افسر اعلیٰ کا چہرہ ایک لمحے کے لئے سرخ ہو گیا۔ ان کی مٹھیاں بھنچ گئی تھیں جو کچھ لمحوں کے بعد کھل گئیں۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’پیلی کوٹھی کے بارے میں آپ نے معلوم کیا کس کی ملکیت ہے۔ نیز یہ کہ آپ کے پاس ٹھوس ثبوت ہے کہ علی رضا کو دلبر جانی نے ہی اغوا کیا ہے اور وہ لوگ دلبر جانی کے ہی آدمی تھے جنہوں نے علی رضا کو دوبارہ اغوا کیا؟‘‘
’’سر انہوں نے مغوی کی نشاندہی کی تھی اور اسی نشاندہی پر ہم پیلی کوٹھی پہنچے تھے جہاں سے مغوی دستیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔‘‘
’’گنجائش نکالنی پڑتی ہے شاہ میر صاحب۔ بندے بندے کو دیکھنا پڑتا ہے۔ سب کو علم ہے وہ خانیہ سکندر کا خاص آدمی ہے اور خانیہ سکندر کیا ہے، یہ آپ جانتے ہیں۔‘‘
’’سر، آپ کی یہ وردی ایک ہزار خانیائوں سے زیادہ طاقتور ہے۔‘‘ شاہ میر نے کہا، اور اس کے ان الفاظ نے افسر اعلیٰ کو کافی نرم کر دیا۔ انہوں نے کہا۔ ’’محکمہ پولیس میں آپ کو مجرم خور کہا جاتا ہے، غلط نہیں ہے لیکن حالات کس قدر بگڑے ہوئے ہیں۔ قانون خود قیدی ہے۔ خیر ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائو۔ اس واردات کی خبر تفصیل سے اخبارات میں آنی چاہئے۔‘‘
’’جی سر، اگر اس کی ضمانت کی کوشش کی جائے۔ ‘‘
’’سختی سے ٹال جائو۔ کہو ابھی تفتیش جاری ہے۔‘‘ افسر اعلیٰ نے کہا۔ پھر بولے۔ ’’میرا رویہ سخت ہی رہے گا، اسے محسوس مت کرنا، مقابلہ بہت سخت ہو گا ہمارے لئے۔ ویسے تمہیں اپنی زندگی اور نوکری ہمیشہ دائو پر لگانے کا شوق کیوں ہے۔‘‘
شاہ میرمسکرا کر خاموش ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
علی رضا کو ہوش آ گیا۔ آنکھیں خود کھلی تھیں اور مشکل سے یقین آیا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ حواس آہستہ آہستہ جاگ رہے تھے۔ پہلا احساس یہ تھا کہ یہ قید خانہ نہیں ہے۔ پھر یہ کون سی جگہ ہے۔ اسے گزرے لمحات یاد آنے لگے۔ اس کے قید خانے پر پولیس نے ریڈ کیا تھا۔
خوب گولیاں چلی تھیں اور پھر پولیس نے اسے آزاد کر لیا تھا اور اسے لے کر چل پڑی تھی۔ اس کے بعد راستے میں کچھ ہوا تھا وہ زخمی تھا، اس کے حواس قابو میں نہیں تھے، پھر وہ کیسے بے ہوش ہو گیا تھا اور اب اس کی نامانوس جگہ آنکھ کھلی تھی۔
لیکن یہ پولیس اسٹیشن تو نہیں ہے۔ اس نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا اور مدھم روشنی میں اسے جو کچھ نظر آیا، اس نے اس کے حواس معطل کر دیئے۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ اس کی بیوی عدیلہ تھی جو ایک کرسی پر بیٹھی سو رہی تھی۔ وہ خود ایک آرام دہ بیڈ پر لیٹا تھا۔
وہ بے اختیار اُٹھ گیا اوراس کے منہ سے وحشت بھری آواز نکلی۔ ’’عدیلہ۔‘‘
عدیلہ ہڑبڑا کر جاگ گئی۔ بے اختیار ہو کر کرسی سے اٹھی اور اس کے قریب پہنچ گئی۔ اس نے علی رضا کے پائوں چھوتے ہوئے کہا۔ ’’آپ، آپ ٹھیک ہیں، آپ کو ہوش آ گیا۔‘‘ عدیلہ کی آواز آنسوئوں اور مسرت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے اور ہونٹ خوشی سے مسکرا اٹھے تھے۔ ’’ہوش آ گیا آپ کو …کیسی طبیعت ہے۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔‘‘
’’اب نہیں ہے، پہلے تھی۔ وہ تکلیف یہ تھی کہ میں تم سے دور بچوں سے جدا ہوں اور تم میرے لئے پریشان ہو گی۔ بچے مجھے یاد کر رہے ہوں گے۔ مگر عدیلہ خدا کے لئے مجھے بتائو، یہ کون سی جگہ ہے، بھلا …!‘‘
’’آپ کو کافی زخمی کیا گیا ہے۔‘‘ عدیلہ کی آواز سسکی کے ساتھ نکلی۔
علی رضا نے چونک کر اپنے زخموں کو دیکھا، پھر بے اختیار بولا۔ ’’اوہ میرے زخموں پر بینڈیج بھی کی گئی ہے۔ بتا دو یار۔ کیا ہے یہ سب۔ ‘‘ وہ سر پٹکنے لگا۔
’’میں بتاتی ہوں۔ انہوں نے کہا تھا آپ ہوش میں آئیں تو میں آپ کو گرم دودھ دوں۔ بس ابھی آئی۔‘‘ عدیلہ تیزی سے اٹھی اور کمرے کے دروازے سے باہر نکل گئی۔ علی رضا ’’سنو سنو‘‘ کہتا ہی رہ گیا۔ چند ہی لمحوں کے بعد وہ گرم دودھ لے کر واپس آ گئی۔
’’واہ اس سے پہلے ہمیں اپنے سسرال والوں کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔ یہاں تو یوں لگ رہا ہے جیسے اپنی سسرال میں آ گئے ہیں۔ بتا دو سب کچھ ورنہ دماغ کی شریانیں پھٹ جائیں گی۔‘‘ علی رضا نے کہا۔
’’سسرال ہی سمجھیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے۔ شاہ میر بھائی نے سچ مچ مجھے بہن کا مقام دے دیا ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ پولیس کسی کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کر سکتی ہے
۔‘‘
’’پولیس…!‘‘ علی رضا تھکے تھکے لہجے میں بولا۔
’’ہاں، شاہ میر بھائی پولیس افسر ہیں، یہ ان کا فلیٹ ہے۔ وہی آپ کو بازیاب کرا کر لائے ہیں۔ پھر رات کو تین بجے میرے پاس آئے اور مجھے اور بچوں کو لے کر یہاں آ گئے۔ ‘‘
’’پولیس نے۔‘‘ علی رضا کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔ پھر چونک کر کہنے لگا۔ ’’بچے کہاں ہیں؟‘‘
’دوسرے کمرے میں۔‘‘
’’مجھے دکھا دو۔‘‘
’’آپ کو اٹھنے میں تکلیف ہو گی، وہ جاگ جائیں تو میں…‘‘
’’ نہیں، میں اٹھ سکتا ہوں۔‘‘
’’اچھا۔ یہ دودھ تو پی لیں۔‘‘ عدیلہ نے کہا۔
علی رضا نے ایک ہی سانس میں دودھ کا گلاس خالی کر دیا۔ عدیلہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آئی تھی۔ علی رضا کا سر اب بھی چکرا رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ خواب نہیں ہے۔ لیکن عدیلہ اس کے پاس تھی۔ اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی۔
