کارلا ابھی دروازے سے اندر داخل بھی نہیں ہوئی تھی کہ میں دوڑ کر اس تک پہنچی اور میں نے ای میل کے وہ پرنٹ آئوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیئے۔ وہ اندر آکر ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور کاغذات کھول کر پڑھنے لگی۔ جیسے جیسے وہ انہیں پڑھتی جاتی تھی، اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جاتی تھیں۔
پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔ ’’یہ تم نے کہاں سے لی ہے؟‘‘
’’پہلے سب پڑھ لو۔‘‘ میں نے رپورٹس کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ ان چیزوں کو زیادہ اچھی طرح سمجھتی ہے۔
میں بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ ممی کی طرح وہ بھی ان کاغذات کو کوئی اہمیت نہیں دے گی، مگر اس کا ردعمل بہت مختلف تھا۔ ممی کے مقابلے میں بالکل مختلف…!
’’تم نے یہ سب ممی کو دکھایا ہے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ میں نے بولے بغیر اثبات میں سر ہلایا۔
’’انہوں نے کیا کہا؟‘‘
’’یہ سب کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔‘‘ میں نے سرگوشی میں کہا۔
کارلا چند لمحے میرے چہرے کی طرف تکتی رہی۔ پھر کچھ سوچ کر بولی۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں حقائق معلوم کرنے چاہئیں۔‘‘
’’کیسے حقائق…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہی کہ اس میں کوئی غلط فہمی ہے یا نہیں!‘‘
’’یہ درست کیسے ہوسکتی ہے کارلا! اس میں ضرور…!‘‘
’’خاموش…!‘‘ اس نے اشارے سے مجھے چپ رہنے کے لئے کہا۔ ’’ابھی ہمیں کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’مگر ہمیں اتنا تو معلوم ہے کہ میں ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہوں۔ میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی، گھر سے باہر میرے لئے موت ہے اور کچھ نہیں!‘‘
کارلا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم معلوم ہوتی تھی۔ اس نے ایک آدھ بار نگاہ اٹھا کر یوں میری طرف دیکھا جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر کہہ نہ پاتی ہو یا کہنا نہ چاہتی ہو۔
’’کارلا…! تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو؟‘‘
’’نہیں…! ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘
’’نہیں…! کوئی بات ضرور ہے۔‘‘ میں نے اصرار کیا۔
اس نے ایک گہرا سانس لیا اور بولی۔ ’’قسم سے مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن کبھی کبھی مجھے شک سا ہوتا ہے۔‘‘
’’شک…! مثلاً کیا؟‘‘
’’کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہوسکتا ہے تمہاری ممی کی تشخیص میں کوئی خامی ہو۔‘‘
میں ٹھٹھک گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے کمرے میں یکلخت آکسیجن کی کمی ہوگئی ہے۔ میں کسی سرنگ میں گھر گئی ہوں، جس کی دیواریں مجھے پیس دینے کے لئے میری طرف بڑھ رہی ہیں۔
مجھے شدید متلی ہونے لگی۔ میں اٹھ کر واش روم کی طرف دوڑی اور الٹی کرنے کی کوشش کی مگر میری پسلیوں میں شدید کھنچائو کے باوجود میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ میں نے اپنی بے چینی اور حدت دور کرنے کو منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھپاکے مارے۔ کارلا کی بات مجھ پر بری طرح طاری ہوگئی تھی۔ میں بیسن کا سہارا لئے بمشکل اپنے قدموں پر کھڑی تھی، کارلا نے آکر مجھے تھاما۔
میں باربار کہہ رہی تھی۔ ’’میں اس بات کو ضرور معلوم کروں گی۔‘‘
’’مجھے ایک دن دو، میں غور کرتی ہوں۔‘‘ کارلا نے مجھے اپنے ساتھ لپٹانا چاہا۔
میں نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔ میں نے اسے خود سے علیحدہ کرلیا اور قطعی لہجے میں کہا۔ ’’مجھے حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔ میں حقائق جاننا چاہتی ہوں۔‘‘
٭…٭…٭
میں چاہتی تھی کہ کسی طرح سوجائوں تاکہ میرا دماغ ان سوچوں سے نجات حاصل کرسکے، جنہوں نے میرے اندر ہلچل مچا رکھی تھی، لیکن ایسا کیسے ممکن تھا۔ میرا دماغ جیسے ایک ایسا کمرہ بن گیا تھا جس میں ہر طرف دروازے تھے اور ان سے بہت کچھ اندر آتا رہتا تھا جسے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
کارلا کی بات میرے اندر جیسے کھب کر رہ گئی تھی کہ ہوسکتا ہے تمہاری ممی کی تشخیص میں کوئی خامی ہو۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ ابھی ایک بجا تھا۔
کارلا کے آنے میں پورے سات گھنٹے باقی تھے۔ ہم نے سوچا تھا کہ وہ میرے کچھ بلڈ ٹیسٹ کرے گی اور ہم انہیں اس بیماری کے اسپیشلسٹ کے پاس بھیجیں گے تاکہ دوسری ماہرانہ رائے بھی لی جاسکے لیکن ابھی سات گھنٹے باقی تھے۔
مجھے سو جانا چاہئے تھا کہ وقت گزرنے کا پتا نہ چلے۔ میں نے اسی ارادے سے آنکھیں بند کرلیں اور جب انہیں کھولا تو ابھی ایک بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔
میرے اندر شدید بے چینی نے سر اٹھایا۔ میں پورے سات گھنٹے انتظار نہیں کرسکتی تھی۔ اتنی مدت میرے لئے صبر کرنا بہت مشکل تھا۔ مجھے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ مجھے سچ کو تلاش کرنا ہوگا۔ میں پھر ممی کے ہوم آفس کی طرف چل پڑی، حالانکہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ دوڑ کر وہاں تک پہنچوں مگر ممی کے جاگ جانے کا خطرہ تھا۔
ایک لمحے کو میں ہچکچائی کہ کہیں کمرہ لاک نہ ہو، پھر مجھے سات گھنٹے انتظار کرنا ہوگا لیکن میں ایک پل بھی انتظار نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے بڑی احتیاط سے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ شکر ہے کہ وہ یوں کھل گیا جیسے وہ میرے ہی انتظار میں تھا۔
میں اندر داخل ہوئی۔ ممی کا آفس بہت صاف ستھرا اور بے حد سلیقے سے سجا ہوا ہے۔ میں اس بڑے ڈیسک کی طرف بڑھی جو کمرے کے درمیان میں رکھی ہوئی تھی۔ اس میں ایک دراز فائلوں کے لئے بھی تھی۔
میں نے سوچا کہ مجھے یہاں سے شروع کرنا چاہئے۔ میرا دل دھک دھک کررہا تھا۔ میرے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ یہ کوئی معمولی لرزش نہیں تھی، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میرے اندر زلزلہ آرہا ہو۔ ممی ریکارڈ رکھنے میں بہت محتاط تھیں۔ وہ ایک ایک چیز کا ریکارڈ بڑے سلیقے کے ساتھ فائل میں لگا کر رکھتی ہیں۔
کچھ فائلوں میں خریداری کی رسیدیں تھیں، وارنٹی کارڈ اور ایسی ہی چیزیں! ممی نے کوئی چیز ضائع نہیں کی۔ انہوں نے سنیما اور تھیٹر کے ٹکٹ بھی سنبھال کر فائل میں لگائے ہوئے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں اس بڑے فولڈر تک پہنچی جس پر بڑے لفظوںمیں لکھا ہوا تھا۔ ’’میڈلین!‘‘ میں نے اسے احتیاط سے نکال لیا اور فرش پر بیٹھ کر وہ فولڈر سامنے رکھا۔
میرے دل کی دھڑکن اور تیز ہوئی اور میرا حلق خشک ہونے لگا۔ ممی نے اس فائل میں ہر چیز لگائی ہوئی تھی۔ اپنے حاملہ ہونے کے بعد ڈاکٹر کے یہاں جانے کے معاملات، نسخے اور بہت کچھ…! میری پیدائش کا سرٹیفکیٹ بھی فائل میں موجود تھا۔
میں نے ایک اور فائل کو کھنگالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں پیدائشی طور پر بیمار تھی۔ اس دوران مجھے جو جو بیماریاں ہوئیں، اس کا تمام ریکارڈ موجود تھا کہ مجھے کب کب ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور کس کس ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ تمام رسیدیں اور نسخے موجود تھے۔
جب میں پانچ مہینے کی تھی تو میرے ڈیڈی اور بھائی کا حادثے میں اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت میں اچانک ایک وائرس کا شکار ہوگئی جس سے مجھے سانس کی تکلیف ہوگئی۔ یہ اتنا شدید تھا کہ مجھے تین دن اسپتال میں رہنا پڑا۔ اس کا بھی تمام ریکارڈ موجود تھا۔
اس بیماری کی وجہ سے تین مختلف ڈاکٹروں سے میرا معائنہ کروایا گیا، جن میں سے ایک الرجی کا ماہر بھی تھا لیکن انہوں نے کوئی غیر معمولی تکلیف تشخیص نہیں کی تھی۔ تینوں کا یہی خیال تھا کہ یہ ایک وائرس تھا جس کے اثرات ختم ہوچکے تھے۔
اس کیبنٹ میں بس اتنی ہی فائلیں تھیں۔ اس کے بعد میری صحت کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ میں نے دوسری دراز کی تلاشی لی کہ شاید وہ فائل اس میں ہو جس میں میری موجودہ بیماری کا ریکارڈ موجود ہو لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ میں نے ایک ایک صفحہ چھان مارا لیکن مجھے کوئی سراغ نہیں ملا۔ میں نے میز پر پڑی فائلوں کو دیکھا اور جتنا میں تلاش کرسکتی تھی، کیا مگر مجھے کچھ بھی نہیں ملا۔
میرا سانس بڑی تیزی سے چل رہا تھا۔ اگر کوئی چیز نہ ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ہے ہی نہیں…! ابھی میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں پوری تسلی کرلینا چاہتی تھی۔ بھلا ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ ممی جو ہر چیز کو سلیقے سے رکھنے کی عادی تھیں، میری اس بیماری کے بارے میں کوئی فائل نہ بنائیں۔
شاید وہ کہیں اور ہو۔ میں نے چند لمحے غور کیا۔ یہ بات بڑی تیزی کے ساتھ میرے ذہن میں آئی کہ یقیناً اس کا ریکارڈ ممی کے کمپیوٹر میں ہوگا۔ مجھے ان کا پاس ورڈ جاننے میں تھوڑا سا وقت لگا۔ میرے اگلے دو گھنٹے ان کے کمپیوٹر میں موجود تمام فائلوں کو دیکھنے میں گزرے۔
میں نے کمپیوٹر کو کھنگالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر لاحاصل۔
میں نے سر جھٹکا کہ وہ سب ٹیسٹ اور دستاویزات کہاں تھیں جن کے مطابق میں گزشتہ اٹھارہ برس سے زندگی گزار رہی تھی، مگر کہیں کچھ نہیں تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں تھا، ایسا کیوں کیا گیا تھا۔
کیا ڈاکٹر فرینک کی تشخیص درست تھی کہ میں بیمار نہیں تھی؟ میرا ذہن اس بات کو سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا اسی لئے یہ بات میرے ذہن میں ابھری کہ کہیں میری بیماری کا ریکارڈ ممی کے بیڈ روم میں تو نہیں…؟ وہاں بھی دیکھنا ضروری تھا لیکن جب تک وہ سو کر نہیں اٹھ جاتیں اور اسپتال نہیں چلی جاتیں، میں ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ میں اتنی دیر انتظار کس طرح کروں گی؟ میں اسی سوچ میں تھی کہ دروازہ کھلا۔
’’اچھا…! تم یہاں ہو؟‘‘ ممی کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی۔ ’’میں پریشان ہوگئی، تم اپنے کمرے میں نہیں تھیں۔‘‘
وہ کمرے میں چلی آئیں اور حیران رہ گئیں۔ ان کی فائلیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں اور کمرے میں ایک عجیب اکھاڑ پچھاڑ کا سا سماں تھا۔ انہوں نے الجھ کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ ’’یہاں تو لگتا ہے جیسے کوئی طوفان آیا ہے۔ یہ سب کیا ہے میڈی…؟‘‘
’’کیا میں واقعی بیمار ہوں؟‘‘ میرے خون کی گردش میرے کانوں میں جھنجھنا رہی تھی۔
ان کی جھنجھلاہٹ اور غصہ پریشانی میں بدل گیا۔ ’’کیا تم خود کو بیمار محسوس کررہی ہو؟‘‘ انہوں نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا لیکن میں نے اسے جھٹک دیا۔
اس سے ان کے چہرے پر جو محرومی جھلکی، اس نے مجھے پریشان تو کیا لیکن میں اس سے بڑی پریشانی میں گرفتار تھی۔ میں نے زور دے کر پوچھا۔ ’’ممی! مجھے بتائیں کیا میں واقعی الرجی کی مریض ہوں؟‘‘
’’کیا ابھی تک تم اس ای۔میل کے چکر سے نہیں نکلیں؟‘‘
’’ہاں! اور کارلا کا بھی یہ خیال ہے کہ شاید تشخیص میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ وہ الجھیں۔
’’میری بیماری کا تمام ریکارڈ کہاں ہے؟‘‘
وہ ایک گہرا سانس لے کر بولیں۔ ’’یہ تم کیا کہہ رہی
ہو میڈلین…؟‘‘
’’آپ کے پاس فائلوں میں ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر نہیں ہے تو میری اس بیماری کا، الرجی کا! آخر کیوں…؟‘‘ میں نے فرش سے سرخ فولڈر اٹھا کر انہیں دکھایا۔
’’تم کیسی باتیں کررہی ہو میڈی…! وہ اس میں ہے۔‘‘ وہ بولیں اور انہوں نے وہ سرخ فولڈر اپنے ساتھ یوں بھینچ لیا جیسے اس سے زیادہ عزیز کوئی اور چیز نہ ہو۔ ’’تم نے اچھی طرح دیکھا ہے نا میں ہر چیز کا ریکارڈ رکھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی ڈیسک تک گئیں اور وہاں بکھری ہوئی فائلوں کو ہٹا کر ایک جگہ خالی کی، پھر بکھری ہوئی فائلوں کو ترتیب سے رکھا، کاغذات کو سمیٹا۔
میں بغور ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر انہوں نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ ’’کہیں تم نے تو انہیں یہاں سے نہیں نکال لیا…؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ یہیں تھے۔‘‘ ان کی آواز خوف اور الجھن کی وجہ سے بھاری ہورہی تھی۔
اس لمحے مجھے اندازہ ہوگیا۔ مجھے یقین آگیا کہ میں بیمار نہیں تھی۔ میں کبھی بیمار نہیں تھی۔
٭…٭…٭
یہ خیال آتے ہی میں دوڑ کر ممی کے ہوم آفس سے نکلی۔ دوڑتے دوڑتے میں نے ہال کو طے کیا جو یوں لگ رہا تھا جیسے کبھی ختم نہیں ہوگا۔ میرے چاروں طرف جیسے ہوا بند تھی، مجھے آکسیجن نہیں مل رہی تھی۔
میں گھر سے باہر نکل آئی تھی۔ نہ جانے میری سانس چل رہی تھی یا نہیں…! مجھے اپنے دل کی دھڑکنیں بھی سنائی نہیں دے رہی تھیں۔
میرا جی مالش کررہا تھا۔ میرا پیٹ خالی تھا، مگر میں پھر بھی ابکائیاں لے رہی تھی۔ میرے منہ میں کڑواہٹ گھل رہی تھی۔ میں روتی جارہی تھی۔
صبح کی خنک ہوا سے میرے آنسو میرے رخساروں پر سردی کا احساس پیدا کررہے تھے۔ شاید میں ایک ہی وقت میں ہنس رہی تھی اور رو بھی رہی تھی۔ ’’اوہ خدایا…! میں بیمار نہیں ہوں… میں کبھی بھی بیمار نہیں تھی۔‘‘
پچھلے چوبیس گھنٹے میں، میں جن جذبات کو اپنے اندر دباتی رہی تھی، وہ یکدم ابل کر باہر آگئے تھے۔ کبھی امید، کبھی مایوسی، کبھی تذبذب، کبھی غصے، کبھی خوشی…! یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ہی وقت میں انسان میں مختلف جذبات ایک ساتھ ابھر آئیں۔ میں جیسے کسی سیاہ سمندر میں ہاتھ، پائوں مار رہی تھی مگر میرے پائوں میں لنگر تھا جو مجھے آگے نہیں بڑھنے دیتا تھا۔
ممی میرے پیچھے پیچھے آئیں اور انہوں نے مجھے شانوں سے تھام لیا۔ ان کا چہرہ عجیب ویرانی کا عکاس تھا۔ ’’یہ تم کیا کررہی ہو… یہ تم کیا کررہی ہو…؟ چلو تمہیں اندر رہنا چاہئے۔‘‘
میری آنکھوں کے سامنے دھند سی چھا رہی تھی۔ میں نے اپنی نگاہوں کو ان پر جمانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں ممی…! مجھے کیوں اندر رہنا چاہئے؟‘‘
’’تم بیمار ہو… تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ممی نے مجھے اپنے بازوئوں میں لینے کی کوشش کی۔
’’نہیں… نہیں…! میں اندر نہیں آئوں گی۔‘‘ میں نے انہیں جھٹک دیا۔
’’پلیز میڈلین…!‘‘ انہوں نے منت کی۔ ’’مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں ہے کہ تمہیں کھو دوں… پہلے ہی میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔‘‘
ممی کی آنکھیں مجھ پر لگی تھیں لیکن صاف معلوم ہورہا تھا کہ وہ کہیں اور دیکھ رہی ہیں۔ ’’میں پہلے ہی انہیں کھو چکی ہوں… میں نے تمہارے ڈیڈی کو کھو دیا، تمہارے بھائی کو کھو دیا۔ اب میں تمہیں نہیں کھو سکتی… نہیں ہرگز نہیں!‘‘
ممی کا چہرہ دفعتاً یوں لگ رہا تھا جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہو۔ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ جو ہمیشہ نظر آتا تھا، یہ اس سے بہت مختلف تھا۔ صدمے سے چور، غم سے نڈھال…! یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ڈیڈی اور بھائی کا حادثہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوا ہے۔ میں ٹھٹھک گئی۔ گویا ممی، ڈیڈی اور بھائی کی موت کے صدمے سے اب تک نہیں نکلی تھیں۔
میں نے جو میرے منہ میں آیا، کہنا چاہا لیکن وہ میری بات سن ہی نہیں رہی تھیں۔ وہ جیسے خود کلامی کی سی کیفیت میں بولے جارہی تھیں۔ ’’ان دونوں کی موت کے بعد تم بہت بیمار ہوگئی تھیں۔ تمہاری سانس مشکل سے چل رہی تھی۔ تمہیں سانس لینے میں شدید تکلیف ہورہی تھی۔ میں دوڑ کر تمہیں ایمرجنسی میں لے گئی اور ہمیں وہاں تین دن تک ٹھہرنا پڑا، مگر ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تمہاری اس تکلیف کی وجہ کیا تھی۔ بالآخر انہوں نے یہی تشخیص کیا کہ تم کسی الرجی کا شکار تھیں۔ انہوں نے مجھے ایک فہرست دے دی، ان چیزوں کی جن سے تمہیں الرجی تھی یا ہوسکتی تھی۔ مجھے تمہاری حفاظت کرنی تھی۔ تمہیں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا تھا۔ کچھ برا… کچھ پریشان کن…! جو تمہاری جان کے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔‘‘
یہ باتیں سن کر میرے اندر شدید غصہ ابل رہا تھا۔ جس نے ہر جذبے کو میرے اندر دبا دیا۔ میں چلائی۔ ’’نہیں…! میں بیمار نہیں ہوں… میں کبھی بیمار نہیں تھی۔ یہ آپ ہیں جو بیمار ہیں، آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔‘‘
وہ عجیب انداز میں پیچھے ہٹیں اور ملائمت سے کہنے لگیں۔ ’’آئو اندر چلو… میں تمہاری حفاظت کروں گی… تم میرے پاس رہو… میرے پاس تمہارے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘
ان کی یہ محبت، ان کی یہ چاہت، یہ جنون کسی سمندر کی طرح تھا یا کوئی ایسی دنیا تھی جس کا کوئی کنارہ نہیں تھا لیکن مجھے یہ سب نہیں چاہئے تھا۔
میں اب اسے اور برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری تمام زندگی محض ایک فریب تھی جو پلک جھپکتے میں کبھی میری دسترس سے نکل جاتی تھی اور کبھی میری گرفت میں آجاتی تھی۔
٭…٭…٭
چار دن گزر گئے۔ میں کھانا کھا لیتی تھی، اپنی کلاسز لے لیتی تھی، ہوم ورک کرتی تھی لیکن کتابیں پڑھنے کو میرا جی نہیں چاہتا تھا۔ ممی کھوئے کھوئے انداز میں میرے آس پاس رہتی تھیں، مگر یوں لگتا تھا جیسے انہیں کوئی احساس نہیں تھا کہ کیا ہوچکا ہے یا حالات میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔
بعض اوقات وہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن میں ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی۔ اکثر انہیں نظرانداز کردیتی تھی۔ میں انہیں نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔
اس صبح جب مجھے اس بات کی خبر ہوئی تھی کارلا نے میرے خون کے نمونے لئے تھے۔ وہ انہیں ایک الرجی اسپیشلسٹ کے پاس لے گئی تھی۔ آج ہم اس ڈاکٹر کے کلینک میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ میں شدت سے منتظر تھی کہ اس کی ماہرانہ رائے کیا ہے۔
جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر حتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا وہ اپنی تصویروں میں نظر آتا تھا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس کی کنپٹیوں کے بال سفید تھے۔ اس کی آنکھیں سیاہ اور چمکدار تھیں۔ اس نے میری طرف کچھ ہمدردی اور تجسس سے دیکھا۔ میں بیٹھ گئی تو اس نے مجھے مخاطب کیا۔ ’’تمہارا کیس…!‘‘ اس نے کہنا شروع کیا مگر پھر خاموش ہوگیا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کچھ کہتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔
’’آپ بتائیں… بہت کچھ میں پہلے سے جانتی ہوں۔‘‘ میں نے اس کی ہچکچاہٹ دور کرنے کے لئے وضاحت کی۔
اس نے ایک فائل نکال کر اپنی میز پر رکھی۔ اسے کھولا اور کچھ الجھے ہوئے سے لہجے میں بولا۔ ’’مس میڈلین…! میں نے تمہاری رپورٹس کے رزلٹ باربار دیکھے ہیں۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی اس پر بات کی ہے۔ ہم سب اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تم بیمار نہیں ہو۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ میں نے سر ہلایا۔
’’تمہاری نرس کارلا نے مجھے تمہاری ہسٹری بتائی ہے۔ تمہاری ممی چونکہ خود بھی ڈاکٹر ہیں، انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے تھا۔ الرجی کی یہ بیماری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، مگر تمہارے اندر اس بیماری کی کوئی ایک علامت نہیں ہے۔ تمہاری ممی کو اگر کوئی غلط فہمی تھی تو وہ مزید ٹیسٹ کروا کر اپنی تسلی کرسکتی تھیں۔‘‘
