حیات انسانی میں دکھ سکھ آتے ہی رہتے ہیں۔ زندگی اسی سے عبارت ہے۔ ہمارے جیون میں بھی ایک وقت ایسا آیا جب بھائی تعلیم چھوڑ کر ملازمت کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ والد صاحب بوڑھے تھے۔ صحت دن بہ دن گرتی جارہی تھی۔ وہ اچانک بیمار پڑ گئے۔ دکانداری سے جو قلیل آمدنی ہوتی تھی، اسی سے گزارا چل رہا تھا۔ بیماری کی وجہ سے ابا اب سارا دن دکان پر نہ بیٹھ سکتے تھے۔ جس روز افاقہ ہوتا، دکان کھول لیتے، دو چار گھنٹے بیٹھتے، شام سے کچھ پہلے بند کر کے بستر پر رہتے ہوئے بستر سے ہی لگ گئے۔ ادھر دکانداری تو مستقل وقت دینے سے ہی ہوتی ہے ورنہ گاہک کسی اور دکان کا رخ کر جاتے ہیں اور گاہکی کا رشتہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے- ابا کو کاروبار کے بند کرنے کا بہت دکھ تھا۔ انہوں نے کریانہ کی بیوپاری میں بہت محنت کی تھی۔ جب گھر کی گاڑی دھچکے کھانے لگی۔ تین کی بجائے چولہا بھی دو وقت جلتا، پھر بھی ابا نے کلیم کو سمجھایا کہ جوں توں یہ وقت کٹ جائے مگر تم تعلیم نہ چھوڑو، ہم تنگی ترشی سہہ لیں گے۔ انسان ایک وقت کی روٹی کھا کر بھی زندہ رہ جاتا ہے لیکن غریب آدمی کے لئے بیماری کے اخراجات برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مجبوری یہ کہ انسان اپنے پیارے کو آنکھوں کے سامنے مرتے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ تبھی بھائی نے بڑی تگ و دو کے بعد ایسی نوکری تلاش کر لی کہ صبح کالج اور رات کو ملازمت کرتے تو پھر سے گھر کا گزارا چلنے لگا۔ محنت سے میرے بھائی کی صحت پر اثر پڑنے لگا۔ جو باپ کا اکلوتا بیٹا ہو اور کبھی زندگی میں قبل ازیں مشقت کی چکی کا ہتھا نہ پھیرا ہو، اس کے لئے دگنی محنت ایک مشکل کم سے کم نہ تھی۔ کلیم جلد حالات سے گھبرا گیا۔ کہتا آپا! جی کرتا ہے کہیں نکل جائوں، زندگی ایک کھٹارا مشین لگنے لگی ہے۔ میں کلیم کو تسلی دیتی۔ بھائی ! ہمت نہ ہارو، تعلیم کے یہ چند سال گزر جائیں گے۔ اس کے بعد تمہاری منزل آسان ہو جائے گی۔ تم ایسا کرو، کبھی کبھی چھٹی کے دن دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کو چلے جایا کرو۔ سیر و تفریح پیسے کے بغیر نہیں ہوتی۔ دوست چار روپے خرچ کریں گے تو دوروپے مجھ کو بھی ان پر خرچ کرنا پڑیں گے۔ ہاں ! کہتے تو تم ٹھیک ہو۔ ایسا کرو کہ خالہ صفیہ کے پاس چلے جایا کرو- میری یہ ایک ہی خالہ تھیں جو خاصی امیر تھیں۔ امی بھی کبھی وہاں چلی جاتیں تو میں بھی ساتھ ہو لیتی۔ وہ اؤ بھگت کرتیں۔ کچھ دکھ سکھ ان کے ساتھ بانٹ لینے سے جی شاداب ہو جاتا۔ کلیم بھائی کو ان کے گھر جانا بھی گراں ہوتا کہ وہاں جا کر ان کے بڑبولے بچوں کے درمیان ان کو احساس محرومی ستانے لگتا تھا۔ بار بار میرے کہنے سے ایک دن وہ خالہ کے ہاں جانے کو تیار ہو گئے۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو، میں فائزہ سے مل لوں گی۔ اتوار کے روز ہم بہن بھائی، خالہ صفیہ کے گھر چلے گئے۔ خالہ نے عزت سے بٹھایا۔ خاطرمدارات کی ہم نے گھر کے تنے ہوئے ماحول سے نکل کر خود کو خوشگوار ماحول میں پایا۔ اتنے میں اسکول سے خالہ کی چھوٹی بیٹی لبنی آگئی۔ لبنی اپنی ماں کی لاڈلی تھی۔ اس وقت وہ اپنے اسکول کے فنکشن سے آئی تھی۔ خوبصورت لباس میں ملبوس، بنی ٹھنی ہوئی، مجھ کو صفیہ کے ساتھ باتوں میں مشغول پا کر اس نے کلیم بھائی کی طرف رخ کر لیا۔ بولی۔ کلیم بھائی ! آپ ہمارے گھر بہت دنوں بعد آئے ہو، خیر تو ہے؟ ہاں ! خیر ہے، خدا کا شکر ہے۔ خالہ سے ملنے چلا آیا۔ بولی۔ بھائی کا جواب سن کر وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگی۔ کیا دیکھ رہی ہو مجھ میں اس قدر غور سے ؟ یہ دیکھ رہی ہوں کہ تم ہر بار ایسے ہی کپڑوں میں آتے ہو۔ کیا تمہارے پاس بس یہی ایک جوڑا ہے اور کپڑے نہیں ہیں ؟ اگر ایسی بات ہے تو کہو ، ایک دونئے جوڑے میں ہی تم کو بنوا دوں ؟ کس خوشی میں ؟ بھائی نے کہا۔ ارے بھئی ! میرے سر کے صدقے پہن لینا۔ اس کے یہ توہین آمیز الفاظ سن کر کلیم بھائی کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ مجھ سے کہا۔ میں جارہا ہوں ملیحہ ! تم نے چلنا ہے تو چلو ورنہ بعد میں خود آجانا۔ خالہ روکتی رہ گئیں مگر کلیم نہ رکا اور آنا فانا ان کے گھر سے نکل گیا۔ وہ تو گیا تھا اپنی طبیعت کو ہلکا پھلکا کرنے اور وہاں جاکر دل پر منوں بوجھ اور پڑ گیا۔ امی اور بڑی باجی شام کو خالہ کے گھر جا کر مجھ کو لینے آئیں۔ واپسی پر کلیم کو ہی برا بھلا کہا کہ تم کو خالہ روکتی رہ گئیں اور تم فورا ہی ان کے گھر سے نکل آئے، کیوں تم نے خالہ سے اتنی بد تمیزی کی، ان کا کہنا نہ سنا اور گھر آ گئے، کیا گھر بھاگا جارہا تھا۔ کیا آپ کو کسی نے نہیں بتایا کہ ان کی صاحبزادی لبنی نے کیسی باتیں کہیں مجھ سے …؟ اس نے تو مذاق کیا تھا تم سے۔ میٹرک کی لڑکیاں ہوتی ہی ایسی لا ابالی ہیں۔ تمہاری خالہ تم کو داماد بنانے کا سوچ رہی ہیں اور تم ہو کہ ان کو خفا کر کے آگئے۔ باجی نے انکشاف کیا۔ پگلے لڑکے ! اگر انہوں نے تم کو داماد بنا لیا تمہاری تو قسمت کھل جائے گی ، خواہ مخواہ ذراسی بات پر غصہ کر رہے ہو۔ مجھ کو نہیں کھلوانی اپنی قسمت۔ ایسی بد تمیز لڑکی کے ساتھ قسمت کھلے گی یا کہ پھوٹ جائے گی۔ کلیم کا غصہ دوچند ہو گیا۔ میرے بھائی کا کہنا صحیح تھا۔ امی کو میں نے سمجھایا۔ ان کا ہمارا میل نہیں ہے، یہ رشتہ بے جوڑ رہے گا۔ اول تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایسا ہوا بھی تو کیا لبنیٰ ہمارا گھر آباد کر سکے گی۔ ہمارے گھر کی غربت میں تو اس کا سانس بھی لینا دشوار ہو گا۔ یہاں وہ کب رہے گی، کلیم کو تو وہ گھر داماد بنالیں گے۔ باجی … کیسی باتیں کرتی ہو۔ بھیا کیوں ہونے لگے گھر داماد۔ کیا آپ ان کا مزاج جانتی نہیں اور کیوں بنیں وہ ان کے گھر داماد جبکہ یہ ہمارا اکلوتا بھائی ہے۔ ماں باپ کو بڑھاپے میں بیٹا چھوڑ جائے تو ان کی کون سی راہ ہے۔ میں نے باجی کو قائل کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ بڑھ چڑھ کر اپنے بھائی کا رشتہ لبنیٰ سے جوڑنے کی کوشش سے باز رہیں۔ امی کہنے لگیں۔ بیٹی ، دراصل آج کل شریف لڑکوں کا ملنا مشکل ہے۔ خالہ ، کلیم کے بارے سوچ رہی ہیں، پیسے کی ان کو کمی نہیں ہے ، نیک داماد چاہئے بس ! وہ تو بیٹی کو اتنا دینے کا سوچ رہی ہیں کہ پھران دونوں کو کسی شے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ میں امی سے بحث نہ کرنا چاہتی تھی سو خاموش ہو گئی۔ چند روز گزرے کہ ایک روز ہمارے گھر میں دھماکا ہو گیا۔ ہم حیران کہ یہ ابو کو کیا ہو گیا ہے، آخر کیوں اتنے غصے میں ہیں۔ تبھی انہوں نے کلیم کو بلا کر پوچھا۔ یہ بتائو مجھے کہ تم اتنی غلط جگہ کیوں گئے تھے کہ جہاں شریف لوگ نہیں جاتے ؟ والد کی بات سن کر امی اور ہم ساری بہنوں کو سانپ سونگھ گیا۔ غربت، اس پر وہ بازار تجھ پرخدا کی مار ! ابا میں نہیں گیا، میں غلط جگہوں پر نہیں جاتا۔ والد صاحب کو یقین نہ آیا مگرخاموش ہو رہے۔ کلیم بھائی نے صحیح نہیں کہا تھا۔ ان کی پیشانی پر پسینہ آ گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ دال میں کچھ توکالا ہے۔ لیکن کس بیٹے کو حوصلہ ہوگا کہ باپ کے سامنے ایسی بات کے بارے میں سچ بولے۔ کلیم صحیح بات بتا بھی دیتا توابا کب یقین کرنے والے تھے۔ صحیح بات تو بعد میں پتا چلی۔ دراصل کلیم کے ایک استاد کی بوڑھی پھوپی دمے اور سانس کی مریضہ تھی۔ کسی نے کہا کہ چنے کے برابر افیون کھلانے سے کھانسی اور دمہ کی بیماری میں افاقہ ہوگا۔ پس بطور دوا ان کو کچھ دنوں کھلائی جاتی رہی جس سے غنودگی ہو جاتی اور وہ سوجاتیں لیکن گھروالوں کو یہ اندازہ نہ تھا کہ ان کو اس نشے کی ایسی لت لگ جائے گی کہ بغیر افیون لئے پھر ان کی جان پر بن آئے گی۔ استاد صاحب اپنی اس پھوپی سے بہت پیار کرتے تھے کہ اسی خاتون نے ان کو بچپن میں پالا تھا۔ اب جو وہ نشے کی طلب میں ماہی بے آب کی طرح تڑپیں ، ان کی تکلیف استاد سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ یہ چیز بازار میں تو آسانی سے ملتی نہ تھی اور افیون کا نشہ اتنا برا تھا کہ نہ ملنے پر دم گٹھنے لگتا تھا۔ ایک اس بازار کی عورت سے استاد کی کبھی جان پہچان رہی تھی۔ سو اسی ادھیٹر عمر سے یہ افیون کی گولی منگواتے اور بدلے میں یہ عورت ان سے مے نوشی کے واسطے ایک بوتل لے لیتی تھی- چونکہ شراب تو مل ہی جاتی تھی لہذاوہ یہ ایک بوتل اس کو عنایت کر کے اور ایک گولی اپنی پھوپی کے لئے حاصل کرتے۔ اب مسئلہ یہ تھا چونکہ تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے لہذا خود اس جگہ جانے سے گھبراتے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا توعزت کے ساتھ نوکری کے جانے کا بھی خطرہ تھا۔ ان کو بے شمار لوگ مع ان کے شاگردوں کے جانتے تھے لہذا انہوں نے سیدھے سادے اپنے شاگرد یعنی میرے بھائی کلیم کو ایک ضرورت مند لڑکا جان کر یہ کام اس کو سونپا اورکہا۔ اگر تم روز وہاں جا کر جہاں میں تم کو بھیجوں ، ایک عورت سے ڈبیا میں دوا لا دیا کرو تو میں نہ صرف تمہاری فیس معاف کرا دوں گا بلکہ تم کو پڑھنے میں بھی مدد دوں گا۔ کلیم بے چارہ غربت کے ہاتھوں مجبور تھا لہذا استاد کے اس غلط کام کا بیڑہ اٹھا لیا۔ وہ نہیں سمجھ سکا کہ منشیات خواہ چنے برابر ہو، اس کو لانا لے جانا، جرم ہے۔ لبنی کا ایک چچازاد مہرروز ، ایک بگڑا ہوا امیر زادہ دولت لٹانے اور تماش بینی کو چند اوباش دوستوں کے ہمراہ اسی رسوائے زمانہ جگہ جایا کرتا تھا جہاں استاد کی خاطر دوا کی ڈبیا لینے کو جس میں افیون کی گولی ہوتی ، کلیم بھی جایا کرتا تھا- لہذا مہروز نے کئی بار کلیم کو اس بدنام زمانہ محلے میں آتے جاتے دیکھا تھا۔ اس نے خالہ کو بتایا کہ آپ کا بھانجاغلط راہ پر لگ گیا ہے، کہیں اس کے ساتھ بیٹی کا رشتہ نہ کر دینا۔ مہرروز کور شتے کی بھنک پڑ چکی تھی۔ وہ خود لبنیٰ سے شادی کا خواہاں تھا۔ اس نے میرے بھائی کے بارے معلومات خالہ یعنی میری تائی کو دیں اور خالہ نے امی کو بتایا۔ امی نے کہا۔ کسی کو غلط فہمی ہوئی ہے، میرا بیٹا بازار حسن نہیں جا سکتا، یہ ناممکن بات ہے اور وہ بھی اتنی کم عمری میں…بہر حال امی نے بیٹے سے پوچھا بھی تو بھائی نے انکار کیا جس پر وہ خاموش ہو رہیں۔ خالو خاموش نہ رہ سکے۔ انہوں نے والد صاحب کے یہ بات گوش گزار کر دی۔ وہ تو پہلے ہی بیمار تھے ، ان کی حالت غیر ہوگئی۔ اب کلیم سے باز پرس لازم تھی، اس نے صاف انکار کیا، تب ابا نے خالو کو بلا کر کہا کہ میاں ! تم کو غلط کسی نے کہا ہے، میر ابیٹا وہاں کبھی نہیں گیا ہے ، یہ کسی دشمن نے اڑائی ہے۔ خالو بولے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ یقین نہیں آتا تو آنکھوں سے دیکھ لو۔ ایسے تو تم مانو گے نہیں ۔ وہ ابا کو اپنی کار میں اپنے ساتھ لے گئے اور وہاں انہوں نے اپنی آنکھوں سے بیٹے کو اس عورت کے گھر سے نکلتے دیکھا جو اپنی نام نہاد بیٹیوں کا حسن بیچتی تھی۔ والد سے برداشت نہ ہو سکا اور کلیم کو وہیں دھر لیا۔ اس وقت کلیم کے پاس صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ کار میں بٹھا کر کلیم کو گھر تو لے آئے، آتے ہی اس پر جوتوں کی بارش کر دی۔ وہ بیٹے کی کوئی بات سنا ہی نہ چاہتے تھے۔ آنکھوں دیکھی کافی تھی۔ ابّا چلا نہ سکتے تھے، پھر بھی چلا رہے تھے اور امی روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ پیٹ بھر روٹی نہیں ، اوپر سے صاحبزادے کے یہ لچھن …! امی، ابا نے بھیا سے ترک کلام کیا اور ہر تعلق بھی ختم کر لیا۔ ان کے اس رویئے سے کلیم کا دم گٹھنے لگا۔ جو نہی وہ گھر میں قدم رکھتا، اس کو دیکھ کر سبھی کی صورتوں پر ماتم سی سوگواری پھیل جاتی۔ اس نے ساری بات اپنے استاد کو بتا دی۔ استاد بھی انسان ہوتے ہیں لیکن ان کی ذرا سی خطا ان کی شخصیت پر داغ لگا دیتی ہے۔ ان کو بھی اپنے شاگرد پر آئی افتاد کے بارے سن کر بہت دکھ ہوا۔ وہ ابا جان کے پاس آئے معافی طلب کی اور اصل وجہ افیون منگوانے کی بیان کی۔ انہوں نے کہا: آپ کا لڑکا بے قصور ہے ، مجرم میں ہوں جو چاہے مجھ کو سزا دیں۔ والد نے کلیم سے بات چیت تو شروع کر دی مگر وہ اب بہت رنجیدہ رہنے لگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا: اگر کلیم کے خالو اور خالہ اس کو اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیتے تو میں اس کی ایک اچھے گھرانے میں شادی کروا دوں گا۔ والد بیٹے کا سہرا دیکھنا چاہتے تھے۔ پروفیسر صاحب نے ان کو باور کرا دیا کہ ان کے جاننے والے خوشحال مگر نیک لوگ ہیں اور ان کو جہیز کا بھی لالچ نہیں ہے۔ والدین ان کی باتوں میں آگئے ، لڑکی دیکھنے ان کے ساتھ چلے گئے۔ لڑکی خوبصورت تھی، گھرانہ بھی خوشحال تھا۔ والدین نے کلیم کے لئے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ امتحان ختم ہو گئے تو کلیم بھائی کی شادی اس لڑکی مہ جبیں سے ہو گئی۔ کچھ دن اچھے گزرے۔ بعد میں لڑکی نے بھائی سے تقاضا کرنا شروع کردیا کہ میرے والدین کی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ استاد صاحب نے کہا تھا کہ شادی کے بعد تم میرے میکے چل کر رہو گے لہذا اب ہم اپنے والدین کے پاس چل کر رہتے ہیں۔ بھیا نے گھر داماد بنے سے انکار کر دیا تو ان کی بیگم روٹھ کر میکے چلی گئیں ، لاکھ منانے پر بھی نہ مانیں۔ انہوں نے وہاں ہی بیٹی کو جنم دیا۔ جب بیٹی کی پیدائش کی خبر ملی، کلیم بھائی نہ رہ سکے اور بیوی کے میکے چلے گئے اور اس کے بعد وہ لوٹ کر واپس گھر نہ آئے۔ خدا جانے ان لوگوں نے ان پرکیسا جادو کیا کہ انہی کے ہو رہے۔ اپنے ماں باپ اور تین بن بیاہی بہنوں کو بھی تنہا چھوڑ دیا۔ امی مجھ سے کہتیں۔ ان سے تیری خالہ کا رشتہ کیا برا تھا۔ وہ لوگ بھی تو کلیم کو گھر داماد بنا کر رکھنا چاہتے تھے تبھی میں ان کو چھوڑ ادھر کو بھاگی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ بھی میرے لڑکے کو مجھ سے چھین لیں گے۔ پتا ہوتا تو اپنی بہن سے ہی ناتا جوڑ لیتی مگر اب کیا ہو جب چڑیاں چگ گئیں کھیت …! ابا نے استاد صاحب سے جا کر فریاد کی۔ وہ لا تعلق بن گئے۔ کہنے لگے۔ میں نے تو کلیم اورآپ لوگوں کے لئے اچھا ہی سوچا تھا۔ اگرآپ کا بیٹا سسرال جا کر کر ان کا ہو گیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور- قصور تو آپ کے اپنے بیٹے کا ہے۔ قصہ مختصر ، انت یہ ہوا کہ ہم نے خالہ کا دامن چھوڑ کر اپنے بھائی کو کھو دیا۔ قبل از وقت لبنیٰ کو برا جانا حالانکہ اس وقت وہ صرف چودہ، پندرہ کی کمسن لڑکی تھی، بعد میں جب باشعور ہو گئی تو بہت اچھی باادب اور پیار کرنے والی لڑکی ثابت ہوئی۔ وہ مجھ سے کہتی کہ تمہارے بھائی کو میں دل سے پسند کرتی تھی، انہی سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن آپ لوگوں نے مجھ کو نہیں سمجھا اور جب کلیم کی شادی اور جگہ ہو گئی، میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں نے تب شادی نہ کرنے کا تہیہ کر لیا، سب رشتے ٹھکرا کر صرف پڑھائی کی طرف دھیان دیا ، خود کو پڑھائی میں گم کر لیا۔ عہد کیا کہ پسند کا جیون ساتھی نہ ملا تو ڈاکٹر بن کر زندگی کو کامرانی سے ہمکنار کروں گی۔ خوب محنت کی اور ڈاکٹر بن گئی۔ لبنیٰ آج بھی ہم سے پیار سے ملتی ہے ، شاید اس کو اس کا آئیڈیل نہیں ملا- اب تک بھی اس نے شادی نہیں کی لیکن وہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہے ، اپنے پیشے میں ماہر سمجھی جاتی ہے۔ خوب کمایا ہے زندگی میں ، کسی شے کی کمی نہیں۔ اگر کوئی کمی ہے تو بس یہی ہے کہ اس نے شادی نہیں کی اور گھر نہیں بسایا ہے۔ جب کسی جوڑے کو اپنے بچوں کے ہمراہ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہے تو اداس ہو جاتی ہے۔ تب اپنے دکھ پر مرہم رکھنے کو پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے کہتی ہے۔ کیا ہوا کہ میرا گھر بچوں سے خالی ہے ، وارڈ کے سارے بچے میرے ہی تو بچے ہیں۔ بے شک ! وہ ایک بہت اچھی بات کہہ کر اپنی محرومی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتی ہے مگر میں سوچتی ہوں، عورت چاہے جتنی کامیابی کی منزلوں کو طے کرلے، وہ رہتی تو عورت ہی ہے، گھر بار ، شوہر اور بچوں کے بغیر عورت کی زندگی ادھوری ہی رہتی ہے جس کا افسوس وقت گزرنے کے بعد ضرور ہوتا ہے۔