سہ پہر کا ایک گرم دِن تھا۔ دِن بھر لو چلنے کے بعد فضا میں گرمی اور حبس کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ دل مراد بھی ایک حبس زدہ کوٹھری میں سلاخ دار دروازے کے قریب بیٹھا تھا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ وہ دُوسرے قیدیوں سے اَلگ تھلک ہمیشہ دروازے کے قریب، مایوس، خاموش اور غم زدہ سا، کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بیٹھا رہتا تھا۔ اس کی یہ عادت دیکھ کر اکثر اس کا کوئی ساتھی قیدی اس پر پھبتی بھی کس دیتا۔ ’’لگتا ہے تجھے پروانۂ راہداری کی زیادہ جلدی ہے۔‘‘
دل مراد اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا، مگر اچانک اُسے ایک آواز پر اپنا دھیان مرکوز کرنا پڑا۔ بہت دھیمی آواز تھی۔ اُس نے آواز کی سمت دیکھا۔ یہ اس کے کسی قیدی ساتھی کی سرگوشی نہ تھی، بلکہ دروازے کے باہر اور بہت قریب سے اُبھری تھی۔ اس نے اپنا جھکا ہوا سر اُٹھا کر اُوپر دیکھا۔
وہ لعل بخش نامی سپاہی تھا جو دروازے کے قریب آکر پہلے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ پھر ایک نظر بیرک میں ڈالی۔ چند قیدی تھے، جو ایک کونے میں دائرہ بنائے تاش کھیلنے میں مگن تھے۔ ساتھ ہی ہنسی مذاق بھی کرتے جاتے تھے۔ چند ایک کی مٹھی میں بیڑیاں بھی دبی ہوئی تھیں۔ یہ ان پر جیلر کی خاص مہربانی کا ثمر تھی۔
’’تمہارے لیے ایک خوش خبری ہے، لیکن خبردار…! ابھی کسی سے اس کا ذکر مت کرنا۔‘‘ کسی مہربانی کے طفیل سپاہی لعل بخش نے اسے اطلاع دی تو دل مراد کو حیرت آمیز خوشی محسوس ہوئی۔
’’تم عنقریب رہا ہونے والے ہو۔‘‘ سپاہی نے اپنی بات مکمل کی۔
’’میں رہاہونے والا ہوں؟ عنقریب؟‘‘ غیر یقینی انداز میں دل مراد نے بھی آہستگی سے کہا۔ جانے کیوں لعل بخش کو اس کے لہجے میں طنز سا محسوس ہوا تھا۔ وہ بولا۔ ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ابھی میری رہائی میں پورے دو سال اور تین مہینے باقی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا۔ اب دونوں مقابل تھے۔ درمیان میں صرف لوہے کی سلاخیں تھیں۔
’’ہشت…!‘‘ سپاہی لعل بخش نے اسے سرگوشی میں تنبیہ کی۔ ’’مجھے معلوم ہے لیکن پچھلے ہفتے تم نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس سے خوش ہوکر جیل کے حکام نے سفارش کی ہے کہ تمہاری باقی سزا معاف کر دی جائے۔‘‘
’’تمہیں یہ بات کس طرح معلوم ہوئی؟‘‘ دل مراد نے پوچھا۔ اس کے چہرے پر اب خوشی کا رنگ جھلکنے لگا تھا۔
’’میں نے وارڈن سخی خان اور اس کے نائب نذیر کو آپس میں گفتگو کرتے سُنا تھا۔‘‘ لعل بخش نے بتایا۔ ’’انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں کھڑکی کے پیچھے موجود ہوں۔ وہ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ اس کارنامے پر تمہاری رہائی کی سفارش کی جائے۔ سخی خان نے اپنے نائب نذیر کو ہدایت کی کہ وہ آج ہی اس سلسلے میں خط تیار کرلے۔ اب تک وہ خط بھیجا جا چکا ہوگا۔ اور تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہو کہ جیل کا حاکم اگر معقول اور ٹھوس بنیادوں پر کسی قیدی کی سزا میں کمی کے لیے اُوپر سفارش کرے تو عام طور پر اس کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔‘‘
’’اگر ایسا ہے تو میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھوں گا۔‘‘ دل مراد نے کہا۔ ’’لیکن میں نہیں سمجھتا کہ میں نے کوئی اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی بنا پر مجھے دو سال کی معافی کا مستحق قرار دیا جا سکے۔‘‘
’’تم اب خواہ مخواہ کسر نفسی سے کام لے رہے ہو۔‘‘ لعل بخش نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’بھلا اس وقت اگر تم غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ نہ کرتے تو کیا ہوتا؟ ذرا اس بھیانک انجام کے بارے میں سوچو…!‘‘
’’بات یہ ہے لعل بخش کہ ایسے موقعوں پر کسی نہ کسی کو تو بہادری کا مظاہرہ کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ دل مراد نے آہستہ سے کہا۔ ’’اب یہ الگ بات ہے کہ اتفاق سے وہ آدمی میں تھا یا پھر شاید میں جوش جذبات میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔‘‘
’’بہرحال! تم ابھی کسی سے اس بات کا ذکر مت کرنا۔‘‘ لعل بخش نے دوبارہ رازدارانہ انداز میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جب کوئی عملی قدم اُٹھایا جائے گا تو سب کو پتا چل جائے گا۔ میں نے تمہیں اعتماد میں لے کر یہ بات بتا دی ہے۔‘‘
’’بہت شکریہ، لعل بخش!‘‘ دل مراد نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ممنونیت سے کہا۔ ’’تم ایک اچھے پولیس مین ہی نہیں، ایک اچھے انسان بھی ہو۔‘‘ کہتے ہوئے مراد آہستہ سے دوستانہ انداز میں مسکرایا تھا۔
اس روز جو کچھ ہوا تھا… اس کے بارے میں دل مراد نے سوچا تک نہ تھا کہ اس کا نتیجہ اس صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔
٭…٭…٭
دل مراد جب سزا یاب ہو کر جیل میں آیا تھا تو اس وقت اسے اپنی سزا یابی سے کہیں زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ افیون کے بغیر جیل میں گزارہ کیسے ہوگا؟ وہ ایک عرصے سے اس نشے کا عادی تھا۔ سُنا تھا کہ جیل میں ایسی چیزیں ’’دستیاب‘‘ ہو جاتی ہیں مگر بڑے قیدیوں کو، اس جیسے عام قیدی کو نہیں۔ اگرچہ وہ اس کی زیادہ مقدار استعمال نہیں کرتا تھا، تاہم افیون اس کی زندگی کا جزو بن گئی تھی۔
جیل میں چند دن گزارنے کے بعد اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ اگر پیسوں کا بندوبست کر دیا جائے تو افیون دستیاب ہونا کچھ مشکل نہیں ہے۔
اس کے ایک ساتھی نے، جس کا نام ارباب عرف بابن تھا اور جو خود بھی افیون کا عادی تھا، اسے سارے راستے بتا دیے تھے اور خود اس وقت تک اسے تھوڑی بہت افیون اپنے پاس سے دیتا رہا جب تک کہ دل مراد نے خود اپنے لیے فراہمی کا بندوبست نہیں کرلیا۔
جیل میں یہ کام وسایو نامی ایک سپاہی انجام دیتا تھا۔ اگرچہ وسایو سپاہی اس معاملے میں تنہا نہیں تھا، لیکن ارباب کا جس سپاہی سے رابطہ تھا وہ وسایو ہی تھا۔ یوں ارباب نے دل مراد کا مسئلہ بھی وسایو کے ذریعے حل کرا دیا۔ ارباب نے اپنے ایک دوست کے ذریعے، جو جیل سے باہر ایک دوسرے شہر میں مقیم تھا، سپاہی وسایو کے لیے رقم کا بندوبست کروا دیا اور وسایو نے اسے باقاعدہ افیون کی فراہمی شروع کر دی۔
دل مراد کو وسایو کی جانب سے افیون کی جو مقدار ملتی تھی وہ اس کے ایک ہفتے کے لیے کافی تھی اور یہ بات ابتدائی دنوں میں ہی ارباب نے اسے بتا دی تھی کہ وہ افیون اپنے پاس نہ رکھے، کیونکہ یہ بات سخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ آئے دن قیدیوں کی تلاشیاں ہوتی رہتی ہیں، اگر کسی قیدی کے قبضے سے کوئی ممنوع اور خاص طور پرکوئی نشہ آور چیز برآمد ہو جائے تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے۔
ارباب نے ہی دل مراد کو وہ خفیہ جگہ بتائی تھی جہاں وہ اپنے اس قیمتی اثاثے کو چھپا کر رکھ سکتا تھا۔ یہ جیل کی ورکشاپ کے وسیع باتھ رُوم میں پائپ کے اندر بنائی ہوئی جگہ تھی اس جگہ کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ باہر سے دیکھنے میں کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔
گزشتہ پانچ سال سے یہ سلسلہ بڑی خوش اُسلوبی سے چل رہا تھا۔ دل مراد کا دوست، وسایو کو رقم فراہم کر دیا کرتا تھا۔ اور وسایو اس کے عوض دل مراد کو پابندی کے ساتھ افیون مہیا کر دیتا۔ ہر ہفتے کا ’’راشن‘‘ دل مراد کو بروقت مل جاتا اور وہ اسے ورکشاپ کے باتھ رُوم کے پائپ میں چھپا دیتا تھا۔
دل مراد گزشتہ برسوں سے اس پر عمل کرتا چلا آیا تھا۔ وہ آج تک پکڑا نہیں گیا تھا۔ کسی کو اس کی خبر نہیں لگ سکی تھی لیکن ارباب اور وسایو جانتے تھے کہ دل مراد اپنا ’’راشن‘‘ کہاں رکھتا ہے۔
دل مراد جب جیل آیا تھا، اس نے اس بات کی دانستہ طور پر کوشش کی تھی کہ وہ افیون کی مقدار میں کمی کرے۔ اس کی دلی خواہش تو یہی تھی کہ وہ اس نشے کو بالکل ترک کر دے لیکن اسے معلوم تھا کہ ایسا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس نے کوشش کی تھی، لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ جیل آنے کے بعد اس نے نشہ ترک کرنے کے بجائے اس میں کمی کرنے کی کوشش کی اور تب یہ دیکھ کر اسے حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ وہ اپنی کوشش میں کافی حد تک کامیاب رہا تھا۔ یوں… اب گزشتہ کئی برسوں سے اس نے افیون کے استعمال میں کافی کمی کر دی تھی۔
ارباب نے اسے شروع میں جو مشورہ دیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ دل مراد کو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا گیا تھا۔ جیل میں واقعی اکثر قیدیوں کی تلاشی ہوتی رہتی تھی اور جیل حکام منشیات کے معاملے میں بہت زیادہ حساس تھے۔ وہ بڑی سختی برتتے تھے۔ اگر کسی قیدی کے پاس سے کوئی نشہ آور شے برآمد ہو جاتی تو اسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا لیکن دل مراد کے قبضے سے کبھی کوئی نشہ برآمد نہیں ہوا تھا۔
پیر کا دن تھا اور آج ہی وسایو نے دل مراد کا ’’راشن‘‘ لا کر دیا تھا۔ دل مراد نے ’’راشن‘‘ کو فوراً ہی اس کی مقررہ جگہ پر چھپا دیا تھا اور اس کے بعد وہ ورکشاپ میں کام کرنے میں مشغول ہوگیا تھا۔
گزشتہ برسوں کے دوران اس نے مشینوں پر کئی کام سیکھے تھے۔ اور اب تو ایک اچھا خاصا کاریگر بن گیا تھا۔ جیل میں رہنے سے اگر اسے کوئی فائدہ ہوا تھا تو وہ یہی تھا کہ وہ مشینوں پر کام کرنے کی وجہ سے بہت سی نئی باتیں سیکھ گیا تھا۔
کچھ دن پہلے لنچ کے وقفے سے پہلے وارڈن سخی خان اور اس کا نائب نذیر ورکشاپ کے معائنے کے لیے آئے تھے۔ سخی خان ایک تندخو اور سخت گیر آدمی تھا اور وہ قیدیوں سے کھلم کھلا یہ بات کہتا تھا کہ وہ اس سے کسی نرمی یا رعایت کی توقع نہ رکھیں۔
’’تم لوگوں کو قانون نے سزا دی ہے۔‘‘ وہ کہتا۔ ’’اور میرا فرض یہ ہے کہ قانون کی دی ہوئی اس سزا کو عملی صورت دینے میں مدد کروں۔‘‘
سارے قیدی سخی خان کو ناپسند کرتے تھے، لیکن اس سے خائف بھی رہتے تھے۔
’’یہ تم کیا کر رہے ہو دل مراد…؟‘‘ سخی خان نے دل مراد کے قریب آ کر اس سے پوچھا۔ وہ ایک مشین پر کام کر رہا تھا۔
’’یہ الیکٹرک جنریٹر کا ایک حساس پرزہ ہے۔‘‘ دل مراد نے اسے بتایا۔ ’’اور… میں اسے چیک کر رہا ہوں۔‘‘
سخی خان نے آہستہ سے سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا۔ نذیر اس کے ساتھ تھا۔ دل مراد کی نگاہیں ان دونوں کا تعاقب کر رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد دل مراد نے وارڈن سخی خان کو ورکشاپ کے باتھ رُوم کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے دیکھا۔ اس کا دل سینے میں تیزی سے دھڑکنے لگا۔ سخی خان اندر داخل ہونے سے پہلے اپنے نائب نذیر کی طرف مڑا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’میں چند منٹ میں آتا ہوں۔ تم جب تک اپنا رائونڈ مکمل کرلو۔‘‘
نذیر نے ہولے سے اپنی گردن کو اَثبات میں جنبش دی اور آگے بڑھ گیا۔
سخی خان کو اندر گئے ہوئے بمشکل ابھی دو منٹ گزرے ہوں گے کہ اچانک ورکشاپ کے اس حصے میں جو باتھ رُوم کے قریب تھا، ایک ہلکے سے دھماکے کی آواز سُنائی دی اور پھر فوراً ہی شعلے بھڑکنے لگے۔ کسی جگہ شارٹ سرکٹ ہوگیا تھا۔
آگ اس قدر تیزی سے پھیلنے لگی کہ لوگ بدحواس ہوگئے اور اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ ورکشاپ کے ایک فورمین نے جلدی سے آگے بڑھ کر آگ بجھانے والے سلنڈر سنبھالے اور چند دُوسرے لوگ اس کی مدد کرنے لگے۔ لیکن آگ کم ہونے کے بجائے مزید پھیلتی جا رہی تھی۔
اس افراتفری کے دوران کسی کو یہ یاد نہیں رہا کہ سخی خان باتھ رُوم کے اندر موجود ہے جس کا دروازہ اب پوری طرح آگ کی زَد میں تھا۔ دل مراد کو بھی اس بات کا خیال نہیں رہا تھا کہ سخی خان باتھ رُوم کے اندر موجود ہے لیکن وہ یہ نہیں بھولا تھا کہ اس کا افیون کا ’’راشن‘‘ جو آج ہی اسے وسایو سے ملا تھا، باتھ رُوم کے پائپ میں رکھا ہے اور آگ مزید بھڑک کر باتھ رُوم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی تو اس کا راشن بھی جل کر ختم ہو جائے گا۔ پھر یہ ہفتہ کیسے گزرے گا؟ صرف یہی ایک خیال تھا جس نے اسے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر باتھ رُوم کے اندر گھسنے پر مجبور کر دیا۔
اس نے جلدی سے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور فوراً ہی ایک بھاری ہتھوڑا اس کے ہاتھ میں آگیا۔ وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکا۔ اس وقت دروازہ آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا اور باتھ روم کے اندر جانا سخت خطرناک تھا۔
’’رُک جائو دل مراد…!‘‘ فورمین دھنی بخش نے چلّا کر کہا۔ ’’کیا بے وقوفی کر رہے ہو؟‘‘ لیکن اس وقت تک دل مراد جلتے ہوئے دروازے پر ہتھوڑے کی ایک بھرپور ضرب لگا چکا تھا جس نے دروازے کو ہلا کر رکھ دیا۔
ورکشاپ میں ایک غدر مچا ہوا تھا۔ جہاں جہاں بجلی کے تار تھے وہاں اکثر جگہوں سے شعلے نکلنے لگے تھے۔ ایک طرف پلاسٹک کا بہت سا سامان رکھا ہوا تھا جو فوراً ہی بھڑک کر جلنے لگا تھا۔ دُوسری جانب رکھے ہوئے تیل کے ڈبوں میں آگ تیزی سے پھیلتی جارہی تھی۔
دل مراد کے ہتھوڑے کی دُوسری ضرب نے دروازے کو اس کی جگہ سے مزید ہلایا اور تیسری ضرب میں دروازہ ٹوٹ کر دُوسری طرف جا گرا۔ اندر دُھواں بھرا ہوا تھا اور کئی جگہ سے شعلے نکل رہے تھے۔
دھویں کی وجہ سے اگلے چند لمحوں تک اندر کا منظر ٹھیک دیکھ نہیں سکا۔ سوائے اس کے کہ جگہ جگہ شعلے بھڑک رہے تھے اور آگ لگی ہوئی تھی۔ تب اچانک اس کی نظروں کے سامنے وارڈن سخی خان کا ہیولا نمودار ہوا۔ سخی خان کے وجود کا احساس اسے اس کی کھانسی سے ہوا۔ وہ بُری طرح کھانس رہا تھا۔
دل مراد نے جلدی سے زمین پر گرے ہوئے جلتے دروازے کو پھلانگ کر ، سخی خان کو سہارا دیا۔ اس وقت تقریباً سارا باتھ رُوم شعلوں کی زَد میں تھا اور اس پائپ کے قریب بھی آگ بھڑک رہی تھی جس میں دل مراد کا ’’راشن‘‘ رکھا ہوا تھا۔ آگ سخی خان کے اتنے قریب آ گئی تھی کہ اگر وہ اسے پکڑ کر اپنی طرف نہ کھینچ لیتا تو اس کے لباس میں آگ لگ جاتی۔
دل مراد، سخی خان کو گھسیٹتا ہوا تیزی کے ساتھ باتھ رُوم سے باہر آیا۔ اسے ایک بار پھر جلتے ہوئے دروازے کو پھلانگ کر آنا پڑا، لیکن اس بار وہ تنہا نہیں تھا۔ اسے اپنے ساتھ سخی خان کو بھی سہارا دینا تھا۔ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔
سخی خان نے بھی اپنے طور پر جدوجہد کی اور وہ دونوں آگ کے اُوپر سے کسی نہ کسی طرح پھلانگتے ہوئے باتھ رُوم سے باہر نکل آئے۔ اس وقت تک زیادہ تر لوگ ورکشاپ سے باہر بھاگ چکے تھے اور پوری ورکشاپ آگ کی لپیٹ میں آگئی تھی۔
دل مراد کو اب واقعی اپنی جان خطرے میں نظر آ رہی تھی۔ ورکشاپ کے دونوں دروازے اَلائو کی طرح جل رہے تھے۔ تاہم وہ کسی نہ کسی طرح سخی خان کو ورکشاپ سے باہر نکال لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
دل مراد نے اپنے چہرے کو پوری طرح بچایا ہوا تھا تاہم اس کے سر کے بال کافی جل گئے تھے۔ دونوں ہاتھ بھی آگ کی زَد میں آگئے تھے۔ البتہ یہ ایک دلچسپ اتفاق تھا کہ وارڈن سخی خان جلنے سے محفوظ رہا تھا۔
جس وقت دل مراد، سخی خان کے بے ہوش جسم کو سنبھالے ہوئے ورکشاپ سے باہر نکلا تو سخی خان کے نائب نذیر نے آگے بڑھ کر سہارا دیا۔ سخی خان مسلسل کھانسے جارہا تھا اور اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔
یہی وہ وقت تھا جب فائر بریگیڈ کے انجنوں کے سائرن کی آوازیں سُنائی دینے لگیں۔
٭…٭…٭
’’تمہیں کچھ نہیں ہوا سخی خان…!‘‘ ڈاکٹر اظہر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تم بالکل ٹھیک ہو، شکر کرو کہ تم بچ گئے۔‘‘
’’مجھے بچانے والا دل مراد ہے، ڈاکٹر!‘‘ یہ کہتے ہوئے سخی خان نے دل مراد کی طرف متشکرانہ نظروں سے دیکھا جو اس کے قریب ہی ساتھ والے بیڈ پر دراز تھا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’صرف اسی کو معلوم تھا کہ میں اس وقت باتھ رُوم کے اندر موجود ہوں۔ باتھ رُوم کا دروازہ اس قدر تیزی کے ساتھ جلنے لگا تھا کہ میں اسے کھولنے کے لیے اس کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ باتھ رُوم میں اور بھی کئی جگہوں پر شعلے بھڑکنے لگے تھے اور اس قدر دُھواں بھر گیا تھا کہ میرا دم گھٹنے لگا اور مجھ پر نیم غشی سی طاری ہونے لگی۔ میں نے کئی بار دروازے تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن مجھے کامیابی نہیں حاصل ہو سکی۔ دروازے سے نکلنے والے شعلے میری طرف لپک لپک کر مجھے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر! مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے۔‘‘
’’دل مراد نے واقعی تمہیں یاد رکھا۔‘‘ ڈاکٹر اظہر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اور… صرف یاد ہی نہیں رکھا، بلکہ غیرمعمولی حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کر کے اس نے تمہاری جان بچانے کی خاطر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا۔ اگر وہ دروازہ نہ توڑتا تو عین ممکن تھا کہ تم دَم گھٹنے سے ہلاک ہو جاتے۔‘‘
’’اوہ… میرے خدا…!‘‘ سخی خان نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں ڈاکٹر نہیں، فی الحال میرا مرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے مسکرا دیا۔ دل مراد نے اس سے پہلے شاید ہی کبھی سخی خان کو مسکراتے ہوئے دیکھا ہو۔
’’تم معمولی طور پر زخمی ہوئے ہو مراد!‘‘ ڈاکٹر اظہر نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے جلے ہوئے بالوں کو کاٹ دوں گا اور تمہارے بازوئوں پر جلنے کے جو زخم آئے ہیں، وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
’’مراد!‘‘ سخت گیر سخی خان نے نرم اور شیریں لہجے میں دل مراد سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’میں تمہارا واقعی بے حد شکر گزار ہوں اور ایک بار پھر یہی کہوں گا میں کہ تم وہ واحد آدمی ہو جس نے یہ یاد رکھا کہ میں مصیبت میں ہوں اور مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ تم نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر میری جان بچائی ہے۔‘‘
دل مراد کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ بڑے زور سے قہقہہ لگائے اور چلّا چلّا کر سخی خان سے کہے۔ ’’ارے بے وقوف! نامعقول انسان، بھلا مجھے کیا غرض پڑی تھی کہ میں تم جیسے منحوس انسان کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتا؟ میں تو اپنی افیون بچانے کے لیے باتھ رُوم کے اندر گھسنا چاہتا تھا تاکہ میرا قیمتی ذخیرہ جل نہ جائے اور اسی لیے میں نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر باتھ رُوم کے جلتے ہوئے دروازے کو توڑا تھا۔ مجھے تو یہ یاد ہی نہیں تھا کہ وہاں تم موجود ہو۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اس بات کو زیادہ پسند کرتا کہ افیون کے راشن کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی اندر ہی جل جانے دوں۔‘‘
لیکن… اس کے بجائے اس نے جو بات کہی وہ بالکل مختلف تھی۔
’’میں نے آپ کو باتھ رُوم کے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا، سرکار سائیں!‘‘ اس نے بردباری سے کہا۔ ’’آپ کو یاد ہوگا صرف ایک منٹ پہلے آپ مجھ سے میرے کام کے بارے میں پوچھ کر گئے تھے۔ اور مجھے یہ بھی یاد تھا کہ آپ ابھی تک باتھ رُوم سے باہر نہیں نکلے ہو۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ میں وہاں آپ کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ میں جانتا تھا کہ آپ جلتے ہوئے دروازے کو کھول کر باہر نہیں آ سکتے اور دروازے کو اندر سے توڑنا بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ کام صرف باہر سے ہی انجام دیا جا سکتا تھا۔‘‘
اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم ڈاکٹر اظہر نے مراد کو اسپتال میں داخل کرلیا۔ اس کے ہاتھوں میں معمولی زخم تھے، اور اس کے علاوہ کوئی اور تکلیف نہیں تھی، وہ سارا دن اسپتال میں اِدھر اُدھر گھومتا اور دُوسرے قیدی مریضوں سے، جو واقعی بیمار تھے گپیں ہانکتا رہا۔
اس کا ’’راشن‘‘ تو جل کر تباہ ہوگیا تھا لیکن وسایا نے اس پر مہربانی کی تھی۔ اس نے اسے مزید ’’راشن‘‘ فراہم کر دیا تھا اور مراد نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے دوست کے ذریعے اس فاضل کوٹے کی قیمت ادا کر دے گا۔
