یہ 1986ء کی بات ہے۔ عنایت ماں کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ اس نے میٹرک پاس کر لیا تو ماں نے اُسے کہنا شروع کر دیا بیٹے کوئی کام تلاش کرو۔ بات یہ تھی کہ عنایت سے چھوٹے چاروں بھائی پڑھ رہے تھے۔ تبھی اس کو یہ احساس دلایا جاتا تھا کہ معاشی بد حالی دُور کرنا اُسی کی ذمہ داری ہے۔ صبح ہی وہ کام کی تلاش میں نکل جاتا اور شام کو گھر لوٹتا تھا۔ ماں کو اس کے بجھے چہرے سے اپنے سوال کا جواب مل جاتا کہ آج بھی کام نہیں ملا۔ رات ناامیدی کا اندھیرا لاتی اور نئی صبح اُمید کی نئی کرنیں سمیٹ لاتی۔ چھ ماہ سے یہی ہو رہا تھا۔ کلرکی کے لئے سو دفتروں کی خاک چھانی، بالآخر مایوس ہو گیا اور پرائیویٹ کام ڈھونڈ لیا۔ ایک آڑھتی نے حساب کتاب کے لئے رکھ لیا۔ ایک ماہ کام کرنے کے بعد اس نے صرف پانچ سو روپے دیئے۔ عنایت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آڑھتی نے پوچھا۔ کیا کم دییے ہیں؟ یہ تنخواہ ہے یا بھیک؟ عنایت نے دھیمے لہجے میں شکوہ کیا۔ پہلے سے طے کر لیتے۔ شکر کرو کہ پانچ سو روپے مل گئے ورنہ ہر جگہ پہلے چھ ماہ مفت کام کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تجربہ حاصل کر لو تو اچھا ہے۔ اچھا کام کرو گے تو کچھ سیکھ لو گے ،تب تنخواہ کی بات کرنا۔ عنایت کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ تجرباتی محنت پر وقت ضائع کرتا۔ وہ تھک ہار کر رہ گیا۔ آڑھتی کا کام چھوڑا تو کہیں چھپر اسی بھی نہ لگ سکا۔ بیمار باپ دو بہنیں ، ایک ماں اور چار بھائی، اتنا بڑا کنبہ اور کفالت کا واحد ذریعہ اس مکان کا کرایہ تھا جو اس کے دادا نے ورثے میں چھوڑا تھا۔ یہ پانچ مرلے کا پکا مکان تھا۔ اس کے بیچوں بیچ دیوار کھڑی کر کے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ ایک حصے میں عنایت اور اس کے گھر والے رہتے تھے اور دوسرے حصے میں کرایے دار۔ اس طرح گزارہ چل رہا تھا۔ اس بار جب ملتان سے عنایت کے ماماجی آئے تو ماں رو پڑی۔ بھائی سے کہنے لگی کہ تم ہی اس کا کچھ کرو۔ میں تودُعا کر کر کے تھک چکی ہوں مگر عنایت کو کہیں نوکری نہیں ملتی۔ کیا عنایت کو کسی قسم کا ہنر آتا ہے ؟ میٹرک پاس کا تو نوکری تلاش کرنا مشکل ہے۔ آج کل چپڑاسی بھی ایف اے ، بی اے ہوتے ہیں۔ بہتر ہے کہ کوئی ٹیکنکل کورس کرلے تو میں اس کو سعودی عرب بھی بھیجوانے کا انتظام کر سکتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ اسے پہلی دو تنخواہیں اس ریکروٹنگ ایجنٹ کو دینی ہوں گی، جو اس کے وہاں بھجوانے اور پھر کام دلوانے کا بندوبست کرے گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ، عنایت کی ماں نے فوراً ہامی بھر لی۔ ماموں نے بھانجے کے لئے کچھ رقم بہن کو دی کہ کورس کے لئے کسی ادارے میں داخلہ لے لے۔ روزگار تو صحیح ملے گا۔ بہن خوش ہو گئی۔ اُس نے بیٹے پر دبائو ڈالا کہ تمہار اماموں یہ کہہ کر گیا ہے اور روپیہ بھی دے گیا ہے۔ کورس کرنا ہو گاور نہ پھر وہاں جا کر ہر قسم کی مزدوری کے لئے تیار ہو جائو۔ دیارِ غیر میں روپیہ کمانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تم ابھی جوان ہو ، دل میں حوصلہ اور جسم میں طاقت ہے، تو جلد غریبی کی لعنت سے ہم چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
ڈیڑھ سال اُسے کورس کرنے میں لگا۔ یہ وقت اُس نے جوں توں گزارا۔ چھ ماہ ویزا کے انتظار میں لگے۔ جب ساری کارروائی پوری ہو گئی تو وہ دبئی روانہ ہو گیا۔ اب ماں اُس کی جدائی سے نڈھال تھی۔ پہلی بار بچھڑ رہا تھا، پھر بھی وہ خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ کہتی تھی، دو چار برس کی جدائی کی کوئی بات نہیں بیٹا، تو ہزاروں میں کمائے گا تو قرض بھی اتر جائے گا اور میری لڑکیوں کے بھی ہاتھ پہلے ہو جائیں گے۔ اب گھڑیاں گن گن کر دن گزرنے لگے۔ بالآخر وہ دن بھی آگیا جس کا سارے کنبے کو انتظار تھا۔ عنایت کے آنے کا مژدہ سُن کر ماں پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اس کا بیٹا پانچ سال بعد دبئی سے گھر لوٹ رہا تھا۔ اُس نے اتنا کمالیا تھا کہ بہنوں کی شادیاں کرنے کے بعد بھی کچھ سرمایہ بھیج رہا تھا۔ وہ اپنے و وطن میں بہت اچھی طرح کوئی کاروبار کر سکتا تھا۔ اس نے فون پر کہا تھا۔ ماں فکر نہ کرنا، میں بہنوں کے لئے عمدہ ریشمی جوڑے، گھڑیاں اور گھریلو چھوٹا موٹا سامان ساتھ لا رہا ہوں۔ اس نے اپنے آنے کی تاریخ بھی بتادی۔ وہ پہلے ملتان میں اترا، جہاں سے ایک روز ننھیال میں ٹھہر کر ماموں سے ملنا تھا، پھر آگے اپنے شہر جانا تھا۔ ماموں کا شکریہ ادا کرنا لازم تھا، جن کی مہربانی نے اس کو خوشیوں اور آسودہ حالی کے یہ دن دکھائے تھے۔ سو وہ ایک دن ماموں کے گھر ٹھہر گیا۔ ان کو اور ان کے بچوں کو تحفے دیئے اور جانے کی اجازت چاہی۔ ماموں نے کہا۔ بیٹا تمہارے پاس سامان ہے ، ویگن یا بس پر جانا مناسب نہیں۔ ایسا کرو، ٹیکسی کر لو۔ اس پر ممانی بولی۔ میرا ماموں زاد فلک شیر ٹیکسی چلاتا ہے۔ کیوں نہ اس کو فون کر کے بلا لیں۔ اتنے مال اسباب کے ساتھ کسی اجنبی کی ٹیکسی میں جائے گا تو ہم کو فکر لگی رہے گی۔ ماموں نے کہا، بیگم ٹھیک ہے۔ تم اپنی ممانی کو فون کر کے فلک شیر کو یہاں بلوالو۔ ممانی نے فون کیا۔ فلک شیر نے ہی ریسیور اٹھایا۔ مدعا سن کر کہنے لگا کہ میں آج فارغ ہوں، آکر عنایت صاحب کو لے جاتا ہوں۔ آدھ گھنٹے بعد اس نے دستک دی۔ ماموں باہر نکلے تو اس نے کہا۔ میں ذرا جلدی میں ہوں۔ گاڑی چیک کرالوں، رستے میں جگہ جگہ سڑک اُدھڑی ہوئی ہے۔ عنایت کو بھیج دیں۔ ورکشاپ پر کتنا ٹائم لگے گا؟ ماموں نے سوال کیا۔ یہی کوئی گھنٹہ بھر ۔ فلک شیر نے جواب دیا۔ یوں ماموں نے عنایت کو فلک شیر کے پاس بھیج دیا۔ فلک شیر راستے میں ایک ورکشاپ پر رکا، تھوڑی دیر بعد آکر بولا۔ عنایت بھائی، موٹر میں کام زیادہ نکل آیا ہے۔ ایسا کریں آپ میرے گھر پر تھوڑی دیر قیام کر لیں۔ میں گاڑی بنوا کر ابھی آتا ہوں۔ وہ بیچار ابلا چون و چرا مان گیا۔ فلک شیر اُسے گھر لے آیا۔ اپنے والد کو بتایا کہ یہ بلال صاحب کے بھانجے ہیں۔ میں ذرا گاڑی کو صحیح کرال وں، تب تک یہ ہمارے مہمان ہیں۔ فلک شیر کا باپ اس سے گرم جوشی سے ملا اور گھر کے اندر لے گیا، اس کی خاطر مدارت کی اور دونوں دبئی بارے باتیں کرنے لگے ، جبکہ فلک شیر واپس ورکشاپ چلا گیا- اس نے ایک دو گھنٹے کا کہا تھا مگر مغرب ہو گئی اور وہ نہ لوٹا۔ اس کے باپ نے کہا۔ عنایت بیٹا ! اب رات سر پر ہے، راستے میں ڈاکو وغیر ہ مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں اور تم تو دبئی سے آرہے ہو۔ تمہارے پاس قیمتی سامان بھی ہو گا۔ جی، بالکل میرا تو سارا ہی سامان قیمتی ہے۔ بہنوں کے جہیز کے لئے خریداری کی ہے۔ پانچ سال بعد گھر لوٹ رہا ہوں۔ تب تو نقدی و غیرہ بھی ہو گی ؟ نقدی کے ساتھ کچھ سونا بھی خریدا ہے انکل۔ بہنوں کی شادیوں کے لئے زیورات بنوائے ہیں۔ بیٹے عنایت پھر تو میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ تم ہر گزرات کا سفر مت کرو۔ کھانا کھا کر سو جائو۔ ابھی تک فلک شیر نہیں لوٹا ہے۔ وہ عشاء تک آئے گا۔ شاید گاڑی میں کچھ مسئلہ نکل آیا ہے۔ اگر رستے میں کوئی ویران جگہ پڑ گئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، صبح تڑ کے نکل جانا۔
عنایت نے سوچا بزرگ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ رات کا سفر پُر خطر ہو گا، دن کو ہی سفر بہتر ہو گا۔ اس نے فلک شیر کے گھر ہی سو جانا بہتر جانا۔ باپ کے ساتھ عنایت کی گفتگو فلک شیر کے بھائیوں نے بھی سنی۔ عشاء کی نماز کے بعد فلک شیر بھی آگیا۔ کہنے لگا، گاڑی میں تھوڑا سا مسئلہ تھا مگر ٹائر پرانے تھے۔ سوچا کہ نئے ڈلوالیتا ہوں، اسی سبب دیر ہو گئی۔ خیر ، اللہ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ اب صبح چلیں گے۔ علی الصباح سفر زیادہ خوشگوار ہو گا۔ ہم تازہ دم ہوں گے اور اس وقت گرمی بھی کم ہو گی۔ یہ طے پا گیا کہ اب سفر کل صبح ہی کرنا ہے۔ فلک شیر کی والدہ نے پر تکلف کھانے کا انتظام کر لیا تھا۔ سب نے سیر ہو کر کھایا اور ایک علیحدہ کمرے میں اُس کا بستر لگادیا گیا۔ کھانا کھانے کے بعد فلک شیر نے کچھ دیر اپنے مہمان سے گپ شپ میں وقت گزارا۔ دبئی کے بارے میں معلومات لیں۔ پوچھا، اگر میں وہاں جا کر ٹیکسی چلالوں تو کتنا کمالوں گا؟ اور دبئی کا ویزا کتنے میں مل جائے گا؟ عنایت نے سادہ دلی سے تمام معلومات دیں اور باتوں باتوں میں بتادیا کہ پانچ سالوں میں اُس نے اتنا کمالیا ہے کہ وہ اب خوشحال ہو گیا ہے۔ بہنوں کی شادی کی خوب جی کھول کر خریداری کی ہے۔ کیا کیا خریدا ہے اور کتنا سونالیا ہے ؟ سبھی کچھ احوال اس نے فلک شیر کو بتادیا۔ اس نے الیکٹرک کا کچھ سامان دیکھنے کی خواہش کی تو سادہ دل عنایت ہر چیز کھول کھول کر اسے دکھادی ، جو وہ گھر والوں کے لئے لے کر جارہا تھا۔ غیر ملکی کپڑا اور بیش قیمت گھڑیاں، جو سر گرینڈر مشین ، وی سی آر ، ان دنوں وی سی آر کا دور تھا۔ ان چیزوں کو دیکھ کر فلک شیر اور اس کے بھائیوں میں پانی بھر آیا۔ وہ سوچنے لگے کہ اُس کے پاس اتنا مال ہے۔ کاش ! فلک شیر بھی دبئی کمانے چلا جاتا تو کتنا اچھا تھا۔ ہماری غربت بھی دُور ہو جاتی۔ عنایت نے کپڑوں کا ایک ایک جوڑا فلک شیر کے والد اور والدہ کو دیا اور فلک شیر کو ایک گھڑی دی۔ سوچا، ممانی اس امر سے خوش ہو جائیں گی۔ عنایت کی عادت تھی کہ وہ دبئی میں گھر والوں کے لئے اُداس ہو جاتا تو ٹیپ لگا لیتا تھا اور گھر والوں کے لئے کیسٹ میں باتیں ریکارڈ کر کے ، پاکستان جانے والے کسی دوست کے ہاتھ بھجوا دیتا تھا۔ اس بار آنے سے پہلے بھی اس نے کیسٹ بھری تھی، لیکن بھجوا نہ سکا، پھر وہ خود ہی پاکستان کے لئے عازم سفر ہو گیا، تبھی اس نے دل بہلانے کو ٹیپ ریکارڈر نکال لیا۔ رات کو جب وہ سونے لگا تو فلک شیر اُس کے لئے دُودھ کا گلاس لے آیا۔ جنوبی پنجاب کے باشندوں کی یہ عادت ہے کہ رات کو سونے سے پہلے دودھ ضرور پیتے ہیں۔ عنایت نے کہا۔ بھائی میں نے کھانا زیادہ کھا لیا ہے ، اس لئے دُودھ رہنے دو۔ یار یہ کیا بات ہوئی ؟ نوجوان آدمی ہو ، تم نے کافی پہلے کھانا کھایا تھا، اب رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ کھانا تو کب کا ہضم ہو گیا ہے ، اب دُودھ پی لو۔ نیند اچھی آئے گی، تھکن بھی اتر جائے گی۔ جب اس نے اسرار کیا تو عنایت نے اس کے ہاتھ سے دُودھ کا گلاس لے کر پی لیا اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔ اُسے کیا خبر تھی کہ یہ لالچی لوگ اس کے بارے کیسا وحشت ناک منصوبہ بنارہے ہیں۔ دُودھ میں انہوں نے نشہ آور گولیاں ملادی تھیں۔ میزبان کے جاتے ہی اس نے ٹیپ ریکارڈر میں کیسٹ لگادی۔ بٹن آن کر کے ہلکی آواز میں اُسے چلاد یا مگر نشہ رفتہ رفتہ اثر کرنے لگا تھا۔ وہ غنودگی میں جاتا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں کمرے میں آگئے جبکہ اُن کا والد اپنے کمرے میں سور ہا تھا۔ فلک شیر نے دیکھا کہ عنایت سوچکا ہے تو اس نے اپنے بھائیوں سے کہا۔ کام شروع کرو۔ صبح سے پہلے اس کو ختم کر کے زمین کے اندر کرنا ہے۔ اس کے چھوٹے بھائی اکبر نے عنایت کی ٹانگیں پکڑ لیں۔ خود وہ چھلانگ لگا کر اس کے اوپر کو بیٹھا اور اسے دبوچ کر دونوں بازو مضبوطی سے قابو کر لئے اور عنایت کے منہ پر تکیہ رکھ کر اس کا سانس بند کر دیا۔ وہ دم گھٹنے سے تڑپنے لگا تو انہوں نے اُسے پوری طرح چت کر ڈالا ، تاہم اس کے زور لگانے سے تکیہ اس کے منہ سے ہٹ گیا۔ وہ اب پوری طرح بیدار ہو چکا تھا، چلانے لگا۔ یہ کیا کر رہے ہو ، کیا کر رہے ہو تم میرے ساتھ۔ وہ بس اتنا ہی بول پایا تھا کہ فلک شیر نے دوبارہ تکیہ اس کے منہ پر رکھ کر اپنے گٹھنے سے اس کو دبایا اور اس کی سانس کو پوری قوت سے بند کر دیا۔
تبھی فلک شیر کی ماں آوازیں سن کر کمرے میں داخل ہوئی۔ یہاں تو کمرے میں عجیب ہی منتظر تھا۔ اس کے تینوں بیٹے عنایت پر سوار تھے اور اُس کی جان نکالنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ ماں جا کر ان کے باپ کو نہ جگا دے گی۔ کسی جوان مرد کی جان نکالنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ماں وحشت زدہ ہو کر بولی۔ او لالچیوں ! یہ کیا کر رہے ہو ظالموں، چھوڑ دو ا سے۔ وہ ماں کو چُپ نہیں کرا سکتے تھے لہذا اکبر نے ایک موٹا سا ڈنڈا زور سے عنایت کے سر پر مارا تو تکیہ ایک طرف گر گیا اور عنایت کی چیخ نکل گئی۔ اس کو تڑپتے دیکھ کر فلک شیر کی ماں رونے لگی۔ وہ بوڑھی عورت تھی، بھلا اس کی فریاد وہ کہاں سنتے۔ ان پر تو خون سوار تھا۔ مرنے والے کے سوٹ کیس میں سونے کی ٹکیوں کی چمک نے ان کو اندھا کیا ہوا تھا۔ آخر اس بے بس کی جان لے کر ہی ملے۔ ماں سے بولے۔ تم ادھر سے چلی جائو۔ اس کو اگر ہم ادھ موا کر کے چھوڑ دیتے تو یہ ہم کو مروا دیتا مگر اب تم یہاں بین ڈال کر کے ہم کو مر واد و گی۔ وہ بیچاری ناتواں خاتون روتی ہوئی کمرے سے نکل کر برآمدے کے فرش پر جاپڑی۔ اس کے حواس کام نہ کر رہے تھے کہ کیا کرے جبکہ اس کے بیٹوں نے میت کو جانوروں کا چارہ رکھنے والی جگہ ، کدال سے زمین کھود کر د بادیا۔ اس تمام کارروائی میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ اس کے بعد اس کی دبئی سے لائی سب اشیاء پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ ادھر جب عنایت مقررہ وقت پر گھر نہ پہنچا تو اس کی ماں بے چین ہو گئی۔ دوسرے بیٹے کفایت کو اپنے بھائی کے پاس بھیجا کہ جا کر پتا کرو، عنایت آیا ہے یا نہیں۔ آگیا ہو تو اسے اپنے ساتھ ہی لے آنا۔ چھوٹا بھائی جب ماموں کے پاس پہنچا۔ اس نے بتایا۔ بیٹا وہ تو کل گیارہ بجے یہاں سے چلا گیا تھا۔ میں فلک شیر سے پتا کرتا ہوں، پھر ماموں نے اسے فون کیا تو فلک شیر نے کہا۔ پھوپھا جی میری گاڑی خراب تھی۔ میں اُسے ورکشاپ لے گیا تو استاد نے کہا کہ اُس پر سفرمت کرو۔ اس کے ٹائر ختم ہیں۔ رستے میں خرابی در پیش ہو گی تو کیا کرو گے ؟ پہلے ٹائر بدلوالو تبھی میں نے آپ کے بھانجے سے معذرت کر لی تھی۔ وہ دوسری ٹیکسی کر کے خود چلا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب کہاں ہے اور کیوں ابھی تک گھر نہیں پہنچا۔ شاید کسی دوست کے پاس ہو۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔ میری گاڑی تو اسی دن سے ورکشاپ میں کھڑی ہے۔ بے شک آپ جا کر میرے اُستاد جی سے پوچھ لو۔ یہ سُن کر عنایت کا ماموں پریشان ہو گیا۔ وہ کفایت کو لے کر فلک شیر کے گھر گیا، کیونکہ کفایت بہت پریشان تھا۔ اُسے یقین تھا کہ اس کا بھائی دبئی سے آگیا ہے۔ اس نے وہاں سے چلتے وقت اپنی والدہ کو فون کر دیا تھا اور بتادیا تھا کہ ملتان ایئر پورٹ سے وہ ماموں کے پاس جائے گا اور پھر گھر آئے گا، تاہم جب فلک شیر نے بتایا کہ وہ اپنی ٹیکسی کے ٹائر چینچ کر وار ہا تھا تو انہوں نے اس کی بات کا یقین کر لیا۔ بظاہر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ وہ یہی سمجھے کہ ملتان میں عنایت کسی دوست کے پاس چلا گیا ہو گا، تاہم حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے نہ تو گھر والوں کو فون کر کے بتایا اور نہ اپنے ماموں سے ہی رابطہ کیا۔ سبھی اُن کو شک گزرا کہ ضرور اس کے ساتھ کوئی غیر معمولی بات ہو گئی ہے۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ عنایت کے گھر میں انہیں غیر ملکی سینٹ کی خوشبو محسوس ہوئی۔ یہ خوشبو ویسی ہی تھی جیسی عنایت کے ملبوس سے ماموں کو آئی تھی، جب وہ اُن کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا۔ یہ خوشبو فلک شیر کے گھر میں ہر جگہ محسوس ہو رہی تھی۔ ماموں نے فلک شیر سے کہا میں تمہارا گھر دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس طرح گھر دیکھنے کے بہانے وہ کمرے میں ادھر اُدھر پھرنے لگے، تبھی ایک کمرے میں، صوفے پر ماموں کو تولیہ پڑا نظر آیا۔ اس نے تولیہ اٹھایا تو اس میں سے بھی تیز سینٹ کی خوشبو آئی۔ اُسے لگا کہ یہ تولیہ عنایت کا ہے۔ وہ اس وقت اس کمرے میں کھڑا تھا، جہاں پچھلی رات کو وقوعہ ہوا تھا۔ جب ماموں ، فلک شیر سے باتیں کر رہا تھا، کفایت کی نظر کمرے میں بچھے پلنگ پر پڑی۔ اُس نے دیکھا کہ پلنگ پر نئی صاف ستھری چادر بچھی ہوئی ہے لیکن تکیے موجود نہیں ہیں۔ وہ پلنگ کی طرف گیا، اُسے اُس کے نیچے ایک نیا ٹیپ ریکارڈر رکھا ہوا نظر آیا۔ اُس نے اُسے اُٹھا کر دیکھا، اس میں کیسٹ لگی ہوئی تھی۔ کفایت نے کیسٹ کو نکال لیا۔ اُس پر عنایت کا نام لکھا ہوا تھا۔ اُس نے جلدی سے کیسٹ جیب میں رکھ لی اور ریکار ڈر کو واپس اسی جگہ رکھ دیا۔ فلک شیر اور اس کے بھائی ، ماموں سے باتوں میں مشغول تھے، انہوں نے کفایت کی طرف توجہ نہ کی تھی۔
گھر آکر اس نے سارا ماجر اماں اور ماموں سے بیان کیا۔ ماموں نے بھی گواہی دی کہ اس کمرے میں لگتا تھا کہ سینٹ کی شیشی کھولی تھی یا کسی نے اپنے کپڑوں میں سینٹ لگایا تھا جس کی خوشبو ہوا میں رچی ہوئی تھی، تبھی مجھے شک ہو گیا۔ پھر انہوں نے کیسٹ دیکھی اور اسے ٹیپ ریکارڈر پر لگا دیا۔ جوں جوں وہ کیسٹ سنتے جاتے تھے ، گھر والوں پر قیامت گزرتی جاتی تھی۔ شروع میں تو عنایت کی اپنی آواز سنائی دی، جو باتیں اس نے گھر والوں کے لئے بھری تھیں مگر بعد میں ٹیپ کے کچھ حصے پر جو کچھ ریکار ڈ ہو گیا تھا اس کو سُن کر تو جیسے ان پر قیامت گزرتی جاتی تھی۔ وہ یوں سکتے میں تھے جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھ رہے ہوں۔ قصہ یوں تھا کہ قتل ہونے سے ذرا پہلے عنایت نے اپنی جیب سے کیسٹ نکال کر ٹیپ ریکار ڈ میں لگائی۔ دراصل وہ مزید ریکارڈنگ کرنا چاہ رہا تھا، تبھی فلک شیر دُودھ کا گلاس لے کر کمرے میں آگیا، اس کے قدموں کی آہٹ سُن کر عنایت نے ٹیپ ریکارڈر کو پلنگ کے نیچے رکھ دیا۔ فلک شیر کے جانے کے بعد اس نے ٹیپ ریکارڈر کا بٹن آن کیا ذرا دیر بعد اس پر نشہ آور دودھ پینے سے غنودگی طاری ہونے لگی اور وہ بٹن آف کئے بغیر سو گیا۔ تھوڑی دیر بعد تینوں بھائی جب اُس کو مارنے کے ارادے سے آئے تو اس کارروائی کے دوران کسی کا پائوں تار سے آٹکا مگر وہ اپنے ظالمانہ عمل میں اس قدر محو تھے کہ انہوں نے تار کا نوٹس نہیں لیا اور ان کی نظر پلنگ کے نیچے رکھے ٹیپ ریکارڈر پر بھی نہیں گئی، جس کا بٹن آف نہیں ہوا تھا۔ وہ عنایت کی لاش کو ٹھکانے لگانے کی جلدی میں تھے ، کدال سے کو ٹھی کا کچا فرش کھود کر اُسے زمین پر گاڑھ ، جا کر کمرے میں لیٹ گئے۔ ماموں اور کفایت وہ کیسٹ لے کر تھانے گئے اور قتل کی ایف آئی آر درج ہو گئی۔ تھانے میں کیسٹ سنی گئی تو سبھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ عنایت کی غنودگی میں چلے جانے کے بعد بھی تھوڑی دیر تک کیسٹ چلتی رہی تھی۔ اس واردات کا تھوڑا سا حصہ ریکار ڈ ہو چکا تھا۔ پہلے فلک شیر کی کچھ باتیں ریکارڈ تھیں، پھر لڑنے بھڑنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور عنایت کے کراہنے کی آواز میں بھی آنے لگیں۔ فلک شیر کی ماں کی بھی آواز سُنائی دی کہ ظالموں کیا کر رہے ہو ؟ چھوڑ دوا سے۔ پھر فلک شیر کی آواز سنائی دی۔ ہر گز نہیں، اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا تو یہ ہم کو مروا دے گا۔ قتل کا منظر گویا کیسٹ سے نکل کر آنکھوں کے سامنے چھاتا جارہا تھا۔ اچانک ہی کیسٹ بند ہو گئی۔ شاید تار نکل جانے یا آٹو میٹک سسٹم کے تحت بند ہوئی تھی۔ عنایت کے قتل کا کوئی گواہ نہ تھا۔ کسی کی شہادت موجود نہ تھی مگر سب سے بڑی شاہد خدا کی ذات تھی، جو دیکھ رہی تھی، اس نے شہادت کا ثبوت مہیا کر دیا تھا۔ خون تُجھپ نہ سکا اور اس کیسٹ کی بدولت تھانے میں قتل کار از فاش ہو گیا۔ عنایت تو جان سے گیا مگر ماں بھی زندہ در گور ہو گئی۔ وہ بیچاری تو جیتی تھی نہ مرتی تھی۔ پانچ برس کی جدائی کے بعد وہ گھڑی آئی بھی تو درمیان میں موت ماں اور بیٹے کے بیچ دیوار بن گئی۔ وہ بد نصیب تو بیٹے کا آخری دیدار بھی نہ کر سکی۔ جب تک جیتی رہی یہی کہا کرتی تھی کہ خدا کرے کسی کے بیٹے پردیس نہ جائیں، اگر جائیں تو جلد لوٹ کر آجائیں، کیوں کہ موت کبھی بھی آسکتی ہے۔ موت کسی کو مہلت نہیں دیتی۔