حالانکہ یہ سب میں جان چکی تھی لیکن ڈاکٹر کی اس رائے نے جیسے کمرے کی ساری دیواروں کو گرا دیا۔ مجھے ایک لمبی سرنگ نظرآ نے لگی جو کہیں نہیں جاتی تھی۔ میں جھرجھری سی لے کر خود میں واپس آئی۔
ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ ’’کیا آپ کوئی سوال پوچھنا چاہتی ہیں؟‘‘
’’ہاں…! میرے ذہن میں چند سولات ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ضرور… ضرور پوچھیں۔‘‘ وہ خوشدلی سے بولا۔
’’میں جزیرے میں اتنی بیمار کیوں ہوگئی تھی؟‘‘
’’لوگ بیمار ہوجاتے ہیں، نارمل تندرست لوگ بھی…! تم بھی اسی طرح بیمار ہوگئی تھیں۔‘‘
’’مگر میرے دل کی دھڑکن بھی رک گئی تھی، کیوں…؟‘‘
’’میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر فرینک سے بات کی ہے۔ ہمارا یہی خیال ہے کہ تم جیسی زندگی گزارتی آئی تھیں، اس وجہ سے تمہاری قوت مدافعت کمزور پڑچکی تھی، اس لئے تمہارے جسم کا ردعمل شدید تھا۔‘‘
اب میں نے کچھ اور نہیں پوچھنا تھا۔ نہ ہی مجھے اس کی ضرورت تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’بہت شکریہ ڈاکٹر…!‘‘
’’مگر ایک بات کا ابھی خیال رکھنا ہوگا کہ جس طرح تم نے اٹھارہ سال گزارے ہیں، ان کا اثر ابھی تمہارے سسٹم پر باقی ہوگا۔‘‘
’’اس بات کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’ہم نے ایسا کوئی کیس کبھی دیکھا تو نہیں مگر ہماری یہی رائے ہے کہ شروع شروع میں جب تم عام انداز میں رہنا شروع کرو گی تو تم دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی بیمار ہوجائو گی اور زیادہ شدت کے ساتھ…! جس طرح تم جزیرے میں ہوئی تھیں۔‘‘
’’پھر اس کا کیا ہوگا؟ کیا میں اب بھی بیمار ہوں؟‘‘
’’نہیں…! ہم کچھ عرصہ تمہیں نگرانی میں رکھیں گے… تمہیں بھی احتیاط کرنا ہوگی کہ بڑے ہجوم میں نہ جائو۔ وہ کھانے آہستہ آہستہ تھوڑے تھوڑے کرکے استعمال کرو جو تم نے کبھی نہیں کھائے اور کوئی ایسا کام نہ کرو جو تمہیں بہت زیادہ تھکا دے۔‘‘
٭…٭…٭
میں نے اگلے کچھ دن یہ ریسرچ کرنے میں گزارے کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ تھا اور ممی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اگر مجھے کوئی ایسی ڈائری مل جاتی جس میں ممی اپنے تاثرات لکھتیں تو مجھے ان کے خیالات جاننے کا موقع ملتا۔ آخر انہوں نے میری زندگی کی ہر خوشی اور ہر لطف کو کیوں چھین لیا تھا۔ انہوں نے مجھے فطری طریقے پر پلنے بڑھنے کیوں نہیں دیا تھا۔
ڈاکٹر کا خیال تھا کہ انہیں کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔ ڈیڈی اور بھائی کی اچانک موت نے انہیں جو ذہنی صدمہ پہنچایا تھا، وہ اس سے نکل نہیں پائی تھیں۔ وہ مجھے اپنے قریب اور محفوظ رکھنا چاہتی تھیں کہ کہیں میں ان سے چھین نہ لی جائوں۔
کارلا نے بہت کوشش کی کہ مجھے اس بات سے روکے کہ میں گھر نہ
ممی کی خاطر اور خود میری صحت کے لئے ضروری تھا کہ میں محتاط رہوں۔ میں چاہتی تھی کہ اولے سے بات کروں لیکن وہ لوگ نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ اولے نہ جانے کس حال میں تھا۔ اس کا ذہن بدل چکا تھا یا نہیں…! اس نے کوئی اور لڑکی تلاش کرلی تھی یا اب تک اسے میرا خیال تھا۔ میں اس سے رابطہ کرتے ہوئے ڈرتی تھی کہ کہیں مجھے دل شکستگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کارلا نے بالآخر مجھے قائل کر لیا کہ مجھے گھر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ مجھے ممی کے پاس ہی رہنا چاہئے۔ میرے چلے جانے سے ان پر بہت برا اثر پڑ سکتا تھا۔ میں نے بادل نخواستہ اپنا فیصلہ بدل تو لیا لیکن اس کے ساتھ ہی جیسے میری زندگی بھی بدل گئی۔ سچ کہیں مرگیا تھا یا ابھی زندہ تھا۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔
میں نے اپنے کمرے کا دروازہ مقفل کرلیا تھا۔ اب ممی میرے کمرے میں داخل نہیں ہوسکتی تھیں۔ اپنی مریضانہ محبت کے ساتھ…! انہوں نے ایک دو بار دروازہ کھٹکھٹایا لیکن میں نے نہیں کھولا۔ میں اولے کے نام ای میلز لکھتی رہتی تھی لیکن اسے بھیجتی نہیں تھی۔ میں نے انہیں ڈرافٹ کے خانے میں محفوظ کررکھا تھا۔
میں نے وہ تمام حفاظتی اقدامات ختم کردیئے تھے جو کبھی اس گھر میں موجود تھے اور جن سے گزر کر کوئی اندر داخل ہوسکتا تھا۔ میں نے تمام کھڑکیاں کھول دیں۔ میں نے فوارے میں ڈالنے کے لئے کچھ مچھلیاں بھی منگوا لیں جو فوارے کے پانی میں اٹکھیلیاں کرتی رہتی تھیں۔ میرے وہ استاد جو پہلے مجھے اسکائپ پر پڑھاتے تھے، ان میں سے کچھ کو گھر آنے کی اجازت دے دی تھی۔
میں باقاعدہ تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا چاہتی تھی لیکن ڈاکٹر نے ابھی مجھے اس سے منع کردیا تھا کہ اسکول میں طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جراثیموں سے بچنا مشکل ہوگا۔
میں کچھ عرصہ گھر سے باہر بھی گزارتی تھی۔ اس وقت کارلا میرے ساتھ ساتھ رہتی تھی تاکہ مجھے کوئی نقصان نہ ہونے پائے لیکن میں جانتی تھی کہ کارلا وہ بات کہنے کی کوشش میں ہے جو میرے ٹوٹے ہوئے دل کو کچھ اور توڑ دے گی۔ اسی لئے میں نے خود ہی یہ بات اس سے کہہ دی۔ ’’کارلا…! مجھے چھوڑ کے نہ جانا… مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘
’’اگر واقعی تمہیں میری ضرورت ہوتی تو میں ضرور تمہارے ساتھ رہتی لیکن تمہیں اب میری ضرورت نہیں ہے۔‘‘ کارلا میرا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولی۔
’’نہیں! مجھے ہمیشہ تمہاری ضرورت رہے گی۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے انہیں بہنے سے نہیں روکا۔
’’ہاں…! تمہیں میری ضرورت ہے، مگر ایک نرس کے طور پر نہیں!‘‘ وہ نرمی سے بولی۔
اس کی بات ٹھیک تھی۔ مجھے اب چوبیس گھنٹے طبی لحاظ سے نگرانی کی ضرورت نہیں تھی مگر یہ بات مجھے پریشان کررہی تھی کہ میں اس کے بغیر کیا کروں گی۔ یہ سوچ سوچ کر میں سسکیاں لینے لگی تھی۔ کارلا نے مجھے اپنے بازوئوں میں لے لیا اور میں اتنا روئی کہ بالآخر میرے آنسو خشک ہوگئے۔
’’تم کیا کرو گی؟‘‘ میں نے آنسوئوں سے بھیگا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’میں پھر اسپتال میں کام شروع کردوں گی۔‘‘
’’تم نے ممی کو بتا دیا ہے؟‘‘
’’ہاں… آج صبح…!‘‘
’’انہوں نے کیا کہا؟‘‘
’’میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے تمہاری بہت اچھی دیکھ بھال کی ہے۔‘‘
میں نے غصے سے سر جھٹکا۔ کارلا مسکرائی اور میری ٹھوڑی تھام کر بولی۔ ’’تمہارا دل اس پر کب رضامند ہوگا کہ تم ممی کو معاف کردو؟‘‘
’’ممی نے میری زندگی کے ساتھ جو کیا ہے، میں انہیں کبھی معاف نہیں کرسکتی۔‘‘
’’وہ نفسیاتی مریض ہیں میڈی…! وہ اب بھی اس کے زیراثر ہیں۔‘‘
میں نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔ ’’انہوں نے میری زندگی ضائع کردی ہے۔ میری زندگی سے پورے اٹھارہ سال نکل گئے ہیں اور آئندہ بھی میں ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘
’’تم زندہ سلامت رہو میڈی…! ابھی تمہاری بہت زندگی پڑی ہے اور تم اس کا لطف اٹھا سکتی ہو۔‘‘ وہ اٹھ کر اندر آئی اور اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔ آخری مرتبہ کبھی نہ واپس آنے کے لئے اور میں آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
کارلا کے جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد ممی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں وہیں بیٹھی رہی جہاں میں بیٹھی ہوئی تھی۔ دستک دوبارہ ہوئی اور مجھے جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید ہمارا آپس کا رشتہ کبھی برقرار نہیں ہوگا۔ فی الحال میں انہیں بالکل معاف نہیں کرسکتی تھی، کیونکہ انہیں اس کا احساس تک نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔
ایک دستک اور ہوئی تو میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور بے رخی سے کہا۔ ’’اس وقت بات کرنے کا میرا بالکل موڈ نہیں ہے۔‘‘
انہیں دیکھ کر مجھے غصہ آنے لگتا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ انہیں باربار دکھ پہنچائوں۔ میرا خیال تھا کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ اسے بھول جائوں گی۔ یہ بات میرے ذہن سے نکل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا تھا۔
انہوں نے ایک گہرا سانس لیا اور بولیں۔ ’’میرے پاس تمہارے لئے کچھ ہے۔‘‘ ان کی آواز میں الجھن تھی۔
میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ کا کیا خیال ہے کہ تحفے اس کی تلافی کرسکتے ہیں، جو نقصان ہوچکا ہے؟‘‘ مجھے معلوم تھا کہ میں نے ان کا دل دکھایا ہے لیکن میں خود کو اس سے روک نہیں سکتی تھی۔ پیکٹ ان کے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر وہ پکڑ لیا۔ میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی، نہ ہی میں ان پر ترس کھانا چاہتی تھی۔
وہ جانے کے لئے پلٹیں مگر پھر رک گئیں اور مجرمانہ سے لہجے میں بولیں۔ ’’میڈی…! میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ تمہیں اب بھی مجھ سے محبت ہے۔ تمہارے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے، اس کو ضائع مت کرو۔ مجھے معاف کردو۔‘‘
٭…٭…٭
میں نے کمرے میں واپس آکر ممی کا تحفہ کھولا۔ یہ ایک موبائل فون تھا۔ ممی اب مجھے کوئی روک ٹوک نہیں کرسکتی تھیں۔ میں اب اس حد تک آزاد تھی کہ میں گھر سے باہر نکل سکتی تھی۔ میں اکثر باہر چلی جاتی تھی، حالانکہ مجھے راستوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، نہ ہی مجھے ٹریفک کی کوئی سمجھ تھی اور نہ ہی میں زیادہ شور برداشت کرسکتی تھی۔ میں شیشے کے کمرے میں دنیا سے دور اور دنیا کی ہر شے سے اٹھارہ سال دور رہی تھی۔
ایک روز میں بغیر سوچے سمجھے باہر نکل آئی۔ میں نے خود کو اولے کے لان میں پایا۔ وہاں وہ سیڑھی ابھی تک لگی ہوئی تھی جو چھت تک جاتی تھی اور جہاں اولے کا کمرہ تھا۔ میں غیر ارادی طور پر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ چھت پر ابھی اولے کی بہت سی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کی بنائی ہوئی چھوٹی چھوٹی چیزیں…!
میں وہاں کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا واقعی آج سے پانچ ماہ پہلے میں یہاں اولے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ صدیوں پہلے کی بات ہے۔ جو لڑکی یہاں اولے کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کررہی تھی، کیا واقعی وہ میں تھی جو اتنے خطروں کے باوجود گھر سے نکل آئی تھی۔
جب میں بچی تھی تو میرا سب سے پسندیدہ کھیل یہ تھا کہ اپنے اندر ایک دنیا کو تصور میں بنائوں اور اس میں اس طرح آزادی سے دوڑتی بھاگتی پھروں جس طرح میں کارٹون فلموں میں مختلف کرداروں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھتی تھی۔ ان سب باتوں کا تصور کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا لیکن اب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کون ہوں اور جس دنیا میں، میں نے قدم رکھا تھا، وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔
ڈاکٹر کہتے تھے کہ میری زندگی اس کے بعد شیشے کے کمرے میں محدود ہوگئی تھی، جب ڈیڈی اور بھائی کی حادثاتی موت ہوئی۔ کاش! میں ان لمحوں کو بدل سکتی تو میری زندگی کے پورے اٹھارہ سال ضائع نہ ہوجاتے۔ میرے بچپن کی خوشیاں مجھ سے چھین نہ لی جاتیں اور نہ ہی ممی اس حالت کو پہنچتیں کہ میں ان سے نفرت کرنے پر مجبور ہوجاتی۔
وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اولے کو میل ضرور بھیجوں گی خواہ اس پر اس کا اثر ہو یا نہ ہو، چاہے وہ اسے بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ میں نے گھر آکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اولے کے نام ایک ای میل بھیج دی۔ ’’وقت کے ساتھ جب تم سب کچھ سمجھ لو گے تو شاید مجھے بھی معاف کردو گے۔‘‘
٭…٭…٭
میں جہاز کی چھوٹی سی گول کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوں۔ حدنگاہ تک پھیلے ہوئے سرسبز و شاداب مرغزاروں کا سلسلہ تھا جو آنکھوں کو ایک عجیب ٹھنڈک اور تراوٹ بخش رہا تھا۔ کہیں کہیں چمکتا ہوا سنہری مائل نیلا پانی بھی نظر آتا تھا، جس میں ہیرے جیسی چمک اور فیروزے جیسی رنگت تھی۔ کئی ہزار فٹ کی بلندی سے ساری دنیا یوں معلوم ہوتی تھی جیسے بہت ہی نظم و ضبط اور خوبصورتی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ہو۔ میں جانتی تھی کہ ابھی یہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔ خودرو، خوبصورت، بے ترتیب جگہ پر قائم اور انوکھا…!
میں نے جب اس سفر کا فیصلہ کیا تھا تو ڈاکٹر کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے اتنی جلدی ہوائی سفر نہیں کرنا چاہئے لیکن میرا ارادہ کچھ اور تھا۔ اس کا کیا بھروسہ تھا کہ ہمیشہ سب کچھ ٹھیک رہے گا۔ انسان ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔ زندہ رہنے کے لئے بہت کچھ ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر زندہ رہنے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
ممی کو جب پتا چلا تو انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے جیسے اپنے سارے خوف اور اندیشے اندر ہی اندر نگل لئے حالانکہ ان کی کیفیت سے اب بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ میں بیمار نہیں ہوں۔ انہیں اپنے مقابلے میں ڈاکٹروں کی پوری ایک ٹیم سے ہار ماننا پڑی تھی لیکن وہ اب بھی بے یقینی کے عالم میں تھیں۔
محبت…!
محبت لوگوں کو دیوانہ بنا دیتی ہے۔
محبت کھو جائے تو بھی انسان پاگل ہوجاتا ہے۔
ممی نے میرے ڈیڈی سے ٹوٹ کر محبت کی تھی۔ یہ محبت ان کی زندگی کا سرمایہ تھی۔ میرے بھائی کی محبت بھی ان کی زندگی کا حاصل تھی اور میں ان کی آخری امید اور متاع حیات تھی۔ ڈیڈی اور بھائی کی موت ان کی زندگی میں ایک دھماکے کی طرح تھی، جس نے زندگی کا رس، رنگ نچوڑ لیا تھا۔ میں یہ سب کچھ جانتی تھی، میں ان کی مجبوریاں سمجھتی تھی۔ میں کوشش کررہی تھی کہ اس کے ساتھ مفاہمت کرسکوں لیکن اتنی جلدی ایسا ممکن نہیں تھا۔
’’تم کب واپس آئو گی؟‘‘ ممی نے پوچھا۔
’’میں کچھ کہہ نہیں سکتی… مجھے خود بھی کچھ معلوم نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے
میں ان کے اندر کی اذیت کو ان کے چہرے پر پھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی، مگر انہوں نے مجھے روکا نہیں، مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا مطلب تھا کہ انہوں نے حالات کو سمجھنا شروع کردیا تھا۔
باہر کی فضا میں بادلوں نے ڈیرا ڈال لیا تھا۔ وہ تہہ در تہہ گہرے ہوتے جارہے تھے۔ وہ کہیں سے سیاہ، کہیں برائون اور کہیں سفید روئی کے گالوں کی طرح تھے۔ ان بادلوں کی وجہ سے میں کھڑکی سے باہر کچھ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ اسی لئے میں نے اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی اور کتاب پڑھنے لگی۔ وہ کتاب جو میں کئی بار پہلے بھی پڑھ چکی تھی لیکن ہر بار حالات کی مناسبت سے اس کے معنی بدل جاتے تھے۔
میں اتنے بڑے شہر میں اکیلی آگئی ہوں، اسی طرح کہ جس طرح میں ایک رات اولے کے گھر چلی گئی تھی۔ بغیر کسی چیز کی پروا کئے، بغیر کسی سے خوف کھائے…! یہ شہر ہنگاموں، بلند آوازوں اور تیز ٹریفک کا شہر تھا۔ مگر یہ سب مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں، فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں کے کندھے ایک دوسرے سے چھو رہے تھے۔ میں ٹیکسی کے شیشوں سے یہ ساری رونقیں حیرت کی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ میں اپنی آنکھوں میں دنیا کے ان نظاروں کو بھر لینا چاہتی تھی جن کو دیکھنے سے میں اٹھارہ سال محروم رہی تھی۔
جس طرح میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا، اس طرح میں نے اولے کو بھی نہیں بتایا تھا کہ میں اپنے گھر سے چل پڑی ہوں، اس شہر کی طرف جہاں وہ رہتا ہے۔ چونکہ وہ اس شہر میں موجود ہے اس لئے مجھے اس شہر سے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اولے نے میری ای میل کا جواب دیا تھا اور مجھے بتایا تھا کہ وہ اس شہر سے بہت دور چلا گیا تھا جہاں میں رہتی تھی۔
میں نے اولے کو صرف یہ بتایا تھا کہ پرانی کتابوں کی ایک دکان میں اس کے لئے ایک تحفہ ہے، وہ وہاں جاکر اسے وصول کرلے۔ میں نے اس دکان کے بارے میں انٹرنیٹ پر پڑھا تھا۔ میں یہی چاہتی تھی کہ میں اولے سے کتابوں کے درمیان ملوں۔ کتابوں نے بچپن سے اب تک میرا ساتھ دیا تھا، باہر کی دنیا سے میرا رابطہ ان کتابوں کے ذریعے سے ہی تھا۔ میں اولے کے ساتھ بھی گھنٹوں ان کتابوں کے بارے میں چیٹنگ کرتی تھی، جو میں نے پڑھی ہوتی تھیں۔ وہ بھی مجھے ان کتابوں کے بارے میں بتاتا تھا جو اس نے پڑھی ہوتی تھیں۔ کتابوں کے ساتھ ہم دونوں کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔ ہم ایک بار پھر کتابوں کے درمیان ملیں گے تو اس کا لطف بڑھ جائے گا۔ میں نے پرانی کتابوں کی دکان کا انتخاب کیا تھا تاکہ ان کتابوں سے ملاقات کرسکوں جو بہت سے لوگوں نے پڑھ رکھی تھیں۔
ٹیکسی نے مجھے اس دکان کے باہر اتار دیا۔ میں دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں بہت سا وقت بغیر کسی اعتراض کے گزارہ جاسکتا تھا۔ کتابوں کا یہ اسٹور بہت بڑا نہیں تھا۔ اس کی دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے شیلف چھت تک پہنچے ہوئے تھے اور ان میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہر شیلف کے ساتھ روشنیاں جل رہی تھیں، تاکہ انہیں آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکے۔ دکان میں ایک انوکھی سی خوشبو تھی، پرانی کتابوں کی خوشبو! جو مجھے اچھی لگ رہی تھی۔ اس سے مجھے سانس لینے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہورہی تھی۔
میرے پاس پندرہ منٹ تھے اس کے بعد اولے یقیناً یہاں پہنچ جائے گا۔ میں کتابوں کو چھو کر دیکھ رہی تھی تاکہ میرا نام بھی ان کتابوں کو پڑھنے والوں میں شامل ہوجائے۔ بعض کتابیں بہت پرانی تھیں، ان کے عنوان بھی نہیں پڑھے جاتے تھے۔ میں نے اپنے موبائل میں وقت دیکھا۔ اولے کے آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ میں کتابوں کی الماریوں کے پیچھے چلی گئی تاکہ اسٹور میں آنے والے مجھے نہ دیکھ سکیں۔ میں بظاہر خود کو کتابیں دیکھنے میں مصروف ظاہر کررہی تھی لیکن حقیقت میں میرا دھیان باہر کے دروازے کی طرف تھا۔
پھر اولے دکان میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر میرے دل کی دھڑکنیں بڑھنے لگیں۔ وہ آہستہ آہستہ شیلفوں کو دیکھتا ہوا چلنے لگا۔ اس نے بال بڑھا لئے تھے۔ یہ اسٹائل اس پر بہت جچ رہا تھا۔ آج اس نے سیاہ لباس نہیں پہن رکھا تھا۔ اس کی ٹی شرٹ کا رنگ سلیٹی تھا۔ وہ مجھے پہلے سے زیادہ لمبا لگ رہا تھا۔ میں مسکرائی۔ شاید میں بھی اس کو بدلی بدلی سی نظر آئوں گی۔
میں پچھلے ہفتے سے کچھ نئے تجربات سے گزر رہی تھی جیسے کارلا کو رخصت کرنا، ڈاکٹر کی مخالفت کے باوجود سفر کرنے کی تیاری کرنا اور ممی کو ان کی افسردگی کے ساتھ چھوڑنے کی ہمت کرنا۔ لیکن ان تمام جذبات سے انوکھا اور کچھ گھبرا دینے والا تجربہ اتنے عرصے بعد اولے کا سامنا کرنا اور اس سے ملنا تھا۔
اولے نے اپنا فون جیب سے نکال کر دیکھا تھا۔ یقیناً وہ میری دی ہوئی ہدایات پر غور کررہا تھا۔ اس نے فون اپنی جیب میں ڈال لیا اور کتابوں کے شیلفوں کی لمبی قطار کو ایک مرتبہ پھر دیکھا۔
میں نے کتابوں کے سامنے وہ کتاب رکھ دی جو ہم دونوں کو بہت پسند تھی۔ میں یہ کتاب اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ یہاں سے گزرے گا تو ضرور اسے دیکھ لے گا۔ وہ یہاں رکا ضرور مگر اس نے کتاب اٹھانے کے بجائے اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال لئے۔
چند لمحوں بعد ہی اس نے کتاب اٹھا لی۔ اس کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آئی اور خوشی میں اپنی ایڑیوں پر تھوڑا سا گھوما۔
میں الماری کے پیچھے سے یکدم باہر نکلی اور اس کی جانب لپکی۔ اولے کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ میں جو روشنی تھی، اس پر پوری زندگی زندہ رہا جاسکتا تھا۔ (ختم شد)