دوسرے کمرے میں دونوں بچے آرام سے بیڈ پر سو رہے تھے۔علی رضا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’خدا… خدا کا شکر ہے، میرے بچے۔‘‘ اس سے آگے نہ بولا گیا۔
’’آیئے، آپ کو بھوک لگ رہی ہے۔ یہاں کچن بھی ہے۔ بھائی مجھے بتا کر گئے ہیں۔‘‘ عدیلہ اسے دوسرے کمرے میں لے آئی۔
’’مجھے اس طلسم کی حقیقت بتا دو عدیلہ، میں سخت حیران ہوں۔‘‘
’’میں بتاتی ہوں۔ آپ اٹھ کر دروازے پر گئے، واپس نہ آئے تو میں…‘‘
عدیلہ نے پولیس اسٹیشن جانے، شاہ میر اور صفورا کے ملنے کی پوری داستان منیجر ریاض صاحب کی بے رخی اور شاہ میر کے عزم کی پوری داستان سنائی اور بولی۔ ’’رات کو تین بجے وہ میرے پاس آئے اور مجھے جگا کر بولے کہ مجھے ان کے ساتھ چلنا ہے۔ جب انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ مل گئے ہیں اور انہوں نے آپ کو آپ کی زندگی کی حفاظت کے لئے اپنے فلیٹ میں رکھا ہے تو میں بے اختیار ہوگئی اور یہاں چلی آئی۔ بھائی نے بچوں کو بھی ساتھ لینے کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کی بینڈیج کی ہے۔ یہاں کوئی اور نہیں ہے۔ آپ، آپ کو اللہ زندہ سلامت رکھے۔‘‘
’’ شاہ میر۔ ‘‘ علی رضا آہستہ سے بولا۔ پھر کہنے لگا۔ ’’اگر ممکن ہے تو میرے لئے چائے بنادو۔‘‘
٭…٭…٭
شاہ میر نے گہری سانس لے کر صفورا کو دیکھا۔ پھر بولا۔ ’’اخبارات کو یہی خبریں دی گئی ہیں لیکن … علی رضا ہمارے پاس ہے۔‘‘
’’ کیا؟‘‘ صفورا حیرت سے چیخ پڑی۔ ’’کیا کہا آپ نے؟‘‘
’’ ہاں، علی رضا میرے پاس ہے۔ میں نے اسے لیک ویو والے فلیٹ میں پہنچا دیا ہے اور اس کی بیوی اس کی دیکھ بھال کررہی ہے۔‘‘
’’ او مائی گاڈ … لیکن اخبارات میں چھپنے والا آپ کا بیان؟‘‘
’’ یہ ضروری تھا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے صفورا۔ بات کسی معمولی سے کیس سے شروع ہوتی ہے لیکن اتنی خطرناک ہوجاتی ہے کہ دانتوں تلے پسینے آجائیں۔ یہ بھی ایسا ہی کیس ہے، ابھی تک یہ پتا نہیں چلا کہ علی رضا کو اغوا کرکے اس پر کیوں تشدد کیا گیا لیکن اسے اغوا کرنے والے بہت خطرناک لوگ ہیں۔ ان کی پہنچ بہت دور تک ہے۔ اس لئے محتاط کھیل شروع کرنا پڑا ہے۔‘‘
’’کیا زمان شاہ کو تفصیل پتا ہے۔ وہ بے چارہ بہت دلبرداشتہ ہے۔ کہہ رہا تھا کہ شاہ جی نے جو ذمے داری میری لگائی تھی، میں اسے پوری نہیں کرسکا اور ہاتھ آیا ہوا علی رضا دوبارہ اغوا ہو گیا۔‘‘
’’میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔ ایسا کرنا ضروری تھا۔ وہ ایک مخلص آدمی ہے۔ اس نے اپنا رول خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے اور اب بھی وہ شکست کے خیال سے دیوانہ ہورہا ہے۔ مجھے اس کی یہی اسپرٹ چاہیے۔‘‘
’’ اوہ کبھی کبھی آپ بالکل نہیں پہچانے جاتے۔‘‘
’’ ارے نہیں، مجھے غور سے ذہن میںبٹھا لو۔ کہیں حجلۂ عروسی میں یہ مت کہہ بیٹھنا کہ سنئے آپ کون ہیں۔‘‘ شاہ میر نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ کچھ بتائیں پلیز۔ زمان شاہ بہت بجھا بجھا سا ہے۔‘‘ صفورا فوراً سنجیدہ ہوگئی۔
’’ جو نام سامنے آئے ہیں، وہ کافی خطرناک ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ علی رضا کا معاملہ کیا ہے لیکن تمہیں کچھ ریاض احمد کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کس طرح میرے پاس آیا تھا۔ وہ اتنا محتاط تھا۔ پھر ہمارے محکمے کے افسر اعلیٰ اس بات پر بہت برہم ہوئے تھے کہ دلبر جانی جیسی اہم شخصیت پر ہاتھ ڈالا گیا۔ بڑی مشکل سے انہیں ہینڈل کیا۔ یہاں بھی خانیہ سکندر کا نام سامنے آیا… اور اب تو براہ راست ٹھن گئی ہے۔ زمان شاہ کے بارے میں تمہیں معلوم ہے کہ دلبر جانی پر ہاتھ ڈالنے
سلسلے میں، اسے کیسے زبردست اختیارات دیئے گئے تھے۔ اسے کلب سے اٹھاتے ہوئے اسپیشل والے پوری طرح چوکس تھے اور مجھے خطرہ تھا کہ کہیں راستے میں زمان شاہ پر حملہ نہ کیا جائے۔ میں خود اسپیشل والوں کی کمان کررہا تھا۔‘‘
’’ آپ خود۔‘‘ صفورا حیرت سے بولی۔
’’ ہاں، کم ازکم دلبر جانی کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ وہ خاصا پاور فل بندہ ہے۔‘‘
’’ پھر… علی رضا دوبارہ آپ کے ہاتھ کیسے لگا؟‘‘
’’یہ کھیل بھی اسپیشل والوں کے تعاون سے ہوا۔ جب زمان شاہ علی رضا کو لے کر پیلی کوٹھی سے چلا تو طے شدہ جگہ اسپیشل والوں نے پولیس پارٹی پر گیس بموں سے حملہ کیا اور علی رضا کو وہاں سے نکال لائے۔‘‘
’’ او مائی گاڈ … لیکن کیوں۔‘‘
’’میں اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ منظر عام پر آنے کے بعد اسے ختم بھی کیا جاسکتا تھا۔ ایسا اس کی زندگی کی حفاظت کے لئے تھا۔‘‘
’’اور دلبر جانی کا کیا کریں گے۔‘‘ صفورا نے کہا۔ شاہ میر مسکرایا پھر بولا۔ ’’میں خانیہ سکندر سے پینگیں بڑھانا چاہتا ہوں۔ دلبر جانی بھی اغوا ہوجاتا تو خانیہ میری طرف توجہ نہ دیتی لیکن دلبر کے سلسلے میں بڑی دلچسپ کشمکش شروع ہوچکی ہے۔‘‘
’’ وہ کیسے؟‘‘
