ان دنوں جبکہ حالات اچھے نہ تھے ، امی نے ہم بچوں کی خاطر مکان کا بالائی حصہ کرائے پر اٹھادیا۔ اتنی قلیل آمدنی میں گھر کا گزارہ کیسے چلتا تاہم جوں توں کر کے میں نے گریجویشن مکمل کی اور ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہو گئی۔ اب گزارے کا تمام انحصار میری ہمت پر تھا۔ ان دنوں میرا معمول تھا کہ پڑوس سے روز اخبار منگواتی اور ضرورت ہے کا اشتہار د یکھتی ، جہاں کہیں ملازمت کے لئے آسامی خالی ہوتی، درخواست دے دیتی تھی۔ ایک سال یو نہی نکل گیا۔ میں درخواستیں دے دے کر تنگ آگئی۔ کہیں ملازمت نہ ملی۔ سوچتی تھی شاید قسمت میں بر سر روزگار ہونا لکھا ہی نہیں – کبھی جی چھوڑ کر بیٹھ جاتی۔ فاقے ڈراتے تو پھر کمر کس کر گھر سے نکل پڑتی ، فارغ وقت میں ٹیوشن پڑھاتی۔ امی سلائی کرتی تھیں۔ باقی بہن بھائی پڑھنے والے تھے اور ہم گھر میں کل چھ نفوس تھے۔ میں گھر کا سہارا بنے کی فکر میں گھل رہی تھی۔ اخبار میں ملازمت کے لئے اشتہار دیکھنا اب بھی میرا معمول تھا۔ ایک بار نہایت ہی مایوسی کے عالم میں اخبار دیکھ رہی تھی کہ ایک اشتہار پر نظر پڑ گئی۔ ملازمت حسب منشا تھی اور ہمارے شہر میں تھی لیکن انٹرویو کے لئے کمپنی نے اپنے ہیڈ آفس اسلام آباد بلا یا تھا۔ ہمارے شہر سے اسلام آباد بارہ گھنٹے بس کا سفر تھا۔ جبکہ کرایہ بھی میرے پاس نہیں تھا۔ کرائے کا مسئلہ تو کسی سے قرض لے کر حل کیا جا سکتا تھا۔ اصل مسئلہ امی جان سے اجازت کا تھا۔ وہ مجھے دوسرے شہر کسی طور اکیلے جانے نہ دیتیں اور میرے ساتھ کوئی جانے والا بھی نہ تھا پھر وہاں رہائش کا مسئلہ بھی تھا۔ ایک رات اسلام آباد میں رکنا پڑتا، کہاں ٹھرتی ۔ وہاں کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ اکیلی لڑکی ہوٹل میں بھی نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ جب میں نے امی جان کو بتایا کہ ملازمت میں کافی مراعات ہیں، تنخواہ بھی اچھی ہے تو انہوں نے جواب دیا۔ پہلے جو اتنی جگہ تم نے انٹروی ودیے ہیں کیا وہاں کامیاب ہوئی ہو – جو اب امیدیں باندھ لی ہیں، وہ بھی دوسرے شہر انٹر ویو دینے جارہی ہو ، میں ہر گز اجازت نہ دوں گی کہ اکیلی اسلام آباد جاؤ ۔ ماں آپ کی دعا دے کر روانہ کریں گی اور اجازت دیں گی تو ان شاء اللہ میری کامیابی یقینی ہے۔ خدا جانے کیوں اس بار مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ یہ ملازمت ضرور حاصل کرلوں گی، بشر طیکہ وقت پر انٹر ویو دینے پہنچ جائوں۔ میں ہر گز تم کو اجازت نہ دوں گی۔ دعا تو تب دے کر رخصت کروں گی کہ جب اجازت دوں گی۔ ماں کا فیصلہ قطعی تھا اور اب ان سے مزید بحث کرنا بیکار تھا۔ میں گونگوں کی کیفیت میں اداس بیٹھی تھی کہ اسی وقت میری سہیلی فرح آگئی ، اسے بھی ملازمت کی تلاش تھی تاہم اس کے حالات اتنے برے نہیں تھے۔ اس کے ہاتھ میں اخبار کا تراشا بھی تھا۔ مجھے اس نے اشتہار دکھا کر کہا۔ حیا نادر موقع ہے، بڑی اچھی تنخواہ ہے اور مراعات بھی خوب ہیں، چلو قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ امی مگر اجازت نہیں دیں گی فرح- میں نے منہ لٹکا کر کہا۔ مجھے تو اجازت مل جائے گی، میں تیری امی کو منالیتی ہوں۔ وہاں میری خالہ کا گھر ہے ، رات کو وہاں رہ لیں گے۔ ٹھہرنے کا کوئی پرابلم نہیں ہے۔ انٹر ویو دے آتے ہیں۔ آگے اللہ مالک ہے۔ میرے پاس تو کرائے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ تو اس کی فکر مت کر۔ وہ میں تم کو دے دوں گی۔ اس نے ڈھارس بندھائی تو مجھ کو امید کی کرن دکھائی دینے لگی۔ میں نے ہامی بھری تو وہ میری والدہ کے پاس پہنچی۔ آئی نے فرح کو بھی انکار کر دیا کیونکہ میری ماں ذرا سخت قسم کی خاتون تھیں۔ فرح تو مایوس ہو کر چلی گئی مگر میرے دل میں کھلبلی مچا گئی کہ جانا ضرور ہے، کیونکہ اب میں اکیلی نہیں تھی، کرائے کا مسئلہ بھی وہی حل کرنے پر تیار تھی۔ رات بھر سو نہ سکی۔ نیند نہ آرہی تھی، کیا کرتی، جانے کیوں یقین سا تھا کہ جانے پر کامیابی ہو گی۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر شاید اس میں کچھ حکمت ہو۔ اگلے دن وہ مجھے فائزہ کے گھر ملی۔ فائزہ میٹرک کی طالبہ تھی اور وہ مجھ سے ٹیوشن پڑھتی تھی اور ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ فرح بولی۔ میں تو جارہی ہوں۔ تم نے چلنا ہے تو بتادو کیونکہ کل رات ہم نے آٹھ بجے روانہ ہونا ہے ، میں تمہارا ٹکٹ لے رکھوں گی۔ میں نے بے اختیار کہہ دیا۔ لے لینا ٹکٹ ۔ امی کو میں کسی طرح منالوں گی۔ میں یہ چانس کھونا نہیں چاہتی۔ اگلے دن دو پہر تک خاموشی رہی۔ شام سات بجے گھر سے نکلنا تھا۔ یہ وقت سخت اذیت میں گزرا، ذہن کی سوئی اسی سوچ پر اٹک گئی کہ اسلام آباد جاتا ہے انٹر ویو دینے ہر صورت جانا ہے۔ چھ بجے قلم کا غذ اٹھایا اور کچھ سمجھ میں نہ آیا، ایک رقعہ امی کے نام لکھا۔ پیاری امی ! مجھے یقین ہے کہ یہ نوکری مجھے مل جائے گی۔ اچھی تنخواہ، گھر کے کرایہ کا الائونس، پک اینڈ ڈراپ، غیر ملکی ایجنسی ہے۔ ان کے پاس بے حساب فنڈ ز ہوتے ہیں، فلاح و بہبود کے کام کرنے والوں کا پراجیکٹ ہے۔ مراعات بھی زیادہ ہیں، خدارا ناراض نہ ہو نا بلکہ مجھے دعائیں دینا۔ فرح بھی میرے ساتھ جارہی ہے۔ ہمارے علاقے سے ان کو چار لیڈی ورکرز کی ضرورت ہے، میں اکیلی نہیں ہوں فکر نہ کرنا۔ پرسوں لوٹ آئوں گی ان شاء اللہ آپ کی بیٹی حیا۔ “ فرح کے گھر پہنچ کر میں نے یہ رقعہ اس کے بھائی کو دیا اور اس سے کہا کہ جب بس پنڈی کے لئے روانہ ہو جائے تو تم یہ رقعہ میری والدہ کو دے دینا۔ بے شک میں امی کی اجازت کے بغیر روانہ ہو رہی ہوں۔ امی ناراض بھی ہوں گی مگر مجھے پتا تھا کہ ایک نیک مقصد سے جارہی ہوں۔ جب انٹر ویو دے کر آجائوں گی تو ماں گلے سے لگا ہی لے گی۔ سات بجے ہم کو بس کے اڈے جانا تھا، فرح نے میرا اور اپنا ٹکٹ پہلے سے منگوا لیا تھا۔ ہم ٹھیک ٹائم پر گھر سے نکلے اور لاری اڈے پہنچے، فرح کا بھائی ہم کو چھوڑنے آیا تھا۔ میں نے امی سے صرف فرح کے گھر جانے کی اجازت لی تھی۔ لہذا ایک کپڑوں کا جوڑا تک ساتھ نہ لیا تھا، سوچا اپنی سہیلی سے ایک جوڑا مانگ لوں گی۔ اگر بیگ تیار کرتی تو والدہ ضرور سوال کرتیں کہ فرح کے گھر یہ بیگ کیوں لے جارہی ہو۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔ جو نہی بس چلنے لگی، اسی وقت میری سہیلی کا دوسرا بھائی دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا۔ باجی فرح گھر چلیں ، ابا جان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے۔ ان کو اسپتال لے گئے ہیں۔ وہ گھبراکر سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کہنے لگی۔ جب تم اکیلی ہی چلی جائو۔ یہ لو ٹکٹ اور یہ پتا ہے میری خالہ کے گھر کا۔ میں ابھی ان کو فون کر دیتی ہوں۔ تم کو وہاں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھنا۔ فرح میں اکیلی نہیں جائوں گی۔ یہ کہ کر بس سے اترنے لگی۔ اس نے تبھی مجھ کو ڈانٹ دیا، کہا۔ بے وقوف مت بنو۔ تم جائو۔ رات میں اکیلی بس میں مر نہیں جائوں گی۔ بس مسافروں سے بھری ہوئی ہے سبھی اسلام آباد اتریں گے اور یہ سب ہمارے ہی شہر کے لوگ ہیں۔ صبح سات بجے لاری سے اترتے ہی اس نمبر پر فون کرنا اور خالہ تم کوپتا سمجھا دیں گی یاوہ خود تم کو لینے آجائیں گی۔ غرض فرح نے اس قدر تسلی دی کہ میں مجبور ہو گئی۔ اس نے مجھے ٹکٹ کے علاوہ کاغذ کے پرزے پر پتا بھی لکھ کر دیا جو بقول اس کی خالہ کا تھا۔ جلدی میں یہ غلطی ضرور ہوئی کہ میں نے اس سے سفر خرچ کے لئے رقم نہیں لی۔ البتہ میرے پاس کل تین سوروپے تھے جبکہ واپسی کا ٹکٹ بھی لینا تھا۔ فرح لاری سے اتر کر گھر چلی گئی اور لاری ہمارے شہر سے پنڈی کے لئے روانہ ہو گئی، جہاں ہم کو فیض آباد اتر نا تھا۔ جو خط امی کے نام میں نے لکھا تھا، وہ ان کو مل گیا۔ امی سوائے صبر کیا کر سکتی تھیں۔ فرح نے خود جا کر ان کو تسلی دی کہ میں نے اسلام آباد والی اپنی خالہ کو فون کر دیا ہے، بس کا نمبر بھی لکھوادیا ہے۔ اس کو کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ اب حال سنیئے میرا کیا ہوا اور خدا کو کیا منظور تھا۔ مسافر بس میں تمام رات جاگتی رہی ۔ صبح سات بجے ہم منزل مقصود پر پہنچے۔ لاری اڈے اتر کر میں نے لیڈیز باتھ جاکر ہاتھ منہ دھویا اور اپنا حلیہ درست کیا۔ رات بھر سفر کی بے آرامی نے سونے نہ دیا اور اب بے خوابی سے آنکھوں کے گرد حلقے نمودار ہو چکے تھے۔ بہر حال منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور سوچا کہ یہیں اڈے پر ہی چائے کی پیالی پی لوں تو اخبار میں دیے ہوئے پتے پر وہ دفتر تلاش کروں گی جس میں آج دوپہر دو بجے مجھے انٹر ویو کے لئے جانا تھا۔ جب چائے پی کر پیسے دینے کو پرس کھولا تبھی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ پرس میں سے وہ تین سوروپے اور فرح کی خالہ کے گھر کے پتے والا پر زہ غائب تھا۔ یہ رقم اسی پر زے میں لپیٹ کر فرح نے مجھے واپسی کی ٹکٹ کے لئے دی تھی۔ خدا جانے یہ رقم کب اور کس نے دوران سفر نکال لی تھی۔ رات کے کسی پہر ذرادیر کو میری آنکھ لگ گئی ، شاید یہ میرے برابر والی نشست پر بیٹھی کسی عورت کی کارستانی ہو۔ چلتی بس میں نیند کی جھپکیاں تو آتی ہی ہیں۔ . اب تو میں سفر میں بُری طرح لٹ گئی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ میں کہیں فون کروں۔ میں اب لاری اڈے پر کھڑی کشمکش میں گرفتار تھی۔ پرس میں دو چار سکے پڑے تھے۔ چائے والے کو دیے اور اب خالی جیب رکشا پر کیسے اسلام آباد پہنچوں اور انٹر ویو کے لئے دفتر ڈھونڈوں۔ میں نے انٹر ویو کا ارادہ ترک کر دیا۔ یہی فکر کہ واپس اپنے شہر جائوں تو کیسے ۔ ۔ بغیر ٹکٹ بس میں چڑھوں۔ کچھ دیر تک اڈے پر کھڑی یہی سوچتی رہ گئی۔ د فعتا محسوس ہوا کہ اڈے پر کھڑے کچھ او باش لوگوں کی نگاہوں نے میری پریشانی کو محسوس کر لیا ہے۔ عافیت اسی میں جانی کہ فوراً اس لاری میں سوار ہو جائوں جو اس وقت میری شہر کی طرف جانے کو تیار کھڑی ہے۔ میں نے اپنا خالی پرس سنبھالا، بس میں سوار ہو گئی اور ایک عورت کے برابر والی خالی نشست پر بیٹھ گئی۔ اب دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اپنی بے عزتی کے خیال سے پسینہ آرہا تھا۔ اچانک کنڈیکٹر نے مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے شروع کر دیئے۔ جب وہ میرے پاس آیا۔ میں برقع میں کانپ رہی تھی۔ پینے سے شرابور تھی۔ اس نے ٹکٹ مانگا۔ میں چپ رہی ، وہ سمجھا میں پرس سے ٹکٹ نکال رہی ہوں، آگے والی سیٹوں کی طرف چلا گیا۔ پچھلی سیٹوں سے ہو کر وہ پھر میری جانب پلٹا۔ بی بی ٹکٹ دکھائو۔ میں چپ رہی۔ اس نے دوبارہ یہی جملہ دہرایا۔ میں نے چپ سادھ لی تھی۔ وہ چڑ گیا۔ یہ سواری تو بہری ہے شاید یا پھر گونگی ہے، اس کے ساتھ کوئی ہے۔ مسافر چپ تھے۔ اب میر اچپ رہنا ممکن نہ رہا۔ بھائی ، میں نے ٹکٹ نہیں لیا، کسی نے میرے پرس سے پیسے نکال لئے ہیں۔ پیسے نہیں تھے تو بس میں چڑھی کیوں؟ استاد جی ، اس نے ڈرائیور کو پکارا۔ بس روکو۔ اس لیڈی کو اتارنا ہے۔ ڈرائیور نے بس روک دی۔ بی بی ٹکٹ بنواؤ پھر اتر جائو۔ یا اللہ آنسو برقع کے اندر میرے نقاب کو بھگونے لگے۔ میں آپ کو ٹکٹ کے پیسے اپنے شہر پہنچ کر دے دوں گی۔ میں نے التجا کی۔ مسافر تمام میری جانب متوجہ ہو گئے اور ڈرائیور کہ رہا تھا۔ اب تم شہر کہاں جائو گی، دار لامان جائو گی۔ ارے یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہے۔ اتنی اہانت میری زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ آج پتا چلا بے بسی، غربت، مفلسی کیا ہوتی ہے۔ آج ماں کی بات یاد آرہی تھی کہ اکیلی سفر پر مت نکل۔ دل کہہ رہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ماں کی دعا اثر رکھتی ہے ، جس کام میں ماں کی رضا مندی شامل حال نہ ہو۔ اس میں اولاد کو کامیابی نہیں ملتی۔ اتر جامائی، کنڈیکٹر نے کہا۔ ہمارا وقت مت ضائع کر ۔ تب ساری بس میں ایک شخص کو احساس ہوا۔ ارے میاں کیوں اس قدر بد تمیزی سے پیش آرہے ہو۔ ہو سکتا ہے واقعی ان کی رقم کر گئی ہو۔ آپ کی کچھ لگتی ہے تو آپ ٹکٹ کے پیسے دے دیں۔ حمایت کرنے والے شخص کو آگیا۔ کہنے لگا۔ وطن کی لڑکیاں اور خواتین ہماری بہن لگتی ہیں۔ کچھ سوچ کر بات کیا کرو اور یہ لو ٹکٹ کے پیسے ، اس کے بعد اگر بد تمیزی سے بات کی تو ٹھیک نہ ہو گا۔ اچھا صاحب اچھا ٹھیک ہے لائے پیسے۔ ہم کو ٹکٹ سے مطلب ہے ، آگے بس کے مالک کو بھی تو حساب دینا ہوتا ہے۔ رقم ملتے ہی کنڈیکٹر کی زبان بند ہو گئی اور بس چل پڑی۔ میرے چہرے پر نقاب تھا، آنکھوں سے اس شخص کے لئے شکر گزاری کے آنسو گر رہے تھے جو آگے بیٹھا تھا اور میں اس کی صورت بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ تمام راستے مجھے اپنی اہانت کا شدید احساس ہوتارہا۔ اس کے ساتھ ہی میں اس مسافر کا شکر یہ ادا کرنا چاہتی تھی جس نے مجھے مزید ذلیل ہونے سے بچالیا تھا لیکن وہ شخص مجھے نظر نہ آسکا۔ یہاں تک کہ بس مقررہ وقت پر منزل مقصود تک پہنچ گئی۔ لوگ بس سے اتر گئے۔ وہ فرشتہ صفت شخص بھی ان کے ساتھ اتر گیا۔ شاید اسے شکریہ کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی نیکی ہمارے کام آئی تو سہی لیکن اس سے بھی زیادہ خود اس کے کام آئی ہو گی کیونکہ اس کو شکریہ کی طلب نہ تھی اور نہ ہی اس کو اپنی پہچان کرانے کی چاہت تھی۔ میں ضرور چاہتی تھی کہ وہ جانے سے قبل مجھ سے بات کرلے تاکہ میں اس کی رقم گھر جاکر اس کو لوٹا سکوں، لیکن وہ بس سے اترتے ہی بھیٹر میں گم ہو گیا اور میں اس کو پکار بھی نہ سکی۔ تھکے تھکے قدموں جب گھر لوٹی، ماں نے آڑے ہاتھوں لیا لیکن سوائے ان کے پیر چھو کر معافی مانگنے کے اور کیا کر سکتی تھی۔ میں نے اتنا ضرور کہا کہ ماں تم نے مجھے دعا ضرور دی ہو گی کیونکہ تمہاری دعائوں نے اس سفر میں میری عزت رکھ لی اور میں خیریت سے گھر پہنچ گئی ہوں ورنہ خدا جانے میرے ساتھ کیا ہو جاتا۔