بس میں نے کہہ دیا ہے میں شادی کروں گی تو فرہاد سے اور کسی سے نہیں ۔ برآمدے میں لگے آئینے کے سامنے کھڑی وردہ اپنے بالوں میں برش پھیرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ سمیرا بیگم نے گہری سانس اپنے اندر اتارتے اپنی دراز قد بیٹی کی پشت کو دیکھا۔ لیکن ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی قریبی تخت پر نیم دراز ذکیہ خاتون فوراً چوکس ہو کر اٹھ بیٹھیں۔ ہاں بھی سچ ہی کہا ہے کسی نے جیسی ماں ویسی بیٹی۔ ماں نے بھی تو اپنی پسند سے شادی کی تھی پھر بیٹی کیوں کر پیچھے رہتی اس نے بھی تو ماں کے نقش قدم پر ہی چلنا ہے نا ؟ ساس کے جلے کٹے تبصرے پر میرا کا دل لمحوں میں خاک ہوا تھا۔ جس کا ان پر رتی برابر اثر نہیں ہوا۔ خدا کے لیے اماں ! اس وقت نہیں ۔ انہوں نے گویا خاموش نظروں سے ان سے التجا کی۔ جس کا ان پر رتی برابر اثر نہیں ہوا۔ الٹا تمسخر اڑاتے ہوئے بولیں۔ ہاں میری بنو ! فکر کا ہے کو کرتی ہو؟ جو کام تمہاری ماں کے لیے ٹھیک تھا وہ تمہارے لیے بھلا کیوں کر غلط ہونے لگا ؟ بلکہ یہ سلسلہ تو اب نسلوں تک ہی چلے گا۔ دادی نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔ سمیرا نے چھری ٹوکری میں پٹخی۔ میری بات سنو وردہ ! ابھی تم جاؤ تمہیں کالج کے لیے دیر ہورہی ہے۔ ہم بعد میں اس پر بات کر لیں گے۔ نہ ابھی نہ بعد میں میرا فیصلہ نہیں بدلے گا۔ مجھے صرف فرہاد سے ہی شادی کرنی ہے۔ قریبی پر تپائی پر برش پھینکنے کے سے انداز میں اچھالتی وردہ اپنی بات پر زور دے کر بولی۔ میں نے تمہاری شہلا خالہ کو زبان دے رکھی ہے حاشر کے لیے۔ کیا تم بھول گئیں ؟ انہوں نے زچ ہو کر بیٹی کو گھورا۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں نے اپنے مکرم کے لیے زلیخا آپا کو زبان دے رکھی تھی اور بیچ میں تم کود پڑیں۔ دادی نے پھر زہر اگلا۔ سمیرا نے وہ زہر کا گھونٹ خاموشی سے اپنے اندرا تا ر لیا۔ یہ واحد موضوع تھا جس پر وہ بحث نہیں کرتی تھیں۔ باہر وین کا ہارن سنائی دیا تو وردہ کندھوں پر چادر پھیلاتی جلدی سے باہر کو لپکی۔
☆☆☆
واہ میرے مولا تیرا انصاف، ذکیہ خاتون کے با آواز بلند تبصروں نے کچن تک سمیرا بیگم کا پیچھا کیا تھا۔ مکرم صاحب کام کے سلسلے میں تین دن کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اور یہ تین دن سمیرا بیگم نے جیسے جلتی ریت پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے گزارے تھے۔ گزرے اکیس سالوں میں ان کی پسند کی شادی کو ایک طعنہ بنا کر ذکیہ خاتون نے انہیں ایک دن چین سے رہنے نہیں دیا تھا۔ اب جب سے وردہ نے اپنی پسند سے شادی کرنے کا شوشا چھوڑا ، دادی سینہ ٹھونک کر میدان میں اتر آئی تھیں۔ انہیں جیسے بدلہ لینے کا موقع مل گیا ہو وردہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہوں ۔ نے صحیح معنوں میں سمیرا بیگم کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ تو دل چھوٹا نہ کر میری بچی ! میں خود تیرے اماں باوا کی عدالت میں تیرا مقدمہ لڑوں گی۔ خود بھی تو یہی کیا تھا اب تمھیں کس منہ سے منع کریں گے۔ اپنے مطلب کے الفاظ تھے۔ لہجے اور انداز پر غور کیے بنا وردہ مطمئن سی برابر سر ہلاتی جاتی۔
