Tuesday, November 12, 2024

Parinda | Episode 1

موسم خوشگوار اور دھوپ خوب چمکدار تھی۔
کمرشل ایریا کی وہ عمارت سب سے نمایاں اور مختلف تھی۔ اس عمارت کے سامنے ایک ریسٹورنٹ تھا۔ اس ریسٹورنٹ کے سامنے اچھی خاصی جگہ تھی۔ سردیوں کے دنوں میں جب دھوپ اچھی لگنے لگتی تو ریسٹورنٹ والے بڑے قرینے سے میز کرسیاں باہر لگا دیتے۔ آنے والے کھلے آسمان کے نیچے دھوپ میں بیٹھ کر خوب لطف اندوز ہوتے۔ اور کچھ ایسا ہی حال گرمیوں میں بھی ہوتا تھا۔ شام کے بعد اس جگہ میزیں سج جاتی تھیں۔ جس کی مرضی ہوتی، وہ ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھ جاتا اور جس کا دل چاہتا، وہ باہر بیٹھ کر لطف محسوس کرتا۔
ریسٹورنٹ کے سامنے والی عمارت میں دانیال کا انٹرویو تھا۔ انٹرویو کا وقت دن دس بجے تھا لیکن احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھامنے کے باعث وہ پونے نو بجے ہی وہاں پہنچ گیا تھا۔
کچھ دیر تو وہ اپنی بائیک ایک طرف کھڑی کر کے اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جس کے اندر اس کی سی وی اور دوسرے کاغذات تھے۔ وہ اس فائل کو سینے سے لگائے ٹہلتا رہا۔ جب اس کی نظر اس ریسٹورنٹ پر پڑی تو بے اختیار اس کا دل دھوپ میں بیٹھ کر چائے پینے کو چاہا۔
سڑک عبور کر کے وہ ریسٹورنٹ کے اندر پہنچ گیا۔ اس نے ایک میز منتخب کی، اپنی فائل میز پر رکھی اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رخ اس عمارت کی طرف تھا۔
دانیال نے چائے کا آرڈر دیا اور گردوپیش کا جائزہ لینے لگا۔ وہ ایک خوبصورت اور وجیہ نوجوان تھا۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ا سے ایک جگہ نوکری مل گئی تھی لیکن وہاں وہ زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکا اور نوکری چھوڑ دی۔ ایک ماہ فارغ رہنے کے بعد اخبار میں اس نوکری کا اشتہار دیکھا تو اس نے درخواست بھیج دی۔ ا سے انٹرویو کے لئے بلا لیا گیا۔
دانیال کے والد احمد نواز ایک کالج میں پروفیسر تھے۔ وہ سادہ طبیعت اور زندہ دل انسان تھے۔ اپنے بیٹے دانیال سے ان کو خاص محبت تھی۔ وہ اس کے ساتھ دوستوں کی طرح پیش آتے تھے۔ دانیال کا بڑا بھائی ابرار نواز کالج میں لیکچرار تھاجبکہ اس کی شادی ایک لیکچرار لڑکی سے ہی ہوئی تھی۔ وہ دونوں روزانہ اپنی اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے تھے اور ان کا ڈیڑھ سال کا بیٹا ان کے جانے کے بعد دانیال کی امی صفیہ سنبھالتی تھیں۔ صفیہ دل کی اچھی لیکن دونوں باپ بیٹے پر بات بات پر برستی رہتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صفیہ کو صفائی اور نظم و ضبط کا بہت خیال رہتا تھا۔ ہر چیز کو وہ اپنی جگہ پر دیکھنا چاہتی تھیں لیکن احمد نواز اور دانیال سے غلطی سرزد ہوتی رہتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ دونوں کو صفیہ کے تیز و تند جملے سننے پڑتے تھے۔ ان کے برعکس ابرار اور اس کی بیوی مریم کبھی شکایت کا موقع نہیں دیتے تھے کیونکہ دونوں کی عادات ایک جیسی تھیں اور دونوں نفاست پسندی اور قرینے سے رہنا جانتے تھے۔
احمد نواز نے کبھی صفیہ کی کسی بات کا برا نہیں مانا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ دانیال کا معلوم نہیں لیکن میں دانستہ غلطی کرتا ہوں تاکہ صفیہ کو غصہ آئے اور وہ ہم پر برسے تو گھر کے اندر ہلچل سی مچ جائے تاکہ زندگی کا احساس ہو۔ احمد نواز کو خاموشی اچھی نہیں لگتی تھی۔ گھر میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا تو وہ جان بوجھ کر کوئی گڑبڑ کردیتے تھے، جس سے لفظوں کی بوندا باندی شروع ہو جاتی تھی اور وہ مسکراتے رہتے تھے۔
دانیال کی چائے آگئی تو وہ چائے کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں لینے لگا۔ باہر دھوپ کے ساتھ تیز ہوا بھی تھی، جس سے سردی کا احساس بڑھ جاتا تھا۔
دانیال اپنے دھیان میں چائے پی رہا تھا کہ اس کے عقب سے ایک لڑکی کندھے پر بیگ لٹکائے اپنا موبائل فون کان سے لگائے متلاشی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔ جونہی وہ دانیال کی میز کے پاس پہنچی، اس کی نگاہ میز پر رکھی فائل پر پڑی تو اس نے ایک لمحے کے لئے اپنے کان سے فون الگ کیا اور دانیال سے مخاطب ہوئی۔ ’’ایکسکیوز می…‘‘
دانیال نے چونک کر اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ بولا کچھ نہیں۔
لڑکی نے جلدی سے کہا۔ ’’پلیز مجھے کاغذ اور پنسل ملے گی؟‘‘
دانیال نے چائے کا کپ میز پر رکھا۔ اپنی فائل سے کاغذ نکال کر جیب سے پنسل نکالی اور لڑکی کی طرف بڑھا دی۔ لڑکی نے کاغذ سمیت فائل پکڑی۔ پھر پنسل لی، اس کے بعد اس نے اپنا موبائل فون کندھے اور گردن کے درمیان دبایا اور بولی۔ ’’ہاں لکھوائو…‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ لکھتی، ہوا کا تیز جھونکا آیا اور کاغذ اُڑ کر دور جا پڑا۔ دانیال جلدی سے کاغذ پکڑنے کے لئے لپکا۔ اس دوران لڑکی نے فائل کے اندر سے دوسرا کاغذ نکالا اور اس پر کچھ لکھنے کے بعد فائل اور پنسل میز پر رکھی اور ایک طرف چل دی۔
جب دانیال کاغذ اٹھا کر میز کے پاس پہنچا تو فائل اور پنسل سامنے پڑی تھی جبکہ وہ لڑکی بڑی بے نیازی سے چلی جا رہی تھی۔ وہ اب بھی فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔
’’شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔‘‘ دانیال بڑبڑایا۔
اس نے کاغذ فائل کے اندر رکھا اور پنسل اپنی جیب میں ڈال کر کپ میں دیکھا۔ چند گھونٹ ابھی کپ میں موجود تھے۔ اس نے بیٹھ کر جونہی کپ منہ کو لگایا، اس کا منہ بن گیا۔ ’’چائے شربت بن گئی ہے۔‘‘
ٹھنڈی چائے ایک ہی گھونٹ میں پینے کے بعد اس نے گھڑی میں وقت دیکھا اور ویٹر کو چائے کے پیسے دے کر جلدی سے اس عمارت کی طرف چل پڑا جہاں اس کا انٹرویو تھا۔
٭ … ٭ … ٭
لابی میں انٹرویو دینے والے لوگ موجود تھے۔ دانیال بھی ایک طرف بیٹھ گیا۔ ٹھیک دس بجے انٹرویو شروع ہوگیا۔ ایک ایک کرکے اندر بلایا جانے لگا۔ دانیال کی بھی باری آگئی۔ وہ کچھ گھبراہٹ سی محسوس کر رہا تھا۔ ایسا اکثر ہوتا تھا۔ پھر اس کی گھبراہٹ رفتہ رفتہ ہی ختم ہوتی تھی۔ اس نے کئی بار سوچا تھا کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے اس بارے میں دریافت کرے کہ اسے اچانک گھبراہٹ کیوں ہونے لگتی ہے اور اس گھبراہٹ میں اس سے کوئی نہ کوئی غلطی بھی سرزد ہو جاتی تھی۔ پھر یکدم ہی اس کی گھبراہٹ معدوم ہو جاتی اور وہ پُراعتماد ہو جاتا تھا۔
کمرے کے اندر بڑی سی میز کے پیچھے دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں بہترین تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے۔ دونوں کی عمریں پچاس سال سے زائد تھیں اور ان کے چہروں پر متانت ایسے براجمان تھی جیسے شام ہوتے ہی درختوں کی شاخوں پر پرندے بیٹھ جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک نے دانیال کو بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا۔ وہ ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’آپ کا سی وی…‘‘ وہ شخص بولا۔
’’جی سر۔‘‘ دانیال نے اپنی فائل کھولی اور ایک کاغذ نکال کر بڑھانے لگا تو اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ سادہ کاغذ ہے۔ اس نے اس کاغذ کو ایک طرف رکھا اور دوسرا کاغذ اٹھا لیا، وہ بھی صاف کاغذ تھا۔ دانیال نے پریشانی سے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر فائل کے اندر موجود تمام کاغذات کو دیکھنے لگا۔ سامنے بیٹھے دونوں آدمی اس کی طرف پُرسکون انداز میں دیکھ رہے تھے۔
دانیال نے دیکھا کہ پوری فائل میں اس کا سی وی نہیں ہے۔ گھر میں اس نے فائل میں خود اپنا سی وی رکھا تھا۔ اچانک کہاں غائب ہوگیا؟
’’کیا سی وی مل نہیں رہا؟‘‘ دوسرے شخص نے پوچھا۔
’’سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میرا سی وی اچانک کہاں چلا گیا۔‘‘ دانیال کی نگاہیں اپنے کاغذات پر مرکوز تھیں اور وہ اب بھی اپنا سی وی تلاش کر رہا تھا۔
’’شاید آپ لانا بھول گئے ہیں۔‘‘ پہلا بولا۔
’’بالکل نہیں سر، میں سی وی لے کر آیا تھا۔‘‘ دانیال نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔
’’کہیں گر نہ گیا ہو۔‘‘ دوسرے شخص نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’اگر گرتا تو باقی کاغذات بھی گر جاتے، اکیلا سی وی ہی کیوں گرا؟‘‘ دانیال
نے دلیل پیش کی۔
’’ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔‘‘ دوسرے نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کی تائید اس کے ساتھی نے بھی کی۔
’’آپ میرا انٹرویو لے سکتے ہیں سر۔‘‘ جب سی وی نہ ملا تو دانیال نے فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
’’سی وی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘‘ ایک نے صاف انکار کردیا۔
’’میں آپ کو زبانی اپنے بارے میں بتا دیتا ہوں۔‘‘ دانیال بولا۔
’’سوری۔‘‘ ایک نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’یہ غلطی میری ہے، آپ کو سوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے سر۔‘‘ دانیال بغیر سوچے بول گیا۔
اس کی بات سن کر سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جیسے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں کہ بھلا ان کی طرف سے سوری کیوں ہوئی تھی؟
’’آپ جا سکتے ہیں۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
دانیال نے یکدم حیرت سے پوچھا۔ ’’کہاں سر؟‘‘
’’باہر۔‘‘ اس آدمی نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
’’میں سر ابھی باہر سے ہی تو آیا ہوں۔‘‘ دانیال یکدم بدحواس سا ہوگیا۔
’’ایک بار پھر آپ کو باہر جانا پڑے گا تاکہ ہم کسی دوسرے امیدوار کا انٹرویو کرسکیں۔ آپ تشریف لے جائیں۔‘‘ پہلے آدمی نے کچھ درشت لہجے میں کہا۔ دانیال کو اٹھنا ہی پڑا۔ وہ کمرے سے جاتے ہوئے متلاشی نگاہوں سے فرش پر دیکھ رہا تھا کہ شاید اس کا سی وی کہیں گرا ہوا مل جائے۔
وہ باہر نکل کر بھی اپنے سی وی کو تلاش کرتا رہا اور اس سوچ میں سرگرداں اس عمارت سے باہر نکل آیا کہ آخر اس کا سی وی گیا تو گیا کہاں؟
سارے راستے دانیال یہی سوچتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ گھر میں داخل ہوا تو منہ لٹکا ہوا دیکھ کر دال صاف کرتی ہوئی صفیہ نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟ خیریت تو ہے، منہ لٹکا ہوا ہے۔ انٹرویو ٹھیک نہیں ہوا کیا؟ کوئی گڑبڑ تو نہیں کر آئے۔‘‘
