ہوسکتا آپ نے یہ تحریر پہلے پڑھ رکھی ہو مگر دوبارہ پڑھ لیں ضروی ہے۔
ملکہ وکٹوریا نے 1857ء کے بعد ایک دور کے عزیز کی ڈیوٹی ھندوستان کے ایک ضلع میں بطور ڈپٹی کمشنر کر دی۔ اس نے ایک ماہ بعد ہی ملکہ کو لکھا یہ آپ نے مجھے کس جرم کی سزا دی، یہ لوگ تو کام چور ھیں، نا اھل ھیں، اپنی غلطی پر نادم نھیں ھوتے، سیکھنے کو تیار نھیں ھوتے، لالچی ہیں، جہالت عروج پر ھے انکو احساس ھی نھیں کہ ایک انسان کے کیا اوصاف ھونا چاھیئں۔ مجھے تو واپس انگلینڈ بلا لیں-
جواب آیا کہ احمق اگر ان لوگوں میں یہ سب نہ ھوتا تو کیا دس ھزار میل دور سے آ کر ھم انکو غلام بنا سکتے تھے۔؟ ، انکے حاکم بن سکتے تھے؟ تو نے کیوں ان کو نارمل انسان سمجھ لیا غلام ھیں -اسی طرح برتاو کر –
ھمارے آج کے حاکم بھی ھماری عادتیں جانتے ھیں۔
انکو پتا ھے کہ یہ سالے ذلیل ہو لیں گے ، جوتے کھا لیں گے ،بھوکے رھ لیں گے، انکو صحت اور تعلیم نہ بھی دو حاکموں کی خدمت کرتے رھیں گے۔ کبھی اپنے حقوق کے لیے کھڑے نھیں ھوں گے۔۔۔اگر ھوے بھی تو انکو کسی کہانی میں الجھا دو -یہ کہیں بھی کسی بھی معاملے پر نعرہ بازی شروع کر دیں گے۔ آگ وغیرہ بھی لگا دیں گے۔ کچھ کو جان سے بھی مار دیں گے،
لیکن …
کبھی اپنے جمہوری انسانی حقوق مانگنے کا خیال بھی نہ آئے گا –
ہم بلکل نہیں بدلے کل بھی انگریز ہمارے بارے میں یہ ہی سوچتا تھا اور آج بھی اسکا یہ ہی خیال ہے –