میری کوئی بہن تھی اور نہ سہیلی میں بالکل اکیلی تھی۔ اس اکیلے پن نے مجھے قنوطی سا بنا دیا تھا کیونکہ کسی سے دل کی بات کہتی اور نہ ہنستی بولتی تھی۔ بس سارا دن چپ چاپ رہا کرتی تھی۔ صرف ایک ماموں زاد بہن تھی حنا جس سے دل کی بات کر لیا کرتی تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی اور تھوڑی سی ہم میزاج بھی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ میرے مزاج کو سمجھتی تھی، اس لئے فالتو بات کبھی نہ کرتی بلکہ میرا موڈ دیکھ کر بات کرتی تھی۔ میری اس کزن حنا سے بس اسی وجہ سے بنتی تھی۔ وہ کم میرے پاس آتی تھی ۔ تنہائی تو مجھے ویسے ہی پریشان رکھتی تھی۔ دعا کرتی اے کاش میری بھی کوئی بہن ہوتی تاکہ میں اس کے ساتھ فری ہو کر باتیں کرتی، ہم ساتھ اسکول کالج جاتے، ساتھ شاپنگ کرتے کبھی ہنستے، کبھی لڑتے مگر یہ سب میری قسمت میں کہاں تھا۔ میٹرک میں ہم جماعت ایک دوسہیلیاں تھیں جو اسکول کی حد تک رہیں۔ جب کالج میں داخلہ لیا ان کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ اب میں تھی اور میری تنہائی تھی۔ امی اس بات کو محسوس کرتی تھیں ان کا میرا عمر کا فرق تھا۔ وہ میری ماں تو تھیں مگر دوست نہیں ، ہو سکتی تھیں۔ زندگی مجیب اداسی میں گزر رہی تھی کہ ایک روز حنا کا فون آیا میں آ رہی ہوں تم کو ایک خوشخبری سنانی ہے. میں سوچنے لگی کہ جانے کیا خوش خبری ہے۔ اتنے میں ابو آ گئے کہنے لگے کہ ہم نے نیا مکان کرائے پر لیا ہے جو بہت اچھی جگہ پر ہے، تمہارے ماموں کا گھر بھی قریب ہے اب تم حنا سے روز مل سکو گی ۔ یہ مکان تمہارے ماموں دلوا رہے ہیں۔ یہ خوش خبری سن کر میں نہال ہو گئی ،شاید ابو کو بھی احساس تھا کہ میں یہاں بہت زیادہ تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ ہم جس نئے مکان میں شفٹ ہوئے وہ بہت خوبصورت تھا۔ ماحول بھی اچھا تھا۔ یہ بنگلہ نما چھوٹے چھوٹے گھر قطار در قطار بنے ہوئے تھے۔ سبزہ بھی تھا۔ یہاں آ کر میرے موڈ میں کچھ خوشگوار تبدیلی آئی اور میں اردگرد میں دلچسپی لینے لگی۔ اب میں روز بالکونی میں کھڑی ادھر ادھر کا جائزہ لیتی رہتی تھی۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک بے حد خوبصورت لڑکی اکثر نظر آتی تھی۔ وہ دو چار دن دکھائی دیتی پھر غائب ہو جاتی۔ جانے اس لڑکی میں ایسی کیا کشش تھی کہ دل چاہتا تھا کہ میں اس کو دیکھتی رہوں۔ اب میرا فارغ وقت اس کے دیدار کی حسرت میں کٹنے لگا۔ کالج سے آکر کھانا کھاتی اور پھر اس کو میری نگاہیں ڈھونڈتیں۔ کبھی وہ نظر آ جاتی اور بھی کئی دن تک دکھائی نہ دیتی۔ تب میں دعا کرتی اے کاش کسی طرح اس سے میری دوستی ہو جائے وہ میرے پاس آنے جانے لگے تو ہمارا وقت کتنا اچھا گزرے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے بھی زیادہ شرمیلی ہے۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانا تو کجا نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے بھی کتراتی ہے۔ اب میرا سارا دھیان ہمہ وقت اس کی طرف رہتا۔ وہ پہلی لڑکی تھی جس سے میں محبت کرنے لگی تھی، اس کو دیکھے بن سخت بے چین رہتی ۔ پتہ چلا کہ محبت کا اضطراب اور اس کی بے چینی کیا ہوتی ہے۔ یہ کوئی غلط قسم کی محبت نہ تھی۔ بس یہ خواہش حسرت بن گئی ، اے کاش یہ شرمیلی میری بہن ہوتی یا پھر میری دوست ہوتی۔ یہ ارادہ کر لیا اگر کبھی گلی میں آمنا سامنا ہوا تو روک کر خود پہل کروں گی۔ اس سے بات کروں گی۔ ایک روز میں کالج سے گھر آرہی تھی کہ وہ پاس سے گزری۔ چاہنے کے باوجود اسے میں پکار نہ سکی اور وہ بھی کن انکھیوں سے دیکھتی چلی گئی۔ کچھ دن اور گزرے۔ پتہ چلا کہ اس لڑکی کا نام کنول ہے اور یہ اپنی نانی کے پاس رہتی ہے جو کہیں اور رہتی ہیں۔ ماں سے ملنے آتی ہے دو چار دن رہ کر واپس نانی کے گھر چلی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں کھلتی جارہی تھیں۔ محلے کی ایک عورت امی کے پاس آئی اس نے بتایا کہ کنول کے ابو سوتیلے ہیں ۔ تب ہی یہ ماں کے ساتھ نہیں رہتی بلکہ نانی کے گھر رہتی ہے اور اس کی ماں سے محلے والے ملنا پسند نہیں کرتے آخر کیوں؟ یہ بات میں اس سے نہ پوچھ سکی اور نہ اس نے بتائی۔ اب میں جنون کی حد تک کنول کو چاہنے لگی تھی۔ جب حنا آتی، میں کنول کا ذکر لے کر بیٹھ جاتی تب اسے بڑی کوفت محسوس ہوتی اور وہ کہتی کہ میں تم سے ملنے آتی ہوں اور تم کسی اور کا ذکر لے بیٹھتی ہو۔ کیا تمہارے پاس کنول کے سوا کوئی اور موضوع نہیں ہے۔ آخر ایسی کیا بات ہے کہ تم اس پر مرمٹی ہو جبکہ تم ایسی خشک مزاج لڑکی ہو کہ آج تک کسی کو سہیلی نہیں بنایا۔ میں بھی خود آجاتی ہوں تو بات کر لیتی ہو، ورنہ تم کب مجھے گھاس ڈالتی تھیں۔ میں اس کی باتیں سن کر چپ ہو جاتی۔ کہتی تو وہ ٹھیک تھی لیکن سچ کہتی ہوں کہ خدا نے کنول میں ایسی کشش رکھی تھی کہ اس کے مکھڑے سے نظریں نہیں ہٹتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ ابو امی تو ان لوگوں کے گھر جانے سے منع کرتے ہیں، پھر کیسے میں کنول سے دوستی بڑھاؤں جب ہی ایک خیال ذہن میں آیا کہ کسی طرح اس کی نانی کا پتہ معلوم کرنا چاہئے اور پھر وہاں جا کر کنول سے دوستی کرنا چاہئے ، کیونکہ وہ رہتی تو اپنی نانی اماں کے گھر زیادہ تھی۔ میں نے اپنے ماموں زاد یعنی حنا کے بھائی ظفر کا سہارا لیا کہ جب لڑکی اپنے گھر سے نکلے تم موٹر سائیکل پر اس کا پیچھا کرنا اور دیکھنا کہ یہ کہاں جاتی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ ضرور وہ یہ راز معلوم کرلے گا۔ کنول کبھی اکیلی گھر سے نہ نکلتی تھی۔ ہمیشہ ایک موٹی سی عورت اس کے ساتھ آتی اور ساتھ لے جاتی۔ لگتا تھا کہ یہ اس کی نانی کی ملازمہ ہے کیونکہ صورت اور حلیے سے وہ ملازمہ ہی معلوم ہوتی تھی۔ روز ظفر سے پوچھتی ۔ کنول کی نانی کے گھر کا پتہ کیا وہ جواب دیتا۔ جلد بازمت بنو۔ صبر کرو اس کو معلوم ہوا تو اسے برا لگے گا۔ میں ظاہراً اس کا پیچھا کرنا نہیں چاہتا بلکہ خفیہ پیچھا کروں گا ۔ اور بہت احتیاط کے ساتھ ورنہ بے عزتی کا خطرہ بھی تو ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم ظفر جان بوجھ کر مجھے ٹال رہا تھا یا پھر اس کو یہ بات مناسب نہیں لگ رہی تھی۔ بہر حال ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اتفاق سے میں ایک محلے کی طرف سے نکلا تو وہاں میں نے کنول کو دیکھا۔ اس کے ساتھ وہی موٹی عورت تھی جو اس کی نگہبانی پر مقرر ہے۔ تو کیا وہ اس کی نانی کا گھر تھا؟ تم نے دیکھا۔ ہاں لیکن وہ اچھی جگہ نہیں ہے۔ وہ شریفوں کا محلہ نہ تھا۔ میں نے لاکھ پتہ دریافت کیا ظفر نے نہ بتایا، کہنے لگا وہ بہت دور ہے تم وہاں نہیں جا سکتیں- کنول سے دوستی کا خیال چھوڑ دو۔ ظفر کو اس کا اصل گھر معلوم ہو گیا تھا لیکن وہ نہیں بتانا چاہتا تھا اور میں نے یہی سمجھا کہ وہ مجھے ستا رہا ہے۔ ہمارے محلے میں ایک لڑکی بشری رہتی تھی جس کا گھر کنول کی ماں کے مکان کے برابر تھا۔ وہ کبھی کبھی ہمارے گھر آجاتی ۔ تبھی میں نے اس کے ساتھ سلام دعا کر لی۔ اب وہ اکثر آنے لگی مگر میں دل سے اسکو نہیں چاہتی تھی محض اس وجہ سے دوستی کی تھی کہ وہ کنول کی ہمسایہ تھی، میں بشریٰ سے کرید کرید کر پوچھتی کہ کنول کب ماں کے گھر آئی ، کب تک رہی۔ وہ مستقل کیوں نہیں رہتی۔ وہ کہتی کہ سوتیلے باپ کی وجہ سے نہیں رہتی۔ اس کی نانی اس کو بہت پیار کرتی ہے۔ ماں سے صرف ملنے آتی ہے۔ شاید سوتیلا باپ اس کو رہنے کی اجازت نہ دیتا ہو۔ یہ سب خیالی باتیں تھیں۔ اصل حقیقت کیا تھی اس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ایک روز ظفر آیا تو میں اس سے باتیں کرنے لگی۔ ہم بالکونی میں کھڑے تھے کہ اچانک میری نظر سامنے والے مکان کی کھڑکی پر پڑتی۔ وہاں کنول گھڑی تھی۔ ظفر نے بھی اسے دیکھا اور کافی دیر تک نگاہ اس پر لگائے رکھی۔ میں سمجھ گئی کہ وہ گہری نگاہ سے اسے دیکھ رہا ہے، میں نے اپنی نظریں نیچی رکھیں ۔ نہیں چاہتی تھی کہ ظفر یہ سمجھ لے کہ میں اب بھی کنول میں گہری دلچسپی رکھتی ہوں۔ جب ظفر نے نظریں نہ ہٹائیں تو مجھے کہنا پڑا. معلوم نہیں آج اتنی دیر کیسے کھڑکی میں کھڑی ہے ورنہ یہ کسی لڑکے کو دیکھ لے تو فورا اندر چلی جاتی ہے… ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہوں، ظفر نے جواب دیا۔ یہ میری دوست ہے، اس لئے کھڑی ہے اس جملے پر مجھ کو ہرگز یقین نہیں آیا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، میں نے سوال کیا۔ وہ تو کسی سے بات نہیں کرتی۔ مجھ سے اس نے بات کی ہے اور میں نے تمہاری خاطر بڑی مشکل سے اس تک رسائی حاصل کی تھی لیکن تم پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمہاری اور اس کی دوستی ٹھیک نہیں۔ مجھے اپنے کزن کی یہ بات بہت بری لگی کہ یہ خود کو کیا سمجھ رہا ہے۔ اگر میں کسی لڑکی کو سہیلی یا بہن بنانا چاہتی ہوں تو اس کو کیا تکلیف ہورہی ہے۔ لڑکی ٹھیک نہیں یا اچھے محلے میں نہیں رہتی تو خود دوستی کیوں کرلی ہے۔ امی سے ایک دو بار دبے لفظوں پوچھا … امی سامنے والوں کے گھر جاؤں۔ انہوں نے جواب دیا بیٹا تمہارے ابو کہتے ہیں کہ کنول کی ماں کی شہرت اچھی نہیں ہے تو بچی والد کی اجازت کے بغیر نہیں جانا کیونکہ بد اچھا بدنام برا ہوتا ہے۔ کنول کی ماں کی شہرت کیسی تھی۔ ہم نہیں جانتے تھے، کیونکہ ہم اس محلے میں نئے آئے تھے… ہمارے ہوتے کوئی ایسی ویسی بات ہوئی اور نہ ہم نے نوٹ کی میری ممانی البتہ پہلے اس محلے میں رہتی تھیں، تاہم انہوں نے بھی ایک لفظ بھی اچھا برا کنول کی ماں کے بارے میں نہ کہا تھا۔ میں ان دنوں سولہ برس کی بمشکل تھی۔ اسی لئے سب مجھے کو بچی سمجھ کر میرے سامنے کوئی بات نہ کرتے تھے۔ بڑے بات کر رہے ہوتے اور میں اور حنا وہاں آجاتے تو وہ چپ ہو جاتے۔ خدا جانے ایسی کون سی نامناسب بات تھی، جس کو سب ہی ہمارے سامنے بیان کرنے سے کتراتے تھے۔ آخر کار ایک دن یہ راز کھلا یوں کہ میں اور حنا بازار کالج کی کچھ چیزیں خریدنے گئے۔ امی اور ممانی ساتھ تھیں وہ گاڑی میں بیٹھی تھیں جبکہ میں حنا کے ہمراہ شاپ میں چلی گئی تو وہاں کنول کسی بزرگ عورت کے ساتھ موجود تھی مجھے کو دیکھ کر مسکرائی تو پہچان کے رشتے کو بہانہ بنا کر میں اس کے قریب چلی گئی اور سلام کیا بہت دنوں سے چاہتی تھی تم سے بات کروں لیکن … ہاں میں وہاں رہتی بھی نہیں ہوں نا … اپنی امی سے ملنے آتی ہوں نہ رہنے کی کیا وجہ ہے؟ تم ہمارے گھر آؤ نا. اس بات کو وہ ٹال گئی۔ یہ میری نانی امی ہیں. اس نے بزرگ عورت کی طرف اشارہ کیا جو کچھ خریدنے میں مصروف تھی۔ اس کی نانی مجھے اچھی نہ لگی جانے کیوں … جیسی بزرگ عورتیں نانی کے روپ میں بھلی لگتی ہیں ویسی وہ مجھے نہیں لگی کافی تیکھی تیز طرار تھی اور عمدہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ لگتا تھا اپنے سراپا کا بہت خیال رکھتی ہے، جبکہ ہمارے ملک میں عموماً اس عمر میں عورتیں اپنا اتنا خیال نہیں رکھتیں۔ بہر حال میری اس کے ساتھ پہلی گفتگو تھی، امی گاڑی میں انتظار کر رہی تھیں اور مجھے حنا کا بھی ڈر تھا کہ وہ کنول سے چڑتی تھی لہذا جلدی سے ایک دو ر سمی باتیں کر کے میں حنا کے ساتھ دوکان سے باہر آگئی۔ آج ذہن پر کنول سے بات کرنے کے بعد خوشگواری کا احساس ہونے کی بجائے کچھ بوجھ سا بڑھ گیا سوچتی تھی اتنی اچھی اور معصوم لڑکی کو کیوں لوگ برا کہتے ہیں۔ ملنے سے کتراتے ہیں، امی ابو بات کرنے سے منع کرتے ہیں،اگراس کی ماں نے دوسری شادی کر لی ہے تو کیا ہوا، لوگ دوسری شادی کرتے ہی ہیں۔ کوئی جرم تو نہیں ہے۔ حنا نے مجھ کو کنول سے بات کرتے دیکھ لیا تھا اس نے گھر جا کر اپنی ماں کو بتایا اور ظفر کو بھی, ظفر میرے پاس آیا اور بہت خفا ہوا کہ میں نے جب تم کو منع کیا تھا پھر کیوں تم نے کنول سے بات کی، جب کہہ دیا کہ وہ اچھے علاقے میں نہیں رہتی تو سمجھ جاؤ کہ ایسے لوگوں سے ہم نے راہ درسم نہیں رکھنی۔ آخر کیوں تم نے اس لڑکی کو اپنے دماغ پر سوار کر لیا ہے- ویسے تو تم کسی سے دوستی کرتی نہیں ہو لیکن اس کےلئے پاگل بنی ہوئی ہو- مجھ کو ظفر کی باتیں بے حد بری لگیں سوچا خود اس کے ساتھ دوستی کر لی ہے تو بری بات نہیں ہے، میں نے بات کی ہے تو اس کو پتنگے لگے ہیں کم ظرف کہیں کا میں نے ظفر سے بات کرنی چھوڑ دی۔ حنا سے بھی اب واجبہی بات کرتی تھی۔ دل تھا کہ تنہائی کے احساس سے گھٹا جاتا تھا لیکن میں کسی سے بھی اپنا دکھ بیان نہیں کر سکتی تھی۔ چند روز گزرے کہ امی اور میں اپنی ایک رشتہ دار کے گھر گئے۔ واپسی میں ہم نے دیکھا۔ کنول ایک بڑی سی گاڑی میں ایک مرد کے ساتھ جارہی تھی۔ امی نے چونک کر مجھے دیکھا، کہیں میں نے دیکھ تو نہیں لیا۔ پھر بولیں تمہاری ممانی ماموں صحیح کہتی ہیں، واقعی ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے۔ امی کی یہ معنی خیز بات میرے دل میں چھری کی طرح لگی۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور تہیہ کر لیا کہ ہے اب میں کنول سے خط کے ذریعہ رابطہ کروں گی کے اور اس کو اپنے دل کا احوال کہوں گی۔ اگلے روز ممانی آئیں اور امی سے کہا۔ جانتی ہو کہ کنول کے ساتھ کیا ہوا ہے کیا ہوا ہے؟ میں نے پوچھا. اس کو کسی نے قتل کر دیا نہیں نہیں اف میں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں… اس کے چاہنے والوں میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ نانی نے تو اسے سونے کی چڑیا سمجھ کر پالا تھا۔ اب کمائی کا دور شروع ہوا تو سوداگروں کی بھیٹر لگ گئی۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دام دیگر اسے حاصل کرے اس کی نانی نے ان چاہنے والوں کو بے وقوف بنانا چاہا مگر ایک دن اس کے کوٹھے پر ہی دو محبت کرنے والوں کی مڈ بھیٹر ہوگئی ایک نے کہا۔ یہ میری ہے، میں لے جاؤں گا۔ دوسرے نے کہا میری ہے، تم روپوں میں تولو گے تو میں اشرفیوں میں تول کر لے جاؤں گا۔ بس بات بڑھ گئی اور درمیان میں بیچاری کنول کا بلیدان ہو گیا۔ وہ اس کی رہی اور نہ کسی اور کی. ساری کہانی مجھ پر اس روز کھل گئی کیونکہ کنول کی ماں رورہی تھی اور محلے کی کچھ عورتیں خدا ترسی کے طور پر اس سے جا کر ملیں اور تسلی دی۔ معاملہ یہ تھا کہ کنول کی ماں پہلے اس بازار کی زینت تھی۔ پھر حامد صاحب کو پسند آ گئی۔ انہوں نے شادی کی پیشکش کردی۔ یہ عورت بنیادی طور پر شریف تھی ، بچپن میں اغوا کر کے بازار حسن میں لائی گئی تھی، رگوں میں اچھا خون تھا، شرافت کی زندگی گزرانا چاہتی تھی، سو اس نے حامد صاحب کی پیشکش قبول کرلی۔ نانی نے کافی رقم لے کر اس بچھی کو تو آزاد کر دیا مگر اس کی نھنی منی بیٹی کنول کو اپنے پاس رکھ لیا، پالا پوسا تا کہ بڑھاپے کا سہارا بنے- یہ طے ہو چکا تھا کہ نانی نواسی کو ماں سے ملنے دے گی لہذا کنول وقتا فوقتا آتی تھی ، حامد صاحب بھی نہیں روکتے تھے کہ ماں کی ممتا ٹھنڈی رہے۔ انہیں بیوی سے پیار تھا، بچی کو بھی اپنا لیتے اگر نانی دے دیتی محلے والوں کو علم تھا کہ حامد کی بیوی کا تعلق پہلے اس بازار سے تھا تب ہی سب ملنے سے کتراتے تھے، حالانکہ یہ عورت نہایت شریفانہ طریقے سے زندگی گزار رہی تھی۔ اب پتہ چلا کہ امی ابو مجھے کنول سے کیوں ملنے نہ دیتے تھے اور کیوں اس کی ماں کے گھر جانے سے منع کرتے تھے۔ بہرحال اس لڑکی کے قتل ہو جانے کا بھیانک واقعہ آج تک نہیں بھولی جو میرے اعصاب پر سوار ہوگئی تھی۔ شاید اس لئے کہ وہ بہت معصوم صورت اور سادہ سی تھی، اس کے چہرے سے پاکیزگی جھلکتی تھی۔ شاید خدا کو یہی منظور تھا کہ ایسی فرشتہ صورت اور پاکیزہ مورت اس گناہوں کی دلدل میں نہ پھنسے۔ تب ہی اپنے پاس اتنی جلد بلالیا لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کیسے کیسے بھیانک واقعات جنم لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہوا اس کے ذمہ دار اور گناہگار تو دوسرے لوگ ہیں، مگر سزا کنول کو کیوں ملی۔