شاہ میر تہہ خانے سے باہر نکل آیا۔ دلبر جانی کے سارے کس بل نکل گئے تھے۔ ولی داد کی گرفتاری کی خبر نے اسے حواس باختہ کر دیا تھا۔ اس کی وجہ بھی اس نے بتا دی تھی۔ خانیہ کو مسلسل شکست ہو رہی تھی اور وہ اسے اپنے کارکنوں کی نا اہلی قرار دے کر انہیں موت کی سزا دے گی۔ دلبر جانی اس احساس سے خوفزدہ تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ خانیہ اس طرح کی سزا پہلے بھی کسی کو دے چکی ہے۔ کاش ایسی کوئی واردات میرے علم میں آجائے۔ شاہ میر نے سوچا۔
زمان شاہ آ گیا۔ اس کے ہونٹوں پر خوشگوار مسکراہٹ تھی۔ وہ مسرور لہجے میں بولا۔ ’’بڑا مزا آ رہا ہے سر جی۔ آپ نے تو اس کے باجے بجا دیئے۔‘‘ شاہ میر نے کچھ نہیں کہا تو وہ دوبارہ بولا۔ ’’تقدیر کا اچھا تھا کہ اینٹی کرپشن والے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ ورنہ میں دل کی ساری حسرت نکال لیتا۔‘‘
’’بس زمان شاہ۔ ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔ ویسے دشمن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ پے در پے ناکامیاں اس کی دیوانگی بڑھا رہی ہیں۔ اس لئے بڑی ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ خانیہ ایک خطرناک عورت ہے۔ اس نے مجھے بلا کر مفاہمت کی باتیں کیں اور یوں ظاہر کیا جیسے میری طرف سے مطمئن ہو گئی ہے لیکن دوسری طرف اس نے ولی داد کو رقم دے کر مجھے رشوت ستانی کے کیس میں پھنسانے کی کوشش کی۔ جانتے ہو وہ کیا چاہتی تھی؟‘‘
’’نہیں۔ شاہ صاحب۔‘‘
’’اس کے زبردست تعلقات ہیں۔ وہ بعد میں میری سفارش کر کے مجھے اس کیس سے نکلواتی اور اپنی دانست میں مجھے اپنا احسان مند کر کے غلام بناتی۔ یہ اس طرح کے لوگوں کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔‘‘
’’لیکن وہ کرنا کیا چاہ رہی ہے سر۔‘‘
’’کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہے۔ اور میں یہ بتا دوں کہ وہ محض آلۂ کار ہے۔ یہ کھیل دوسرے لوگوں کا ہے۔‘‘
’’سر جی۔ اس بارے میں آپ نے علی رضا سے پوچھ گچھ نہیں کی۔‘‘
’’ابھی کھل کر نہیں۔ لیکن جو فائل منیجر ریاض نے اسے دی تھی وہی خزانہ کی چابی ہے۔ ابھی نقصان اٹھانے والے تیز رفتاری سے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ذرا ان کی رفتار سست پڑ جائے تب ہم دوسرا رخ دیکھیں گے۔ علی رضا اور اس کے بیوی بچے سخت خطرے میں ہیں کیونکہ خانیہ ان کی شدید دشمن بن چکی ہے۔‘‘
’’وہ محفوظ ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔ اِن شاء اللہ خانیہ اس تک نہیں پہنچ سکے گی۔ ویسے دلبر جانی کی ہمت بھی ٹوٹ چکی ہے۔ وہ بھی ہمارے لئے کارآمد ثابت ہو گا۔‘‘
’’سر میرے دل میں ایک خیال ہے۔‘‘ زمان شاہ نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’وہ لوگ جانتے ہیں کہ دلبر جانی ہمارے پاس ہے اور وہ اس کی بازیابی کے لئے بھرپور کوشش کریں گے۔ دلبر جانی کوہم نے لاک اَپ سے ہٹا دیا ہے لیکن ان کی توجہ ادھر ہی رہے گی۔ ممکن ہے وہ تہہ خانے کا پتا لگا لیں۔‘‘
’’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’کیوں نہ اس کے اِن کائونٹر کا ڈرامہ کر لیا جائے۔‘‘
’’نہیں زمان شاہ۔ مقابلہ بڑے دماغوں سے ہے۔ وہ اس جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ یہ کھیل عام لوگوں کے لئے تو کارآمد ہو سکتا ہے، ان کے لئے نہیں۔ ایک کارآمد شخص کے لئے پولیس کبھی اِن کائونٹر کا رسک نہیں لے سکتی۔ وہ اندازہ لگا سکتے ہیں اور پھر وہ اس کی لاش کے حصول کے لئے بھی زور لگا دیں گے۔‘‘
’’ہاں۔ یہ پوائنٹ ہے۔‘‘ زمان شاہ نے کہا۔
’’بات چھوٹی سی تھی لیکن بہت بڑی ہو گئی ہے۔ ایک فرم کے ملازم کا اغوا۔ وہ برآمد بھی ہو گیا لیکن کھیل کچھ اور نکلا۔ وہ فائل ہمارے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن انہیں اسی دھوکے میں رہنے دو کہ ہمیں ابھی فائل کے بارے میں معلوم نہیں ہے اور علی رضا ہمارے ہاتھ نہیں لگا۔ ریاض نے بھی اپنی پوزیشن صاف رکھی ہے۔ اگر ہم فائل کے سلسلے میں بھاگ دوڑ شروع کر دیں تو وہ علی رضا کے بارے میں مشکوک ہو جائیں گے۔‘‘
زمان شاہ کچھ لمحے سوچتا رہا۔ پھر تحسین آمیز نظروں سے شاہ میر کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔
o…o…o
خانیہ سکندر اپنی شاندار رہائش گاہ کے ایک عالی شان کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر شدید غصے کے آثار تھے۔ دیر سے وہ اسی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر اس نے ایک گہری سانس لی اور قیمتی سیل اٹھا کر کسی کے نمبر ملائے اور انتظار کرنے لگی۔ کچھ لمحوں کے بعد دوسری طرف سے رابطہ ہوا تو اس نے کہا۔ ’’میں خانیہ سکندر بول رہی ہوں۔ تم کون ہو۔ اچھا عادل جان، بڑے صاحب کو میرا سلام دو… اوہ میٹنگ میں ہیں۔ کچھ معلوم ہے کب تک واپسی ہو گی۔ ٹھیک ہے عادل جان، وہ جب بھی آئیں تم انہیں میرا میسج دینا، میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ اوکے۔ یاد رکھنا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سیل آف کیا اور اسے ایک طرف پھینک دیا۔
اسی وقت ایک خوبصورت لڑکی اندر داخل ہوئی اور مسکراتی ہوئی خانیہ کے پاس پہنچ گئی اور بولی۔ ’’ہیلو مما۔ کیا بات ہے۔ کچھ موڈ آف لگ رہا ہے۔‘‘
’’بس۔ تم لوگوں کی فکر کے سوا میری زندگی میں کیا رکھا ہے۔‘‘
’’مما۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے لئے آپ اتنی کیوں فکر مند ہیں۔ سب کچھ تو ہے ہمارے پاس۔‘‘
’’اس کو برقرار رکھنے کے لئے بھی تو سوچنا پڑتا ہے۔‘‘
’’میں آپ سے کہتی ہوں کہ کسی دوسرے ملک چلتے ہیں۔ فارن کنٹریز میں بڑا حسن بکھرا پڑا ہے۔ وہاں زندگی بڑی خوبصورت ہے۔ یہاں کیا رکھا ہے۔‘‘
’’تم کہہ سکتی ہو۔ کچھ دن کے لئے کہیں جا کر رہنا بہت اچھا لگتا ہے۔ کہیں مستقل رہو گی تو دل اُکتا جائے گا۔ اپنا ماحول ہر طرح اچھا ہوتا ہے۔ ہمیں یہاں جو مقام حاصل ہے وہ کہیں اور نہیں مل سکتا۔‘‘
’’نہیں مما۔ دولت ہونی چاہیے۔ دولت کی عزت ہر جگہ ہوتی ہے۔‘‘
’’دولت عیش و عشرت کی زندگی بے شک دے دیتی ہے لیکن وہ عزت کہیں نہیں مل سکتی جو یہاں ہمیں حاصل ہے۔‘‘
’’آپ بہت بور ہیں مما۔ اچھا میں آپ کو یہ بتانے آئی تھی کہ میں آج رات ڈنر پر جا رہی ہوں۔ ڈنر کے بعد وہاں ڈانس پارٹی ہے۔ میں رات کو وہیں رکوں گی۔ آپ میرے لئے پریشان نہ ہونا۔‘‘
’’اوکے جان۔‘‘ خانیہ نے کہا۔
لڑکی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ابھی وہ دروازے سے باہر نکلی تھی کہ سیل پر بیل ہوئی اور خانیہ اس طرف متوجہ ہو گئی۔ سیل آن کر کے اس نے اسپیکر آن کر لیا۔
’’غور شاہ بول رہا ہوں عالیہ۔‘‘ سیل سے آواز آئی۔
’’تم سب کسی گٹر میں ڈوب کر مر جائو۔‘‘ خانیہ نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں سمجھا نہیں عالیہ خانیہ۔‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’کیا سمجھائوں تمہیں… بکو۔ کیوں فون کیا ہے۔‘‘
’’خانیہ۔ میں نے ابھی ایک اخبار میں ولی داد خان کے بارے میں خبر دیکھی ہے۔ اسے کسی انسپکٹر کو رشوت دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘
’’ہاں۔ مجھے پتا چل گیا ہے۔‘‘
’’لیکن عالیہ…‘‘
’’یہ تم لوگوں کی اعلیٰ کارکردگی ہے۔ مگر ایک بات کان کھول کر سن لو۔ مجھ پر کوئی آنچ آئی تو میں چن چن کر تم سب کو ختم کر دوں گی، کسی کو جیتا نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
دوسری طرف کچھ لمحے خاموشی طاری رہی، پھر آواز آئی۔ ’’عالیہ میں قدم بوسی کے لئے حاضری چاہتا ہوں۔‘‘
’’خبردار۔ میری کوٹھی کے آس پاس بھی نہ پھٹکنا۔ ہم اس وقت کچھ نادیدہ دشمنوں کے جال میں گھر گئے ہیں۔‘‘
’’آپ مجھے کچھ بتائیے۔ غور شاہ آپ کے لئے خون کی ندیاں بہا دے گا۔‘‘
’’بکواس بند کرو، تم سب نکمے ہو چکے ہو۔ کسی کام کے نہیں رہے۔ سارا کام اس دلبر نے خراب کیا ہے۔ میں نے سڑک سے اٹھا کر عزت دی تو اس نے اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھ لیا۔ کلبوں میں جانا شروع کر دیا۔ دو کوڑی کا بندہ اپنے آپ کو بہت بڑا بدمعاش سمجھنے لگا۔ ایک چھوٹا سا کام اسے دیا تھا۔ نظروں میں آ گیا اور پھر پاگل کتے کی طرح اسے گھسیٹ کر تھانے میں ڈال دیا گیا۔ تھانہ انچارج ایک نوجوان آدمی
ہے۔ سر پھرا ہے، کسی طرح قابو میں نہیں آ رہا۔ ولی داد کو بھیجا تھا اس کے پاس۔ لیکن اس بے غیرت نے نہ جانے کیسے یہ کھیل کھیلا۔ اینٹی کرپشن والوں سے نوٹ مارک کرائے تھے جنہیں اس انسپکٹر کی جیب سے برآمد ہونا تھا۔ مگر سارا معاملہ الٹا ہو گیا اور ولی داد خود مجرم بن گیا۔ دل چاہتا ہے اپنے ہاتھ سے گولی مار دوں سب کو۔ اور ایسا ہو گا۔ بہت کچھ دیا ہے میں نے تم سب کو۔ زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا ہے لیکن تم بہک گئے۔ خود کو سب کچھ سمجھنے لگے اور تم سب جانتے ہو، میں جو کچھ بناتی ہوں، اگر میری مرضی کے مطابق نہ بنے تو اسے اپنے ہاتھوں سے مٹا دیتی ہوں اور یہ ہونے والا ہے۔ جو میری فہرست سے نکل جاتا ہے، اسے دنیا چھوڑنی پڑتی ہے۔‘‘
’’ایک عرض کروں عالیہ خانیہ۔ اگر اسے میری بدنیتی نہ سمجھا جائے۔‘‘ غور خان نے کہا۔
’’بکو۔ کیا بکنا چاہتے ہو۔‘‘
’’میری ان سے پُرخاش نہیں ہیں۔ لیکن ان کی وجہ سے مجھے بھی آپ کے منہ سے یہ سب کچھ سننا پڑ رہا ہے جبکہ آپ غور خان کو اچھی طرح جانتی ہیں۔‘‘
’’آگے بکو۔‘‘ خانیہ نے کہا۔
’’ولی داد۔ دلبر جانی کو جو کرنا تھا کر چکے، اب وہ لنگڑے گھوڑے ہیں، کسی کام کے نہیں۔ پہلے آپ ان کی چھٹی کر دیں۔‘‘
’’میں بھی یہی چاہتی ہوں۔ اب مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر یہ کام کون کرے گا۔‘‘
’’میں کروں گا۔ آپ حکم دیں۔‘‘
’’کیسے کرو گے؟‘‘
’’دلبر جانی تھانے میں ہے۔ تھانہ اُڑا دوں گا۔ اس کے بعد ولی داد کا بھی کام میں تمام کر دوں گا۔ بس آپ کے حکم کی دیر ہے۔‘‘
’’میں پریشان ہوں غور خان۔ ان لوگوں نے زبان کھول دی تو میں مشکل میں پڑ جائوں گی۔ میں بھی کسی کو جوابدہ ہوں۔‘‘
’’تو پھر کیا حکم ہے۔‘‘
’’جو کچھ کہہ رہے ہو، بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ دلبر جانی کو جس انسپکٹر نے اٹھایا ہے، وہ بہت خطرناک چیز معلوم ہوتا ہے۔ میں تمہیں اس بارے میں پوری تفصیل بتائوں گی، پھر کوئی بے داغ منصوبہ بنانا ہو گا۔ اس دو کوڑی کے آدمی علی رضا کے پاس ایک فائل غلطی سے پہنچ گئی ہے۔ وہ فائل غائب ہے۔ اس کے واپس آنے سے پہلے کوئی بڑی کارروائی خطرناک ہو گی۔ میں صرف اس کی وجہ سے خاموش ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے عالیہ۔ خادم آپ کے حکم کا منتظر رہے گا۔‘‘
فون بند کرنے کے بعد خانیہ سکندر دیر تک سوچتی رہی، پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک الماری کے پاس پہنچی۔ الماری سے اس نے ایک اور سیل نکالا جو کسی قدر مختلف بناوٹ کا حامل تھا۔ اس پر کچھ کارروائی کے بعد وہ انتظار کرنے لگی، پھر ایک مردانہ آواز ابھری۔ ’’ہاں۔ بولو۔‘‘
’’خاک بولوں۔ آپ تو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔‘‘
’’ارے نہیں۔ تمہیں بھول گئے تو زندہ کیسے رہیں گے۔‘‘
’’بد دل ہو گئی ہوں آپ کے شہر سے۔ بوریا بستر سمیٹنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔‘‘
’’ارے نہیں۔ ایسا بھی کیا۔ آخر بات کیا ہے؟‘‘
’’دو دو کوڑی کے لوگ منہ کو آنے لگے ہیں۔‘‘