’’ یہ بات تمہارے علم میں ہے کہ دلبر، خانیہ کا خاص بندہ ہے۔ اس کا میرے قبضے میں رہنا اس بات کی ضمانت ہے کہ خانیہ سکندر یا اس کے گرگے مجھ سے رابطہ کریں گے اور یہ چاہیں گے کہ میں اس کیس میں کوئی تبدیلی کروں جبکہ انہیں پتا چل چکا ہے کہ دلبر جانی کے ذریعہ علی رضا برآمد ہوا ہے۔ ویسے زمان شاہ نے دلبر جانی کو کافی توڑ پھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’دوسرے اغوا اور پولیس پارٹی پر بم حملہ کرکے آپ نے کیس میڈیا کے لئے بہت اہم بنا دیا ہے۔ سنسنی خیز کہانیاں سنائی جارہی ہیں، قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ویسے ابھی تک کسی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘‘
’’ نہیں، ویسے ذوالفقار صاحب دلبر جانی کی گرفتاری پر بہت برافروختہ ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میں ان سے معافی مانگ کر دلبر کو ان کے حوالے کردوں گا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ زمان شاہ نے کلب سے جس طرح دلبر جانی کو اٹھایا ہے، اس پر بھی بڑی لے دے ہورہی ہے لیکن دلبر کو اٹھانے سے کافی فائدہ ہوا اور علی رضا برآمد ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ علی رضا کو اغوا کرنے والے کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ لیکن … اندازہ ہورہا ہے کہ صورت حال کافی پیچیدہ ہوجائے گی۔ دلبر جانی کو انڈر گراؤنڈ کرنا ہوگا کیونکہ اب اس کی زندگی شدید خطرے میں پڑ جائے گی۔ جو لوگ علی رضا کے اغوا کے ذمے دار ہیں، وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
’’او مائی گاڈ … آپ کتنا دور تک سوچتے ہیں۔‘‘ صفورا نے پیار بھری نظروں سے شاہ میر کو دیکھ کر کہا۔
’’ہاں غور کرنا پڑتا ہے۔ میں اکثر اپنے اور تمہارے بچوں کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ کس مزاج اور کیسی شکل کے حامل ہوں گے اور ہم ان کے مستقبل کے لئے کیا کریں گے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘ شاہ میر پھر شرارت پر اتر آیا۔
لیکن صفورا ایسی باتوں کو ٹالنے میں ماہر ہوگئی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’عدیلہ تو خوشی سے پاگل ہوگئی ہوگی۔‘‘
’’ اس کا اندازہ تم سے اچھا کون لگا سکتا ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’ اگر میں اغوا ہوجاتا اور اچانک تمہارے پہلو میں ملتا تو تمہاری کیا کیفیت ہوتی۔‘‘
’’ آپ نے ان لوگوں کو شدید پریشان کردیا ہے جو علی رضا کے اغوا کے ذمے دار ہیں۔ وہ مشکل میں پڑگئے ہوں گے کہ دوبارہ علی رضا کو کس نے اغوا کیا۔ ویسے اگر وہ ضرورت سے زیادہ بے وقوف نہیں ہیں تو اسے پولیس کی کوئی چال ہی سمجھیں گے۔‘‘
شاہ میر، صفورا کو غصے سے گھورنے لگا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ شاہ میر نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
’’سنیں۔‘‘ صفورا نے نرم لہجے میں کہا اور شاہ میر نے آنکھیں کھول دیں۔
’’ فلیٹ چلیں۔ میرا مطلب ہے عدیلہ اور علی رضا کے پاس۔‘‘
شاہ میر کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر بولا۔ ’’ چلو۔‘‘
٭…٭…٭
شاہ میر نے کئی بار بیل بجائی لیکن اندر سے جواب نہیں ملا۔ تب اس نے سیل پر عدیلہ کوکال کی اور اسے بتایا کہ وہ دروازے پر کھڑا ہے۔ عدیلہ نے دروازہ کھولا۔ شاہ میر اور صفورا کو دیکھ کر وہ خوشی سے کھل اٹھی۔ پھر جب یہ دونوں اندر داخل ہوگئے تو دروازہ بند کرکے چیخی۔ ’’علی … علی … بھائی آئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ صفورا سے لپٹ گئی۔ صفورا نے بھی اسے
لپٹا لیا تھا۔ علی رضا بھی دونوں بچوں کے ساتھ باہر نکل آیا تھا۔ وہ بڑی ممونیت سے شاہ میر سے ملا اور یہ لوگ ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔
’’کیسی طبیعت ہے علی؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’سر … بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں، لیکن بس اتنا کہوں گا کہ آپ نے مجھے میرے بچوں کی صورت دکھا کر مجھ پر جو احسان کیا ہے، اس کا صلہ صرف اللہ آپ کو دے سکتا ہے۔ دل کی بات کہوں، عدیلہ نے آپ دونوں کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔ اتنا میں کہوں گا کہ اس دور میں ایسے انسان کم ہی نظر آتے ہیں۔‘‘
’’ بس اللہ تعالیٰ کچھ فرائض کی انجام دہی کا حکم دیتا ہے۔ اس سے زیادہ ہم نے آپ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ آپ کو یہاں کوئی تکلیف تونہیں ہے۔‘‘
’’دل میں دعاؤں کا طوفان ہے۔ آپ یقین کریں، آپ نے اپنے فرائض سے ہٹ کر میرے اور میری بیوی بچوں کے لئے جو کچھ کیا ہے، میں … ‘‘ اس کی آواز بھرّا گئی۔ پھر وہ سنبھل کر بولا۔ ’’عدیلہ نے ریاض احمد کی بے اعتنائی کا گلہ کیا ہے۔ میں جانتا ہوں، جوان بیٹیوں کے باپ ہیں، مجبور ہیں۔ ورنہ وہ اتنے برے انسان نہیں ہیں۔‘‘
’’ ہاں، وہ بُرے انسان نہیں ہیں۔ تمہارے مسئلے میں انہوں نے ہی میری رہنمائی کی تھی ورنہ شاید میں تمہیں اتنی آسانی سے بازیاب نہ کراسکتا۔‘‘
’’ کیا؟‘‘ علی رضا اچھل پڑا۔
’’ہاں! سچ یہ ہے کہ ان کی مدد سے ہی یہ سب ممکن ہوسکا ہے۔‘‘ شاہ میر نے ریاض احمد سے رابطے کی پوری تفصیل بتائی اور بتایا کہ دلبر جانی کی نشاندہی ریاض احمد نے ہی کی تھی۔ اس نے ان تصویروں کے بارے میں بھی بتایا تھا۔
علی رضا انگشت بدنداں رہ گیا تھا۔ پھر اس نے گہری سانس لے کر کہا۔ ’’تصویریں آپ کے پاس پہنچ چکی ہیں۔‘‘
’’ہاں! لیکن میں نے ابھی ان پر کام نہیں شروع کیا۔‘‘
