نمبردار کے خط نے علیم کا ضمیر جگایا، یوں بھی وہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا مزید بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائے۔ اس کےلئے اپنے وطن کی شریف صابر لڑکی ہی بہو لانی چاہئے۔ شہربانو تو پھر اس کا اپنا خون تھی۔ اس نے نمبردار کو خط لکھا کہ بھابی بخت بی بی کو راضی کرو وہ اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے کو دے دے۔ میں یہاں بانو بی بی کا ہر طرح سے خیال رکھوں گا اور اس کو کبھی کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا۔
جب یہ بات نمبردار نے بخت بی بی کو بتائی تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ بانو اس کی ایک ہی اولاد تھی جس کے سہارے بیوگی کاٹ دی تھی اور محنت مشقت کی چکی میں پھنس کر اسے پالا تھا ۔وہ بہت سیدھی سادی اور شریف بچی تھی ،بھلا ولایت کی ترقی کا کیا مقابلہ کرسکتی تھی۔
اس نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو نمبردار نے تسلی دی اور کہا۔ بی بی پریشان نہ ہو، علیم کوئی غیر تو نہیں۔ ولایت میں رہتا ہے تو کیا ہوا، ہے تو تمہاری بیٹی کا سگا تایا، وہ بھلا وہاں کیوں اس کا خیال نہ کرے گا۔ تم اللہ پر بھروسہ کرو اور یہ رشتہ نور خان کو دے دو، تمہاری بیٹی کے نصیب سنور جائیں گے۔ رشتے داروں نے بھی یہی رائے دی مگر نمبردار پیش پیش تھا۔
یہ گائوں کا دستور تھا کہ جس کو معزز سمجھا جاتا ہے اسی کی بات مانی جاتی ہے۔ بخت بی بی بےچاری نے کلیجے پر پتھر رکھ لیا۔ بہت کوششوں کے بعد نمبردار بانو کے کاغذات مکمل کراپایا۔ پاسپورٹ بھی نمبردار نے بنوادیا اور بانو اپنے تایا کے پاس ولایت روانہ ہوگئی۔ بانو خوش نظر آتی تھی مگر ماں اداس تھی کہ اس کی یہ بھولی بھالی کھیتوں کی شہزادی اکیلی سمندر پار ان دیکھے سفر پر جارہی تھی۔ ماں بیٹی جب جدا ہونے لگیں تو بخت بی بی کی دل چیرنے والی سسکیاں سنی نہیں جاتی تھیں۔
جب علیم کا خط آگیا کہ شہربانو خیریت سے پہنچ گئی ہے اور یہاں اس کی شادی کی تقریب بہ خیر و خوبی انجام پاگئی ہے، وہ راضی خوشی ہے۔ دلہا دلہن کی تصویریں بھی تھیں۔ بخت بی بی کو قدرے سکون ہوگیا۔ ان دنوں رابطے ڈاک کے ذریعے ہوتے تھے۔ سیل فون وغیرہ نہیں تھے۔ تایا نے تو بھتیجی کو پیار دیا ، تائی بھی اس کے بہو بن کر آنے سے خوش تھی مگر شادی بانو کے لئے چار دن کی چاندنی ثابت ہوئی۔
خط تو نمبردار کے پاس آتے تھے ۔ بخت بی بی بیٹی کا حال احوال ان سے ہی جاکر معلوم کیا کرتی تھی ۔ ایک دن وہ ان کے گھر گئی تو نمبر دارنی نے بتایا کہ تمہاری بیٹی وہاں خوش نہیں ہے کیونکہ نور خان بگڑا ہوا نوجوان تھا، اس کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا۔ یہ سن کر بخت بی بی کے دل میں ایک بار پھر صف ماتم بچھ گئی۔ یہی بچی تو اس کا سرمایہ حیات تھی جس کی آس پر سانس کی ڈوری اٹکی ہوئی
تھی۔ اس کی جدائی سے وہ مرجھاتی جارہی تھی۔ دونوں ماں بیٹی جو سرشام ہی پرندوں کی طرح چہچہا کر اپنے گھونسلے میں گھس جایا کرتی تھیں، کبھی ہنستی تھیں کبھی دکھ سکھ کی باتیں کرکے سوجاتی تھیں، وہی اب ایک دوسرے کی خبر تک کو نہ پہنچ سکتی تھیں۔
بخت بی بی کو ہرگز گوارا نہ تھا کہ اپنی اکلوتی لاڈلی کو خود سے جدا کرکے اتنی دور پردیس میں بیاہ دے لیکن نمبرداراور کچھ گائوں والے مصر ہوگئے تھے کہ بھتیجی کا رشتہ اس کا تایا مانگ رہا ہے تو پھر انکار کیوں؟
ادھر تایا اپنی صابر بھتیجی کے ذریعے بگڑے سپوت کو راہ راست پر لانا چاہتا تھا ۔ اس کے پائوں میں بیڑی ڈالنا چاہتا تھا جو ایک گوری کے ساتھ بغیر شادی کے رہ رہا تھا۔ باپ بیٹے کو اس گناہ آلود زندگی سے بچانا چاہ رہا تھا اور قربان شہربانو ہوگئی کہ جس کو پھولوں کی مالا سمجھا ، وہ ایک زہریلا سانپ نکلا۔
نور خان نے اس معاشرے کی ہر برائی اپنالی مگر وہاں کی اچھائیوں کو نہ اپنا سکا۔ وہ کم سن تھا جب ماں کے ساتھ آیا تھا، باپ نے اسکول داخل کرادیا۔ ذہین تھا۔ تعلیم میں ممتاز ہو کر اسکول کے بگڑے ہوئے بچوں میں مقبول و مشہور ہوگیا۔ وہ باکسنگ اور فٹ بال میں نمایاں رہتا تھا۔ اسٹریٹ فائٹ میں دوچار معرکے کرلئے تو ایک لوفر گروپ کا لیڈر بن گیا۔ ایک رومان پسند لڑکی لوسی جو ایسے ہیرو ٹائپ لڑکوں پر مرتی ہیں اس پر مرمٹی اور دونوں میں دوستی ہوگئی، لیکن والدین لوسی کو بہو بنانے کے سخت خلاف تھے ۔وہ نور سے عمر میں کافی بڑی تھی اور ٹھیک لڑکی نہ تھی۔
شہر بانو ان باتوں سے بے خبر تھی وہ گھر میں سمٹی سمٹائی رہتی۔ تائی سے دبتی تھی اور تایا کو لحاظ کی وجہ سے اپنا دکھ نہیں بتاتی تھی۔ روز نور رات گئے گھر آتا اور اس کو کافی اذیت دیتا۔ ان اذیتوں کا ذکر تک کسی سے نہ کرسکتی تھی۔
ایک رات نور لوسی کو گھر لے آیا۔ ماں باپ سورہے تھے۔ نور اور لوسی نے خوب نشہ کر رکھا تھا ، اس نے گوری سے کہا… تم تو بیوٹیشن ہو ، میری بیوی کو بھی اپنے جیسا خوبصورت بنادو۔ اپنے جیسے اس کے بال تراش دو ۔یہ دیہاتی لڑکی ہے ،اس کو ماڈرن دنیا کی ڈریم گرل بنائو۔
وہ تونشے میں چور تھی ۔ اس نے پرس سے قینچی اور استرا نکالا اور نور نے بانو کو پکڑلیا ۔اس کے بال تراشے جانے لگے، یہاں تک کہ لوسی نے اس کو گنجا کرکے رکھ دیا۔ اس کو اپنا ہوش نہ تھا وہ کب بانو کے بالوںکی تراش خراش کے قابل رہی تھی۔ بانو بے چاری زیادہ مزاحمت نہ کرسکی کہ کہیں نشے کے عالم میں یہ دونوں اس کے گلے پر استرا ہی نہ پھیر دیں یا قینچی سے زخمی کردیں۔ خاموشی سے اپنے سر کی درگت بنواتی رہی۔
صبح سر لپیٹے آئی اور تایا کو اپنے بال دکھائے۔ وہ بری طرح رو رہی تھی کہ آپ کے بیٹے نے میرا ایسا حشر کیا ہے ۔پائوں پکڑ کر بنتی کرنے لگی کہ مجھے واپس وطن بھجوادیں، میں نور کے ساتھ زندگی نہیں گزارسکتی۔ تایا نے اس کو تسلی دی اور وعدہ کیا کہ وہ اسے جلد پاکستان بھجوا دے گا بشرطیکہ کہ وہ اس واقعے کا یہاں کسی سے ذکر نہ کرے۔ بانو نے سب وہ اذیتیں ساس کو بتائیں جو اس کا بیٹا اسے نشے کی حالت میں روز دیا کرتا تھا تب تائی نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ اس بے چاری لڑکی کو اس کی ماں کے پاس بھجوا دینا چاہئے، ایسا نہ ہو کل کلاں ان کا بدقماش لڑکا اس بے قصور کا خون کردے یا کہ شدید نقصان پہنچادے۔
