الاسکا میں بہت سردی ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے میں یہاں مقیم ہوں لیکن آج بہت خوش ہوں کیونکہ اتنے عرصے میں پہلی بار مجھے اپنے ملک پاکستان واپس جانا ہے۔ ہم تارکین وطن کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہمارے ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں کرتا اور بیرون ملک اپنے پیاروں کی زندگی سنوارنے کے چکر میں ہم کب تنہائی اور جدائی کے گھن چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا۔ میں اپنا نام تو بتانا بھول ہی گیا، میرا نام حسن ہے اور میں اپنی شادی کے چند دن بعد ہی نئی نویلی دلہن کو الوداع کہہ کر آگیا تھا اور لگتا تھا کہ میرا دل وہیں کہیں رہ گیا تھا۔ جدائی کے وقت اس کی آنکھوں میں نمی تھی مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ہ وہ مجھ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی لیکن جوائنٹ فیملی سٹم کی وجہ سے اپنے لب سیے ہوئی تھی۔ سچ پوچھیں تو میں پاکستان سے جانا نہیں چاہتا تھا اور خاص طور پر شادی کے بعد تو بالکل نہیں لیکن ایک طرف میری دو کنواری بہنیں تھیں، تو دوسری طرف چھوٹے بھائی کی پڑھائی جاری تھی۔ والد ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور بیمار بھی تھے۔ والدہ ان کی ہی دیکھ بھال میں لگی رہتی تھیں۔ اس گھر کو پیسے کی ضرورت تھی یہ مجھے بارہا باور کروا دیا گیا تھا کہ تمہیں، اعلیٰ تعلیم دلوائی ہیں اس لیے گئی ہے کہ تم باقیوں کا سہارا بنو۔ ایئرپورٹ پر میرے چھوٹے بھائی نے خوشی خوشی خوشی مجھے ریسیو کیا لیکن سب کے چہروں پر اس وقت کے بہت اداسی چھا گئی جب میں نے یہاں مستقل رہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بیٹا تمہاری زندگی تو وہیں اچھی تھی، یہاں تو وہی غربت، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر پڑھے لکھے بندے کی قدر ہی نہیں ہے، مانا کہ بہنوں کی تم نے شادی کر دی لیکن ابھی احمر کی پڑھائی باقی ہے۔ اس گھر کو نئے سرے سے بنانا ہے۔ اس کے لیے سرمایہ درکار ہے وہ کہاں سے آئے گا ہم سب تو تمہارے آسرے پر ہی ہیں۔ ابا نے میرا بازو دباتے ہوئے کہا۔ اماں نیناں نظر نہیں آرہی۔ میری نگاہیں اپنی بیوی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ہاں وہ شاید تمہارے لیے کچھ خاص بنا رہی ہے تم اسے چھوڑو یہ بتاؤ بہنوں کے لیے کیا تحائف لائے ہو ۔ اور پھر اسی ادھیٹرین میں شام ہوگئی۔ نیناں اب تک میرے سامنے نہیں آئی تھی میں تو اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس کے لیے الگ مکان خریدوں گا، جہاں صرف میں اور وہ ہوں گے اور ایک نئی زندگی کی ابتدا کریں گے ، جہاں ہم دونوں ہمیشہ، ساتھ رہیں گے لیکن نیناں نے جب سب سنا تو اس کی آنکھوں میں ، میں نے خوشی کی کوئی رمق نہیں دیکھی ۔ وہ ایسے بت بنی بیٹھی تھی، جیسے میں اس کے اور اپنے نہیں بلکہ کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ کیا بات ہے نیناں تمہیں اس بات سے کوئی خوشی نہیں ہوئی؟ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ پتا نہیں مجھے خوش بھی ہونا چاہیے یا نہیں ہماری زندگی اب اس نہج پر آگئی ہے حسین، کہ جہاں کچھ مل بھی جائے تو بھی لاحاصل کا دکھ باقی رہتا ہے۔
اس لاحاصل کا دکھ کہ جب میں آپ سے بات کرنا چاہتی آپ کی ماں میری نگرانی کرنے لگیں۔ آپ کوہر طرح کی فرمائشیں نوٹ کروائی جاتیں۔ کبھی نندوں کی باتیں سنتی تو سب کی خدمتیں کرتی میری جوانی تو گزر گئی ۔ آٹھ سال آپ کے بنا یوں گزار دیے جیسے میں خدا نخواستہ سہاگن نہیں ہوں۔ کوئی اولاد کوئی آس نہیں تھی میرے پاس، صرف اور صرف تنہائی میرا مقدر بنا دی گئی تھی۔ اب میں الگ گھر لے کر بھی کیا کروں، آپ کا ساتھ پاکر بھی کیا کروں ؟ لیکن نیناں تم سوچو میں نے بھی تو تنہائی برداشت کی تم سب گھر والوں کے لیے، ہمارے گھر کے لیے سب آزمائشوں کے لیے، میں بھی تو پردیس کی سختیاں جھیلتا رہا۔ میں نے بھی اپنی صفائی پیش کرنا چاہی۔ حسن میں یہ نہیں کہتی کہ اکیلا سب میں نے برداشت کیا لیکن کم از کم آپ کچھ پیسے جمع کر کے مجھے وزٹ ویزا پر تو بلا سکتے تھے ناں، آپ کی ماں بہنوں کی طرح میں نے گفٹس کی فرمائشیں تو نہیں کی تھیں ناں آپ مجھے میر حق تو دیتے ناں، کیا میں اس لائق بھی نہ تھی۔ نیناں میرے سامنے رورہی تھی اور میں اسے چپ بھی نہیں کروایا رہا تھا۔ لیکن اب بھی تو ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں صرف اپنے لیے سوچ سکتے ہیں۔ میرے لہجے میں التجا تھی شاید ہم ایسا کر سکیں لیکن آپ مجھ سے نئی نویلی سہاگن جیسی کوئی توقعات وابستہ مت کیجیے گا۔ میں کوشش کروں گی کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے لیکن خدمت کو محبت میں ڈھالنے کے لیے مجھے بھی مجبور نہ کیجیے گا۔ نیناں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ میں نے ایک گہری سانس لے کر یوں محسوس کیا کہ میں، اب تک الاسکا میں ہی موجود ہوں اور وہاں کی خنکی سے میرا وجود جم کر منجمد ہو گیا ہے۔