’’ارے کو ن مردود ہیں جو ہماری ملکیت تک پہنچنے کی جرأت کر رہے ہیں۔‘‘ دوسری طرف سے پُر مزاح انداز میں کہا گیا۔ ’’بتائو کیا بات ہے۔‘‘
’’فون پر بتانے کی نہیں۔‘‘
’’تو رات کو کھانے پر آ جائو۔ ہم انتظار کریں گے۔‘‘
’’آ رہی ہوں۔‘‘ خانیہ نے کہا۔
o…o…o
ولی داد کو چکر آ رہا تھا۔ اس نے بڑی مہارت سے نوٹوں کی گڈی شاہ میر کے لباس میں ڈالی تھی لیکن وہ واپس اس کی جیب میں کیسے پہنچ گئی۔ یہ بات کسی طور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ یہ تو شعبدہ گری تھی۔
اینٹی کرپشن والے اسے لے کر ہیڈ کوارٹر آ گئے۔ یہاں افسر اعلیٰ نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ ’’تم نے ایک نیک نام افسر پر رشوت لینے کا الزام لگایا ہے۔ تم جانتے ہو اس کے نتیجے میں تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
ولی داد جانتا تھا کہ وہ پھنس گیا ہے۔ اگر کسی مشکل میں خانیہ کی دھونس دی جائے تو بات بے حد خطرناک ہو جائے گی۔ یہ سوچا جائے گا کہ خانیہ اتنی بڑی رقم کیوں خرچ کر رہی تھی۔ آخر خانیہ کا منصوبہ کیا تھا۔ خانیہ تو اس کی جان لے لے گی۔ چنانچہ اس نے اپنے رویے کے بارے میں فیصلہ کر لیا۔
’’سر! آپ میرے ساتھ جو سلوک چاہے کریں، آپ خود سوچیں میں پاگل تو نہیں ہوں کہ جان بوجھ کر سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتا۔ میں نے وہ گڈی آفیسر کو دی تھی۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ وہ واپس میری جیب میں کیسے پہنچ گئی۔‘‘
’’اتنی بڑی رقم تم اپنے ایک دوست کی بھلائی کے لئے خرچ کر رہے تھے۔‘‘
’’ہماری بچپن کی دوستی ہے اس سے۔ اس پر ایک بندے کے اغوا کا الزام لگا کر اسے پکڑا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں سر کہ اس اغواء سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سیدھا سادا بندہ ہے۔ ہم نے شاہ میر صاحب کی بڑی خوشامد کی کہ اس بندے کو چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہم سے پیسے مانگ لئے۔ بس۔ ہم نے یہ خطرہ مول لے لیا۔ مگر ہم بڑی سے بڑی قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ ہم نہیں جانتے گڈی واپس ہماری جیب میں کیسے آ گئی۔‘‘
افسر نے غور کیا تو اسے بھی عجیب سا احساس ہوا۔ ولی داد نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ وہ رقم انسپکٹر کو دے چکا ہے۔ ایسا اس نے کیوں کہا۔
’’تمہیں اندازہ ہے کہ اگر میں تمہیں وہاں تھانے میں چھوڑ دیتا تو وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے؟‘‘
’’آپ نے ہم پر احسان کیا ہے سر۔ آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آپ ہمیں چھوڑ دیں سر۔‘‘
’’تمہیں ایک معافی نامہ لکھنا ہو گا۔ میں شاہ میر کو منا لوں گا ورنہ وہ بہت سخت افسر ہے۔ تمہاری کھال اتار کر رکھ دیتا۔ اپنے دوست کی رہائی کا معاملہ اس کی تقدیر پر چھوڑ دو۔‘‘
’’سر معافی نامہ۔ جبکہ سر، میں نے…‘‘
ولی دار نے کہنا چاہا لیکن افسر نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ ’’جو میں نے کہا ہے ،وہ کرنا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر تمہارا فیصلہ شاہ میر کی مرضی کے مطابق ہو گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر۔‘‘ ولی داد نے گردن جھکا دی اور افسر نے اپنے ماتحت کو حکم دیا کہ وہ اس سے معافی نامہ لکھوا کر اسے رہا کر دے۔
ولی داد سخت پریشان تھا۔ اسے علم تھا کہ خانیہ ان دنوں سخت الجھی ہوئی ہے۔ دلبر جانی پولیس کے قبضے میں تھا اور وہ اسے نہیں چھڑا سکی تھی۔ ضرغام کا بھی کوئی پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اب وہ بھی کسی کیس میں ملوث ہو جائے تو خانیہ کی پوری ٹیم ہی ناکام ہو جائے گی اور وہ جانتا تھا کہ شیرنی زخمی ہو کر کتنی خطرناک ہو جاتی ہے۔ یہ جو کچھ ہوا تھا اس کی سمجھ سے باہر تھا لیکن اگر وہ بھی لاک اَپ ہو گیا تو کام بگڑ جائے گا۔ پہلے یہاں سے چھٹکارا مل جائے، بعد میں خانیہ کو دیکھے گا۔ اس نے دل میں ایک کہانی گھڑ لی۔ محرر نے بیان میں کیا لکھا، اس نے زیادہ غور نہیں کیا اور معافی نامے پر دستخط کر دیئے۔ اس کے نوٹوں کی گڈی اسے واپس دے کر رہا کر دیا گیا۔
پولیس ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے باہر نکل کر وہ ہونقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بڑی عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔ اسے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اینٹی کرپشن کا افسر اس پر اتنا مہربان کیوں ہو گیا کہ اس نے اسے دروغ گوئی کے الزام میں گرفتار کر کے اتنی آسانی سے چھوڑ دیا۔ اب اسے ہر حالت میں خانیہ کو تفصیل بتانی تھی۔ اس کا دل ڈر رہا تھا کہ خانیہ اس کی ناکامی کی خبر سن کر آگ بگولہ ہو جائے گی، لیکن فرار بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
کافی دیر تک اِدھر اُدھر چکرا کر ایک ٹیکسی روکی اور اس میں بیٹھ کر خانیہ کی کوٹھی چل پڑا۔ خانیہ کے پاس اس وقت اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اس نے اسے بلوا لیا۔ وہ ایک صوفے پر نیم دراز تھی۔ آنکھیں معمول کے مطابق بند تھیں۔ اس نے اسی طرح آنکھیں بند کئے کئے کہا۔ ’’رہا ہو گئے تم؟‘‘
’’جی عالیہ۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’عالیہ کوئی بڑا کیس نہیں تھا۔ سب کچھ سراسر جھوٹ
پولیس نے پولیس کی مدد کی تھی۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’رقم انسپکٹر کے پاس سے برآمد ہو گئی، لیکن اینٹی کرپشن کے افسر نے اسے جھوٹ قرار دے کر مجھے پکڑ لیا اور پھر اخبار والے کو بلا کر خبر بنوا دی جو جھوٹی تھی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’بس مجھے اینٹی کرپشن والے لے گئے۔ بند رکھا پھر ایک معافی نامہ لکھوا کر مجھ پر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ خانیہ نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔
’’جی۔ معافی نامہ۔‘‘
’’کیسا معافی نامہ؟‘‘
’’یہی کہ میں نے اسے رشوت دینے کی کوشش کی تھی جسے افسر نے ٹھکرا دیا۔‘‘
’’تم نے یہ لکھ دیا؟‘‘
’’کنپٹی پر پستول رکھ دیا تھا انہوں نے عالیہ۔‘‘
’’کیا تحریر تھی؟‘‘
’’تت۔ تحریر۔ میں نے ٹھیک سے نہیں پڑھی۔‘‘
’’ایں؟‘‘ خانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ’’تم سے معافی نامہ لکھوایا گیا اور تم نے پڑھا نہیں۔ کیا تمہاری دماغی حالت ٹھیک ہے؟‘‘
’’معافی نامہ محرر نے لکھا تھا۔‘‘
’’ٹھیک، اور تم نے پڑھے بغیر اس پر دستخط کر دیئے۔‘‘
’’میں نے بتایا نا کہ انہوں نے پستول کنپٹی پر رکھ کر دستخط کرائے تھے۔‘‘
’’اچھا، پھر کیا ہوا؟‘‘
’’بس عالیہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔‘‘
’’اور وہ پانچ لاکھ روپے۔‘‘
’’وہ میرے پاس ہیں۔‘‘
’’یعنی وہ بھی تمہیں واپس کر دیئے۔ بڑے فرشتہ صفت لوگ ہیں، کمال ہے۔ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں ہیں۔ تم نے ایک پولیس افسر کے خلاف کام کیا اور دوسرے پولیس افسر نے تمہیں اتنی آسانی سے چھوڑ دیا۔ خیر۔ پھر تم رہا ہو گئے۔‘‘
’’جی عالیہ۔‘‘ ولی داد کے اوسان خطا ہونے لگے تھے۔
’’اور تم سیدھے میرے پاس آ گئے۔‘‘
’’جی عالیہ۔‘‘
’’تاکہ تمہارا تعاقب کرنے والوں کو کوئی پریشانی نہ ہو اور انہیں آسانی سے پتا چل جائے کہ اس سازش کی پشت پر میں ہوں۔‘‘
ولی داد کے پورے بدن میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ بے وقوفی کر گیا تھا، جلدی سے بولا۔ ’’مجھے اس کا خیال تھا کہ کوئی جال نہ بچھایا گیا ہو، چنانچہ پہلے میں شہر کے چکر لگاتا رہا، پھر جب یہ یقین ہو گیا کہ کوئی پیچھا نہیں کر رہا تب ادھر کا رخ کیا۔‘‘
خانیہ سوچ میں ڈوب گئی۔ اب اس کے چہرے کے تاثرات نرم ہوتے جا رہے تھے۔ پھر اس نے گردن اٹھا کر کہا۔ ’’بڑی مشکل سے میں نے یہ مقام حاصل کیا ہے ولی داد، جن لوگوں کو میں جواب دہ ہوں وہ میرے دوست نہیں ہیں بلکہ بدترین دشمن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کام میں دوستی کا تصور بھی دل میں نہ لائو، ورنہ مارے جائو گے۔ مجھ سے نہیں، میرے کارکنوں سے غلطی ہوئی ہے۔ ایک بے حد اہم فائل جس میں ہمارے کچھ نقشے اور رپورٹیں تھیں، وہ فائل ایک دوسری فائل کے بجائے فرم کے اسسٹنٹ منیجر علی رضا کے پاس پہنچ گئی۔ جب غلطی کا احساس ہوا تو فائل علی رضا سے واپس لینے کی کوشش کی لیکن اس احمق پر حب الوطنی کا بھوت سوار ہو گیا۔ اس نے فائل چھپا دی اور اس سے لاعلمی ظاہر کی، بہت کوشش کی جب وہ نہ مانا تو میں نے دلبر جانی کی ڈیوٹی لگائی کہ اسے اٹھا لے اور اس سے فائل حاصل کر لے۔ دلبر جانی نے اسے اٹھا لیا، اس پر تشدد کیا گیا لیکن اس نے زبان نہیں کھولی۔ پھر نہ جانے کس طرح دلبرجانی روشنی میں آ گیا اور اسے بڑی بے عزتی کے ساتھ ڈینی کلب سے اٹھا لیا گیا۔ اس پر تشدد کیا گیا تو اس نے علی رضا کے اس ٹھکانے کی نشاندہی کر دی اور پولیس نے چھاپہ مار کر اسے برآمد کر لیا۔ لیکن راستے میں پولیس پارٹی پر گیس بموں سے حملہ کر کے علی رضا کو دوبارہ اغواء کر لیا گیا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مجھے کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے دوبارہ علی رضا کو اغوا کیا۔ کیا وہ دلبر جانی کے ساتھی تھے جو کوٹھی میں علی رضا کی نگرانی پر مامور تھے۔ اگر وہ نہیں تو پھر کون تھے۔ یہ بات اس وقت تک نہیں معلوم ہو سکتی جب تک دلبر ہمارے ہاتھ نہ آجائے لیکن وہ…‘‘ خانیہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔ ’’میرے ساتھ آئو۔‘‘ اس نے ولی داد کی طرف دیکھے بغیر کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
ولی داد دل میں خوش ہو گیا کہ خانیہ کی ذہنی رو بدل گئی ہے۔ اور وہ پریشانی کی وجہ سے دوسری باتیں سوچنے لگی ہے۔ خانیہ ایک دوسرے کمرے میں داخل ہو گئی۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں دو کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک کرسی کمرے کی دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ دوسری کمرے کے درمیان تھی۔ دیوار سے لگی کرسی کے آگے میز تھی۔ خانیہ میز کے پیچھے جا بیٹھی اور پُرخیال سے انداز میں بولی۔ ’’بیٹھ جائو۔‘‘
ولی داد کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
تب خانیہ نے کہا۔ ’’دلبر جانی کو میں نے کیا سے کیا بنا دیا۔ لیکن تھوڑے سے تشدد پر اس نے زبان کھول دی اور میں خطرے میں پڑ گئی۔‘‘
’’میں کسی کی برائی نہیں کر رہا لیکن دلبر جانی ان دنوں بہت اونچا اُڑ رہا تھا۔ وہ خود کو بھول گیا تھا۔ اس سطح کا انسان نہیں تھا جس سطح کا خود کو ظاہر کرنے لگا تھا۔‘‘
’’ہاں یہی بات ہے۔ کیا نہیں دیا میں نے اپنے ساتھیوں کو۔ عزت، دولت عیش و آرام، لیکن جو کیا جا رہا ہے وہ میرے پائے ہلائے دے رہا ہے۔ اس کا مطلب میں نے تم لوگوں کا غلط انتخاب کیا ہے۔ دلبر جانی نے کچھ نہیں کیا۔ ضرغام عیاشی میں پڑ گیا اور تم۔ تم سے میں نے کہا تھا کہ اس انسپکٹر کو ٹریپ کر لو۔ تم بھی کچھ نہیں کر سکے۔‘‘
’’آپ یقین کریں عالیہ، میں نے خوش اسلوبی سے اپنا کام کر لیا تھا۔ لیکن پولیس نے پولیس کا فیور کیا۔ اینٹی کرپشن کے بڑے افسر نے نوٹ واپس میری جیب میں …‘‘
’’شٹ اَپ۔‘‘ اچانک خانیہ غصے سے چیخی۔ ’’تمہارا کیا خیال ہے میں نے زندگی بھر جھک ماری ہے۔ اینٹی کرپشن والے ایسا کبھی نہیں کر سکتے۔ تم یہ ساری بکواس کر کے مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہو۔ کیا تم مجھے بے وقوف بنا سکتے ہو؟‘‘
