’’خانیہ، خانیہ! میں آپ کا جاں نثار ہوں۔‘‘ ضرغام کی کانپتی آواز ابھری۔
’’تو ہم پر جان نثار کردو۔‘‘ خانیہ نے نرم لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے چہرے پر بے پناہ سفاکی تھی۔ دوسرے لمحے اس کے پستول سے بہت ہلکی سی آواز ہوئی اور ضرغام کے سینے میں دل کی جگہ سوراخ ہوگیا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور پُرسکون انداز میں چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ ایک دوسرے فرنشڈ کمرے میں داخل ہوئی اور بیش قیمت صوفے پر بیٹھ کر ایک قیمتی موبائل سیٹ پر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگی۔ کچھ لمحوں کے بعد دوسری طرف سے رابطہ ہوگیا اور آواز آئی۔ ’’جی میڈم خانیہ…‘‘
’’کہاں ہو ولی داد؟‘‘
’’تعمیل حکم ہوگئی ہے میڈم۔ آپ کو اطلاع دینے کی تیاری کررہا تھا۔‘‘
’’ایک اخبار ہے، نام میں بتا رہی ہوں، جائو اسے حاصل کرلو، اس میں ہمارے دلبر جانی کے بارے میں خبر چھپی ہے۔‘‘
’’کیا میڈم۔‘‘ ولی داد نے پوچھا۔
’’دلبر جانی پولیس کے قبضے میں ہے۔ کس طرح کیا ہوا، اس کی تفصیل تمہیں اخبار سے معلوم ہوجائے گی۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ پولیس نے اسے ڈینی کلب سے گرفتار کیا ہے اور اسے ٹھوکریں مارتی ہوئی کلب سے لے گئی ہے، اس وقت سے وہ تھانے میں بند ہے۔‘‘
’’بہت حیرانی کی بات ہے۔ پولیس کو دلبر جانی جیسے دبنگ آدمی پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘ ولی داد نے کہا۔
’’حیران بعد میں ہولینا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا آدمی اس طرح بے یارومددگار تھانے میں بند ہے۔ تھانیدار سے کہو کہ اسے فوراً چھوڑ دے۔ ہمارے جلال کو آواز نہ دے۔ جائو اسے تھانے سے نکال کر لائو اور ہمیں اطلاع دو۔‘‘
’’آپ بالکل مطمئن رہیں میڈم۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی اور خانیہ سکندر نے فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
محکمے کے افسر اعلیٰ نے دوسری بار شاہ میر سے ملاقات کی تھی۔ شاہ میر نے قانون کے مطابق انہیں احترام دیا تھا۔ ’’میں کوئی نئی سفارش نہیں لے کر آیا۔ مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ اس بارے میں تم سے پھر بات کروں۔‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’کیا بنا دلبر جانی کا؟‘‘
’’بند ہے سر۔ میں نے اس پر کوئی تشدد نہیں کیا، تفتیش کررہا ہوں۔ علی رضا برآمد ہوجائے پھر دلبر جانی کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔‘‘
’’کچھ پتا چلا اسے اغواء کرنے والے کون ہیں؟‘‘
’’پتا تو نہیں چلا ۔لیکن اندازہ ضرور ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’انہی لوگوں نے اسے دوبارہ اغوا کیا ہے جو دلبر جانی کی نشاندہی پر روشنی میں آئے تھے اور جن کے پاس سے علی رضا برآمد ہوا تھا۔ انہوں نے پولیس سے باقاعدہ مقابلہ کیا، گولیاں چلائیں اور پسپا ہوکر فرار ہوگئے۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ پولیس علی رضا کو لے جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے راستے میں پولیس پارٹی پر حملہ کرکے علی رضا کو واپس حاصل کرلیا۔‘‘
’’یہ آپریشن تم نہیں کررہے تھے؟‘‘
’’اپنی رپورٹ میں بتا چکا ہوں سر۔ میں اس وقت ایک اور کیس میں مصروف تھا۔‘‘
’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ دلبر جانی کو ساتھ کیوں نہیں لے گئے جبکہ دلبر جانی ان کا خاص آدمی ہے۔‘‘
’’یہ ایک احمقانہ کوشش تھی سر۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہوں گے کہ دلبر جانی اس معاملے میں ملوث نہیں ہے ورنہ وہ اسے بھی ساتھ لے جاتے یا پھر ممکن ہے انہیں اس وقت یہ اندازہ نہ ہو کہ دلبر جانی بھی ہمارے ساتھ موجود ہے۔ لیکن آپ اس بات کو نظرانداز نہ کیجئے کہ ہماری تفتیش پر دلبر جانی نے ہی اس کوٹھی کی نشاندہی کی تھی جہاں سے علی رضا برآمد ہوا تھا۔‘‘
’’ہاں۔ بات میں وزن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دلبر جانی اس بات سے آسانی سے منحرف ہوجائے گا۔ اصل مشکل یہ ہے کہ وہ خانیہ سکندر کا خاص آدمی ہے اور اس طرف سے کارروائی ضرور ہوگی۔ میں اسی وجہ سے الجھن کا شکار ہوں۔ ویسے ایک بات بتائو، ایک اخبار نے فیچر چھاپا ہے جس سے سب کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ اس اخبار کو اتنی تفصیلی بریفنگ کس نے دی؟‘‘
’’میں نے سر۔ اس کی وجہ آپ جانتے ہیں۔‘‘
’’کون ہے یہ اجمل شاہ۔ اس کی شامت آجائے گی۔‘‘
شاہ میر ہنس پڑا۔ ’’وہ کافی ٹوٹا پھوٹا آدمی ہے۔ کہتا ہے جتنا باقی رہ گیا ہوں، کافی ہے۔ جب تک سانس ہے، عَلم صحافت کو سرنگوں نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
افسر اعلیٰ کچھ الجھے ہوئے تھے۔ جاتے ہوئے بولے۔ ’’ان حالات میں تمہیں ہوشیار رہنے کی ہدایت کرتا ہوں۔‘‘
دوسرے دن شاہ میر جس وقت تھانے پہنچا تو اس کے آفس میں ایک شخص زمان شاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ شاہ میر اسے پہچانتا تھا۔ یہ ایک نامی گرامی غنڈہ تھا، بے شمار جرائم میں ملوث۔
’’آخاہ۔ ولی داد خان صاحب! زہے نصیب آپ نے ہمارے پاس آنے کی زحمت کی۔‘‘
’’زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، جوانی ناسمجھ ہوتی ہے، سمجھانے آیا ہوں۔‘‘ ولی داد نے کہا۔