’’آپ نے بہت سے بت توڑ دیئے ہیں۔ دلبر جانی خودکو بادشاہ سمجھتا تھا۔ مجال ہے ناک پر مکھی بیٹھنے دے۔ نیز آپ نے ہمیں سب سے بڑا سہارا یہاں لاکر دیا ہے۔ مجھے فکر تھی کہ وہ لوگ عدیلہ اور بچوں کے ذریعہ میری زبان کھلوانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’کیا تم خود کو بہتر محسوس کررہے ہو؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں سر۔‘‘ علی رضا نے ہمت سے کہا۔
’’مجھے اس بارے میں تفصیل بتائو۔‘‘
’’اس سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں سر، کہ یہ پورے وطن کا معاملہ ہے، اسے سرسری طور پر نہ لیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، آگے بولو۔‘‘ شاہ میر نے نرم لہجہ اختیار کیا۔
’’سر، میں ایک معمولی سا آدمی ہوں۔ ایک فرم کا اسسٹنٹ منیجر کلرکوں کی طرح زندگی گزارنے والا، لیکن اس ملک کا شہری، اس سرزمین کا بیٹا، اپنے وطن کا فوجی۔ وہ سرحدوں کی حفاظت کے لئے گولیاں کھاتے ہیں تو ہم بھی وطن کے مقروض ہیں اور اس کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے دشمن… سر! بالکل اتفاق سے ان کی غلطی سے کچھ ایسی باتیں میرے علم میں آگئیں جو میرے وطن کے خلاف ایک سازش کی نشاندہی کرتی تھیں۔ میں اسے سازش ہی کہوں گا۔ منشیات کا زہر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ناکارہ کررہا ہے۔ ہمارا مستقبل تباہ ہورہا ہے۔ میری ڈیوٹی کے دوران ان کی غلطی سے خفیہ فائل مجھ تک پہنچ گئی۔ مجھے کچھ کاروباری فائل دی جانی تھیں جن کے مجھے جواب دینے تھے لیکن دوسری فائل مجھے دے دی گئی جو ان منشیات کے اڈوں کے بارے میں تھی۔ میں نے انہیں پڑھا اور جو کچھ میرے علم میں آگیا، وہ بے حد سنسنی خیز تھا۔ میں بری طرح گھبرا گیا اور میں نے وہ فائل اور تصویریں ریاض صاحب کو دے دیں۔ سر، وہ بری طرح گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں خاموشی اختیار کروں ورنہ مجھے نقصان پہنچ جائے گا۔ انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں کسی کو نہ بتائوں کو یہ فائل انہوں نے بھی دیکھ لی ہے ورنہ ان کی زندگی بھی خطرے میں پڑجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فائل اور تصویریں ان کے پاس چھوڑدی جائیں۔ وہ سوچیں گے کہ کس طرح واپس کی جائیں۔ سر، پھر موقع ہی نہیں ملا۔ انہوں نے مجھے میرے گھر سے اغوا کرلیا۔ پھر انہوں نے مجھ پر شدید تشدد کرکے پوچھا کہ فائل کہاں ہے اور وہ تصویریں کہاں ہیں۔ میں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ میرے آفس کیبنٹ میں ہیں اور میں دوسری مصروفیات کی وجہ سے انہیں دیکھ نہیں پایا۔ لیکن ظاہر ہے وہ انہیں وہاں نہیں ملیں۔ میں نے ریاض صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں نہیں بتائوں گا کہ فائل ریاض صاحب کے پاس ہے۔ اس لئے میں نے
تشدد کے باوجود زبان نہیں کھولی۔‘‘
’’انہیں فوراً ہی علم ہوگیا تھا کہ تمہارے پاس غلط فائل پہنچ گئی ہے؟‘‘ شاہ میر نے سوال کیا۔
’’نہیں سر۔ مجھے دس دن کے بعد اغوا کیا گیا تھا۔‘‘
’’گویا دس دن تک انہیں اپنی غلطی کا علم نہیں ہوا؟‘‘
’’یہی کہا جاسکتا ہے سر۔‘‘
‘‘تم نے یہ فائل کتنے عرصہ کے بعد ریاض صاحب کو دی تھی؟‘‘
’’پانچ دن کے بعد… لیکن سر، میں ایک محب وطن شخص ہوں۔ میں نے اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد اس فائل کی نقل تیار کرائی اور اپنے ایک صحافی دوست کو دے دی۔ اس کے بعد ہی اصل فائل میں نے ریاض صاحب کو دی تھی۔‘‘
’’کون دوست ہے وہ؟‘‘
’’اجمل شاہ ہے اس کا نام۔ ایک چھوٹے سے اخبار کا رپورٹر ہے۔‘‘
’’اجمل شاہ کہاں رہتا ہے؟‘‘ شاہ میر نے سوال کیا تو علی رضا نے اس کے بارے میں بتایا۔
’’اجمل شاہ نے اس کے بعد تم سے رابطہ نہیں کیا اور کیا اسے تمہارے اغوا کے بارے میں خبر نہیں ملی۔ میرا مطلب ہے اس کے بعد اس نے عدیلہ سے رابطہ نہیں قائم کیا۔‘‘
’’نہیں سر! ہمارے گھریلو تعلقات نہیں ہیں۔ ویسے بھی وہ ایک لاابالی آدمی ہے۔ اخبار کے لئے خبریں جمع کرنے کے لئے گردش میں رہتا ہے۔ خاص طور سے وہ وڈیروں اور چوہدریوں کے مظالم کے خلاف شواہد جمع کرتا رہتا ہے، پھر ان کے خلاف لکھتا ہے، ان کی پول کھولتا ہے اور ٹوٹتا پھوٹتا رہتا ہے۔‘‘
’’ٹوٹتا پھوٹتا رہتا ہے۔‘‘
’’جی صاحب! میری طرح مار کھاتا ہے اور عام طور پر اسپتالوں میں ہوتا ہے۔‘‘
’’ویری گڈ۔ تم نے ان تصویروں کو بغور دیکھا ہے؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’جی سر، میں ان عمارتوں کو پہچانتا ہوں۔ فائل کے ریکارڈ کے مطابق یہ منشیات کی اسمگلنگ کے محل ہیں۔ یہاں اربوں روپے کی منشیات کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔‘‘
’’اجمل شاہ کے بارے میں مجھے مزید بتائو۔‘‘
’’سرپھرا انسان ہے۔ اخبار میں بے باکی سے لکھتا ہے۔ کبھی کسی سے ایک پیسہ قبول نہیں کرتا۔ میرا مطلب ہے کہ کسی کے خلاف بلیک میلنگ کے لئے نہیں لکھتا۔ لکھ دیتا ہے، جیل چلا جاتا ہے، معافیاں مانگ کر باہر آتا ہے۔ تھوڑے دن تک بیوی بچوں کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے اور دوبارہ کسی مسئلے پر لکھ کر جیل یا اسپتال چلا جاتا ہے۔‘‘
’’واہ! اس کا نمبر مجھے دو۔‘‘ صفورا نے کہا اور علی رضا نے ایک نمبر دہرا دیا جسے اپنے سیل میں فیڈ کرلیا۔
کچھ لمحات کی خاموشی کے بعد شاہ میر نے کہا۔ ’’اب تم مجھے خانیہ سکندر کے بارے میں بتائو۔‘‘ علی رضا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’اس کے بارے میں بھی ریاض صاحب نے آپ کو بتایا ہے۔‘‘