’’خانیہ میں…‘‘ ولی داد نے کچھ کہنا چاہا۔
’’اب صرف حقیقت۔ صرف حقیقت بتائو ولی داد…‘‘
’’میں نے سچ بتایا ہے عالیہ۔‘‘
’’سچ بتایا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم خانیہ کو جانتے ہی نہیں۔ میں سچ پرکھنے کی مشین ہوں ولی داد۔ اسی وجہ سے جی رہی ہوں۔ اور تم لوگ۔ بس ایک غلطی ہوئی ہے مجھ سے۔ تم سڑک چھاپ لوگوں کا انتخاب کیا میں نے جبکہ تم میں سے ایک بھی اس قابل نہیں تھا۔ کسی نے کچھ کر کے ہی نہیں دیا۔ وجہ یہ ہے کہ تم اس سطح کے لوگ ہی نہیں ہو۔‘‘
’’میں آپ کو کیسے یقین دلائوں۔‘‘
’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی غلطیوں کا ازالہ خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ اور میں نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔‘‘ خانیہ نے میز کی دراز کھول کر کچھ نکالا جسے دیکھ کر ولی داد خوف سے اچھل پڑا۔ یہ ایک خوفناک پستول تھا۔
’’یہ۔ یہ خانیہ۔ آپ۔ آپ مجھے…‘‘
’’نہیں، یہ تمہارے لئے نہیں ہے۔ ضرغام کو میں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں بہت چھوٹی ہوتی جا رہی ہوں۔ تم جیسے نکمے لوگ اس قابل بھی نہیں کہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے موت دوں۔ تم دو ٹکے کے لوگ میرے لئے مشکل بن گئے ہو۔ تم سب سے چھٹکارا پا کر میں ایسے لوگوں کا انتخاب کروں گی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تربیت یافتہ ہوں۔‘‘
’’آپ مجھے آخری موقع دیجئے عالیہ۔ آپ دیکھیں گی کہ…‘‘
’’یہ کام نہیں کروں گی۔ مجبوری ہے۔‘‘ خانیہ نے کہا اور وہیں بیٹھے بیٹھے کچھ کیا کہ چھت میں عین اس جگہ جہاں کرسی پر ولی داد بیٹھا ہوا تھا، ایک خانہ کھولا اور کوئی دو گز لمبا خوفناک کوبرا ولی کے اوپر گرا۔ وہ بری طرح بپھرا ہوا تھا۔ اس نے گرتے ہی ولی داد کی گردن پر کاٹا، پھر اس کے رخسار پر دانت گاڑ دیئے۔
ولی داد کے فرشتوں کو بھی ایسے کسی عمل کا اندازہ نہیں تھا۔ ایک لمحے تک تو وہ سمجھ ہی نہیں سکا۔ اس کی نظریں خانیہ کے ہاتھ میں پکڑے پستول پر تھیں۔ بعد میں اس کو سانپ کا پتا چلا، تو اس نے پوری قوت سے اسے کھینچ کر
پھینکا۔ اور سانپ قالین پر گر کر کنڈلی مار کر چوکس کھڑا ہو گیا۔ ولی داد کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں اور اس کے سارے بدن میں آگ سی لگتی جا رہی تھی۔
’’عالیہ ۔خانیہ…یہ کیا۔ یہ جلدی کر دی۔ آپ نے۔ آپ۔ خانیہ۔ تو۔ ظالم، سنگدل، کتیا کی بچی۔ کیا نہیں کیا ہم نے تیرے لئے۔ ذرا سی غلطی، ہائے۔ آہ۔ اُف۔ تیرا بیڑہ غرق، ذلیل عورت۔ اوہ۔ اوہ۔ آہ۔ آق… آق۔‘‘ اس کے بعد ولی داد کی آواز بند ہو گئی۔ سانپ کے زہر نے کام دکھانا شروع کر دیا تھا۔
خانیہ سکندر نے پُرسکون نظروں سے ولی داد کو دیکھا جو دم توڑ رہا تھا۔ پھر پھن اٹھائے خوفناک سانپ کو۔ اس کے بعد اس نے بڑے اطمینان سے دراز سے پستول کا سائلنسر نکالا، اسے پستول پر فٹ کیا اور سانپ کے پھن کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ سانپ کے پھن کی چیتھڑے اُڑ گئے تھے اور وہ قالین پر تڑپنے لگا تھا۔ قریب ہی ولی داد بھی ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔
خانیہ کے چہرے پر بھیانک سفاکی تھی۔ کچھ دیر کے بعد ولی داد اور سانپ دونوں ساکت ہو گئے۔
’’تم سے بہتر تو یہ سانپ تھا ولی داد جس نے اپنا فرض نبھایا اور مجھے راستہ دکھایا۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی کو اتنی دیر نہ پالو کہ وہ مست ہو کر تمہارے لئے خطرہ بن جائے۔ کام کے لوگوں سے کام نکالو اور اس کے بعد انہیں ان کی آخری منزل دکھا دو۔‘‘
o…o…o
شام کے سات بجے تھے۔ فضا میں اندھیرے امڈ آئے تھے۔ شاہ میر قید خانے میں داخل ہو گیا۔ اس وقت وہ ایک خوبصورت سوٹ پہنے ہوئے بے حد اسمارٹ لگ رہا تھا۔ دلبر جانی نے اسے دیکھا اور ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔ شاہ میر نے اسے غور سے دیکھا، پھر بولا۔ ’’کیسے ہو دلبر۔ کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تیار ہو جائو۔ تمہیں میرے ساتھ چلنا ہے۔‘‘
’’کک کہاں؟‘‘
’’کام ہے تم سے۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب۔ کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ لرزتی آواز میں بولا۔ ’’ہاں کہو۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب۔ میں… میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں نے آپ سے بہت بد تمیزی کی ہے جس پر شرمندہ ہوں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں۔ مجھے بچا لیں۔ میں مرنا…‘‘ اس کی آواز سسکی بن گئی۔
’’آئو۔‘‘ شاہ میر نے سرد لہجے میں کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر تہہ خانے سے باہر لے آیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اسے ایک لینڈ کروز میں لے کر چل پڑا۔
دلبر جانی اب ایک سہمے ہوئے چوہے جیسا لگ رہا تھا۔ شاہ میر اسے پتا نہیں کہاں لے جا رہا تھا۔ کافی دیر کے بعد لینڈ کروز سڑک چھوڑ کر ایک کچے راستے پر اتر گئی۔ پھر وہ ایک فارم ہائوس کے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔ ہارن دینے پر ایک چوکیدار نے گیٹ کھولا تھا۔
’’آئو۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور خود نیچے اتر گیا اور بے نیازی سے چلتا اندر داخل ہو گیا۔ فارم ہائوس کی عمارت اندر سے بہت خوبصورت تھی۔ چوکیدار کے علاوہ وہاں کوئی اور نہیں تھا۔ شاہ میر نے خود ہی روشنیاں جلائی تھیں۔ جہاں وہ دلبر کو لے کر داخل ہوا تھا، وہ ایک خوبصورت ڈرائنگ روم تھا۔
