Thursday, March 28, 2024

Ounche Khuwab | Complete Story

کمپنی کے مالک مختار احمد نے جب سے نادیہ کو اپنی سیکرٹری کی نوکری دی تھی، پورے آفس میں خوشگوار تبدیلی آگئی تھی۔ آفس کے تمام لڑکے اب پہلے سے بھی کچھ زیادہ بن سنور کر آنے لگے تھے اور ہر لڑکے کی کوشش تھی کہ وہ نادیہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نادیہ کو قدرت نے حسن سے مالا مال کیا ہوا تھا لیکن نادیہ کی توجہ محض اپنے کام اور اپنے باس کے احکامات پر ہوتی تھی۔ وہ کسی پر کوئی توجہ نہیں دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لڑکے جو نادیہ کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے، ان کی کوشش رفتہ رفتہ دم توڑنے لگی لیکن ایک جمال تھا جو بڑی خاموشی اور چور نظروں سے اس کوشش میں اب بھی تھا۔
جمال اس آفس میں پانچ سال سے منیجر کی نوکری کررہا تھا۔ وہ اپنے کام میں بہت ہوشیار اور چالاک تھا۔ اس کا باس مختار احمد اس کے کام سے خوش بھی تھا اور اپنے بہت سے معاملات میں اسی پر اعتماد کرتا تھا۔ جمال کے ساتھ مختار احمد وہ باتیں بھی کرلیتا تھا جو بہت اہم اور راز کی ہوتی تھیں۔ مختار احمد کے اعتماد کو جمال نے کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی تھی۔
جمال خوش شکل اور گفتگو کا فن جانتا تھا۔ اس کے علم میں یہ بات تھی کہ کب کون سی بات کرنی چاہئے۔ اسی لئے وہ نادیہ کو احساس دلائے بغیر دل ہی دل میں اسے پسند کئے ہوئے تھا۔ کام کے دوران دن بھر دونوں کئی باتیں کرتے تھے لیکن وہ سب باتیں کام کے متعلق ہی ہوتی تھیں، جمال نے کبھی بھی نادیہ سے کوئی فضول بات نہیں کی تھی۔ اس لئے نادیہ اس بات سے تو متاثر تھی کہ جمال دوسروں کی طرح نہیں ہے۔
نادیہ چور نگاہوں سے جمال کو دیکھتی تھی۔ جمال بھی بے خبر نہیں تھا، وہ بھی غیرمحسوس طریقے سے یہ دیکھ لیتا تھا کہ نادیہ اسے دیکھ رہی ہے۔ اسی دیکھا دیکھی میں جب ایک دن نادیہ ٹکٹکی باندھے جمال کو دیکھ رہی تھی تو اچانک جمال نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے، آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھ لیا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘
نادیہ سے جمال نے جیسے ہی اشاروں میں یہ سوال کیا وہ گھبرا سی گئی اور اس نے آنکھیں دائیں بائیں گھما کر ایک فائل اٹھالی اور اسے الٹا کھول لیا۔ پھر اس پر سر ایسے جھکا لیا جیسے وہ بڑے انہماک سے کام کررہی ہو۔ نادیہ کو یہ پتہ بھی نہیں چلا کہ جمال اس کے پاس پہنچ چکا ہے اور اس نے جھک کر پہلے تو فائل سیدھی کی اور پھر بولا۔ ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کا دھیان کسی اور طرف ہے۔ لیکن یہ دھیان جس طرف بھی ہے، کم از کم مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
نادیہ اس کی بات سن کر مسکرا دی اور یہ وہ پہلی بات تھی جو دونوں کے درمیان کام سے ہٹ کر ہوئی تھی۔ جمال نے اپنی کرسی کی طرف جانے سے قبل کہا۔ ’’آفس ٹائم کے بعد اگر آپ ایک کپ میرے ساتھ چائے کا پی لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو بھی اچھا لگے گا۔‘‘
نادیہ کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’میں چائے نہیں پیتی لیکن آپ کے کہنے پر پی لوں گی۔‘‘
آفس ٹائم ختم ہوا تو دونوں قریبی ریسٹورنٹ میں چلے گئے اور دونوں نے ایک ساتھ چائے پیتے ہوئے اپنے بارے میں باتیں کرنا بھی شروع کردیں۔ نادیہ نے بتایا کہ وہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا باپ سرکاری کلرک تھا لیکن ایک حادثے میں انتقال کے بعد ان کے مالی حالات اور بھی کمزور ہوگئے تھے۔ اس کے بھائی مختلف جگہوں پر کام کرتے ہیں اور وہ گھر کی اکلوتی لڑکی ہے، اسے بھی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ گھر کا نظام ایسا ہے کہ سبھی اپنی مرضی کے مالک ہیں اور ایک دوسرے سے لاتعلق سے رہتے ہیں۔
جمال نے بتایا کہ وہ اکیلا ہی رہتا ہے۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھائیوں نے جائیداد تقسیم کی اور اپنی اپنی دنیا بسالی۔
اس تعارف کے بعد دونوں کے درمیان باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آفس میں کام کے دوران وہ کام کے علاوہ کوئی نہ کوئی بات ایک دوسرے سے کہہ دیتے تھے۔ دن اور رات میں وہ کئی بار فون پر بھی بات کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان پیار کا رشتہ مضبوط ہوتا جارہا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے۔
ایک شام جمال نے نادیہ کو ایک اچھے ہوٹل میں بلالیا۔ اس دن نادیہ کی سالگرہ تھی۔ میز پر سالگرہ کا کیک سجا ہوا تھا۔ نادیہ وہ سب دیکھ کر متحیر رہ گئی تھی۔ اس نے باتوں باتوں میں ایک دن اپنی سالگرہ کی تاریخ بتائی تھی اور اس کی سالگرہ کا دن آتے ہی جمال نے اہتمام بھی کردیا تھا۔ نادیہ نے کیک کاٹا اور دونوں نے ایک دوسرے کو کیک کھلایا اور پھر جمال نے کہا۔ ’’میں تمہارے لئے سالگرہ کا تحفہ بھی لے کر آیا ہوں۔‘‘
نادیہ مسکرائی۔ ’’تم نے میری سالگرہ کا دن یاد رکھا مجھے بہت خوشی ہوئی۔‘‘
’’آج میں تم سے بھی زیادہ خوش ہوں۔‘‘ جمال اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے۔‘‘
’’میں تمہارے لئے ایک خاص تحفہ لے کر آیا ہوں۔‘‘ جمال نے کہا۔
’’میرے لئے تم ہی خاص ہو۔‘‘ نادیہ بولی۔
’’چلو کہیں اور چلتے ہیں۔‘‘ اچانک جمال اپنی جگہ سے اٹھا۔
نادیہ نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا، وہ شہر کے سب سے بڑے ہوٹل کا ڈائننگ ہال تھا۔ وہ بولی۔ ’’کیا اس سے بھی اچھی کوئی جگہ ہوسکتی ہے؟‘‘
’’ہاں… کھلی فضا۔ زمین اور اوپر آسمان… وہ جگہ اس سے بھی اچھی اور خوبصورت ہے۔‘‘ جمال نے کہا۔
نادیہ کو اس کی بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ جمال نے بل ادا کیا اور نادیہ کو لے کر ہوٹل سے باہر چلا گیا۔ جمال کے پاس پرانے ماڈل کی کار تھی جس پر جگہ جگہ ڈینٹ بھی پڑے تھے اور کہیں کہیں سے رنگ بھی اترا ہوا تھا۔ لیکن اس کار کا انجن زبردست تھا۔
جمال نے پہلے نادیہ کو کار میں بیٹھایا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر کار اس جگہ سے لے گیا۔ اس کی کار ایک ایسی سڑک پر رک گئی جس کے دائیں بائیں خالی پلاٹ تھے اور پلاٹوں کے درمیان سڑکوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ وہ نئی کالونی تھی۔ اور اس جگہ ابھی کوئی گھر نہیں بنا تھا۔ جمال اور نادیہ باہر نکلے تو دور تک دیکھتے ہوئے نادیہ نے کہا۔ ’’یہ تم کہاں لے آئے ہو؟‘‘
’’یہاں تم ہو اور میں ہوں۔ اوپر آسمان اور چمکتا ہوا چاند ہے۔ نیچے یہ زمین ہے۔‘‘ جمال بولا۔
’’مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
’’میرے ہوتے ہوئے یوں ڈر لگ رہا ہے؟ میری موجودگی میں تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’اس ویرانے میں مجھے عجیب لگ رہا ہے۔‘‘ نادیہ کو واقعی اس جگہ خوف سا آرہا تھا اور وہ بار بار دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔ اگر آسمان پر پورا چاند نہ چمک رہا ہوتا تو شاید اس جگہ ایسا اندھیرا ہوتا کہ نادیہ کار سے بھی باہر نہ نکلتی۔
’’ایک منٹ کے لئے اپنی آنکھیں بند کرو۔‘‘ جمال اس کے سامنے کھڑا تھا اور نادیہ نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ جمال نے اپنی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی۔ اس کے اندر ایک چمکتی ہوئی انگوٹھی تھی۔ اس نے انگوٹھی نکال کر، نادیہ کا ہاتھ پکڑا اور اس کی انگلی میں ڈال دی۔
’’آنکھیں کھول دو۔‘‘ جمال نے جونہی کہا، نادیہ نے آنکھیں کھولتے ہی اپنی انگلی کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ خوشگوار حیرت سے کھل گیا۔
’’اتنی خوبصورت انگوٹھی؟‘‘
’’یہ تمہارے لئے ہے۔ جانتی ہو کہ میں تمہیں اس جگہ کیوں لے کر آیا ہوں؟ تاکہ اس ویران جگہ پر ہم دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہ ہو۔ تم نے کہا تھا کہ تم اپنی زندگی کا کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہو۔ میں نے اپنے پیار کا تحفہ تمہاری انگلی میں پہنا دیا۔ اب اسے اتار کر اس ویران جگہ پر پھینک دو، یا پھر میرے ساتھ عہد کرو کہ تم ساری زندگی میری بن کر رہو گی۔‘‘ جمال کی بات سن کر نادیہ پیار سے مسکرائی اور اس نے انگوٹھی پر اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ نادیہ ساری زندگی تمہاری بن کر رہے گی اور دونوں کے درمیان کسی کو نہیں آنے دے گی۔‘‘
جمال خوش ہوگیا۔ ’’آج میری زندگی کا سب سے حسین دن ہے۔‘‘
’’اب رات ہوچکی ہے۔ کہو کہ یہ میری زندگی کی حسین رات ہے۔‘‘ نادیہ نے کہہ کر ہنسی بکھیری۔ ’’اور اب چلو یہاں سے۔‘‘
جمال اپنی کار کی طرف گیا اور اس نے کار کا دروازہ کھول کر اشارہ کیا کہ وہ کار میں بیٹھ جائے۔ نادیہ مسکراتی ہوئی کار میں بیٹھ گئی۔ جمال نے کار کا دروازہ بند کیا اور خود بھی کار میں بیٹھ کر گنگناتا ہوا کار اس جگہ سے لے گیا۔
٭…٭…٭
جمال اور نادیہ کا باس مختار احمد کئی دنوں سے پریشان بھی تھا اور ایک بات پر بڑی سنجیدگی سے غور بھی کررہا تھا۔ وہ فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار تھا۔ وہ کبھی اپنے معاملات دیکھتا اور کبھی اس بات پر غور کرنے بیٹھ جاتا تھا۔ مختار احمد کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ دل اور شوگر کا مریض تھا۔ اس نے ساری زندگی پیسہ کمانے میں صرف کردی تھی۔ اس نے بہت سی جائیداد بنائی تھی۔ یہ اس کی کمپنی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ اب وہ اس دنیا میں اکیلا ہی تھا۔ وہ ایک بڑے بنگلے میں اپنے نوکروں کی فوج کے ساتھ رہائش پذیر تھا، چند ہفتے قبل اس نے اپنے نوکروں کی چھٹی کرا دی تھی۔ صرف ایک خانساماں اور اس کی بیوی کو رہنے دیا تھا۔ وہ اس بنگلے سے ایک لگژری فلیٹ میں منتقل ہوگیا تھا۔
بہت بڑے بنگلے سے اس فلیٹ میں منتقل ہونا مختار احمد کے لئے تکلیف دہ تھا لیکن وہ تنہائی سے تنگ آچکا تھا۔ ڈاکٹر اسے بائی پاس آپریشن کا مشورہ دے چکے تھے اور زندگی کی اس رنگینی کو پانے کی خواہش نے دل میں انگڑائی لے لی تھی جو پیسہ کمانے کی چاہ میں دب گئی تھی۔ مختار احمد شادی کرنا چاہتا تھا۔ اسے یہ خیال بھی آیا تھا کہ وہ زندگی کا شاید آخری حصہ گزار رہا ہے۔ وہ دن بھر میں اتنی خوراک نہیں کھاتا جتنی دوائیاں اپنے حلق سے نیچے اتارتا ہے، ان باتوں کے باوجود وہ زندگی کو خدا حافظ کہنے سے قبل زندگی کے اس حصے سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔
مختار احمد نے فیصلہ کرلیا کہ وہ شادی کرے گا۔ کوئی بھی لڑکی اس سے شادی کرنے کو اس لئے تیار ہوجائے گی کیونکہ وہ دولت مند ہے اور اس کی ایک ساکھ ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں تھا۔ مختار احمد کی دولت سے متاثر ہوکر کئی خواتین نے اسے شادی کی پیشکش کی تھی۔ اتنی دولت اور پھر اس کا وارث بھی تنہا… کون لالچی عورت نہیں چاہے گی کہ اس کی شادی بوڑھے دولت مند مختار احمد سے ہوجائے؟ مگر مختار احمد کی نظر نادیہ پر تھی، وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ نادیہ کے حسن کو
دیکھ کر ہی مختار احمد کے دل میں شادی کی امنگ ابھری تھی۔ اس لئے مختار احمد نے نادیہ کو اپنے آفس میں بلایا اور کچھ کام کی باتوں کے بعد اس کی ذاتی زندگی کے متعلق سوالات کرنے شروع کردئیے۔ نادیہ بھی اپنے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتانے لگی۔ پھر مختار احمد نے اپنے بارے میں بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کی یہ کمپنی بہت بڑی ہے، تین بنگلے ہیں، ایک لگژری فلیٹ ہے، بینک بیلنس ہے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ تنہا زندگی گزار رہا ہے۔
نادیہ کو یہ سب سن کر مختار احمد سے ہمدردی سی ہونے لگی۔ مختار احمد کے چہرے پر اداسی بھی چھا گئی تھی۔ اور پھر مختار احمد نے وہ بات کہہ کر نادیہ کو دم بخود کردیا۔ مختار احمد نے وہ سب کہنے کے بعد اچانک کہا۔
’’کیا تم میرے ساتھ شادی کروگی؟‘‘
ایک ایسی بات جس کے بارے میں نادیہ کے ذہن میں کوئی خیال بھی نہیں تھا۔ وہ سب باتیں سنتے ہوئے اس کو یہ گماں نہیں ہوا کہ یہ تمہید کیوں باندھی جارہی ہے۔ اب اچانک جو اس نے یہ سنا تو وہ حیرت سے دم بخود اپنے باس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’تم کیا سوچ رہی ہو نادیہ؟‘‘ مختار احمد نے اسے خاموش دیکھا تو سوال کیا۔ نادیہ چونکی۔ ’’جی… کچھ نہیں سر…‘‘
’’تو پھر تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’کس بارے میں سر؟‘‘ نادیہ کو اس حیرت میں یہ بھول ہی گیا تھا کہ ابھی اس کے باس نے اس سے کیا کہا تھا۔
’’تم مجھ سے شادی کروگی؟‘‘ مختار احمد نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
نادیہ کی آنکھوں کے سامنے مختار احمد کی اتنی بڑی کمپنی، اس کے تین بنگلے، ایک لگژری فلیٹ اور گاڑیاں گھوم گئیں، لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھوں کے سامنے جمال کا مسکراتا ہوا چہرہ آگیا جس نے اس کی انگلی میں انگوٹھی ڈالنے کے بعد کہا تھا کہ اب ہمارے درمیان کوئی نہیں آئے گا۔
ایک بار پھر نادیہ کے آگے مختار احمد کی پرآسائش دنیا آگئی اور اس دنیا میں جمال محض ایک تنخواہ دار ملازم تھا۔
’’سر میں کچھ سوچنا چاہتی ہوں۔‘‘ نادیہ نے کہا۔
’’سوچتے تو وہ ہیں جن کے آگے پیچھے کوئی ہوتا ہے۔ جن کا کوئی نہیں ہوتا، وہ فوری فیصلہ کرتے ہیں۔ ابھی تم نے بتایا تھا کہ تمہاری فیملی ہونے کے باوجود بھی تم اکیلی ہو۔‘‘ مختار احمد کے چہرے پر متانت تھی۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں سر، پھر بھی میں سوچنا چاہتی ہوں۔‘‘ نادیہ کی سمجھ میں فی الحال کچھ نہیں آرہا تھا اس لئے وہ کمرے سے جانا چاہتی تھی۔
’’کب بتائو گی؟‘‘
’’کل۔‘‘
’’کل کس نے دیکھی ہے؟ تم سوچنے کیلئے ایک دو گھنٹے لے لو۔ ہم آج ہی نئی زندگی کا آغاز کردیں گے۔‘‘ مختار احمد بولا۔
نادیہ ہچکچائی۔ ’’جی سر۔‘‘
’’اب تم جاسکتی ہو۔‘‘ مختار احمد کی نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ نادیہ اٹھ کر جانے لگی تو مختار احمد نے پھر کہا۔ ’’کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لینا مس نادیہ کہ میرا کوئی نہیں ہے، اور یہ بنگلے، کمپنی، بینک بیلنس سب کچھ تمہارا ہے۔‘‘
مختار احمد کیونکہ اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا اور اس کے حسن کا اسیر تھا۔ اس لئے جانے سے قبل اس نے ایک بار پھر نادیہ کو لالچ دیا۔
ایک لمحے کے لئے نادیہ نے سوچا کہ وہ ابھی اقرار کرلے لیکن اس نے کچھ کہنے کے بجائے باہر جانے کو ترجیح دی اور تیزی سے اپنی کرسی کی طرف چلی گئی، جبکہ جمال دیکھ رہا تھا کہ نادیہ نے باس کے کمرے میں دیر بھی لگائی ہے اور جب وہ باہر نکلی ہے تو اس کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ بھی تھی۔
نادیہ اپنی میز پر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے پانی کے دو گھونٹ پیئے اور پھر کچھ سوچنے کے بعد اپنا موبائل فون اٹھایا اور اختصار سے مختار احمد کی شادی کی پیشکش کے بارے میں لکھ کر جمال کو میسج بھیج دیا۔
جمال نے پڑھا تو وہ چونکا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کچھ دیر کے لئے تو وہ کام کرنا بھول گیا۔ پھر اس نے وقت دیکھا لنچ بریک میں آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا۔ اس وقت آفس میں دو دماغ بڑی تیزی سے سوچنے میں مصروف تھے۔ ایک نادیہ کا دماغ جو یہ فیصلہ کررہی تھی کہ وہ ملازمت پیشہ جمال کو چھوڑ کر کروڑ پتی بوڑھے سے شادی کرلے، جبکہ دوسرا دماغ جمال کا تھا جو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
٭…٭…٭
لنچ بریک کے وقت جمال نے لنچ کرنے کی بجائے نادیہ کو میسج کیا کہ وہ نیچے آجائے۔ وہ خود نیچے چلا گیا اور نادیہ بھی کچھ دیر کے بعد اس کے پاس پہنچ گئی۔ اس عمارت کے نیچے ایک طرف لابی تھی۔ جمال ایک طرف بیٹھا ہوا تھا۔ ان کا باس مختار احمد آدھا گھنٹہ پہلے لنچ کے لئے جاچکا تھا۔ نادیہ، جمال کے پاس بیٹھ گئی۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ باس نے یہ بات تم سے کہی ہے؟‘‘ جمال نے بغیر وقت ضائع کئے پوچھا۔
’’میں تم سے جھوٹ کیوں بولوں گی؟‘‘
’’اتنی بڑی پیشکش ہوئی اور تم نے مجھے بتادیا۔ تم چپ چاپ باس سے شادی کرسکتی تھیں اور بیٹھے بیٹھائے کروڑوں کی مالکن بن سکتی تھیں۔‘‘ جمال بولا۔
’’میں تمہیں دھوکا نہیں دے سکتی تھی۔‘‘ نادیہ نے کہا۔
’’مجھے تمہاری یہ ایمانداری اچھی لگی نادیہ۔ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ اسی جگہ بیٹھے بیٹھائے فیصلہ کرلیتا۔ ویسے تم نے اب کیا سوچا ہے؟‘‘
’’سچ بات تو یہ ہے کہ میں فیصلہ ہی نہیں کرپائی۔‘‘
’’کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے کہ تم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آئو؟ تم صاف انکار کرسکتی ہو۔ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ ہم جلد شادی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ جمال نے کہا۔