’’انٹرویو تو ہوا ہی نہیں۔‘‘ دانیال نے فائل ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں نہیں ہوا؟‘‘ صفیہ کا دال صاف کرتا ہاتھ رک گیا اور نگاہیں اس کے چہرے پر جم گئیں۔
’’میں نے اپنا سی وی فائل میں رکھا تھا لیکن جانے کہاں چلا گیا۔‘‘ دانیال کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔
’’تم لے کر ہی نہیں گئے ہو گے۔ میں جانتی ہوں۔ تمہاری بھول جانے کی عادت اپنے باپ پر گئی ہے۔‘‘ صفیہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
’’میں سی وی بھول ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘ دانیال کو یقین تھا۔
’’تمہارے ابا کا بھی یہی فرمان ہوتا ہے لیکن وہ مانتے نہیں ہیں کہ میں بھول گیا ہوں۔ کتنے بجے تک انٹرویو ہے؟‘‘
’’دو بجے تک۔‘‘
’’ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔ نیا سی وی لے جائو۔‘‘ صفیہ اتنا کہہ کر پھر دال صاف کرنے لگیں۔
اس بات کا خیال دانیال کو پہلے نہیں آیا تھا۔ اب جو صفیہ نے احساس دلایا تو جیسے اس کے جسم میں بجلی سی بھر گئی۔ وہ سوچنے لگا یہ کام اس عمارت کے اندر بھی ہوسکتا تھا۔ کسی کا بھی کمپیوٹر لیتا اور اپنا سی وی کمپیوٹر سے نکال لیتا لیکن اس کے دماغ میں یہ بات آئی ہی نہیں۔ امی صحیح کہتی ہیں کہ تمہاری بھولنے کی عادت اپنے ابا پر گئی ہے۔
دانیال بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور کمپیوٹر آن کر کے مضطرب نگاہوں سے دیکھنے لگا کہ جلدی سے کمپیوٹر اپنا کام شروع کردے۔ پھر اس نے اپنے سی وی کا پرنٹ آئوٹ نکالا اور اسے ایک نظر غور سے دیکھنے کے بعد اپنی فائل میں رکھا اور تیزی سے بائیک پر سوار ہو کر مذکورہ عمارت کی پارکنگ میں پہنچ گیا۔
بائیک کھڑی کرنے کے بعد وہ لفٹ کی طرف بھاگا اور اوپر پہنچتے ہی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ استقبالیہ پر براجمان خوبصورت لڑکی کے پاس پہنچ کر بولا۔ ’’میرا نام دانیال نواز ہے، میں انٹرویو دینے کے لئے آیا تھا لیکن اپنا سی وی گھر بھول آیا تھا، اب میں سی وی لے آیا ہوں۔ مجھے انٹرویو دینا ہے۔‘‘
لڑکی اس کی بات سنتے ہوئے کھڑی ہوگئی تھی۔ دانیال کو لگا جیسے وہ اس کے احترام میں کھڑی ہوئی ہے لیکن اس کے عقب میں اچانک اس کمرے سے نکل کر وہ شخص کھڑا ہوگیا تھا جو اندر انٹرویو لے رہا تھا۔ لڑکی اپنے باس کے احترام میں کھڑی ہوئی تھی۔
’’تو آپ اپنا سی وی گھر بھول آئے تھے۔‘‘ اچانک اس آدمی نے کہا۔
دانیال نے چونک کر اپنے پیچھے دیکھا اور فوراً بولا۔ ’’سر میں اپنا سی وی لے آیا ہوں۔‘‘
’’ابھی آپ نے کیا کہا تھا کہ آپ اپنا سی وی گھر بھول آئے تھے؟‘‘ اس شخص نے اس بات کی تصدیق چاہی۔
’’یس سر۔‘‘ دانیال نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اور جب آپ کمرے میں انٹرویو دینے آئے تھے تو کیا کہا تھا؟‘‘ اس آدمی نے پوچھا۔
’’آپ کس بات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں سر، کیونکہ ہمارے درمیان تو اندر بہت سی باتیں ہوئی تھیں۔‘‘ دانیال کی نظریں اس آدمی کے چہرے پر تھیں، اور وہ سمجھ نہیں رہا تھا کہ اس سوال کا کیا مقصد ہے۔
’’میں اس کی بات کر رہا ہوں جو آپ نے سی وی کے بارے میں ہمیں بتائی تھی۔‘‘
’’سر کیا بتائی تھی؟‘‘ دانیال کا چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا تھا۔
اس کی بات سن کر اس شخص کو پچھتاوا ہونے لگا کہ اس نے کیوں اس لڑکے سے یہ سوال و جواب شروع کردیئے۔ اب کیونکہ وہ شخص بات چھیڑ چکا تھا اس لئے بولا۔ ’’ہمارے پوچھنے پر آپ نے بتایا تھا کہ آپ سی وی لے کر آئے تھے لیکن وہ جانے کہاں چلا گیا ہے۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہوا تھا سر۔‘‘
’’اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ آپ اپنا سی وی گھر بھول آئے تھے اور اب لے آئے ہیں۔ آپ کی باتوں میں تضاد ہے اور ہمیں اپنی کمپنی کے لئے ایسے شخص کی بالکل ضرورت نہیں ہے جو غلط بیانی سے کام لیتا ہو۔‘‘ اس نے دوٹوک انداز میں بات ختم کرنا چاہی۔
’’سر بالکل ویسا ہی ہوا تھا جیسا میں نے آپ کو بتایا تھا۔ میں نے سچ کہا تھا۔‘‘ دانیال نے جلدی سے کہا۔
’’تو اب آپ نے اپنا بیان کیوں بدلا؟‘‘
’’میں نے ان کو سمجھانے کے لئے ایسا بولا تھا۔‘‘
’’سوری…‘‘ وہ آدمی بات کو طوالت دینے کی بجائے اتنا کہہ کر جانے لگا۔
’’سوری مجھے بولنا ہے سر۔‘‘
وہ آدمی رکا اور اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’ہم انٹرویو کر چکے۔ وقت ختم ہو چکا ہے۔ آپ جا سکتے ہیں۔‘‘
’’انٹرویو کا وقت دس بجے سے دو بجے تک کا ہے سر۔‘‘ دانیال پیچھے لپکا۔
’’وقت ختم ہو چکا ہے۔‘‘ اس نے یہ بات دوبارہ کہی اور اس سے پہلے کہ دانیال کچھ کہتا، وہ شخص تیزی سے ایک طرف چل پڑا۔ دانیال کو اس پر غصہ بہت آیا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’یہ شخص آپ کا باس ہے؟‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’بڑا بددماغ آدمی ہے۔ آپ کو ایسے شخص کی فوراً نوکری چھوڑ دینی چاہئے۔ ایسے شخص کے پاس نوکری کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنی عزت خود خراب کر رہے ہیں۔‘‘ دانیال نے اپنا غصہ اس مشورے کی صورت میں نکال کر، اپنی فائل بغل میں دبائی اور باہر کی طرف چل پڑا۔
