Monday, March 17, 2025

Oulad Ka Dukh

ہمار اگھر ایک کوہستانی علاقے کے گاؤں میں تھا، جہاں چاروں طرف جنگل تھا۔ وہاں ایندھن کے لئے لوگ جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرتے ، تب گھروں کے چولہے جلتے تھے۔ میں بھی ماں کے ساتھ لکڑیاں اکٹھی کرنے جایا کرتی تھی۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھا۔ وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ایک روز ہم ماں بیٹی سروں پر لکڑیوں کے گٹھ اٹھائے گھر میں داخل ہوئیں تو دادی نے ماں سے سرگوشی کی۔ مہمان آئے ہیں کلر کہار سے ، خاطر مدارات کرنا ہو گی۔ دادی کی سرگوشی سُن کرماں کا چہرہ کھل گیا، مجھ سے کہا۔ زرمینا ! جلدی سے چولہا گرم کر۔ تیری دادی کے مہمان آئے ہیں ، ان کے لئے کھانا بنانا ہے اور ہاتھ منہ دھو کر لباس تبدیل کر لینا۔ ماں کی ہدایت پر حیران تھی کہ پہلے تو کبھی مہمانوں کے آنے پر انہوں نے ایسی ہدایات نہ دی تھیں۔ میں نے ہاتھ منہ دھو کر، کپڑے بدلے اور چولہے میں لکڑیاں ٹھونس کر اوپر گھاس پھوس رکھ کر دیا سلائی دکھادی۔ میں چولہے پر جھکی ، لکڑیاں پھونک رہی تھی مگر آگ تھی کہ مجھ سے نہ جل پارہی تھی۔ ٹہنیوں کی سلگن سے میری نرم و نازک آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا، تبھی دو مہمان عورتیں کھانا بنانے والی کو ٹھری میں آئیں اور مجھے اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ ان میں سے ایک ماں سے بولی۔ وقوفہ ! اتنی کم سن پر یہ کدیکھ تو بچی سے آگ نہیں جل رہی، کیا تیرے گھر جلانے کو خشک لکڑیاں نہیں ہیں جو یہ پھونکیں مار مار بے حال ہو رہی ہے۔ ان لکڑیوں نے تو تیری لڑکی کی آنکھوں کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر چولہے کے پاس سے اٹھادیا۔ چل اٹھ میری بیٹی ! ہم نے نہیں کھانا ایسا کھانا جس سے تیرا ایسا حال ہوا ہے۔ تیری ماں نے تو ابھی سے تجھ کو چولہا ہانڈی سونپ دیئے ہیں۔ مہمان عورت کی ان باتوں سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ کس غرض سے آئی ہیں۔ میں نے ان کو پہلی بار دیکھا تھا لیکن اماں اور دادی انہیں اچھی طرح جانتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ آئیں ، اس بار یہ شادی کی تاریخ لینے آئے تھے۔ ان کے ساتھ مرد بھی تھے ، جو مٹھائی لائے تھے۔ تاریخ رکھ دی گئی اور ایک ماہ بعد میر ی شادی ہو گئی۔ میں سسرال آگئی۔ ان دنوں میری عمر چودہ برس تھی اور شادی کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ اسی قدر جانتی تھی کہ لڑکی سرخ رنگ کا جوڑا پہنتی ہے اور اس کو سونے چاندی کے زیوروں سے سجایا جاتا ہے۔ یہ خبر نہ تھی کہ شادی ہم ایسی لڑکیوں کے لئے صرف دُکھوں کا نام ہے، جب اس کا اپنا تشخص کھو جاتا ہے اور وہ ایک نئے گھر کی باندی بن جاتی ہے شادی کے وقت دولہا کی عمر تیس برس تھی۔ اسے خبر نہ تھی کہ ایک چودہ برس کی بچی کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے۔ اس کو تو نرم دلوں سے بات تک کرنے کی تمیز نہ تھی۔ وہ سخت دل اور اکھڑ مزاج آدمی تھا۔ وہ آوارہ منش ، بات بات پر جھگڑاڈالتا تھا۔ بھنگ اور جوئے کا رسیا تھا۔ جب بھی ہار کر نشے میں گھر واپس آتا تو اپنی ہار کا س مجھ پر نکالتا اور میں تھر تھر کانپنے لگتی۔ ابھی میری شادی کو دو چار دن ہی ہوئے تھے۔ ابھی تو میرے پھول جیسے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ بھی ماند نہیں پڑا تھا کہ اس کی طرف سے مار پٹائی کا آغاز ہو گیا۔ ایک روز اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی کہ باہر سے ڈھول باجے کی آواز میں آنے لگیں۔ گاؤں میں ایسے میلے ٹھیلے ہوتے ہی رہتے ہیں شاید کسی کھلاڑی کو اس کے ساتھیوں نے کندھوں پر اٹھار کھا تھا۔ ڈھول کی آواز سُن کر میں بھی، یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا تماشا ہو رہا ہے ، میں نے گھر کے دروازے سے باہر جھانکا۔ جلوس کہیں دور تھا۔ مجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا مگر شامت اعمال کہ اس وقت کھیتوں سے میرا خاوند آرہا تھا۔ رب نواز نے مجھے صحن کی چار دیواری سے جھانکتے پایا۔ بس پھر کیا تھا، چٹیا سے پکڑ کر اس نے مجھے صحن کے فرش پر بچھادیا اور اتنا مارا کہ لہولہان ہو گئی۔ شور سُن کر ساس کو ٹھے سے اتر آئی اور مجھے چھڑایا۔ نواز نے دھمکی دی کہ وہ مجھے گھر سے نکال دے گا۔ نند نے کہا کہ یہ واقعی تجھ کو گھر سے نکال دے گا۔ بہتر ہے کہ تم خود میکے چلی جائو مگر میں نہ گئی۔ مجھے خبر تھی کہ ماں مجھے واپس سسرال بھجوا دے گی۔ ماں نے مجھ کو اپنے گھر سے رخصت کرتے وقت ، میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ جس گھر وندے جارہی ہے وہی تیرا اصل گھر ہے۔ سسرال میں ٹھیک سے رہنا اور جھگڑا کر کے میکے مت آنا۔ میری شادی کے تین سال بعد اماں فوت ہو گئیں۔ میکے کا سہارا بھی نہ رہا۔ دن مہینے اور مہینے سالوں میں بدل گئے اور میری شادی کو سترہ برس بیت گئے۔ اس دوران میری آٹھ لڑکیاں پیدا ہو ئیں۔ جب بھی بیٹی پیدا ہوتی، ہمارے گھر میں سوگ کا سماں طاری ہو جاتا۔ خاوند اصرار کرتا کہ لڑکی کو افیم چٹاد و۔ آپ ہی مر جائے گی مگر میں ماں تھی، ایسانہ کر سکتی تھی۔ وہ اس بات پر مجھ کو مارتا، میں مارسہ لیتی مگر اپنی بیٹی کو افیم نہ کھلا پائیں۔ آخر خُدا نے میرے شوہر کی سُن لی۔ ایک بار خسرو کی وبا پھیلی اور آٹھ میں سے میری تین چھوٹی لڑکیاں اس وبا کی نذر ہو گئیں، پانچ باقی رہ گئیں۔ تب اس کو چین آیا۔ خدانے بیٹا ایک ہی دیا جس کو ہم گھر بھر کا واحد سہارا مجھتے تھے مگر کیا خبر تھی کہ یہ عارضی سہارا ہے۔ فرید مجھ کو بہت پیارا تھا۔ وہ میرے شوہر کی جان تھا۔ وہ اس کو بہت چاہتے تھے اور اس کے مقابلے میں بیٹیوں کو کچھ نہ سمجھتے تھے۔ کہتے تھے کہ میں اس ایک لعل پر اپنی پانچوں بیٹیاں وار کر پھینک دوں گا۔ وہ پرایا اور یہ میراپنا مال ہے۔ میرا قیمتی سرمایا، میرے بڑھاپے کا سہارا ہے، شاید قدرت کو ان کا یہ فخر غرور اور بڑا بول پسند نہ آیا کہ اس نے مہربان ہو کر جو نایاب پھول میر ی جھولی میں ڈالا تھا، ایک دن بھری دنیا کی بھیٹر میں کہیں کھو گیا۔ میرے شوہر نے ہی نہیں، میں نے بھی غرور کیا تھا اور ایک بے بس عورت کی ہنسی اڑائی تھی، جو ایک روز سفر سے تھکی ماندی ہمارے گھر دو گھڑی کو پناہ لینے آئی تھی اور مدت سے اپنی کھوئی ہوئی اولاد کی دید کو ترس رہی تھی۔ یہ ایک بوڑھی عورت تھی اور اس کا اصل نام رام پیاری تھا۔ ایک دن میں اپنے بیٹے کے لئے سوئیٹر بنا رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کھولا۔ سامنے تقریبا ستر برس کی ایک عورت کھڑی تھی۔ کہنے لگی۔ لمبے سفر سے تھک گئی ہوں، پیاس لگی ہے کیا پانی پلا دو گی ۔ ہاں، اندر آ جائو۔ میں نے گھڑے سے گلاس بھر کر پانی دیا۔ وہ واقعی بے حد پیاسی تھی، غٹاغٹ پی گئی۔ گرمیوں کے دن اور بھری دوپہر تھی، مجھے کو وہ مسافر لگی۔ پوچھا کہاں سے آرہی ہو ؟ کہنے لگی۔ بتاتی ہوں ، دم لے لوں۔ کیا کھانا کھائو گی ؟ وہ خاموش ہو گئی۔ میں اس کی خاموشی کی زبان کو سمجھ گئی اور کھا نالا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے ہاتھ منہ دھویا اور اپنے دوپٹے کے پلو سے ہاتھ پو نچھ کر کھانا کھانے بیٹھ گئی۔ جب اس نے کھانا ختم کر لیا، تب میں نے پھر سے سوال کیا۔ کہاں سے آئی ہو اور کون ہو تم؟ کہنے لگی۔ اب تو مسلمان ہوں، پہلے ہندو تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے میں نے ایک شخص مہابت خان سے شادی کر لی تھی اور اسلام قبول کر لیا تھا جس کا میرے بھائی پر کاش کو بہت دُکھ تھا، تاہم اس نے مجھ سے ناتا نہ توڑا اور نہ ہی بُرا بھلا کہا مگر ناراضی کو ایک سانپ کی طرح دل ہی دل میں پالتارہا۔ اللہ نے مجھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی دیئے، ۔ بیٹے کا میں نے اسلامی نام ارشاد خان اور بیٹی کازرینہ رکھا۔ میرا بھائی چونکہ میری غیر مذہب شخص سے شادی پر ناخوش تھا، اس نے مجھے سبق سکھانے کو میرے دونوں بچوں کو ایک روز چپکے سے فیروز پور پہنچادیا۔ میں سمجھی کہ میرے بچے گم ہو گئے ہیں، پٹتی رہ گئی مگر بچوں کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کچھ عرصہ بعد میرابھائی پر کاش ملتان واپس آگیا اور میرے بچوں بارے دریافت کرنے پر اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ میرے شوہر نے بھی ہندوستان کا کونہ کو نہ چھان مارا مگر بچوں کا کہیں سراغ نہ ملا۔ تقسیم ہند کے بعد تک بھی پر کاش ہمارے پاس ہی مقیم رہا، لیکن میرے بار بار دریافت کرنے کے باوجود اس نے بچوں کا کوئی اتا پتانہ بتایا۔ رفتہ رفتہ میری حالت بچوں کی جدائی میں غیر ہونے لگی۔ تب میرے بھائی کو اپنے ظلم کا احساس ہوا اور اس نے مجھ کو بتادیا کہ وہ میرے بچوں کو فیروز پور کے یتیم خانے میں اوم پر کاش اور وید کماری کے نام سے داخل کرا آیا تھا۔ جب مجھ پر یہ انکشاف ہوا میں فیروز پور جانے کو تڑپنے لگی۔ بالآخر کئی سال بعد میں وہاں جانے میں کامیاب ہو گئی اور وہاں جا کر یتیم خانے کے منتظم چشتن سے ملاقات کی اور اس کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ وہاں کا تو تمام عملہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ سوائے ایک بوڑھے چپڑاسی رام کے ، جو یتیم خانے میں موجود تھا۔ اس نے حالات سنے تو تصدیق کی کہ ہاں دو حقیقی بہن بھائی یہاں انہی ناموں سے داخل کرائے گئے تھے۔ اس بوڑھے چپڑاسی نے ایک پرانی استانی کا بتایا جس کا وہ گھر جانتا تھا اور اس استانی نے بچوں کو ابتدائی تعلیم دی تھی۔ وہ مجھے کو اس عورت کے گھر بھی لے گیا۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ استانی کی شادی ہو گئی ہے اور وہ کسی دوسرے شہر چلی گئی ہے۔ میں اُستانی کے لوٹ آنے کا انتظار کرتی رہی۔ جب اُستانی سے ملاقات ہوگئی تو بھی امید کی کھی نہ کھلی کیونکہ استانی نے بتایا کہ وہ ان بچوں کے موجودہ پتے سے واقف نہیں ہے البتہ بوڑھے چپڑاسی نے یہ انکشاف ضرور کیا کہ اوم پرکاش نے ایل ایل بی کرنے کے بعد کسی شہر میں وکالت شروع کر دی تھی جبکہ وید کماری کی شادی پٹیالہ میں ہو گئی تھی۔ رام پیاری جس نے اسلامی نام فاطمہ رکھ لیا تھا، مزید بتایا کہ میں اپنے بچوں کی مزید تلاش جاری نہ رکھ سکی کیونکہ میرا ویزا ختم ہو گیا تھالہذا واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد میں واپس ملتان اپنے شوہر کے گھر لوٹ آئی۔ اب بھی میں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہتی ہوں اور اللہ سے رورو کر فریاد کرتی رہتی ہوں کہ وہ مجھے میرے بچوں سے ملادے۔ جب وہ اپنی کہانی سنارہی تھی تو اس کا جھریوں بھرا چہرہ غمزدہ تھا۔ میں نے کہا کہ اب تم ویزا کے لئے اسلام آباد اور لاہور وغیرہ کے چکر لگانا بند کر دو کیونکہ بہت برس بیت گئے ہیں۔ بچے اپنی زندگی میں مگن تم کو بھول چکے ہوں گے ، تم بھی ان کو بھلانے کی کوشش کرو۔ وہ اب تم کو نہیں مل سکتے اور روز روز دوسرے ملک کا ویزا ملنا بھی آسان نہیں ہے۔ خواہ مخواہ اس عمر میں خود کومت تھکائو اور ان سے ملنے کی آس چھوڑ کر اب اللہ اللہ کرو۔ یوں بھی اس عمر میں بچے کب ساتھ دیتے ہیں، آخر کار والدین سے جدا ہو ہی جاتے ہیں۔ اب تمہاری زندگی کے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ میں اپنے کھوئے ہوئے بچوں کو نہیں بھلا سکتی، جب تک زندہ ہوں ، ان کے ملنے کی آس میری ہر سانس کے ساتھ رہے گی۔ یہ آس ٹوٹ گئی تو میں بھی مر جائوں گی۔ میں نے خُدا سے مہلت مانگ رکھی ہے کہ جب تک اپنے گمشدہ بچوں کو نہ دیکھ لوں، مجھے زندہ رکھنا۔ اس نے رو کر کہا تو مجھ کو ہنسی آگئی۔ میرے منہ سے نکلا تو پھر قیامت تک زندہ رہنا اور بچے ڈھونڈتی رہنا۔ مجھ کو اس وقت یہ بڑھیا پاگل لگتی تھی جو اپنے ایک ٹوٹے ہوئے خواب کے پیچھے ساٹھ سال سے بھاگ رہی تھی جبکہ نہ تو اب اس کے بچے ملنے والے تھے اور نہ ہی اس کا خواب پورا ہونے والا تھا۔ میں نے لاکھ بڑھیا کو سمجھایا، وہ نہ سمجھی اور یہی کہتی ہوئی میرے گھر سے نکل گئی کہ جب تک زندہ ہوں، اپنے کھوئے ہوئے بچوں کو ڈھونڈتی رہوں گی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ انسان کو جب معلوم ہو جائے کہ کوئی بات محال ہے یا نا ممکن ہے تو پھر اس کے پیچھے نہ پڑنا چاہئے ۔ یہ عورت اگر بچے ڈھونڈنے کی بجائے اپنے خُدا سے لو لگائے اور اللہ اللہ کرے تو ضرور اس کی بے چین روح کو سکون مل جائے۔ بے چینی بھی دور ہو جائے اور عاقبت بھی سنور جائے۔ ہیں نہ جانتی تھی کہ انسان جو دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے ویسا عمل خود کرنا اس کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ میں نے ایک ایک دن، گن گن کر فرید کو پروان چڑھایا تھا۔ جب وہ بڑا ہو گیا تو ایک روز گھر سے کسی کام سے ایسا گیا کہ پھر لوٹ کر نہ آیا۔ خُدا جانے وہ کدھر چلا گیا۔ اس کو کوئی لے گیا یا خود گیا۔ میں تو اس کا انتظار کرتی رہ گئی۔ اب کوئی اس ماں کے دل سے پوچھے جس کا بیٹا بھری جوانی میں گم ہو جائے۔ جب فرید گم ہوا، میری حالت ابتر ہو گئی۔ مجھ کو اپنا ہوش نہ رہا۔ بار بار غش کھا جاتی تھی۔ میری حالت دیوانوں کی سی تھی، سارادن گلیوں کے چکر لگائی کہ شاید وہ کہیں سے آتاد کھائی دے۔ لوگ مجھے دیوانی کہتے لیکن مجھ کو کسی کے کہنے کی پروانہ رہی، لیکن اب مجھے وہ بڑھیارام پیاری یاد آتی تھی۔ جب مجھے اپنا اور گھر کا ہوش نہ رہا تو میری حالت دیکھ کر بڑی لڑکی کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ دوسری بیٹی کے سسرال والے شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے، میں نے ان سے کہا۔ کچھ دن ٹھہر جائو شاید فرید لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ تمہارا بیٹا ملے نہ ملے۔ انہوں نے ایک ماہ کی مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ اس غم میں میری بیٹی ڈیپریشن کا شکار رہنے لگی۔ اسے دورے پڑنے لگے دو بچیاں اور بھی جوان تھیں، وہ بھی ان حالات سے پریشان رہتی تھیں۔ شوہر بیٹے کی جدائی کے غم میں نشہ زیادہ کرتے بالآ خر چل بسے۔ گھر میں کمانے والا کوئی نہ رہا۔ جیٹھ راشن لا کر دے دیتا تو ہمارا گھر چلتا۔ باقی تمام رشتہ دار ، بہن بھائی سبھی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ کہتے کہ اب بیٹے کی تلاش، اس سے ملنے کی آس چھوڑ دو، نارمل ہو کر اپنا گھر سنبھالو۔ باقی بچیوں کو دیکھو، ان کے فرائض ادا کرنے ہیں۔ اب بیٹا تو تمہارا رہا نہیں جس کی کمائی کی امید تھی جب فرید گم ہوا، وہ ایک ورک شاپ میں کام کرتا تھا۔ کہتا تھا، میں ترقی کر لوں گا، اپنی ورک شاپ بنالوں گا، تمہارے دکھ دور ہو جائیں گے۔ میں تم کو زندگی کے سارے سکھ دوں گا۔ اس نے سکھ کیا دینے تھے، اچانک غائب ہو کر زندگی کا ایسا بڑا دکھ دے گیا کہ جب تک زندہ ہوں اس بڑھیارام پیاری کی طرح بھٹکتی رہوں گی اور اپنے لخت جگر کو ڈھونڈتی رہوں گی۔ اس کے ڈھونڈنے میں پہلے تو بہت لوگوں نے ساتھ دیا، تسلی بھی دیتے تھے لیکن اب ہر کسی نے کنارہ کر لیا ہے۔ مجھے سمجھاتے کہ اب بیٹے کو ڈھونڈ نا ترک کرو اور اس کے ملنے کی آس میں اپنا وقت ضائع مت کرو۔ اگر ملنا ہوا تو مل جائے گا۔ چھوٹا بچہ نہیں ہے، بڑا ہے، سمجھدار ہے، جہاں بھی ہوا سے ملنا ہو تو رابطہ کر سکتا ہے اور اگر خُدا نا خواستہ اس جہان میں نہیں ہے ، کسی سانحے، کسی حادثے کا شکار ہوا ہے تب بھی تو اس کو ڈھونڈ نا بیکار ہی ہے۔ جو اس جہاں سے چلے جاتے ہیں وہ پھر کب مل پاتے ہیں۔ مجھے لوگوں کی ایسی باتیں بہت بُری لگتی ہیں، بہت ناگوار گزرتی ہیں۔ میری بیٹیاں بھی اب مایوس ہو چکی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ماں فرید کا خیال دل سے نکال دو، وہ اب کبھی نہیں آئے گا لیکن میرا دل نہیں مانتا، میری آس نہیں ٹوٹی ، اب تک بھی میں فرید کے مل جانے کی آس میں جی رہی ہوں حالانکہ اسے گم ہوئے چالیس برس گزر چکے ہیں لیکن اس بڑھیارام پیاری کی طرح میں بھی اپنے کرب سے یہی دُعا کرتی ہوں کہ اے اللہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک کہ میں فرید کو دیکھ نہ لوں۔ اب سوچتی ہوں کہ بچوں کے ملنے کی آس ایک ماں کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔ خبر نہیں کہ اس کے بچے اسے ملے کہ نہیں مل سکے لیکن مجھ کو آج بھی اس کے چہرے کی جھریوں میں چھپی ممتا کی آس کا عکس پہلے دن کی طرح یاد ہے محلے کے لڑکے اور فرید کے دوست کہا کرتے تھے کہ ماں غم نہ کر ، اگر فرید نہیں ہے ہم تو ہیں، اس کی جگہ ہم کو بیٹا بنالے ، مگر کسی کو بھی میں اس کی جگہ نہ دے سکی، کیونکہ وہ میری کو کھ سے پیدا ہوا، میں کسی اور کو اس کی جگہ نہیں سمجھ سکتی کہ ماں کی ممتا بڑی پراستقلال ہوتی ہے اس کو کوئی نہیں ہراسکتا، سوائے موت کے اور موت تو مجھے اپنے وقت پر ہی آئے گی

Latest Posts

Related POSTS