گنی بڑے گنوں والی تھی ۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ دلیر بھی تھی ۔ گرچہ غریب کسان کی ان پڑھے بیٹی تھی لیکن اس کے خواب اونچے تھے کیونکہ خواب تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس کے خوابوں میں خواجہ بتا تھا۔ جس کی علاقے میں دس مربع زمین اسے بزرگوں کی وراثت میں ملی تھی۔ یہ بانکا سجیلا گیرو ایک بڑا زمیندار تھا جو معاشقے کرنے میں خاصی شہرت رکھتا تھا۔
گنی ، جب بھی چارہ کاٹے کھیتوں میں نکلتی، اس کا سامنا خواجہ سے ہو جاتا ۔ وہ شرما کر سمٹ جاتی۔ خواجہ کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، اس کے لئے وہ ایک عام سی دیہاتی لڑکی تھی و ی تھی جس کی طرف نظر بھر کر دیکھنے کی اسے فرصت نہ تھی۔ اس نے کبھی ہاتھ میں درانتی پکڑے چارہ کالتی گئی کی جانب دھیان نہ دیا۔ اس لئے اس کو اس لڑکی کی شکل بھی یاد نہ تھی۔ مگر خواجہ تو گنی کے خوابوں میں بس چکا تھا۔ وہ سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے بس اس کے ہی خواب دیکھا کرتی تھی۔ خواب دیکھنا اور بات ہے کسی کی محبت یا توجہ پالینا اور بات ہے۔ گئی خواجہ کی توجہ تو نہ پاسکی لیکن سولہ برس کی عمر میں اس کی شادی اپنے جیسے گھر میں ضرور ہوگئی اور وہ دلہن کے روپ میں ارمانوں کی دنیا دل میں بسائے نا چار اپنے نئے گھر چلی آئی۔ جب اس نے دولہا کو شادی کی پہلی رات دیکھا تو اس کے خوابوں کے محل چکنا چور ہو گئے اور وہ ذہنی طور پر سخت صدمے کا شکار ہوگئی۔ حضور بخش کسی طور اس کے خوابوں کا شہزادہ نہ تھا۔ وہ دھوپ سے جلا محنت کش، کھردرے نقوش کا عام سادیہاتی نوجوان تھا جس کا رویہ بھی اس کے کھردرے نقوش کی مانند کھردرا اور کرخت ہی تھا۔ اس کے ساتھ وہ ذہنی طور پر سخت نا آسودہ زندگی بسر کرنے لگی۔ اب اس کی ہر سانس اس کے لئے سولی جیسی تھی۔ اسے حضور بخش بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ پہلے وہ اپنے خوابوں اور اپنی سوچوں میں آزاد تھی ۔ مگر شادی کا پھندا لگتے ہی اس کی روح جیسے جس زدہ ہو کر اس کے بدن کے قفس میں تڑپنے لگی۔ اسے کسی پل چین نہ تھا۔
ایک رات اس کی اپنے شوہر سے لڑائی ہوگئی۔ اس کی نفاست پسند طبیعت حضور بخش کے پسینے سے ڈوبے وجود سے مکدر ہوگئی تھی۔ وہ اس کا قرب برداشت نہ کر سکی اور لڑ جھگڑ کر لگ جالیتی ۔ اسے دیر تک نیند نہ آئی وہ بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگی۔ آنسو چہرے کو بھگوتے رہے۔ حضور بخش کو تو نیند آگئی مگر اس کو نیند کیسے آتی ۔ لیٹے لیٹے اوب گئی تو اٹھ کر بیٹھ گئی۔ جانے پھر کیا جی میں سمائی۔ اس نے شوہر کا ٹریک کھول کر اس کا ڈھلا ہوا جوڑ انکال کر پہن لیا۔ سر پر پگڑی باندھ لی اور دبے قدموں گھر سے کھیتوں کے بیچ بنی پگڈنڈی کو چل دی۔ یہ سب اس نے بغیر کسی پیشگی منصوبے کے اور سوچے سمجھے بغیر کیا تھا۔ خواجہ کا گاؤں آٹھ میل کی دوری پر تھا۔ مگر جب دل میں عشق کا چراغ جلتا ہو تو محبوب کی نگری کوسوں دور ہونے کے باوجود آنکھوں کے سامنے معلوم ہوتی ہے۔ رات کے تین سہر وہ تن تنہا جنگل بیابان میں چلتی رہی۔ اس نے دریا کا نقل اور ریتیلا علاقہ پار کر لیا۔ یہ رات چودہویں کے چاند کی تھی۔ ہر طرف سفید چاندنی بکھری ہوئی تھی۔ وہ اس روشنی میں بے حرک چلتی رہی۔ اس کا منہ خواجہ کے ڈیرے کی طرف تھا۔ ندی نالے عبور کرتی بالآخر وہ اپنے خوابوں کے شہزادے کے ڈیرے پر پہنچ گئی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ خواجہ ڈیرے کے باہر کھلی فضا میں چار پائی ڈالے سورہا تھا تھوڑی دیر وہ اس کے چہرے کو تکتی رہی جو چودہویں کے چاند جیسا تھا۔ وہ خود بھی تو چودہویں کے چاند جیسی ہی تھی، مجھ میں بھی کچھ کمی نہیں ہے اس نے سوچا۔ اس گنوں والی کو اتنا اعتماد تو اپنے حسن پر تھا کہ وہ کسی مرد سے ٹھکرائی نہ جاسکتی تھی۔ گہری نیند میں ڈوبے خواجہ کو اس نے دھیرے سے پکارا۔ خواجہ سائیں خواجہ سائیں کوئی جواب نہ ملا تو اس نے ہولے سے اس کا باز و بلا یا وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ چاند کی اجلی چاندنی میں ایک حسین وجمیل پری جمال اس کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ آنکھیں ملنے لگا۔ کون ہو تم ؟ اور مجھے کیوں اٹھایا ہے؟ وہ اسے بالکل بھی پہچان نہیں پایا تھا۔ میں جو بھی ہوں خواجہ سائیں تمہارے عشق کی ماری ہوں ، بڑی دور سے پیدل چل کر آئی ہوں۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر تن تنہا جنگل بیابان عبور کیا ہے۔ راستے میں جنگلی جانور گیدڑ ، کتے ، بھیڑئیے اور سور بھی تھے مگر میں کسی سے نہیں ڈری، میرے دل میں تیری لگن تھی سائیں انہوں نے مجھے کچھ نہ کہا کیونکہ میں راہ شوق کی مسافر تھی ۔ اب بتا تو مجھ سے کیا سلوک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ خواجہ اس کی باتیں سن کر حیران رہ گیا تھا۔ اس نے کبھی خواب میں نہیں سوچا تھا کہ کوئی لڑکی اس کے عشق میں یوں بھی دیوانی ہو سکتی ہے۔ حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے اس نے کہا۔ اسے کملی تو نے کمال کر دیا۔ تو کتنی دلیر ہے کہ اس طرح عشق کی لگن میں میرے پیچھے آگئی ہے۔ مگر میں اس وقت مجبور ہوں ۔ اچھا ہے کہ تو واپس لوٹ جا۔ تو شادی شدہ ہے۔ وہ بولی اب واپس نہیں جاؤں گی۔ یا تو مجھے پناہ دویا اپنے ہاتھوں سے دریا برد کر دو۔ واپس گئی تو حضورن مجھے ٹو کے سے ٹوٹے ٹوٹے کر دے گا۔ گنی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اوہ یہ تو نے کیا کیا ہے؟ خواجہ نے کچھ سوچ کر اپنا درخت سے بندھا گھوڑا کھولا۔ اور گنی کو اس پر سوار کرایا۔ وہ اسے ساتھ لے کر اپنے ایک دوست زمیندار کالے خان کی طرف روانہ ہو گیا۔ جس کا پینا اس کی زمین کے پینے سے ملتا تھا۔ گنی کو کالے خان کے حوالے کر کے خواجہ بولا ۔ دوست یہ میری امانت ہے۔ اس کی حفاظت تیرے سپرد ہے، یہ حضورن ماچھی کی بیوی ہے اور بھاگ کر آگئی ہے، میں اس سے معاملات طے کر آؤں تو آکر لے جاؤں گا۔ کالے خان بلوچ سردار تھا اور اس پر خواجہ کو مکمل بھروسہ تھا کہ وہ اپنی روایات کے مطابق امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہو سکتا تھا۔ خواجہ وہاں سے حضور بخش کے پاس پہنچا تو صبح ہو چکی تھی اور وہ بہت پریشان تھا کیونکہ اس کی بیوی غائب تھی۔ یہاں بھی خواجہ کا ڈیرہ تھا۔ وہ سیدھا اپنے ڈیرے پر اتر گھوڑے کو اپنے بیلی کے حوالے کیا اور حضور بخش کو بلانے کا عندیہ دیا۔
ذراسی دیر میں یہ مصیبت زدہ کسان حاضر تھا۔ وہ رورہا تھا کہ اس کی بیوی کا کچھ پتہ نہ تھا۔ خواجہ نے کہا حضورن رو مت جو بے وفا ہو اس کے لئے نیر بہانا گویا اپنے قیمتی آنسوؤں کو ریت پر گرانے کے مترادف ہے۔ وہ بھاگ کر میری امان میں آگئی ہے اور تجھ سے گلو خلاصی چاہتی ہے۔ میری رائے ہے کہ تو اسے چھوڑ دے کیونکہ جو عورت ٹھکرا کر چلی جائے وہ عمر بھر ساتھ نہیں نباہتی۔ وہ ساتھ رکھنے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ اگر تو چاہے تو بدلے میں تجھ کو میں چھ ایکڑ زمین دے سکتا ہوں ۔ ایک بے وفا ہر جائی عورت کے بدلے کیا یہ سودا تجھ کو منظور ہے؟ منظور ہے سائیں . حضور بخش کے آنسو تھم گئے۔ بھلا وہ اس سودے کو رد کرنے کی جرات بھی کر سکتا تھا؟ اس کی اوقات ہی کیا تھی .. ویسے بھی اسے اس عورت کے مارنے سے کیا حاصل ہوتا ۔ پھانسی کا پھندا ؟ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ چھ ایکڑ زمین کا مالک بن جائے ۔ ایک معمولی کسان کے لئے جس کی ایک انچ زمین اپنی ملکیت نہ ہو چھ ایکڑ ہفت اقلیم کے برابر تھے۔ حسب توقع بڑی آسانی اور خوشی کے ساتھ حضور بخش سے سودا ہو گیا ۔ اب طلاق نامے پر انگوٹھا لگوانا باقی تھا۔ یہ کام کرانے کے بعد سہ پہر کو خواجہ دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر غازی گھاٹ کی سمت روانہ ہو گیا جہاں اس کا اصل ڈیرا تھا۔ کیونکہ اس کی زمین تو دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پھیلی ہوئی تھی۔ کالے خان نے گنی کو اپنی بیوی کے پاس پہنچا دیا تھا اور کہا کہ یہ میرے دوست کی امانت ہے اس کا خیال رکھنا۔ وہ آج کل میں آکر اسے لے جائے گا، اسے کوئی گزند نہیں پہنچی چاہئے۔ کالے خان کی بیوی کافی تیز عورت تھی ۔ وہ اس چاند چہرے کو دیکھتے ہی بھانپ گئی کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے حال پوچھا تو گنی نے ساری رام کہانی کہہ دی۔ کالے خان کی بیوی نے سوچا یہ عجیب سر پھری عورت ہے۔ آدھی رات کو میلوں کا سفر طے کرنے کو گھر سے نکل پڑی اور خواجہ کے پیچھے خود ہی بھاگ کر آگئی جبکہ خواجہ کو اس سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔ آخر تو عورت ہی تھی، اس کے دل میں شک ابھرا کہیں یہ اس کے شوہر کا اپنا شکار نہ ہو۔ دوست کی آڑ میں خود عشق و محبت کا کھیل کھیل رہا ہو؟ یہ خیال آتے ہی روایتی جلن سے اس کا وجود سلگ اٹھا۔ وہ شوہر کے سامنے دم نہ مار سکتی تھی۔ نہ جانے یہ کتنی مدت کے لئے آئی ہے؟ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اس کا بھائی اسد خان اور الائی سے آگیا۔ اس نے جو ایسی حسین حور شمائل کو دیکھا تو اس کا دیوانہ ہو گیا۔ اس نے بہن کو مجبور کیا کہ کسی طرح اسے میرے ساتھ کر دے۔ وہ تو پہلے ہی اس بلا سے چھٹکارا چاہ رہی تھی۔ اس نے گنی سے کہا کہ خواجہ نے تجھے بلایا ہے۔ آج رات کو تم کو جانا ہے۔ گنی کو اس نے رات کو اپنی ملازمہ کے ساتھ قریبی کھیتوں میں بھیج دیا۔ مگر وہاں خواجہ نہیں تھا۔ دوسرے دو لوگوں نے اسے پکڑ کر گھوڑے پر سوار کرالیا اور ساتھ لے گئے ۔ ان میں ایک اسد خان تھا اور دوسرا اس کا ملازم تھا۔ گنی دھوکے میں لٹ گئی۔ وہ اب اسد خان کے قبضے میں تھی۔ گھر سے نکل چکی تھی سو واپس لوٹ جاتا اس کے بس میں نہ تھا۔ اور یہاں سے بھاگ جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ صبح کالے خان کو جب پتہ چلا کہ رات کو اس کی بیوی نے گئی کو کہیں غائب کر دیا ہے تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ ملازمہ سے پوچھ گچھ کی تو اس نے خان سے خوفزدہ ہو کر بتادیا کہ اس کی بیوی نے گئی کو خود اسد خان کے حوالے کیا ہے۔
یہ سنتے ہی کالے خان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے گرج کر کہا۔ بد بخت عورت یہ تو نے کیا کیا۔ مجھ کو میرے دوست کے آگے شرمندہ کرا دیا۔ وہ اس کی امانت تھی۔ میری سپردگی میں کسی اعتبار کی وجہ سے دے کر گیا تھا۔ اب اسے کیا جواب دوں گا ؟ تو نے میرا بھروسہ توڑا ہے لہذا اب تو میرے قابل نہیں رہی ہے۔ میں تجھے طلاق تو نہ دوں گا مگر آج کے بعد تو کبھی میری صورت نہ دیکھ سکے گی اور نہ میں تیری شکل دیکھنے کا روادار رہوں گا۔ اس کے بعد نہیں معلوم خان نے اپنی عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس دن کے بعد وہ کبھی کسی کو نظر نہیں آئی اور نہ کوئی یہ جان سکا کہ کدھر گئی ہے۔ ملازمین بس اسی قدر قیاس آرائیاں کرتے تھے کہ شاید اس کو خان نے دریا برد کر دیا ہے یا پھر اس کے بھائیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ خدا جانے کیونکہ اونچے قلعوں کی دیواروں کے اندر جو واقعات اور کہانیاں جنم لیتی ہیں وہ راز ہوتی ہیں اور یہ راز پتھریلی دیواروں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہوتے۔ ملازمہ خدشات رکھتی تھی کہ خان نے بیوی کو حکم عدولی پر زہر دے کر اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ اسد خان نے گنی سے شادی کر لی یا کچھ عرصہ رکھ کر فروخت کر دیا یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا، کیونکہ کالے خان کی ناراضگی کے سبب پھر کبھی وہ اپنے اس بہنوئی کے علاقے کی جانب آنے کی جرات نہ کر سکا اور نہ کسی نے بھی اسد خان کو اس طرف آتے دیکھا۔ اس لئے گنی کا قصہ بھی پردہ راز میں ہی دفن ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد علاقے کے لوگ گنی کے قصے کو بھول بھال گئے ۔ وہ ایک معمولی کسان کی بیٹی اور غریب شخص کی بیوی رہی تھی۔ وہ کسی کے لئے اتنی زیادہ اہم بھی نہ تھی۔ خواجہ کو افسوس ضرور تھا مگر اسے گنی سے محبت نہ تھی اس لئے اسے بھی کچھ دن ہی ملال رہا ہوگا۔ اس قسم کی کہانیوں کا عموماً یہی انجام ہوتا ہے!