اپنی بائیک کے پاس پہنچ کر اس نے غصے سے کئی بار اس عمارت کو دیکھا جس سے وہ ابھی باہر نکلا تھا۔
٭ … ٭ … ٭
دانیال گھر پہنچا تو پروفیسر احمد نواز صحن میں اپنی آرام کرسی پر بیٹھے چائے کے مزے لے رہے تھے۔ پاس ہی صفیہ بیٹھی کسی کے بارے میں کچھ بتا رہی تھیں اور کچھ فاصلے پر ان کی بڑی بہو مریم اپنے بیٹے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
’’لو جی دانیال آگیا۔ چہرے سے لگ رہا ہے کہ اس کے پاس ضرور کوئی اچھی خبر ہے۔‘‘ دانیال کو دیکھتے ہی احمد نواز نے مسکراتے ہوئے کہا۔
دانیال نے فائل ایک طرف رکھی۔ تھکے سے انداز میں سلام کیا اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’کوئی اچھی خبر نہیں ہے ابو۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ احمد نواز نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
’’پہلے فائل سے میرا سی وی کہیں گم ہوگیا اور پھر جب میں دوبارہ سی وی لے کر گیا تو انہوں نے وقت ہونے کے باوجود میرا انٹرویو نہیں لیا۔‘‘


دانیال نے بتایا۔
’’انٹرویو کیوں نہیں لیا؟‘‘ احمد نواز نے دلچسپی سے سوال کیا۔
’’یہ بڑے لوگ بڑے بددماغ ہوتے ہیں۔ ان کے بھیجے میں کوئی بات پھنس جائے تو پھر یہ کسی کی نہیں سنتے۔ اپنے تکبر اور غرور میں مست رہتے ہیں۔ بے شک دوسرے کا مستقبل دائو پر لگ جائے، اس کی انہیں پروا نہیں ہوتی۔‘‘ دانیال نے تبصرہ کیا۔
’’اپنا قصور دوسرے کے سر پر مت تھوپو۔‘‘ صفیہ نے ٹوکا۔
’’میرا کیا قصور تھا؟‘‘ دانیال نے صفیہ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔
’’یہ کہ تم اپنا سی وی لے کر ہی نہیں گئے تھے اور اب ان پر الزام لگا رہے ہو۔‘‘ صفیہ نے دوٹوک بات کی۔
’’میں لے کر گیا تھا۔‘‘ دانیال نے اپنی بات پر زور دیا۔
’’پھر وہ کہاں چلا گیا؟‘‘ صفیہ نے سوال کیا۔
’’یہی تو ایک معمہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو رہا۔ میرا سی وی میری فائل میں تھا، اچانک کہاں چلا گیا۔ میں اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘ دانیال بولتے ہوئے سوچ میں مبتلا ہوگیا۔
’’کوئی بات نہیں… کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔ کہیں اور بندوبست ہو جائے گا۔‘‘ احمد نواز نے حوصلہ دیا۔
’’ایم اے کر کے تم بھی کہیں لیکچرار لگ جاتے۔ جیسے تمہارے ابا اور بھائی ہیں۔‘‘ صفیہ نے مشورہ دیا۔
’’آپ کی بہو بھی تو لیکچرار ہے۔‘‘ احمد نواز نے گویا یاد دلایا۔
’’بس میں ہی لیکچرار نہ بن سکی۔‘‘ صفیہ نے تاسف سے آہ بھری۔
’’یہ کس نے کہہ دیا کہ آپ لیکچرار نہیں ہیں۔ ہمارے لیکچر کا ایک وقت ہوتا ہے اور آپ کے لیکچر ہر وقت چلتے رہتے ہیں۔‘‘ احمد نواز نے جلدی سے کہہ کر اخبار میں منہ چھپا لیا۔
مریم اپنے سسر کی بات سن کر مسکرا رہی تھی اور صفیہ کی نظریں جیسے احمد نواز پر جم گئی تھیں، جبکہ احمد نواز بے نیازی کی کچھ ایسی اداکاری کر رہے تھے کہ گویا وہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ صفیہ انہیں دیکھ نہیں بلکہ گھور رہی ہیں۔
’’یہ ذرا اخبار ایک طرف ہٹائیں۔‘‘ صفیہ بولیں۔
’’کوئی ضروری بات ہے۔‘‘ احمد نواز نے اخبار ایک طرف رکھ کر بڑے بھولپن سے پوچھا۔
’’کیا کہا آپ نے، میں سارا دن لیکچر دیتی ہوں۔ میرا لیکچر ختم ہی نہیں ہوتا۔‘‘ صفیہ کا چہرہ غصے میں ڈوبنے لگا تھا۔
’’آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپ جب کسی بات کی تفصیل بتاتی ہیں تو لگتا ہے کہ آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے آئی ہیں اور اس تفصیل میں ایک بھرپور لیکچر کا گماں ہوتا ہے اور چوبیس گھنٹے کانوں میں رس گھولتا رہتا ہے۔‘‘ احمد نواز نے خوبصورتی سے بات کو سنبھالنا چاہا۔
’’میں آپ کی ہر بات سمجھتی ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کوئی بات نہ کیا کروں۔ گھر میں مکڑی کے جالے لگ جائیں، جگہ جگہ گندگی پھیل جائے، بدبو آنے لگے، میں اپنا منہ بند رکھوں گی۔‘‘ صفیہ نے منہ بنا لیا۔
’’آپ تو ناراض ہوگئیں۔ آپ کے بولنے سے تو یہ گلستان مہکتا ہے، آپ کے ٹوکنے سے جیسے بہار آ جاتی ہے اور آپ کے…‘‘
’’بس رہنے دیں۔‘‘ صفیہ نے مزید بولنے سے روک دیا۔
’’امی میں بھی ایم اے کر کے کہیں لیکچرار نہ لگ جائوں۔‘‘ اچانک دانیال نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’پہلے اس گھر میں تین لیکچرار اور ایک پروفیسر صاحب ہیں۔ تمہارے ابا کے بعد اس گھر میں کسی اور پروفیسر کی ضرورت نہیں۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ساری اولاد باپ پر کیوں جانا چاہتی ہے۔ تم تو باپ کے نقش قدم پر نہ چلو ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے صفیہ کو احمد نواز کی جس بات پر غصہ آیا تھا وہ دب گئی تھی۔ جبکہ صفیہ نے ہی اسے لیکچرار بننے کا مشورہ دیا تھا۔
’’ویسے میرے ابا حضور ایک بزنس مین تھے۔‘‘ احمد نواز نے کہا ۔’’اگر ان کا کاروبار ختم نہ ہوتا تو میں آج ایک بزنس مین ہوتا۔‘‘
’’اچھا ہوا کاروبار ان کے ہاتھوں ختم ہو گیا، ورنہ وہ آپ کے ہاتھوں ضرور ختم ہو جاتا ۔‘‘ صفیہ یہ کہہ کر کچن کی طرف چلی گئیں اور احمد نواز مسکرا کر رہ گئے۔