’’سوشل ورک شروع کردیا ہے۔ اچھی بات ہے۔ بتایئے کتنے اڈے چل رہے ہیں آج کل۔ ایک بات میں بھی سمجھا دوں آپ کو۔ میرے تھانے کے علاقے میں کبھی کوئی غلط کام نہ شروع کرنا۔ خیر، کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’دلبر جانی کو لینے آئے ہیں۔‘‘ زمان شاہ نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔
’’واہ… بہت خوب۔‘‘ شاہ میر مسکرا کر بولا۔
’’بہت غلط قدم اٹھایا ہے تم نے انسپکٹر۔ شاید تمہیں اس بات کا علم نہیں کہ ڈینی کلب ارب پتی لوگوں کا ہے۔ وہاں جو لوگ جاتے ہیں، وہ ملک کی تقدیر کے مالک ہوتے ہیں۔ پولیس نے جس طرح کلب میں داخل ہوکر دلبر جانی کو اٹھایا ہے، اس سے بڑی بے چینی پھیل گئی ہے۔‘‘
’’ارے واہ۔ اس کا مطلب ہے کہ دلبر جانی ارب پتی ہوچکا ہے۔‘‘
’’زیادہ اونچی اُڑان مت بھرو انسپکٹر۔ خطرناک قدم اٹھایا ہے تم نے، نقصان اٹھائو گے۔‘‘
’’لیکن جناب! دلبر جانی ایک شریف نوجوان کے اغوا میں ملوث ہے اور اس کی نشاندہی پر وہ نوجوان برآمد ہوا تھا جسے بعد میں شدید مجرمانہ عمل کرکے دوبارہ اغوا کرلیا گیا۔‘‘
’’دوبارہ کس نے اغوا کیا؟‘‘
’’یہ بھی دلبر جانی بتائے گا۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’کیسے بتائے گا؟‘‘ ولی داد کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’جیسے اس نے علی رضا کے بارے میں بتایا ہے، اب اس کے زخم کافی ٹھیک ہوگئے ہیں۔‘‘
’’تشدد کیا ہے تم نے اس پر؟‘‘
’’ہاں۔ شرافت سے بھلا کون زبان کھولتا ہے۔‘‘
’’نتیجہ جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ شاہ میر نے معصومیت سے کہا۔
’’میں بتائے دیتا ہوں، تم شاید نہیں جانتے کہ اس کے پیچھے کون ہے، ہوش دلانے آیا ہوں۔ کسی پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کس کے پیچھے کون ہے۔‘‘
’’کیا واقعی اس کے پیچھے کوئی بڑی شخصیت ہے؟‘‘ شاہ میر نے رازداری کا انداز اختیار کیا۔
’’سوفیصد انسپکٹر، سوفیصد۔‘‘
’’مجھے اس کے بارے میں بتایئے۔‘‘
’’کس کے بارے میں؟‘‘
’’اس بڑی شخصیت کے بارے میں۔ ہم اس سے علی رضا کے بارے میں معلوم کریں گے کہ اسے دوبارہ اغوا کرکے کہاں رکھا گیا ہے۔ کیا پتا علی رضا کے اغوا میں اسی کا ہاتھ ہو۔‘‘
’’کیا تم مجھ سے مذاق کررہے ہو انسپکٹر۔ میں تمہیں اس کے بارے میں بتائوں گا۔‘‘
’’وہ تو آپ کو بتانا ہوگا جناب… کیوں زمان شاہ۔ ولی صاحب کو اس شخصیت کے بارے میں معلوم ہے جو دلبر جانی کی پشت پر ہے، یہ ہمیں اس کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘
’’جی سر۔ بالکل۔‘‘
’’بتایئے ولی داد صاحب، وہ کون ہے؟‘‘
’’کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟‘‘ ولی داد کے لہجے میں غراہٹ تھی۔
شاہ میر نے زمان شاہ کو دیکھ کر کہا۔ ’’چلو شاہ جی، انتظام کرو۔ ولی داد صاحب ڈرائنگ روم کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں وہاں لے جاکر اُلٹا لٹکا دو اور ان کے نیچے آگ جلا دو۔ دماغ پگھلے گا تو ساری معلومات سامنے آجائے گی۔‘‘
ولی داد کا چہرہ
آگ کی طرح سرخ ہوگیا۔ اس کے منہ سے آواز نہیں نکل سکی۔ ادھر زمان شاہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا۔
’’میں انتظام کرکے آتا ہوں سر۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
ولی داد اب کسی قدر نروس نظر آنے لگا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تم مہمانوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو؟‘‘
’’بالکل نہیں ولی داد صاحب، لیکن دیکھئے پولیس کی بھی کوئی ڈیوٹی ہوتی ہے، ہمیں مجرم تلاش کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’میرے ساتھ کوئی بدسلوکی مت کرنا۔ میں اس کا نام جانتا ہوں جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے کہ میں دلبر جانی کو آزاد کرا دوں اور اس کے لئے تم سے بات کروں۔ اگر میں اس کی اجازت کے بغیر اس کا نام بتا دوں گا تو میں بھی مارا جائوں گا۔ میری تمہاری کوئی دشمنی نہیں ہے، کوئی درمیانی راستہ نکالو۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’میں اس کے پاس جاکر اسے صورتحال بتاتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اس سے تمہاری بات کرا دوں۔‘‘
شاہ میر سوچ میں ڈوب گیا۔ اتنی دیر میں زمان شاہ اندر آگیا۔ اس کے ساتھ دو سادہ لباس آدمی تھے۔ اس نے ولی داد کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اٹھیے۔‘‘
’’ٹھہرو زمان شاہ۔ ولی صاحب کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ باہر رکو۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’ٹھیک ہے سر۔‘‘ زمان شاہ نے کہا اور باہر نکل گیا۔
ولی داد کا چہرہ لٹک گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میں جاتا ہوں، بات کرکے بتاتا ہوں۔‘‘
’’جتنی جلدی ہو بات کرلیں ورنہ آپ جہاں بھی ہوں گے، واپس یہاں آجائیں گے۔‘‘
ولی داد بادل نخواستہ اٹھ گیا۔
کوئی ایک گھنٹے کے بعد تھانے کے فون کی گھنٹی بجی اور شاہ میر نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے ایک زنانہ پاٹ دار آواز سنائی دی۔ ’’تھانہ انچارج سے بات کرایئے۔‘‘
’’جی۔ میں بول رہا ہوں۔ فرمایئے؟‘‘
