Monday, April 28, 2025

Do Pal Ka Sath

والد صاحب کے بعد سب قریبی رشتے داروں نے ہم سے دوری اختیار کر لی۔ یوں حالات کے تپتے ریگ زارمیں ننگے پائوں سفر کرنے کے لئے ہم تنہا رہ گئے۔ جو جمع پونجی تھی وہ آہستہ آہستہ خرچ ہو گئی اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ ان دنوں ہم اتنے چھوٹے تھے کہ ہمیں صرف اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل سے غرض تھی۔ جب ہمیں بھوک لگتی تو رونے لگتے۔ ماں کب تک بچوں کا بلکنا دیکھ سکتی تھیں، انہوں نے بالآخر ہمارا پیٹ بھرنے کی خاطر گھر سے قدم نکالا اور دوسروں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا، یوں ہی ہم کو دو وقت کی روٹی میسر آنے لگی۔ اب ہم چاروں بھائی بہن گھر میں بند رہتے اور ماں صبح کی محنت و مشقت کو نکلی رات کو گھر لوٹ پائیں۔ وقت گزرتا رہا۔ میری دونوں بڑی بہنیں شادی کی عمر کو پہنچ گئیں۔ ماں نے ملنے جلنے والیوں سے ان کے رشتے کے لئے منت کی لیکن ہماری غربت دیکھ کر کسی نے ہامی نہ بھری۔ امی شام کو گھر لوٹتے ہوئے ایک ٹھیلے والے سے سبزی لیتی تھیں۔ وہ اچھا انسان، شریف نوجوان تھا۔ ایک روز امی نے اس سے اپنی بچیوں کے رشتے کے لئے فکر ظاہر کی تو اس نے کہا۔ اماں جی ! میری ماں نہیں ہیں، آپ میری ماں جیسی ہیں۔ آپ کی مشکل کے حل کی خاطر کسی سے ذکر کروں گا۔ بیٹے ! اگر تم شادی شدہ نہیں ہو تو تم ہی کر لو میری بیٹی سے شادی۔ اس طرح سیدھے سبھائو ماں نے اپنے مطلب کی بات کر دی کہ انور سبزی فروش بھونچکا رہ گیا۔ ذرا سوچنے کے بعد بولا۔ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مجھے بھی گھر تو بسانا ہی ہے۔ ذرا سوچنے کو موقع دیجئے۔ اس کے بعد انور کبھی کبھی ہمارے گھر آنے لگا۔ میری ہاں اس کی چائے شربت اور کبھی کبھار کھانے سے تواضع کر دیا کرتیں۔ وہ اس نوجوان کی عادات واطوار دیکھنا چاہتی تھیں اور انوربھی ہمارے گھر کے طور طریقے جانچنا اور پرکھنا چاہتا تھا۔ اس آنے جانے میں انور نے باجی کو دیکھا اور باجی نے اس کو دیکھ لیا۔ دونوں ہی خوش شکل تھے۔ ان کے دلوں نے ایک دوسرے کو قبول کر لیا اور بات بن گئی اور میری سب سے بڑی بہن رخسانہ کی شادی انور سبزی فروش سے ہو گئی ، یوں والدہ کے سرسے ایک بیٹی کا بوجھ کم ہو گیا۔ انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اب ان کو دوسری کی فکر لاحق ہوئی۔ یہ مسئلہ بھی انور بھائی کے ذریعہ حل ہو گیا۔ انہوں نے آپی سلمیٰ کی شادی اپنے ایک دوست ارشد سے کروا دی۔ وہ بھی انہی کی طرح کا غریب نوجوان تھا۔ ارشد پھل فروش تھا۔ جہاں انور بھائی ٹھیلا لگاتے تھے ، وہ بھی وہیں اپنا ٹھیلا لگاتے تھے ۔ میری ماں کی قسمت اچھی تھی کہ داماد بے شک غریب ملے لیکن شریف اور حلال کی روزی کماتے تھے۔ دونوں داماد تنہا زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ والدین ان کے وفات پا چکے تھے۔ میری والدہ کو ہی ماں سمجھا اور ہر طرح سے ہمارا خیال رکھنے لگے۔ امی کو بھی سکون میسر آیا۔ ہماری کچھ مشکلات حل ہو گئیں۔ بھائی چھوٹا تھا اور اب میری باری تھی۔ میں ماں کے ساتھ بنگلے پر کام کرنے جاتی تھی۔ یہ بیگم جس کا ہر کام کرتے تھے،رفاہی کام کرتی تھیں اور محکمہ تعلیم سے ان کا تعلق تھا۔ انہوں نے مجھے گھر پر پڑھانا شروع کر دیا۔ یہ کالج میں پرنسپل تھیں، یہ تین بجے کالج سے لوٹتیں، کھانا کھانے کے بعد آدھ گھنٹہ آرام کرتیں، اس کے بعد مجھے کبھی آدھ گھنٹے کبھی گھنٹہ بھر پڑھاتیں اور مغرب کے وقت جب اماں کام ختم کر کے لوٹتیں، میں ان بیگم کا رات کا کھانا بنا چکی ہوتی۔ وقت دھیرے دھیرے چلتا رہا۔ میں نے نوشابہ بیگم کی نظر عنایت سے میٹرک پاس کر لیا۔ دوسری بہنوں کی نسبت شکل و صورت میں بہت اچھی تھی۔ میں اپنا خیال رکھتی ، کپڑے بھی ٹھیک ٹھاک پہنتی۔ گھر سے باہر دیکھنے والے لوگ یہ کبھی نہ جان سکے کہ میرا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ اب میں کچھ مغرور بھی ہو گئی کیونکہ اپنی اوقات سے زیادہ مل گیا تھا- بہنیں اپنے گھرانے جیسے رشتے لاتیں، میں انکار کر دیتی، کہتی کہ مجھے ٹھیلے والوں سے شادی نہیں کرنی ، شادی میں کسی آفیسر سے کروں گی۔ انہی دنوں میں نے ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور ایک ہم جماعت لڑکی کے توسط سے اس کے ایک رشتہ دار کی کمپنی میں سیکرٹری کی ملازمت مل گئی۔ یہاں بھی ایک مہربان کرسچن خاتون نے میری مدد کی۔ انہوں نے مجھے سیکرٹری کے لئے دو سالہ کورس کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے ایک ادارے میں داخلے لے لیا۔ صبح کو ادارے جاتی اور شام کو جزوقتی ملازمت کرتی تا کہ میری ٹریننگ کا خرچہ نکل آئے۔ کورس مکمل ہوا۔ اب میں ایک کوالیفائڈ، سیکرٹری کی آسامی کی اہل تھی۔ مجھے اچھے مشاہرے پر بہتر سروس ملی۔ میں نے بہت جلد کام سنبھال لیا۔ دفتر کے لوگ اچھی طرح ملتے اور میرا احترام بھی کرتے تھے۔ایک روز دفتر میں بیٹھی کام کر رہی تھی۔ کوئی شخص میرے کمرے میں آیا اور باس کے بارے میں پوچھا۔ جونہی میری نظر اس کے چہرے پر پڑی، نظر اس کے چہرے سے ہٹانا ہی بھول گئی۔ تبھی اس نے میز کو اپنے ہاتھ سے بجایا تو میں چونک کر شرمندہ ہو گئی۔ اس نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تو میں نے بوکھلاہٹ سے انداز میں کہا۔ آپ ان کے آفس میں تشریف رکھیے وہ آنے ہی والے ہیں۔ اس نے میری بات پرعمل نہ کیا۔ وزٹینگ کارڈ دے کر چلا گیا مگر مجھے سحرزدہ کر گیا۔ وہ ایک بزنس مین تھا جو امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا اور ان دنوں بیرون ملک میں مقیم تھا۔ میں نے اعظم صاحب کو افتخار احمد کا وزٹنگ کارڈ دے دیا اور اس کا پتا اپنے دل کے پنے پر محفوظ کر لیا۔ ایک دن افتخار احمد آئے اور سیدھے صاحب کے کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں فائل لے کر ان کے کمرے میں گئی تو محسوس کیا کہ افتخار احمد کی نظریں بار بار میرے چہرے کی طرف اٹھتی تھیں۔ وہ چھٹی کے وقت تک ہمارے باس کے پاس براجمان رہا۔ جب میں گھر جانے کو آفس سے نکلی تبھی وہ بھی باہر آ گیا اور مجھ کو گھر تک چھوڑ دینے کی آفر کی۔ میں نے چند لمحے سوچا۔ عقل نے سمجھایا کہ ایسا موقع پھر نہ ملے گا۔ آج اس کی آفر قبول نہ کی تو ماں ٹھیلے والے سے ہی بیاہ دیں گی۔ میں اعتماد سے اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ کچھ آگے جا کر اس نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی پارک کر دی۔ میں نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا تو کہا۔ ہم ادھار نہیں رکھتے – آپ نے مہمان نوازی کی ،اب ہم کو میزبانی کا موقع دیجئے۔ ان کے ایسا کہنے سے جیسے مجھے تو سارے جہان کی دولت مل گئی۔ اس نے پر تکلف کھانا منگوایا، میرے بارے مجھ سے معلومات لیں۔ میں نے سچ سچ اپنے اور گھر والوں کے بارے میں بتا دیا۔ یوں پہلی ہی ملاقات میں اس نے اپنی پسندیدگی ظاہر کر دی۔ میں حیران تھی کہ میری ساری مرادیں آج ہی ایک ساتھ پوری ہو رہی ہیں۔ اس نے میری غربت سمیت مجھے اپنانے کا وعدہ کر لیا۔ افتخار نے اپنا وعدہ بہت جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور اس کی والدہ اور بہن میرا رشتہ مانگنے ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ افتخار کے پاس وقت کم ہے اور یوں بھی وہ دوٹوک بات کرنے والا انسان ہے۔ دیر کے جھنجھٹ میں پڑ کر وقت گنوانا نہیں چاہتا۔ آپ لوگ بھی جلد جواب دیں۔ والدہ پہلی ملاقات میں رشتہ دینے سے ہچکچا رہی تھیں لیکن یہ خواتین ان کو اچھی لگی تھیں۔ انہوں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں دو تین دن تو سوچنے کا موقع دیجئے۔ افتخار کے گھر والے ایک ہفتہ بعد آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ ہفتہ بعد جب دوبارہ آئے تو مٹھائی بھی ساتھ لائے کیونکہ باجی نے ہمارے باس سے بات کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ ہاں میں افتخار احمد کو جانتا ہوں، یہ پاکستان میں تو بالکل ٹھیک آدمی تھا۔ وہاں کا کہ نہیں سکتا کہ بیرون ملک رہائش اختیار کرنے سے کچھ تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔ میرے لئے تو باس کا اتنا ہی کہنا کافی ہوا۔ امی سے ضد کی کہ اب مزید سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہے ، آپ ہاں کہہ دیجئے۔ والدہ کو ہاں، کہتے ہی بنی۔ جس دن رشتہ منظور ہوا، اگلے دن وہ ہمارے دفتر آئے تھے۔ وہ بہت خوش لگ رہے تھے۔ مجھے تو اپنے باس سے حجاب آرہا تھا لیکن افتخار میرے کمرے میں آ گئے اور کہا۔ شکیلہ ! شادی کے بعد میں تم کو امریکا لے جانا چاہتا ہوں۔ بہت بھاگ دوڑ کر رہا ہوں تا کہ میری واپسی تک تمہارا ویزا بھی بن جائے۔ وہ پُرجوش نظر آرہے تھے۔ ان کے چہرے پر مسرت و انبساط دیکھ کر میر ادل مطمئن ہو گیا۔ شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی توافتخار کو کسی ضروری کام سے واپس جانا پڑ گیا۔ امی پریشان ہو گئیں، کہنے لگیں۔ ایسے لوگوں سے اس لئے ڈر لگتا ہے۔ پتا نہیں کب یہ رستہ بدل لیں اور پھر مڑ کر بھی نہ دیکھیں۔ اماں بس بھی کرو۔ وہ ضرور ہفتے کے بعد آنے کا کہہ گئے ہیں، لیکن رخصتی کو ابھی ڈیڑھ ماہ باقی ہے۔ مجھے یقین ہے افتخار دغا نہ کریں گے ، وہ ضرور آجائیں گے۔ ایک ہفتہ کیا، ایک ماہ گزر گیا۔ ماں کے دن انگاروں پر اور راتیں کانٹوں پربسر ہو تیں۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، ماں کو سبکی کا خوف ستارہا تھا لیکن میرے یقین نے میری لاج رکھ لی اور مقررہ وقت پر شادی ہو گئی۔ پہلے چند ماہ تو خیریت سے گزر گئے۔ جب ان کے جانے کی گھڑی قریب آئی، میرا دل پریشان رہنے لگا کیونکہ بہت کوشش پر بھی میرا ویزا نہ لگ سکا تھا۔ اب یہ ہوا کہ افتخار کبھی امریکا اور کینیڈا ہوتے اور کبھی میرے پاس آ کر پاکستان میں رہتے۔ ان کی زندگی دو حصوں میں بٹ گئی۔ جب وہ پاکستان ہوتے تو کسی کی جرات نہ ہوتی مجھے کچھ کہے لیکن ان کے جانے کے بعد میری ساس نندوں کی بن آتی۔ وہ مجھے غریبی اور ملازمت کے طعنے دیتیں اور ایسی باتیں سناتیں کہ میں ان کے اعلیٰ خاندان کی بہو بننے کے لائق نہ تھی۔ ایک دن افتخار اچانک گھر آگئے۔ ان کی والدہ اسی طرح پینڈورا بکس کھولے بیٹھی تھیں۔ انہوں نے ماں کی لن ترانیاں اپنے کانوں سے سن لیں۔ میں تو گھر کے ایک کونے میں سکڑی بیٹھی تھی اور لب سلے ہوئے تھے اور ان کی اماں برس رہی تھیں۔ ان کو پتا ہی نہ چلا کہ کب بیٹا ان کے سر پر آ کھڑا ہوا تھا۔ افتخار نے ماں سے جھگڑا کیا اور مجھے لے کر ایک دوست کے گھر آ گئے۔ کچھ دن وہاں رہنے کے بعد وہ مجھے کینیڈا لے آئے۔ یہاں آکر سکھ ملا۔ اپنی قسمت پر ناز کرنے لگی لیکن یہ سکون چند دن کا تھا۔ میں جس طبقے سے تعلق رکھتی تھی وہاں روایات کا پاس ہوتا ہے لیکن ادھر کا ماحول یکسر الگ تھا۔ میں شروع سے ہی حجاب لیتی تھی۔ میک آپ سے ہمیشہ دور رہی۔ بنائو سنگھار کی بجائے مجھے سادگی پسند تھی جبکہ افتخار بیرون ملک رہنے سے کافی آزاد خیال ہو گئے تھے۔ وہ یہاں کے معاشرے کے رہن سہن میں رچ بس چکے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں لباس اور وضع قطع سے ماڈرن نظر آئوں۔ مجھے کہتے کہ اب تم اپنے اس دیسی حلیے کو ترک کرو اور ویسا ہی ڈھنگ اپناؤ جیسا یہاں رہنے والوں کا ہے ورنہ یہ لوگ ہم سے متعصب ہو جائیں گے تو ہمارے لئے مشکلات ہوں گی، یہ ہم کو حقیر سمجھیں گے۔ وہ چاہتے، مجھے اپنے انگریز دوستوں کے گھر ان کی پارٹیوں میں لے کر جائیں۔ جب میں ان کی پسند کے مطابق لباس نہ پہنتی، ویسے ماڈرن بال نہ کٹواتی جیسا وہ چاہتے تھے اور بغیر حجاب، باہر جانے سے اجتناب کرتی تب وہ ناراض ہو جاتے اور کئی دن تک مجھ سے بات نہ کرتے۔ اس طرح ہمارے گھر کا سکون برباد رہنے لگا۔ افتخار کی خوشی کی خاطر میں پاکستان کے حساب سے بہت ماڈرن ہو گئی تھی لیکن اب بھی اس سوسائٹی میں ان فٹ تھی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ بالکل ویسی ہو جائوں جیسے میرے اڑوس پڑوس میں خواتین نظر آتی تھیں۔ میں اپنے شوہر کے ہمراہ رات کو پارٹیز میں ساتھ ہوتی، جہاں جسموں کی نمائش عام تھی۔ میرا لباس ان کی تضحیک کا نشانہ بنتا- اب گھر آ کر افتخار مجھ سے لڑتے- لڑتے لڑتے وہ سو جاتے اور میں سونہ پاتی۔ رات بھر روتی رہتی۔ یہاں کوئی بھی میرا غمگسار نہ تھا۔ اب ماں یاد آتیں، ان کی باتیں رلا تیں۔ وہ ٹھیک ہی تو کہتی تھیں کہ اس بندے سے تمہارا میچ نہیں۔ ذہنی دبائو نے میری صحت اور رنگ روپ پر برا اثر ڈالا۔ پہلے سے زیادہ دبلی اور سانولی ہو گئی۔ افتخار میری ذہنی کیفیت کو سمجھ گئے۔ انہوں نے مجھے مجبور کرنا بند کر دیا۔ اب میں اپنی مرضی کا لباس پہنتی۔ وہ مجھے پارٹیز میں بھی نہ لے جاتے ، گھر پر رہ کر خوش تھی لیکن انہوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ رات کو دیر سے گھر آتے، شراب پیتے اور سو جاتے۔ صبح اٹھ کر اپنے آفس چلے جاتے۔ اکثر ہماری بات بھی نہ ہو پاتی تھی۔ اب مجھے آزادی کی قدر معلوم ہوئی۔ میں تنہا بھی نہ رہ سکتی تھی۔ افتخار سے کہنا شروع کیا کہ مجھے پاکستان بھجوا دیں۔ میرے مجبور کرنے پر بالآخر انہوں نے پاکستان پہنچانے کی ٹھان لی۔ ہم وطن آگئے۔ میں بہت خوش تھی۔ کچھ روز ہم اکٹھے رہے۔ ان کو تو کاروبار کی خاطر لوٹ جانا ہی تھا، سو وہ چلے گئے۔ ایک بار پھرمیں ان کے گھر والوں کے رحم و کرم پر تھی۔ ان کی حقارتوں کے تیر سہتے ہوئے میری طبیعت خراب رہنے لگی، تو میں والدہ کے گھر چلی گئی۔ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ اس نے خوش خبری سنائی کہ میں ماں بننے جا رہی ہوں۔ مجھے زندگی کی تاریک راہ گزر میں ایک ایسے ہی جگنو کی ضرورت تھی جو بے شک میرے راستے روشن نہ کرے لیکن امید کی کرن تو بنے۔ میں نے یہ خوش خبری افتخار کو فون پر سنائی اور تمام حالات بتائے۔ وہ ایک ہفتے بعد ہی آ گئے۔ بہت خوش تھے ، مجھے لینے میکے آ گئے اور اصرار کر کے گھر لے گئے۔ کچھ ہی دن ہنسی خوشی کے سکون سے گزرے لیکن پھر ان کے گھر والوں کو میرا وجود ناگوار گزرنے لگا۔ بالآخر ان کے اس نارواسلوک کی وجہ معلوم ہو گئی۔ ان کی ایک رشتہ دار خاتون نے بتایا کہ افتخار کی منگنی ان کی خالہ زاد سے ہو چکی تھی اور شادی کے پروگرام بن رہے تھے کہ تم سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ یہ پہلے ہی اپنی منگیتر سے شادی نہ کرنا چاہتے تھے۔ جب اپنی پسند کی لڑکی مل گئی تو خالہ زاد سے صریحاً شادی سے منع کیا اور تم سے شادی کر لی۔ اس بات سے ان کی ماں خفا تھی کیونکہ وہ لڑکی اب بھی افتخار کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ جونہی میرے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی یہ مجھے ماں کے گھر سے لینے پہنچ گئے۔ میری گود میں چاند اترا تھا، میں تو بیٹے کو بانہوں میں لے کر نہال تھی۔ یقین تھا کہ بیٹے کی پیدائش کے بعد اب میرے حالات سنبھل جائیں گے ۔ لیکن میں ساس کے عزائم سے ناآشنا تھی کہ وہ پوتا چھین لینا چاہتی ہیں اور اپنی بھانجی کو بہو بنا کر لانا چاہتی ہیں۔ میرا بیٹا دس ماہ کا تھا۔ والدہ بیمار ہوئیں تو میں ان کو دیکھنے میکے گئی۔ میرے بعد جانے کیا جادو چلا کہ افتخار بھی اپنی سابقہ منگیتر سے ملنے لگے ، ان کے درمیان جو غلط فہمی یا نا پسندیدگی تھی، وہ دیوار ڈھا دی گئی۔ وہ مجھے لینے نہ آئے۔ میں نے فون کیا کہ اب مجھے میکے سے لے جائیے۔ کہا کہ تم وہاں رہنا چاہو تو رہتی رہو ۔ مجھے تو کچھ دنوں میں امریکا اور پھر کینیڈا جانا ہے ، وہاں تم جا نہ پائو گی۔ بچے کی شہریت کے کاغذات بنوانے ہوں گے ، تب تک تم کو پاکستان میں ہی رہنا ہے۔ ٹھیک ہے۔ آپ مجھے گھر تو لے جائے۔ اب میرادل اپنے ہی گھر میں لگتا ہے، میکے میں نہیں۔ میرے جانے کے بعد امی اور بہنیں پھر سے تمہارے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھیں گی اور یہ مجھے گوارا نہیں ہے۔ جیسا بھی رویہ رکھیں، مجھے منظور ہے لیکن اپنا گھر چھوڑ کر اب کہیں نہیں رہ سکتی۔ میرے بیٹا ہو گیا ہے ، اسے بھی اب باپ ہی کے گھر رہنا ہے۔ ٹھیک ہے ، تم بیٹے کو لے کر آجائو۔ میں بہنوئی کے ساتھ سسرال آ گئی۔ میری ساس نے ان کو گھر کے اندر نہ بٹھایا، وہ باہر سے ہی چلے گئے۔ میں نے یہ بھی سہ لیا۔ کینیڈا جانے سے پہلے افتخار نے کہا کہ چلو تمہاری والدہ سے مل لیتا ہوں۔ ان کی طبیعت ناساز ہے ، پوچھ بھی لیں گے میں مان کے ساتھ میکے آئی۔ چلنے لگی تو کہا۔ کچھ دن رہنا چاہو تو رہ لو۔ میں نہ رہنا چاہتی تھی کہ مجھے خطرے کی گھنٹیاں سنائی دے رہی تھیں۔ امی اور بہنوں نے کہا۔ اگر اپنی خوشی سے کہہ رہے ہیں تو دو چار دن رہ جائو۔ یہی مجھ سے غلطی ہوئی کہ ان کے ساتھ گھر لوٹ جانے کی بجائے میکے میں رک گئی۔ وہ بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ چار دن بعد ساس اور دیور آگئے۔ کہا کہ ہم بچے کے لئے اداس تھے ، سو آ گئے ہیں۔ ساس امی سے باتیں کرتی رہیں اور دیور میرے بیٹے کے ساتھ کھیلنے لگے اور گود میں اٹھائے اٹھائے گھر سے نکل گئے کہ ذرا گھما کر لاتا ہوں۔ میرے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ لوگ کس نیت سے آئے ہیں۔ میں ان کے لئے تواضع کی اشیاء تیار کرنے میں لگی تھی۔ کچن سے ٹرے لے کر باہر نکلی تو ، نہ دیور تھے نہ ساس اور نہ میرا بچہ موجود تھا۔ وہ میرے لعل کو لے کر نو دو گیارہ ہو چکے تھے۔ گھبرا کر افتخار کو فون کیا، جواب نہ ملا۔ خط لکھا، جواب نہ ملا۔ کینیڈا میں ایک پاکستانی گھرانے میں آنا جانا تھا۔ ان کو فون کیا۔ انہوں نے افتخار سے بات کی اور کہا کہ یہ آپ کے گھر والوں نے غلط کیا ہے ،اتنے چھوٹے بچے کو ماں سے چرا لیا ہے۔ اپنے گھر والوں کو کہیں کہ بچہ آپ کی بیوی کو سپرد کریں ورنہ ہم سفارت خانے والوں کو ر پورٹ کرتے ہیں اور آپ کی بیوی کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ انہوں نے جب افتخار کو ڈرایا تو اس نے اپنی ماں کو فون کیا مگر انہوں نے بچہ واپس کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ تم ذکیہ سے شادی کا وعدہ کر گئے تھے۔ وہ انتظار میں بیٹھی ہے۔ نجانے کس طرح کی باتیں کر کے انہوں نے افتخار کو قائل کر لیا کہ انہوں نے مجھ کو طلاق کے کاغذات بھجوا دیئے۔ اب میرے لئے ان کے گھر میں قدم رکھنے کا جواز نہ رہا۔ مجھ کو وہاں جانے کی چاہ بھی نہ تھی مگر اپنے بچے کو کیونکر بھلا سکتی تھی۔ چار سال میں نے کس اذیت میں گزارے، میرا خدا جانتا ہے۔ روروکر دعا کرتی تھی کہ اے خدا میرا لخت جگر مجھ کو ملا دے۔ میری دعا خالق نے سن لی۔ ایک روز میں اپنے شوہر کے گھر کی طرف اپنے بچے کو دیکھنے کی آس میں گئی۔ جب ان کے گھر کے دروازے پر پہنچی، دیکھا کہ میرا بچہ گھر سے باہر جھانک رہا ہے۔ میں ہاتھ میں کھلونا اور ٹافی کا پیکٹ لے کر گئی تھی۔ اس کو اشارے سے بلایا، کھلونا دکھایا وہ بھولا بھالا باہر نکل آیا اور دوڑ کر میرے پاس آ گیا۔ میں نے اس کو اٹھایا، ہاتھ میں کھلونا پکڑا اور جلدی جلدی گلی سے سڑک پر آ گئی۔ رکشہ روکا اور اس کو لے کر امی کے گھر جانے کی بجائے باجی کے گھر پہنچی۔ اس وقت انور بھائی گھر پر تھے۔ وہ مجھ کو اور منے کو ساتھ لے کر اپنے ایک عزیز کے گھر آ گئے جو گائوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے مجھ کو ان کے حوالے کیا۔ کہا میری یہ بہن اور بھانجا ہے۔ جب تک میں ان کو لینے نہ آئوں ان کو اپنے پاس رکھنا ہے۔ میری ساس اور دیور امی کے پاس گئے۔ امی نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں شکیلہ کہاں چلی گئی ہے۔ وہ یہاں اپنا بچہ نہیں لائی، کہیں اور جا کر تلاش کریں۔ ساس بڑ بڑاتی چلی گئیں اور کر بھی کیا سکتی تھیں۔ عدالت سے بھی بچہ ان کو نہ ملتا۔ افتخار نے ماں سے کہا کہ میں کاروباری معاملات میں الجھا ہوا ہوں۔ بچہ ہم بعد میں لے لیں گے ، فی الحال میں نہی آ سکتا۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی مل گئی تھی۔ سسرال والوں نے پھر رابطہ کیا اور نہ میرا پیچھا کیا۔ افتخار نے بہنوئی کو فون کیا اور کہا کہ شکیلہ سے کہو، سکون سے رہے۔ کوئی اس کو تنگ نہیں کرے گا۔ بچے کی پرورش کا خرچہ چاہے گی تو بھجوا دوں گا۔ خرچہ میں نے نہ لیا، بچہ انہوں نے نہ لیا۔ البتہ ذکیہ سے میری ساس نے ان کی شادی کروا دی اور وہ اس کے ساتھ خوش و خرم ہو گئے جبکہ میں نے اپنے لخت جگر کے سہارے زندگی گزار دی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS