یہ سردیوں کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ سورج دھیرے دھیرے اپنی ارغوانی کرنیں بکھیرتا دھرتی کے کنارے سے او پر کو اٹھ رہا تھا۔ آسمان پر بادلوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا، خوشگوار احساس لئے ، یہ ایک چمکیلا دن تھا۔ حد نظر تک سر سبز کھیت تھے ، یہ دو کھیتوں کے درمیان کا کچا رستہ تھا۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے لوگوں کو پیدل جانا پڑتا تھا، بس سے اترتے ہی مسافر اس رستے پر ہو لیتے تھے۔ یہ رستہ میری خالہ کے گھر کی طرف جاتا تھا۔ لہذا میں بھی بس سے اتر کر اسی رستے پر ہوئی۔ سرما کی سردی میں خوش گوار دھوپ میں سر سبز کھیتوں کے بیچ چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ جب نہر کے قریب پہنچی ایک بوڑھی عورت کو دیکھا۔ سوچا اگر اس کا ساتھ ہو جائے تو تنہا چلنے سے بہتر ہو گا۔ باتیں کرتے کرتے رستہ کٹ جائے گا ۔ جونہی میں قریب پہنچی، وہ بولی۔ بیٹی، میں نے تم کو آتا دیکھ لیا تھا۔ تبھی ٹھہر گئی تا کہ تم قریب آجائو تو ساتھ چلیں۔ اماں خاصی باتونی تھی۔ خود بخود اپنے حالات بتانے لگی، گویا مجھ سے برسوں کی واقفیت ہو۔ میرا نام رحمت بی بی ہے۔ ہم دو بہنیں تھیں، ہمارا کوئی بھائی نہ تھا۔ قیام پاکستان سے قبل ہم امرتسر کے ایک نواحی گائوں میں رہتے تھے۔ اس گائوں کے وسط میں ہمارا بڑا سا مکان تھا۔ ساتھ ہی میرے سسر کی زمین تھی۔ اس زمین کی وجہ سے سسر صاحب کی بڑی عزت تھی۔ قصور میں ہمارے رشتہ دار رہتے تھے ، ان دنوں گرچہ گاڑی چلتی تھی پھر بھی ہم لوگ پیدل سفر کرتے تھے۔ صبح گھر سے نکتے تو شام تک منزل مقصود پر پہنچ جاتے تھے۔ تب بدن میں اتنی طاقت اور توانائی تھی کہ لمبا سفر کر کے بھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ گھر میں سکون تھا، خوشحالی تھی۔ فصل کے موقع پر آناج کے ڈھیر صحن میں لگ جاتے تھے اور کھیت کھلیان بھرے رہتے تھے۔ سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ہر شے نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔ شہروں میں تحریک آزادی کی لہر جوبن پر پہنچی تو اس کی حرارت دیہاتوں میں بھی محسوس ہونے لگی۔ تبھی وہ دن آگیا جب مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا اعلان ہوا، تب ہمارے گائوں میں ہندو مسلمان سکھ مل جل کر رہتے تھے۔ کبھی آپس میں لڑائی جھگڑا نہ ہوا تھا، لہذا گائوں والوں کی ایک مشترکہ میٹنگ ہوئی جس کو مقامی زبان میں اکٹھ کہتے تھے یعنی اکٹھے ہو کر باہم صلاح و مشورہ سے کوئی معاملہ طے کرنا۔ اس اکٹھ، میں ہندو، سکھ اور مسلمان سب شریک ہوتے اور ہر ایک کی رائے کو برابر کی اہمیت حاصل ہوتی۔ ہندوئوں نے کہا آپ لوگ مطمئن رہیں اور پاکستان نہ جائیں ہم سب گائوں کے مسلمانوں کی خود حفاظت کریں گے ۔ سکھوں نے کہا۔ یہ علاقہ پاکستان میں شامل ہو جائے گا لہذا آپ لوگوں کو نقل مکانی کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ گائوں پاکستان میں نہ بھی گیا تو بھی آپ لوگ الگ علاقے لے لیں اور اطمینان سے اپنے گھروں میں رہیں۔ یہاں آپ کو ہم سے کوئی خطرہ نہ ہو گا۔ برصغیر تقسیم ہو گیا مگر ہمارا گائوں پاکستان کے حصے میں نہ آیا، پھر اچانک ہی ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑکنے لگی۔ ہمار ا سکھ چین لٹ گیا۔ آزادی کی خاطر ہر قربانی لازم تھی لیکن وہی لوگ جو ذرا دیر پہلے ہم کو تسلیاں دے رہے تھے اور بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے ، اچانک بدل گئے۔ وہی اب ہمارا قیمتی سامان اور زیورات چھین رہے تھے ، جانور کھول رہے تھے۔ ہمارے برتن، چارپائیاں تک لے جارہے تھے۔ وہ ڈھور ڈنگر سب ہانک کر لے گئے۔ کھانے پینے کا سامان نہر میں پھینک دیا گیا۔ ایسے حالات میں بھلا ہم وہاں کیسے رہ سکتے تھے ، ہندو اور سکھ مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے۔ ان کے گھر جلا رہے تھے۔ چاروں طرف سے ایسی بھیانک خبریں آرہی تھیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ بزرگوں نے صلاح کی کہ ہم سب گائوں کے مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں۔ ایک قافلے کی صورت میں ہم کو رخت سفر باندھ کر پاکستان روانہ ہو نا تھا۔ ہم سے پہلے تین قافلے نئے پاک وطن کو روانہ ہو چکے تھے ، جو ہمارے گائوں سے گزرتے تھے۔ ہم نے بھی سفر کی تیاری کرلی۔ اچانک ایک شخص نے آکر اطلاع دی کہ نہر پر ہندوئوں اور سکھوں کا پہرہ ہے ، وہ قافلوں کو لوٹنے کے بعد مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس اطلاع کے ملتے ہی سب قافلے والوں نے دل تھام لئے۔ اب ہم سب اسی سوچ میں تھے کہ سفر شروع کریں یا نہیں ؟ کیونکہ آگے سے بھی کچھ اچھی خبریں نہیں آرہی تھیں اور یہاں ٹھہرے رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ قافلے میں شامل ایک بزرگ نے ہمت دلائی کہ موت برحق ہے۔ اگر اب مارے گئے تو شہادت ملے گی، لہذا سفر کا ارادہ ملتوی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا نام لے کر چل پڑو آگے جو مقدر میں لکھا ہے مل جائے گا۔ رستے میں بڑے روح فرسا مناظر دیکھے۔ بے گور و کفن لاشے تھے، جن پر چیلیں اور گدھ منڈلا رہے تھے ۔ معصوم بچوں کے جلے ہوئے بدن تھے۔ جوان لڑکیوں کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور پھٹی ہوئی اوڑھنیاں ان کی لٹی ہوئی عصمتوں کا کھلا ماتم کر رہی تھیں۔ یہ منظر دل ہلا دینے والے تھے، ہمیں یقین ہو گیا کہ آگے جا کر یہ عفریت اچانک ہم پر ٹوٹ پڑیں گے اور ہمارا بھی ایسا ہی حشر کر گزریں گے ، تاہم ڈرتے سنبھلتے، خُدا کو یاد کرتے آگے بڑھتے گئے۔ نہر پر پہنچ گئے تو اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کیونکہ یہاں مسلمان فوجی دستے آچکے تھے تاکہ آنے والے قافلے صحیح سلامت گزریں- یہ ساون کا مہینہ تھا۔ ابھی ہم سفر میں تھے کہ بارش نے آلیا۔ خوب مینہ برسنے لگا۔ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ اب پیدل چلنا دشوار ہوا۔ آسمان زار و قطار رو رہا تھا اور زمین بھی کیچڑ بھری ہوئی جاتی تھی۔ قدم رکھتے تو کیچڑ میں پائوں جکڑے جاتے۔ لگتا تھا آسمان ہی نہیں زمین بھی پانی اگل رہی ہے۔ خدا کا شکر کہ ہمارا قافلہ بخیریت نہر تک پہنچ گیا۔ یہاں پر مسلمانوں کا دستہ متعین تھا، اس لئے ہندوئوں اور سکھوں کو قافلے کی طرف ہاتھ بڑھانے کی جرات نہ ہوئی۔ افغان دستے ہماری تلاشی لیتے، جن کے پاس کوئی ہتھیار ہوتا وہ رکھ لیتے۔ پاکستان آکر قصور گائوں میں ہم نے پناہ لی۔ یہاں میری بہن رہتی تھی۔ میرے بہنوئی نے ہر آنے والے ، اُجڑے کنبے کو خوش آمدید کہا اور تین وقت کا کھانا کھلایا۔ جو بیمار تھے ان کی دوا دارو کا انتظام کیا۔ جب تک قافلے آتے رہے، میرا بہنوئی ان کے دوا دارو خوراک اور رہائش کا انتظام کرتا رہا پھر جس کو جہاں سر چھپانے کی جگہ ملی وہ وہاں چلا گیا۔ میرے سسر صاحب دوران سفر ہی سفر کی سختی برداشت نہ کر سکنے کے سبب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پاکستان پہنچ کر دیور لاہور چلے گئے، میں اور میرے شوہر کچھ عرصہ اپنے رشتہ داروں کے وہاں مقیم رہے۔ ہم نے ان کو کلیم کے کاغذات دیئے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ یہ دھوکا کیا کہ کلیم میں ملنے والی زمین اپنے نام الاٹ کروا لی۔ یہ میرے سرالی رشتے دار تھے ، جو کچھ یہاں اور کچھ مشرقی پنجاب میں رہتے تھے۔ یہ طاقت ور لوگ تھے۔ انہوں نے طاقت کے زور پر دوسرے بھی کئی لٹے ہوئے رشتہ داروں کی الاٹمنٹ کو ہتھیا لیا۔ یہ افراتفری کا عالم تھا، ہر کسی کو اپنی پڑی تھی۔ کون حق دار ہے، کون نہیں، کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہم لوگ جو کبھی کھیت کھلیان اور زرخیز زمین کے مالک تھے ، اب ایک ایک نوالے کے لئے دوسروں کا منہ تکتے تھے۔ ہمیں کچھ نہ ملا تو ہم نے ان رشتہ داروں سے فریاد کی ، انہوں نے ڈرا دھمکا کر میرے شوہر کو خاموش کرادیا۔ اس صدمے سے میرے شوہر بیمار پڑ گئے اور کچھ عرصہ بعد وفات پا گئے۔ان کی وفات کے بعد میں اپنے سُسرالی رشتہ داروں کا گھر چھوڑ کر دوبارہ اپنی بہن کے یہاں قصور آگئی۔ میری ایک ہی بیٹی بچ گئی تھی، دو لڑکیاں تو قافلے میں سفر کے دوران گندا پانی پینے کی وجہ سے چل بسی تھیں۔ اولاد نرینہ اللہ نے عنایت نہ کی تھی، سو ایک بیٹی کے سہارے میں نے زندگی کے ہار کو گلے میں ڈال رکھا تھا۔ میری بیٹی کی شادی جب بہنوئی نے اپنے بھتیجے سے کر دی تو وہ اپنے گھر سدھار گئی۔ میں کچھ عرصہ اپنی بہن کے پاس رہی ، جب بیٹی بچوں والی ہو گئی تو داماد مجھے اپنے گھر لے گئے تاکہ میں ان کے بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کر سکوں ۔ اس طرح اللہ نے رہنے کا وسیلہ بنا دیا اور میں مستقل داماد کے گھر رہائش پذیر ہوگئی۔ پاکستان ایسے ہی نہیں بن گیا۔ اس کے لئے ہم مسلمانوں نے قربانیاں دیں۔ وہ جو بھارت سے ہجرت کر کے آئے، انہوں نے بھی اور وہ مسلمان جو پاکستان میں پہلے سے رہتے بستے تھے ، انہوں نے بھی ہمیں پیار دیا، مالی مدد کی، اپنایا اور گلے سے لگالیا۔ ہر طرح سے مدد بہم پہنچائی۔ یوں ہم جو لٹے پٹے اور دل گرفتہ تھے ، ہمارا حوصلہ بڑھا اور ہم مضبوط ہوتے گئے۔ آج پاکستان کو بنے چھتر برس ہو چکے ہیں۔ آج ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ایک مضبوط پاکستانی قوم بن کر اپنے مخالفین کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تا کہ کوئی ہم کو کمزور نہ سمجھے ، کوئی ہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے بارے نہ سوچے۔ اماں جو اچانک میری ہم سفر بن گئی تھیں، کہہ رہی تھیں کہ آج بھی جی چاہتا ہے ، اپنے اس پرانے گھر کو جا کر دیکھوں، جہاں میں دُلہن بن کر اتری تھی اس آنگن میں جھانکوں۔ میرا گائوں یہاں سے زیادہ دور تو نہیں ہے۔ میں تو دیکھتے ہی اپنے گھر کو پہچان لوں گی۔ مجھے اس گائوں کے رستے ، پگڈنڈیاں ، گلیاں محلے کچھ بھی تو نہیں بھولا۔ وہ گلی محلے تصویروں کی طرح آج بھی، تروتازہ جیتے جاگتے آنکھوں کے سامنے پھرتے ہیں، لگتا ہے یہ جیسے کل ہی کی بات ہو ، مگر اپنی چیزیں اب تو پرائی ہو گئیں۔ اب وہاں سرحدیں بن گئی ہیں، ان پر اغیار کے پہرے لگے ہیں۔ میری ہم سفر اماں ماضی کی حسین یادوں میں کھو چکی تھیں۔ رستہ ختم ہو چکا تھا، اماں کی اور میری منزل آچکی تھی۔ سامنے وہ گائوں تھا، جہاں ہم دونوں کو جانا تھا۔ میں نے اماں کو خُدا حافظ کہا اور یہ سوچتے ہوئے اپنے رستے ہولی کہ پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کے دشمن اپنا وار کاری کر چکے ہیں۔ آج ہم پاکستانیوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بونے کی کوششیں کی جاتی ہیں تا کہ ہم بہ حیثیت قوم کمزور ہوں مگر ان شاء اللہ ! ہم ایسی سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں گے۔