میں ایک معزز اور امیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ پرکھوں سے دولت گھر کی باندی رہی تھی۔ ایک عام آدمی اس دولت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ میرے دادا کے تہہ خانے میں رکھی تجوریاں ، سونے چاندی سے بھری ہوئی تھیں۔ ہمارے پائے کے کم ہی لوگ ، نواب شاہ کے زمیندار طبقے میں رہے ہوں گے۔ میں اس متمول خاندان کی چشم و چراغ تھی، یہ اللہ تعالی کی رضا کہ جہاں بے پناہ دولت سے نواز دیتا ہے ، وہاں اولاد کی نعمت نہیں ملتی۔
میرے والد صاحب نے دو شادیاں کیں، لیکن اولاد کی خوشی نصیب نہ ہوئی۔ جب کافی عرصہ گزر گیا اور وہ بڑھاپے کی حدوں کو چھونے لگے تو بابا جان کی دونوں بیویوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب بھی گھر میں کوئی اولاد نہ ہوئی تو جائیداد اور دولت کا کون وارث ٹھہرے گا۔ تب ہی دونوں سوکنوں نے اتفاق رائے سے ایک غریب خاندان کی لڑکی سے والد کی تیسری شادی کروادی۔ میری ماں نو عمر اور خوب صورت تھیں، جبکہ والد عمر رسیدہ۔ یہ پہلی غریب خاندان کی لڑکی، بابا جان کے خاندان میں بہو بن کر آئی جبکہ روایت کے مطابق زمیندار گھرانے کے رشتے ناتے، زمیندار یا پھر ہم پلہ دولت مند گھرانوں میں ہی ہوتے تھے۔ خاندان سے باہر شادی کرنا بھی عیب تصور ہوتا تھا۔ میں اسی غریب عورت کی کوکھ سے پیدا ہوئی جو بابا جان کی تیسری بیوی بنی تھی۔ میری پیدائش بھی خاندان والوں کے لیے خوشی لائی، کیونکہ والد صاحب کافی عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔ سب ہی مایوس تھے کہ اب اس عمر میں اولاد کیونکر ہو گی اور سب یہ خوشی دیکھ سکیں گے۔ تینوں مائوں نے میری پرورش نہایت محبت و پیار سے کی۔ یہیں سب ہی کی آنکھ کا تارا تھی۔ مجھ میں شہزادیوں کا ساغرور اور پریوں کا سا حسن تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے حکم سے سرتابی کرتا۔ جوں ہی میں نے ہوش سنبھالا، والدین کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ میں تب گیارہ برس کی تھی۔ تب اللہ تعالی کو ترس آگیا اور والدہ کی کو کوکھ دوبارہ ہری ہو گئی۔
اس بار خالق نے کرم کیا، خاندان بھر کی دیرینہ آرزو بر آئی اور بابا جان کو اولاد نرینہ کی خوشی عطا ہوئی۔ وہ تو اس آرزو میں جی رہے تھے۔ گائوں بھر میں خوشی منائی گئی۔ اب وہ وارث والے ہوئے تھے۔ ڈیڑھ سال بعد ایک اور بیٹا ہوا اور ان کی لعلوں کی جوڑی مکمل ہو گئی۔ میرے دونوں چھوٹے بھائی بھی میری طرح خوب صورت تھے ۔ ہماری حویلی کے اہل شہزادے تو اب آئے تھے۔ ناز و نعم سے ان کی پرورش ہونے لگی۔ بیٹوں کی پیدائش کے بعد لگتا تھا کہ والد صاحب پر جوانی لوٹ آئی ہو۔ وہ بہت ہشاش بشاش رہنے لگے اور خمیدہ کمر سیدھی ہو گئی۔ وہ سمجھتے تھے کہ بیٹے ہی بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں۔ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ وہ تو شادی ہو کر چلی جاتی ہیں، تو دھن دولت بھی ساتھ لے جاتی ہیں جبکہ بیٹے ان کی وارثت کی نہ صرف حفاظت کرتے ہیں بلکہ اس کو بڑھاتے بھی ہیں۔ وہ پھلتے پھولتے ہیں تو خاندان پھلتا پھلتا ہے۔ کسی کو اس نظریہ سے اتفاق ہو یا نہ ہو مگر پرانے دور کے دولت مندوں اور خاص طور پر زمیندار و جاگیر دار طبقوں کو اپنے یہ نظریات عزیز از جان ہوتے تھے۔ بے شک انسانوں کے اپنے خواب ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی جو خالق کا ئنات اور مالک دو جہان ہے ، اس کے اپنے ارادے اور اپنی منشا ہوتی ہے ۔ وہ چاہے تو انسان کے خواب پورے کر دے ، نہ چاہے تو یہ خواب مٹی میں مل جاتے ہیں اور خواب دیکھنے والے مٹی کے پتلے بھی بالآخر مٹی میں سما جاتے ہیں کہ ان کو تو مٹی میں ملنا ہی ہوتا ہے۔ جب میں سولہ برس کی ہوئی تو والد صاحب نے میری شادی کی ٹھانی۔ وہ اپنی زندگی میں ہی مجھے اپنے گھر کی کرنا چاہتے تھے۔ وہ خوب سمجھتے تھے کہ اگر دولت مند باپ کی آنکھیں بند ہو جائیں تو رشتہ دار حتی کہ خود بیٹے بھی، اپنی بہن کا کب بھلا سو چتے ہیں، سب پہلے اپنا ہی بھلا سوچیں گے۔ بد قسمتی سے خاندان میں دور و نزدیک میرے لائق کوئی لڑکانہ تھا۔ جو میری عمر کے تھے ، وہ شادی شدہ تھے ، یوں خاندان میں اب میری گنجائش نہ نکلتی تھی۔ والد صاحب کافی پریشان تھے ، جبکہ غیروں میں شادی کر دینے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ بہت سوچ و بچار کے بعد ایک رشتہ دار کا خیال آگیا، جس کی اپنی دولت کباب و شراب اور عیش و عشرت میں ختم ہو چکی تھی لیکن اس کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کی عمر آٹھ نو سال تھی، جبکہ میں اٹھارہ کی ہو چکی تھی۔ بابا جان نے سوچاو حید آٹھ سال کا ہے تو کیا ہوا، رشتہ اپنے خاندان میں ہو گیا تو گھر کی دولت گھر میں رہے گی۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ بیٹی کے لئے ایسا شوہر ہونا چاہیے جو اس کا ہم عمر ہو اور ان کی دولت کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی کو بھی سنبھال سکے۔
یہ پرانا دور تھا، ان دنوں لڑکیوں کو اتنا ہی پڑھایا جاتا تھا، جتنی تعلیم مقامی اسکول میں مل سکتی تھی۔ ہمارے گائوں میں لڑکیوں کا ایک ہی اسکول تھا جو مڈل تک تھا ، سو میں نے بھی وہاں سے آٹھ جماعتیں پاس کر لیں اور اس کے بعد گھر بٹھا دی گئی، تاہم مڈل پاس ہونے کے باوجود میں غیر معمولی فہم و فراست کی مالک تھی۔ اب جبکہ آٹھ سالہ بچے سے میری شادی ہو رہی تھی، اس شادی پر میں نہ کچھ بول سکتی تھی اور نہ بغاوت کر سکتی تھی، تاہم ذہن کسی صورت اس صورت حال کو قبول نہ کر رہا تھا۔ چپ چاپ دلہن بننا تھا اور نکاح کے وقت ایجاب و قبول کی خاطر سر کو بس ہلا دینا تھا۔ اس وقت دل رو رہا تھا۔ سوچ رہی تھی یا اللہ ! یہ ظلم ہے ؟ کیا شادی اس کو کہتے ہیں، لیکن یہاں ایک میں ہی نہیں تھی۔ مجھ سی کتنی ہی بے بس لڑکیاں، اسی طرح دلہن بنادی گئی تھیں۔ کسی نے آج تک اُف نہ کی تھی۔ اس وقت میرے دونوں بھائی چھوٹے تھے۔ ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کی وراثت بچانے کی خاطر مجھے ان کی عمر کے بچے کی دلہن بنایا جا رہا ہے۔ میری دو پھپھیاں بھی اسی طرح وراثت کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں کہ خاندان میں ان کے لائق رشتے نہ تھے۔ وہ کنواری بوڑھیاں تھیں، ان کی سنہری جوانی مٹی ہو گئی۔ مجھے بیاہ کر سسرال لے جانے کی بجائے ، میرے والد اس بچے کو بیٹی کے لیے بیاہ کر گھر لے آئے۔ شادی دھوم دھام سے ہوئی، جہیز کے چرچے سارے زمانے میں تھے۔ بچہ گھر داماد بنالیا گیا، یوں گھر کی رونق دوبالا ہو گئی۔ میرے سسر والد کے سگے چچازاد تھے۔ وہ بھی اس امر پر بہت خوش تھے۔ میری شادی شدہ زندگی کا آغاز اس طرح ہوا کہ پہلے میں جائیداد کے کاغذات کو سنبھالتی تھی اور اب ایک بچے کو بھی سنبھالنا پڑا، جس کی تعلیم و تربیت کا بوجھ میری والدہ کے سر آ رہا۔ کبھی کبھی یہ لاڈلا کسی شے کی ضد میں زمین پر لوٹنے لگتا اور چیزیں پھینکنے کا ہتھیار استعمال کرتا۔ میں بہلا پھیلا کر اسے شانت کرتی اور تیار کر کے اسکول بھیج دیتی۔ میری شادی کو بمشکل دو برس ہوئے تھے کہ ان ہی دنوں ایک بڑا سانحہ ہو گیا۔ میرے دونوں بھائی والد صاحب کے ساتھ شہر جارہے تھے۔ بابا جان چاہتے تھے کہ ان کے بچے مری کانونٹ میں تعلیم حاصل کریں۔ وہ ان کے داخلے کے لیے جارہے تھے کہ راستے میں سپر ہائی وے پر ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ خدا کی قدرت کہ بوڑھا باپ بچ گیا اور دونوں نو عمر بیٹے لقمہ اجل بن گئے۔ وہ چراغ بجھ گئے ، جن کو والد صاحب مستقبل کا سہارا اور اپنی زندگی کے لیے روشنی سمجھتے تھے۔
اللہ تعالی کی مصلحتوں کو کون سمجھ سکتا ہے۔ وہ بے نیاز ہے ، اس نے خوشی دکھائی اور پھر بے مراد بھی کر دیا۔ کس کی مجال تھی جو شکوہ کرتا۔ سب ہی والد کو تسلیاں دے رہے تھے کہ جس کا مال تھا، اس نے لے لیا۔ ہم کو اف کرنے کی مجال نہیں ، صبر کیجئے۔ غم کرتے رہنے سے تو گئے لعل واپس نہیں آسکتے۔ ایسا کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے مگر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ والد صاحب کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ بیٹوں کی موت کا دکھ بھول جاتے۔ یہ غم نہ تھا، ایک ایسا درد تھا جو قیامت سے کم نہ تھا۔ یہی غم روگ بن کر ان کی جان لے گیا۔ اب میں پھر سے خاندان کی واحد اور اکلوتی چشم و چراغ ہو گئی۔ جائیداد کے معاملات بھی مجھ ہی کو سنبھالنا تھے۔ شوہر صاحب ابھی اس قابل نہ تھے کہ یہ ذمہ داریاں دیکھتے۔ سارے معاملات میرے ذمے ڈال دیے گئے۔ قریبی رشتہ دار بھی ایسے حالات میں قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ قریبی ہوں یا دور کے سب ہی دولت پر ، دانت نکوستے اور الٹے مشورے دیتے کہ لڑکی ذات مجبور ہوتی ہے، جس کو سب ہی کمزور ہستی سمجھتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ میں برے رواجوں سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھی۔ میں نے اس الجھنوں بھری زندگی سے تنہاہی سمجھوتہ کر لیا۔ اس دوران میٹرک کا امتحان بھی دیا اور شرافت سے وقت گزارنے لگی۔ دیکھتے دیکھتے دن مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ اب میرا شوہر ایک مضبوط اور خوبرو جوان ہو چکا تھا اور میری جوانی مزید فراست کی منزلوں کو طے کر چکی تھی۔ شریک زندگی تو مجھ سے یوں دبتا تھا جیسے اولاد، والدین سے یا شاگرد ، استاد سے۔ عمروں کے ساتھ ساتھ ، ہمارے خیالات اور دلچسپیوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ہم صرف دنیا کے ڈر سے مجبور تھے ، ورنہ میں نہ اس کی بیوی رہنا چاہتی تھی اور نہ وہ میرا شوہر ، مگر شرعی بندھن سے ہم مجبور تھے۔
مجھے زندگی کی پہلی خوشی اس وقت نصیب ہوئی ، جب میں ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔ میں اس بچی کی محبت میں کھو گئی، شوہر نے میری توجہ بچی کی طرف دیکھی تو پر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ وحید اپنی ایک ہم عمر غریب لڑکی سے عشق کرنے لگا ہے اور اس سے چھپ کر ملتا ہے۔ خرچہ وغیرہ بھی اسے ٹھیک ٹھاک دیتا ہے، گویا اس نے نکاح کے بغیر ایک باندی باندھ رکھی تھی۔ وہ اب زیادہ تر وقت اس کے پاس ہوتا ہے۔ مجھے کچھ اعتراض نہ ہوا۔ میری جوانی آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف سفر کر رہی تھی، لہٰذا اس بات کی پروانہ کی۔ میرا وقت ، اپنی بچی اور زمین و جائیداد کے معاملات کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا اور شوہر کا اپنی معشوقہ کے پاس۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے فرار چاہتے تھے ، سو ایک دوسرے سے بے نیاز ہو کر اپنی اپنی راہوں پر رواں دواں تھے۔ زندگی اسی طرح روکھی پھیکی گزرتی رہی، یہاں تک کہ بیٹی سولہ سال کی ہو گئی۔ اب مجھے اس کی شادی کی فکر ہوئی اور مجھ پر وہی مشکل آ پڑی که خاندان میں اس کے جوڑ کا کوئی رشتہ موجود نہ تھا۔ دو تین رشتے یا تو عمر میں بڑے تھے یا لڑکے غلط سوسائٹی میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ اس طرح کا کوئی بر بطور داماد مجھے قبول نہ تھا۔ آخر ایک دن وہ بھی آگیا جب ہم کو اپنی بیٹی کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ خاندان کے سب بزرگ گھر کے بڑے کمرے میں جمع تھے۔ وہ ایڑی چوٹی کا زور لگار ہے تھے کہ رشتہ لڑکی کے والد کے خالہ زاد بھائی سے کیا جائے جو عمر میں اس سے بڑا تھا اور دو بیویوں کا شوہر تھا یا پھر اس کی سوتیلی والدہ کے بھائی کے لڑکے سے جو ابھی سات برس کا تھا۔ دوسرا کوئی رشتہ خاندان میں موجود نہ تھا۔ میں اس بات پر اڑ گئی کہ میری بیٹی کا رشتہ ہو گا تو موزوں ہو گا، چاہے غیروں میں کیوں نہ ہو۔ مجھے اپنی بیٹی کی خوشیاں عزیز تھیں، دولت کی تو کمی نہ تھی۔ آخر میں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں تعظیم کا رشتہ وہاں کروں گی، جہاں وہ راضی ہو گی۔ میں اس کی رضا مندی پوچھ کر ہی رشتہ کروں گی۔ اس بات پر تو ایک قیامت اٹھ کھڑی ہوئی۔ خاندان کے سب لوگ آگ بگولہ ہو گئے اور برادری نے ہمارے بائیکاٹ کا عندیہ دے دیا مگر مجھے کسی بات کی پروانہ تھی۔ میری تعظیم رورہی تھی۔ بھلا اس کے آنسوئوں کے سوا میرے لیے اور کون سی شے قیمتی ہو سکتی تھی۔
میرے بہت اصرار پر بالآخر اس نے بتادیا کہ وہ محب خان کو پسند کرتی ہے، جو ہمارے منیجر کا لڑکا تھا اور اس کا والد نازش خان مدت سے ہماری زمینوں کا انتظام سنبھالتا تھا۔ اس کا دادا میرے دادا کا وفادار تھا۔ باپ میرے والد کا بااعتماد ملازم تھا۔ اس خاندان کی وفاداری میں کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا، تاہم خاندانی روایات کے مطابق انہیں ہم لوگ اپنے برابر بھی نہیں بٹھا سکتے تھے ، بہر حال یہ ہمارے ملازم ہی تو تھے۔ میں نے محب خان کو دیکھا تھا۔ بہت خوب صورت لڑکا تھا، ہوشیار اور تمیز دار۔ وہ میرے ہی خرچے پر کالج میں پڑھتا تھا اور لائق طالب علم تھا۔ کبھی کبھار نازش خان اسے زمینوں سے متعلق حساب کتاب کے کھاتے دے کر میرے پاس بھجوادیا کرتا تھا۔ چونکہ یہ لوگ ہمارے یہاں پشتوں سے خدمت گار تھے ، لہٰذا ان سے پردہ نہیں کیا جاتا تھا۔ تعظیم نے مجھے بتایا کہ کالج میں ، وہ اور محب خان ہم جماعت ہیں۔ میں نے سارے خاندان کی مخالفت کے باوجود بیٹی کو شہر کے کالج میں اسی وجہ سے بھیجا تھا کہ اس کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی تھی اور اب ماحول بھی پہلے جیسے نہ رہا تھا کہ جب لڑکی پڑھنے کے لیے گائوں سے باہر نہ جاسکتی تھی۔ محب خان، تعظیم سے ڈیڑھ سال بڑا تھا۔ وہ بھی شہر کے اس کالج میں پڑھ رہا تھا، سو مجھ کو اطمینان تھا کہ میری بیٹی وہاں اکیلی نہیں جاتی ، گھر کے فرد جیسا ایک شخص اس کے ساتھ ہوتا ہے ، تب ہی یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ اپنے ہی منیجر کے لڑکے سے محبت کرنے لگی۔
پہلے تو میں پریشانی کے عالم میں گم صم رہی، بعد میں جب کافی غور کیا تو عقل نے کہا کہ اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے ؟ غریب اور امیر میں شادی آخر کیوں اتنا بڑا یا کوئی حیرت بھرا مسئلہ ہے۔ میری ماں بھی تو ایک غریب گھرانے سے ہی تھی۔ اگر بیٹی کسی غریب مگر اچھے لڑکے کو پسند کرتی ہے، تو اس کے ساتھ شادی پر مجھے اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اور اس بات پر اعتراض کہ وہ کیوں محب خان سے محبت کرتی ہے؟ یہ بھی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ محبت کرنا تو اس کی عمر کا تقاضہ تھا۔ یہ ضروری تو نہیں کہ محبت کسی دولت مند یا جاگیردار کے بیٹے سے ہی ہو ، کسی غریب یا متوسط طبقے کے لڑکے سے بھی محبت ہو سکتی ہے۔ محبت روایات کی اسیر تو نہیں ہوتی۔ یہ وہ منتقی دلائل تھے جو میرا ذہن مجھے دے رہا تھا۔ تب میں نے اس وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ میری بیٹی کی شادی محب خان سے ہی ہو گی۔ وہ اچھا لڑکا تھا، اچھا طالب علم تھا، دیانت دار باپ کا بیٹا، سلجھا ہوا اور خوب صورت ، ذات سے بھی کم نہ تھا۔
یہ خبر ایک بم کی طرح خاندان میں پھٹی ، پھر قدرتی طور پر میرے خلاف ایک محاذ تیار ہو گیا۔ قریبی اور دور کے رشتہ داروں نے میرے خاندان کے ان قدیمی خدمت گاروں کے خلاف بندوقیں اور پستول نکال لیے کہ جس روز ان کے خاندان کی لڑکی ایک ملازم کے گھر کی بہو بنے گی ، اسی روز محب خان کے ساتھ، تعظیم کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ مخالفت اتنی بڑھی کہ مجھ تنہا عورت کے لیے اس طوفان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں باقاعدہ رواج کے مطابق دھوم دھام سے بیٹی کو دلہن بنا کر رخصت نہیں کر سکتی۔ یقینا یہ لکیر کے فقیر لوگ جو کہہ رہے ہیں کر گزریں گے۔ وہ سب ہی بڑے زمین دار اور با اثر لوگ تھے۔ ان کا کسی ملازم کے لڑکے کو قتل یا غائب کرا دینا، کوئی دشوار امر نہ تھا۔ تب ہی ، بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایک ایسا قدم اٹھالیا، جس کا کوئی تصور نہ کر سکتا تھا۔ میں نے چپکے سے تعظیم کا پاسپورٹ محب خان کے ساتھ اس طرح بنوایا کہ ان کو اجازت دی، کہ وہ پہلے کورٹ میں نکاح پڑھوا لیں۔ ان کے ہمرا میں نے اپنی والدہ کے بھائی ، یعنی اپنے ماموں کو بھیجا۔ اس طرح یہ ممکن ہو سکا۔ کسی کے گمان میں نہ تھا کہ اس گھرانے کی کوئی ماں، بیٹی کو اس کے محبوب کے ساتھ فرار کرانے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔ یہ واقعہ بھی گائوں میں اپنی مثال آپ ہو گزرا۔ میں پہلے ہی ذاتی رسوخ سے ان کے لئے کافی رقم ایک بینک میں جمع کرواچکی تھی۔ اگلے روز یہ خبر سارے گانوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ رشتے سے میرے انکار پر بیٹی ، منیجر کے لڑکے محب خان کے ساتھ گھر سے چلی گئی ہے۔ ہماری وفادار ملازمہ نے یہ بات ہر طرف پھیلا دی کہ جب بڑی مالکن نے سختی سے تعظیم بی بی کو اس شادی سے منع کر دیا تو وہ بہت روئی اور صبح جب بڑی بی بی نے دیکھا وہ اپنے کمرے میں موجود نہ تھیں۔ میں لوگوں کے دکھاوے کو کئی دن تک روتی رہی، لیکن دل سے بیٹی کی خوشی اور اچھے نصیب کے لیے دعائیں بھی کرتی تھی، کیونکہ نصیب تو اللہ تعالیٰ نے بنانا ہے۔ میں نے تو اس کی خوشی کے لیے اپنی دانست میں ایک موزوں جیون ساتھی اسے دیا تھا۔ صد شکر کہ میرا فیصلہ برا ثابت نہ ہوا۔ تعظیم پہلے کراچی میری ایک سہیلی کے پاس رہی ، بعد میں جب دونوں کا ویزا لگ گیا تو وہ باہر چلے گئے، جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ازدواجی خوشگوار زندگی گزارنے لگے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری بچی جاہل ماحول میں ، بے جوڑ رشتے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی اور اپنے سے پیار کرنے والے شخص کی دلہن بن کر خوش اور آباد ہو گئی۔ اس کی قسمت اچھی تھی۔ میری دعائوں سے ، اسے کوئی غم نہ دیکھنا پڑا۔