او بھئی شہناز- جلدی کر ناشتہ لے بھی آ۔ رات تجھے بتایا بھی تھا کھیتوں پر صبح مجھے جلدی پہنچنا ہے شوکت نے پھر پانی کارولا ڈالا ہوا ہے ۔ کرامت اللہ نے ماں کے پاس چار پائی پر بیٹھتے ہوئے بیوی کو آواز لگائی۔ فرمانبردار شهناز بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی ۔ دیسی گھی سی چیڑی روٹیاں ، تازہ مکھن سے بھرا پیالہ، دہی کا کٹورا اور جھاگ اڑاتی لسی کا بڑا سا گلاس ،اس نے کرامت اللہ کے سامنے رکھ دیا۔ کرامت اللہ بسم اللہ پڑھ کرشروع ہو گیا۔
واہ بھئی شہناز – بڑا سواد رکھا ہے رب سوہنے نے تیرے ہاتھ میں- قسم سے مزہ آ گیا۔ بڑی سی ڈکار لیتے کرامت اللہ نے شکر الحمد للہ پڑھتے بیوی کو سراہا۔ شہناز اس تعریف پر کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔ شفاف ندی کے پانی جیسی ہنسی ، پا کیزہ اور من کو اندر تک سیراب کرتی ۔
لے اب تجھے دیر نہیں ہورہی ؟ بیوی کے ساتھ ہنسی ٹھٹھول کرنے بیٹھ گیا ہے۔
ماں نے ٹوکا تو کرامت اللہ نے ساتھ والی چار پائی پر سوۓ اپنے چار سالہ بیٹے علی حسن کی پیشانی پر بوسہ لیا اور جلدی سے صافہ کندھے پر رکھتا ڈیوڑھی کی جانب بڑھ گیا۔
“اماں جی- آپ کے لیے ناشتہ لے آؤں؟ ہاں بھئی – زحمت نہ ہو تو مجھے بڑھیا کو بھی کچھ کھانے کولا دو ۔
ارے واہ – زحمت کیسی اماں جی- آپ کی خدمت تو فرض ہے مجھ پر ، ۔اگر کوئی کمی بیشی ہو جاۓ تو سوبار پیشگی معافی- کانوں کو چھوتے ہوۓ شہناز نے حسب عادت کھلکھلاتے ہوۓ کہا۔ سخت زہر لگتی ہے ۔ تیری یہ ہر وقت کھی کھی کرنے والی عادت – کیا کروں ماں جی- عادت جو ٹہری سر کے ساتھ ہی جائے گی ۔
ساس کے سامنے تازہ پراٹھا۔ بالائی کا پیالہ اور بھاپ اڑا تا دودھ پتی کا کپ رکھتے ہوۓ بمشکل اپنی ہنسی پر بندھا اور مڑ کر علی حسن کواٹھانے لگی۔
چل اٹھ جا میرا پتر ۔ شاباش- دادی کے ساتھ ناشتہ نہیں کرے گا کیا؟ علی حسن کو اٹھا کر زبردستی منہ ہاتھ دھلایا اور دادی کے ساتھ چارپائی پر بٹھا دیا۔ مجھے نہیں کھانا مکھن ملائی کے ساتھ پراٹھا۔ علی حسن نے منہ بسورا۔ اچھا تو پھر تیری مرغی نے کل جوانڈہ دیا تھا وہ تل دوں؟ اوپر نمک ، کالی مرچ بھی چھڑک دوں گی ۔ اس نے اسے لالچ دیا۔
نہ – علی حسن نے پھر انکار میں سر ہلایا ۔ د یکھ علی حسن – اگر تو نے شرافت سے ناشتہ نہ کیا تو میں تجھے شہر تیری نا جو خالہ کے پاس نہیں لے کر جاؤں گی ۔ جانتے ہو اتنی لمبی بس میں جا ئیں گے ہم جو سارا راستہ پوں پاں کرتی جائے گی ۔ علی حسن کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں ۔ سچ اماں ؟ ساری سستی ، جمائیاں ہوا ہوئیں ۔ رغبت سے دادی کے ساتھ ناشتہ کرنے لگا۔ شہناز کے مطمئن چہرے ہنسی مکئی کے پکے ہوۓ سنہری بھٹے کی طرح چمکنے لگی تھی ۔ وہ مڑی۔ پیچھے سے ماں جی باآواز بلند بڑبڑاتی رہیں ۔۔ ہونہہ- بس نہ ہوئی باوا کی ریل گاڑی ہوگئی۔
*********
شہناز نے دستی پمپ چلا کر بالٹی لبالب پانی سے بھری اور کچے صحن میں چھٹرکاؤ کرنے لگی ۔ تپتی ، بلتی زمین کو جیسے قرار آ گیا۔ ہرسومٹی کی سوندھی مہک پھیل گئی۔ اے ہے شہناز کتنی واری تجھے کہا ہے پانی کا ضیاع نہ کیا کر ، پرتو ہے کہ سنتی ہی نہیں ۔
جامن کی ٹھنڈی چھاؤں تلے چارپائی پر تکیے کے سہارے نیم دراز اونگھتی ماں جی یکدم سیدھی ہوبیٹھی تھیں۔ اماں جی دھول مٹی اڑتی ہے۔ آپ کا دمہ نہ بگڑ جاۓ ، اس لیے جھاڑو پھیرنے سے پہلے چٹرکاؤ کرتی ہو۔ اللہ نہ کرے اس دن کی طرح آپ کا پھر سانس اکھڑ گیا تو میں کیا کروں گی ۔ شہناز نے اب لمبی سی جھاڑ واٹھا کرصحن میں لگانا شروع کر دیی-
جو جی میں آۓ کر ۔ تو بھلا سنتی ہے کسی کی- ماں جی نے بڑ بڑا کر پھر سے تکیے سے ٹیک لگالی۔ آپ کی نہیں سنوں گی تو اور بھلا کس کی سنوں گی؟ بس آپ بولتی رہا کریں- بھلے سے مجھے گالیاں دیں آپ کے بولنے ، آپ کے ہونے سے ہی تو برکت ہے اس گھر میں ۔ وہ اب ڈھیر سارے خشک پتے اکٹھے کر کے کچرے والی بالٹی میں ڈال رہی تھی ۔
ہاں ہاں باؤلے کتے نے جو کاٹ لیا ہے خوامخواہ میں تجھے گالیاں دوں گی ۔ چمک کر کہتی ہو پر سے اٹھ بیٹھیں ۔
اوے علی حسن – تو کہاں بھاگتا پھر رہا ہے اسکول نہیں جانا کیا؟ نل کے نیچے ہاتھ دھو کر دوپٹے کے پلو سے خشک کرتی شہناز نے پاس سے گزرتے علی حسن کا بازو دبوچا۔ میں نے نہیں جانا اسکول استاد جی ڈنڈا مارتا ہے-
چل جھوٹا – استاد جی بھلا تجھے کیوں مارے گا ؟ وہ تو اتنے پیار سے پڑھاتا ہے ۔
چھا آج چھٹی کر نے دے اماں، کل جاؤں گا ۔‘‘ علی حسن نے بازو چھڑوانے کی کوشش کی ۔ ناں ۔ میں کہہ رہی ہوں اگر آج تو اسکول نہیں گیا تو میں تجھے شہر ناجو خالہ کے ہاں نہیں لے کر جاؤں گی ۔ پتا ہے وہاں ہم بریانی والے چاول کھائیں گے ۔ ٹھنڈی ٹھار بوتل پئیں گے اور ناجو خالہ ڈبی والی قلفی بھی کھلائے گی ۔ علی حسن کو ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ اسے گدگداتے ہوئے شہناز کی قل قل کرتی ہنسی پھر سے گونجنے لگی تھی ۔
لو خوانخواہ میں ۔ یہاں میرا پوتا کون سا اچھے کھانے پینے کو ترس رہا ہے ۔ ماں جی نے اب کی بار زور سے اپنا سر تکیے پرپٹخ کرزور سے آنکھیں موند لی تھیں ۔
********
شام کو کرامت اللہ نے ڈھیر سارے سفید موتیے کے پھول اس کی جھولی میں ڈال دیے ۔ اس کا معمول تھا شام کو کھیتوں سے واپس آتے ہوئے روز شہناز کے لیے موتیے کے پھول لازمی لے کرآ تا۔ شہناز سوئی کی مدد سے ان پھولوں کو دھاگے میں پروکر کان میں پنی سونے کی بالیوں کے گرد باندھ لیتی ۔ پھولوں کے اس زیور سے اٹھتی مہک سے اس کے چہرے کی مسکراہٹ میں کرامت اللہ کی محبت کرامت اللہ کی محبت رچ سی جاتی ۔
رات کے کھانے کے بعد اس نے صحن میں چارپائیاں بچھا کر فرشی پنکھا چلا دیا۔
اگے والی چارپائی پر ماں جی نیم دراز تسبیح پڑھ رہی تھیں ۔ ان کے ساتھ والی پر شہناز کے بازو پر سر رکھے علی حسن اپنی دن بھر کی جانے والی کارستانیاں سنارہا تھا۔ آخری چارپائی خالی تھی ۔ کرامت اللہ باہر اپنے دوستوں کے ساتھ چائے پینے گیا ہوا تھا۔
صحن میں جلتا زرد بلب ایک دم بجھ گیا ۔
کم بخت پھر چلی گئی ۔ ماں جی اپنے سرہانے رکھا دستی پنکھا اٹھا کر جھلانے لگیں- کھجور کے پتوں سے بنا رنگ برنگا پنکھا ہاتھ لمہیا کر کے یوں گھماتیں کہ ہوا کا جھونکا ساتھ والی چارپائی پر لیٹے علی حسن تک بھی جا تا ۔ کب آنے کی بجلی؟ علی حسن نے بے زاری سے پنکھے کے ساکت پروں کو گھورا۔
سو تک تارے گنو۔ دیکھنا جیسے ہی تمہاری گنتی پوری ہوئی بجلی آ جاۓ گی ۔ ماں کے کہنے پر اس نے آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھا اور ایک ایک کر کے گننے لگا۔ گنتی پوری ہوئی بجلی نہ آئی- علی حسن نے خفگی سے ماں کو دیکھا۔
اچھا سن تو ، جب ہم شہر تمہاری ناجو خالہ کے پاس جائیں گے تو وہ ہمیں بازار لے کر جائے گی ۔ کہہ رہی تھی خوب ساری چیزیں دلائیں گی علی حسن کو۔ چڑ یا گھر بھی چلیں گے ۔
وہاں ہاتھی بھی ہوگا ؟ علی حسن کی ساری بے زاری ارنچھو ہوگئی ۔ ہاتھی ،زرافے سب ہوں گے- جو لے بھی؟ او پاگل ! وہ تو پارک میں ہوتے ہیں ‘‘ تو ہم پارک نہیں جائیں گے کیا؟ جائیں گے کیوں نہیں جائیں گے۔
پر کب اماں؟ نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں بمشکل کھولے ماں کا چہرہ دیکھا اور جواب سننے سے پہلے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ اے شہناز توکیا سچ میں اپنی بہن کے ہاں شہر جانے کا سوچ رہی ہے- ناک بھوں چڑھاتے ماں بیٹے کی باتیں سنتی ماں جی نے کروٹ لیتے ہوۓ اس سے پوچھا۔
کہاں ماں جی ۔ایسے ہی بس اسے لارے لگاتی رہتی ہوں ۔ آپ نے دیکھا تو ہے شہر جانے کا سن کر فورا کہنا مان جاتا ہے۔
علی حسن کے ماتھے پر بکھرے بال سنوارتی وہ مسکراتی تھی ۔ ستاروں کے جھرمٹ میں گھرے چاند نے گو یا اس کی مسکراہٹ سے روشنی مستعار لی تھی ۔ ماں جی ہنکارہ بھرتیں کروٹ بدل گئیں ۔
*******
چوڑیاں چڑھوالو… دروازہ کھلا تھا۔ چوڑیاں بیچنے والی سر پر بڑا سا ٹوکرا اٹھاۓ اندرآ گئی۔ نہیں بھئی نہیں پہننی چوڑیاں تم جاؤ۔ ماں جی نے فورا اسے آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔
ٹہرو ماسی- کمرے میں پیٹی پر چڑھ کر چھت کے جالے اتارتی شہناز جست لگا کر نیچے اتری تھی ۔ دکھاؤ تو سہی کیسی چوڑیاں لائی ہو۔ اس نے اشتیاق سے پوا ٹوکرا کھول دیا۔
یہ لال اور ہری والی چڑھا دو ۔ اس نے ہاتھ آگے کیا اور پہلے سے پہنی ہوئی چوڑیاں اتروانے لگی۔
انہیں توڑ دو بی بی ، ایسے اتارتے ہوۓ درد ہورہا ہے تمہیں۔ شہناز کے چہرے پر ابھرتے درد کے آثار دیکھ کر اس نے ہاتھ روک لیا۔ نہیں ماسی- انہیں ایسے ہی اتاردو- ٹوٹی ہوئی چوڑیاں دیکھ کر میرا دل بہت دکھتا ہے۔ خدا نہ کرے جو کبھی میری کلائی کی چوڑیاں ٹوٹیں …
بہت محبت کرتی ہوا اپنے گھر والے سے؟ ہاں ، اس سے محبت ہی تو ہے کہ اس کا گھر ، اس کی ماں ، اس کی ایک ایک چیز سے محبت ہے۔
لال اور ہری چوڑیاں کھنکھاتے ہوئے وہ کھلکھلائی تھی ۔ قدرے فاصلے پر برآمدے میں یہ سارا منظر نا گواری سے دیکھتی ماں بھی تک اس کی چوڑیوں کی کھنک، ہنسی کی جھنکار اور باتیں بخوبی پہنچ رہی تھیں۔
********
علی حسن کو یقین نہیں آرہا تھا ۔ ماں تو اسے لارے ہی دیتی آ رہی تھی ۔لیکن شہر سے ناجو خالہ کا سچ میں بلاوا آ گیا۔ اس نے ایک اچھے علاقے میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا تھا۔ اور اپنے نئے گھر میں دعوت رکھی تھی ۔ جس میں اپنے تمام قریبی عزیزوں کو مدعو کیا تھا۔ شہناز کوبھی بے حد اصرار سے بلایا ۔ ناجیہ اس سے دوسال بڑی تھی ۔ بھائی کوئی تھا نہیں ۔ ماں باپ بھی کچھ عرصے پہلے وفات پاگئے ۔ دونوں اسی گاؤں میں پل بڑھ کر جوان ہوئی تھی۔ ناجیہ بیاہ کرشہر چلی گی- جبکہ شہناز کا نصیب اپنے اس گاؤں میں لکھا تھا وہ یہیں رہ گئی۔
شادی کے بعد ناجوتو چند ایک باراس سے ملنے گاؤں آئی لیکن شہناز ایک باربھی بہن کے ہاں نہ جاسکی ۔ اب جو اس نے اتنے اصرار سے بلایا تو اس سے رہا نہیں گیا۔ کرامت اللہ تو تھا ہی اس کی خوشی میں خوش ہونے والا- فورأ دونوں کے شہر جانے والی بس کے ٹکٹ کٹوا لا یا۔ تم نہیں چلو گے ہمارے ساتھ؟
جانتی تو ہو۔ میں چلا گیا تو پیچھے زمینوں کا سارا کام کون سنبھالے گا؟ کرامت اللہ کو اسے نہ کہنا ہمیشہ مشکل لگا رہا تھا۔ اوروہ اتنی فرماںبردار تھی شوہر کے منہ سے بھی کبھار نکلنے والی نہ کو بغیر کسی حجت کے قبول کر لیتی ۔
ماں جی کا منہ بنا ہوا تھا۔ نا گواری چہرے پر سجاۓ اسے تیاری کرتے دیکھتی رہیں ۔منہ سے ایک لفظ نہ نکالا ۔ بہن سے ملنے کی خوشی ایک طرف ماں جی- آپ کو، اپنے گھر کو چھوڑ کر جانے کو دل نہیں چاہ رہا۔ بی حاجن سے کہا ہے میرے پیچھے آپ کا بہت سارا خیال رکھے گی ۔ ماں جی نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا شہناز خود ہی بولتی رہی ۔ جانے سے پہلے کہا۔ میں جانتی ہوں آپ خوش نہیں ہیں ۔ لیکن جاتے وقت خیر سے جاؤ خیر سے آؤ۔ کی دعا ہی دے دیں ماں جی- نجانے کیوں یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں اور آواز بھر آ گئی تھی ۔ ماں جی کے لب باہم پیوست رہے وہ زبردستی ان کے گلے لگ گئی ۔
******
کرامت اللہ ان کا بہت تابع دار بیٹا تھا۔ ان کی کل جمع پونجی ۔ جسے اپنے خون پسینے سے سینچ کر انہوں نے جوان کیا تھا ۔ شادی کے دو سال بعد ہی شوہر کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ بیوگی کی کڑی دھوپ میں کرامت اللہ کا وجود ہی ان کے آج اور آنے والے کل کی چھاؤں تھا۔ ماہ وسال نے رفتار پکڑی ۔ ان کے دل میں اپنے کڑیل جوان بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا ارمان جا گا۔ بیٹے نے چپکے سے اپنے دل کی خواہش بتادی۔ وہ جواپنی پسند سے بیٹے کی دلہن ڈھونڈنے کے لیے پورا گاؤں چھان لینے کا ارادہ باندھ رہی تھیں چپ کی چپ رہ گئیں۔
میں نے آپ کو صرف اپنی خواہش بتائی ہے ماں جی- باقی آپ اگر کسی اور کو بیاہ کر لا نا چاہتی ہیں تو وہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ میں آپ کی خوشی میں خوش ہوں ۔
ماں نے سوچا میرا مان جوٹو ٹا سوٹوٹا۔ کیوں نہ بیٹے کی خواہش کا ہی مان رکھ لیا جاۓ۔ خواہ بجھے دل سے ہی سہی۔ دل کا شکوہ زبان پر لاۓ بنا وہ شہناز کو دلہن بنا کر لے آئیں ۔ جس نے تھوڑے ہی عرصے میں ان کے گھر کو جنت کا نمونہ بنادیا تھا۔ لیکن وہ ان کے بیٹے کی پسند تھی ۔ وہ کیسے اس کو اپنی پسند بنا لیتیں؟
********
اور آج وہ شہناز کیا گئی انہیں روشن دوپہر پر زرد شام کا گماں ہوا۔ دل کو جکڑ تی اداسی …… کاموں کے پیچھے بھاگتے دوڑتے قدموں کی چاپ سننے سے آج ان کی ساعتیں محروم تھیں ۔ ہنڈیا میں ڈوئی گھمانے سے باورچی خانے کے باہر تک آج چوڑیوں کی کھنک نہیں گونجی تھی اور اس کی بات بات پر شگوفے کی مانند پھوٹی ہنسی۔
کم بخت پہلی بار کہیں گئی ہے اس لیے دماغ سے اتر نہیں رہی ۔ اور میرا علی حسن ، ان کا ذہن پوتے کی طرف چلا گیا۔ چلو دو چار دنوں کی تو بات ہے آ جائیں گے تو پھر سب کچھ پہلے جیسا ہو جاۓ گا۔
افق کے پار صرف سورج نہیں ڈوب رہا تھا۔ کچھ اور بھی تھا جو آہستہ آہستہ ڈوبا جارہا تھا۔ شاید ان کا دل …… تب ہی زور دار آواز کے ساتھ ڈیوڑھی کا دروازہ کھلا تھا۔
ماں جی ہم برباد ہوگئے …… ہمارا کچھ بھی نہیں بچا کرامت اللہ بین کرتا گھر آیا تھا۔
کیا ہوا کرامت اللہ؟ کسی نے گندم کے گودام میں آگ لگا دی؟ گودام بھرے رہیں گے ماں جی! مگر جانے والے لوٹ کر نہیں آئیں گے اب، شہر جانے والی بس کو حادثہ پیش آ گیا تھا۔ ٹرالر سے بہت زور دار ٹکر لگی تھی ۔ بس الٹ گئی ۔ موقع پر جاں بحق ہونے والے مسافروں میں شہنازاور علی حسن بھی تھے۔ وہ اونچا لمبا مرد ماں کی گود میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا۔ ماں جی وحشت زدہ سی اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ دیوانہ وار اندر کمرے کی طرف بھاگی تھیں۔
اندر کچھ نہیں تھا۔ نہ شہناز کی قل قل کرتی ہنسی۔ یا شاید ہر جگہ وہ ہی تھی ۔ جاتے وقت خیر سے جاؤ، خیر سےآوکی دعا ہی دے دیں ماں جی – اور ماں جی زمین پر بیٹھتی چلی گئیں۔