’’زیادہ نہیں، بس انہوں نے دو ناموں کی نشاندہی کی تھی، یعنی دلبر جانی اور خانیہ سکندر۔‘‘
’’خانیہ کے بارے میں پہلے شبہ تھا کہ وہی ہماری فرم کی اصل مالک ہے جبکہ فرم کے مالک کا نام دانیال پاشا ہے۔ لیکن کوئی بھی دانیال پاشا کے بارے میں تفصیل نہیں جانتا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ تھائی لینڈ میں رہتا ہے لیکن اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ بس اس کے فون آتے رہتے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ خانیہ اس فرم کی شیئر ہولڈر ہے۔ اصل میں خانیہ ہی کے حوالے سے وہ غلط فائل میرے پاس آگئی تھی، بالکل اتفاقیہ طور پر ایک بار اجمل شاہ سے ان کے بارے میں بات ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ ہماری فرم کو بیشتر احکامات خانیہ کی وساطت سے ملتے ہیں۔ اجمل شاہ نے بڑی تفصیل سے خانیہ کے بارے میں بتایا تھا۔ ظاہر ہے یہ اس کا شعبہ تھا۔‘‘
’’کیا بتایا تھا؟‘‘
’’اس نے کہا تھا کہ خانیہ کچھ نہیں ہے۔ وہ کچھ بڑوں کی لے پالک ہے۔ انہوں نے اسے رابطہ کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ وہ ایک ٹرانسمیٹر ہے جس کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ وہ کمپیوٹر ہے جن میں بہت بڑے بڑے لوگ اپنے معاملات فیڈ کرتے ہیں اور اس کا نشریاتی نظام عمل کرتا ہے۔ وہ ان بڑے بڑے لوگوں کے رابطے کا ذریعہ ہے اور وہ سب مل کر اسے پال رہے ہیں۔‘‘
’’ایک بات بتائو۔ کیا اجمل شاہ نے کبھی خانیہ کے خلاف اپنے اخبار میں لکھا ہے؟‘‘
’’کبھی نہیں۔ وہ بڑی ترکیب سے کام لیتا ہے۔ اپنے معاملات بیلنس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کسی کے بارے میں تعریف و توصیف کے انبار لگا دیئے، اس کی محبت حاصل کی۔ پھر کسی سے پنگا لیا اور اندر چلا گیا۔‘‘
’’تمہارے خیال میں خانیہ کو یہ معلوم ہے کہ تمہارے اجمل شاہ سے تعلقات ہیں؟‘‘
’’نہیں
شاید کسی کو نہیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ شاہ میر خاموش ہوگیا۔
’’سر! دلبر جانی کا کیا ہوا؟‘‘ علی رضا نے پوچھا۔
’’تھانے میں بند ہے۔‘‘
’’اس کی رہائی کی کوشش نہیں ہوئی؟‘‘
’’ابھی تک نہیں۔‘‘
’’کھچڑی پک رہی ہوگی۔ اعلیٰ پیمانے پر کام ہوگا۔ آپ اسے زیادہ قید نہیں رکھ سکیں گے۔‘‘
شاہ میر کچھ سوچتا رہا۔ اسے یہ بے باک نوجوان بے حد پسند آیا تھا۔ بلاتکلف سوال کرلیتا تھا۔ صورتحال سمجھ میں آگئی تھی۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد اس نے رضا سے کہا۔ ’’اچھا ہوا کہ تم نے اجمل شاہ اور اس کے اخبار کا تذکرہ کردیا۔ آج کل وہ باہر ہے یا اندر؟‘‘
’’پتا کرلوں؟‘‘
’’ابھی نہیں۔ ہمیں اس سے کچھ کام لینا ہے۔ میں ایک رپورٹ تیار کرتا ہوں۔ اجمل شاہ اسے خبر بنا کر تفصیل سے چھاپے گا۔ یوں تو بہت سے اخبارات نے اس بارے میں مختلف خبریں شائع کی ہیں لیکن میں ذرا تفصیل سے یہ خبر چھاپنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’وہ پورا تعاون کرے گا۔ اسے تفصیل معلوم نہیں ہوگی ورنہ وہ میری خبر ضرور لیتا۔‘‘
’’میں رپورٹ تیار کرلوں، پھر تم اس سے رجوع کرنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
شاہ میر نے صفورا کو رپورٹ ڈکٹیٹ کرائی۔ اس میں اس نے علی رضا کے اغوا، کلب سے دلبر جانی کی گرفتاری اور پھر اس کے انکشافات پر اغوا شدہ نوجوان کی بازیابی اور اس کے دوبارہ اغوا کی تفصیل تھی۔
یہ رپورٹ اس نے علی رضا کو دے کر کہا۔ ’’اسے اجمل شاہ کے اخبار میں شائع ہونا ہے۔‘‘
’’میں اسے کال کرتا ہوں۔‘‘ علی رضا نے کہا۔ یہ کال صفورا کے موبائل سے کی گئی تھی۔ کچھ لمحوں بعد اجمل شاہ سے رابطہ ہوگیا۔ علی رضا نے کہا۔ ’’میں رضا بول رہا ہوں، علی رضا۔‘‘
’’عالم بالا سے بول رہے ہو؟‘‘
’’نہیں۔ اسی دنیا سے۔‘‘
’’میں ابھی راج گڑھی سے آیا ہوں۔ گھر میں پڑے اخبار میں ایک خبر دیکھی، تمہیں کال کی تو تمہارا نمبر بند ملا۔ تمہارے منیجر صاحب سے بات کی تو انہوں نے بڑی سنسنی خیز خبریں سنائیں۔ ابھی تمہارے گھر جانے کی تیاری کررہا تھا۔‘‘
’’بھول کر بھی ادھر کا رخ نہ کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بھیڑیئے نگرانی کررہے ہوں گے۔‘‘
’’بھابی اور بچے کہاں ہیں؟‘‘
’’اللہ کے فضل سے خیریت سے ہیں۔‘‘
’’تم کہاں سے بول رہے ہو؟‘‘
’’محفوظ جگہ پر ہوں۔‘‘
’’قصہ کیا ہے؟‘‘
’’خانیہ سکندر۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اجمل شاہ نے پوچھا۔ علی رضا نے مختصراً اسے اپنے بارے میں بتایا۔
’’میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا۔
’’ناممکن بلکہ ڈبل ناممکن۔ پورے شہر میں بھیڑیئے میری بو سونگھتے پھررہے ہیں۔‘‘
’’اوہ! مجھے بتائو میں کیا کروں تمہارے لئے؟‘‘
’’میرے بارے میں ایک رپورٹ تمہیں شائع کرنی ہے، یہ بہت ضروری ہے۔‘‘
’’مجھے لکھوا دو۔ پوری نمک مرچ کے ساتھ شائع کروں گا۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا۔
علی رضا نے شاہ میر کی تیار کی ہوئی رپورٹ اسے لکھوا دی تو اجمل شاہ نے کہا۔ ’’میں سمجھ گیا یہ بے حد ضروری ہے، خاص طور پر دلبر جانی کی گرفتاری کی خبر ورنہ خانیہ کام دکھا دے گی۔‘‘
پھر کیا کرو گے؟‘‘
’’اخبار میں چھاپ رہا ہوں، فکر مت کرو، چار بجے تک اخبار بازار سے منگوا لینا۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا۔
شاہ میر کے چہرے پر تعریفی تاثرات پھیل گئے۔ علی رضا نے اسپیکر آن کررکھا تھا۔ اجمل شاہ نے کہا۔ ’’یہ بندہ بڑی چیز ہے، کیا نام بتایا تم نے اس پولیس افسر کا؟‘‘
’’شاہ میر۔‘‘
’’یہ نام، اکثر سننے میں آتا ہے، کبھی ملاقات نہیں ہوئی، ہاتھی پکڑا ہے اس نے۔ اللہ اس کی حفاظت کرے، یہ بتائو دوبارہ کب بات کروں؟‘‘
’’خود کال کروں گا۔ تم پریشان مت ہونا۔ عدیلہ اور بچے میرے ساتھ ہیں۔‘‘
فون بند کرنے کے بعد علی رضا نے شاہ میر کی طرف دیکھا تو اس نے مطمئن انداز میں گردن ہلادی اور بولا۔ ’’کام کا بندہ ہے، اسے ذہن میں رکھنا۔ اچھا ہم لوگ چلتے ہیں، آرام سے رہو، ضرورت کی چیزیں آجائیں گی، احتیاط رکھنا۔‘‘
٭…٭…٭
کانسٹیبل نے ایک کارڈ شاہ میر کے سامنے لاکر رکھا۔ ’’سر! یہ شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘
شاہ میر نے کارڈ پر نظر ڈالی۔ لکھا تھا ’’اجمل شاہ مقتول۔‘‘ ساتھ میں اخبار کا نام تھا۔
شاہ میر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی اجازت پر نووارد اندر آگیا۔ اجاڑ سی شکل و صورت کا مالک، ضرورت سے زیادہ لمبا قد، دبلے پتلے ہاتھ پائوں، بکھرے بال، بڑھی ہوئی شیو، میلے کپڑے۔
شاہ میر نے کھڑے ہو کر اس سے
مصافحہ کیا اور وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑنے لگا۔ شاہ میر نے اردلی سے کہا۔ ’’کسی کو اندر مت آنے دینا۔‘‘
’’سر! کوئی غلطی ہوگئی مجھ سے؟‘‘ اس نے سہما ہوا لہجہ بنا کر کہا۔ ’’تشریف رکھئے۔ پہلی بارکسی مقتول سے مل کر مجھے خوشی ہورہی ہے۔ آج تک مقتول کے ورثا قتل کی رپورٹ درج کرانے آتے رہے ہیں لیکن آج کوئی مقتول خود تھانے پہنچ گیا ہے۔‘‘
’’جی۔ مقتول مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہ ہوتے ہیں جو ایک قتل ہو کر زندگی سے نجات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ جو بار بار قتل ہوتے ہیں، ہم انہی میں سے ہیں۔‘‘
’’جی۔ آپ کا مزید تعارف؟‘‘ شاہ میر نے دلچسپی سے کہا۔
’’یہ ٹوٹا پھوٹا کیمرہ، جس میں جگہ جگہ اسکواش ٹیپ لگا ہوا ہے، ایک بہت ہی ماہر فن کیمرہ مکینک کی مہارت کا شاہکار ہے۔ اس پر کتنا ہی ظلم ہو، وہ مکینک اسے ہر بار ٹھیک کردیتا ہے۔ رپورٹنگ کرنے جاتے ہیں تو آپ جیسے کرم فرما کیمرہ چھین کر اس میں سے فلم رول نکال لیتے ہیں۔ اگر بڑے عہدیدار ہوں تو اسے چھین کر زمین پر دے مارتے ہیں۔ بس خدا کا شکر ہے کہ بچپن میں کرکٹ کے کھلاڑی تھے اور وکٹ کیپر تھے یعنی کیچ پکڑنے کے ماہر۔ کوشش کرکے کیچ پکڑ لیتے ہیں۔ اس طرح یہ بقید حیات ہے، بس یہی ہماری شناخت ہے۔‘‘
’’گویا آپ رپورٹر ہیں؟‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’یہی سمجھ لیں۔ آپ نے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اس سے متعلق کچھ معلومات کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ ناگوار خاطر تو نہیں گزرا۔‘‘
’’جی نہیں۔ آپ کی آمد سے خوشی ہوئی۔ آپ آئندہ جب چاہیں آسکتے ہیں۔‘‘
’’بڑا شکریہ۔ ویسے دلبر جانی کی گرفتاری کی خبر ہمارے لیے بڑی سنسنی خیز ہے اور اس سے زیادہ علی رضا کی دوسری بار اغوا کی۔ اس کے دوبارہ اغوا کے بارے میں کچھ پتا چلا؟‘‘
’’ابھی تک نہیں، کوشش جاری ہے۔‘‘
’’ٹھیک۔ ہمارے چھوٹے سے اخبار کے بارے میں ہمارے کارڈ سے پتا چل گیا ہوگا۔ دلبر جانی کی کچھ تصویریں بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ضرور بنا لیجئے۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔ وہ خود لاک اپ تک آیا تھا۔ لیکن دلبر جانی نے سخت واویلا کیا تھا۔
’’حد سے آگے بڑھ رہے ہو تم لوگ، نقصان اٹھائو گے، باز آجائو۔ سوچ لو، ایکشن شروع ہونے والا ہے۔ ارے کیا میری تصویریں اخبار میں چھاپو گے، دنیاکو بتائو گے کہ میں لاک اپ میں ہوں۔‘‘ دلبر جانی نے چیخ چیخ کر کہا۔
’’کیسی باتیں کررہے ہو پیارے بھائی۔ لوگ اخبار میں تصویر چھپوانے کے لئے بسوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔‘‘
’’او اخبار والے! ایک بات کان کھول کر سن لے۔ میری تصویر اگر اخبار میں آئی تو پھر تیری تصویر بھی کسی اخبار میں آئے گی۔‘‘
اجمل شاہ بڑا دلچسپ آدمی تھا۔ تھوڑی دیر تک شاہ میر کے ساتھ رہا۔ پھر خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ شاہ میر کو یہ شخص پسند آیا تھا۔ اس سے آئندہ بھی تعلقات رکھے جاسکتے تھے۔
پھر زمان شاہ آگیا۔ اس نے اس عمارت کے بارے میں رپورٹ دی تھی۔ ’’بڑی عام سی کوٹھی ہے سر۔ ایک ڈاکٹر صاحب کی ملکیت ہے جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کا بیٹا بھی ڈاکٹر ہے اور ملک سے باہر رہتا ہے۔ کوٹھی کے اختیارات ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس ہیں جس کا کہنا ہے کہ کوئی کرائے دار اس میں نہیں ٹکتا۔ لوگ اسے کرائے پر لیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں۔ دو مہینے پہلے یہ خالی ہوئی تھی اور ایک بزرگ جوڑے نے اسے کرائے پر حاصل کی تھی۔‘‘
شاہ میر پُرخیال انداز میں گردن ہلانے لگا۔
٭…٭…٭
عالیشان کوٹھی کے حسین لان پر خوبصورت کرسیوں میں سے ایک پر خانیہ سکندر بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے کرسی پر ایک درمیانی عمر کا آدمی مؤدب بیٹھا تھا۔
دودھ جیسے سفید رنگ اور بلندو بالا قد لیکن کسی قدر کرخت نقوش والی خانیہ نے پاٹ دار آواز میں کہا۔ ’’بس دلاور صاحب! اب تھکن محسوس ہونے لگی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں اپنے فائدے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا لیکن آپ اگر کسی کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں، کسی کے لئے دکھی ہوتے ہیں تو یہ یقین کریں، اس کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ آپ اپنے لیے کرتے ہیں، اپنی ذات کی تسکین کے لئے کرتے ہیں۔‘‘
سامنے بیٹھے شخص نے عقیدت سے گردن خم کی اور بولا۔ ’’یہ آپ کی بڑی سوچ ہے ورنہ لوگ تو کسی کے ساتھ دو پیسے کا سلوک کرکے تصویریں چھپوانے کے شوقین ہوتے ہیں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔ آپ نے جو ذمہ داری ہمیں دی ہے، ہم اسے پورا کرنے کی کوشش کریںگے۔ آپ جایئے، ہمیں کچھ دوسرے کام
کرنے ہیں۔‘‘
’’جی بہت بہتر۔‘‘ سامنے بیٹھا شخص بادل نخواستہ اٹھ گیا۔ اس نے جھک کر خانیہ کو سلام کیا۔ کچھ فاصلے پرکھڑی کار کے پاس پہنچ گیا۔ بے حد قیمتی کار کے پاس باوردی ڈرائیور موجود تھا جس نے جلدی سے پچھلا دروازہ کھولا اور وہ شخص اندر بیٹھ گیا۔ کار آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گئی۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد خانیہ نے پاس رکھی وائرلیس بیل بجائی تو دور کھڑے ہوئے دو نوجوان آدمی تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کے پاس آگئے۔
’’ہاں، کیا بات ہے۔ تم مجھے بے چین نظر آرہے ہو؟‘‘
’’جی عالیہ خانیہ۔ یہ اخبار…‘‘ ان میں سے ایک نے اخبار کھول کر خانیہ کے سامنے رکھ دیا۔
’’کیا ہے اس میں، کوئی خاص بات ہے؟‘‘
’’جی۔‘‘ وہ بولا۔
خانیہ اخبار کی سرخی پر نگاہ دوڑانے لگی۔ پہلے اس نے سرسری انداز میں سرخی دیکھی تھی لیکن دوسرے لمحے وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ آہستہ آہستہ اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔ تفصیل پڑھنے کے بعد وہ تھوڑی دیر تک پتھر کے بت کی طرح ساکت بیٹھی رہی، پھر سنبھل کر نرم لہجے میں بولی۔ ’’افسوس دلبر تو بہت اچھا انسان ہے۔ لیکن ہمیں دکھ یہ ہے کہ جن لوگوں کی ہم دن رات پرورش کررہے ہیں، جنہیں ہماری ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، وہ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کرتے ہیں، کم از کم ہمیں دلبر جانی کی گرفتاری کی خبر تو دینی چاہئے تھی۔ آپ لوگوں کو علم ہے کہ ہمارے لئے کس قدر کارآمد ہے۔‘‘
’’یہ ذمے داری ضرغام خان کی تھی۔‘‘
’’ہاں، ضرغام ان دنوں اپنی ذمے داریوں سے لاپروائی برتنے لگے ہیں۔ کچھ دوسرے شغل اپنائے ہوئے ہیں انہوں نے اور یہ رپورٹر کون ہے، یہ اخبار بھی بس یونہی سا ہے۔‘‘
’’جی خانیہ۔‘‘
’’خیر… دلبر جانی کہاں ہے اس وقت، کسی نے اس کی ضمانت نہیں کرائی، سب جانتے ہیں کہ وہ ہمارا آدمی ہے اور ہمیں بہت عزیز ہے۔ یہ ہے ہماری مہربانی کا صلہ۔ کیا سوچتا ہوگا دلبر، ہم دنیا کی خبرگیری کرتے ہیں اور وہ… افسوس، افسوس۔ تم یوں کرو، ضرغام کو تلاش کرکے ہمارے پاس لائو۔‘‘
’’جی بہت بہتر۔‘‘
’’لیکن زیادہ وقت نہ لگے۔‘‘
’’بہت مناسب میڈم۔‘‘ ان دونوں نے بیک وقت احترام سے کہا اور اجازت ملنے پر چلے گئے۔
تب خانیہ سکندر نے سامنے رکھے ہوئے اخبار کو دوبارہ پھیلایا اور اسے غور سے پڑھنے لگی۔ ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کے نقوش تبدیل ہوئے اور ان میں شدید سفاکی نظر آنے لگی، پھر سامنے والے فولادی گیٹ سے ایک بی ایم ڈبلیو اندر داخل ہوئی اور خانیہ نے اخبار تہہ کرکے رکھ دیا۔
کار رکی اور اس سے دو خوش پوش مرد نیچے اتر آئے اور خانیہ انہیں دیکھتی رہی۔ آنے والے قریب آئے اور انہوں نے بڑے احترام سے سلام کیا۔ خانیہ نارمل ہوگئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے انہیں جواب دیا اور بولی۔ ’’کہئے کب آئے آپ لوگ؟‘‘
’’کل رات کو۔ تین ملکوں کا دورہ تھا۔ بس رات گزاری، پہلی حاضری آپ کی خدمت میں دی ہے۔‘‘
’’کیسا رہا آپ کا دورہ، کام ہوگیا؟‘‘
’’آپ کی مہربانیاں شامل حال تھیں، کامیابی رہی۔‘‘
’’خوشی ہوئی، مبارک۔‘‘
’’شکریہ میڈم۔‘‘
’’کوئی اور کام ہم سے؟‘‘
’’نہیں میڈم! شکر گزاری کے لئے حاضر ہوئے تھے۔‘‘
’’ہم آپ سے بیٹھنے کے لئے نہیں کہیں گے۔ ہم ذہنی طور پر مصروف ہیں، بہت جلد دوبارہ ملاقات ہوگی، خدا حافظ۔‘‘ خانیہ نے کہا اور دونوں ہکابکا رہ گئے۔ پھر انہوں بادل ناخواستہ خدا حافظ کیا اور واپس مڑگئے۔ خانیہ ان کی کار کو جاتے دیکھتی رہی۔ لیکن کار کے نکلتے ہی اندر سے وہی نوجوان باہر نکلے جو خانیہ کے پاس اخبار لے کر آئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’فون پر ضرغام صاحب سے رابطہ ہوگیا ہے، آرہے ہیں۔‘‘
’’کہاں تھے؟‘‘
’’اپنے فارم ہائوس پر تھے، لیکن کسی خاتون نے بات کی تھی۔ بڑی منت سماجت پر انہوں نے رابطہ کرایا۔ آواز لڑکھڑا رہی تھی، کہا تو ہے آرہے ہیں، باقی اللہ جانے۔‘‘
’’نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ انسان کے اندر کمزوریاں تو ہوتی ہیں۔ تم لوگ آرام کرو لیکن ہوشیار رہو۔ ان دنوں ہمارے اپنے لاپروا ہورہے ہیں۔ تربیتی کورس کی ضرورت ہے، ٹھیک ہے جائو۔‘‘
ان دونوں کے جانے کے بعد خانیہ بھی اپنی جگہ سے اٹھی اور اندر چل پڑی۔ صدر دروازہ ایک قوی ہیکل خادم نے کھولا تھا۔ خانیہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’رشید خان! وہ ابھی ضرغام آتے ہوں گے، انہیں
بڑے کمرے میں پہنچا دینا۔‘‘
’’جی میڈم۔‘‘ ملازم نے کہا اور خانیہ آگے بڑھ گئی۔ جس کمرے میں وہ داخل ہوئی، اسے کمرے کے بجائے ہال کہا جاسکتا تھا۔ یہاں اعلیٰ درجے کا فرنیچر تھا، تعیشات کے سارے انتظامات تھے۔ ایک خوبصورت کائوچ پر بیٹھ کر اس نے سرہانے لگے جدید سائونڈ سسٹم پر بیرونی موسیقی لگادی اور آنکھیں بند کرلیں۔ کافی دیر کے بعد کمرے کے دروازے سے آواز آئی۔
’’میں اندر آسکتا ہوں میڈم؟‘‘ آواز سن کر وہ چونک پڑی۔ پھر اس کی نرم آواز ابھری۔ ’’آیئے ضرغام۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ اس نے موسیقی بند کردی تھی۔ آنے والا بگڑی شکل کا ایک دراز قامت آدمی تھا۔ اندر آکر اس نے سلام کیا۔
’’کیسے ہیں آپ؟‘‘
’’آپ کی بادشاہت میں جی رہے ہیں۔‘‘
’’بیٹھو۔ بہت مصروف رہتے ہو، بلائے بغیر نہیں آتے۔‘‘
’’میڈم کے حکم کا منتظر رہتا ہوں۔‘‘
’’آجایا کرو کبھی کبھی، اپنوں سے مل کر تقویت رہتی ہے۔ ان دنوں تھوڑی سی الجھن ہوگئی ہے۔‘‘
’’میڈم پر زندگی نثار۔ بتائیے کیا بات ہے؟‘‘ ضرغام نے کہا۔
’’وہی اس لڑکے کا مسئلہ ہے جسے تم نے اور دلبر نے اٹھایا تھا، وہ جسے مردود فرہاد نے فائل دے دی تھی جس میں ہمارے اہم ترین راز تھے۔‘‘
’’جی میڈم۔‘‘
’’کمبخت پر محب وطنی کا دورہ پڑا تھا۔ پتا نہیں کیا منصوبہ تھا اس کے دماغ میں، ہمیں بلیک میک کرکے تقدیر بنانا چاہتا تھا یا پھر دیوانہ تھا۔ ایسے دیوانے کبھی کبھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات جانتے ہو، کیا ہوا اسے اٹھانے کے بعد، فائل واپس مل گئی اس سے، اور کیا معلوم کیا اس سے۔‘‘
’’وہ اصل میں، میری کچھ طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ دلبر نے کہا تھا کہ میں آرام کرلوں، وہ اسے ہینڈل کرلے گا۔ دلبر نے اس کے بارے میں کوئی رپورٹ نہیں دی۔‘‘
’’آپ دونوں نے آپس میں ہی سارے مرحلے طے کرلئے، ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ حالانکہ بے حد خطرناک بات تھی اور اس سے ہم براہ راست متاثر ہورہے تھے، پھراس کے بعد آپ نے دلبر سے رابطہ بھی نہیں کیا۔‘‘
’’وہ بس میڈم۔‘‘
’’دلبر سے کب سے ملاقات نہیں ہوئی، کس حال میں ہے؟‘‘
’’میں آج ہی ساری بات معلوم کرتا ہوں۔‘‘
’’بات معلوم ہوگئی ہے۔ یہ دیکھو۔‘‘ خانیہ سکندر نے اخبار اس کی طرف بڑھا دیا۔
ضرغام نے حیران حیران سے انداز میں اخبار اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’پڑھو۔‘‘ خانیہ بولی۔
اس نے اخبار کھول لیا۔ پھر وہ اسے پڑھنے لگا لیکن جوں جوں وہ پڑھتا جارہا تھا، اس کے چہرے کا رنگ بدلتا جارہا تھا۔ پھر اس کے چہرے پر بدحواسی نظر آنے لگی۔ پوری خبر پڑھ کر اس نے خانیہ کی طرف دیکھا جو آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی۔ اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔ ’’یہ تو بہت برا ہوا، مگر مجھے کہیں سے اطلاع نہیں ملی۔‘‘
’’میری غلطی ہے، معافی چاہتی ہوں۔ مجھے تمہارے فارم ہائوس آکر تمہیں اطلاع دینی چاہئے تھی۔‘‘ خانیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے میڈم… لیکن آپ بے فکر رہیں، اپنی اس غلطی کی تلافی میں ہی کروں گا۔‘‘
’’واقعی آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں، ہم تو بلاوجہ خود کو کچھ سمجھتے ہیں۔ اب یہ کھیل آپ کے ہاتھ میں ہے مگر ہماری سمجھ میں اس خود پسندی کی وجہ نہیں آئی۔ کیا ہم خود کو ایک معزول شخصیت سمجھیں؟‘‘
’’ایسی باتیں نہ کریں میڈم۔ ہم آپ کے جاں نثار ہیں۔ جو ہوچکا، اس میں میرا قصور ہے جس کے لئے شرمندہ ہوں، آئندہ آپ کو کبھی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘ ضرغام نے عاجزی سے کہا۔
’’بات ہماری شکایت کی نہیں ہے۔ فرہاد کو ہیڈکوارٹر بھجوا دیا گیا ہے۔ ہم نے نہیں دوسروں نے کیونکہ اس کی غلطی ناقابل معافی ہے۔ اس نے ایک ایسی فائل کے بارے میں غفلت برتی جو زندگی موت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس میں تمام مقامی پوائنٹس کی تفصیلات اور تصویریں تھیں۔ دیکھو ان کا کیا بنتا ہے۔ ہاں فرہاد کا کیا بنے گا، یہ ہم جانتے ہیں، بے چارہ لوگوں سے پوچھتا واپس آئے گا کہ میں کون ہوں۔‘‘
ضرغام کانپ کر رہ گیا تھا۔ بمشکل اس کے منہ سے نکلا۔ ’’معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘
خانیہ سکندر کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی۔ پھر بولی۔ ’’صورتحال سنگین اور نہ سمجھ میں آنے والی ہے۔ دلبرجانی پولیس کے قبضے میں ہے۔ اس کی زبان کھلوائی گئی ہے جس کی بنا پر اس نے پیلی کوٹھی کی نشاندہی کی اور وہاں سے پولیس نے علی رضا کو برآمد کیا۔ اس کی زبان
بھی کھلوائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا، آپ کو معلوم ہے؟‘‘
’’میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
’’ارے نہیں، اب آپ کہاں تکلیف کریں گے۔ ہم سے جواب طلبی کی جائے گی۔ آپ کے مشاغل ذرا مختلف ہیں۔ آپ کو آرگنائزیشن کے اصول تو معلوم ہوں گے۔‘‘
’’اصول۔‘‘ ضرغام نے گہری سانسیں لیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! آپ بیمار ہیں اور آرگنائزیشن کے آئین میں ہے کہ گھوڑا لنگڑا ہوجائے تو…‘‘
خانیہ نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے ہاتھ میں سائیلنسر لگا پستول نظر آیا۔ ضرغام کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔
(جاری ہے)