’’ٹھیک ہے میں انکار کردیتی ہوں۔‘‘ نادیہ سوچوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی مگر اس نے کہہ دیا۔
’’لیکن تم نے یہ سوچا ہے کہ اگر تم انکار کروگی اور کل کو ہم شادی کرلیں گے تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟‘‘ جمال اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
’’کیا نتیجہ ہوگا؟‘‘ نادیہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
’’باس جب یہ دیکھے گا کہ ہم دونوں نے شادی کرلی ہے تو وہ اسے اپنی بے عزتی خیال کرے گا کہ تم نے ایک کروڑ پتی شخص کو چھوڑ کر اس کے ملازم کو اہمیت دی۔ وہ غصے سے ہم دونوں کو نوکری سے نکال دے گا۔ اور ہم بے روزگار ہوجائیں گے۔‘‘ جمال بولا۔
’’تو پھر کیا کریں؟‘‘ یہ بات کہتے ہوئے نادیہ سوچ رہی تھی کہ وہ باس کو بتادے کہ وہ اس سے شادی کرنے کو تیار ہے۔ اس نے غلطی کرلی کہ اس نے جمال کو بتادیا۔
’’تم باس سے شادی کرلو۔‘‘ جمال نے فیصلہ کن انداز میں کہا تو نادیہ چونگی۔
’’یہ تم کہہ رہے ہو؟‘‘ یہ سن کر نادیہ کے دل میں ایک گدگدی سی ہوئی۔ نادیہ جیسی لڑکی کو سب کچھ بیٹھے بیٹھائے مل رہا تھا، وہ اس پرآسائش زندگی سے کیسے فرار ہوسکتی تھی؟ شوہر بوڑھا تھا تو کیا بات تھی، زندگی میں سب کچھ مکمل تو نہیں ملتا۔ کسی میں زیادتی اور کسی چیز میں کمی… یہ تو زندگی کا حصہ ہے۔
’’باس کروڑ پتی ہے۔ اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ وہ شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور دل کا مریض ہے۔ کتنے دن جی لے گا؟ بوڑھا مرجائے گا تو سب کچھ تمہارا ہوگا، اور ہم پھر ایک ہوجائیں گے۔ سب کچھ ہمارا ہوجائے گا۔ اس کمپنی کو ہم خود چلائیں گے اور عیش و آرام کی زندگی گزاریں گے۔‘‘ جمال نے کہا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ نادیہ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی جمال کی ہوسکتی ہے۔
’’اور اگر وہ بوڑھا کئی سال تک جیتا رہا تو…؟‘‘
’’بس تم مجھ سے رابطہ رکھنا۔ مجھے ہر بات بتاتی رہنا۔ اگر باس کی زندگی نے طوالت اختیار کرنا شروع کردی تو ہم اسے خود اپنے ہاتھوں سے موت کی وادی میں پہنچا دیں گے۔ ہم زندگی کا یہ جوا مل کر کھیلیں گے۔‘‘ جمال کے لہجے میں پراسراریت تھی۔ نادیہ مبہوت تھی۔
جمال نے پھر کہا۔ ’’باس کی موت کے بعد اس کی کمپنی، جائیداد اور بینک بیلنس کی تم وارث ہوگی۔ ہم دونوں شادی کرلیں گے اور پھر سب کچھ سنبھال کر سکون کی زندگی گزاریں گے۔‘‘
جمال کی بات سن کر نادیہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ جمال کی مسکراہٹ میں مکاری تھی۔ وہ چالاک تھا۔ وہ اکائونٹس کا کام تو نہیں دیکھتا تھا لیکن اسے یہ تو اندازہ تھا کہ مختار احمد کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے ہوں گے۔ پھر یہ کمپنی بھی کم نہیں تھی اور مختار احمد کی جائیداد کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی تھیں، وہ ان سب چیزوں کو نادیہ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اسے بہت کچھ حاصل کرنے کا سنہری موقع مل رہا تھا۔ وہ نادیہ کو اعتماد کے جھانسے میں رکھ کر اس سے سب کچھ لینے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اور نادیہ کیلئے بھی اس نے ایک جال تیار کرلیا تھا جس میں نادیہ کو پھنسا کر وہ خود بچ نکلنا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭
نادیہ نے اسی دن مختار احمد کو یہ بتاکر خوش کردیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کو تیار ہے۔ مختار احمد ایسے خوش ہوا جیسے اسے کاروبار میں کوئی بہت بڑا فائدہ ہوا ہو۔
مختار احمد اس سے اسی روز شادی کرنا چاہتا تھا۔ نادیہ نے اپنی ماں کو فون کرکے محض اتنا بتادیا تھا کہ وہ شادی کررہی ہے اور اب گھر نہیں آئے گی۔ اس کی ماں نے سن کر اسے دعا دی تھی اور لاپروائی سے کہا تھا۔ ’’جہاں چاہو مرو۔‘‘
اسی شام کو نادیہ کا نکاح مختار احمد سے ہوگیا اور وہ مختار احمد کی بیوی بن کر اس کے لگژری فلیٹ میں آگئی۔ فلیٹ خوبصورت تھا۔ ایسا فلیٹ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ فلیٹ کے دونوں ملازمین سے مختار احمد نے تعارف کرایا اور دونوں بیڈ روم میں چلے گئے۔ ملازم نے حسبِ معمول ایک طرف وہ دوائیاں رکھی ہوئی تھیں جو مختار احمد کو سونے سے قبل کھانی تھیں۔ وہ کئی گولیاں تھیں۔ نادیہ نے ان گولیوں کی طرف دیکھا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔
مختار احمد نے ایک ایک گولی کھائی اور پھر نادیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’مجھے ان دوائیوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے اپنی جسمانی حالت کا پتہ ہے۔ جانے کب میں دنیا چھوڑ دوں لیکن دل میں شادی کی مچلنے والی خواہش نے تمہیں میری بیوی بنادیا۔ میں نے زندگی میں جو چاہا وہ مجھے ملا۔ دولت کمائی اور خرچ بھی کی۔ بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھو دیا… پتہ بھی نہیں چلا کہ… کیسے کھودیا۔‘‘ جانے کیوں مختار احمد کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور چہرہ اداسی میں ڈوب گیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے پر آئی اداسی معدوم ہوگئی اور اس نے پھر سلسلہ کلام جوڑا۔ ’’زندگی کے اس حصے میں شادی کی خواہش نے جنم لیا اور میں نے کسی چیز کی پروا کئے بغیر تم سے شادی کرلی۔ اب جو کچھ
وہ تمہارا ہے۔‘‘
اسی اثناء میں مختار احمد کی نگاہ سامنے بیڈ کی تپائی پر پڑی۔ وہاں ایک بند لفافہ پڑا تھا۔ فلیٹ میں آنے والی ڈاک ملازم اسی جگہ رکھتا تھا۔ یہ مختار احمد کا حکم تھا۔
مختار احمد نے وہ لفافہ اٹھایا اور اسے چاک کرکے اندر سے ایک کاغذ نکالا اور اسے پڑھنے کے بعد مختار احمد نے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ پھر لفافے کے اندر رکھا اور اس لفافے کو الماری کھول کر اندرونی دراز میں رکھ دیا۔ اس لفافے میں جانے کیا تھا کہ مختار احمد کے کندھے جھک گئے تھے۔ وہ نادیہ کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
’’آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ نادیہ نے پوچھا۔
’’ہاں، میں ٹھیک ہوں۔‘‘ مختار احمد نے مرجھائے سے لہجے میں کہا اور اپنے جوتے اتارنے لگا۔ پھر اس نے اپنی جرابیں اتاریں اور کوٹ اتار کر ایک طرف پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیڈ پر دراز ہوگیا اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ نادیہ پاس بیٹھی رہی۔ کچھ ہی دیر میں مختار احمد نیند کی وادی میں چلا گیا۔
نادیہ نے بیزاری سے کمرے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کمرے میں رکھی چیزیں دیکھنے لگی۔ کبھی وہ الماری کھول کر اندر جھانکنے لگتی، اور کبھی وہ کسی سجاوٹ کی چیز کو اٹھا کر دیکھنے لگتی کہ اچانک اس کی نظر کونے میں رکھی کوڑے کی ٹوکری پر چلی گئی۔ کوڑے کی ٹوکری کچھ کاغذات سے بھری ہوئی تھی اور اوپر چیک بک پڑی دکھائی دے رہی تھی۔ نادیہ نے چیک بک اٹھالی۔ اندر آٹھ چیک تھے۔ نادیہ کو حیرت ہوئی کہ یہ چیک بک کوڑے کی ٹوکری میں کیوں پھینکی ہوئی ہے؟ کیا غلطی سے کوڑے کی ٹوکری میں چلی گئی تھی؟ یہی سوچتے ہوئے نادیہ آہستہ سے کمرے سے باہر چلی گئی۔
نادیہ نے دوسرے کمرے میں جاکر جمال کا نمبر ملایا۔ جلدی رابطہ ہوگیا۔ جمال نے فوراً پوچھا۔ ’’خیریت ہے، اس وقت فون کیا ہے؟‘‘
نادیہ نے اسے چیک بک والی بات بتائی تو اسے سن کر جمال بھی سوچ میں پڑگیا۔ وہ بینک کے معاملات کو جانتا تھا۔ اگر مختار احمد نے اس بینک کا اکائونٹ بند کیا تھا تو بھی بچ جانے والے چیک اس طرح کوڑے کی ٹوکری میں نہ پھینکتا۔
’’تم ایسا کرو کہ اس چیک بک کو سنبھال کر رکھ لو اور موقع ملتے ہی ان کا ذکر کرنا اور یہ وجہ جاننے کی کوشش کرنا کہ انہوں نے یہ چیک بک اگر خود پھینکی ہے تو کیوں؟ اور اگر تم کسی طرح سے ان چیکس پر ان کے دستخط لے لو تو کمال ہوجائے گا۔‘‘
’’میں کوشش کروں گی۔‘‘ نادیہ نے فون بند کیا اور جونہی وہ واپس کمرے میں گئی تو چونک گئی۔ مختار احمد جاگ رہا تھا۔
’’کہاں چلی گئی تھیں تم؟‘‘
’’آپ سو گئے تھے تو میں ایسے ہی کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔‘‘ نادیہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔
’’دروازہ لاک کردو۔‘‘ مختار احمد نے کہا۔
٭٭٭
صبح ناشتے کی میز پر دونوں ناشتے سے فارغ ہوئے تو باتوں باتوں میں نادیہ نے چیک بک کا ذکر کردیا۔ مختار احمد نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’وہ چیک بک تم نے اٹھالی ہے؟‘‘
’’جی میں سمجھی کہ شاید غلطی سے آپ نے پھینک دی تھی۔‘‘
’’غلطی سے نہیں میں نے غصے سے پھینکی تھی۔‘‘ مختار احمد بولا۔
’’اگر ان پر دستخط کرکے پھینکتے تو آپ کی غصے میں پھینکی ہوئی چیک بک میرے کام آجاتی۔‘‘ نادیہ نے کہا۔
’’ابھی لائو میں دستخط کردیتا ہوں۔‘‘ مختار احمد نے خوش دلی سے اپنی جیب سے پین نکال کر کہا تو نادیہ نے موقع ضائع نہیں کیا اور چیک بک لاکر مختار احمد کے سامنے رکھ دی۔ مختار احمد نے آٹھوں چیکس پر اپنے دستخط کردئیے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا چیک نہ بھرنا۔ بینک میرا پچاس لاکھ روپے تک کا چیک پاس کرنے کا مجاز ہے۔‘‘
’’آپ بے فکر رہیں۔ مجھے اتنی بڑی رقم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ نادیہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
مختار احد نے اپنے دونوں ملازمین کو بلایا اور کہا۔ ’’میں نے رات تم لوگوں سے کہا تھا کہ صبح تم دونوں جانے کی تیاری کرلینا۔ کیا تم دونوں تیار ہو؟‘‘
’’جی، ہم تیار ہیں۔‘‘ ملازم نے جواب دیا۔ مختار احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نوٹ تھے۔ وہ اس نے ملازم کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم دونوں نے میری بہت خدمت کی ہے۔ اب تم واپس اپنے گائوں چلے جائو۔‘‘
ملازم چپ چاپ اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا۔ پھر مختاراحمد نے ایک فون کیا اور رابطہ ہوتے ہی بولا۔ ’’ہاں، میں بول رہا ہوں… ایسا ہے کہ میں آپ کے پاس بارہ بجے کے قریب پہنچوں گا… مجھے اپنی وصیت میں تبدیلی کرانی ہے… ٹھیک ہے۔‘‘ مختار احمد بات ختم کرنے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اور نادیہ دم بخود اسی جگہ بیٹھی رہ گئی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس نے اپنے ملازموں کو چھٹی کیوں دے دی اور وہ اپنی وصیت میں کیا تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔
کچھ دیر بعد مختار احمد تیار ہوکر باہر آگیا اور یوں فلیٹ سے باہر نکل گیا جیسے فلیٹ میں اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ مختار احمد سوچوں میں مستغرق تھا، اس لئے اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ اب اس فلیٹ میں نادیہ بھی ہے جو اس کی بیوی ہے۔ نادیہ اپنی جگہ سے اٹھی اور یہ سوچتی رہی کہ اچانک مختار احمد کو کیا ہوا کہ اس نے اسے نظر انداز کردیا۔ پھر اس نے جمال کو فون کیا۔
’’اہم بات سنو۔ میرے ایک بار کہنے سے مختار احمد نے ان چیکوں پر اپنے دستخط کردئیے ہیں۔‘‘
’’کیا واقعی…؟‘‘ جمال کی خوشگوار حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔
’’انہوں نے کہا ہے کہ میں ایک چیک پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا نہ بھروں۔ آٹھ چیک ہیں اور اس طرح ہم چار کروڑ روپیہ بینک سے نکال سکتے ہیں۔‘‘ نادیہ بھی خوش تھی۔
’’مجھے تو حیرانی ہے کہ باس نے اپنے دستخط کردئیے۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ وہ تمہارے حسن میں کھوکر ہر چیز سے بے نیاز ہوچکا ہے۔ تم وہ چیک بک سنبھال کر رکھنا۔‘‘ جمال نے تاکید کی۔
’’دوسری بات یہ کہ اس نے ابھی اپنے وکیل کو فون کیا تھا اور اسے کہا تھا کہ وہ بارہ بجے اس کے پاس آئے گا۔ وہ اپنی وصیت میں تبدیلی کرانا چاہتا ہے۔‘‘ نادیہ نے مزید بتایا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ وہ پہلے اکیلا تھا اس لئے اس نے اس حساب سے وصیت لکھی ہوگی۔ اب تم اس کی زندگی میں آگئی ہو، اس لئے ممکن ہے کہ وصیت کی تبدیلی تمہاری وجہ سے ہورہی ہو۔ تمہارے نام بہت کچھ ہونے والا ہے۔‘‘
’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس سے چھٹکارا کب ملے گا۔‘‘ نادیہ بولی۔
’’اس کا بھی میں بندوبست کرلیتا ہوں۔ تم فکر نہیں کرو۔‘‘ جمال نے کہا۔
٭…٭…٭
سہ پہر چار بجے کے قریب تیز بیل نے نادیہ کو چونکا دیا۔ نادیہ نے جاکر دروازہ کھولا تو سامنے وہیل چیئر پر مختار احمد بیٹھا ہوا تھا جبکہ جمال کے ساتھ آفس کے کچھ اور آدمی بھی موجود تھے۔
’’کیا ہوا انہیں؟‘‘ نادیہ نے پوچھا۔
’’ان کی آفس میں اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے، دو گھنٹے اپنے پاس رکھنے کے بعد اب انہوں نے چھٹی دی ہے۔‘‘ جمال یہ بتاتے ہوئے وہیل چیئر دھکیلتا ہوا اندر لے گیا۔ پھر سب نے مل کر مختار احمد کو اس کے بیڈ روم میں لٹا دیا۔ مختار احمد نیم بے ہوش تھا۔ کچھ دیر کے بعد آفس کے لوگ وہاں سے چلے گئے اور جمال دوائی کھلانے کے بہانے اس جگہ رک گیا۔ دونوں بیڈ روم کے باہر تھے۔ نادیہ نے آہستہ سے پوچھا۔ ’’ہارٹ اٹیک ہوا ہے کیا؟‘‘
’’ہلکا سا ہوا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
’’شکر کر، تجھ سے شادی کے ایک دن بعد ہی وہ بستر سے لگ گیا ہے۔ اب باقی کسر میں پوری کروں گا۔‘‘ جمال کا لہجہ سفاک ہوگیا تھا۔
’’کیسے کرو گے؟‘‘
’’بہت آسان ہے۔ تم ایسا کرو، مجھے وہ چیک دکھائو۔‘‘ جمال ان چیکس کو حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن یہ دولت بھی بڑی عجیب چیز ہوتی ہے۔ انسان کے دل میں لالچ کے بیج بوتی ہے۔ نادیہ کے دل میں بھی لالچ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ مختار احمد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی اور مختار احمد کی کمپنی، جائیداد، بینک بیلنس پر خود قابض ہونا چاہتی تھی۔ اسے اس دولت میں جمال کی شراکت داری پسند نہیں تھی۔ جبکہ جمال چیکس دیکھنے کے بہانے ان پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔
اس کے سوال پر نادیہ نے کچھ سوچا اور پھر بولی۔ ’’تم اپنا کام کرو، میں چیک بک تلاش کرتی ہوں۔‘‘
’’تلاش کرتی ہو؟‘‘ اس کی بات سن کر جمال چونکا۔
’’صبح میں نے کہیں رکھ دئیے تھے۔‘‘
’’میں نے کہا بھی تھا کہ سنبھال کر رکھنا۔‘‘
’’غصہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ وہ چیک بک اسی فلیٹ میں ہے۔ میں نے کہیں رکھ دی ہے، مجھے یاد نہیں آرہا ہے، ابھی تلاش کرلیتی ہوں۔‘‘
نادیہ کی بات سن کر جمال کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر اس نے اپنی جیب سے ایک پڑیا نکال کر نادیہ کو دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’باس کی دوائی کا وقت ہوگیا ہے۔ اس میں ایک ایسی گولی ہے جو میں اسے دوسری دوائیوں کے ساتھ کھلا دوں گا، اس کا کام ہوجائے گا۔‘‘
’’گولی جانے کب اثر دکھائے، تم اس بیمار کے منہ پر تکیہ رکھ کر کیوں نہیں مار دیتے؟‘‘ نادیہ کو اس کا طریقہ پسند نہیں آیا۔
جمال نے سوچا کہ نادیہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اس حالت میں جبکہ مختار احمد کو آکسیجن کی زیادہ ضرورت ہے وہ اس کے منہ پر تھوڑی دیر تکیہ رکھ کر اسے ہمیشہ کی نیند سلا سکتا ہے۔
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘ جمال نے کہہ کر کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر دیکھا۔ مختار احمد جاگ رہا تھا اور وہ لاغری سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔
’’کون ہے… نادیہ؟‘‘ دروازے پر آہٹ سن کر مختار احمد نے پوچھتے ہوئے اس جانب دیکھا۔ اسے دیکھنے میں دقت پیش آرہی تھی لیکن دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔
’’میں جمال ہوں۔ جب آپ اپنے آفس میں گر کر بے ہوش ہوگئے تھے تو میں ہی آپ کو اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا۔ اور اب آپ کو آپ کے بیڈ روم میں لے آیا ہوں۔‘‘ جمال قریب ہی بیٹھ گیا۔
’’شکریہ۔‘‘
’’خالی شکریے سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لئے مجھے کچھ اور چاہئے۔‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’آپ کی موت۔‘‘ جمال کی پھنکارتی ہوئی آواز نے مختار احمد کے جسم میں سراسیمگی بھر دی۔ اس نے متوحش نگاہوں سے جمال کی طرف دیکھا۔ ’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ آپ نے نادیہ سے شادی کی، چپ رہا، حالانکہ اس سے شادی میں کرنا چاہتا تھا۔ نادیہ کو میں
نے ہی کہا تھا کہ وہ آپ سے شادی کرلے۔ کیونکہ امیر کبیر بننے کا یہ سنہری موقع تھا۔ اور اس جوئے میں ہماری جیت یقینی ہے۔ اب آپ اس دنیا سے جائیں گے تو وہ پھر میری بنے گی۔ اور آپ کی ساری جائیداد، کمپنی اور بینک بیلنس کی وارث نادیہ ہوگی۔ نادیہ کی ہر چیز میری ہوجائے گی۔‘‘ وہ کہہ کر مسکرایا۔
اس کی بات سن کر مختار احمد کے ہونٹوں پر ایک مریل سی مسکراہٹ آگئی۔ ’’میں جانتا تھا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو۔ بعض اوقات انسان جو سوچتا ہے وہی ہوجاتا ہے۔ میں نے بھی کچھ ایسا ہی سوچا تھا۔‘‘
’’تم نے کیا سوچا تھا بڈھے؟‘‘ جمال کے لہجے میں تغیر آگیا تھا۔
اس کا جواب دینے کے بجائے مختار احمد چپ ہوگیا اور ہولے سے مسکراتا رہا۔ اس کی مسکراہٹ اور خاموشی جمال کو زہر لگ رہی تھی۔ لمحہ بالمحہ جمال کا غصہ بڑھنے لگا تھا ۔ کیونکہ مختار احمد بڑی ڈھٹائی سے خاموشی اختیار کئے اس کے سامنے پڑا تھا۔ جمال یکدم اٹھا اور اس نے تکیہ اٹھا کر مختار احمد کے منہ پر رکھ دیا۔ مختار احمد نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور ایڑیاں رگڑتا ہوا بے جان ہوگیا۔
اپنا کام کرنے کے بعد جمال نے تکیہ ہٹا دیا اور اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا، اچھی طرح سے تسلی کی کہ مختار احمد زندہ تو نہیں ہے۔ پھر وہ جونہی گھوما اس کے پیچھے نادیہ کھڑی تھی۔ اس نے جمال کے گھومتے ہی اپنا ایک ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے کرلیا تھا۔ نادیہ نے ہاتھ میں مختار احمد کا قیمتی موبائل فون پکڑا ہوا تھا اور اس موبائل فون سے جمال کی قتل کرتے ہوئے ویڈیو بنالی تھی۔
جمال نے یہ پوچھا ہی نہیں کہ اس نے اپنا ہاتھ پشت پر کیوں کیا ہے۔ اس نے اتنی بڑی دولت، جائیداد اور کمپنی کے لئے پہلی بار کسی کی جان لی تھی اس لئے دل میں خوف اور گھبراہٹ تھی۔ اس نے نادیہ کو ہدایت کی۔ ’’تم ایسا کرو ڈاکٹر کی رپورٹس وہ پڑی ہیں۔ ڈاکٹر کو فون کرو کہ مختار احمد کی طبیعت بگڑ گئی ہے اس لئے فوراً گھر آجائیں۔ اور یہ بات گھبرا کرکرنا۔‘‘
’’میں ابھی فون کرتی ہوں۔‘‘ نادیہ نے کہہ کر ڈاکٹر کی فائل اٹھائی اور اس پر لکھا ہوا نمبر دیکھ کر باہر چلی گئی۔ جمال بھی اس کے پیچھے تھا۔ فون ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ اس جگہ بیٹھتے ہی ہوشیاری سے نادیہ نے موبائل فون دراز میں رکھ دیا اور ریسیور اٹھاکر کان سے لگالیا۔ ’’نمبر نہیں مل رہا ہے۔‘‘ ایک دو بار کوشش کرنے کے بعد نادیہ نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی نادیہ یکدم چونکی اور اس کی نگاہیں مختار احمد کے بیڈ روم کی طرف تھیں۔ ’’مجھے کوئی آواز آئی ہے۔‘‘
جمال گھبرا گیا اور اس نے فوراً پلٹ کر کمرے کی طرف دیکھا اسی اثنا میں نادیہ نے فون کی تار جو نیچے سے آرہی تھی کھینچ دی۔ تار باہر نکل گئی اور فون ڈیڈ ہوگیا۔’’تمہارا وہم ہے، کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔‘‘ جمال نے غور کرنے کے بعد کہا۔
’’شاید یہ میرا وہم ہی تھا۔‘‘ نادیہ نے کہتے ہوئے فون کرنے کے لئے پھر ریسیور اٹھایا تو بولی۔ ’’یہ کیا…؟ فون تو ڈیڈ ہوگیا ہے۔‘‘ جمال تیزی سے آگے بڑھا۔ اس نے ریسیور اپنے کان سے لگایا اور غصے سے پٹخ دیا۔ ’’تم جلدی سے وہ چیک لے کر آئو تاکہ میں دیکھوں کہ کہیں ان پر دستخط جعلی تو نہیں ہیں۔‘‘
’’مجھے یاد نہیں آرہا ہے کہ میں نے چیک بک کہاں رکھ دی ہے۔‘‘ نادیہ نے بظاہر یاد کرنے کی کوشش کی۔
جمال پہلے ہی جھنجھلایا ہوا اور غصے میں تھا۔ اس نے نہ آئو دیکھا اور نہ تائو فوراً نادیہ کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔ نادیہ یکدم نیچے گری۔ جمال غصے سے بولا۔ ’’مجھ سے جھوٹ بولتی ہو، سب کچھ اکیلی ہڑپ کر جانا چاہتی ہو۔‘‘
نادیہ نے اٹھتے ہوئے پتھر کا گلدان پکڑا اور پوری قوت سے جمال کے سر پر دے مارا۔ جمال کا سر پھٹ گیا اور وہ نیچے گرتے ہی ساکت ہوگیا۔ نادیہ کو یکدم احساس ہوا کہ اس نے یہ کیا کردیا۔ نادیہ نے جمال کو ہلایا اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن جمال نے کوئی حرکت نہیں کی۔ نادیہ کو لگاکہ اس کے ہاتھ سے جمال کا خون ہوگیا ہے۔ ایک دم وہ چونک گئی کیونکہ کسی نے دروازے پر بیل دی تھی۔
نادیہ کی سانس تیز ہوچکی تھی اور وہ دم بخود دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ سامنے مختار احمد کا وکیل نصیر کھڑا تھا۔
’’میرا نام نصیر باجوہ ہے اور میں مختار احمد کا دوست بھی ہوں اور ان کا وکیل بھی ہوں۔ مجھے مختار احمد سے ملنا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ نادیہ کوئی جواب دیتی۔ نصیر کی نظر نادیہ کے ہاتھ پر چلی گئی جس پر اچھا خاصا خون لگا ہوا تھا۔ نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ ’’آپ کے ہاتھ پر خون لگا ہے خیریت تو ہے؟‘‘
نادیہ نے یکدم اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھا، وہ واقعی خون سے سرخ ہوچکا تھا۔ دروازہ کھل گیا تھا اور نصیر کو اندر ایک انسانی جسم فرش پرپڑا نظر آگیا تھا۔ نصیر جلدی سے آگے بڑھا۔ اس نے جمال کے پاس کھڑے ہوکر اسے غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو مختار احمد کی کمپنی کا ملازم ہے… آپ نے مارا ہے اسے؟‘‘
نادیہ بری طرح گھبرا گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کا کیا جواب دے۔ پھر ایک دم اس کے دماغ نے کام کیا اور وہ بولی۔ ’’آج ان کی طبیعت سخت خراب تھی۔ وہ دو گھنٹے ڈاکٹر کے پاس رہ کر آئے تھے۔ جمال ہی انہیں ڈاکٹر کے پاس اور پھر یہاں لے کر آیا تھا۔ جانے کیا ہوا کہ جمال نے ان کے منہ پر تکیہ رکھ دیا۔ میں اچانک اندر آئی تو وہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر انہیں مار رہا تھا۔ میں نے موبائل فون پر ان کی ویڈیو بنانا شروع کردی۔ جمال نے دیکھا تو اس نے مجھ پر بھی حملہ کردیا اور میں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے گلدان اس کے سر پر مار دیا۔‘‘
’’اوہ خدایا…‘‘ نصیر کہہ کر تیزی سے بیڈ روم کی طرف بھاگا۔ مختار احمد کا مردہ جسم پڑا تھا۔ اسے دیکھنے کے بعد نصیر باہر آیا اس نے جمال کو چیک کیا۔ وہ ابھی زندہ تھا۔ اس نے فون کرکے ایمبولینس بلالی۔
٭…٭…٭
مختار احمد کے پوسٹ مارٹم سے یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ اسے قتل کیا گیا تھا۔ جمال بچ تو گیا تھا لیکن قانون کے شکنجے میں آگیا تھا۔ وہ بہت چیخا اور چلایا لیکن نادیہ کو وہ قانون کی گرفت میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ نادیہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ کچھ ایسے الزامات بھی جمال پر نادیہ نے لگا دئیے تھے کہ جس سے وہ اور بھی شکنجے میں آگیا تھا۔
نادیہ بہت خوش تھی کہ وہ اب تین بنگلوں، ایک فلیٹ اور بڑی کمپنی کی اکیلی مالکن ہے۔ اس کے پاس مختار احمد کے دستخط شدہ آٹھ چیک بھی ہیں جن کی مدد سے وہ کم از کم چار کروڑ روپیہ بینک سے نکلوا سکتی ہے۔ اب اسے بڑی شدت سے انتظار تھا کہ اس کے عدت کے دن پورے ہوں اور وہ شان بے نیازی سے اس کرسی پر بیٹھ سکے جس پر مختار احمد بیٹھتا تھا۔ وہ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ گن رہی تھی، ابھی اس واقعے کو محض سات دن ہوئے تھے۔
اسی شام کو نصیر باجوہ آگیا۔ نادیہ نے اسے بٹھایا اور نصیرباجوہ نے کہنا شروع کردیا۔ ’’مختار احمد میرا بہت اچھا دوست تھا۔ مجھ سے اپنی ذاتی باتیں کرتا تھا۔ مختار احمد مرنا چاہتا تھا۔ وہ خود کشی کے خلاف تھا۔ وہ حرام موت نہیں مرنا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ کب کا اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرلیتا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ اس نے مرنے کا طریقہ یہ تلاش کیا کہ اس نے تم سے شادی کرلی۔‘‘
’’مرنے کے لئے مجھ سے شادی کرلی؟‘‘ نادیہ کی حیرت عروج پر تھی۔
’’مختار احمد تمہاری اور جمال کی محبت کے بارے میں جانتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دولت کے لالچ میں اس کے ساتھ کوئی بھی شادی کرنے کو تیار ہوسکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کوئی بھی نوجوان لڑکی اسے زیادہ دن برداشت نہیں کرسکتی اور اس سے جلدی چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال ضرور کرے گی۔ اپنے خاص تعلق کی وجہ سے وہ تم دونوں کی موبائل فون پر ہونے والی گفتگو بھی سنتا تھا۔‘‘ اس بات نے نادیہ کو بری طرح سے چونکا دیا۔
نصیر پھر بولا۔ ’’ویسا ہی ہوا جیسا اس نے سوچا تھا، تم دونوں نے مل کر مختار احمد کو مار دیا۔ جمال کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا لیکن تم نے چالاکی سے اس کی ویڈیو بنالی۔ وہ پھنس گیا اور تم بچ گئیں۔‘‘
’’معلوم نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ نادیہ نے نظریں چرانے کی کوشش کی۔
’’تمہیں سب معلوم ہے۔ کیا تم یہ نہیں جاننا چاہوگی کہ مختار احمد مرنا کیوں چاہتا تھا؟‘‘ نصیر نے کہا۔
نادیہ چپ رہی۔ حالانکہ وہ یہ سوال کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ جان بوجھ کر چپ تھی اور اس انتظار میں تھی کہ نصیر خود ہی اسے بتادے۔
’’چلو میں خود ہی بتا دیتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ مختار احمد کے تینوں بنگلے مختلف بینکوں کی تحویل میں ہیں۔ مختار احمد کی موت کے بعد ان بینکوں نے اپنے اپنے بنگلے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔‘‘ نصیر احمد نے انکشاف کیا۔
’’کیا…؟‘‘ نادیہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’مختار احمد مکمل دیوالیہ ہوچکا تھا، مارکیٹ کا بہت سا پیسہ اس کے سر پر تھا۔ وہ مرنا چاہتا تھا، حرام موت کو گلے لگانے کے بجائے اس نے یہ راستہ اختیار کیا حالانکہ وہ ڈاکٹری نسخے کے مطابق اپنی دوائیاں بھی پوری نہیں کھاتا تھا۔ بنگلے، بینک لے گئے اور اس کی کمپنی کو ایک اور بینک نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے کیونکہ وہ بھی بینک کے پاس گروی تھی۔‘‘ اس بات نے تو جیسے نادیہ کے اندر سے اس کی جان نکال لی اور وہ دم بخود نصیر کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’تمہارے پاس جو آٹھ دستخط شدہ چیک ہیں، انہیں بینک لے کر مت جانا کیونکہ وہاں مختار احمد کی پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے اور اس نے غصے سے وہ چیک بک کوڑے کی ٹوکری میں پھینکی تھی۔ یہ بات مجھے مختار احمد نے خود بتائی تھی۔‘‘ نصیر نے نئی بات کرکے نادیہ کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’جمال تو اپنے انجام کو پہنچ گیا، تم بھی اس کے ساتھ جرم میں پوری شریک ہو، لیکن تم قانون کے شکنجے سے دور ہو۔ اس کی سزا تو تمہیں خدا دے گا اور اس سے بڑھ کر اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ ایک لڑکی دربدر ہوجائے کیونکہ اب اسے اس کے گھر والے بھی قبول نہیں کریں گے۔ میں تمہارے گھر والوں سے مل چکا ہوں۔‘‘
نادیہ کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ لالچ میں نہ آکر اگر وہ جمال کے ساتھ شادی کرلیتی تو دونوں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہوتے۔ پھر وہ یکدم بولی۔ ’’میں اپنی ساری زندگی اس فلیٹ میں گزار
� گی اور کہیں نوکری کرلوں گی۔‘‘
اس کی بات سن کر نصیر مسکرایا اور بولا۔ ’’مختار احمد کے بنگلے جب بینک کی تحویل میں چلے گئے تو وہ اس فلیٹ میں آگیا۔ وہ میرا دوست تھا، اب وہ دنیا سے جا چکا ہے۔ یہ فلیٹ میری ملکیت ہے۔ آخری بات مجھے تم سے یہ کہنی ہے کہ براہ مہربانی اپنا سامان پیک کرو اور پندرہ منٹ سے زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے میرا فلیٹ خالی کردو۔‘‘
نادیہ کو لگا جیسے وہ بے جان ہوگئی ہے اور ابھی گر جائے گی۔

Latest Posts

Related POSTS