موسم صبح سے ابرآلود تھا، ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ شاہ میر کرسی سے پشت لگائے صفورا کو دیکھ رہا تھا۔ صفورا کئی بار بے چینی سے پہلو بدل چکی تھی۔ آخر اس سے نہ رہا گیا تو وہ بے چینی سے بولی۔ ’’سر! کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے شہر سے جرائم کا خاتمہ ہوگیا ہے، آج کل کتنی بوریت ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ شاہ میر کوئی جواب دیتا، کریم خان حوالدار نے اندر آکر سلوٹ کیا اور بولا۔ ’’صاحب جی! ایک بی بی آپ سے ملنا چاہتی ہیں، باہر کھڑی ہوئی ہیں۔‘‘
’’بارش میں کیوں کھڑا کررکھا ہے، انہیں بلا لو۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’نہیں سر جی! بارش میں کیوں کھڑا رکھتا، برآمدے میں ہیں، لاتا ہوں۔‘‘
آنے والی ایک خوش شکل عورت تھی۔ اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ایک لڑکا ایک لڑکی۔ لڑکے کی عمر کوئی چار سال ہوگی اور لڑکی چھ سال کی تھی۔ دونوں بچے خوبصورت تھے۔ عورت خود بھی حسین تھی لیکن چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ آنکھیں سے غم و اندوہ کے آثار نظر آرہے تھے۔
صفورا نے ہمدردی سے اسے بیٹھنے کی پیشکش کی اور عورت جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی۔ دونوں بچوں کو بھی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا۔
’’جی بی بی۔ فرمایئے؟‘‘
’’سر، میں بڑی مشکل میں گرفتار ہوگئی ہوں، مجھ سے کوئی غلطی ہوجائے تو معاف کردیجئے گا۔‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
صفورا کو احساس ہوا کہ اس کا بدن بھی ہولے ہولے لرز رہا ہے۔ وہ بہت نروس نظر آرہی تھی۔ اس نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’آپ پورے اطمینان سے بیٹھیں اور ہمیں بتائیں کہ کس مشکل میں گرفتار ہوگئی ہیں؟‘‘
’’سر! میرے شوہر کو اغوا کرلیا گیا ہے، میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے، بس یہ دو بچے ہیں، شوہر ہیں اور میں۔ ہم بے سہارا ہوگئے ہیں سر۔ سر! آپ اللہ کے نام پر ہماری مدد کریں، ہم جی نہیں سکیں گے، خودکشی کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا، ہمیں حرام موت مرنے سے بچا لیجئے، ہمارے پاس کوئی وسیلہ نہیں ہے، ہماری مدد کیجئے سر۔‘‘
عورت بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں روک رہی تھی۔ دونوں بچے اسے ہراساں نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ شاہ میر نے ہمدرد لہجے میں کہا۔ ’’بی بی! حوصلہ رکھیں، آپ کے شوہر کو بازیاب کرانا ہماری ذمہ داری ہے، آپ یوں سمجھیں اپنے بھائی کے پاس آگئی ہیں، آپ کا بھائی آپ کو مایوس نہیں کرے گا، مجھے اس اغوا کی تفصیل بتائیں۔‘‘
’’میرے شوہر کا نام علی رضا ہے۔ وہ کریم گروپ آف انڈسٹریز میں اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر کام کرتے ہیں۔ سر انہیں پچھلی رات اغوا کرلیا گیا ہے۔ کوئی ساڑھے نو بجے کا وقت تھا، ہم کھانے سے فارغ ہوئے تھے، کسی نے بیل بجائی اور رضا دروازے پر پہنچ گئے۔ کچھ دیر ان کی کسی سے باتیں کرنے کی آوازیں آئیں، پھر یہ آوازیں بند ہوگئیں۔ جب خاموشی چھا گئی اور وہ واپس نہیں آئے تو میں حیرانی سے دروازے پر گئی۔ ہمارے گھر کے باہر کچھ لوگ جمع تھے۔ یہ ہمارے پڑوسی تھے جو ہمارے بارے میں باتیں کررہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’بیٹی۔ کون تھے یہ لوگ؟‘‘
’’کون لوگ؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’کالی کار والے جو رضا کو مارپیٹ کر کار میں ڈال کر لے گئے ہیں۔ یہ سن کر سر میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ سر! میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، میں ہکابکا ان لوگوں کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ لوگ منتشر ہوگئے، میں تنہا رہ گئی۔ ساری رات میں دعائیں مانگتی رہی، دروازے کو تکتی رہی کہ خدا کرے رضا واپس آجائیں۔ پھر صبح ہوگئی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ میں نے صرف گھر میں زندگی گزاری ہے۔ جہاں بھی گئی، رضا کے ساتھ گئی۔ مجھے ان کے آفس کے بارے میں بھی معلوم نہیں کہ کہاں ہے۔ ہاں ان کے آفس کے فون نمبر معلوم ہیں، میں نے وہاں فون کیا، نو بجے کے بعد وہاں فون اٹھایا گیا لیکن کسی سے کوئی مدد نہیں ملی۔ گیارہ بجے جنرل منیجر صاحب آئے، میں نے انہیں فون پر رضا کے بارے میں خبر دی تو انہوں نے بس رسمی الفاظ کہے کہ ٹھیک ہے، دیکھتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ خود واپس آجائے۔ یہ جملے انہوں نے لاپروائی سے کہہ کر فون بند کردیا۔ سر! اس کے بعد میں نے انہیں باربار فون کیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ پھر آخری بار ریسپشنسٹ نے کہا کہ صاحب کسی کام سے چلے گئے ہیں۔ کسی نے
میری نہیں سنی۔ پھر بڑی مشکل سے مجھے تھانے کا پتا ملا تو میں آپ کے پاس آگئی۔ ہم بڑے بے سہارا لوگ ہیں، ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں، ہماری مدد کیجئے۔‘‘ اس کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔ وہ سسک سسک کر ر ونے لگی۔
’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’عدیلہ رضا۔‘‘ اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔
’’ایک بات کہوں عدیلہ۔ حوصلہ دنیا کی سب سے بڑی قوت اور خالق کائنات سب سے بڑا وسیلہ اور سہارا ہے۔ آپ بالکل تنہا نہیں ہیں۔ اللہ ہر مظلوم کے ساتھ ہے۔ اگر آپ کے شوہر بے گناہ ہیں اور انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہوا ہے تو اللہ ان کی مدد کرے گا۔ اِن شاء اللہ آپ کے شوہر واپس آجائیں گے۔‘‘