’’انسپکٹر شاہ میر ہو؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’لمبی عمر پائو، ترقی کرو۔ میرا نام خانیہ سکندر ہے۔‘‘
’’اوہ میڈم! میری خوش بختی کہ آپ سے بات کررہا ہوں۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’میڈم نہیں، خانیہ… صرف خانیہ۔ زیادہ احترام کرنا چاہتے ہو تو عالیہ خانیہ کہہ لو۔‘‘ آواز آئی۔
’’حکم عالیہ خانیہ!‘‘ شاہ میر نے احترام سے کہا۔
’’ملنا چاہتی ہوں تم سے، میرے گھر آجائو، میرے ساتھ چائے پیو، میں پتا بتاتی ہوں۔‘‘ اس نے کوٹھی کا پتا بتایا پھر بولی۔ ’’سات بجے میں انتظار کروں گی۔‘‘
’’ضرور حاضری دوں گا۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور دوسری طرف سے فون فوراً بند ہوگیا۔ شاہ میر کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر اس نے زمان شاہ کو طلب کرلیا۔ زمان شاہ نے اندر آکر سلوٹ کیا تو شاہ میر نے کہا۔ ’’خانیہ سکندر کا فون آیا ہے، سات بجے مجھے کوٹھی طلب کیا ہے۔‘‘
’’آپ جائیں گے سر؟‘‘
’’ہاں۔ ضرور جائیں گے۔ دلبر جانی کو انڈر گرائونڈ کردو یعنی تہہ خانے پہنچا دو۔ تھانے کے باہر پہرہ چوکس کردو اور کچھ ضروری انتظامات بھی کرنے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر شاہ میر زمان شاہ کو مزید ہدایات دینے لگا۔
٭…٭…٭
خانیہ سکندر کی کوٹھی پر آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ خاص طور سے شام کو وہ اپنی کوٹھی کے لان پر محفل سجاتی تھی اور ضرورت مند اس کے پاس آتے تھے لیکن آج اس نے اپنے ملازمین کو ہدایت کی کہ اب وہ کوئی کال ریسیو کریں گی، نہ کسی سے ملاقات کریں گی۔ گیٹ پر بتا دیا جائے۔ ایک شخص جس کا نام شاہ میر ہے، آئے گا، اسے احترام سے اندر پہنچا دیا جائے۔
اس حکم پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔ ولی داد اس وقت خانیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ خانیہ نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا اور بولی۔ ’’ولی داد! ناآگہی بڑی عجیب چیز ہے، انسان ناآگہی کی بنیاد پر نہ جانے کیا کیا کرلیتا ہے۔ طاقت کا اصل مخزن کیا ہے، جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں میڈم۔‘‘ ولی داد نے کہا۔
’’عقل… صرف عقل۔ جسم اگر عقل سے عاری ہو تو سمجھو کچھ بھی نہیں ہے۔ تم کسی معمولی سے بندے سے بھی مار کھا جائو گے۔ اصل طاقت عقل ہے اور میں ہر کھیل عقل کے بل بوتے پر کھیلتی ہوں اور آج تک شکست کا منہ نہیں دیکھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لیکن وہ مجھے ایک مکار سانپ جیسا نظر آیا ہے، زہر سے بھرا ہو۔‘‘
’’مزا زہریلے سانپوں کو مارنے میں آتا ہے۔ یقین کرو اس نے اپنی تقدیر سیاہ کی ہے۔ ہمیں کسی کو دکھ دینے میں مزا نہیں آتا۔ غلطی اس کی ہے، اسے تھوڑی سی سزا ضرور دیں گے۔ کیونکہ اس نے ہمارے ولی داد کو ناراض کیا ہے۔‘‘
’’میڈم کے خادموں کا بڑا مرتبہ ہوتا ہے۔ اس نے دلبر پر تشدد کیا ہے۔ مجھے اس سے ملنے بھی نہیں دیا۔ اسے تھوڑی سزا نہیں، پوری سزا ملنی چاہئے۔‘‘ ولی داد نے کہا۔
’’فکر مت کرو، تمہاری تسلی ہوجائے گی۔‘‘
اسی وقت ملازم نے آکر خبر دی کہ شاہ میر نامی ایک نوجوان ملنے آیا ہے اور خانیہ نے اسے بلانے کی ہدایت کی اور ولی داد کو اشارہ کردیا۔ پھر اس نے آنے والے کو دیکھا اور اس کے چہرے پر پیار بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’تمہاری اعلیٰ نسبی اور دانش کی خبر یوں ملتی ہے کہ تم نے وردی میں یہاں آنے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہاں بڑے بڑے تمغوں والے آتے رہتے ہیں لیکن تم نے اس خوبصورت لباس میں یہاں آکر ہمیں خوشی دی ہے۔ یوں بھی تم خوبصورت اور اسمارٹ جوان ہو، اور خوبصورت نوجوان ہمیں بہت پسند ہیں۔ آئو یہاں ہمارے سامنے بیٹھو۔‘‘ خانیہ نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
شاہ میر نے اسے سلام کیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کتنا عرصہ ہوگیا نوکری کرتے ہوئے؟‘‘
’’گیارہ سال میڈم۔‘‘
’’جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے۔ پولیس کی نوکری معمولی بات نہیں ہے، اس میں جوش کی جگہ ہوش سے کام لینا ہوتا ہے۔ قانون کا احترام بے حد ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ قانون سازوں کا احترام بھی کرنا چاہئے۔‘‘
’’کرتا ہوں عالیہ خانیہ۔‘‘
’’نہیں کرتے، اور یہ ایک برا عمل ہے۔‘‘
’’کوئی غلطی ہوگئی مجھ سے؟‘‘
’’ہاں۔ وردی پہن کر یہ بھول گئے کہ کچھ لوگ قانون ساز ہوتے ہیں، کچھ قانون کے محافظ اور کچھ وہ جن کے لئے قانون بنتا ہے۔‘‘
’’لیکن میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ قانون ہر شہری کے لئے یکساں ہوتا ہے۔‘‘
’’کتابوں میں پڑھا ہے نا؟‘‘ وہ مسکرا کر بولی۔
’’جی۔‘‘
’’کتابیں لکھنے والے عام لوگ ہوتے ہیں۔ بہت سی باتیں ان کی سمجھ سے باہر ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے قانون بدلنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ تقدیر گر ہوتے ہیں، تقدیر بدل دیتے ہیں۔ جن پر قانون لاگو ہوتا ہے، ان کی گردنوں میں قانون کی رسی ضرور ڈالو لیکن یہ رسی لے کر کسی ایسی گردن کی طرف نہ بڑھو جس کے لئے قانون بنتا ہے۔‘‘
’’جی خانیہ۔‘‘ شاہ میر آہستہ سے بولا۔
’’تمہارے منہ سے خانیہ کہنا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ تو میں تمہیں سمجھا رہی تھی کہ انسپکٹر ہو، ڈی ایس پی بنو گے۔ پھر ایس پی اور پھر آگے بڑھتے جائو گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی فہرست اپنے پاس رکھو جس کے کتے کو جھڑکنے سے بھی تقدیر کے در بند ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’یہ اقوال زریں ہیں، میں انہیں یاد رکھوں گا۔‘‘
’’ترقی پائو گے، کچھ بن جائو گے۔ دیکھو ایک آدمی پکڑا ہے تم نے، اس کا نام دلبر جانی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔ وہ میری تحویل میں ہے۔‘‘
’’ہمارا آدمی ہے وہ۔‘‘
’’اوہ اچھا۔ ایک نوجوان کو اغوا کرکے رکھا ہوا ہے اس نے، اس کی نشاندہی پر…‘‘
’’معلوم ہے مجھے، ساری کہانی معلوم ہے۔ لیکن اب وہ نوجوان کہاں ہے، یہ نہیں معلوم۔‘‘ خانیہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
’’اسے دلبر جانی کے ساتھیوں نے دوبارہ اغوا کرلیا ہے۔‘‘
’’نہیں، بچے ہو۔ اگر وہ دلبر کے ساتھی ہوتے تو اسے بھی ساتھ لے جاتے۔‘‘
’’نہیں، یہ ان کی چال تھی۔ وہ دلبر کو اس لئے نہیں لے گئے کہ اس سے شبہ ہٹ جائے اور وہ مفرور نہ کہلائے۔ اس کے بعد انہوں نے
اور مکروہ عمل کیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ خانیہ بے اختیار بولی۔
’’وہ علی رضا کے بیوی، بچوں کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ وہ اپنے گھر میں نہیں ہیں۔‘‘
’’ایں۔‘‘ خانیہ سکندر کے چہرے کے تاثرات ایک دم سخت ہوگئے۔ یوں لگا تھا جیسے وہ اندر سے کھول گئی ہو۔ لیکن پھر اس نے خود کو سنبھال کر کہا۔ ’’ہوسکتا ہے وہ خود اپنے بچوں کو لے کر کہیں روپوش ہوگئی ہو۔‘‘ شاہ میر نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ دوبارہ بولی۔ ’’صورتحال جو بھی ہے، مجھے تم سے یہ کہنا تھا کہ دلبر جانی میرا بندہ ہے، اسے چھوڑ دو۔‘‘
’’چھوڑ دوں… لیکن اس کی ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔ اس کے بتانے پر علی رضا ایک کوٹھی سے برآمد ہوا تھا۔ بات اخبارات تک پہنچ گئی ہے۔ اس نے اغوا کا اعتراف کیا ہے۔ یہ معاملہ اب میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔‘‘
’’یہی تمہارا امتحان ہے۔ اب تم دیکھو کون سا دائو لگا سکتے ہو۔ لیکن اسے باعزت چھوڑنا ہے اور ضرور چھوڑنا ہے۔‘‘
’’لیکن خانیہ صاحبہ۔ وہ علی رضا…‘‘
’’وہ مل جائے گا۔ یہ کام میں کرلوں گی۔‘‘
’’دلبر نے آخر اسے کیوں اغوا کیا؟‘‘ شاہ میر نے بظاہر بے خیالی کے انداز میں کہا۔
’’اسے نیکیوں کا ہیضہ ہوا تھا، وطن پرستی کا دورہ پڑا تھا۔ ایک ایسے کاروباری راز سے واقف ہوگیا تھا غلطی سے جس سے اسے واقف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اسے چانس دیا گیا کہ زندگی بچا لے لیکن اس نے ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ کچھ کاغذات غائب کردیئے۔ ان لوگوں سے ٹکرانے کی کوشش کی جو بین الاقوامی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب کس نے اس کے سلسلے میں کیا کیا، یہ مجھے نہیں معلوم لیکن معلوم کروں گی۔ تم دلبر کو چھوڑنے کا بندوبست کرو۔‘‘
اسی وقت ایک اوباش آور آوارہ سا نوجوان لڑکا اندر داخل ہوگیا۔ وہ ایک خوبصورت جرسی اور پینٹ پہنے ہوئے تھا۔ ’’ہیلو موم۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ہیلو جم۔‘‘ خانیہ مسکرا کر بولی۔
’’سوشل ورک ہورہا ہے؟‘‘ نوجوان مسکرایا۔
’’یہی سمجھ لو۔‘‘
’’کون ہیں یہ؟‘‘
’’پولیس آفیسر۔‘‘
’’او۔ گڈ… میری ان سے دوستی کرا دو موم۔ ایک پولیس آفیسر بھی میرا دوست ہونا چاہئے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے، اپنی خواہش پوری کرلو۔‘‘ خانیہ نے مسکرا کر کہا۔
وہ ہونق سا آگے بڑھ کر بولا۔ ’’ہیلو آفیسر۔ میرا نام جواد ہے، تم مجھے جم کہہ سکتے ہو، میں ان کا بیٹا ہوں۔‘‘
’’ہیلو سر۔‘‘ شاہ میر کھڑے ہوکر جھکا۔
’’یورکارڈ پلیز۔‘‘ جواد نے کہا اور شاہ میر نے اپنا کارڈ نکال کر اسے دے دیا۔ وہ اسے پڑھتے ہوئے بولا۔ ’’شاہ میر گڈ نیم… لائیک یو… میں تم سے ملوں گا۔‘‘
’’ضرور سر۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’اوکے موم!‘‘ جواد کمرے سے نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی خانیہ کے چہرے کے نقوش پھر بدل گئے۔ اس کے تاثرات خوشگوار نہیں تھے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بولی۔ ’’اگر یہ تمہارے پاس آکر کسی غیر قانونی خواہش کا اظہار کرے تو مجھے بتائے بغیر اس کے لئے کچھ مت کرنا۔‘‘
’’جی خانیہ صاحبہ۔‘‘
’’ہاں۔ تو ہم کیا بات کررہے تھے؟‘‘
’’آپ علی رضا کے بارے میں بتا رہی تھیں۔‘‘
’’ہاں! پتا نہیں کیا چاہتا تھا۔ بہت بڑے لوگوں سے جھگڑا مول لے لیا ہے اس نے۔‘‘
’’کیا وہ لوگ اسے ختم کردیں گے؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’سب کچھ ممکن ہے۔ چھوڑو اس تذکرے کو۔ یہ بتائو دلبر جانی کو کب چھوڑو گے اور سنو، ہم تمہیں اس کے عوض بہت کچھ دیں گے۔ ہمارے سائے میں آجائو گے جو حاصل ہوگا، اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بس اب جائو۔ جو بھی کرو، اسے فوراً چھوڑ دو، بس اب جائو۔ اتنا وقت ہم کسی کو نہیں دیتے۔‘‘
شاہ میر کوئی جواب دیئے بغیر اٹھا اور سلام کرکے باہر نکل گیا۔ خانیہ عقب سے اسے دیکھتی رہی۔ پھر اسی وقت پچھلے دروازے سے ولی داد باہر نکل آیا۔ خانیہ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولی۔ ’’ہوں! کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ٹیڑھا بندہ ہے۔‘‘
’’ٹیڑھا نہیں، بہت ٹیڑھا اور خاصا خطرناک۔ جو لوگ بظاہر ایسے مرنجان مرنج دکھائی دیتے ہیں، وہ اندر سے بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔‘‘
’’سوفیصد میڈم۔‘‘
’’ویسے کیا خیال ہے، وہ دلبر کو رہا کردے گا؟‘‘
’’ناممکن۔‘‘
’’ہمارا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن ہم ناممکن کو ممکن بنانا جانتے ہیں۔ تم ہمارا بھی فن دیکھنا۔ سنو، میں جو کہہ رہی ہوں اسے غور سے سنو۔‘‘ خانیہ نے کہا اور ولی داد کو کچھ سمجھانے لگی۔
٭…٭…٭
صفورا نے آفس میں داخل ہوکر شاہ میر کو سلام کیا تو اس نے مسکرا کر گردن ہلا دی۔ ’’کیسے ہیں؟‘‘ اس نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’یہ تو آپ ہی بتا سکتی ہیں۔‘‘
’’بہت اچھے ہیں۔‘‘ صفورا خوشگوار موڈ میں تھی۔
’’اچھی چیزوں کو خود سے زیادہ دور نہیں رکھتے۔‘‘
’’دور نہیں ہیں۔‘‘ صفورا بولی اور شاہ میر مسکرانے لگا۔
’’چلئے اتنا کافی ہے، ان کی خبر لی۔‘‘
’’ہاں! ٹھیک ہیں، فون پر بات کی تھی۔‘‘
’’میں نے کل شام خانیہ سکندر سے ملاقات کی ہے۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور صفورا نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ’’چائے کی دعوت دی تھی لیکن چائے پلانا بھول گئی۔‘‘ شاہ میر نے مختصراً تفصیل بتائی، پھر بولا۔ ’’کبھی کبھی یہ بڑے لوگ خود کو بہت بڑا ظاہر کرنے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں لیکن ان کی ایسی کوئی حرکت بڑی کارآمد ہوتی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ صفورا نے پوچھا۔
’’اگر وہ واقعی چائے منگوا لیتی تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔ وہ اس چائے میں مجھے کوئی چیز بھی دے سکتی تھی، زہر یا کوئی نشہ آور دوا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ صفورا نے تشویش سے کہا۔
’’لیکن میں اس سے کچھ لے آیا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ صفورا نے کہا اور شاہ میر نے میز کی دراز کھولی اور اس سے دو انچ کے قطر کے دو اسپیکر نکال کر میز پر رکھ دیئے۔ پھر جیب سے ایک بے حد خوبصورت لائٹر نکالا، ساتھ ہی سگریٹ کا پیکٹ بھی۔
’’سگریٹ۔ آپ کی جیب میں۔‘‘
’’ہاں! خدا کا شکر ہے، پینے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔‘‘
’’بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’سمجھاتا ہوں۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور لائٹر کا نچلا ڈھکن کھول لیا۔
اس میں سے ایک باریک سی لیڈ نکال کر اس کے دونوں سرے چھوٹے اسپیکروں سے منسلک کردیئے، پھر لیڈ کا دوسرا سرا جس پر سوئچ لگا ہوا تھا، لائٹر سے منسلک کرکے لائٹر کا بٹن دبا دیا۔ اسپیکروں سے سرسراہٹ ابھری اور پھر ایک انسانی آواز سنائی دی۔
’’تمہاری اعلیٰ نسبی اور دانش کی خبر یوں ملتی ہے کہ تم نے وردی میں یہاں آنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘
’’یہ خانیہ سکندر کی آواز ہے۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔ آواز نہایت واضح تھی۔ صفورا اسے پُرشوق انداز میں سنتی رہی، پھر بات مکمل ہوگئی اور یہ ننھا سا ٹیپ ریکارڈر ہلکی سی چٹ کی آواز کے ساتھ بند ہوگیا۔
’’مائی گاڈ۔ یہ تو بہت بڑا کام ہوا ہے۔‘‘
’’کمبخت چائے پلانا بھول گئی۔ یہ سگریٹ کا پیکٹ میں نے اسی لئے جیب میں رکھا تھا کہ اگر کسی طرح لائٹر منظرعام پر آجائے تو اسے لائٹر ہی سمجھا جائے۔‘‘
’’یہ کہاں سے آیا۔ میں نے اسے پہلے تو آپ کے پاس نہیں دیکھا۔‘‘
’’میرے ایک جاپانی دوست نے مجھے گفٹ بھیجا ہے۔‘‘
’’غضب کی چیز ہے۔‘‘ صفورا نے تعریفی انداز میں کہا، پھر کسی قدر فکرمند لہجے میں بولی۔ ’’لیکن شاہ میر، بہت خطرناک عورت لگتی ہے، بہت لمبے ہاتھ لگتے ہیں اس کے۔‘‘
’’مجھے بھی ہاتھیوں کے شکار میں لطف آتا ہے، تیتروں کو مارنا بھی کوئی شکار ہوتا ہے۔‘‘
’’اللہ آپ کی حفاظت کرے۔‘‘ صفورا نے کہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ کسی کام سے چلی گئی۔
دن کے بارہ بجے کا وقت تھا جب ولی داد، شاہ میر کے آفس میں داخل ہوا۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی خوشگوار مسکراہٹ تھی۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر آگے بڑھا اور بولا۔ ’’خانیہ نے مجھے بہت بڑی خوشخبری سنائی ہے شاہ صاحب۔ وہ یہ کہ آپ اب ہمارے آدمی ہیں، میری خوشی کی انتہا نہیں
ہے، ایک بار گلے مل لیں۔‘‘
شاہ میر مسکراتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ ولی داد بڑے خلوص سے اس سے گلے ملا۔ شاہ میر نے بھی پوری گرم جوشی دکھائی تھی اور اسے بھینچ کر سینے سے لگا لیا تھا، پھر اس نے ولی داد کو خلوص سے بیٹھنے کی پیشکش کی اور ہنستا ہوا بولا۔ ’’میں بھی بہت خوش ہوں، بہت بڑی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہوئی ہے، مجھے تو پہلے اندازہ ہی نہیں تھا۔‘‘
’’ناتجربہ کاری ہے آپ کی شاہ جی۔ اتنا بڑا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے آپ کو ان بڑے لوگوں کے بارے میں معلوم کرنا چاہئے تھا جن کے سامنے سر جھکائے رکھنے سے ترقی ملتی ہے۔‘‘
’’جی ولی داد صاحب۔ اصل میں میرا سر جس کے حضور جھکتا ہے، وہ سب سے بڑی ہستی ہے۔‘‘
’’خانیہ فوراً دلبر جانی سے ملنا چاہتی ہیں۔ مجھ سے کہا ہے کہ اسے اپنے ساتھ لے کر آئوں اور ہاں اس خدمت کے صلے میں آپ کو اتنا کچھ ملے گا جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن خانیہ کا غصہ فرو ہوجانے کے بعد۔‘‘
’’خانیہ اب بھی غصے میں ہیں؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’ان کا مزاج ایسا ہی ہے۔ جب تک وہ دلبر جانی کو اپنے پاس نہیں دیکھ لیں گی، ان کا موڈ خراب رہے گا۔‘‘
’’میں کوشش کرکے انہیں سمجھا دوں گا کیونکہ جب تک دلبر جانی، علی رضا کو آزاد نہیں کردے گا، قانونی طور پر اسے چھوڑنا ممکن نہیں ہوگا۔ آپ لوگ اس کی ضمانت کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟‘‘ شاہ میر نے کہا اور ولی داد کا چہرہ ست گیا۔
’’گویا آپ اسے میرے ساتھ روانہ نہیں کررہے؟‘‘
’’یہ پولیس اسٹیشن ہے ولی داد صاحب۔ خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ یہاں قانون رہتا ہے اورسب کچھ اسی کے تحت ہوتا ہے۔‘‘
’’قربان جائوں خانیہ کی دوراندیشی کے۔ انہوں نے پیش گوئی کردی تھی کہ یہ بندہ جس کا نام شاہ میر ہے، اس کا سوئچ دوسرا ہے جسے دبائے بغیر…‘‘ اس نے رک کر گھڑی دیکھی، پھر آہستہ سے ہنس پڑا۔ ’’آپ کے مہمان آگئے۔‘‘
شاہ میر کچھ نہیں سمجھا تھا لیکن اسے ولی داد کی ٹائمنگ کی داد دینی پڑی کیونکہ بات ختم ہوتے ہی اینٹی کرپشن کی ایک ٹیم ایک بڑے افسر کی سربراہی میں اندر داخل ہوگئی۔
افسر نے کہا۔ ’’مسٹر شاہ میر، آپ براہ کرم دونوں ہاتھ سامنے کرکے کھڑے ہوجائیں۔‘‘
شاہ میر نے کھڑے ہوکر سلوٹ کیا اور ہاتھ سیدھے کرکے کھڑا ہوگیا۔ افسر نے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کو اشارہ کیا اور وہ میز کے گرد پھیل گئے۔
افسر نے ولی داد سے کہا۔ ’’آپ نے رشوت دے دی ولی داد صاحب؟‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’سودا ہوگیا؟‘‘
’’جی سر۔‘‘ ولی داد نے جواب دیا۔
’’سر! معلوم کرسکتا ہوں، کیا بات ہے؟‘‘ شاہ میر نے متانت سے پوچھا۔
’’جی انسپکٹر شاہ میر۔ ولی داد صاحب نے اینٹی کرپشن کو رپورٹ دی ہے کہ آپ دلبر جانی نامی ملزم کی رہائی کے لئے پانچ لاکھ رشوت طلب کررہے ہیں اور اب یہ رشوت آپ کو دے دی گئی ہے۔‘‘
’’سر، یہ شخص ایک خطرناک جرم میں ملوث شخص کی رہائی کے لئے مسلسل مجھے رشوت کی پیشکش کررہا ہے۔ جس شخص کو یہ رشوت دے کر رہا کرانا چاہتا ہے، اس نے ایک پورے خاندان کو اغوا کررکھا ہے۔ اس نے پولیس پارٹی پر خواب آور گیس کے بموں سے حملہ کروا کر دوبارہ اس نوجوان کو اغوا کرایا جسے پولیس نے اس کی نشاندہی پر برآمد کیا تھا۔ اس کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج ہے۔ اسے کیسے رہا کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھی یہ یہاں بیٹھا مجھے مسلسل دھمکیاں دے رہا تھا کہ میں اگر رشوت لے کر اس ملزم کو رہا نہیں کروں گا تو یہ اتنا بااثر ہے کہ میری نوکری بھی ختم کرا سکتا ہے سر۔ میں اب اسے دھکے دے کر نکالنے کا فیصلہ کررہا تھا۔‘‘
’’آپ نے اس کی دی ہوئی رشوت قبول کرلی؟‘‘
’’سر۔ میرا ریکارڈ بے داغ ہے۔‘‘
’’ولی داد صاحب نے پانچ لاکھ کے نوٹوں کی گڈی اینٹی کرپشن سے مارک کرائی ہے۔‘‘
’’سر۔ میں رشوت پر تھوکتا ہوں۔‘‘
’’کیوں ولی داد صاحب۔‘‘ افسر نے ولی داد کو گھور کر دیکھا۔
’’اور تھوک کر رشوت کی رقم جیب میں رکھ لیتے ہیں۔‘‘ ولی داد ہنس کر بولا۔
’’سر۔ یہ پورے محکمہ پولیس کی توہین ہے۔ میں متعلقہ آرٹیکل کے حوالے سے اس شخص کے خلاف فوری کارروائی چاہتا ہوں۔ آن ڈیوٹی پولیس آفیسر پر اس کے تھانے میں رشوت لینے کا الزام، اینٹی کرپشن کو دھوکا۔ آفیسر کے خلاف کارروائی کرانے کی کوشش پر تین دفعات عائد ہوتی ہیں۔ میرے سامنے میرے سینئر افسر موجود ہیں۔ مجھے اجازت دیں کہ میں گواہی کے لئے اپنا عملہ طلب کرلوں۔‘‘
’’ہاں! آپ اپنے عملے کو طلب کرلیں۔ میں انہیں بلاتا ہوں۔‘‘ اعلیٰ افسر نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا اور وہ باہر نکل گیا۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ زمان شاہ بھی آگیا تھا۔
تب اعلیٰ افسر نے کہا۔ ’’آپ نے رشوت قبول نہیں کی؟‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’اس شخص نے آپ کو پیشکش کی؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’آپ تلاشی دیں گے؟‘‘
’’مجھے اعتراض نہیں ہے سر۔‘‘
’’اوکے۔ آپ آگے آجایئے۔‘‘ افسر اعلیٰ نے کہا اور شاہ میر دونوں ہاتھ سیدھے کئے آگے آگیا۔ زمان شاہ کی آنکھیں خون کی طرح سرخ ہوگئی تھیں۔ اس کے جبڑے بھنچ گئے تھے۔ افسر اعلیٰ نے شاہ میر کے لباس کی تلاشی لی۔ پھر اپنے آدمیوں سے کہا۔ ’’میز کی درازوں اور کیبنٹ کی تلاشی لو۔‘‘ عملہ تعمیل کرنے لگا۔ پھر اطلاع دی کہ رقم کہیں موجود نہیں ہے۔
تب افسر اعلیٰ نے ولی داد کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ رقم دے چکے ہیں ولی داد صاحب۔‘‘