علیم نے بیٹے کو بھی گھر سے نکال دیا اور بانو کو پاکستان اس کے گائوں بھجوادیا ۔ نمبردار کو اس کے آنے کی اطلاع کردی اور وہ گائوں کے دو بزرگوں کے ہمراہ شہر کے ایئرپورٹ سے بانو کو لے آئے۔ جب وہ گائوں آئی تو اس کا حلیہ دیکھ کر گائوں میں یہ بات جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی کہ بانو بی بی ولایت سے گنجی ہو کر آگئی ہے۔ نور نے اس کے سر پر استرا پھروا کر وطن بھجوادیا ہے۔
گائوں والوں کے لئے یہ خبر صدمے اور بہت بے عزتی کا باعث تھی کہ ان کے گائوں کی لڑکی کی فرنگی ملک میں ایسی ہتک کی گئی ہے۔ وہ غم و غصے سے کھولنے لگے اور بخت بی بی کا دکھ تو دیکھا نہ جاتا تھا۔ افسوس کہ ان دنوں جب بانو وطن آئی وہ امید سے تھی، اسی لئے ہر کوئی خاموش ہوگیا۔ اس نے کچھ ماہ بعد ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام عالم خان رکھا گیا۔
بخت بی بی سے تو پہلے دکھوں کی ٹوکری نہ اٹھتی تھی یہ بوجھ اور بڑھ گیا مگر نواسہ تھا، پیارا لگا تو سینے سے لگالیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بچہ بڑا ہوتا گیا وہ گائوں کی گلیوں میں کھیلتا ، درختوں اور کھیتوں کے درمیان دوڑتا پھرتا ۔سبھی کہتے کہ بخت بی بی کو آج جو بوجھ لگتا ہے کل یہی ماں اور بیٹی دونوں کا سہارا بنے گا۔
جب وہ آٹھ برس کا تھا، ایک دن اچانک اسکول سے گھر آتے ہوئے غائب ہوگیا۔ بخت بی بی اور بانو تو جیتی تھیں اور نہ مرتی تھیں۔ کوچہ کوچہ ، گلی گلی سب ڈھونڈ تھکے، اس کو ملنا تھا اور نہ ملا۔ دونوں ماں اور بیٹی روتی ہوئی نمبردار کے پاس گئیں تب اس نے بتایا کہ عالم کو تو اس کا باپ نور خان لے گیا ہے۔ تم لوگ فکر نہ کرو۔ تمہارا لڑکا کہیں نہیں گیا۔ وہ اپنے باپ کے پاس ہے۔
بچہ پہلے ماں کے پاس تھا۔ آخر باپ کا بھی حق ہوتا ہے، اصل وارث تو وہی ہوتا ہے۔ قانون بھی تو لڑکے کو سات سال کی عمر کے بعد باپ کے حوالے کردیتا ہے۔ اچھا ہے ولایت میں پڑھ لکھ لے گا۔ یہاں گائوں میں رہ کر کیا کرے گا ، گلیوں میں آوارہ ہی پھرے گا۔
باپ ولایت میں رہ کر کیا بن گیا جو یہ وہاں کچھ بن جائے گا اس سے تو گائوں اچھا ہے۔ کچھ نہ بن سکا انسان تو رہے گا۔ بانو نے جواب دیا۔ ایک سال بخت بی بی اور بانو نے انتظار کیا آخر مجبور ہوکر وہ شہر آگئیں اور وکیل کرنے کو عدالت گئیں تو مجھے مل گئیں۔میں نے ان کو پہچان لیا اور گھر لے آئی۔
بتاتی چلوں کہ میرا ابتدائی بچپن گائوں میں بیتا تھا پھر ہم تعلیم کی خاطر شہر آگئے ۔ یہاں میں نے وکالت پاس کی اور پریکٹس میں آگئی ، بھائی بھی وکیل بن گئے تھے۔ مجھے وکالت کا پیشہ پسند تھا۔ میں نے بخت بی بی اوربانو کی ساری بات سنی اور تسلی دی کہ میں تمہاری وکیل بنوں گی، لیکن رات بھر سوچتی رہی کہ بچے کو جنم ماں دیتی ہے اور بغیر بتائے اسے باپ لے اڑتا ہے۔ علاقے کے طاقت ور لوگ بھی اسی باپ کی مدد کرتے ہیں پھر باپ بیٹے کو اتنی دور لے جاتا ہے کہ ماں اسے دیکھ بھی نہیں سکتی۔
یہ کیسی بے انصافی ہے کہ سات سال جس شخص نے اپنی اولاد کی خبر تک نہ لی وہی اس کا وارث کہلانے لگا۔
بانو جب بھی میرے پاس آتی ،روتی اور پوچھتی کہ میرا بیٹا کب ملے گا۔ اسے کہتی۔ مل جائے گا، ایک روز ۔ہم کیس لڑیں گے، تم ہمت نہ ہارو، مگر کیسے اس پگلی کو سمجھاتی کہ یہاں زور عورت کا نہیں مرد کا چلتا ہے کیوں کہ یہ معاشرہ مرد کا ہے۔جو بھی علاقے کے معززین ہیں وہ مرد کا ہی ساتھ دیں گے تمہارا نہیں۔
(س ۔ مظفر آباد)