☆☆☆
تین دن بعد مکرم صاحب کی ملتان سے واپسی ہوئی تو بیوی کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر ٹھٹھک گئے ۔ کیا ہوا سمیرا ؟ کوئی بات ہوئی ہے؟ سب ٹھیک تو ہے؟ خود پر ضبط باندھے میرا کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ آہستہ سے انہیں سارا حال سناتی چلی گئیں۔ مکرم صاحب نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وردہ کم عمر ہے ۔ نا سمجھ ہے۔ اسے سمجھا کر راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔لیکن اماں اسے شہ دے کر اس کے غلط کو بھی صحیح ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں میں جانتی ہوں وہ یہ سب کچھ مجھے نیچا دکھانے کے لیے کر رہی ہیں لیکن وردہ ان کی بھیگی آواز گھٹ کر رہ گئی۔ تم پریشان مت ہو۔ میں بات کروں گا اماں سے۔ مکرم نگاه چرا گئے۔ جس دن انہوں نے اماں کی پسند کردہ زلیخا پھوپھو کی سائرہ کو رد کر کے اپنی پسند سے سمیرا سے نکاح کیا تھا۔ اسی دن سے ماں کی اس حکم عدولی کی سزا کے طور پر اپنی زبان ان کے قدموں میں گروی رکھ دی تھی۔ سمیرا بیگم کو قریبی مارکیٹ تک ضروری سامان لینے جاتا تھا۔ انہوں نے جھولے پر بے زار شکل بنائے بیٹھی ، وردہ کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہا تو وہ کچھ سوچ کر جھولا چھوڑتی ان کے ساتھ جانے پر تیار ہوگئی۔ فرہاد اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیجنا چاہ رہا تھا ۔ وردہ بھی یہی چاہتی تھی اس کے گھر والوں کو اب کسی دن کھانے پر بلا لیا جائے ۔ اسے لگا ماں شاید دادی کی موجودگی کی وجہ سے اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہوئے کتراتی ہیں اس لیے وہ آج ان کے ساتھ مارکیٹ چلی آئی تا کہ اس سلسلے میں تفصیل سے بات کر سکے۔ خریداری کے دوران وہ ماں کو فرہاد کے رشتے کے لیے قائل کرتی رہی۔ ورده ! میری جان حاشر پڑھا لکھا برسر روزگار ہے۔ اور سب سے بڑھ کر تمہاری خالہ کا بیٹا ہے۔ جانتی ہونا شہلا خالہ جان نچھاور کرتی ہیں تم پر ۔ انہوں نے نرمی سے اسے ایک بار پھر سمجھانا چاہا۔ امی ! آپ ایک بار مل تو لیں فرہاد سے وردہ کی سوئی ابھی تک فرہاد میں ہی اٹکی ہوئی تھی۔ سمیرا بیگم نے کاؤنٹر پر بل پے کیا۔ وردہ نے سامان کا تھیلا اٹھا لیا باہر نکلتے ہوئے ابھی انہوں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ زن سے ایک موٹر سائیکل ان کے سامنے آرکی۔ سمیرا بیگم بدک کر پیچھے ہٹیں۔ جبکہ موٹر سائیکل سوار کو دیکھ کر وردہ کا چہرہ کھل اٹھا۔ ہائے سویٹی ! تم یہاں کیسے ؟ امی ! یہ فرہاد ہے۔کھلا گریبان ، بالوں کا عجیب سا اسٹائل بنائے وہ جس بے با کی سے وردہ کو دیکھ رہا تھا سمیرا بیگم کا جی چاہا زور دار تھپڑ اس لڑکے کی بجائے اپنی بیٹی کو لگا ئیں ۔ بامشکل انہوں نے خود پر ضبط کیا اور مضبوطی سے وردہ کا ہاتھ تھامے پاس سے گزرتے رکشے کو روک کر آناً فاناً اس پر سوار ہوگئیں۔ امی ! آپ کو فرہاد کیسا لگا؟ ماں کے تیوروں سے قدرے خائف اس نے پوچھ ہی لیا۔ جیسا وہ دکھ رہا تھا ۔ دادی کو تو بہت پسند آیا۔ میں نے اس کی تصویر انہیں دکھائی تھی ۔ سمیرا بیگم نے دانت پر دانت جما لیے۔
☆☆☆
ہاں تو بنو ! کب آ رہا ہے وہ لڑکا اپنے گھر والوں کو لے کر ؟ وردہ کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے دادی نے گویا سامنے بیٹھی بہو کی رگ پکڑ لی۔ وہ تو کل ہی اپنے گھر والوں کو لے کر آنے پر تیار ہے دادی ! ادھر امی ابا بھی مانیں تب نا ؟ وردہ نے ایک خفا نظر ماں پر ڈالی۔ ارے مانیں گے کیوں نہیں؟ اپنی دفعہ تو تیرے ابا نے پسند کی شادی پر ایسے زور دار دلائل دیئے تھے۔ اور یہ پٹیاں بھی یقینا اسے تمہاری اماں نے ہی پڑھائی ہوں گی۔ ورنہ میرے سیدھے سادے بیٹے کو بھلا کیا ہوتا تھا ان خرافات کا ۔ دادی نے ایک چھبتی ہوئی نگاہ بہو پر ڈالی۔ سمیرا بیگم سے چائے کا گھونٹ حلق سے اتارنا محال ہو گیا ۔ کل ہی تو شہلا آپا کا فون آیا تھا۔ وہ اور فاروق بھائی عمرے پر جانے ہے پہلے اپنے اکلوتے بیٹے کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے۔ دونوں بہنوں نے وردہ کے امتحانوں کے بعد شادی کی کوئی قریبی تاریخ رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ سمیرا نے اسی سلسلے میں انہیں اس اتوار کھانے پر بلا لیا۔ اور یہ ساری ٹیلی فونک گفتگو ذکیہ خاتون کی موجودگی میں ہی ہوئی تھی۔ اور اب انہوں نے گہری سانس اپنے اندر اتاری۔ وردہ وہاں سے اٹھ کر جا چکی تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد ذکیہ خاتون اپنے معمول کی تسبیحات میں مصروف تھیں جب سمیرا نے آہستہ سے اندر قدم رکھا۔ اور ان کی جائے نماز کے قریب دو زانو ہوکر بیٹھ گئیں۔میں جانتی ہوں اماں ! اپنی پسند کی بہو لانے کا ارمان ہر ماں کو ہوتا ہے۔ میری وجہ سے آپ کا یہ ارمان پورا نہیں ہو سکا مجھے اس کا بہت افسوس ہے۔ گھر والوں نے میرے سامنے و جاہت علی کا رشتہ رکھا تو میں نے ایک آپشن کے طور پر مکرم کا رشتہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ میں جانتی تھی آپ اس رشتے پر راضی نہیں ہیں ۔ میں نے سوچا تھا اپنی خدمت گزاری اور فرماں برداری سے آپ کا دل جیت لوں گی۔ بات صرف پسند کی نہیں تھی۔ میرے سامنے مکرم تھا۔ مضبوط کردار، بلند اخلاق کا مالک ، جس کا ہاتھ تھانے پر مجھے بھی پچھتاوے کا احساس نہیں ہوا۔ کیونکہ اس کی تربیت آپ نے کی تھی۔ لیکن یہ لڑکا کسی طور میری وردہ کے قابل نہیں ہے۔ میں نے آپ کا دل دکھایا ہے اماں ! میں آپ کی مجرم ہوں مجھے معاف کر دیں لیکن وہ میری ورده، انہوں نے آہستگی ہے ان کے گھٹنے کو چھوا اور روتے ہوئے اٹھ کر باہر چلی ہیں۔ ذکیہ خاتون ساکت رہ ہیں۔
☆☆☆
اگلے روز بنا کسی پیشگی اطلاع کے فرہاد اپنی ماں اور بڑی بہن کو لے کر آ گیا۔ کرخت چہرے والی خاتون نے ڈرائنگ روم کے کونے کونے پر نگاہ دوڑائی تھی۔ وردہ مزید صوفے میں دبک گئی۔ انٹی میں کسی بھی لگی لپٹی کے بغیر صاف اور سیدھی بات کروں گی ۔ فرہاد کی ہم عمر میری سگی بھانجیاں بھتیجیاں موجود ہیں اور میں نے انہی میں سے ایک کو اپنی بہو بنانے کا سوچا ہوا تھا۔ لیکن یہ آج کل کے بچے کچھ سنتے کہاں ہیں؟ پتا نہیں آپ کی لڑکی نے کیا منتر پڑھ کر پھونکا ہے میرے سیدھے سادے بیٹے پر ۔ بہن، اس میں بھی سارا قصور آپ لوگوں کا ہی ہے۔ بچے تو نا سمجھ ہوتے ہیں ان کو سمجھانا آپ لوگوں کا کام ہے۔ یہ کیا کہ پڑھائی لکھائی کے بہانے پرائے لڑکوں کو اپنے پیچھے لگاتی پھریں ۔ بولنے والی کفن پھاڑ کر بول رہی تھیں ۔ سمیرا بیگم نے بولنے کو پر تولتی ساس کی طرف سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھا۔ ارے ارے یہ کیا اول فول بولے جا رہی ہو؟ لگتا ہے تمہیں اور تمہارے لڑکے کو کوئی شدید قسم کی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میری پوتی کا تو اس کے بچپن سے ہی اپنی خالہ کے گھر رشتہ طے ہے۔ بہت جلد شادی بھی ہونے والی ہے۔ ماشاء اللہ انجینئر ہے ہمارا داماد ذکیہ خاتون فخر سے دبنگ لہجے میں بول رہی تھیں۔ مہمان بغلیں جھانکنے لگے۔ اور مجھے تو لگتا ہے سمجھنے سمجھانے کی ضرورت بچوں سے زیادہ تو تمہیں ہے۔ یہ کیا تمہارا لڑکا ہر دوسری لڑکی کے گھر رشتہ ڈالنے کی ضد کرے گا تو تم اس کے ساتھ چل پڑو گی؟ خاتون یوں اچھل کر کھڑی ہو گئیں جیسے صوفے پر اچانک کانٹے اگ آئے ہوں۔ چلو اب اٹھ بھی چکو ۔ یا ماں کو اور بے عزت کروانا باقی ہے ابھی ؟ آگ بگولہ ہو کر بیٹے کا بازود بوچا۔ وردہ ! یہاں میرے پاس آؤ بیٹا۔ ذکیہ خاتون نے سن سی بیھٹی پوتی کو پکارا تو وہ چونک کر اٹھی اور ان کے پہلو میں جا کر بیٹھ گئی۔ پسند کی شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے بیٹا ! اس کی اجازت تو ہمارا مذہب بھی دیتا ہے۔ بس طریقہ درست ہونا چاہیے۔ یہ ہم جیسے تنگ ذہنیت لوگ ہی ہیں جو اپنی ضد ، ہٹ دھرمی اور جھوٹی انا کی خاطر جائز کو بھی نا جائز بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ جانتی ہوا کیس سال پہلے جب تمہارے باپ نے میری پسند کی ہوئی لڑکی کو رد کر کے اپنی پسند سے لڑکی سے بیاہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اسی دن سے میں نے اس کی پسند سے بیر باندھ لیا۔ حالانکہ تمہاری ماں نے اپنے خلوص، محبت اور خدمت گزاری سے بہت جلد میرا دل جیت لیا تھا۔ لیکن میری جھوٹی انا کو یہ گوارا نہیں تھا کہ میں کس دل سے اسے اپنی بہو تسلیم کروں۔ اس سب میں میرا بیٹا بھی تو برابر کا شریک تھا لیکن میں نے قصور وار صرف تمہاری ماں کو ٹھہرایا۔ بہو پر سارا بار ڈال کے ہم جیسی مائیں اپنے بیٹوں کو ہر سزا ہے بری الزمہ قرار دے دیتی ہیں۔ اور یہ ایسی بھلی مانس جس نے آج تک میرے کسی بھی طعنے کا نہ تو پلٹ کر جواب دیا نہ تمہارے ابا سے شکایت لگائی۔ اپنے بیٹے کی پسند پر فخر ہے مجھے ذکیہ خاتون نے ایک نم شفیق نگاہ بے آواز آنسو بہاتی سمیرا پر ڈالی۔ اور بیٹا! جہاں تک بات ہے ان لوگوں کی انہوں نے ذرا سا توقف کیا۔ آج کے منظر نامے سے تم اتنا تو جان ہی چکی ہو گی ۔ جہاں عزت نفس کو گروی رکھنا پڑے وہاں پر خوشیاں زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتیں۔ تمہارے ماں باپ کا انتخاب ہی بہترین ہے۔ وردہ نے مسکراتے ہوئے سر ہلا کر ماں کو دیکھا جن کی آنکھوں کی جھلملاہٹ میں آج سچی خوشی کے سارے جگنو اتر آئے تھے۔