’’ابھی دی ہے سر۔ یہ تو جادوگر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ولی داد کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہونے لگے۔
’’آپ نے اینٹی کرپشن سے پانچ لاکھ کے نوٹوں کی گڈی مارک کرائی تھی۔‘‘
’’وہ میں نے اسے دی ہے۔‘‘
’’اور انہوں نے لے لی ہے۔‘‘
’’جی… جی ہاں۔‘‘ ولی داد ہکلا کر بولا۔
’’آپ نے خود دیکھ لیا۔ نوٹ ان کے پاس سے برآمد نہیں ہوئے۔‘‘
’’میں حیران ہوں۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان سے جرم کرانا چاہا جو انہوں نے نہیں کیا اور آپ ان کے خلاف اپنی سازش میں ناکام ہوگئے۔ آپ نے ہمارے محکمے کے ایک بے حد نیک نام افسر پر جھوٹا الزام لگایا، اینٹی کرپشن کو دھوکا دے کر ملوث کیا۔ تلاشی دیجئے۔ شاہد علی ان کی تلاشی لو۔‘‘ افسر اعلیٰ نے اپنے ساتھی کو حکم دیا۔
’’ارے واہ۔ یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی مثال ہوئی۔ میری تلاشی کیوں لی جائے گی؟‘‘
’’پتا چل جاتا ہے کون چور ہے کون کوتوال۔ چلو تلاشی لو۔‘‘ افسر نے کہا۔
اور اینٹی کرپشن کے آدمی نے آرام سے پانچ ہزار کے نوٹوں کی نشان زدہ گڈی ولی داد کی جیب سے نکال لی۔
’’مل گئی سر۔‘‘ شاہد علی نے گڈی سامنے کردی۔ افسر اعلیٰ کی آنکھیں شرربار ہوگئیں۔ اس نے گڈی ہاتھ میں لے کر دیکھی، پھر ولی داد کو جس کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا تھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’مم… میں… یہ… یہ۔‘‘ ولی داد کی آواز لرز رہی تھی۔
’’شاہ میر صاحب، آپ اس کے خلاف درخواست لکھئے کہ اس نے آپ کے اور آپ کے تھانے کے عملے کے خلاف سازش کی، اینٹی کرپشن کو اس میں ملوث کیا، میں اور میرے ساتھ آنے والے عملے کے لوگ اس کے گواہ ہوں گے، ہم اس کے خلاف وہ کارروائی کریں گے کہ یہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔‘‘
’’سر، میری بات سن لیں۔‘‘ ولی داد نے کہا۔ ادھر شاہ میر، زمان شاہ کو ہدایات دینے لگا تھا۔
’’چلو اسے ہتھکڑی لگائو۔‘‘ افسر اعلیٰ نے اپنے ماتحت کو حکم دیا۔ پھر شاہ میر سے بولا۔ ’’آفیسر! چونکہ آپ اس کیس کے فریق ہیں، اس لئے میں اسے آپ کی تحویل میں نہیں دے سکتا لیکن آپ اطمینان رکھیں۔ اس نے آپ کی نہیں بلکہ پورے پولیس ڈپارٹمنٹ کی توہین کی ہے۔ میں اسے بدترین سزا دلوا کر رہوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔‘‘
’’تھینک یو سر۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
ولی داد کو ہتھکڑی لگائی جانے لگی تو اس نے جلدی سے جیب میں
ہاتھ ڈال کر موبائل فون نکالا اور بولا۔ ’’رکو میں ایک فون کروں گا۔‘‘ لیکن افسر اعلیٰ نے ہاتھ بڑھا کر فون اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
’’اپنے باپ کی کوٹھی میں بیٹھے ہو کیا، جو فون کرو گے، خاموش بیٹھو۔‘‘
’’آفیسر، اپنی زندگی کم کررہے ہو۔‘‘ ولی داد نے سانپ کی طرح پھنکار کر کہا۔ ’’تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں؟‘‘
’’بے فکر رہو۔ یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ تم کون ہو۔‘‘
’’سر، صرف دس منٹ کے لئے میری ڈیوٹی لگا دیں، صرف دس منٹ مجھے دے دیں، یہ اپنی پیدائش کا صحیح وقت بھی بتا دے گا۔‘‘ زمان شاہ نے کہا اور افسر مسکرا دیا۔
’’سوری ایس آئی۔ تم لوگ فریق ہو لیکن بے فکر رہو، ہم تمہارے ہی قبیلے کے ہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
اس وقت ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ نہ جانے اجمل شاہ کی پسلی کیسے پھڑک گئی۔ وہ اپنے دلچسپ مسئلے کے ساتھ اندر آگیا۔ اندر کا منظر دیکھ کر اس نے گھگھیائی ہوئی سی آواز میں کہا۔ ’’سر، میں شیطان صورت ضرور ہوں، شیطان نہیں ہوں، بس روزی کی تلاش میں پھیری لگاتا ہوں۔‘‘
’’کون ہیں آپ؟‘‘ افسر نے پوچھا۔
’’مظلوم ملت، ایک صحافی ہوں سرکار، جس کی تقدیر میں روٹی کم ڈنڈے زیادہ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ ڈنڈے پولیس مارتی ہے، کبھی دوسرے صاحب ذوق۔ شکایت یہ ہے کہ بھوکے پیٹ مارتے ہیں حالانکہ محاورہ کھلا پلا کے مارنے کا ہے۔‘‘
’’کون سے اخبار کی رپورٹنگ کرتے ہیں؟‘‘ افسر نے پوچھا اور اجمل شاہ نے اپنے اخبار کا نام بتایا۔ ’’چلئے آپ تصویریں بنایئے، پوری رپورٹ آپ کو انچارج صاحب دیں گے۔‘‘ افسر نے اجمل شاہ کی دلچسپ باتوں پر مسکرا کر کہا اور اجمل شاہ نے اپنا کیمرہ سنبھال لیا۔ جب اس نے خاطرخواہ تصویریں بنا لیں تو افسر اعلیٰ نے اسے باہر جانے کا اشارہ کردیا اور وہ شکریہ ادا کرکے باہر نکل گیا۔
اتنی دیر میں درخواست تیار ہوچکی تھی۔ افسر اعلیٰ نے اس پر نوٹ لکھ کر دستخط کئے۔ ایف آئی آر رجسٹر پر دستخط ہوئے۔ تمام ضمنی کارروائی کے بعد افسر اعلیٰ ملزم کو لے کر چلے گئے۔ شاہ میر کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے۔ اس نے اجمل شاہ کو اندر بلا لیا۔
’’سخت بے چین ہوں شاہ صاحب۔ بڑی عزت بڑھ گئی ہے، دوسرے اخبارات نے مبارکبادیں دی ہیں، اسی چکر میں اس وقت حاضری ہوئی تھی، ضرور اس وقت کوئی بڑی خبر میرا انتظار کررہی ہے۔‘‘
’’یقیناً اجمل شاہ۔ اپنی شعلہ بیانی دکھایئے، سرخی لگایئے، محکمہ پولیس کے خلاف سازش، خفیہ ہاتھ محکمہ پولیس کو اپنے اشاروں پر نچانے کے لئے سرگرداں۔‘‘
’’زندہ باد۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا اور شاہ میر اسے تفصیل بتانے لگا۔ اجمل شاہ نوٹس لے رہا تھا۔ وہ بہت مسرور نظر آرہا تھا۔ رپورٹ مکمل کرنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’دم لگ گیا ہے سر، کھسک جائوں؟‘‘
’’کوئی چائے وائے چلے گی۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’دوبارہ حاضری دوں گا سر، پیٹ پھول گیا ہے، لاٹری نکل آئی ہے میری۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا اور ہاتھ ملا کر باہر نکل گیا۔
شاہ میر بہت خوش تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ولی داد، خانیہ کے خطرناک منصوبے کے ساتھ یہاں آیا تھا حالانکہ خانیہ نے بڑے میٹھے اور محبت بھرے انداز میں اس سے اپنی مافی الضمیر بیان کیا تھا اور ظاہر کیا تھا کہ وہ شاہ میر سے مطمئن ہوگئی ہے لیکن شاہ میر کی عقابی آنکھوں نے اس کی شخصیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔ یہ عورت ہفت رنگ تھی اور شاہ میر کا اندازہ بالکل ٹھیک نکلا۔ خانیہ نے ولی داد کے ذریعے سازش کی اور اسے رشوت کے الزام میں پھنسانے کی کوشش کی تاکہ اس کے لئے اس کی سفارش کرکے اسے اپنا مطیع کرلے۔ لیکن شاہ میر نیک فطرت تھا۔ قدرت اس کی مدد کرتی تھی۔ ولی داد جس طرح اس کے آفس آکر اس سے گلے ملا تھا، یہ غیر فطری بات تھی۔ شاہ میر ایک دم چونکا تھا۔ ولی داد ممکن ہے ابتدائی طور پر جیب کترا رہ چکا ہو، کیونکہ اس نے انتہائی صفائی سے نوٹوں کی گڈی شاہ میر کی جیب میں منتقل کی تھی لیکن شاہ میر بھی کم نہیں تھا۔ اس نے ولی داد سے مزید گرم جوشی کا اظہار کرکے گڈی واپس اس کی جیب میں پہنچا دی تھی اور ولی داد کو پتا نہیں چل سکا تھا۔
اس وقت اس نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اسے بروقت احساس ہوگیا تھا، پھر اسے خانیہ سکندر کا خیال آیا۔ اپنی اس ایک اور ناکامی پر اس کا ردعمل اور خطرناک ہوگا۔ اس سے بچائو کرنا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ زمان شاہ نے اس کی ہدایت کے مطابق دلبر جانی کو تہہ خانے میں پہنچا دیا تھا۔ تہہ خانے میں وہ دلبر جانی کے سامنے پہنچ گیا۔
’’کہئے دلبر صاحب۔ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟‘‘
’’ماں ہے تمہاری؟‘‘ دلبر جانی نے غضبناک لہجے میں کہا۔
’’خدا کے فضل سے۔‘‘
’’اس سے کہو تمہاری خیر مانگے۔‘‘
’’مانگتی ہے۔‘‘ شاہ میر مسکرا کر بولا۔
’’آئو گے، بہت جلد چھری کے نیچے آئو گے۔‘‘
’’فی الحال تو تمہاری مقدر کی سکندر پورس بنی ہوئی ہے، بڑی مصیبت میں گرفتار ہے۔‘‘ شاہ میر اسے ولی داد کی گرفتاری کی پوری تفصیل بتانے لگا۔
دلبر جانی پر عجیب سا اثر ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’ولی داد گرفتار ہوگیا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اس کے بعد خانیہ سے تمہاری ملاقات ہوئی؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔ اسے دلبر جانی کے انداز میں تبدیلی کا احساس ہوگیا تھا۔ دلبر جانی کی آنکھوں سے خوف جھانک رہا تھا۔ وہ باربار ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’آفیسر! میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔‘‘
’’پولیس کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہوتی، بس اس کا قانون شکنوں سے تنازع ہوتا ہے۔‘‘
’’تو مجھے بچائو میری زندگی خطرے میں پڑگئی ہے۔ خدا کے لئے مجھے کسی ایسی جگہ قید کردو جہاں مجھے قتل نہ کیا جاسکے، مجھے قتل کردیا جائے گا، اسے لکھ لو، اب مجھے قتل کردیا جائے گا۔‘‘
’’کون قتل کرے گا؟‘‘
’’کوئی بھی۔ اس کے پاس سیکڑوں قاتل ہیں۔‘‘
’’کس کی بات کررہے ہو؟‘‘
’’ارے تم جانتے ہو۔ میں ہار گیا۔ میں نے ہار مان لی ہے انسپکٹر۔ میں مرنا نہیں چاہتا، مجھے بچا لو۔ وہ مجھے رہا کرانے میں ناکام رہی ہے۔ ولی داد بھی پھنس گیا، وہ اب دیوانی ہوجائے گی۔ سب سے پہلے ہماری باری آئے گی کہ ہم پولیس کے جال میں کیوں پھنسے اور وہ ہمیں ختم کرا دے گی۔‘‘
’’تم نے بدتمیزی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مجھے تمہاری زندگی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔‘‘
’’ایسا مت کرو، میں سچ کہہ رہا ہوں، وہ کچھ بھی کرسکتی ہے، تم اس کی دیوانگی کو نہیں جانتے۔ اس وقت مجھے بچا لو، بعد میں اگر عدالت مجھے سزا دے گی تو میں بھگت لوں گا۔ میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا، ایک ایک لفظ سچ بتا دوں گا، وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
’’نہیں دلبر جانی۔ مجھے تم سے کچھ نہیں معلوم کرنا، میں سب کچھ خود معلوم کرلوں گا۔‘‘
’’مان لو۔ میں تمہارے ہاتھ جوڑتا ہوں، تم کچھ بھی معلوم کرلو، اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکو گے۔ دیکھو میری زندگی بچا لو۔ میرے جرائم کے سلسلے میں تم مجھے عدالت میں پیش کردینا لیکن ابھی مجھے بچا لو، میں تمہارا احسان مانوں گا۔‘‘
’’فی الحال تم یہاں محفوظ ہو۔ کوئی کتنا ہی خطرناک ہو، یہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں مزید نگرانی بڑھائے دیتا ہوں، بعد میں تمہیں بتائوں گا۔‘‘
’’مارے دے گی، وہ مجھے مار دے گی۔ تم مجھے مروانا ہی چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔
شاہ میر تہہ خانے سے واپس چل پڑا۔
(جاری ہے)