میں خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی اور گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ ابھی سولہ برس کی تھی کہ میرے لئے رشتے آنے شروع ہو گئے اور پھر والدین نے کمسنی میں ایک خوشحال گھرانے میں میری شادی کر دی۔ میرے شوہر بزنس کرتے تھے۔ سارا دن گھر سے باہر رہتے ، وہ شام کے بعد لوٹتے تھے۔ تھکے ہوئے آتے تھوڑا سا وقت مجھ کو دے پاتے اور پھر سو جاتے۔ تھکن کی وجہ سے گہری نیند سوتے تھے، یہی ان کا معمول تھا۔ کاروباری مجبوریاں تھیں کہ وہ مجھے کو زیادہ وقت نہ دے سکتے تھے تاہم مجھ کو ان کی اس روٹین سے کافی اُلجھن ہوتی تھی اور میں خود کو تنہا محسوس کرتی تھی۔ میری عمر ایسی تھی کہ مجھ کو ایک شوہر سے زیادہ دوست کی ضرورت تھی تاہم والدین نے رخصت کرتے وقت نصیحت کر دی تھی کہ جیسا بھی وقت پڑے تحمل سے گزارنا اور مڑکر میکے کی طرف مت دیکھنا ورنہ گھر آباد نہ رکھ سکوگی اور کبھی شوہر کا شکوہ ہم سے آکر نہیں کرنا، ہم تمہاری بات نہیں سنیں گے۔ اس نصیحت کو میں نے دل پر لکھ لیا اور اپنا جی مار کر سسرال میں وقت کاٹنے لگی ۔ گرچہ مجھ کو شوہر صاحب نے تمام آسائشیں دی ہوئی تھیں اور سسرال میں کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن اکیلا پن مجھ کو بے قرار رکھتا تھا۔ وحید مجھ سے بارہ سال بڑے تھے، یہ عمر کا مسئلہ ہی تھا کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی محسوس نہیں کر پاتی تھی۔ جب تک ساس زندہ رہیں، گھر میں دل لگانے کی سعی کرتی رہی کیونکہ وہ ماں جیسی تھیں اور بہت شفیق ہستی تھیں۔ میری شادی کے پانچ سال بعد جبکہ میں دو بچوں کی ماں ہو گئی تھی، وہ رضائے الہی سے فوت ہوئیں۔ ساس کی وفات کا بہت صدمہ ہوا کہ میرا اور بچوں کا وہی خیال رکھتی تھیں۔ وحید تو سارا دن گھر سے باہر رہتے تھے، میرے جیٹھ شادی شدہ تھے ، وہ اپنی فیملی کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہتے تھے۔ گرچہ وحید کے ساتھ ان کا کاروبار مشترکہ تھا۔ جیٹھ کا نام حمید تھا اور ان کے چار بچے تھے ۔ جٹھانی اور بچے کبھی کبھی ہم سے ملنے آجاتے تھے، یہ سب اچھے تھے اور میرا کافی خیال رکھتے تھے۔ میرے والدین کا خیال تھا کہ اگر بیٹی کو بسانا ہے تو داماد کے گھر کم ہی جانا چاہئے اور اس کو بھی میکے میں زیادہ نہیں بلانا چاہئے۔ پس وہ اسی سوچ پر کار بند تھے، بہت کم میرے گھر آتے اور مجھ کو زیادہ نہ بلاتے۔ کہتے تھے کہ اپنے گھر رہو کیونکہ بیٹیاں اپنے گھر اچھی لگتی ہیں۔ شادی سے پہلے والدین نے کافی پابندیاں لگائی تھیں۔ میں نے صرف آٹھ جماعتیں پڑھیں اور انہوں نے گھر بٹھا لیا، اس کے بعد گھر سے بھی اکیلے باہر جانے نہیں دیا، لہذا شادی سے پہلے میں نے کسی سے وابستہ ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو اپنی زندگی میں جھانکنے کی اجازت دی۔ وقت گزرتا رہا۔ شادی کو دس برس گزر گئے، اس دوران میں چار بچوں کی ماں بن گئی ، اب تنہائی کیسی چار بچوں نے اتنا مصروف کر دیا کہ سر کھجھانے کی بھی مجھے فرصت نہ رہی تھی ۔ ایک نوکرانی جولاوارث عورت تھی، دن رات میرے پاس رہتی تھی، اس کا نام زبیدہ تھا۔ میں اس کے سہارے وقت گزار رہی تھی کہ وہ میرے لئے بہت معاون و مددگار ثابت ہوتی تھی۔ اب میں نے اپنی زندگی اور حالات سے پوری طرح سمجھوتہ کر لیا اور سوچ لیا کہ ہر عورت کی شادی شدہ زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس میں رومانس کم اور حقیقتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ شوہر کمانے چلا جاتا ہے، بیوی سارا دین بچوں کی پرورش اور گھر سنبھالنے میں مگن ہو جاتی ہے اور کماؤ شوہر سے شکوہ کیسا ، وہ تو محنت ہی اپنی بیوی اور بچوں کی خاطر کرتا ہے۔ اب میں اپنی زندگی سے مطمئن تھی۔ بچے اسکول جانے لگے تو تھوڑا سا فارغ وقت ملنے لگا، اس وقت میں ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتی تھی اور جب وہ اسکول سے آجاتے پھر ان کے ہنگامے میں کھو جاتی۔ رات گئے شوہر آتے ، تھوڑی دیر بات چیت کرتے ، کھانا کھاتے اور پھر وہ بھی گھوڑے بیچ کر سو جاتے۔ چھٹی کے دن البتہ وہ بچوں کو گھمانے ضرور لے جاتے تھے، کبھی میں ساتھ جاتی اور کبھی نہ جاتی کیونکہ میں گھر پر رہنے کی عادی ہو چکی تھی۔ مجھ کو گھر پر رہنا اچھا لگتا تھا، جیٹھ کے گھر بھی میں دو تین ماہ بعد ہی کبھی جا پاتی تھی۔ وہ بھی ان لوگوں کے اصرار پر جب وہ کھانا وغیرہ کرتے تھے۔ خدا کی مرضی کہ وحید کی زندگی کم تھی۔ ابھی ہماری شادی کو صرف بارہ سال ہی گزرے تھے کہ وہ بیمار ہوگئے، زیادہ محنت کی وجہ سے ان کو ہائی بلڈ پریشر ہوا اور پھر ایک روز اچانک ہی دل کا دورہ پڑنے سے وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات میرے لئے کڑا امتحان تھی لیکن اب اس آزمائش سے گزرنا میری مجبوری تھی۔ بچوں کو پالنا تھا، ان کو میری ضرورت تھی، لہذا میں نے گھر نہ چھوڑا بلکہ اپنے گھر میں ہی رہی کیونکہ یہ میرے شوہر نے بنوایا تھا۔ یہ ہمارا ذاتی مکان تھا، چار بچوں کے ساتھ اور کہیں نہ جا سکتی تھی۔ میکے میں اور نہ سسرال میں، جیٹھ صاحب نے کہا بھی کہ اکیلی کیونکر ر ہوگی ، ہمارا بنگلہ کافی بڑا ہے، اس کے اپر پورشن میں آجاؤ مگر میں نے منع کر دیا کہ بھائی صاحب ! اپنے گھر میں بچے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ جیسی تمہاری مرضی۔ بہر حال انہوں نے ہر ماہ میرا اور بچوں کا خرچہ باندھ دیا اور پہلی تاریخ کو معقول رقم بھجوانے لگے۔ باقاعدگی سے خرچہ دیتے تھے جس سے میرے معمول کے اخراجات اسی طرح پورے ہونے لگے جس طرح شوہر کی زندگی میں ہوتے تھے۔
والد صاحب اور کبھی والدہ، کبھی بہن، بھائی شروع میں ہر ہفتے پھر پندرہ دن اور کبھی ایک ماہ بعد آکر ایک آدھ دن رہ جاتے تا کہ مجھ کو بیوگی میں کسمپرسی کا احساس نہ ہو۔ میں بھی بہت سنبھال کر بیوگی کے کٹھن دن گزارنے لگی۔ میری عمر ان دنوں پچیس برس بھی بمشکل ہو گی، قدرت کی شان کہ جہاں بہت سوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، میں نے یہ دن بہت عزت سے گزارے۔ کسی موڑ پر بھی اپنی راہ سے بے راہ نہ ہوئی۔ شادی سے پہلے کسی کو نہ چاہا تھا اور شادی کے بعد سسرال کی عزت اور شوہر کی ذات ہی میرا سب کچھ تھی۔ شوہر کے علاوہ کسی کے بارے میں سوچنا بھی میرے لئے گناہ تھا۔ وحید اچھے انسان تھے اور میرا بہت خیال رکھتے تھے لیکن لا پروا تھے پھر بھی زندگی اچھی بھلی گزر رہی تھی کہ ان کی اچانک وفات نے میرا سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا۔ ہمارے گھر کے ساتھ ہی مارکیٹ تھی اور میں اکثر سودا وہاں سے منگواتی تھی۔ اک روز زبیدہ بیمار تھی تو مجبوراً مجھے گھر سے باہر قدم نکالنا پڑا اور میں ایک قریبی اسٹور پر سودا سلف کیلئے چلی گئی۔ جب میں سودا لے چکی تو اسٹور کے مالک نے بات کی۔ کہنے لگا۔ فریحہ ! کیا مجھے نہیں پہچانتیں، میں آپکے والد صاحب کے چچازاد بھائی راحت کا بیٹا احمر ہوں ۔ پہلی بار میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور پہچان گئی ۔ شادی سے پہلے ایک دو بار وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ بہت خوبرو انسان تھے، وہ شادی شدہ اور بال بچے دار آدمی تھے، خاصے ذمے دار تھے۔ انہوں نے مجھ کو اہمیت دی مگر میں نے ان کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میرے پاس کسی کے بارے میں غور کرنے کی فرصت نہ تھی۔ اب کبھی کبھی میں ان کے اسٹور پر جاتی جب بچوں نے کچھ خریدنا ہوتا۔ مجھ کو احمر کی ایک عادت پسند تھی کہ کبھی کوئی فضول بات منہ سے نہ نکالی، وہ خوبصورت اور اسمارٹ تھے مگر نہایت تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرتے تھے۔ میرے دل میں احمر کا احترام تھا۔ اس کے سوا کسی اور قسم کے جذبات نہیں تھے بس ایک اچھے انسان اور رشتے دار ہونے کے طور پر میں ان کی عزت کرتی تھی۔ ایک روز گھر پر جٹھانی اور ان کے بچے آگئے۔ میں نے زبیدہ کو اسٹور پر بھیجا۔ خاطر مدارات کی چیزیں خریدنی تھیں۔ احمر نے تمام اشیاء دے دیں مگربل نہ لیا۔ جب مہمان چلے گئے، میں خود اسٹور پر گئی اور ان کو رقم دینے لگی تو اصرار کے باوجود نہیں لی اور کہا کہ تمہارے مہمان میرے مہمان ہیں اور آئندہ آپ اسٹور پر خود مت آیا کریں کہ یہاں ایرے غیرے لوگ ہوتے ہیں ، ملازمہ کو بھیجا کریں۔ مجھ کوان کی یہ بات اچھی لگی۔ میں نے کہا۔ کسی دن آپ اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے یہاں آئیے اور اگر کبھی اسٹور پر کچھ مطلوب ہو تو کہلوا دیجئے گا مثلاً چائے وغیرہ تو میں بھیجوا دوں گی۔ ملازمہ کے ہمراہ اکثر بچے جاتے تو احمد کا رویہ ان کے ساتھ بیحد دوستانہ ہوتا تھا۔ ایک روز بچوں کے اصرار پر وہ گھر کے دروازے تک آگئے تو میں نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ وہ بچوں کے ساتھ بیٹھے رہے اور میں نے ملازمہ کے ہاتھ چائے وغیرہ بھجوائی ، وہ کچھ دیر بیٹھ کر چلے گئے۔ اب یہ اکثر ہونے لگا۔ بچے ان کو مجبور کرتے انکل ہمارے ساتھ گھر چلئے۔ وہ پندرہ بیس روز بعد کسی شام کو اسٹور بند کر کے آجاتے اور میرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تھوڑی دیر ان ڈور گیم کھیلتے اور چلے جاتے۔ دو چار بار میں نے کھانا بھی بنایا، وہ میرے بچوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا کر گئے لیکن میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور نہ وہاں بیٹھی جہاں انہیں بٹھایا تھا۔ ایک روز انہوں نے فون کر کے شکوہ کیا کہ میں آپ کے گھر آتا ہوں اور آپ اس کمرے میں نہیں بیٹھتیں، کیا گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا رویہ صحیح ہے؟ میں نے کہا۔ آپ کی دوستی بچوں کے ساتھ ہے اس لئے آتے ہیں۔ وہ بولے۔ کیا آپ کے ساتھ دوستی نہیں ہوسکتی۔
میں نے عرض کیا۔ میرے بھائی یہ سب وقتی جذبات ہیں، ہماری منزلیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ میں ایک بچوں والی بیوہ ہوں اور آپ ایک شادی شدہ بیوی، بچوں والے آدمی ہیں، آپ ایک اچھے انسان ہیں اور رشتے دار بھی ہیں اسی لئے میرے گھر آگئے تو میں نے نہیں روکا بس یہ رشتے داری کافی ہے لیکن دوستی کی ہمارا نہ مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ معاشرہ! میری باتیں سن کر احمر خاموش ہوگئے تھے۔ شعوری طور پر گرچہ میں یہ سب صحیح سمجھ رہی تھی مگر اس کی محبت ، دوڑ دھوپ، بچوں کے ساتھ اس کا دوستانہ رویہ اور میرے بڑوں کی خدمت و عزت، محبت بھری باتیں۔ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ میرے دل و دماغ پر اثر انداز ہورہا تھا۔ جانے کب پھر میرا دل موم ہو گیا۔ وہ دل کہ جس نے کبھی کسی کیلئے دروازے نہ کھولے تھے، اس نے نہ صرف میرے اس کزن کیلئے در وا کئے بلکہ رہنے کی جگہ دینے کو بے تاب ہوا۔ اب یہ حال ہوا کہ احمر سے بات نہ ہوتی تو دل کسی کام میں نہ لگتا اور یہ مرض دو طرفہ ہوا۔ اب وہ جب رات دکان بند کرتے اور گھر واپس لوٹ جانے سے پہلے میرے گھر کا چکر ضرور لگاتے، حال احوال دریافت کرتے اور اکثر بچوں کے ساتھ گھنٹہ دو گھنٹہ بیٹھ کر کیرم وغیرہ کھیلتے ۔ میں بھی گھر میں کچھ اچھا کھانا بنا لیتی تو ان کو اسٹور پر ضرور بھجواتی ۔ ایک روز شام کو احمر آئے ، وہ بیٹھک میں بیٹھ کر بچوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے کہ میرے والد صاحب آگئے، وہ بھی وہاں بیٹھے گئے ۔ میں نے ملازمہ کے ہاتھ چائے بھجوادی، والد صاحب سے تھوڑی دیر کمپنی رہی پھر احمر چلے گئے۔ احمر کے جانے کے بعد ابو نے مجھ سے پوچھا کہ احمر کیوں آیا تھا؟ میں نے بتایا۔ بچے دکان سے سودا لینے جاتے ہیں تو انہوں نے اصرار کیا اور ان کیلئے وہ آگئے تھے۔ دیکھو بیٹی ! تمہارا شوہر فوت ہو گیا ہے اور تم اکیلی رہتی ہو تمہیں کچھ منگوانا ہو تو مجھے کہا کرو، احمر یہاں نہ آئے ، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میں نے جی ابو کہہ کر سر جھکا لیا۔ کچھ دنوں بعد امی اور بہنیں آئیں تب بھی احمر شام کو آئے تو انہوں نے بھی محسوس کیا کہ کچھ غلط ضرور ہے پھر وہ جلد جلد آنے لگیں، یوں لگتا تھا کہ وہ خفیہ طور پر میری نگرانی کر رہی ہیں۔ ایک دن چھوٹی بہن نے سوال کر دیا۔ باجی ! یہ کزن آپ کے گھر کیوں آتے ہیں؟ میں نے سوچا کہ پہلے ابو اور اب بہن نے برا منایا ہے اس لئے اب احمر کو منع کر دوں گی کہ نہ آیا کرے لیکن جب وہ آئے تو میں منع نہ کر سکی۔ سوچا میں اب بچی تو نہیں ہوں سمجھدار ہوں اور عمر بھی پختہ ہوگئی ہے، یہ کزن رشتے دار ہیں۔ قریب دکان ہے، میرا حال احوال معلوم کرنے آجاتے ہیں، کہیں میرے ساتھ کچھ غلط نہ ہو جائے ۔ خیر انہوں نے بھی غالباً میری ذہنی کشمکش کو سمجھ لیا۔ وہ کچھ روز نہیں آئے تو ان کی غیر حاضری کو میں نے محسوس کیا۔ بار بار نگاہیں شام کے بعد گھڑی پر جاتی تھیں، بچے الگ کہتے انکل نہیں آئے۔ انکل کیوں نہیں آتے؟ آخر بڑا بیٹا از خود اسٹور پر گیا اور پوچھا۔ انکل! آپ کیوں نہیں آتے ، ہم بہت بور ہوتے ہیں؟ یوں چند دن کی غیر حاضری کے بعد وہ آئے تو بے اختیار میں نے پوچھا۔ اتنے دن آپ کہاں غائب رہے؟ میرے ان الفاظ نے میرے دل کا حال کھول دیا بلکہ جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آج میں بھی ان کے ساتھ اسی کمرے میں بیٹھ گئی حالانکہ پہلے صرف بچے بیٹھتے تھے۔ وہ بیوی کی شکایت کرنے لگے۔ کہا جی نہیں چاہتا کہ اس پھوہڑ عورت کی طرف جاؤں جو گھر کو صاف نہیں رکھتی، ادھر تم خود صاف ستھری ہو، گھر اور بچے بھی صاف ستھرے رکھتی ہو تو تمہارے گھر میں قدم رکھتے ہی سکون کا احساس ہوتا ہے۔ واقعی جس گھر میں سلیقہ مند عورت ہو، وہ جنت سے کم نہیں۔ تمہارا گھر پھولوں سے بھرا اور خوشبو سے مہک رہا ہوتا ہے اور سب سے بڑی خوشبو کی مہک تو گھر میں اس گھر کی مالکہ ہوتی ہے۔ امر نے میرے بچوں سے دوستی کر رکھی تھی۔ وہ آتے تو بچے خوش ہوتے ، خوشی سے شور مچا کر ان کو ویل کم کرتے۔ بچوں کو احمر کے آنے کا شدت سے انتظار رہتا تھا بلکہ یوں کہوں کہ ان کو دیکھ کر بچے خوشی سے آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ مجھ تک رسائی کیلئے وہ زینہ بہ زمینه قدم به قدم آگے بڑھ رہے تھے۔ احمر نے میرے بچوں کو باپ سے زیادہ وقت اور توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ وہ میرے بچوں کے کام نوکروں کی طرح کرتے تھے۔ عید کے دن وہ مٹھائی دینے آئے تو بچوں کا پوچھا۔ میں نے بتایا۔ ان کے تایا ان کو اپنے گھر لے گئے ہیں۔ میں اکیلی تھی۔ چائے بنا کر لائی تو مجھ کو ہاتھ پکڑ کر زبردستی بٹھا لیا۔ میں مجبوراً بیٹھ گئی تھوڑی دیر بعد کہا۔ کیا اپنا گھر نہیں دکھاؤ گی؟ عید کی وجہ سے میں نے خصوصی طور پر صاف ستھرا کیا تھا، لہذا ان کو اپنا گھر دکھانے لگی۔ پہلے تو صرف ایک کمرے تک ہی ان کا آنا محدود تھا اور گھر دکھانا میری غلطی تھی۔ میں یہی سمجھی تھی کہ ہمارا پاکیزہ تعلق ہے تو کس بات کا ڈر خوف ہے۔ کہنے لگے۔ تمہارے گھر کا نقشہ بہت عمدہ ہے، میں بھی ایسا ہی بنواؤں گا۔ میں آگے آگے چل رہی تھی اور وہ پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ میرے گھر کی سجاوٹ کی تعریف ہر کمرے میں رک کر کر رہے تھے۔ میرے کمرے میں پہنچ کر کہا یہ تو بہت خوبصورت ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آج میں اس کمرے کا مہمان بن جاؤں۔ میں خاموش رہی۔ اچانک نظر اٹھا کر ان کے چہرے کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں چاہت کی چمک نظر آئی۔ بولے۔ کاش ! میری بیوی بھی تمہاری طرح سلیقہ مند ہوتی ، جیسا کمرہ ویسی ہی گھر کی مالکہ!
اس دن میری زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اس کی وجہ احمر کی وہ توجہ تھی جو میرے شوہر نے اپنی زندگی میں بھی مجھے اور بچوں کو نہ دی تھی ، وہ عزت وقار جس کو ساری زندگی سنبھال کر رکھا تھا، وہ آج جذبات کی نذر ہورہا تھا۔ ایسا دن میری زندگی میں آجائے گا، اس بارے میں تو بھی سوچا بھی نہ تھا۔ آج میں اپنے گھر، اسکے درودیوار سے بھی شرمندہ ہو رہی تھی۔ احمر اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے مگر میں نے تہیہ کرلیا کہ اب ان کے قدم دوبارہ میرے گھر میں نہیں آئیں گے۔ میں اپنے گیٹ کو تالا لگا دوں گی اور بچوں کو بھی ان کے اسٹور پر جانے نہ دوں گی۔ اگلے روز وہ دوپہر کو آگئے۔ بچے اسکول میں تھے۔ میں نے کہا کہ اس وقت کیوں آئے ہو؟ بچے تو میں نہیں ؟ کہا ۔ تم تو ہو۔ تب میں نے ہمت کر کے کہہ دیا۔ احمر ! میں بیوہ ہوں، اکیلی رہتی ہوں، اس وقت نہ آیا کرو ورنہ محلے والے مجھے جینے نہ دیں گے، پلیز کچھ تو میری عزت و ناموس کا خیال کرو۔ تبھی وہ جذباتی ہو گئے۔ عاجز بن کر معذرت کرنے لگے اور پاؤں میں بیٹھ کر معافی مانگنے لگے، تسلی دینے لگے کہ تم اب میری زندگی کا حصہ ہو۔ اس روز انہوں نے مجھ کو اپنانے کا عندیہ دیا کہ مجھے سے نکاح ثانی کر لو اور یہ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، تم جوان ہو اور تم کو تمہارے بچوں کو کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ کہنے لگے۔ بچوں کو اچھا کھلاتا ہوں، بیوی کو لاکھ روپیہ خرچ دیتا ہوں لیکن بیوی پھر بھی بد زبان اور پھوہڑ ہے اور بچوں کو لوفر اور نکما بنارہی ہے، تم میری زندگی میں آجاؤ گی تو میری زندگی سنور جائے گی۔ یقین جانو کہ تمہاری چاہت نے مجھے بے اختیار بنا دیا ہے اور اب میں صرف تمہارے ہی خواب دیکھ رہا ہوں، تمہاری اور میری زندگی روشنی اور اندھیرے کی مانند ہیں۔ ایک طرف تمہارے بچے جو باشعور، تعلیم حاصل کرنے والے، با اخلاق اور دوسری طرف میرے بچے بگڑے ہوئے، پڑھنے سے جی چرانے والے، کام چور یہ سب میری بیوی کی غلط تربیت کا نتیجہ ہے پھر سوچو کہ آدمی کو کہاں سکون ملتا ہے؟ احمر، تم صرف خواب ہی دیکھتے رہو کیونکہ چار بچوں کی بیوہ کا چار بچوں والے شادی شدہ شخص سے نکاح ثانی ممکن نہیں ہے۔ کیوں ممکن نہیں، تمہارے بچوں کو میں نے محبت دی۔ ان سے دوستی رکھی، اتنی توجہ اور پیار دیا ہے کہ ان کے والد نے بھی نہ دیا ہوگا۔ یہ اب تمہارے بچے نہیں بلکہ میرے بچے ہیں۔ مجھ سے زیادہ مانوس ہیں ، تم صرف ہاں کرو، یہ میرے لئے مشکل نہیں ہے۔ تم کو اپنانے سے میرا کنبہ وسیع ہو جائے گا، چار تمہارے بچے اور چار میرے … آٹھ ہو جائیں گے۔ اور تمہاری بیوی کا کیا بنے گا؟ میں نے کہا۔ اس کو سنبھالنا تمہارا کام ہے کیونکہ تم اس سے زیادہ سمجھدار اور ہوشیار ہو جبکہ میری بیوی کم عقل، بدھو اور موٹی عورت ہے۔ میں نے اگلا سوال کیا اور یہ معاشرہ خاندان ؟ ان کو سنبھالنا اور سمجھانا میرا کام ہے، تم میرے گھر کا انتظام اور ڈسپلن سنبھالنا اور گھر سے باہر کے امور میں خود سنبھال لوں گا۔ یہ میری ذمے داری ہوگی۔ میں نے سمجھایا۔ احمرا میرا بڑا بیٹا اب کافی سمجھدار ہو چکا ہے، وہ اکثر اپنے تایا کے ساتھ جاتا ہے اور اس کو خبر ہے کہ اس کے باپ کے عزیز کون لوگ ہیں، یہ لوگ مجھے اور تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ میرے بچوں کو خلاف کر کے ان کو مجھ سے چھین لیں گے اور میں تو جی ہی اپنے بچوں کیلئے رہی ہوں۔ خدا کیلئے جذبات میں نہ بہو ورنہ ڈوب جاؤ کے۔ میری اور تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اپنی اپنی زندگی جئیں، اپنے بچوں کیلئے اور خاندان کیلئے اب تم بھی جیو اور آگ سے نہ کھیلو ورنہ خود بھی جلو گے اور مجھے بھی جلا دو گے۔ آج کے بعد ہمیشہ کیلئے خدا حافظ ، اب وہ موڑ آ گیا ہے کہ میں ہمیشہ کیلئے تم کو خدا حافظ کہہ دوں۔ اس میں میری عافیت ہے۔ احمر چلا گیا اور میں نے دروازہ بند کر کے گیٹ کو اس کے سامنے تالا لگا دیا۔ اسکے بعد اس کا فون آیا، میں نے نہیں اٹھایا۔ بچوں کو اسٹور پر جانے سے روک دیا اور کچھ دن کیلئے جیٹھ کے گھر رہنے چلی گئی کیونکہ بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں۔ یوں ایک انجانی آگ میں گرنے سے میں بال بال بچ گئی کہ میں بیوہ ضرور تھی اور نکاح ثانی کا حق بھی رکھتی تھی مگر کسی دوسری عورت کا گھر برباد کرنے کا مجھ میں یارا نہ تھا۔