شاہ میر کے ان الفاظ کا اثر خاطرخواہ ہوا تھا۔ اس کی کیفیت کچھ سنبھل گئی۔ اس نے آنسو خشک کئے اور لرزتی آواز میں بولی۔ ’’سر! میں بڑی خوف زدہ ہوں، پتا نہیں ایسا کیوں ہوا ہے، میں اپنے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج سکتی۔‘‘
’’کچھ دن ان کی چھٹی کرا دیں۔ پولیس آپ کے گھر کے آس پاس پہرہ دے گی، آپ سے رابطہ بھی رکھے گی سادہ لباس میں۔ آپ پورا حوصلہ رکھیں۔‘‘
اس نے گردن جھکا لی۔ کچھ لمحوں کے بعد شاہ میر نے کہا۔ ’’اب مجھے میرے کچھ سوالات کے جواب دیں۔‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’آپ کی تعلیم کتنی ہے؟‘‘
’’میں نے گریجویشن کیا ہے سر۔‘‘
’’خوب غور کرکے بتایئے کہ کبھی علی رضا نے ایسا کوئی تذکرہ کیا ہے جس سے اغوا کا خدشہ ظاہر ہوتا ہو؟‘‘
’’نہیں سر۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسا ذکر نہیں کیا۔‘‘
’’جس کالے رنگ کی کار کا تذکرہ پڑوسیوں نے کیا ہے، اس کا نمبر کسی نے دیکھا؟‘‘
’’میں نے پوچھا تھا لیکن کسی نے نمبر نہیں دیکھا۔ ویسے بھی گھر کے سامنے اندھیرا تھا۔‘‘
’’جس علاقے میں آپ رہتی ہیں، وہاں کس قسم کے لوگ آباد ہیں؟‘‘
’’ملی جلی آبادی ہے پیر گڑھی کی۔ تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں، جاہلوں کی تعداد زیادہ ہے۔ خودغرض، کسی کے کام نہ آنے والے۔‘‘ عدیلہ نے کہا۔
’’ان کے دفتر سے بھی کسی نے آپ سے رابطہ نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں سر۔ علی رضا کا سیل بھی میرے پاس ہے۔ اس پر کوئی کال بھی نہیں آئی حالانکہ میرے فون سے سب کو پتا چل گیا ہوگا کہ کیا ہوا ہے۔‘‘
’’علی رضا وہاں کب سے ملازم ہیں؟‘‘
’’سات سال ہوگئے۔‘‘
’’کمال ہے۔ ایک بات بتایئے، کیا وہ دفتر کی ناپسندیدہ شخصیت تھے؟‘‘
’’جی سر‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’سر! گروپ آف انڈسٹریز بہت بڑا ادارہ ہے، وہاں بڑے بڑے گھپلے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی رضا نے مجھے بتایا ہے کہ لوگ اس ادارے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، ہر شخص لاکھوں سمیٹ رہا ہے۔ خود فرم کے جنرل منیجر کی کروڑوں کی جائداد ہے، پرچیز آفیسر کے ڈیفنس میں دو بنگلے ہیں جبکہ پہلے وہ صرف کلرک تھا۔ علی رضا سے بھی کہا گیا کہ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں لیکن… سر ہم اپنے بچوں کو حلال کھلانا چاہتے ہیں، اس لئے علی رضا سب کے لئے ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ منیجر ریاض نے بھی اسی وجہ سے اتنی بڑی خبر پر کوئی توجہ نہیں دی۔ علی رضا کہتے تھے کہ ریاض سے ان کی نہیں بنتی لیکن ملازمت بہت اچھی ہے، دوسری ملنا مشکل ہے۔‘‘
’’کچھ اور بتایا کبھی رضا نے؟‘‘
’’آفس کی باتیں وہ گھر میں نہیں کرتے تھے۔ کہتے ہیں گھر کو گھر رہنا چاہئے، آفس نہیں۔‘‘
’’ہوں… آپ کے والدین وغیرہ؟‘‘
’’میرے والدین میرے بچپن میں ہی مر گئے تھے، چچا نے پرورش کی تھی، ان کا بھی انتقال ہوگیا، انہوں نے ہی میری شادی علی رضا سے کی تھی۔ رضا کا بھی کوئی نہیں ہے، یہ افتاد ناگہانی ہے، پتا نہیں… پتا نہیں۔‘‘ اس کی آنکھیں پھر بھیگ گئیں۔
’’آپ خود کو پوری طرح سنبھال لیں عدیلہ۔ ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے جن لوگوں نے انہیں اغوا کیا ہے، ان سے اختلاف دور ہونے پر رضا خود واپس آجائیں۔ ہوسکتا ہے اس کے گروپ میں ہی کوئی اس سے غلط کام لینا چاہتا ہو اور وہ نہ کر رہا ہو، اس لئے اسے اغوا کیا گیا ہو، کوئی بھی بات ہوسکتی ہے۔ اس افتاد کا مقابلہ اسی طرح کیا جاسکتا ہے کہ آپ ہمت کریں، اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ رضا سے توقعات پوری نہ ہونے پر وہ اسے مجبور کرنے کے لئے آپ کے بچوں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔‘‘
عدیلہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اس کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔ شاہ میر
کہا۔ ’’یہ خدشہ میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر ظاہر کیا ہے تاکہ آپ محتاط رہیں۔ اچھا یہ بتائیں بچوں کا اسکول گھر سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘
’’کافی دور ہے سر۔‘‘
’’وین سے جاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ پیدل چھوڑ کر آتی ہوں۔‘‘
’’آپ خود؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ عدیلہ نے گردن جھکا کر کہا اور شاہ میر سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے گردن اٹھا کر کہا۔ ’’ہماری دعا ہے کہ آج ہی علی رضا گھر واپس آجائیں، اگر ایسا نہ ہوا تو چند روز کے لئے آپ بچوں کو اسکول نہ بھیجیں۔ دو پولیس والے دن،رات آپ کے گھر کا پہرہ دیں گے۔ میں ان دونوں سے آپ کی شناسائی کرا دیتا ہوں۔‘‘ شاہ میر نے اردلی کو بلا کر دو نام لئے اور دو مستعد سادہ لباس والے اندر آگئے۔
’’یہ رحیم خان اور یہ سعداللہ ہیں۔ دونوں آپ کے گھر کے آس پاس ہر وقت موجود رہیں گے۔ ان کے فون نمبر لے لیں اور اپنا انہیں دے دیں۔ کوئی اہم ضرورت ہوئی تو یہ آپ کو فون کرلیں گے۔‘‘
عدیلہ نے شاہ میر کی ہدایت کے مطابق عمل کیا تھا۔ شاہ میر نے کہا۔ ’’آپ کی ایف آئی آر درج کرلی جائے؟‘‘
’’جی۔‘‘ عدیلہ نے کہا۔ شاہ میر نے محرر کو بلا کر عدیلہ کی رپورٹ لکھوائی۔ اتنی دیر میں زمان شاہ آگیا اور شاہ میر اسے تفصیل بتا کر ہدایات دینے لگا۔ ’’زمان شاہ! موبائل میں بندے لے جائو، پتا نوٹ کرلو، لوکیشن بتائو، ہم آرہے ہیں۔‘‘
’’یس سر۔‘‘ زمان شاہ نے مستحکم آواز میں کہا اور علی رضا کے گھر کا پتا نوٹ کرکے باہر نکل گیا۔ کچھ لمحوں کے بعد شاہ میر بھی عدیلہ اور اس کے بچوں کو ساتھ لے کر صفورا کے ساتھ پیر گڑھی پہنچ گیا۔
عدیلہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ راستے میں اس نے آنسو بھری آواز میں کہا۔ ’’سر آپ پولیس افسر ہیں، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا رضا کو تاوان کے لئے اغوا کیا گیا ہے؟‘‘
’’نہیں عدیلہ بہن۔ ایسا کام کرنے والے یہ پتا لگا کر کام کرتے ہیں کہ اغوا شدہ بندے کے گھر والے تاوان دے سکتے ہیں یا نہیں یا ان کے رشتے دار یہ رقم ادا کریں گے یا نہیں۔ تاوان کے لئے ہر کسی کو اغوا نہیں کیا جاتا۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد کار پیر گڑھی کے علاقے میں داخل ہوگئی۔ مطلوبہ گھر کے پاس پولیس موبائل کھڑی ہوئی تھی۔ پاس پڑوس کے لوگ آس پاس موجود تھے۔ اغوا کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی تھی۔
شاہ میر نے کار، موبائل کے پاس کھڑی کردی اور صفورا سے کہا کہ وہ عدیلہ اور بچوں کے ساتھ گھر میں جائے۔ پھر اس نے زمان شاہ سے کہا کہ وہ ان لوگوں کو اکٹھا کرے جنہوں نے یہ اغوا آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پھر وہ بھی علی رضا کے گھر میں داخل ہوگیا۔
چھوٹا سا گھر تھا۔ معمولی سازوسامان سے آراستہ لیکن خوش سلیقگی کا مظہر۔ شاہ میر ان ضروری جگہوں کی تلاشی لینے لگا جہاں سے اغوا کی اس واردات پر کچھ روشنی پڑ سکتی تھی۔ الماریوں میں رکھے کاغذات اور فائلیں دیکھیں، کوئی اہم چیز نہیں ملی تھی۔
باہر زمان شاہ نے لوگوں سے پوچھ گچھ مکمل کرلی تھی۔ یہاں بھی کوئی خاص بات نہیں پتا چل سکی تھی۔ گاڑی کا نمبر کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ بس اتنا پتا چلا کہ نامعلوم کالی گاڑی میں کچھ لوگ آئے، علی رضا کو باہر بلایا، تھوڑی مارپیٹ ہوئی اور پھر وہ علی رضا کو گاڑی میں ڈال کر ہوا ہوگئے۔
چند افراد کے نام گواہوں میں ڈالے گئے۔ پڑوسیوں نے علی رضا کے بارے میں اچھے تاثرات دیئے تھے۔ عدیلہ کو تسلیاں دینے کے بعد یہ لوگ وہاں سے چل پڑے۔ شاہ میر نے زمان شاہ سے کہا۔ ’’تم صفورا کے ساتھ تھانے چلو، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔‘‘
وہ اس بڑی فرم کے ہیڈ آفس پہنچا جہاں رضا کام کرتا تھا۔ وہ سیدھا منیجر کے پاس پہنچا تھا۔ منیجر درمیانی عمر کا اچھی پرسنلٹی کا شخص تھا۔
’’خیریت انسپکٹر صاحب، ہم سے کیا کام پڑ گیا؟‘‘
’’آپ کا اسسٹنٹ منیجر اغوا ہوگیا ہے، آپ نے پولیس سے رجوع کیا، نہ اس کی کوئی خبر گیری کی۔‘‘ شاہ میر نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’وہ اپنے گھر سے اغوا ہوا ہے۔ ہم کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ ہمارا تعلق صرف آفس تک ہے۔‘‘
’’ویری گڈ۔ آپ کسی سیارے سے آئے ہیں۔ اس سیارے کی لغت میں انسانیت کا لفظ ہے یا نہیں۔ اس کی بیوی نے آپ کو فون پر اطلاع دی۔ آپ نے پلٹ کر اسے فون تک نہیں کیا۔‘‘
’’یہ وردی جو آپ کے جسم پر ہے انسپکٹر صاحب، یہ بہت سے اختیارات دے دیتی ہے ورنہ اتنی سخت
گوئی مناسب نہیں۔‘‘ منیجر نے خشک لہجے میں کہا۔
’’میں اسی اختیار کے حوالے سے آپ سے بات کررہا ہوں۔ آپ کا فرض تھا کہ اغوا کا پتا چلنے کے بعد آپ فوری طور پر علی رضا کے گھر جاکر معلومات کرتے اور پھر پولیس کو اطلاع دیتے۔ آپ نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، اس کی وجہ ضرور ہوگی۔‘‘
’’آپ مجھے اس اغوا میں ملوث کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’مغوی کی بیوی نے فوری طور پر آپ سے رابطہ کیا لیکن آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے یہ تفصیل اپنی ایف آئی آر میں درج کرائی ہے۔‘‘
’’چلئے آپ نے مجھ پر فردجرم عائد کردی۔ اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘
’’آرام سے آپ اس ریوالونگ چیئر پر بیٹھ کر جھولا جھولیے، ضروری کارروائی کے لئے آپ کو تھانے طلب کیا جائے گا۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پیچھے سے منیجر نے کچھ کہا تھا جو اس نے نہیں سنا تھا۔
منیجر کا رویہ عجیب تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے علی رضا سے کوئی پُرخاش ہو۔ لیکن شاہ میر ذاتی رنجش کا قائل نہیں تھا۔ منیجر نے جو رویہ اختیار کیا تھا، وہ اس کے مزاج کے خلاف تھا لیکن وہ ابھی صورتحال کو جاننا چاہتا تھا۔ تھانے واپس آکر اس نے صفورا سے اس بارے میں کافی غوروخوص کیا۔
’’صفورا آپ فرصت نکال کر عدیلہ کے گھر چلی جائیں، اس کی تھوڑی سی دلجوئی کردیں۔ خدا کرے علی رضا مل جائے، پتا نہیں کیا قصہ ہے۔‘‘
اس شام چھ بجے کے قریب اسے ایک اجنبی نمبر سے فون موصول ہوا۔
’’تھانہ انچارج صاحب ہیں؟‘‘
’’جی کہیے!‘‘
’’آپ تھانے میں موجود ہیں؟‘‘
’’ہاں، تھانے ہی سے بول رہا ہوں۔‘‘
’’بات کیجئے۔‘‘ بولنے والے نے کہا۔ پھر ایک اور آواز سنائی دی۔ ’’تھانیدار صاحب! آپ نے ہمیں اپنا نام بتایا، نہ کوئی نمبر دیا، بڑی مشکل سے تھانے کے بارے میں معلوم ہوا اور اس کا نمبر ملا۔‘‘
’’آپ کون ہیں؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’آج ہی ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ آپ نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ ریوالونگ چیئر پر بیٹھ کر جھولا جھولیں۔ آپ ہمیں تھانے بلوائیں گے۔‘‘
’’جی۔ یاد آگیا… آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’آنا چاہتے ہیں، آجائیں، آپ کے تھانے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘
’’تشریف لایئے۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور فون بند ہوگیا۔ شاہ میر عجیب کیفیت کا شکار ہوگیا۔ منیجر کی آمد اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ کچھ دیر کے بعد ہی وہ شاہ میر کے آفس میں داخل ہوگیا۔
’’اپنے سیارے سے سیدھے چلے آرہے ہیں آفیسر۔ کہئے کیسے مزاج ہیں؟‘‘
’’آپ کافی پُرمزاح ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘
’’تھوڑی سی معلومات کی ہیں آپ کے بارے میں۔ پتا چلا کہ بھائی بڑی ٹیڑھی کھیر ہیں آپ۔ بھاگے چلے آئے کہ کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔‘‘
’’کاش! آپ اسی طرح علی رضا کے گھر بھی چلے جاتے، اس کی پریشان بیوی کو تسلی دینے کے لئے۔‘‘
’’بات اصل میں یہ ہے کہ ہم زمانہ ساز آدمی ہیں، بیوی اور بچوں کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے ان الفاظ کی تشریح میرے لئے ممکن نہیں۔ آپ پولیس آفیسر ہیں اور نوجوان۔ خدا آپ کو اپنی امان میں رکھے، ہم کٹھ پتلیاں ہیں، اشاروں پر ناچنے والے، اگر ہم ان اشاروں پر نہ ناچیں تو ہماری ڈور ٹوٹ جائے گی، ہم بے جان پتلیوں کی طرح زمیں بوس ہوجائیں گے۔‘‘
’’جی۔‘‘ شاہ میر آہستہ سے بولا۔ ’’آگے فرمایئے؟‘‘
’’علی رضا میں ایک بڑی خرابی ہے کہ نیکیوں کا ٹھیکیدار ہے۔ اس سے کوئی غلط کام نہیں کرایا جاسکتا، کسی قیمت پر نہیں، اسی کا وہ شکار ہوگیا۔ میں نے اسے بڑی احتیاط سے سمجھایا تھا۔ اس نے سوچا زیادہ سے زیادہ اسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ ایسا نہیں تھا۔ اس ادارے کی یہ خوبی ہے کہ اس کے چپراسی کو بھی کبھی نوکری سے نہیں نکالا جائے گا اور اگر کسی کی ٹرمینشن اتنی ہی ضروری ہو تو اسے پھر بہت دور بھیج دیا جاتا ہے۔ میں نے وہاں علی رضا کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ میری آواز محفوظ نہیں تھی۔‘‘
’’جی اور اب؟‘‘
’’کچھ نہیں، یہ کچھ نام ہیں، انہیں رکھ لیں۔ شاید کام آجائیں۔‘‘ ریاض نے ایک لفافہ شاہ میر کو دے کر کہا۔
’’ہوسکے تو میرا نام صیغۂ راز میں رکھنا ورنہ آپ کو میرے کیس پر بھی کام کرنا پڑے گا۔ ایک ایسا نام آپ کے سامنے لے رہا ہوں جو بہت سے رازوں کی چابی ہے۔ اس چابی پر قابو پالیا تو ہر راز کا تالا کھل جائے گا۔‘‘
’’کون سا نام؟‘‘
’’خانیہ
یہ ایک خاتون ہیں، بڑی سوشل ورکر۔ میرا خیال ہے کہ اس نام کو سب جانتے ہیں۔‘‘
’’گڈ… مزید؟‘‘ شاہ میر نے دلچسپی سے کہا۔
’’ان کا دست راست ہے دلبر جانی! یہ ڈینی کلب میں پایا جاتا ہے، اسے وہاں سے ٹریس کیا جاسکتا ہے۔ یہ دو نام علی رضا کے سلسلے میں آپ کے کام آسکتے ہیں۔‘‘
’’جی… اور کچھ؟‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’بخدا اس وقت خود کو آزاد محسوس کررہا ہوں۔ مزید کچھ معلوم ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔ میں نے اس وقت بھی آنکھوں سے اشارے کئے تھے مگر آپ نہ سمجھے۔ اس کے بعد سے مسلسل آپ کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر یہاں تک پہنچ گیا۔‘‘
’’خانیہ سکندر کے بارے میں کچھ اور بتا سکتے ہیں؟‘‘
’’جینے دو بھائی۔ مجھ پر ابھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ جتنا بتا دیا، وہی کئی دن تک خوف زدہ رکھے گا۔ اتنا بتا دیتے ہیں کہ وہ کریم گروپ کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر ہے لیکن اصل نام سے نہیں، اتنا کافی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ریاض صاحب۔ آپ کا شکریہ ضرور ادا کروں گا۔ ہوسکتا ہے آپ سے دوبارہ رابطے کی ضرورت پیش آئے۔‘‘
’’کرم کرنا، سب کچھ بتا چکا ہوں۔‘‘
ریاض احمد کے جانے کے بعد شاہ میر دیر تک سوچ میں ڈوبا رہا۔ یہ دونوں نام اس کے لئے اجنبی تھے۔ خانیہ سکندر اور دلبر جانی۔ ریاض احمد نے علی رضا کے اغوا کے سلسلے میں یہ دو نام بلاوجہ ہی نہ لئے ہوں گے۔
زمان شاہ کی آمد نے خیالات کا سلسلہ توڑ دیا۔ زمان شاہ کچھ ضروری امور کے بارے میں بتانے لگا۔ جب اس کام سے فراغت ہوئی تو شاہ میر نے کہا۔ ’’زمان شاہ! کبھی خانیہ سکندر کا نام سنا ہے؟‘‘
’’اچھی طرح سر۔‘‘ زمان شاہ نے جواب دیا اور شاہ میر سنبھل کر بیٹھ گیا۔
’’کون ہے؟‘‘
’’بڑی دبنگ عورت ہے، سوشل ورکر بھی ہے اور بڑی سرمایہ دار بھی۔ بڑے بڑے عہدیدار اس کے حضور حاضری دیتے ہیں۔ اکثر اخبارات اس کے گن گاتے ہیں۔‘‘
’’تعجب ہے، میرے علم میں یہ نام نہیں۔ کس طرح کی عورت ہے؟‘‘
’’کوئی ایسی ویسی بات نہیں سنی اس کے بارے میں۔‘‘
’’دلبر جانی کو بھی جانتے ہو؟‘‘
’’وہ خانیہ کا گرگا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’خانیہ سکندر کہاں رہتی ہے؟‘‘
’’گرین ایونیو میں عالیشان کوٹھی ہے۔‘‘
’’اے چیک کرو۔ اس کے بارے میں تفصیلی رپورٹ چاہئے۔‘‘
’’بہتر۔‘‘ زمان شاہ نے کہا۔
دوسرے دن تھانے پہنچا تو صفورا نکھری نکھری سامنے موجود تھی۔ ’’کمال ہے۔‘‘ شاہ میر نے حیران لہجے میں کہا۔
’’جی سر۔ کوئی خاص بات؟‘‘
’’حالانکہ میں نے پہلے کبھی ایسی باتوں پر توجہ نہیں دی۔‘‘
’’کیسی باتیں؟‘‘ صفورا نے حیرت سے کہا۔
’’ابھی آتے ہوئے راستے میں ایک فال کھولنے والا نظر آگیا۔ پتا نہیں کیوں دل چاہا کہ طوطے سے اپنی تقدیر کے بارے میں معلوم کروں۔ طوطے نے لفافہ نکال کر دیا۔ جانتی ہو کیا لکھا تھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ صفورا ہنس کر بولی۔
’’لکھا تھا دفتر میں اکیلی بیٹھی ہے، جلدی جائو۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور صفورا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پھر سنجیدہ ہوکر بولی۔ ’’علی رضا کے گھر گئی تھی، بڑی تسلیاں دی ہیں میں نے اسے، اس کا خوف کافی حد تک کم کیا ہے۔ خدا کرے علی رضا زندہ سلامت واپس آجائے۔‘‘
’’صفورا کسی خانیہ سکندر کو جانتی ہو؟‘‘
’’بڑی اچھی طرح۔ مشہور عورت ہے خاص طور سے میں اسے اس طرح جانتی ہوں کہ کفایت حسین میرے ماموں ہیں، آپ سے ان کی ملاقات ہوچکی ہے۔‘‘
’’بیرسٹر کفایت حسین؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’ہاں۔ انہوں نے خانیہ سکندر کے بارے میں بتایا تھا کہ ان کے پاس قتل کا ایک کیس آیا تھا۔ ماموں جان کو علم ہوگیا کہ قاتل نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے وہ کیس نہیں لیا لیکن قاتل آسانی سے بری ہوگیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’ان لوگوں نے خانیہ سے دعا کرائی تھی۔‘‘
’’اوہ… روحانیت سے بھی تعلق ہے۔‘‘
’’باقاعدہ نہیں، لیکن سنا ہے جس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پھونک دیتی ہیں، اس کے بگڑے کام بن جاتے ہیں۔‘‘
’’زبردست۔ اس کا مطلب ہے کہ اس بار پھر کیس ہمارے معیار کا ملا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ صفورا نے دلچسپی سے پوچھا اور شاہ میر اسے ریاض احمد کی آمد اور اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتانے لگا۔ اس نے وہ لفافہ بھی صفورا کو دکھایا جس میں کچھ عمارتوں کی تصویریں تھیں اور کچھ کاغذات کی نقول تھیں۔
’’ہمیں ان پر کام کرنا ہے۔ چھوٹی بات سے آغاز ہوا ہے یعنی علی رضا کا اغوا لیکن کیس کے ڈانڈے پھیلتے جارہے ہیں۔ ویسے
بات سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’دلبر جانی کی خصوصی نشاندہی کی گئی ہے۔ ریاض نے بتایا ہے کہ وہ خانیہ سکندر کا دست راست ہے۔ نام سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس قسم کا آدمی ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ علی رضا کے سلسلے میں یہ دونوں نام یعنی خانیہ سکندر اور دلبر جانی بہت اہم ہیں، تو کیوں نہ دلبر جانی پر ہاتھ ڈال دیا جائے۔‘‘
’’گرفتار کریں گے؟‘‘ صفورا نے پوچھا۔
’’ہاں۔ کوئی بہتر ترکیب کریں گے۔‘‘
’’خانیہ سے براہ راست ٹکرائو ہوجائے گا۔‘‘
’’اسے چھیڑنا چاہتا ہوں لیکن فوراً نہیں، ذرا اس کے بارے میں مزید تفصیل پتا چل جائے، زمان شاہ کام کررہا ہے، تم کسی مناسب آدمی کو ان عمارات کی تلاش پر لگا دو۔ ہاں علی رضا کے گھر پہرہ جاری ہے؟‘‘
’’ہاں، میں نے بندوں کو مزید چوکس کردیا ہے۔‘‘ صفورا نے جواب دیا۔
دن کے دو بجے زمان شاہ نے اطلاع دی۔ ’’گرین ایونیو کے کیس کے بارے میں رپورٹ پیش ہے سر۔ خانیہ بے پناہ دولت مند عورت ہے، کئی انڈسٹریز کی مالک ہے لیکن فقیر منش ہے۔ بہت سے خیراتی ادارے چلاتی ہے۔ بڑے بڑے عہدیداروں کے تبادلے کراتی اور رکواتی ہے۔ اس کے دربار میں ہر ایک کا گزر ہے۔ وہاں غریب لوگ بھی دیکھے جاتے ہیں اور فلیگ والی گاڑیوں کے مالک بھی۔ علاقے اور کوٹھی کے بارے میں بتا چکا ہوں، اس کی اپنی سیکورٹی ہے۔‘‘
’’ٹھیک، کافی ہے۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
٭…٭…٭
ڈینی کلب کی عمارت بے حد خوبصورت تھی۔ ظاہر ہے ایسی جگہوں پر آنے والے بھی معمولی لوگ نہیں ہوتے۔ پارکنگ میں قیمتی گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ پولیس موبائل ان گاڑیوں سے کچھ فاصلے پر رکی تھی اور اس سے کئی پولیس کے جوان نیچے اترے تھے۔ کلب کے کچھ قوانین بے شک تھے لیکن قانون کے رکھوالوں کے راستے نہیں روکے جاسکتے اور پھر شاہ میر جیسا سرپھرا افسر اگر کسی سلسلے میں فری ہینڈ دے دے تو ہر کام کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ زمان شاہ نے کسی طرف توجہ نہیں دی تھی اور دندناتا ہوا کلب میں داخل ہوگیا۔
جیسے ہی اس نے اندر قدم رکھا، ایک چھریرے بدن کا آدمی اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے مدھم لہجے میں کہا۔ ’’اس راہداری سے بائیں سمت ہال نمبر پانچ، ٹیبل نمبر بیس گرے کلر کے سوٹ میں ملبوس، اپنی میز پر اکیلا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ شخص جس طرف سے آیا تھا، واپس چلا گیا۔
زمان شاہ نے ہاتھ کے اشارے سے ساتھ آنے والوں کو اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا اور راہداری میں آگے بڑھ گیا۔ بائیں سمت گھوما تو ہال نمبر پانچ کا ہندسہ نظر آگیا۔ ہال کے اندر سے موسیقی کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ شاہ زمان نے خودکار دروازہ کھولا اور پولیس والے دھڑدھڑاتے اندر گھس گئے۔ اندر داخل ہوکر زمان شاہ نے بیس نمبر ٹیبل تلاش کی۔ ان میزوں پر بھی نمبر پڑے ہوئے تھے۔ پولیس کے جوان اس میز کے گرد جا کھڑے ہوئے۔
کلب میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ اندر موجود لوگوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔ ہال کے سپروائزر نے دور سے یہ منظر دیکھا اور دوڑتا ہوا زمان شاہ کے پاس پہنچ گیا۔ ’’کیا بات ہے جناب، آپ لوگ اس طرح؟‘‘ اس کے منہ سے نکلا لیکن زمان شاہ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور پستول نکال کر گرے کلر کے سوٹ والے کی پیشانی سے لگا کر بولا۔ ’’دلبر جانی، کھڑے ہوجائو۔‘‘
گرے کلر کے سوٹ والے کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس کا چہرہ ہی خطرناک تھا۔ آنکھیں خونیوں جیسی تھیں۔ اس نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’کیا تم نشے میں ہو یا پاگل ہوگئے ہو؟‘‘
’’تمہارا نام دلبر جانی ہے؟‘‘
’’ہاں ہے۔ پھر؟‘‘
’’کھڑے ہوجائو۔‘‘ زمان شاہ نے سخت لہجے میں کہا۔
’’تمہاری زندگی کے دن پورے ہوگئے ہیں شاید۔‘‘ دلبر جانی غصے سے بے قابو ہوگیا۔ اس نے پستول پر ہاتھ مارنے کی کوشش کی لیکن زمان شاہ نے اس کی ٹائی پکڑ لی اور اسے کھینچ کر کرسی سے کھڑا کردیا۔ ٹائی کی گرہ اس کی گردن پر کس گئی تھی اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ زمان شاہ نے اسے پولیس مینوں کی طرف دھکا دیا اور بولا۔ ’’ہتھکڑی لگا دو۔‘‘
اسی وقت برابر کی میز سے ایک خوش پوش شخص نے کھڑے ہوکر کہا۔ ’’آفیسر، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے، یہ معزز لوگوں کا کلب ہے، یہاں سے کوئی کسی کو اس طرح گرفتار کرکے نہیں…‘‘
زمان شاہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے کرسی پر بٹھا دیا اور بولا۔ ’’جو کچھ کہا جارہا ہے، اس میں کوئی مداخلت نہ کرے ورنہ خود
ذمہ دار ہوگا۔ ہم ایک مجرم کو گرفتار کررہے ہیں، کوئی کچھ نہ بولے۔‘‘ یہ کہہ کر زمان شاہ نے دلبر جانی کو دھکا دیا۔ اور وہ گرتے گرتے بچا۔ پولیس والوں نے اسے ہتھکڑی لگا دی اور آگے کھینچنے لگے۔
اچانک دلبر رکا۔ اس نے پلٹ کر چیختے ہوئے کہا۔ ’’نہیں، کوئی غیرقانونی حرکت نہ کی جائے۔ ہم قانون کا احترام کرتے ہیں۔ اس پولیس افسر کے کفن دفن کا انتظام میں خود کردوں گا۔‘‘ دلبر نے یہ الفاظ کسی خاص شخص کو مخاطب کرکے نہیں کہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ نامعلوم لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہو۔
زمان شاہ اسے ٹھوکریں مارتا ہوا باہر لے آیا۔ باہر آکر پولیس والوں نے دلبر جانی کو سامان کے بورے کی طرح اٹھا کر موبائل وین میں پھینک دیا اور اوپر چڑھ گئے۔ غالباً شاہ میر نے کسی خاص منصوبے کے تحت زمان شاہ کو دلبر جانی کے ساتھ یہ روش اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔
وین چل پڑی۔ دلبر جانی کا چہرہ آگ ہورہا تھا۔ آنکھیں گہری سرخ ہورہی تھیں، دانت بھنچے ہوئے تھے۔ راستے بھر وہ کچھ نہ بولا۔ تھانے کے احاطے میں بھی اسے اسی بے دردی سے اتارا گیا اور ڈرائنگ روم میں پہنچا دیا گیا۔ یہاں اسے ایک بنچ پر بٹھا دیا گیا، تب پہلی بار اس نے زبان کھولی اور بولا۔ ’’تھانہ انچارج کہاں ہے؟‘‘
’’علی رضا کہاں ہے؟‘‘ زمان شاہ نے سانپ کی طرح پھنکارا۔
دلبر بری طرح چونکا لیکن دوسرے لمحے اس نے خود کو سنبھال لیا۔ ’’کون علی رضا؟‘‘
جواب میں زمان شاہ کا الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر پڑا۔ دلبر جانی خود بھی اپنے تن و توش سے کافی طاقتور نظر آتا تھا لیکن یہ تھپڑ ہتھوڑے کی طرح اس کے گال پر پڑا تھا اور ایک لمحے تک اس کا منہ ٹیڑھا رہا تھا۔ وہ منہ ہلا کر جبڑے کو سیدھا کرتا رہا۔ پھر اس نے خود کو سنبھالا اور بولا۔ ’’سب انسپکٹر! تم نے مجھے ایک ایسے کلب سے اغوا کیا ہے جہاں شہر کے معزز ترین لوگ آتے ہیں۔ وہ سب تمہارے خلاف گواہی دیں گے اور جو کچھ تم نے کیا ہے، اس کی وہ سزا ہوگی کہ تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ اپنے انچارج سے میری بات کرائو۔ تم ضرور مجھے کسی غلط فہمی میں پکڑ لائے ہو۔‘‘
’’بکواس کرچکے؟‘‘ زمان شاہ نے سرد لہجے میں کہا۔
’’میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، وہ بکواس نہیں ہے۔ میں تمہیں معاف کرسکتا ہوں کیونکہ تم سے غلطی ہوگئی ہے ورنہ دوسری صورت میں تمہیں وارننگ دے رہا ہوں کہ تمہیں زندگی بھر اپنے اس عمل پر افسوس…‘‘
اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے زمان شاہ نے ایک گھونسہ اس کے جبڑے پر رسید کیا اور وہ بنچ کے دوسری طرف جاگرا۔ اس بار اس کے منہ سے خون نکل پڑا تھا۔
’’میں پھر تجھے سمجھا رہا ہوں باز آجا۔‘‘ دلبر جانی نے کہا اور پھر گالیاں بکنے لگا۔
’’ہتھکڑی کھولو اس کی۔‘‘ زمان شاہ کو نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔ پتا نہیں شاہ میر نے اسے کیا ہدایات دی تھیں۔ دلبر کی ہتھکڑی کھول دی گئی۔ اس نے پہلے اپنے منہ سے بہتا خون صاف کیا پھر دونوں ہاتھ ٹکا کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن زمان شاہ نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ کئی بار دلبر جانی کے حلق سے چیخیں نکل گئی تھیں۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ سامنے والا بھی کوئی وحشی شخص ہے اور اب اس کے حواس درست ہوتے جارہے تھے۔ اس نے پھٹی پھٹی آواز میں کہا۔ ’’رک جائو، رک جائو۔ مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’علی رضا کہاں ہے؟‘‘ زمان شاہ بھیڑیئے کی طرح غرایا۔
’’بتاتا ہوں، رک جائو۔ میری پسلیوں میں چوٹ لگ گئی ہے، پسلی ٹوٹ گئی ہے شاید… رکو بتاتا ہوں۔‘‘ اس نے زمان شاہ کا چہرہ دیکھا جو بے حد بھیانک ہوگیا تھا۔ فاصلے پر کھڑے پولیس والے بھی حیران تھے۔ کبھی کبھی انہوں نے اسے مجرموں کی زبان کھلواتے دیکھا تھا لیکن اس حد تک اس نے کبھی تشدد نہیں کیا تھا۔
’’اٹھو۔‘‘ زمان شاہ نے کہا اور خوفناک انداز میں آگے بڑھا۔ دلبر جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ زمان شاہ نے اسے پھر بنچ پر بیٹھنے کے لئے کہا۔
’’پانی… ایک گلاس پانی۔‘‘
’’علی رضا کہاں ہے، صرف یہ بتائو؟‘‘ زمان شاہ نے کہا۔ زمان شاہ نے ٹھوکر مارنے کے لئے پائوں اٹھایا۔
’’پیلی کوٹھی میں۔‘‘ وہ جلدی سے بولا۔
’’کہاں ہے یہ پیلی کوٹھی؟‘‘
’’نئی آبادی، ایئرپورٹ کے پاس۔ نئی آبادی میں داخل ہوکر سیدھے ہاتھ چلے جائو، کمپنی کے بنائے ہوئے گھر ہیں، پیلی کوٹھی آخری ہے۔‘‘
زمان شاہ نے کچھ سوچا۔ پھر اس نے اے ایس
دلاور خان کے بارے میں پوچھا اور اسے طلب کرلیا۔ دلاور خان نے اندر آکر سلوٹ کیا۔
’’دلاور! نفری تیار کرلو، چھاپہ مار کر بندہ برآمد کرنا ہے، جلدی کرو اور سنو تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہے۔‘‘ اس نے دلبر جانی سے کہا اور وہ ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
زمان شاہ اس خطرناک آدمی کو ایک منٹ کے لئے نظروں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نیز وہ اس کام میں دیر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس نے اسے کلب سے اٹھایا ہے، عین ممکن ہے وہاں اس کے ساتھی بھی ہوں اور انہوں نے اس کا پیچھا بھی کیا ہو۔ اس سے پہلے کہ کوئی گڑبڑ ہوجائے، کام پورا ہوجانا چاہئے۔ دلبر جانی کا منہ ہاتھ دھلوایا گیا، اسے پانی بھی پلوایا گیا لیکن جب دلبر جانی کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈالی گئیں تو وہ پھر غضبناک ہوگیا۔
’’جتنی جلدی ہو میرا ان کائونٹر کردینا۔ تیرے ہاتھ سے نکل گیا تو تیری نسل ختم کردوں گا۔ میں تیرا بندہ آزاد کرا رہا ہوں اور تو میرے ساتھ یہ سلوک کررہا ہے؟‘‘
زمان شاہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ باہر پولیس کی نفری تیار ہوگئی تھی۔ پولیس کی ایک بڑی گاڑی اور جیپ چل پڑی جس میں مسلح پولیس والے خاصی تعداد میں تھے۔ پولیس کی دونوں گاڑیاں برق رفتاری سے فاصلے طے کررہی تھیں۔ دلبر جانی پر جو بیت رہی تھی، اسی کا دل جانتا تھا۔ آج رات تک اس نے جو زندگی گزاری تھی، وہ یوں تھی کہ اس کی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھ سکتی تھی لیکن اب وہ جس حالت سے گزر رہا تھا، وہ کبھی اس کے تصور میں بھی نہیں آئی ہوگی اور خاص طور سے ان دنوں وہ جن بلندیوں سے گزر رہا تھا، وہ تو اس کی زندگی کا سب سے سنہری دور تھا۔ اسے یقین دلا دیا گیا تھا کہ وہ ایک آزاد درندہ ہے جس کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔
آخرکار گاڑیاں مطلوبہ علاقے میں داخل ہوگئیں۔ پیلی کوٹھی کی نشاندہی دلبر نے ہی کی تھی۔ کوٹھی تاریک اور سنسان پڑی تھی۔ گاڑیاں اس سے تھوڑے فاصلے پر رک گئیں۔ ایک ایس آئی کو دلبر جانی پر مستعد کردیا گیا اور وہ پستول کی نال اس کی پسلیوں سے لگا کر بیٹھ گیا۔
زمان شاہ نیچے اترا اور کچھ کانسٹیبلوں کو ساتھ لے کر کوٹھی کی طرف بڑھ گیا۔ چند لمحے سن گن لینے کے بعد اس نے اشارہ کیا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گیٹ کے دوسری طرف کود گیا لیکن دوسرے لمحے کوٹھی میں روشنیاں ہونے لگیں اور یہ لوگ خود بھی روشنیوں کی زد میں آگئے۔ اندر سے فوراً ہی ایکشن ہوا اور فائرنگ شروع ہوگئی۔ خوش قسمتی سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا کیونکہ یہ فائرنگ بدحواسی میں کی گئی تھی۔ ان لوگوں نے فوراً پوزیشن لے لی اور پھرتی سے آگے بڑھ کر ایک محفوظ جگہ پہنچ گئے۔
باہر موجود پولیس کے جوانوں نے صورتحال کا اندازہ لگانے کے بعد خود بھی فائرنگ شروع کردی اور رات کا سناٹا فائرنگ کی ہولناک آواز سے گونجنے لگا۔
پیلی کوٹھی کے اطراف زیادہ لوگ آباد نہیں تھے کیونکہ یہ نئی آبادی تھی۔ پھر بھی اکادکا گھر روشن ہونے لگے لیکن ان گھروں سے کسی نے باہر آنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ زمان شاہ اندر سے چلائی جانے والی گولیوں سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا کہ اندر کتنے آدمی ہوسکتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد تین چار سے زیادہ نہیں تھی۔ ابتداء میں تو اندر سے زبردست فائرنگ کی گئی لیکن آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی۔
زمان شاہ تجربہ کار افسر تھا۔ اس نے صورتحال کا اندازہ لگانے کے بعد اپنے ساتھ موجود اے ایس آئی کو اشارہ کیا اور محفوظ طریقے سے آگے بڑھ کر کوٹھی کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوگیا۔ اندر سے فائرنگ رک گئی تھی۔ یہ لوگ آہٹ لیتے رہے۔ لیکن لگ رہا تھا کہ اب یہاں کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ زمان شاہ نے ٹارچ روشن کی۔ یہ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں کئی دروازے تھے۔ اسے سوئچ بورڈ نظر آگیا اور اس نے پھرتی سے آگے بڑھ کر روشنی کردی۔ اس صورتحال سے واقف ہوکر باہر سے دوسرے پولیس والے بھی بھرا مار کر اندر گھس آئے اور کوٹھی کی تلاشی لی جانے لگی۔ کوٹھی کے مکین پُراسرار طور پر غائب ہوگئے تھے لیکن ایک کمرے سے انہیں ایک نوجوان شخص مل گیا جس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور اس کے منہ پر ٹیپ لگا ہوا تھا۔
زمان شاہ کا دل خوشی سے اچھل پڑا۔ اس کے اندازے کے مطابق یہ علی رضا ہی ہوسکتا تھا۔ بندھے ہوئے شخص کے منہ سے ٹیپ ہٹا کر اس کے
پائوں کھولے گئے۔ وہ بری طرح نڈھال تھا، اس پر شدید تشدد کیا گیا تھا، بدن پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے۔
’’تم علی رضا ہو؟‘‘ زمان شاہ نے پوچھا۔
’’جی سر۔‘‘ اس نے نحیف آواز میں کہا۔
اسے سہارا دے کر باہر لایا گیا۔ ایک بار پھر پوری عمارت کی تلاشی لی گئی۔ وہاں کسی ذی روح کا نشانہ نہیں ملا۔ یہاں موجود لوگ پچھلے راستے سے باہر نکل گئے تھے۔ کوئی خاص چیز بھی نہیں ملی۔ خطرناک جگہ تھی اس لئے وہاں پولیس کے جوانوں کو نہیں چھوڑا گیا اور پولیس پارٹی عمارت سے واپس چل پڑی۔ علی رضا حیرت انگیز طور پر آسانی سے برآمد ہوگیا تھا اور زمان شاہ اس غیر متوقع کامیابی پر بہت خوش تھا۔ دلبر جانی دم بخود بیٹھا ہوا تھا۔ پتا نہیں اس کے کیا تاثرات تھے۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں تھی۔ ابھی یہ نئی آبادی کے آخری سرے پر ہی پہنچے تھے کہ اچانک پولیس کی گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ شاید جان بوجھ کر صرف ٹائروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس خوفناک عمل کی توقع نہیں تھی۔ دونوں گاڑیوں کے ٹائر دھماکوں سے پھٹ گئے۔ ابھی یہ لوگ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ایک گولہ گاڑیوں کے قریب آکر پھٹا اور سفید دھویں کا غبار فضا میں پھیل گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے ویسے ہی کئی گولے ان کے آس پاس گرے اور فضا میں شدید گیس پھیل گئی۔
زمان شاہ کو ایک لمحے میں احساس ہوگیا کہ یہ گیس بے ہوش کرنے والی ہے۔ پولیس بھی اکثر یہ گیس چھپے ہوئے مجرموں کو پکڑنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ اس نے چیخ کر ساتھیوں کو ہوشیار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ خود بھی نہیں سنبھل سکا تھا۔ گیس اتنی سریع الاثر تھی کہ ایک لمحے میں کام ہوگیا۔ زمان شاہ کو ہلکی سی کھانسی آئی اور پھر اس کا ذہن بوجھل ہوتا گیا۔ اس نے ہاتھ پائوں مار کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ ہوسکا اور اس کے حواس جواب دے گئے۔
٭…٭…٭
بہت سنگین حادثہ تھا۔ پولیس والے بے ہوش ضرور ہوئے تھے لیکن شکر تھا کہ کسی کی جان نہیں گئی تھی البتہ وہ لوگ علی رضا کو دوبارہ لے گئے تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہوئی تھی کہ علی رضا کو دوبارہ لے جانے والوں کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ دلبر جانی بھی پولیس کے ساتھ موجود ہے۔ ظاہر ہے دلبر جانی بھی گیس کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا تھا، اس لئے وہ انہیں اپنے بارے میں نہیں بتا سکا ورنہ وہ اسے بھی ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ دلبر جانی بدستور پولیس کی تحویل میں تھا لیکن اس حادثے سے افسران بالا بے تعلق نہیں رہے اور شاہ میر کو پوری رپورٹ افسران اور متعلقہ حکام کو پیش کرنی پڑی۔
سب سے دلچسپ صورتحال اس وقت پیش آئی جب کئی بڑے افسر تھانے میں آئے اور شاہ میر سے اس حادثے کے بارے میں پوچھ گچھ ہونے لگی۔ ظاہر ہے شاہ میر کو دلبر جانی کے بارے میں بھی بتانا پڑا۔ ایک بڑے افسر نے چونک کر کہا۔ ’’کیا نام بتایا آپ نے انسپکٹر؟‘‘
’’دلبر جانی۔‘‘
’’ذرا اسے بلایئے۔‘‘ اعلیٰ افسر نے کہا۔ اور شاہ میر نے دلبر کو لاک اپ سے آفس میں طلب کیا۔ دلبر کی حالت کافی خراب ہورہی تھی۔ افسر اعلیٰ اسے دیکھ کر چونک پڑا اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ ’’ارے دلبر صاحب آپ؟‘‘
’’ہاں! پہچان لیا ہمیں ذوالفقار صاحب۔ ہم ہی ہیں آپ کے خادم، حال دیکھ لیں ہمارا۔ آپ کے ان تیس مار خانوں نے کیا ہے اور یہ نہ سمجھیں آپ کہ یہ مذاق معمولی رہے گا۔ آپ نے ہمیں چھیڑا ہے اور ہم چھیڑنے والوں کو نہیں چھوڑتے۔ کہا تھا ہم نے اس گبر سنگھ سے کہ اِن کائونٹر کردے ہمارا ورنہ…‘‘
’’انسپکٹر شاہ میر، آپ دلبر صاحب کو نہیں پہچانتے۔‘‘
’’نہیں سر۔ ان سے میرا کبھی تعارف نہیں ہوا۔‘‘
’’کمال کرتے ہیں آپ، کیسے پولیس افسر ہیں، اتنے اہم لوگوں کو نہیں پہچانتے۔ آپ کو ان کی شناخت ہونی چاہئے، آپ معزز لوگوں اور لچے لفنگوں کا فرق نہیں سمجھتے۔ یہ کیا کیا آپ نے، اتنی بڑی شخصیت کے ساتھ یہ سلوک کرکے آپ نے اپنے لئے جتنا گہرا گڑھا کھودا ہے، آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔‘‘
’’سر، میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس وقت بھی پہلی بار میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
افسر اعلیٰ نے شاہ میر کی بات پر توجہ نہیں دی تھی۔ انہوں نے میز پر گھونسا مارتے ہوئے شدید غصے سے کہا۔ ’’بہت غلط کام کیا ہے آپ نے، آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ آپ دلبر صاحب براہ کرم تشریف رکھئے۔‘‘
’’نہیں ذوالفقار صاحب، تشریف
رکھنے کا مطلب ہوگا کہ بات ختم ہوگئی، یہ اب مشکل ہے، یہ جھگڑا لمبا چلے گا، بہت کچھ اوپر نیچے ہوگا، بڑے کام ہوں گے۔‘‘ دلبر جانی نے زہریلے لہجے میں کہا۔
’’آپ نے انہیں ڈینی کلب سے گرفتار کیا ہے؟‘‘
’’سر، ایک ایس آئی نے انہیں کلب سے اٹھایا ہے۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’آپ کہاں تھے؟‘‘
’’میں دوسرے کیس پر کام کررہا تھا۔‘‘
’’ایس آئی کہاں ہے؟‘‘
’’رائونڈ پر ہے سر۔‘‘
’’مگر گرفتاری تو آپ کی ہدایت پر ہوئی ہوگی؟‘‘
’’جی سر۔ ایف آئی آر ہے ان کی۔‘‘ شاہ میر مشکل سے خود پر قابو پا رہا تھا۔
’’اور تشدد بھی کیا گیا ہے؟‘‘
’’اس کا رزلٹ بھی ملا ہے سر۔ پوری رپورٹ پڑھ لیجئے، ان کی نشاندہی پر مغوی برآمد ہوا تھا، ان کے آدمیوں نے پولیس پارٹی پر قاتلانہ حملہ کرکے مغوی کو دوبارہ اغوا کیا ہے۔‘‘
’’ان کے گروہ نے حملہ کیا اور انہیں چھوڑ گئے؟‘‘
’’انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ خود بھی بے ہوش ہوگئے تھے۔ سر! کیس سنگین نوعیت کا ہے، اغوا کی ایف آئی آر درج ہے، باقی کام بعد میں ہوگا۔‘‘ شاہ میر نے صبر و سکون سے کہا۔
’’یہ ایک معزز آدمی ہیں، اس کی گواہی میں دیتا ہوں۔‘‘ افسر صاحب نے کہا۔
’’یہ گواہی عدالت میں ہی دی جاسکتی ہے سر۔ جائو انہیں لاک اَپ میں لے جائو۔‘‘ شاہ میر نے پتھریلے لہجے میں کہا اور دلبر جانی کو لانے والے اسے دھکے دیتے ہوئے باہر نکال لے گئے۔
(جاری ہے)