’’بیٹھ جائو۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’شکریہ سر۔ آپ کا رویہ بہت اچھا ہے لیکن میں پریشان ہوں۔ اپنی بدتمیزی کی معافی مانگ چکا ہوں۔ براہ کرم مجھے آگے کے بارے میں بتا دیجئے۔ میرا کیا بنے گا۔‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’زندگی۔‘‘ دلبر جانی نے کہا۔
’’جائو۔ راستہ دیکھ چکے ہو۔ باہر گاڑی موجود ہے۔ یہ چابی ہے۔ گاڑی لے جائو جہاں دل چاہے چھوڑ دینا۔ مناسب سمجھو تو فون پر بتا دینا کہ گاڑی فلاں جگہ کھڑی ہے۔ پولیس وہاں سے لے لے گی۔ یا اسے لے کر کہیں اور جانا چاہو تو لے جائو۔ لاکھوں روپے کی مالیت کی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا پیچھا نہیں کروں گا۔‘‘
شاہ میر کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔ دلبر جانی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ پھر بمشکل بولا۔ ’’لیکن کیوں آفیسر؟‘‘
’’اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ اصل مجرم تم نہیں ہو۔ میں تم سے خانیہ کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں لیکن زبردستی نہیں۔ میری جنگ تم سے نہیں، خانیہ سے ہے۔ تم اگر میرے ساتھ تعاون نہیں کرو گے تو میں خانیہ کے حکم سے نہیں، اپنی مرضی سے تمہیں چھوڑ دوں گا اور خانیہ کے خلاف جو معلوم کرنا چاہتا ہوں، اپنے طور پر کوشش کر کے معلوم کروں گا۔‘‘
دلبر جانی کی آنکھوں میں تحسین کے جذبات ابھر آئے۔ ’’بڑے آدمی ہو انسپکٹر۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’دوسری اور آخری بار کہہ رہا ہوں بھاگنا چاہتے ہو تو بھاگ جائو۔‘‘ شاہ میر بولا۔
دلبر جانی پھیکے سے انداز میں مسکرا دیا۔ ’’نہیں انسپکٹر صاحب۔ اس وقت بھاگ گئے تو پھر ساری زندگی بھاگنا پڑے گا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا تم نے، جو زندگی خوف کے عالم میں گزاری جائے، وہ زندگی نہیں ہوتی۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر وہ کام کرو جس کے نتیجے میں تمہیں آزاد زندگی مل جائے۔‘‘
’’کیا کرنا ہو گا بتائیں؟‘‘
’’مجھے خانیہ کے بارے میں تفصیل سے بتائو۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور دلبر سوچ میں ڈوب گیا۔ دفعتاً باہر ایک آہٹ ہوئی اور دلبر خوف سے اچھل پڑا۔ اس نے سہمی ہوئی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا۔ اسی وقت دروازہ آہستہ سے بجا۔
’’کیا بات ہے نذیر خان؟‘‘ شاہ میر نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
’’صاحب جی۔ چائے یا کافی؟‘‘
’’کافی۔‘‘ شاہ میر نے کہا اور دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
’’آپ کا بندہ تھا۔‘‘ دلبر نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا۔
’’ہاں یہ جگہ محفوظ ہے۔‘‘
دلبر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ پھر بولا۔ ’’جرم کی زندگی اچھی نہیں ہوتی۔ اب احساس ہوا ہے۔ تھوڑے دن کے عیش، پھر سزا ہی سزا۔ زندگی بھر کی جیل یا پھر پھانسی کا پھندہ۔ خیر ہم آپ کو خانیہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔‘‘
شاہ میر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا تو وہ بولا۔ ’’خانیہ اصل میں کچھ بڑے اور خطرناک لوگوں کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ان سب کی بندوق ہے۔ اس کے ذریعے بڑے بڑے مسئلے حل ہوتے ہیں اور چونکہ وہ ان بڑے لوگوں کی پروردہ ہے، اس لئے اس کی گردن بہت تن گئی ہے۔ وہ کسی سے بھی اپنا کام نکلوا سکتی ہے۔ آپ اس پر ہاتھ ڈالو گے تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ وہ کسی سے کہے گی اور آپ فیل ہو جائو گے۔ مجھے بہت حیرت ہے کہ اس نے میرے سلسلے میں اب تک آپ کو رعایت کیوں دی ہے۔ اس کی وجہ جو میری سمجھ میں آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگی ہے۔ لیکن میرے ڈرنے کی اور وجہ ہے۔‘‘
وہ خاموش ہوا تو شاہ میر نے پوچھا۔’’کیا؟‘‘
’’اس کے مزاج میں بہت غصہ ہے۔ جب وہ شدید غصے میں ہوتی ہے تو نرم اور خوش مزاج ہو جاتی ہے۔ جب وہ آپ پر مہربان نظر آئے تو سمجھ لیں آپ کی زندگی خطرے میں ہے۔ میں ابھی تک پولیس کے چنگل سے نہیں نکل سکا۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا ہو گا کہ اب مجھے سوکھی گھاس سمجھ کر کاٹ دیا جائے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ میں آدھا مر چکا ہوں۔ بس دل چاہتا ہے کہ… کہ تھوڑے دن اور جی لوں۔ بس تھوڑے دن۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔
چوکیدار کافی لے آیا اور تھوڑی دیر کے لئے سلسلۂ گفتگو منقطع ہو گیا۔ اس کے جانے کے بعد شاہ میر نے دلبر جانی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’تم زندہ رہو گے دلبر جانی۔ میں ایک چھوٹا سا آدمی ہوں لیکن میرا عزم بہت بڑا اور طاقتور ہے۔ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی، یہ میرا وعدہ ہے۔ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں بتا سکتے ہو جو اس کے پشت پناہ ہیں؟‘‘
’’اس کے مددگار آدھی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں اس کے سرپرست موجود ہیں لیکن مقامی طور پر جو لوگ اس کے سرپرست ہیں، ان میں سے کچھ کو میں جانتا ہوں۔‘‘
’’مجھے ان کے بارے میں بتائو۔‘‘
’’آپ لکھ لو صاحب۔‘‘ دلبر جانی نے کہا۔ پھر اس نے جو جو نام بتائے انہیں سن کر شاہ میر کو چکر آ گیا۔ وہ
نامی گرامی اور بڑے صاحب اثر لوگ تھے۔ وہ گم سا ہو گیا۔
دلبر جانی اپنی رو میں بولے جا رہا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اب میں آپ کو ایسا نام بتاتا ہوں جو آپ کے لئے بڑے کام کا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا نام راجہ شیر بخش ہے۔‘‘
’’نام سنا ہوا لگتا ہے۔ کون ہے یہ؟‘‘
’’راجہ اسٹیٹ۔ اس کی ملکیت ہے۔ بہت بڑا سماجی کارکن ہے مگر اسی سنڈیکیٹ کا رکن ہے۔ وہ ان لوگوں کا سچا ساتھی ہے لیکن خانیہ سے اس کی نہیں بنتی۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’خانیہ خود کو بہت بڑی سماجی کارکن سمجھتی ہے۔ اس نے کئی جگہ راجہ شیر بخش کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ راجہ اس کا مخالف ہو گیا اور اس نے کئی جگہ خانیہ کو نیچا دکھایا اور اس کے کئی کام بگاڑے۔‘‘
شاہ میر کی آنکھوں میں ایک پُراسرار چمک لہرا گئی۔ وہ کرید کرید کر دلبر جانی سے راجہ شیر بخش کے بارے میں پوچھنے لگا۔
’’مزے کی بات ہے سر جی کہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ہنستے بولتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تقریبوں میں شریک ہوتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ سارے بڑے لوگ یہی کرتے ہیں۔‘‘
کچھ دیر خاموش رہ کر شاہ میر نے اپنے سینے کے پاس کوٹ سے ایک لفافہ نکالا جس میں تصویریں تھیں۔ اس نے یہ تصویریں نکال کر دلبر جانی کے سامنے کر دیں اور بولا۔ ’’مجھے ان تصویروں کے بارے میں بتائو دلبر، اب جبکہ تم میرے ساتھی بن چکے ہو تو مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائو گے۔‘‘
دلبر جانی تصویریں دیکھتا رہا۔ پھر گہری سانس لے کر بولا۔ ’’تو وہ فائل آپ کے پاس پہنچ چکی ہے۔ ان تصویروں کے ساتھ کچھ اور کاغذات بھی تھے۔ ان تصویروں اور کاغذات کے لئے علی رضا کو اٹھانا پڑا تھا۔ وہ بالکل غیر متعلق آدمی تھا اور فائل غلطی سے اس کے پاس پہنچ گئی تھی اور جس بے چارے سے یہ غلطی ہوئی تھی، اس کی لاش بھی مچھلیاں کھا چکی ہوں گی۔‘‘
’’اوہ۔ وہ کون تھا؟‘‘
’’نہیں۔ میں اسے نہیں جانتا۔ اس کے بارے میں مجھے نہیں بتایا گیا۔ بس اتنا پتا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ یہ بات خانیہ نے ہی مجھے بتائی تھی۔‘‘
’’خانیہ قاتل بھی ہے؟‘‘ شاہ میر نے آہستہ سے کہا۔
’’جلاد ہے سر جی۔ کوئی ایک قتل کیا ہے اس نے۔ جس سے ناراض ہوتی ہے اسے موت کے غار میں دھکیل دیتی ہے۔ قتل کرنے کے یونیک طریقے تلاش کرنا اس کی ہابی ہے۔‘‘
’’گڈ۔ ہاں تصویروں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ان جگہوں کے بارے میں جانتا ہوں، بڑی اہم جگہیں ہیں۔ یہ اور ان کے بارے میں جاننا خانیہ کی موت ہے کیونکہ ان کا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے اور ان کی حفاظت بھی۔‘‘ یہ کہہ کر دلبر جانی نے ان کے بارے میں تفصیل بتانی شروع کر دی۔
o…o…o
اجمل شاہ کو کہیں سے کچھ رقم ہاتھ لگی تھی۔ بہت خوش تھا۔ ایسا کبھی کبھی ہوتا تھا ورنہ عام طور سے قرض خواہوں کی ڈانٹ پھٹکار کے سائے میں گزارا ہوتا تھا۔ وہ اپنی کھٹارا موٹر سائیکل پر کہیں جا رہا تھا کہ موٹر سائیکل سے عجیب سی آواز نکلی اور پھر وہ پھٹ پھٹ کرکے بند ہو گئی۔ اجمل شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ہم نے آپ کی فریاد سن لی ہے فریادی۔ ہم خود آپ کو پٹرول پمپ کی سیر کرانے لے جا رہے تھے لیکن اس طرح بند ہو جانا بغاوت ہے۔ یہ ہمیں پسند نہیں آیا۔ خیر، آئیے۔‘‘ پٹرول پمپ زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ اسے گھسیٹ کر لے جانے لگا۔
ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ ایک بڑی گاڑی قریب آ کر رکی۔ اس میں سے تین آدمی نیچے اترے۔ انہوں نے اجمل شاہ کا راستہ روک لیا۔ اجمل شاہ نے چونک کر انہیں دیکھا، پھر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا جس کی نال اس کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
’’حکم جناب عالی؟‘‘ اجمل شاہ نے خوش مزاجی سے کہا۔
’’بائیک اسٹینڈ کرو۔‘‘ پستول والے نے غرا کر کہا۔
’’اجازت ہو تو سڑک کے کنارے لے جائوں۔ یہاں چالان ہو جائے گا۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا۔ لیکن جواب میں اس نے بائیک کو لات مار کر گرا دیا اور اجمل شاہ کو کالر سے پکڑ کر گاڑی کی طرف دھکا دیا۔
’’چلو گاڑی میں بیٹھ جائو۔‘‘
’’اس غیرمنکوحہ کے ساتھ یہ سلوک ناروا ہے۔ احتجاج بھی۔‘‘ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور اجمل شاہ کو اس میں ٹھونس دیا۔ اجمل شاہ ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا اور کار اسٹارٹ ہو کر چل پڑی۔
کار کوئی بیس منٹ تک سفر کرتی رہی، پھر ایک عمارت میں داخل ہو گئی۔ اسے اتار کر ایک کمرے میں لایا گیا اور ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’خاموشی سے یہاں آرام کرو۔ کوئی شور شرابا کرنے کی کوشش کی تو نقصان اٹھائو گے۔‘‘
’’جو ارشاد عالی۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم ایسی میزبانی کے عادی ہیں۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا اور کمرے کا جائزہ لینے لگا۔
ان میں سے ایک بولا۔ ’’فکر مت کرو، اس بار جو مہمان نوازی ہو گی اسے زندگی بھر یاد رکھو گے۔‘‘ پھر وہ باہر نکل گئے۔ اجمل شاہ نے گردن ہلائی۔ اسے اپنی بائیک کی فکر نہیں تھی کیونکہ اس سے زیادہ ٹریفک پولیس والے اس کی بائیک کو پہچانتے تھے جو اکثر چالان کے باعث ہر علاقے کے تھانے میں رہ چکی تھی۔
o…o…o
اجمل شاہ کو اغوا کر کے لانے والوں میں سے ایک خانیہ کے سامنے پہنچ گیا اور بولا۔ ’’عالیہ خانیہ، ہم اس اخبار والے کو لے آئے ہیں جس نے دلبر جانی والے کیس کی خبریں چھاپی تھیں۔‘‘
’’لے آئے ہو، کہاں ہے؟‘‘
’’سڑک سے اٹھایا ہے۔‘‘
’’کس نے کہا تھا؟‘‘ خانیہ حیرت سے بولی۔
’’غور شاہ صاحب نے حکم دیا تھا۔‘‘
’’او، میرے خدا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘
’’انیکسی میں بند کر دیا ہے۔‘‘
’’اُف۔‘‘ خانیہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’آئو میرے ساتھ۔‘‘
کچھ دیر کے بعد وہ انیکسی میں اس کمرے میں داخل ہو گئی جہاں اجمل شاہ کو بند کیا گیا تھا۔ اجمل شاہ سکون سے بیٹھا ہوا تھا۔ خانیہ کو دیکھ کر اس نے کسی تاثر کا اظہار نہیں کیا۔ خانیہ نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’نوجوان رپورٹر، میں کس طرح تم سے ندامت کا اظہار کروں۔ اصل میں کچھ لوگ اپنے مالکان کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔ میں نے اپنے آدمیوں سے کہا تھا کہ میں اس رپورٹر سے ملنا چاہتی ہوں جس نے دلبر جانی اور ولی داد کی رپورٹیں شائع کی تھیں اور ان لوگوں نے یہ جہالت دکھائی کہ تمہیں اس طرح لے آئے۔ میں اخبار والوں کی بڑی عزت کرتی ہوں۔ جن لوگوں نے یہ کیا ہے ان کے لئے سزا تم ہی تجویز کرو گے۔ آئو میرے ساتھ پلیز۔ تم میرے معزز مہمان ہو۔‘‘
’’مجھ سے زیادہ زیادتی میری بائیک کے ساتھ ہوئی ہے۔ براہ کرم اس کی خبر لیجئے۔ میں شکر گزار رہوں گا۔ بیچ سڑک پر زخمی پڑی ہے۔ پتا نہیں اب کہاں ہو گی۔‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘ خانیہ حیرت سے بولی۔
’’میری موٹر سائیکل جس نے زندگی میں پہلی لات کھائی ہے۔ میں تو اسے اسٹارٹ بھی پڑے پیار سے کرتا ہوں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ خانیہ مسکرائی۔ پھر بولی۔ ’’ٹھیک ہے۔ میں اسے یہیں منگوا لیتی ہوں۔ فکر مت کرو۔ آئو میرے ساتھ آئو۔‘‘ وہ اجمل شاہ کو لے کر ایک بڑے کمرے میں پہنچ گئی۔ پھر اسے ایک صوفے پر بیٹھنے کی پیشکش کر کے خود دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی اور بولی۔ ’’مجھے جانتے ہو؟‘‘
’’نہ جان کر شرمندہ ہوں۔ آپ ایک میزبان خاتون ہیں۔‘‘
’’لوگ مجھے خانیہ سکندر کہتے ہیں۔‘‘
’’ایں۔‘‘ اجمل شاہ نے شدید حیرانی کا مظاہرہ کیا۔ ’’ارے۔ اوہ آپ۔آپ…‘‘
’’ہاں۔ میں ہی ہوں جس کے خلاف تم لکھتے رہتے ہو۔ حالانکہ تمہیں مجھ سے ملنا چاہیے تھا۔‘‘
’’آپ کے؟ آپ کے خلاف تو میں نے کچھ نہیں لکھا۔‘‘
’’دلبر جانی میرا خاص آدمی ہے۔ اس سے متعلق تمام امور مجھ سے منسلک ہیں۔ ولی داد کا رشوت کیس بھی مجھ سے منسلک کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ اس کا انفرادی معاملہ ہے۔
شخص کے اغوا کو ذریعہ بناکر میرے دشمنوں نے مجھے پھانسنے کی کوشش کی ہے جبکہ اگر مجھ سے رجوع کیا جاتا تو میں ان کی کھال اتار کر ان سے پوچھتی کہ یہ سب کیا ہے، مگر میرے وہ دشمن کامیاب ہو گئے جو مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں اور تمہارے اخبار نے یہ خبریں شائع کر کے ان کی سازش مکمل کر دی۔‘‘
’’اوہ۔ شرمندگی کے اظہار کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہوں۔ میرا تھانوں سے رابطہ رہتا ہے۔ وہاں سے جو خبریں ملتی ہیں۔‘‘ اجمل شاہ نے اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں اجمل شاہ۔ یہ خبر تمہیں تھانے سے نہیں ملی۔‘‘
’’وہی بتانے جا رہا تھا۔ ایک اجنبی شخص نے مجھے فون کر کے بتایا تھا کہ فلاں تھانے چلے جائو، ایک اہم خبر تمہاری منتظر ہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ خانیہ سوچتی رہی، پھر بولی۔ ’’تمہیں یہ تفصیل اپنے اخبار میں دینا ہو گی۔ میرے لئے کام کرو، تمہارا مستقبل بنا دوں گی۔ لوگ مجھے تقدیر گر کہتے ہیں۔‘‘
اجمل شاہ نے گردن جھکا دی تھی۔
o…o…o
خانیہ پتھر کی عورت تھی لیکن ان دنوں جب تنہا ہوئی تو اس کے چہرے سے پریشانی صاف جھلکتی تھی۔ زندگی بھر کسی الجھن سے متاثر نہیں ہوئی تھی لیکن آج کل نہ جانے کیوں دل گھبرایا رہتا تھا۔
اس وقت بھی وہ کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں اداس بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک ملازمہ نے آ کر کہا۔ ’’مہمان آ گئے خانیہ جی۔‘‘ اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ڈرائنگ روم کے دروازے سے ایک خوبصورت دراز قامت عورت اندر داخل ہوئی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر خانیہ سکندر کی طرف بڑھی۔ ’’خانیہ میری جان!‘‘
خانیہ نے کھڑے ہو کر اسے گلے لگا لیا تھا۔ رسمی باتیں ہوئیں، پھر آنے والی نے شکایتی لہجے میں کہا۔ ’’میرا خیال تھا تم ایئر پورٹ مجھے لینے آئو گی۔‘‘
’’سوری سیسلا میں کچھ بیمار ہوں۔‘‘
’’مجھے لگ رہا ہے اور حیرت ہو رہی ہے کہ شیرنی بھی بیمار ہو سکتی ہے۔‘‘
’’سب کچھ ہو سکتا ہے، تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’دیکھ لو، سامنے ہوں۔‘‘ عورت نے کہا جسے سیسلا کہہ کر پکارا گیا تھا۔
’’ہاں۔ تم ٹھیک ہو، میں نے کچھ غلطیاں کی ہیں جن کا نتیجہ بھگت رہی ہوں۔‘‘
’’غلطیاں؟‘‘
’’ہاں۔ اپنے کارکنوں کے غلط انتخاب کی غلطی۔ میں نے غلط لوگوں کو منتخب کیا۔ وہ صرف غنڈے تھے، قاتل تھے، اسمگلر تھے لیکن ذہین نہیں تھے جن کی وجہ سے میں مشکل میں پڑ گئی ہوں۔‘‘
’’مشکل؟‘‘ سیسلا نے کہا۔
’’ہاں۔ سخت مشکل۔‘‘
’’مجھے حیرت ہوئی۔ تم تو مشکل کا لفظ بھی نہیں جانتی تھیں۔‘‘
’’بس تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔‘‘
’’میری پیروی کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’گھاس جب اوپر سے پیلی ہو جائے تو اس کے پورا سوکھنے کا انتظار مت کرو۔ اسے کاٹ دو کیونکہ سرے سوکھ جائیں تو پتا چل جاتا ہے کہ جلد یا بدیر وہ نیچے تک سوکھ جائے گا۔ اس کی جگہ نئی گھاس لگوا لو۔‘‘ سیسلا نے کہا۔
خائنہ نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا اور سوچ میں ڈوب گئی۔
(جاری ہے)