لیکن اب ایک اور مسئلہ درپیش تھا۔ اسے افیون کو چھپانے کے لیے کسی اور مناسب جگہ کی تلاش تھی۔ پرانی جگہ تو ختم ہوگئی تھی، جلی ہوئی ورکشاپ کو بند کر دیا گیا تھا اور اب اسے نئے سرے سے تعمیر کیا جانا تھا۔ اس ورکشاپ میں کام کرنے والے قیدیوں کو دُوسرے کاموں پر لگا دیا گیا تھا۔ چنانچہ فی الحال مراد نے افیون کو اپنے پاس ہی رکھا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ اسپتال میں کوئی اس کی تلاشی لینے کے لیے نہیں آئے گا۔
٭…٭…٭
’’تم نے اس کو کیوں بچا لیا تھا مراد…؟‘‘ سکندر نامی ایک قیدی مریض نے ایک دن سرگوشی میں اس سے کہا۔ ’’اس کو بچانے کے چکر میں تم اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتے تھے۔‘‘
’’چھوڑ یار سکو!‘‘ مراد نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’وہ لاکھ بُرا سہی لیکن ہے تو انسان، اور اگر وہ مر جاتا تو ہمیں کیا ملتا؟ کیا تم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ اس کی جگہ آنے والا دُوسرا آدمی اس سے بہتر ہوتا…؟‘‘ بڑی چالاکی سے روایتی بات کہہ کر اس نے سکندر کا منہ بند کر دیا۔
چار دن کے بعد مراد کو اسپتال سے چھٹی مل گئی اور وہ واپس اپنی کوٹھری میں آگیا، جہاں وہ دُوسرے قیدیوں کے ساتھ رہتا تھا لیکن ڈاکٹر نے اسے فی الحال تین ہفتے کی چھٹی دے دی تھی اور اسے اب کوئی کام نہیں کرنا تھا۔ ڈاکٹر اظہر نے کہا تھا کہ تین ہفتے کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو وہ اس کی چھٹی میں مزید اضافہ کر دے گا۔
٭…٭…٭
دل مراد کو جب جیلر کے کمرے میں طلب کر کے رہائی کا مژدہ سُنایا گیا تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
’’میں نے اعلیٰ حکام سے تمہاری سفارش کی تھی کہ باقی سزا معاف کر دی جائے، کیونکہ تم نے جیل میں رہتے ہوئے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی توقع بہت کم قیدیوں سے کی جا سکتی ہے۔‘‘ جیلر سخی خان کے سخت اور سرد چہرے پر نرم سی مسکراہٹ مراد کو بڑی عجیب سی محسوس ہوئی تھی۔
’’میرے نائب نذیر نے بھی میری رائے سے پورے طور پر اتفاق کیا تھا۔‘‘ اس نے نذیر کی طرف دیکھا جو اس کے قریب ہی کرسی پر بیٹھا تھا اور اس نے فوراً اپنے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے اس کی بات کی تائید کی تھی۔
’’مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ اعلیٰ حکام نے میری سفارش کو منظور کر لیا ہے اور تمہاری دو سال کی سزا کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ سخی خان نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تم اب آزاد ہو، اور میری طرف سے رہائی کی مبارکباد قبول کرو۔ اُمید ہے کہ تم آئندہ زندگی اس طرح گزارو گے کہ دوبارہ تمہیں اس جگہ نہیں آنا پڑے گا۔‘‘
’’بہت شکریہ سائیں سرکار!‘‘ مراد نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔ ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایک اچھے اور قانون پسند شہری کی حیثیت سے زندگی گزاروں گا۔‘‘
٭…٭…٭
دل مراد جب جیل کے دروازے سے باہر نکلا تو اس کی آنکھیں جیسے ایک دَم چُندھیا گئیں۔ باہر زندگی اپنے پورے حسن کے ساتھ جاری تھی۔ ہر طرف رونقیں ہی رونقیں تھیں۔ لوگوں کے ہنستے مسکراتے چہروں پر جیسے کائنات کی ساری خوشیاں رقص کر رہی تھیں اور وہ خود… وہ خود ان ساری چیزوں سے پورے پانچ سال تک محروم رہا تھا اور اتفاق سے اس دن ورکشاپ میں آگ لگنے کا حادثہ پیش نہ آجاتا اور اگر اتفاق سے وہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا جو ہوا تھا تو ابھی مزید دو سال تک وہ آزاد زندگی کی نعمتوں اور مسرتوں سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا تھا۔
پانچ سال… پورے پانچ سال کی مدت اس کی زندگی سے نکل کر نہ جانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔ یہ وہ سال تھے جو اس کے ہوتے ہوئے بھی اس کے اپنے نہیں تھے۔ کسی اَن دیکھے ہاتھ نے گویا ان ماہ و سال کو اس کی زندگی سے کاٹ کر الگ کر دیا تھا۔
اور اس کا ذمہ دار مشوری خاں تھا۔ جو ان کا دوست بھی تھا اور دُشمن بھی اور اپنی گرفتاری اور پھر سزایابی کے وقت مراد نے قسم کھائی تھی کہ وہ رہا ہونے کےبعد مشوری خاں سے بدلہ ضرور لے گا۔
’’تم یقین رکھو سوہنی…!‘‘ اس نے اپنی جانِ تمنّا کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اس بدبخت مشوری خاں نے جو کیا ہے، اس کے لیے میں اسے بخشنے والا نہیں ہوں۔ اسے اپنے کیے کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ آج نہیں تو کل… میں کبھی نہ کبھی تو واپس آئوں گا۔‘‘
’’میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی مراد!‘‘ سوہنی نے سسکیاں لیتےہوئے کہا۔ ’’تم سات سال کے لیے جیل جا رہے ہو، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں یہ عرصہ تمہارے بغیر کس طرح بِتائوں گی۔‘‘
’’میں جیل ہی تو جا رہا ہوں! مجھے کوئی پھانسی تو نہیں دی جا رہی۔‘‘ دل مراد نے آہستگی سے کہا۔ ’’سات سال کا عرصہ اگرچہ بہت طویل معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ اتنا طویل بھی نہیں، تم دیکھنا، کس طرح دیکھتے دیکھتے یہ وقت گزر جائے گا اور ہم دونوں ایک بار پھر ایک ہو جائیں گے اور میں اسی شہر میں ہی ہوں۔ تم جب چاہو جیل میں مجھ سے ملنے آ سکتی ہو۔‘‘
’’میں کوشش کروں گی کہ تم سے زیادہ سے زیادہ ملاقات کروں۔‘‘ سوہنی نے روتے ہوئے اس کے کاندھے پر سر رکھ دیا تھا۔
دل مراد کو یہ سوچ کر بہت افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنے آپ اور سوہنی سے مشوری کے سلسلے میں جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کرنے سے قاصر تھا، کیونکہ وہ اب مشوری خاں سے بدلہ لے سکتا تھا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا تھا۔
اس کی سزایابی کے بعد تقریباً دو سال تک سوہنی پابندی سے اس سے
ملاقات کے لیے آتی رہی۔ ہر ملاقات میں وہ اسے یہ یقین دلاتی تھی کہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہے اور جب وہ قید سے چھوٹ کر آئے گا تو وہ دونوں شادی کر لیں گے اور اس کے بعد اس شہر کو چھوڑ کر کہیں بہت دُور چلے جائیں گے اور سکون و اطمینان کی زندگی گزاریں گے۔
لیکن دل مراد کہتا تھا کہ وہ اس وقت تک سکون اور اطمینان کا سانس نہیں لے سکتا جب تک وہ مشوری خاں کو اس کے کیے کی سزا نہ دے دے۔
’’میں نے یہ بات تم سے شروع میں بھی کہی تھی سوہنی! اور اب اسے پھر دُہرانا چاہتا ہوں کہ جب تک مشوری زندہ ہے، میں سکون کا سانس نہیں لے سکتا۔ مجھے اسے ختم کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر سکوں گا۔‘‘
’’مشوری خاں نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس کے لیے اسے معاف نہیں کیا جا سکتا مراد!‘‘ سوہنی نے اس کی طرف آنکھیں جھپکا کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم اسے قتل کرنے کے بارے میں مت سوچو مراد! یہ بڑا بھیانک قدم ہوگا۔ مجھے ڈر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کی عوض پھر کسی بڑی مصیبت میں پھنس جائو۔‘‘
’’میں نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں سوہنی!‘‘ مراد نے ہنس کر کہا۔ ’’اس بار میں صرف اس وجہ سے پکڑا گیا تھا کہ مشوری نے میرے ساتھ غدّاری کی تھی جبکہ میں نے اس پر اعتماد کیا تھا لیکن آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بار کا سبق میرے لیے بہت کافی ہے۔‘‘
پھر ایک دن سوہنی آئی تو وہ بڑی خوش نظر آرہی تھی۔ وہ بولی۔ ’’میرے پاس تمہارے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے مراد!‘‘
’’خوش خبری!‘‘ مراد نے چونک کر کہا۔ ’’بھلا کیا خوش خبری ہو سکتی ہے۔ ذرا جلدی سے سُنا ڈالو۔‘‘
’’خوش خبری یہ ہے کہ مشوری خاں مر گیا ہے۔‘‘ سوہنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو رہا تھا۔
’’کیا…؟‘‘ مراد اپنی جگہ اُچھل پڑا۔ ’’تم نے کیا کہا؟ مشوری مر گیا ہے اور تم اسے خوش خبری کہہ رہی ہو؟‘‘
’’ہاں، مراد!‘‘ سوہنی کے لہجے میں خوشی بدستور برقرار تھی۔ ’’مشوری مر گیا۔ وہ اچانک بیمار ہوا اور کسی اسپتال میں داخل ہوا۔ اسی اسپتال میں اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ دیکھو اخبار، اس میں اس کی موت کی خبر چھپی ہے۔‘‘
سوہنی نے اپنے پرس سے ایک اخبار نکال کر مراد کے سامنے کر دیا۔ اس میں ایک چھوٹی سی خبر کے گرد لال نشان لگا ہوا تھا۔ مراد نے اس خبر کو پڑھا اور پھر اخبار سوہنی کو واپس دیتے ہوئے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔ ’’مجھے اس خبر سے کوئی خوشی نہیں ہوئی سوہنی!‘‘
’’مگر کیوں مراد؟‘‘ سوہنی نے حیرت سے کہا۔ ’’وہ ہمارا دُشمن تھا۔ اس کی بدعہدی اور غداری کے باعث تمہیں سزا بھگتنی پڑرہی ہے۔ اس کا مر جانا ہم دونوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘
’’نہیں سوہنی!‘‘ مراد نے کہا۔ ’’اس کا زندہ رہنا ضروری تھا کم از کم میرے لیے۔ میں اسے اپنے ہاتھوں سے ہلاک کرتا۔ یہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ وہ قدرتی موت مر گیا۔ اسے تو کوئی سزا نہیں ملی۔‘‘
’’چھوڑو مراد!‘‘ سوہنی نے کہا۔ ’’جو آدمی مر گیا۔ اس کے لیے کیسی سزا؟ کیا یہ سزا کچھ کم ہے کہ وہ زندگی جیسی نعمت سے محروم ہوگیا؟‘‘
اس روز جب سوہنی رُخصت ہوئی تو وہ بہت خوش تھی لیکن دل مراد کو فی الحقیقت کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی۔ وہ مشوری کو اپنے ہاتھ سے سزا دینا چاہتا تھا۔ اسے اپنے سامنے گڑگڑاتا اور بے چارگی کے عالم میں ہاتھ پیر مارتا دیکھنا چاہتا تھا۔
کچھ دنوں کے بعد جب سوہنی اس سے ملنے کے لیے آئی تو اس نے اسے بتایا کہ اس وقت جس فرم میں وہ ملازمت کررہی ہے۔ وہ اسے ایک دُوسرے شہر میں بھیج رہی ہے۔
’’ان لوگوں کا خیال ہے کہ میں اپنے کام میں دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ ماہر ہوں۔‘‘ سوہنی نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ’’اور میں وہاں جا کر دُوسرے زیرتربیت افراد کو بہتر تربیت فراہم کر سکتی ہوں۔ ممکن ہے یہ ان لوگوں کی محض خوش فہمی ہو۔‘‘ وہ شوخی سے مسکرائی۔ ’’بہرحال… مجھے اب کچھ عرصے کے لیے اس شہر سے جانا ہوگا۔‘‘
’’تم کتنے عرصے کے لیے جائو گی سوہنی؟‘‘ دل مراد نے پوچھا۔
’’فی الحال تو دو سال کے لیے۔‘‘ سوہنی نے جواب دیا۔ ’’لیکن ان لوگوں کا خیال ہے کہ شاید اس مدت میں توسیع کرنا پڑے۔‘‘
’’دو سال؟‘‘ مراد نے آہستہ سے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ جب تم واپس آئو گی تو اس وقت تک میری قید کے چار سال پورے ہو چکے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں مراد!‘‘ سوہنی نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ’’پھر صرف تین سال کی مدت باقی رہ جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے یہ عرصہ باہر گزارنا پڑے، لیکن میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری رہائی کے وقت میں لازماً یہاں موجود ہوں گی۔ تم جب جیل کے پھاٹک سے باہر نکلو گے تو سب سے پہلے مجھے دیکھو گے۔ میں تمہارا انتظار کروں گی مراد…!‘‘
اس کے بعد خط و کتابت کا وعدہ لے کر وہ اس سے رُخصت ہوگئی۔
سوہنی کے جانے کے کوئی ایک ماہ بعد ہی مراد کو جیل میں اس کا خط ملا۔ یہ خط حیدرآباد سے کسی دُور دراز چھوٹے شہر سے لکھا گیا تھا۔ سوہنی نے اس میں اپنا تفصیلی پتا نہیں لکھا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ جو کام ہم لوگوں نے اس فرم کی نئی برانچ میں انجام دینا ہے اس کے لیے یہ چھوٹا شہر بہت موزوں ہے۔ ویسے یہاں ہر قسم کی بنیادی سہولیات موجود ہیں لیکن ڈاک اور مواصلات کی سہولیات واجبی سی ہیں۔ یہ خط بھی بڑی مشکلوں سے وقت نکال کر ڈاک خانے کی ایک ٹوٹی پھوٹی مختصر عمارت تک لے جا سکی۔ لیکن بہرحال یہاں کے بااثر افراد اس شہر کو بھی جدید سہولیات اور دیگر بڑے شہروں کے مقابل لا کھڑا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آنے والے دنوں میں حالات مزید بہتر ہو جائیں گے۔ یہ میں اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ اگر میرے خط میں دیر ہو جائے تو تم پریشان مت ہونا۔ میں تمہیں پھر یقین دلاتی ہوں مراد کہ میں تمہاری رہائی کے دن تمہارے خیر مقدم کے لیے ضرور موجود ہوں گی۔‘‘
دل مراد نے بار بار اس خط کو پڑھا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے سچائی اور محبت کی خوشبو آتی تھی۔ اسے اگرچہ اس بات کا ملال تھا کہ اب ایک طویل عرصے تک سوہنی سے ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن ساتھ ہی اسے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ سوہنی کو گھومنے پھرنے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کا موقع مل سکے گا اور اس طرح وہ جُدائی کی اس المناک مدت کو زیادہ آسانی سے کاٹ سکے گی۔
سوہنی کے اس آخری خط کو آئے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر گیا تھا اور اس عرصے کے دوران مراد کو اس کی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔
شروع کے دنوں میں وہ بڑی شدت کے ساتھ اس کے خط کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ انتظار ایک کربناک مایوسی میں ڈھلتا گیا اور اس کے دل پر گہری اُداسی طاری ہوتی گئی۔
اب تو وہ سوہنی کی طرف سے کسی خبر کے بغیر زندگی گزارنے کا عادی ہوگیا تھا۔ لیکن بعض اوقات اسے یہ سوچ کر حیرت ہوتی تھی کہ آخر آج کل کے دور میں ایسی کون سی جگہ ہو سکتی تھی جہاں سے اُسے پورے تین سال تک اس سے رابطہ کرنے کا کوئی موقع نہیں مل سکا تھا؟ بالفرض وہ کسی ایسے دُشوار گزار علاقے میں کام کر رہی تھی جہاں رسل و رسائل اور مواصلات کی سہولتوں کا فقدان تھا تو بھی عزیزوں اور رشتے داروں سے رابطے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ تو ضرور فراہم کیا گیا ہوگا۔
وہ یہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سوہنی اسے بھول سکتی ہے۔ نہیں… نہیں سوہنی ایسی نہیں ہو سکتی تھی۔ ہاں، البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ بہت زیادہ کام اور مصروفیت اور نامساعد حالات کے باعث رابطہ قائم نہ کر سکی ہو لیکن ایسا کیونکر ہو سکتا تھا؟
ایک تیسرا خیال، جو کبھی کبھی اسے حد سے زیادہ بے چین کر دیتا تھا وہ یہ تھا کہ کہیں سوہنی کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہوگئی؟ کہیں وہ کسی مصیبت میں تو مبتلا نہیں ہوگئی اور… خدانخواستہ ایسا ہوا تھا تو اُسے بھلا اس کے بارے میں بتانے والا کون تھا؟ ایسے وقت میں دل مراد کا دل چاہتا کہ وہ جیل کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے اور سوہنی کو تلاش کر کے اس سے جی بھر کے شکوے کرے۔
ایک بے خبری کا عالم تھا۔ اور اسی بے خبری کے عالم میں اس نے جیل میں تین سال کی مدت گزار دی۔ دو سال تو وہ پہلے ہی گزار چکا تھا اور وہ اب اس اُمید پر جی رہا تھا کہ اگلے دو سال مزید گزارنے کے بعد اسے ان سلاخوں سے چھٹکارا مل جائے گا اور پھر وہ سوہنی کو تلاش کر سکے گا۔ لیکن وہ اُس کو کہاں ڈھونڈے گا؟ اس نے اپنے آخری خط میں صرف گوٹھ سمارو کے بارے میں لکھا تھا۔
’’خیر، جب وقت آئے گا تو کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔‘‘ وہ سوچتا۔ اور اب اچانک اس کی توقع کے برخلاف وہ وقت آ گیا تھا۔ ایک حادثے نے اسے رہائی کا مستحق بنا دیا تھا۔ وہ دو سال پہلے ہی رہا ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
جب جیل کی چاردیواری سے نکل کر سڑک پر آیا تو اس کی آنکھوں کے سامنے سوہنی کی تصویر تھی اور اس کے کانوں میں اس کے الفاظ گونج رہے تھے۔ ’’جب تم رہا ہوگے تو میں تمہارے خیر مقدم کے لیے موجود ہوں گی۔‘‘
لیکن سوہنی وہاں موجود نہیں تھی۔ وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ وہ اکیلا تھا۔ بالکل اکیلا… کاش! سوہنی کو معلوم ہو جاتا کہ میں دو سال پہلے ہی رہا ہوگیا ہوں، اسے کس قدر خوشی ہوتی۔
اُس نے ٹیکسی روکی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اسی شہر میں اس کا اپنا مکان موجود تھا۔ جس میں وہ کبھی رہا کرتا تھا اور اپنی سزایابی کے وقت اس نے یہ گھر ایک ایسی انجمن کے حوالے کر دیا تھا جو سزایافتہ قیدیوں کی جائداد و املاک اور ان کے دُوسرے معاملات کی ان کی عدم موجودگی میں دیکھ بھال کرتی تھی۔
انجمن کے کارکنوں نے اس کے مکان کو بالکل ٹھیک ٹھاک اور عمدہ حالت میں رکھا تھا۔ اس نے انجمن کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں مطلع کیا کہ اسے وقت سے پہلے ہی رہائی مل گئی ہے۔ اس کی دو سال کی سزا معاف کر دی گئی ہے۔ اس لیے اسے اب انجمن کی خدمات کی ضرورت نہیں۔
دل مراد نے سب سے پہلے اپنے دوست شہباز سے فون پر رابطہ کیا جو دُوسرے شہر میں رہتا تھا اور ارباب کو باقاعدگی کے ساتھ افیون کے لیے رقم دیتا تھا۔ اور ارباب جیل میں مراد کو افیون فراہم کرتا تھا۔
شہباز اور مراد ایک زمانے میں بہت قریبی دوست رہ چکے تھے۔ لہٰذا آج اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے درمیان دوستانہ مراسم قائم تھے۔ یوں بھی شہباز نے جیل میں مراد کی کافی مدد کی تھی۔
فون پر رابطہ ہوا تو شہباز کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس کا دوست مراد دو سال پہلے ہی جیل سے رہا ہوگیا ہے۔ اس نے مراد کو مبارک باد دی۔ مراد نے اس سے کہا کہ وہ عنقریب اس کے شہر آئے گا اور اس سے ملاقات کرے گا۔
اب مراد کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ سوہنی کو تلاش کرے لیکن وہ اس کی تلاش کا آغاز کہاں سے کرے؟ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ سوہنی نے کون سی فرم میں ملازمت کر لی تھی؟ لیکن اس بات کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ کیا اس فرم کے لوگ سوہنی کے بارے میں کچھ بتا سکیں گے؟ ممکن ہے وہاں کوئی ایسا آدمی موجود ہو جسے یہ علم ہو کہ سوہنی نے یہاں سے نوکری چھوڑنے کےبعد کون سی دُوسری فرم میں ملازمت کی تھی۔ اگر اسے اس دُوسری فرم کا نام اور پتا معلوم ہو جائے تو وہ وہاں جا کر اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کر سکتا ہے۔
’’بہتر یہی ہوگا کہ میں وہاں جائوں جہاں، سوہنی پہلے کام کرتی تھی۔‘‘ اس نے سوچا۔ ’’صرف فون کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ وہاں جا کر ایسے آدمی کو تلاش کرنا ہوگا جو کافی عرصے سے اس فرم میں کام کر رہا ہو اور جو سوہنی کے بارے میں کچھ بتا سکتا ہو۔‘‘
چنانچہ وہ اس فرم کے دفتر پہنچا جہاں سوہنی کسی زمانے میں کام کیا کرتی تھی۔ استقبالیہ پر ایک نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔
’’معاف کرنا مس…‘‘ مراد نے نرمی سے کہا۔ ’’کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ تم کتنے عرصے سے اس فرم میں کام کر رہی ہو؟‘‘
لڑکی کو مراد کا یہ سوال عجیب تو لگا تھا مگر اس نے لہجہ ایسا اختیار کیا تھا کہ لڑکی جواب دیے بنا نہ رہ سکی۔ وہ بولی۔ ’’گزشتہ ڈیڑھ سال سے… لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’میں دراصل سوہنی نام کی ایک لڑکی کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں جو آج سے پانچ سال پہلے اس فرم میں کام کرتی تھی۔‘‘ مراد نے بتایا۔ پھر وضاحت کرتے ہوئے بولا۔ ’’میں دراصل باہر چلا گیا تھا اور کافی عرطے بعد لوٹ کر آیا ہوں، مجھے مس سوہنی کی تلاش ہے… وہ اب اس فرم میں…!‘‘
’’میرا خیال ہے کہ تم مسٹر شاہ نواز سے مل لو۔‘‘ لڑکی نے کہا۔ ’’وہ یہاں کے پرسنل آفیسر ہیں اور گزشتہ دس سال سے کام کر رہے ہیں، انہیں شاید کچھ معلوم ہو۔ میں چونکہ نئی ہوں اس لیے اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ مراد نے کہا۔ ’’تم مہربانی کر کے شاہ نواز صاحب سے میری ملاقات کرا دو۔‘‘
لڑکی نے فون پر شاہ نواز سے بات کی اور مراد کو اس کے پاس بھیج دیا۔
’’میں مس سوہنی کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جو آج سے پانچ سال پہلے آپ کی فرم میں کام کرتی تھی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کرتی تھی کیا مطلب…؟‘‘ شاہ نواز نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’کرتی ہے کہو… کیونکہ وہ اب بھی کام کرتی ہے۔ لیکن اس شہر میں نہیں… آج سے تین سال پہلے اس کی اپنی درخواست پر ہماری فرم نے اس کا تبادلہ گوٹھ سمارو میں کر دیا تھا اور میری اطلاع کے مطابق سوہنی اب بھی وہیں کام کر رہی ہے۔‘‘
(جاری ہے)