مریم اٹھ کر اس کے پاس آئی اور کہا۔ ’’میری مانو تو تم بھی ایم اے کر لو، لیکچرار لگ ہی جائو گے۔‘‘
’’آپ کیا کہتے ہیں ابو؟ ‘‘ دانیال نے احمد نواز کی طرف دیکھا۔
’’جو چاہو فیصلہ کرو۔ میں نے کبھی کسی پر اپنا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا۔ خوب سوچ بچار کر لو۔‘‘ احمد نواز نے کہا۔
’’اور اگر میں اس بارے میں مشورہ مانگوں تو کیا مشورہ دیں گے؟‘‘ دانیال بولا۔
احمد نواز سوچنے لگے۔ ’’ تعلیم و تدریس ایک مقدس پیشہ ہے۔ تم یہ پیشہ اختیار کر سکتے ہو۔ تمہارا دل کیا کہتا ہے۔ کیا تم یہ کام کر سکتے ہو۔ پھر فیصلہ کرو۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں کوئی فیصلہ کرتا ہوں۔‘‘ دانیال بولا۔
دانیال سوچنے لگا۔ پھر وہ سوچتے سوچتے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ کوئی فیصلہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس سوچ بچارمیں اس کی سی وی کہاں چلی گئی، یہ سوال بھی اس کے دماغ سے محو نہیں ہوا تھا۔
٭…٭…٭
دانیال کی سی وی کہیں نہیں گئی تھی بلکہ جب دانیال سے لڑکی نے کچھ لکھنے کے لئے کاغذاور پنسل مانگی تھی اور دانیال نے اپنی فائل سے ایک کاغذ نکال کر اسے دیا تھا تو وہ کاغذ اُڑ گیا تھا اور دانیال وہ کاغذ زمین سے اٹھانے کے لئے اٹھا تو اسی لمحے اس لڑکی نے لکھنے کے لئے اس کی فائل سے دوسرا کاغذ نکال لیا۔ اب اسے کیا پتا تھا کہ اس کاغذ کی دوسری طرف دانیال کا سی وی پرنٹ ہے۔ اس نے کاغذ کے اُلٹی طرف کچھ لکھا اور فائل میز پر رکھ کر لاپروائی سے ایک طرف چلی گئی تھی۔
اس لڑکی کا نام ریشم تھا۔ خوبصورت، خوش مزاج، شوخ چنچل، حساس طبیعت اور کبھی لاپروائی کی انتہا کر دینے والی لڑکی۔ ایک ماہ قبل وہ ایم اے اکنامکس کے امتحان سے فارغ ہوئی تھی۔ اچانک اس کا دل چاہا کہ وہ شیف بن جائے۔ اسے کھانے پکانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔
ریشم جس گھر میں رہتی تھی وہ ایک بڑا گھر تھا۔ اس گھر کی سربراہ جہاں آرا تھیں۔ جہاں آرا کی عمر ساٹھ سال سے اوپر تھی۔ چھڑی کے سہارے چلتی تھیں۔ چہرہ ہر وقت کرختگی سے بھرا رہتا تھا اور کسی بھی لمحے ان کا غصہ آسمان کو چھونے لگتا تھا۔ اپنے مزاج کے خلاف وہ کوئی بات برداشت نہیں کرتی تھیں۔ زبان سے جو بات نکال دی، پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے، وہ اپنے الفاظ واپس نہیں لیتی تھیں۔ ایک بار اگر کسی کے خلاف دل میں کدورت کے کانٹے بھر لئے تو پھر وہاں پھول اگنا ناممکن تھا، یادداشت ایسی تیز تھی کہ اس عمر میں بھی انہیں بہت زیادہ پرانی باتیں یاد تھیں، کس نے کس موقع پر ان سے کیا زیادتی کی تھی، وہ سب یاد تھا، اور وہ انتقام لینا کبھی نہیں بھولتی تھیں۔ ان کے دل میں اتنی محبت نہیں جتنی وہ نفرت پال کر بیٹھی تھیں۔
اس گھر میں ان کے بعد ان کا بیٹا بشیر صدیقی تھا۔ وہ کاروبار کرتا تھا۔ اپنی ماں کے برعکس دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا۔ لیکن اپنی ماں کے فیصلے کے خلاف خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو، منہ کھولنا تو درکنار، وہ کسی دوسرے کو کچھ کہنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
بشیر صدیقی کی بیوی عذرا کی جوانی اپنی ساس جہاں آرا کے ساتھ بیت گئی تھی۔ ان سالوں میں اس کے اندر ایک بار بھی جرأت نہیں ہو سکی تھی کہ وہ اپنی ساس کی کسی بات سے اختلاف کر سکے۔ اس کی اولاد جوان ہو گئی تھی لیکن کبھی اسے اپنی اولاد کے لئے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں مل سکا تھا۔
بڑی بیٹی کو جس جگہ جہاں آرا نے چاہا وہاں بیاہ دیا، دوسرا بیٹا ریحان مزید پڑھنا چاہتا تھا لیکن جہاں آرا کے حکم پر پڑھائی چھوڑ کر باپ کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونا پڑا۔ ریشم پر ابھی کوئی حکم لاگو نہیں ہوا تھا۔ گھر میں جہاں آرا کی مرضی اور فیصلے چلتے تھے اور سب اپنے اپنے دل میں خاموش احتجاج کر کے گاہے بگاہے غصہ نکالتے رہتے تھے، سوائے بشیر صدیقی کے۔
ریشم نے کئی بار
احتجاج اتنی آواز میں ضرور بلند کیا تھا کہ وہ محض عذرا ہی سن سکتی تھی۔ عذرا فوراً اسے ٹوک دیتی تھی۔
جہاں آرا کے تین اور بیٹے بھی تھے جو الگ گھروں میں رہتے تھے اور اپنا اپنا کاروبار کرتے تھے۔ جب کبھی جہاں آرا اپنے کسی دوسرے بیٹے کے گھر رہنے کے لئے چلی جاتی تھیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سانس لینے کی آزادی مل گئی ہو۔ سچ تو یہ تھا کہ بشیر صدیقی بھی کچھ سکون محسوس کرتا تھا لیکن وہ اس کا اظہار کبھی نہیں کرتا تھا۔
جہاں آرا کے دوسرے بیٹے بھی اپنی اماں سے پوچھ کر چلتے تھے لیکن وہ کیونکہ الگ رہتے تھے، اس لئے وہ اپنی مرضی کر لیتے تھے۔
ریشم کی ایک ہی دوست تھی جس کا نام انعم تھا۔ وہ ان کے بالکل برابر والے گھر میں رہتی تھی۔ دونوں گھروں کے ٹیرس تقریباً برابر تھے اور ساتھ والی دیوار بھی اونچی نہیں تھی۔ دونوں گھرانے کے تعلقات کیونکہ بہت اچھے تھے اور پھر ریشم کی انعم کے ساتھ بہت گہری دوستی تھی، اس لئے جب انہیں ایک دوسرے کے پاس جانا ہوتا تھا تو وہ اس ٹیرس کی دیوار کو آسانی سے عبور کر کے ایک دوسرے کے پاس چلی جاتی تھیں۔
ریشم کا کمرا اوپر والی منزل پر تھا۔ اس لئے انعم کے پاس جانے اور اس کا اس طرف آنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ جہاں آرا کو پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ کون اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آیا ہے۔
انعم کی دو اور بہنیں تھیں۔ ان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ اس لئے وہ بشیر صدیقی کے اکلوتے بیٹے ریحان کو اپنا بھائی ہی سمجھتی تھیں اور ریحان بھی ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح ہی رہتا تھا۔
ریشم اس وقت اپنے کمرے میں تھی اور اس کے ہاتھ میں وہ کاغذ تھا جو دراصل دانیال کا سی وی تھا۔
ریشم نے اس کی دوسری طرف ایک نمبر لکھا ہوا تھا۔ اس نے آج ہی دیکھا تھا کہ اس نے اس کی فائل سے جو کاغذ نکالا تھا، وہ محض سادہ کاغذ نہیں تھا۔
’’یہ تو بڑی غلطی ہو گئی۔ میں اس بیچارے کا سی وی ہی لے آئی…‘‘ریشم کمرے میں ٹہلتی ہوئی اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔
پھر اس نے وہ کاغذ لاپروائی سے میز پر رکھ دیا۔‘‘ اس کی فائل میں کون سا ایک ہی سی وی ہو گا۔‘‘
پھر اسے اس خیال نے گھیر لیا۔’’اور اگر ایک ہی سی وی ہوا تو؟ اوپر سے وہ کوئی غریب باپ کا غریب بیٹا ہوا تو بے چارے نے جانے کیسے سی وی بنوایا ہوگا۔‘‘
لیکن اچانک اس کے دماغ میں آنے والے اس خیال نے اسے لاپروا کر دیا۔‘‘ کپڑوں سے اچھا خاصا تھا لگتا تھا، مزے سے چائے پی رہا تھا۔ وہ کوئی غریب نہیں تھا۔ میں کیوں اتنی فکر مند ہو رہی ہوں۔ ‘‘
لیکن پھر اسے اس فکر نے حصار میں لے لیا۔’’وہ وہاں انٹرویو کے لئے بیٹھا ہو گا۔ اور جب کوئی انٹرویو کے لئے آتا ہے تو وہ اچھے کپڑے پہن کر ہی آتا ہے۔ جانے کب سے نوکری کے لئے مارا مارا پھر رہا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے ناشتہ نہ کیا ہو اور بس ایک کپ چائے کے ساتھ گزارہ کر رہا ہو ۔یہ مجھ سے زیادتی ہو گئی ہے۔‘‘
ریشم کمرے میں ٹہلتی رہی اور سوچتی رہی اور پھر بولی۔ ’’انعم کو بلاتی ہوں۔ ‘‘
اس نے انعم کو فون کیا اور جونہی اس کا رابطہ ہوا، اس نے فوراً پوچھا۔ ’’کہاں ہو؟‘‘
’’اپنے کمرے میں ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’جلدی سے میری طرف آ جائو۔‘‘ وہ بولی۔
’’کیوں؟‘‘ انعم نے وجہ جاننی چاہی۔
’’بہت ضروری کام ہے۔ بس فوراً آ جائو۔‘‘ ریشم نے کہہ کر جلدی سے فون بند کر دیا اور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔
کچھ دیر کے بعد ہی انعم اس کے کمرے میں آ گئی۔ اس نے آتے ہی پوچھا۔ ’’مجھے کیوں بلایا ہے۔ کیا بات ہے، خیریت تو ہے؟ اماں جی نے کچھ کہہ تو نہیں دیا۔‘‘
’’یہ پڑھو۔‘‘ ریشم نے اس کے سارے سوالوں کو پس پشت ڈال کر میز سے دانیال کاسی وی اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
انعم نے غور سے پڑھنے کے بعد کہا۔ ’’یہ تو کسی دانیال کا سی وی ہے۔ اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے کہ تم مجھے یہ دکھائو۔‘‘
’’آج جب میں اس ریسٹورنٹ میں گئی تھی جہاں انکل صادق شیف ہیں، مجھے ان سے ملنا تھا لیکن میں ان کا فون نمبر گھر بھول گئی تھی۔ میں نے تمہیں ان کا فون نمبر لینے کے لئے فون کیا تھا۔ میں نے غلطی سے اس لڑکے کا سی وی نکال کر اس پر انکل صادق کا نمبر لکھا اور چلتی بنی تھی…‘‘ اس کے بعد اس نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔
’’تو کیا ہوا؟‘‘انعم نے ساری بات سن کر ریشم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جیسے یہ کوئی بہت معمولی بات ہو۔
’’مجھے بار بار خیال آ رہا ہے کہ اس لڑکے کے پاس شاید ایک ہی سی وی تھا جو میں لے آئی۔ پتا نہیں وہ بے چارہ گھر سے انٹرویو دینے کے لئے نکلا تھا۔ اگر انٹرویو دینے کے لئے نکلا تھا تو اس کا سی وی تو میں لے آئی تھی اور اس نے انٹرویو کیسے دیا ہو گا، میں یہ سوچ کر بہت پریشان ہو رہی ہوں۔‘‘
’’مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ تم پاگل ہو، کبھی سر پر پہاڑ گر جائے تو پروا نہیں ہوتی اور کبھی ذرّہ اُڑ کر ناک پر جم جائے تو ایسی فکر مند ہوتی ہو کہ گویا دنیا کی ساری فکریں تمہارے دل کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔‘‘ انعم ایک طرف بیٹھتے ہوئے بولی ۔
’’میرا دل کہہ رہا ہے کہ مجھ سے انجانے میں غلطی ہو گئی ہے۔ ہمیں اس سے رابطہ کرنا چاہئے۔‘‘
’’کیوں رابطہ کرناچاہئے؟‘‘
’’تاکہ میں اپنی غلطی کی اس سے معافی مانگ سکوں۔‘‘
’’تو جائو، سی وی پر اس کا پتا لکھا ہے اور موبائل نمبر بھی ہے۔‘‘ انعم نے کھڑی ہو کر کہا۔
ریشم بولی۔ ’’تم بھی میرے ساتھ چلو۔‘‘
’’میں کیوں جائوں؟ میرا وہاں کیا کام، یہ وہم تمہیں ہے کہ اس کے ساتھ تم نے کوئی زیادتی کی ہے، اس لئے تم ہی اسے سنبھالو۔‘‘ انعم نے جانے سے صاف انکار کر دیا۔
’’کیوں کہ تم میری بہترین اکلوتی دوست ہو، تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔‘‘ ریشم نے بضد ہو کر کہا۔
’’میں اس فضول کام کے لئے تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی، اس لئے مجھے معاف کر دو۔‘‘ انعم نے اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کی۔
’’یہ فضول کام ہے۔ تم معافی مانگنے کو فضول کام کہتی ہو؟ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے۔‘‘
’’تم اپنے وہم کو چھٹی حس کا نام دے رہی ہو۔ ویسے بھی تم نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا اور پھر وہ کوئی ایک سی وی لئے نہیں گھوم رہا ہو گا، نوکری تلاش کرنے والوں کی فائل میں سی وی کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ نوکری کے لئے مارے مارے پھرنے والوں کو جانے کب اور کس وقت کہاں انٹرویو کی ضرورت پڑ جائے۔‘‘ انعم نے کہا۔
’’لیکن میرا دل کہتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہی سی وی ہوگی۔‘‘ ریشم نے ساری بات سننے کے بعد اپنی بات دہرائی۔
’’تم بھی پاگل ہو اور تمہارا دل بھی پاگل ہے، میں جا رہی ہوں، اپنا ڈرامہ چھوڑ کر آئی ہوں۔‘‘ انعم کادل چاہا کہ وہ اس کا گلا دبا دے۔
’’انعم پلیز … میرا دل بے سکون ہے۔‘‘ ریشم برق رفتاری سے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر وہ رک گئی۔ انعم سے زیادہ ریشم کو کون جانتا تھا کہ اس کا نام ہی ریشم نہیں تھا بلکہ اس کے دل کی ہر دھڑکن ریشم کی طرح نرم اور اجلی تھی۔
٭…٭…٭
اب یہ فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ پہلے فون کیا جائے یا اس کے لکھے ہوئے پتے پر اس کے گھر جایا جائے۔
آخرکار انعم نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے فون کر کے بتا دے کہ کس طرح یہ واقعہ پیش آیا اور اگر اسے اپنا سی وی چاہئے تو وہ اسے پہنچا دیتی ہے اور اگر اس کی ضرورت نہیں ہے تو وہ اسے ضائع کر دیتی ہے۔ حالانکہ بات معمولی تھی لیکن ریشم چاہتی تھی کہ ایسا کر کے اپنے اندر کی بے چینی کو معدوم کر سکے۔
’’فون تم کرو گی۔‘‘ ریشم نے کہا۔
’’مجھے کیا ضرورت ہے فون کرنے کی، یہ کام خود کرو گی۔‘‘ انعم یکدم دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میں فون کروں ؟‘‘ ریشم بولی۔
’’میرا مطلب نہیں ہے بلکہ تم ہی اسے فون کرو گی۔ اپنے


دل پر بوجھ تم محسوس کر رہی ہو، میں نہیں۔‘‘ انعم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
ریشم نے اس کا نمبر ملایا اور اپنا موبائل فون کان سے لگا کر رابطہ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی اور دل کی دھڑکن غیرمعمولی ہوگئی تھی۔ کچھ دیر کے بعد دوسری طرف سے دانیال کی آواز آئی۔ ’’ہیلو۔‘‘
’’کیا آپ دانیال نواز بول رہے ہیں؟‘‘ ریشم نے اپنی تمام تر گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی بول رہا ہوں۔‘‘ نسوانی آواز نے دانیال کو چونکا دیا تھا۔
ریشم کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ بات کہاں سے اور کیسے شروع کرے۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’آج آپ کی کوئی چیز تو نہیں گم ہوئی ہے؟‘‘‘
’’ہوئی تھی…کیا وہ آپ کو ملی ہے؟‘‘ یکدم دانیال سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کے دماغ سے سی وی گم ہو جانے کی بات محو نہیں ہوئی تھی، اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا تھا کہ کس گم شدہ چیز کے بارے میں اس سے پوچھا جا رہا ہے۔
’’کیا چیز گم ہوئی تھی؟‘‘ ریشم نے پوچھا۔
’’میرا سی وی گم ہو گیا تھا۔ میں ایک اہم انٹرویو کے لئے مضبوط امیدوار تھا۔ وہ نوکری مجھے ضرور مل جاتی لیکن عین وقت پر مجھے فائل سے سی وی ہی نہیں ملا اور مجھے اس انٹرویو سے یہ کہہ کر باہر کر دیا گیا کہ میں غیر ذمہ دار شخص ہوں اور میں غریب پریشان رہا کہ سی وی کہاں گیا۔‘‘ دانیال نے مبالغہ سے کام لیتے ہوئے کہا۔
غریب کا سنتے ہی ریشم نے جلدی سے اپنے موبائل فون پر ہاتھ رکھ کر انعم سے سرگوشی کی۔ ’’میں نے کہا تھا نا کہ وہ کوئی غریب ہے۔‘‘ پھر وہ فون پر مخاطب ہوئی۔ ’’وہ سی وی میرے پاس ہے۔‘‘
دانیال کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ ’’آپ کے پاس کیا کر رہا ہے وہ…؟‘‘
ریشم کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دے۔’’کیا ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ سب کیسے ہوا۔‘‘
’’آپ بات کریں، میں بیٹھا ہی ہوا ہوں۔‘‘ دانیال بلا تامل بولا۔
’’میرا مطلب ہے کہ اسی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں، میں آپ کا سی وی لے کر آ جائوں گی۔ کل ٹھیک صبح دس بجے…اوکے۔‘‘ ریشم نے کہہ کر اپنا موبائل فون آف کر دیا کہ وہ اسے کال نہ کر سکے۔
’’دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ وہ غریب ہے، اس نے خود کہا کہ وہ غریب ہے۔ اسی لئے میرا دل بے چین تھا کہ بے چارے کے پاس نیا سی وی نکلوانے کے پیسے بھی ہوں گے کہ نہیں اور افسوس کہ میری وجہ سے وہ انٹرویو نہیں دے سکا، ورنہ وہ نوکری اسے ملنے والی تھی۔‘‘ ریشم پریشان سی ہو کر بیٹھ گئی۔
’’مجھے آج تک تمہاری سمجھ نہیں آئی کہ تم ہو کیا چیز؟‘‘ انعم کو ابھی تک اس کے پاگل پن پر حیرت تھی۔
’’میں لڑکی ہوں اور کیا ہوں۔‘‘
’’عجیب دل ہے تمہارا۔ کبھی پتھر کی طرح سخت اور کبھی ریشم کی طرح نرم۔‘‘ انعم بولی۔
’’کل تیار رہنا، ہم دونوں چلیں گے۔‘‘
’’میں نہیں جائوں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں جائو گی؟‘‘
’’مجھے اپنے نوٹس تیار کرنے ہیں، میں صبح ہی لائبریری چلی جائوں گی، اس لئے میرا جانا مشکل ہے۔‘‘ انعم نے کہا۔
’’میں بھی تمہارے ساتھ ہی نکلوں گی، اس طرح کسی کو پتا نہیں چلے گا کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ تم صبح میری طرف آ جانا۔‘‘
’’لیکن تم نے تو اسے دس بجے کا وقت دیا ہے۔‘‘
’’کچھ وقت لائبریری میں گزار لوں گی اور پھر اس کی طرف چلی جائوں گی۔‘‘ ریشم بولی اور انعم بڑبڑا کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
دانیال نے کئی بار اس نمبر پر فون کیا لیکن دوسری طرف سے وہ نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ دانیال کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسی عجیب لڑکی ہے جس نے اس کا سی وی واپس کرنے کے لئے اسے فون کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سی وی اس کے پاس گیا کیسے؟ یہ لڑکی کون ہے؟
دانیال کڑی سے کڑی ملانے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ پہلے اس نے اس ریسٹورنٹ نا جانے کا فیصلہ کر لیا لیکن پھر اپنا فیصلہ بدل لیا اور ٹھیک دس بجے اس ریسٹورنٹ میں جانے کا ارادہ کر لیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ لڑکی کون ہے اور یہ سب کیسے ہوا تھا؟
دوسرے دن وہ ساڑھے نو بجے گھر سے نکل گیا۔ وہ ٹھیک سے تیار بھی نہیں ہوا تھا۔ اس نے پرانی گھسی ہوئی جینز پہنی ہوئی تھی، جو وہ اکثر گھر میں پہنے رہتا تھا۔ اس کی ٹی شرٹ کے کالر کا رنگ بھی اُڑا ہوا تھا اور جیکٹ بھی پرانی تھی، پیروں میں چپل تھی۔ اس نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ وہ تیار ہو کر جائے۔ صنف نازک سے ملاقات کے لئے وہ قطعاً پُرجوش نہیں تھا۔ وہ تو اس معمّے کا حل جاننے کے لئے جا رہا تھا۔
دانیال نے اپنی بائیک ایک طرف کھڑی کی اور پیدل ہی ریسٹورنٹ کے کھلے آسمان تلے لگی میزوں کی طرف بڑھ گیا۔ چمکدار دھوپ میں براجمان لوگ کھا پی رہے تھے۔
دانیال نے ہر میز پر نظر دوڑائی۔ پھر ایک کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ اچانک ریشم ایک طرف سے نکل کر اس کے سامنے آ گئی۔ وہ پہلے سے وہاں موجود تھی۔ اس نے ایک طرف کھڑے ہو کر دانیال کا جائزہ لیا تھا کہ آیا وہ اکیلا ہی آیا ہے؟ دانیال کے کپڑوں کو دیکھ کر اسے اس پر ترس آ گیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ واقعی غریب لڑکا ہے۔ اس کے پرانے کپڑے اس بات کے غماز تھے۔
’’شکر ہے آپ وقت پر آ گئے۔‘‘ ریشم نے پاس جاتے ہی کہا۔
دانیال اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’آپ نے بلایا تو میں آ گیا۔‘‘
ریشم کرسی پر بیٹھی تو دانیال بھی بیٹھ گیا۔ وہ مسلسل اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ ریشم نے اپنے بیگ سے اس کا سی وی نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’آپ کا سی وی۔‘‘
’’یہ آپ تک پہنچا کیسے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔
’’ایک شرط پر بتائوں گی کہ آپ ناراض نہیں ہوں گے۔‘‘
’’بتائیں۔‘‘ وہ جاننے کیلئے بے چین تھا۔
جواب میں ریشم نے بتایا کہ وہ سی وی اس تک کیسے پہنچا۔ جسے سن کر دانیال کو کوئی غصہ نہیں آیا۔ عجیب بات تھی کہ وہ آنے سے پہلے یہ ارادہ کر کے آیا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ اس لڑکی نے اس کا سی وی شرارتاً غائب کیا تھا تو وہ اسے کھری کھری سنانے میں کسی تامل سے کام نہیں لے گا لیکن ریشم کو دیکھتے ہی اس کا غصہ جانے کہاں کافور ہو چکا تھا۔
’’کل آپ انٹرویو نہیں دے سکے۔‘‘ سب کچھ بتانے کے بعد اس نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ دانیال نے کھوئے انداز میں نفی میں سر ہلا دیا۔
’’آپ فون پر کہہ رہے تھے کہ آپ غریب ہیں، ویسے آپ کپڑوں سے غریب لگ بھی رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے آپ کا انٹرویو رہ گیا لیکن آپ فکر نہ کریں، آپ کی نوکری کا میں بندوبست کروں گی۔‘‘
دانیال کو اس کی باتیں سن کر بڑی حیرت ہو رہی تھی۔ اس نے اسے غریب کہا تھا اور پھر اس کے کپڑوں کے بارے میں اظہار کیا تھا۔ اس نے فوراً اپنا جائزہ لیا۔ حیرت تو اسے اس بات کی ہو رہی تھی کہ اس نے انکساری سے خود کو غریب کہہ دیا تھا اور وہ لڑکی واقعی اسے غریب سمجھ بیٹھی تھی اور رہی سہی کسر اس کے کپڑوں نے پوری کر دی تھی۔
’’یہ سی وی آپ مجھے دے دیں۔ سمجھ لیں کہ آپ کی نوکری کا بندوبست ہو گیا۔ میں آپ کو تنخواہ بھی اچھی دلوا دوں گی۔‘‘ ریشم نے کہہ کر اس کے ہاتھ سے سی وی لے لیا اور اپنے بیگ میں رکھ کر کھڑی ہو گئی۔
دانیال اسے حیرت سے دیکھے جا رہا تھا۔ پھر ریشم نے اپنے پرس سے سو کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے ذرا جلدی ہے، محسوس نہ کیجئے گا، آپ کچھ کھا پی لیں۔ آپ کی پریشانی مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی۔‘‘ ریشم نے سو کا نوٹ میز پر پڑی نمک دانی کے نیچے رکھا اور تیزی سے چلی گئی جبکہ دانیال کے چہرے پر حیرت ایسے برس رہی تھی کہ موسلادھار بارش بھی کیا برستی ہو گی…! (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS