Monday, September 16, 2024

Pansa | Complete Urdu Story

جمی کلارک جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ یہ کیرولین کے گھر کا باغ تھا۔ وہ کئی روز سے یہاں چھپ کر کیرولین کے معمولات کو نوٹ کر رہا تھا۔ مئی کی شام میں قدرے خنکی تھی، لیکن اس کے کپڑے پسینے میں بھیگ گئے تھے۔ اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے اور سانس میں تیزی تھی۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر اپنے ہونٹوں کو ترکیا۔
آج سے پانچ سال پہلے جو غلطی اس سے ہوگئی تھی۔ اسے اس کی تلافی کرنی تھی۔ وہ پانچ سال سے انتقام کی بھڑکتی آگ کو اپنے اندر کسی آتش فشاں کی طرح دبائے ہوئے تھا۔ وہ اسے بجھا دینا چاہتا تھا۔ اس نے پانچ سال انتظار کیا تھا کہ اس غلطی سے پیدا ہونے والی گرد بیٹھ جائے تو وہ اصل کام کرے جو درحقیقت اس کا مقصد تھا۔
کیرولین کے اپارٹمنٹ کا پچھلا دروازہ پارکنگ کی طرف کھلتا تھا۔ اس نے پچھلی طرف کے بلب کا کنکشن کاٹ دیا تھا۔ اس لئے گھر کے پچھلے حصے میں مکمل اندھیرا تھا۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ اردگرد کوئی نہیں۔ اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا اوزار نکلا اور برآمدے میں جا کر اسے چابی کے سوراخ میں ڈالا۔ کلک کی آواز کے ساتھ ایک دم تالا کھل گیا۔ اس نے آہستہ آہستہ دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔ جمی نے اندر جا کر دروازہ پھر بند کر لیا۔
ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے باریک ہونٹوں پر پھیل گئی۔ یہ سوچ کر وہ بہت محظوظ ہو رہا تھا کہ آج جب کیرولین گھر واپس آ کر اپنا دروازہ کھولے گی تو وہ کسی بدروح کی طرح اس کے ساتھ ہوگا۔
وہ کچن میں داخل ہوا… کل رات وہ کچن کی باہر کھلنے والی کھڑکی سے کیرولین کے تمام معمولات کو دیکھتا رہا تھا۔ تقریباً دس بجے وہ اپنے بیڈروم سے لائونج میں آئی۔ اس نے شب خوابی کا ڈھیلا ڈھالا لباس پہن رکھا تھا۔ اس نے ٹی وی پر خبریں لگائیں اور اس دوران ورزش کرنے لگی۔
جب وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر جھکتی تو اس کے لمبے سنہرے بال کسی آبشار کی طرح معلوم ہونے لگتے۔ جس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہو۔ جب وہ دائیں بائیں مڑتی تو اس کے ریشمیں بال اڑتے ہوئے سنہری بادل کی طرح کبھی اس کے ایک شانے پر ہوتے اور کبھی دوسرے پر…
پھر وہ اپنے بیڈروم میں واپس چلی گئی اور اس کے کمرے کی لائٹ ایک گھنٹے تک جلتی رہی… جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کچھ پڑھ رہی ہے۔ پھر اس نے لائٹ بجھا دی اور اپارٹمنٹ میں صرف اسٹریٹ لائٹ کی روشنی رہ گئی۔ اس اندھیرے کے باوجود اپارٹمنٹ میں چھپنے کی اتنی زیادہ جگہیں نہیں تھیں، وہ اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ کہاں کہاں چھپ سکتا ہے۔
اس نے کیرولین کے بیڈ کے نیچے بھی چھپنے کا سوچا… یہ اسے ایک بہتر تجویز معلوم ہوئی وہ اس کے نیچے آرام سے جا سکتا تھا۔ اس کی بیڈ شیٹ ویلوٹ کی تھی جس کے کنارے نیچے تک لٹکے ہوئے تھے۔ وہ آرام سے وہاں لیٹ کر اس کے سونے کا انتظار کرسکتا تھا۔ جب وہ سو جاتی تو چپکے سے باہر نکل کر اس کا کام تمام کرسکتا تھا۔
پھر اس کی نگاہ سامنے والی الماری پر پڑی۔ وہ تھوڑی سی کھلی ہوئی تھی۔ جمی نے بڑھ کر اس کا جائزہ لیا… وہ الماری اندر سے کافی کشادہ تھی۔ اس میں ایک بڑا بیگ لٹکا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا رہتا تھا۔ جمی کا خیال تھا کہ اس بڑے بیگ میں کیرولین کی شادی کا جوڑا تھا۔
وہ کچھ روز سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اسی دوران اس نے کیرولین کے منگیتر کو بھی دیکھا تھا۔ کل وہ اس بوتیک میں آدھا گھنٹہ رہی تھی۔ جہاں پر عروسی لباس تیار کئے جاتے تھے۔ وہ باہر آئی تھی تو اس کے ہاتھ میں بیگ تھا۔ وہ دل ہی دل میں ہنسا۔ کیرولین بچاری کو کیا پتا کہ اسے اسی عروسی لباس میں دفنایا جائے گا۔
اس الماری میں وہ بہت آسانی سے چھپ سکتا تھا۔ جمی اس کے اندر داخل ہوگیا۔ وہاں دو کوٹ بھی لٹکے ہوئے تھے۔ وہ ان کے درمیان کھڑا ہو جاتا تو پوشیدہ رہ سکتا تھا۔
اگر وہ اتفاقاً الماری کھول بھی لے تو بھی وہ اپنے انجام کو پہنچ ہی جائے گی لیکن یہ ہنگامی انداز ہوگا۔ وہ اپنے منصوبے کے مطابق مزے لے لے کر اسے قتل نہیں کرسکے گا۔ جس طرح اس نے اس کی زندگی کو ایک مسلسل عذاب بنا دیا تھا۔ اس طرح وہ انتقام نہیں لے سکے گا۔
اس نے طے کر لیا تھا کہ آج کیرولین کی زندگی کا آخری دن ہے۔ اس وقت وہ ریسٹورنٹ میں اپنے منگیتر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور دونوں اگلے ہفتے ہونے والی شادی کا منصوبہ بنا رہے تھے کہ سب کچھ کس طرح سے کیا جائے گا۔
جمی کا اندازہ تھا کہ وہ گھنٹے بھر میں واپس آ جائے گی۔ اسی لئے وہ اس کے اپارٹمنٹ میں چلا آیا تھا تاکہ اپنے چھپنے کی جگہ اور منصوبے کی باقی کڑیوں کے بارے میں بھی ضروری منصوبہ بندی کرلے۔
اس نے الماری سے مشروب کا ایک ٹن نکالا اور ایک آرام کرسی پر بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اس کا طائر خیال پانچ ساڑھے پانچ سال پیچھے پرواز کرتا، ان یادوں میں کھو گیا۔ جب وہ فائن آرٹس کے کالج میں ڈرامہ کے مختلف شعبوں میں پڑھائی کر رہے تھے۔
کیرولین نے ڈائریکشن میں خصوصی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ دو تین ڈرامے ڈائریکٹ کرچکی تھی۔اس کے ہر ڈرامے میں وہ بھی کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتا تھا۔وہ کالج میں ایک اچھا اداکار سمجھا جاتا تھا۔
ایک ڈرامے میں تو اس نے ایک کردار ایسا کیا تھا کہ سب اسے اسی کردار کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ زیادہ تر لوگ اسے جمی کے بجائے برائن کہتے تھے۔
پھر کیرولین نے ایک اور بڑا ڈرامہ ڈائریکٹ کیا۔ اس میں جمی کو بھی ایک کردار دیا گیا تھا۔ وہ اچھا بھلا اس کی ریہرسل کر رہا تھا کہ ڈرامہ نائٹ سے دو ہفتے پہلے کیرولین نے اس سے وہ کردار لے کر برائن کو دے دیا اور بولی۔ ’’یہ کردار تمہارے لئے مناسب نہیں جمی… تم بھائی کا کردار لے لو… تم یہ بہتر کرسکتے ہو۔‘‘
جمی یہ بات کبھی نہیں بھلا پایا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا۔ اس کی سنگینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس ڈرامہ نائٹ میں ایک مشہور ڈائریکٹر بھی مدعو تھا۔ اس نے برائن کو ایک ٹی وی سیریل میں کام کرنے کے لئے بک کرلیا، جس کی تقریباً دو سو قسطیں تھیں۔ پھر برائن کو ایک فلم کے لئے منتخب کر لیا گیا۔
یہ بات اس کے دل سے کبھی نہیں نکلی کہ اگر کیرولین اسے وہ کردار کرنے دیتی تو برائن کے بجائے وہ ایک مشہور اداکار ہوتا اور فلم میں کام کر رہا ہوتا۔ وہ اس سب کا ذمہ دار کیرولین کو ٹھہراتا تھا۔
اس نے اس کا کیریئر تباہ کیا تھا۔ وہ اس کے لئے اسے کبھی معاف نہیں کرسکتا تھا۔ اسی لئے جیسے ہی انہوں نے گریجویشن کیا۔ وہ اسی روز کیرولین کے آبائی گھر چلا گیا۔
وہ اپنے جنون میں دیوانگی کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ وہ رات اس کے گھر میں داخل ہوا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا۔
سامنے کمرے کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا تھا مگر اندر کوئی نہیں تھا… دوسرے کمرے کا بند دروازہ اس نے کھولا تو کیرولین اپنے بیڈ پر سو رہی تھی۔ وہ اتنی گہری نیند میں تھی کہ اس نے دروازہ کھلنے کی آواز تک نہیں سنی۔
جمی کو آج بھی وہ سارا منظر اس طرح یاد تھا جیسے کل کا واقعہ ہو… وہ ریشمیں بیڈ شیٹ پر سمٹی ہوئی تھی۔ اس کے سنہرے بال تکیے پر سونے کی تاروں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اس پر جھکا اور اس نے آہستگی سے پکارا۔ ’’کیرولین…!!‘‘
اس نے نیند سے بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور گھنیری پلکیں جھپکائیں۔ اس کے گلابی ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔ ’’کون؟‘‘
جمی نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بند کردیا۔ اس کی ہراساں آنکھوں میں خوف کے سائے لہرائے۔ جب جمی نے سرگوشی کی۔ ’’میں تمہیں قتل کرنے والا ہوں کیونکہ تم ہی میرا کیریئر تباہ کرنے والی ہو… تمہاری وجہ سے میں اداکار نہیں بن سکا اور اب تم بھی مزید کوئی ڈرامہ ڈائریکٹ نہیں کرسکو گی؟‘‘
وہ پوری قوت سے مزاحمت کرنے لگی لیکن جمی نے اسے قابو کر کے اس کے گلے میں بٹی ہوئی مضبوط رسی ڈال دی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھٹ گئیں۔ ان میں التجا نظر آنے لگی۔ وہ رحم کی بھیک مانگنے لگیں۔ اس نے دونوں بازو اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے اسے دھکیلنے کی آخری کوشش کی… لیکن ناکام رہی اور جلد ہی اس کے بازو ڈھیلے ہو کر اس کے پہلو میں گر گئے۔
جمی کی انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ وہ اطمینان سے اپنے اپارٹمنٹ میں آ کر چین کی نیند سویا۔ اگلی صبح اس نے اخبار کھولا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ نمایاں سرخی اس کے سامنے چیخ رہی تھی۔ ’’مشہور بینکر پال کی اکیس سالہ بیٹی لیزا اپنی جڑواں بہن کیرولین کے پاس مردہ پائی گئی۔ ان کے آبائی گھر میں دونوں جڑواں بہنیں اکیلی تھیں… اس کی بہن کیرولین… سکتے کی حالت میں ہے اور کوئی بیان دینے کے قابل نہیں…‘‘
٭ … ٭ … ٭
جمی کے لئے بھی یہ تمام واقعہ کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ اس کا مقصد حل نہیں ہو سکا تھا اور ایک قتل بھی اس کے کھاتے میں آ گیا تھا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ پولیس کو اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
وہ ہر روز اس کیس کے بارے میں اخبارات میں دیکھتا رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ پولیس نے اسے اندھا قتل قرار دے دیا اور معاملہ دب گیا… وہ بھی خاموش رہا اور وقت گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔
پھر اس نے اخبار میں دیکھا کہ کیرولین ایک پروفیسر سے شادی کر رہی ہے۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ اس کی زندگی برباد کر کے اپنا گھر کیسے آباد کرسکتی تھی۔ وہ اسے پریشان کر کے خود کیسے ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکتی تھی۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ اس کی کوئی جڑواں بہن بھی ہے تو وہ کبھی غلطی نہ کرتا اور کیرولین کو موت کی نیند سلا کر اپنے سینے میں بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرلیتا۔
بہرحال آج اس کی یہ خواہش پوری ہونے والی تھی۔ وہ کیرولین کے انتظار میں اس کے اپارٹمنٹ میں موجود تھا۔ کافی دیر ہوچکی تھی۔ یقیناً وہ اب آنے ہی والی تھی۔
وہ الماری کے اندر داخل ہوا اور اس کے دو کوٹوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنی جیب میں رسی کو ٹٹولا ویسی ہی رسی جیسی کہ اس نے کیرولین کی بہن کا گلا گھونٹنے کے لئے استعمال کی تھی۔ وہ کیرولین کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔
اسے الماری میں یوں کھڑے کھڑے تقریباً آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا لیکن وہ تھکا نہیں تھا۔ پھر اسے دروازے کے قریب آوازیں سنائی دیں۔ وہ پوری طرح مستعد ہوگیا اور آوازوں کو بڑے غور سے سننے لگا۔
کوئی مردانہ آواز بھی کیرولین کی آواز کے ساتھ تھی۔ دروازہ کھلا اور اس نے لائٹ جلا دی۔ اس کی روشنی چھن چھن کر الماری میں آنے لگی۔ جمی دو کوٹوں کے
درمیان دبک گیا۔ اسے امید تھی کہ الماری اچانک کھل جانے پر بھی وہ نظر نہیں آسکے گا۔
مردانہ آواز کیرولین سے مخاطب تھی۔ ’’کیرولین…! میں نہیں چاہتا کہ تم اکیلی یہاں رہو۔ میرا خیال ہے۔ میں یہیں رک جاتا ہوں… تم بیڈ روم میں سو جانا… میں لائونج میں صوفے پر سو جائوں گا۔‘‘
’’نہیں… شکریہ…! میں ٹھیک ہوں… میری اداسی کی وجہ یہ ہے کہ آج میری بہن کی برسی ہے۔ وہ مجھے بہت پیاری تھی۔ آج کا دن گزر جائے گا… میں کل سے شادی کی تیاری میں مصروف ہو جائوں گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’میں بھی اسی انتظار میں ہوں کہ کب وہ وقت آئے گا جب آنکھ کھلتے ہی میری نظر تمہارے خوبصورت چہرے پر پڑے گی تو مجھے کتنا اچھا لگے گا۔‘‘
جمی دم سادھے ان کی یہ محبت بھری گفتگو سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ پروفیسر نہیں جانتا کہ اس کی یہ آرزو اس کے دل میں ہی رہے گی اور کبھی پوری نہیں ہو پائے گی۔
وہ بے چینی سے انتظار کر رہا تھا کہ کب پروفیسر رخصت ہو اور وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنائے۔ چند اور رومانوی باتوں کے بعد وہ چلا گیا اور اسے کیرولین کے دروازہ بند کرنے کی آواز سنائی دی۔
پھر وہ واش روم میں گئی۔ جمی انتظار کرتا رہا کہ وہ کب باہر آتی ہے۔ پھر دروازہ کھلا اور وہ لائونج میں آئی۔
اس نے ٹی وی لگایا اور جمی سوچنے لگا کہ اب وہ یقیناً ورزش کر رہی ہوگی لیکن تھوڑی ہی دیر میں اسے بیڈ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر بیڈ کے اسپرنگ کے دبنے کی آواز سنائی دی۔ وہ خلاف معمول جلدی سونے کے لئے لیٹ گئی تھی۔
٭ … ٭ … ٭
جمی کی ساری حسیں بیدار تھیں۔ اس کے کان ان آہٹوں کی طرف لگے ہوئے تھے جو کیرولین کے بیڈ کی طرف سے آرہی تھیں۔ کچھ دیر تک چادر کے الٹنے پلٹنے اور کروٹیں بدلنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ مکمل خاموشی۔
وہ اس کے بیڈ روم سے اتنا دور تھا کہ اس کی سانسوں کی آواز نہیں سن سکتا تھا لیکن اسے اتنا اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ کیرولین سو چکی ہے۔
اس نے آہستہ آہستہ کپڑوں کو ہٹایا اور الماری سے باہر نکلا اور چند لمحے ساکت کھڑا رہا۔ اس خیال سے کہ کیرولین کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آتا ہے یا نہیں۔
اس طرف سے اطمینان کرلینے کے بعد وہ دبے پائوں اس کے بیڈروم میں داخل ہوا۔ جہاں نائٹ بلب کی ہلکی ہلکی روشنی دھند کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ کیرولین نیند میں بے چین تھی اور کبھی کبھی اپنا سر تکیے پر دائیں بائیں پٹختی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ پنجوں کے بل اس کے بیڈ کے برابر آگیا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر وہ ایک طویل لمحے تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔
کیرولین نے اچانک آنکھیں کھول دیں۔
غیرارادی طور پر جمی نے فوراً اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کردیا۔ اس کی آنکھیں پوری طرح سے کھل گئیں۔ وہ سانس لینے کے لئے تڑپنے لگی۔ جمی نے ہاتھ اس کے منہ سے ذرا سا سرکایا اور اس پر جھک کر سرگوشی کی۔ ’’کیرولین… میں اپنی غلطی درست کرنے کے لئے آیا ہوں۔‘‘ پھر طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’کیرولین مارشل… عظیم ڈائریکٹر…‘‘
وہ کانپ گئی، مگر منہ بند ہونے کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں پائی۔
جمی اس پر جھک کر کہنے لگا۔ ’’میں تمہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح میں نے تمہاری بہن کو مارا تھا، غلطی سے… ایک اداکار اپنے رول کو بار بار دہراتا ہے جب تک کہ وہ اس کو درست طور پر ادا نہیں کرلیتا۔ تم نے میرا کیریئر تباہ کیا ہے۔ میں تمہاری وجہ سے ایک بڑا اداکار نہیں بن سکا… تم جانتی ہو کہ میں نے تمہاری بہن سے کیا کہا تھا؟ اس کو قتل کرنے سے پہلے۔‘‘
اس کے خوف اور ردعمل کو جاننے کے لئے جمی نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر سے تھوڑا سا ہٹایا۔
’’مجھے… مجھے ضرور بتائو… میں اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی ہوں کہ وہ کس طرح قتل ہوئی اور تمہیں شاید معلوم نہیں کہ وہ کیرولین تھی… میں لیزا ہوں۔‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بولی۔ ’’جسے تم نے قتل کیا… وہ کیرولین تھی… میں اس کی جڑواں بہن لیزا ہوں لیزا…!‘‘
جمی نے زور سے اپنا ہاتھ رکھ کر اس کا منہ بند کردیا۔ وہ ٹھٹھک گیا تھا۔ اس کا غصہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ یہ لڑکی کیا کہہ رہی تھی؟ اس وقت جبکہ اس کی جان پر بنی تھی… وہ اسے بتا چکا تھا کہ وہ اس کو قتل کرنے والا ہے تو وہ یہ کیا کہہ رہی تھی… ایک حیران کن بات…!‘‘
لیکن وہ اس کی کسی بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس نے غصے میں بل کھاتے ہوئے اپنی جیب سے وہ بٹی ہوئی رسی نکالی۔ یہ جو کوئی بھی تھی… کیرولین یا لیزا… وہ اسے بھی موت کے گھاٹ اتار کر رہے گا تاکہ اس کے دل میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ اسے اطمینان ہوجائے کہ اس نے کیرولین سے انتقام لے لیا ہے۔
’’نہ تم چیخ سکتی ہو نہ کسی کو مدد کے لئے پکار سکتی ہو… جس طرح تمہاری بہن کے ساتھ ہوا تھا۔ تم بھی اسی طرح مرو گی جس طرح وہ قتل ہوئی تھی۔ خواہ تم کیرولین ہو یا لیزا…!‘‘
لڑکی نے مجنونانہ انداز میں ہاتھ ہلائے… اس کی آنکھوں میں بے تابی اور بے قراری نظر آئی۔ یوں جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو… جمی نے تنبیہ کے انداز میں کہا۔ ’’خبردار جو تم چیخیں… یا تم نے کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش کی… میں تمہارے منہ سے ہاتھ ہٹاتا ہوں… بتائو… تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے اس کی گردن ذرا سی ہٹا کر رسی اس کے گلے میں ڈال دی اور اسے ایک ڈھیلی گرہ دے دی۔ جسے وہ بوقت ضرورت کس سکتا تھا۔ اس کے اپنے ہاتھ میں اتنی رسی تھی جس سے وہ اس کو قابو میں رکھ سکتا تھا۔
اسی وقت جمی کو احساس ہوا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ دن کو اس نے ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ یہ سوچ اسے بڑی پرلطف محسوس ہوئی کہ وہ اس لڑکی کو خواہ وہ کیرولین تھی یا لیزا کچھ پکانے کے لئے کہے… عظیم ڈائریکٹر کو آج اس کے لئے پکانا پڑے گا۔ جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی۔
اس رسی کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا اور بولا۔ ’’سنو مجھے بھوک لگی ہے… میرے لئے ایک سینڈوچ اور کافی بنائو۔‘‘
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ یوں ساکت تھی جیسے ذرا بھی حرکت کرے گی تو پھندا اس کا گلا گھونٹ دے گا۔
وہ بغیر کچھ کہے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر اس نے بیڈ سے اٹھنا چاہا اور شاید حسب عادت اپنے جوتوں کو تلاش کرنا چاہا… اس حرکت سے اس کی گردن کے گرد لگی ہوئی گرہ میں کھنچائو پیدا ہوا۔ اس نے بے ساختہ اپنے ہاتھ اپنی گردن پر رکھ لئے۔ ’’پلیز…!!‘‘
’’شٹ اَپ…!‘‘ جمی نے اس کی گردن کی گرہ ذرا ڈھیلی کردی۔ ’’ذرا آرام سے چلو… اور نہ ہی اپنی آواز بلند کرنا… ورنہ تم جہاں ہوگی وہیں تمہیں خودبخود پھانسی لگ جائے گی۔‘‘
اس کا خوبصورت چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ وہ صیاد دیدہ ہرنی کی طرح بار بار وحشت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی تھی۔
وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا لائونج سے گزر کر کچن میں آیا۔ رسی اس کے ہاتھ میں تھی۔ لڑکی نے آگے بڑھ کر فریج کھولا اور اس میں سے مختلف چیزیں نکال کر قریب پڑی ہوئی میز پر رکھنے لگی۔ خشک گوشت پنیر اور انڈے وغیرہ۔
’’تم کیسا سینڈوچ چاہتے ہو؟ ڈبل روٹی بھی ہے اور اطالوی رول بھی ہیں۔‘‘ وہ سہمی ہوئی سی آواز میں منمنائی۔
’’اطالوی رول میں جو کچھ ڈال سکتی ہو ڈالو۔‘‘ جمی بدمزاجی سے بولا۔
اس نے کیتلی میں پانی ڈال کر چولھے پر رکھا اور چھری سے رول کاٹ کر اس میں انڈے، گوشت، پنیر، پیاز اور دوسری چیزیں ڈالنے لگی۔ اس کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ جمی کو اس کی حالت دیکھ کر بہت لطف آ رہا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ عام حالات میں تو یہ اس کے لئے کبھی سینڈوچ نہ بناتی… جو اس وقت بھیگی بلی بنی بڑی مستعدی سے کام کر رہی ہے۔ پھر اس نے سینڈوچ پلیٹ میں رکھا اور اس کی طرف بڑھایا… اور رک رک کر بولی۔ ’’تم نے مجھے اپنا نام بتایا تھا لیکن مجھے یاد نہیں…‘‘
جمی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور مشکوک لہجے میں بولا۔ ’’یہ تم اداکاری کر رہی ہو یا واقعی تم مجھے نہیں پہچانتیں؟‘‘
’’نہیں… میں آج تمہیں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔‘‘ وہ جھجک کر بولی۔
’’میرا نام جیمز ہے… مگر زیادہ لوگ مجھے جمی کہہ کر پکارتے ہیں۔‘‘ جمی نے کافی کے بڑے بڑے گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ اس نے کافی اور سینڈوچ اچھا بنایا تھا یا اسے بھوک ہی اتنی لگی تھی کہ اسے یہ سب اچھا لگا تھا۔ بہرحال جو بھی تھا… یہ سب کچھ کھا کروہ پہلے سے بہتر محسوس کر رہا تھا… مگر اس لڑکی نے اسے عجیب مغالطے میں ڈال دیا تھا۔
کیا وہ واقعی کیرولین نہیں تھی۔ اس کی جڑواں بہن تھی؟
کیا واقعی اس نے کیرولین کو ہی قتل کیا تھا؟ اس نے لڑکی کے گلے میں رسی کی گرہ تھوڑی سی تنگ کی اور غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’تم کہہ رہی ہو کہ تم کیرولین نہیں بلکہ لیزا ہو… میں تمہاری بات پر کیوں کر یقین کروں…؟ اور اگر یقین کر بھی لوں تو بھی یہ کوئی عقلمندی نہیں ہوگی کہ میں تمہیں چھوڑ دوں۔‘‘
اس کے چہرے پر مایوسی چھاگئی۔ اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو جمی کو لگا کہ وہ سہمی ہوئی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔
’’جڑواں ہونا بھی ایک مصیبت ہے جبکہ شکلیں بھی بالکل ایک جیسی ہوں۔ ہم دونوں میں بہت لڑائیاں ہوتی تھیں۔ میری بہن مجھ پر بہت حکم چلاتی تھی۔ یوں جیسے میری باس ہو… اسے ہر وقت اپنی بات منوانے کی عادت تھی۔ جب ہم چھوٹے تھے تو وہ کوئی نہ کوئی شرارت کرتی رہتی تھی اور بعد میں میرا نام لگا دیتی تھی جس کی وجہ سے ڈانٹ مجھے پڑتی تھی۔ اسی لئے میں اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔ جب ہم کالج میں داخلہ لینے لگے تو میں نے اس کالج میں داخلہ لینے سے انکار کردیا جہاں وہ داخلہ لے رہی تھی۔ میں اب اس کی اور زیادتیاں برداشت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جس طرح وہ مجھے اسکول میں تنگ کرتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اسی طرح مجھے کالج میں بھی پریشان کرے گی۔
میں اس سے دور رہنا چاہتی تھی کہ اپنی شناخت بنا سکوں۔ وہ ہمیشہ مجھ پر حاوی رہتی تھی… ہر معاملے میں وہ آگے آگے ہو جاتی تھی… مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیتی تھی، جس رات وہ قتل ہوئی۔ اس رات وہ ٹی وی دیکھنا چاہتی تھی مگر اس کا ٹی وی خراب تھا۔ میں سونا چاہتی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس کے کمرے میں سو جائوں اور وہ میرے بیڈروم میں میرے ٹی وی سیٹ پر اپنی پسند کا پروگرام دیکھے گی۔
پھر میں سو گئی۔ مجھے پتا نہیں چلا کہ اس


ساتھ کیا ہوا… صبح میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی تو میں نے کیرولین کو مردہ دیکھا اور بے ہوش ہوگئی۔ مجھے ڈاکٹروں نے دو تین دن سکون آور دوائوں پر رکھا… کمرہ بدل جانے کی وجہ سے میرے والدین کو بھی پتا نہ چلا کہ ہم دونوں میں سے کون قتل ہوا ہے… میری ماں مجھے کیرولین کہہ رہی تھی کیونکہ وہ اسے زیادہ پسند کرتی تھیں… سو میں نے یہی فیصلہ کر لیا کہ میں کیرولین بن کر زندہ رہوں گی تاکہ مجھے ماں کی محبت اس طرح حاصل ہو جس طرح اسے حاصل تھی۔‘‘
جمی بڑے غور سے اس کی گفتگو سن رہا تھا۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات پر بھی غور کر رہا تھا۔ اس نے کڑے لہجے میں پوچھا۔ ’’تو تم نے کیرولین بننے کا فیصلہ کرلیا… لیکن تم مختلف کالجوں میں پڑھتی تھیں۔ تمہارے شعبے بھی یقیناً الگ ہوں گے… تو جب کیرولین کے کالج سے لوگ ملنے آتے تھے تو تم کیا کرتی تھیں؟‘‘
اس نے گہرا سانس لیا اور بولی۔ ’’اس میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ میں دو تین دن شدید صدمے کے زیر اثر رہی تھی۔ اس لئے میرے لئے یہ ظاہر کرنا بہت آسان تھا کہ میری یادداشت کو اس صدمے سے دھچکا پہنچا ہے اور میں ماضی کی بہت سی باتیں بھول گئی ہوں۔ سب نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور یہی سمجھا کہ میں کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہو چکی ہوں۔‘‘
جمی بہت غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ اسے ایک مختلف لڑکی لگ رہی تھی۔ وہ کیرولین کے مقابلے میں نرم خو اور ملائم تھی۔ وہ کیرولین جیسی اکھڑ اور بددماغ نہیں تھی یا خوف کی وجہ سے ایسی نظر آ رہی تھی۔ اسے صورتحال دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔
اسے قتل کرنے کے لئے ابھی کافی وقت تھا۔ اس کے گلے میں وہ پھندا ڈال چکا تھا۔ بس اسے ایک جھٹکے سے کھینچنا باقی تھا۔ جو چند منٹ میں اس کا کام تمام کردے گا… لہٰذا چند منٹ اور اس کی بات سننے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
وہ کہہ رہی تھی۔ ’’میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میرا منگیتر جس سے میں اگلے ہفتے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اس کی دوستی کیرولین کے ساتھ تھی لیکن جب میں نے کیرولین کا روپ دھارا تو مجھ سے کہنے لگا کہ میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھی اور بہتر ہوں اور وہ مجھ سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگا ہے۔ مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ اسی لئے میں نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
جمی بڑی توجہ سے اس کی بات سن رہا تھا۔ اس نے اچانک ہی اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔ ’’تم وہ واحد انسان ہو جسے میں نے اپنے اس راز میں شریک کیا ہے… میرا یہ راز کسی کے علم میں نہیں… تم نے مجھے اس بہن سے نجات دلائی۔ جس نے میری زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ اگرچہ میں اس کے نام سے جی رہی ہوں لیکن بہت خوش اور آسودہ ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ میرے محسن تم ہو۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد وہ بولی۔ ’’میں تمہارے لئے اور کافی بنائوں؟‘‘
جمی نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔ کہیں وہ اس کو بے وقوف بنانے کی کوشش تو نہیں کر رہی لیکن اس کے چہرے پر خوف اور امید و بیم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں رحم کی التجا تھی۔ ایک اور کافی کی پیالی پی لینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ شاید کافی اسے بہتر سوچنے سمجھنے میں مدد دے۔
’’ہاں… بنالو…‘‘ جمی نے کہا اور رسّی کو ہاتھ میں تھامے ہوئے اس کے عقب میں ہوگیا تاکہ اس پر نظر رکھ سکے۔
اس نے پلٹ کر چولھا جلایا… جمی اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھا اور اسے دیکھ کر خیال آ رہا تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی لیکن وہ پھر بھی اسے زندہ چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ وہ جو بھی تھی اس کے جرم کی گواہ بن چکی تھی۔
لڑکی نے کافی پیالی میں ڈال کر اس کی طرف بڑھائی… کافی کے بڑے بڑے گھونٹ لے کر پیالی خالی کرتے ہوئے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس کے بعد لڑکی کو بیڈروم میں لے جا کر ختم کردے گا۔ جس طرح اس نے اس کی بہن کو نشانہ بنایا تھا۔
وہ منظر اب بھی اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا تھا کہ کس طرح اس لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ یوں اٹھائے تھے جیسے اس کا منہ نوچ لینا چاہتی ہو… اس کی ابلی ہوئی آنکھوں سے خوف اور نفرت جھانک رہی تھی۔ جیسے اس کو موقع ملے تو اس کو فنا کر ڈالے۔ یہ منظر جب کبھی دن کو اسے یاد آتا تھا تو وہ بہت خوشی محسوس کرتا تھا… مگر بعض اوقات رات کو اس کی یاد اسے پسینے میں شرابور کر دیتی تھی۔
اچانک فون کی گھنٹی خاموش رات میں گونج اٹھی۔ لڑکی بدک گئی لیکن پھر اس نے خود پر قابو پا لیا اور پرسکون ہوگئی۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات سے جمی کو اندازہ ہوگیا تھا۔ جیسے وہ جانتی ہے کہ فون کس کا ہوسکتا ہے۔
فون کی دوسری اور پھر تیسری گھنٹی بجی… جمی نے اپنی پشت پر پسینے کے قطرات کو پھسلتے ہوئے محسوس کیا اور درشتی سے بولا۔ ’’اس کی طرف دھیان مت دو۔‘‘
اس نے خوبصورت نیلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔ ’’جمی… میں جانتی ہوں کہ اس وقت میرا منگیتر ہی فون کرسکتا ہے۔ اگر میں نے فون نہ اٹھایا تو وہ یہی سمجھے گا کہ کوئی گڑبڑ ہے… اور یہاں آ جائے گا… میں نہیں چاہتی کہ وہ پریشان ہو کر یہاں آ جائے۔‘‘
جمی نے اس کی بات پر غور کیا اور اسے اس کی بات معقول معلوم ہوئی۔ وہ درست کہہ رہی تھی۔ ان کی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ ایسے حالات میں یقیناً رومانوی جذبات عروج پر ہوتے ہیں۔ ان ہی کے زیر اثر وہ فون کا جواب نہ ملنے پر یہاں آ بھی سکتا تھا۔
فون کی گھنٹی مسلسل بجتی جا رہی تھی۔ اس سنگین ماحول میں اس کی آواز دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔ لڑکی پھر کہنے لگی۔ ’’میں نہیں چاہتی کہ وہ یہاں آئے… مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ میں تمہیں قائل کرنا چاہتی ہوں کہ میں لیزا ہوں… کیرولین نہیں… اس کے آنے سے کہیں کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو جائے۔‘‘
فون کی گھنٹی پھر بجی۔ جمی نے فون کا بٹن دبایا تاکہ آواز سنی جا سکے۔ اس نے ریسیور اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑایا… اور رسی کو اس طرح کھینچا کہ اس کا پھندا لڑکی کی گردن کے گرد تنگ ہوگیا۔ اس کا دم گھٹا تو وہ کھانسنے لگی۔ جمی نے اسے اشارہ کیا کہ وہ بات کرے… اس نے رسی کو ذرا سا ڈھیلا کردیا۔
’’ہیلو…!‘‘ لڑکی نے کہا۔ جمی اس کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ اس نے اپنی آواز کو ایسا بنا لیا تھا جیسے وہ نیند سے جاگی ہو۔
’’اوہ…! کیرولین سوری…! ڈارلنگ تم کو میں نے جگا دیا… بس میرا دل نہیں لگ رہا تھا… میں نے کہا۔ تمہیں ایک بار پھر بتا دوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا… ہم ایک دوسرے کے لئے زندگی کو بہت خوشگوار بنا دیں گے… کیرولین میں نے تمہیں بے آرام تو نہیں کیا؟‘‘ اس کے انداز میں گہری محبت اور لگائو تھا… لڑکی کے چہرے پر بھی خوشی آگئی تھی۔
’’نہیں شوان… مجھے بہت اچھا لگا ہے کہ تم نے فون کیا۔ تمہاری آواز سن کر مجھے تمہاری محبت نے گھیر لیا ہے۔ میں ایسا محسوس کر رہی ہوں جیسے تم میرے پاس ہو۔‘‘
’’تمہیں اپنا عروسی لباس پسند آیا؟ میرے دل میں حسرت ہے کہ میں کب تمہیں اس لباس میں دیکھ سکوں گا۔‘‘ وہ جذباتی انداز میں بول رہا تھا۔
لڑکی اس کے جواب میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن جمی نے اسے اشارہ کیا کہ وہ جلد بات ختم کرے۔ وہ یہاں ان کی رومانوی گفتگو نہیں سننے آیا تھا۔ وہ اسے قتل کرنے آیا تھا۔
وہ اس سے تھوڑی دیر گپ شپ کر کے اپنا کام ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ لڑکی اپنے انجام سے بے خبر اپنے منگیتر سے شادی کے جوڑے کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ ’’ڈارلنگ…! کیا تم نے سیلز گرل سے کہا تھا کہ وہ میرے جوڑے کے بازوئوں میں ٹشو پیپر اچھی طرح بھر دے تاکہ ان میں شکنیں نہ پڑیں۔‘‘
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس کے منگیتر نے کہا۔ ’’ہاں… مجھے یاد ہے۔ میں نے اس کو تاکید کردی تھی… اچھا… اب سو جائو… میں صبح تم سے ملوں گا… تم تمام رات میرے ہی سپنے دیکھنا…‘‘
جمی نے تنبیہی انداز میں اس کے گلے کی رسی کو کھینچا تو اس نے گڈنائٹ کہہ کر فون بند کردیا اور بولی۔ ’’میں نہیں چاہتی تھی کہ اسے کسی قسم کا کوئی شک ہو۔ اس لئے میں اس طرح سے بات کر رہی تھی۔‘‘
’’ہوں!‘‘ جمی نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی شفاف پیشانی پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ یونہی اس کو چکمہ دینے کو بولا۔ ’’مجھے تمہاری باتوں پر کچھ کچھ یقین آ رہا ہے کیونکہ ایکٹر برائن کی شکل و صورت مجھ سے کافی ملتی ہے۔ جس سے اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔‘‘
’’اوہ… اچھا… مجھے اداکاروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں… یہ شعبہ کیرولین کا تھا لیکن یہ بات سن کر میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘ جمی نے پوچھا۔
’’دیکھو… مجھے مارنے سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا… لیکن اگر وہ ایکٹر راستے سے ہٹ جائے تو فلموں اور ڈراموں والے فوراً تمہاری طرف متوجہ ہوں گے۔ کیونکہ انہیں اپنی ادھوری فلمیں اور ڈرامے مکمل کرنے ہوں گے… تم بالکل اسی طرح کرسکتے ہو جس طرح میں لیزا کے بجائے کیرولین کا کردار نبھا رہی ہوں… مگر کسی کو پتا نہیں چلا… تم وہ پہلے انسان ہو… جس کو یہ خبر ہوئی ہے۔‘‘
جمی نے چند لمحے اس پر غور کیا۔ یہ کیسی انوکھی بات تھی۔ جو اس نے کہہ دی تھی۔ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ حالانکہ کیرولین کے بعد برائن ہی وہ شخص تھا جس کی وجہ سے وہ اداکاری میں کوئی بڑا مقام حاصل نہیں کر پایا تھا۔
’’مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ اس نے قدرے حیرت سے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
’’یہ بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے… بعض اوقات ایکسیڈنٹ بھی تو ہو جاتے ہیں… کوئی اچانک کسی گاڑی کی زد میں آ جاتا ہے… ڈرائیور کا پتا ہی نہیں چلتا یا وکیل اسے چھڑا لے جاتے ہیں۔ تمہیں مجھے مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا… کیونکہ کیرولین کو قتل کر کے تم اپنا مقصد حاصل کر چکے ہو… ہاں… اگر تم مجھے چھوڑ دو… تو میں تمہاری مدد کرسکتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر انہیں تر کیا۔
جمی کو برائن کی وہ کھٹارا گاڑی یاد آگئی۔ جسے وہ کالج کے زمانے میں چلاتا تھا۔ اکثر اس کی کار اس کے برابر سے بھی گزرتی تھی لیکن اب تو وہ بے حد قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتا تھا۔ کیونکہ وہ ایک مشہور ہیرو بن چکا تھا۔
لڑکی کی تجویز اچھی تھی۔ اگر برائن اس دنیا میں نہ رہے تو کیا فرق پڑے گا… کچھ بھی نہیں… البتہ یہ ہوگا کہ وہ اس کی جگہ لے سکے گا۔ اس کے دل کی حسرت پوری ہو جائے گی کہ وہ ایک بڑا اداکار
اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے۔
اس نے غیر ارادی طور پر اس کے گلے میں ڈالی ہوئی رسی کی گرہ ذرا ڈھیلی کردی۔ وہ اس کے بولنے سے پہلے پھر بول پڑی۔ ’’کسی سے نجات حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ زہر بھی ہے۔ میرے منگیتر کا ایک دوست گزشتہ دنوں بتا رہا تھا کہ اب ایسے زہر بھی ایجاد کر لئے گئے ہیں جن کا انسانی جسم میں کوئی سراغ نہیں ملتا… لیکن وہ اپنا کام کرلیتے ہیں۔ اس نے ایک زہر کے بارے میں بتایا وہ جن چیزوں سے بنتا ہے۔ وہ ہر گھر کے فرسٹ ایڈ بکس میں موجود ہوتی ہیں… اور بس اس کے صرف چند قطرے ہی کافی ہوتے ہیں۔‘‘
’’ابھی ابھی میرے ذہن میں یہ آئیڈیا آیا ہے کہ اگر میں برائن کو فون کروں۔ کیرولین اس کی پہلی ڈائریکٹر رہی ہے۔ وہ یقیناً ملاقات پر رضامند ہو جائے گا… انکار نہیں کرے گا۔‘‘
’’پھر؟‘‘ جمی نے سوال کیا۔ وہ اپنے اندر ایک جوش اور بے قراری سی محسوس کر رہا تھا۔
’’شوان کے دوست نے بتایا تھا کہ ایک زہر ایسا بھی ہے… جو بہت سست رفتاری سے اثر کرتا ہے بلکہ پہلے چار دن تو اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا… پھر وہ اپنا کام دکھانے میں ہفتہ دس دن لیتا ہے۔ انسانی جسم سے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا… اس طرح کسی کو پتا نہیں چل سکے گا کہ برائن نے کالج کی ایک پرانی دوست کے ساتھ کافی پی تھی۔‘‘
جمی اس کی بات بڑے غور سے سن رہا تھا… دل ہی دل میں سوچتا بھی جا رہا تھا کہ اگر یہ لڑکی جو کچھ بیان کر رہی ہے… حقیقت کا روپ دھار لے تو اس کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب آسکتا تھا۔ اس کا دیرینہ خواب جو تشنۂ تعبیر تھا بالآخر تکمیل کو پہنچے گا۔
یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ برائن اس دنیا میں نہ رہے اور اسے موقع دیا جائے تو وہ خود کو دنیا کا عظیم ترین اداکار ثابت کرسکتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تالیاں بجاتے ہوئے اور اسے داد و تحسین دیتے ہوئے تماشائی گھوم گئے۔
اس نے لڑکی کی طرف دیکھا… جو خاموشی سے اس کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ جمی نے اس کی ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر کڑے لہجے میں پوچھا۔ ’’فرض کرو کہ میں تم پر یقین کرلوں… تو تم اپنی اس ترکیب کو عملی جامہ پہنانے میں کتنی دیر لگائو گی۔‘‘
’’دو ہفتے… برائن ایک مشہور اداکار ہے۔ اس سے وقت لینے میں کچھ عرصہ تو لگے گا۔‘‘
جمی سوچنے لگا… برائن کی نئی فلم آنے میں دو مہینے باقی تھے۔ اگر وہ اس دوران ہمیشہ کے لئے منظر سے غائب ہو جاتا ہے تو پروڈیوسر کو فلم مکمل کروانے کے لئے اس سے مشابہت رکھنے والے کسی اداکار کی ضرورت ہوگی، اس طرح اس کی قسمت جاگ اٹھے گی۔ اس نے پہلے ہی برائن کے بالوں کا انداز اختیار کر رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پہلی نظر میں برائن ہی معلوم ہوتا تھا۔ فلم پروڈیوسر یقینا برائن کی جگہ اس کو ترجیح دیں گے۔
’’تو ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے لڑکی کو کھینچ کر اس کے قدموں پر کھڑا کردیا۔ ’’اچھا… میں یہ رسی فی الحال تمہاری گردن سے نکال دیتا ہوں لیکن یہ یاد رکھنا کہ یہ رسی ہر وقت میری جیب میں رہے گی۔ میں اس وقت یہاں سے چلا جاتا ہوں… لیکن ہم نے آپس میں جو معاہدہ کیا ہے… اگر تم نے اس کی خلاف ورزی کی تو سمجھ لینا کہ میں کسی بھی رات تمہارے یہاں آ دھمکوںگا اور وہ رات تمہاری زندگی کی آخری رات ہوگی۔‘‘ اس نے رسی کی گرہ ڈھیلی کرکے اس کی گردن میں سے اس کو نکال دیا۔
’’نہیں… تم فکر نہ کرو… میں وعدہ پورا کروں گی۔‘‘ لڑکی نے خشک ہونٹوں سے بمشکل کہا۔ اس کی سہمی ہوئی ہراساں آنکھوں سے خوف قدرے کم ہوا… اور اس نے ایک گہرا سانس لیا، جیسے ایک عرصے بعد اسے ہوا میسر آئی ہو۔
’’اچھا… میں چلتا ہوں۔‘‘ جمی نے اسے مخاطب کرکے کہا اور پچھلے دروازے کی طرف چلا… جہاں سے وہ گھر میں داخل ہوا تھا اور دروازے کی زنجیر اتاری۔ لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔
دروازہ کھلا اور خنک رات کی خوشگوار ہوا نے اس کے چہرے کو چھوا۔ وہ اس کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’تم نے تو کبھی میری اداکاری نہیں دیکھی… میں واقعی ایک بہت اچھا اداکار ہوں۔‘‘
’’ہاں… مجھے معلوم ہے کہ تم بہت اچھے اداکار ہو… تمہیں یاد ہے… جب تم نے ایک ڈرامے میں برائن کا کردار ادا کیا تھا تو سب تمہیں برائن کہنے لگے تھے۔‘‘ لڑکی بے ساختہ کہہ گئی… فوراً ہی اس کا منہ فق ہوگیا۔
جمی غصے سے پاگل ہوگیا۔ اس نے دروازہ بند کردیا اور اس کی طرف گھورتے ہوئے بولا۔ ’’اگر تم لیزا ہو تو تمہیں یہ کیسے پتا چلا؟‘‘ اس نے دونوں ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھاتے ہوئے دانت پیس کرکہا۔ ’’اچھا تو تم مجھے بے وقوف بنا رہی تھیں۔ تم تو مجھ سے بھی بڑی اداکارہ ہو… تم نے ایسی اداکاری کی کہ مجھے پتا نہیں چلنے دیا کہ تم کیرولین ہو… دھوکے باز… میں تمہیں اب اور ڈرامہ نہیں کرنے دوں گا۔ تم ابھی اپنے انجام کو پہنچو گی۔‘‘
اس کے ہاتھوں کو جھٹک کر کیرولین وحشت زدگی سے چیختی ہوئی مرکزی دروازے کی طرف دوڑی۔ جمی بھی اس کے پیچھے لپکا… کیرولین نے دروازے کے لاک پر ہاتھ ڈالا لیکن جمی اس کے سر پر تھا۔ اس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو وہ ہاتھ چھڑا کر بڑے آرام سے کرسی کے پیچھے چلی گئی۔
لیکن جمی کرسی کو پھلانگ کر اس کی طرف بڑھا اور اسے دیوار کے ساتھ لگا کر رسی اس کے گلے میں ڈال دی۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھٹ گئیں اور وہ گھٹنوں کے بل زمین پر آ رہی۔
جمی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’کیرولین… تمہارا ڈرامہ ختم ہو چکا ہے… تم نے اتنی اچھی اداکاری کی ہے کہ میں واقعی تمہارے فریب میں آگیا تھا۔‘‘
وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے گلے کا پھندا ڈھیلا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ اس کی جانب جھک رہی تھی تاکہ اس کے گلے میں پڑا ہوا پھندا سخت نہ ہو جائے… اس کی آنکھیں ابلی ہوئی تھیں اور وہ دونوں ہاتھوں سے رسی کو ڈھیلا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اچانک مرکزی دروازہ ٹوٹ گیا اور چند لوگ دوڑتے ہوئے اندر آئے۔ ان میں کچھ پولیس والے بھی تھے۔ ایک شخص نے پوری قوت سے اسے دھکا دیا۔ وہ اتنی زور سے کھڑکی کے ساتھ ٹکرایا کہ شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرنے لگا۔ پولیس اہلکار نے آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی لگا دی۔
لمحے بھر میں بدلے ہوئے حالات کو وہ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ کیرولین کا منگیتر اس کی گردن سے رسی نکال کر اسے صوفے پر لٹا رہا تھا۔ اس کا منگیتر کہہ رہا تھا۔ ’’جب تم نے مجھ سے فون پر بات کی تو تمہارے فون کا کانفرنس بٹن آن تھا۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ تم گھر میں اکیلی نہیں ہو… تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے جو اس کال کو سننا چاہتا ہے… جب تم نے اپنے عروسی جوڑے کی آستینوں کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ تمہارے جوڑے میں تو آستینیں نہیں ہیں۔ بس اس سے مجھے خیال ہوا کہ تمہارے ساتھ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے ایمرجنسی کو فون کیا اور آندھی طوفان کی طرح تمہارے گھر کی طرف روانہ ہو گیا… اوہ… کیرولین… اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں جیتے جی مر جاتا۔‘‘
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS