مجھے یہ آپ بیتی بھارت کی رہنے والی ایک عورت نے سنائی تھی جس کا فرضی نام روزی سمجھ لیں۔ وہ گوا کی رہنے والی تھی اور مجھ کو کویت میں ملی تھی۔ ان دنوں میرے شوہر کویت میں ایک اچھی ملازمت پر تھے اور میں تھوڑے دنوں کے لئے ان کے پاس گئی تھی۔ روزی مجھے ایک پارک میں ملی تھی جہاں وہ ایک بینچ پراکیلی بیٹھی رو رہی تھی۔ ازراہ ہمدردی میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے مجھ کو اپنی کہانی سنا دی۔ اسی کی زبانی لکھ رہی ہوں۔ میرا ارادہ نرسنگ کے پیشے میں جانے کا نہیں تھا، میں تو ڈاکٹر بنا چاہتی تھی مگر حالات کے سبب میرا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور میں نے نرسنگ کا کورس کر لیا۔ کورس مکمل کرنے کے بعد بمبئی کے ایک اسپتال میں ملازمت کرنے لگی۔ وہاں ایک ڈسپنسر سے سلام دعا ہو گئی اور کچھ عرصے بعد ہم نے شادی کر لی۔ محبت کی اس شادی کی خاطر میں نے اپنا مذہب بھی چھوڑا اور شوہر کے مذہب کو اپنا لیا۔ خدا کی کرنی، شادی کے کچھ عرصے بعد ہی میرا خاوند بیمار پڑ گیا۔ ڈاکٹر نے ان کو گھر پر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ بیماری زور پکڑتی گئی اور وہ نوکری سے معذور ہو گئے۔ اب میں کماتی تھی اور گھر کا خرچا چلتا تھا لیکن میری تنخواہ گھر کے اخراجات کے لئے ناکافی تھی۔ ہم کرائے کے مکان میں رہا کرتے تھے ، مکان کا کرایہ ہی میری تنخواہ کے برابر تھا۔ حالات ایسے بگڑے کہ بہت تنگ دستی ہو گئی۔ شوہر کی بیماری اور رات کی ڈیوٹی کے بعد دن کو گھر کا کام کرنے اور مسلسل جاگنے سے میری صحت جواب دینے لگی۔ ان دنوں میں بہت پریشان تھی۔ اسی دوران ایک عورت میرے گھر آئی۔ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ رونے لگی اور ہاتھ جوڑ کر بولی۔ بہن ! میری زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے، خدا کے لئے مجھے بچا لو، میں تمہیں تمہارے سہاگ کا واسطہ دیتی ہوں، میرا سہاگ بچالو۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی۔ میرے پوچھنے پر وہ بولی۔ میری آٹھ لڑکیاں ہیں، بیٹے کو ترس رہی ہوں۔ اس بار تو میرے خاوند نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب بھی لڑکی ہوئی تو میں طلاق دے دوں گا اور دوسری شادی کر لوں گا۔ اگر ایسا ہوا تو میری لڑکیوں کا کیا بنے گا، میں تو خود کشی کرلوں گی۔ میں نے اس عورت سے پوچھا۔ آخر میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟ کہنے لگی۔ بہن! بہت کچھ کر سکتی ہو۔ میں نے اسی میٹرنٹی ہوم میں اپنا نام لکھوایا ہے جہاں تم سروس کرتی ہو۔ جب میں اسپتال آئوں گی، تم وہاں موجود ہوگی۔ اگر میرے لڑکی ہوئی تو تم کسی اور سے بدل دینا۔ ایک ہی وقت میں کئی کیس ہوتے ہیں، کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ اس عورت کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اس وقت تو اس کو کوئی جواب نہ دیا مگر بعد میں اس کی بار بار منتوں اور تیس ہزار روپے کے لالچ کی خاطر میرے دل کو شیطان نے یہ گندا کام کرنے پر آمادہ کر دیا۔ مجھ کو چونکہ روپوں کی سخت ضرورت تھی، اس لئے میں نے ہامی بھر لی۔ وہ دن آگیا جب وہ اسپتال میں آئی۔ اس کے ہاں لڑکی ہوئی اور اس کے ساتھ والے بیڈ پر جو عورت تھی،اس کے لڑکا ہوا۔ میں نے دونوں کو نہلانے کے لئے ایک ہی ٹب میں ڈال دیا۔ اس وقت میری پھرتی کام آئی۔ دوسری نرس جو میرے ساتھ تھی، بوڑھی تھی، اس نے کچھ خیال نہ کیا۔ اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔ بہر حال کام خوش اسلوبی سے انجام پا گیا۔ جو کام میں بہت مشکل سمجھ رہی تھی، وہ آج اتنا آسان نکلا اور میں تیس ہزار کی حق دار ہو گئی۔ عورت بھی خوش تھی، اس کا خاوند بھی خوش تھا اور میری حوصلہ افزائی ہو گئی تھی۔ کچھ عرصے بعد یہ عورت ایک اور عورت کو لائی۔ اس کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ انسان ایک بار جرم کر گزرے تو شرم اتر جاتی ہے ، خوف بھی گھٹ جاتا ہے ، دوبارہ وہ کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس بار میں نے کچھ زیادہ پس و پیش سے کام نہیں لیا مگر معاوضہ پانچ ہزار زیادہ طلب کیا تا کہ اپنے ساتھ کام کرنے والی اس نرس کو جو میری سہیلی تھی ، شامل حال کر سکوں۔ وہ بھی بہت غریب تھی۔ سوچا کہ یہ آخر بار کام کروں گی، اس کے بعد توبہ کر لوں گی اور دوبارہ یہ گناہ نہیں کروں گی اور واقعی اس کے بعد میں نے توبہ کرلی اور دوبارہ یہ کام نہ کیا۔ اب گھر کے حالات سدھر چکے تھے۔ میرا جیون ساتھی بھی صحت یاب ہو چکا تھا۔ وہ اب دوبارہ کام پر جانے لگا تھا۔ ادھر میری اپنی دو بچیاں ہو گئیں تو کام کا بوجھ بڑھ گیا اور میں نے نوکری چھوڑ دی۔ اگلے تین سالوں میں دو اور بچیوں نے جنم لیا۔ دو سال بعد پھر ایک لڑکی پیدا ہو گئی۔ اب میں پانچ لڑکیوں کی ماں بن چکی تھی اور خالق دو جہاں نے ابھی تک بیٹے کی خوشی نہ دکھائی تھی جبکہ میرے شوہر کو بیٹے کا بڑا ارمان تھا۔ اب وہ کھلے بندوں مجھ کو طعنے دینے لگے۔ مجھے پتا چلا کہ انہی دنوں وہ کسی نئی نرس کے چکر میں الجھ گئے ہیں جس کی عمر بمشکل سترہ برس تھی۔ اب میں خوف زدہ تھی کہیں وہ اس کے ساتھ شادی کر کے مجھ کو نہ چھوڑ دیں لڑکا نہ ہونے کا بہانہ کرکے۔ خاوند اور لڑکیوں کی محبت سے مجبور ہو کر میں نے اپنی سہیلی کو راضی کر لیا جو پہلے میری ساتھی نرس ہوا کرتی تھی۔ وہ اب بھی اسپتال میں ملازمت کر رہی تھی۔ میں نے جولیا سے کہا۔ اگر اس بار بھی لڑکی کو جنم دیا تو تم ضرور میری لڑکی کو کسی عورت کے لڑکے سے بدل دینا۔
وہ اکیلے یہ کام کرنے سے گھبرا رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی دوستی کا واسطہ دے کر مجبور کر دیا۔ اس نے وعدہ تو کر لیا لیکن گھبرائی ہوئی تھی، تبھی اس نے اپنی آیا کو رازداری میں اپنے ساتھ لے لیا اور لالچ وغیرہ دے کر پہلے اس امر پر راضی کر لیا کہ بچہ تبدیل کرنا ہے۔ اس بے وقوف نے ان پڑھ آیا کو کچھ اس طرح سمجھایا کہ آیا یہ سمجھی ہر صورت میں بچہ بدلنا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکی کہ صرف لڑکی ہونے کی صورت میں ایسا کرنا ہے اور وہ بھی جب دوسرا کوئی کیس لڑکے کا ہو۔ میرے ساتھ دوعورتیں آئی تھیں۔ مجھے خدا تعالیٰ نے لڑکے سے اور ان دونوں کو لڑکیوں سے نوازا مگر میری بے وقوف سہیلی، آیا کو جو کچھ سکھا چکی تھی ، وہی ہوا۔ تینوں نرس کیس تھے۔ وہ اتنی گھبرائی کہ اس جاہل آیا کو یہ کام انجام دینا پڑا اور وہ ذرا دیر بعد ایک بچے کو نہلا دھلا کر پوٹلی سا بنا کر میرے ساتھ لٹا گئی۔ میں بہت خوش تھی ، کام ہو گیا کہ لڑکا ہی ہو گا مگر جب ہوش آیا تو پتا چلا کہ میرے ساتھ اسپتال کی چادر میں لپٹی ہوئی بچی ہے ، لڑکا نہیں ہے۔ میں نے سہیلی سے پوچھا۔ اس نے آیا سے پوچھا۔ آیا بولی۔ آپ کو لڑکا ہی ہوا تھا، آپ کی سہیلی نے تو مجھ کو بچہ بدلنے کو کہا تھا۔ میں نے آپ کا لڑکا اس عورت کو دے دیا اور اس کی لڑکی آپ کے پاس لٹادی۔ میں سہیلی نرس پر برس پڑی۔ وہ رونے لگی۔ میں نے کہا کہ میرا لڑکا اس عورت سے واپس لا دے ورنہ برا ہو گا۔ کہنے لگی۔ اچھا! میں کسی طرح ان عورتوں کو سمجھا کر لاتی ہوں کہ غلطی ہو گئی ہے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ان عور توں کے پاس جانے کی بجائے گھر چلی گئی اور ڈر کے مارے اسپتال واپس نہ آئی۔ اگلے دن آیا کو اس کے گھر بھیجا۔ اس کے مکان پر تالا پڑا ہوا تھا۔ خدا جانے وہ خوف زدہ ہو کر کہاں چھپ گئی تھی۔ اب میں ہاتھ مل رہی تھی۔ اگر شوہر کو بتاتی اور مشکل میں پڑ جاتی۔ یہ بھی ڈر تھا کہ میری یہ ڈرپوک سہیلی کہیں میرے پچھلے راز بھی اس کو نہ بتادے۔ دل پر صبر کی سل رکھ لی۔ وہ عورتیں بھی چھٹی کر کے چلی گئیں۔ ان کو کیا خبر کہ ان کی بچی میرے پاس ہے اور میرا لخت جگر وہ لے جارہی ہیں۔ آیا بھی میرے ڈر سے بھاگ گئی ، میں تو بالکل بے بس ہو کر رہ گئی تھی۔ بھری گود بھی خالی لگتی تھی کہ پرائی بچی کو لے کر اور اپنا چاند سا بیٹا گنوا کر گھر آ گئی تھی۔ خدا نے میرے کئے کی کیسی سزا دی تھی کہ کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ شوہر نے تو مجھ کو گھر سے نہ نکالا، میں نے اپنے جرم کی آپ سزا پائی۔ خود ہی اس سزا کا انتظام بھی کیا۔ چھ ماہ بعد شوہر پھر سے بیمار پڑ گیا۔ بیماری نے طول کھینچا اور سال بعد وہ چل بسا۔ میں اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کو ترستی رہ گئی اور آج تک ترس رہی ہوں۔ نوکری چھوڑ چکی تھی۔ دوبارہ کوشش کی ، نہ ملی۔ مل بھی جاتی تو پانچ بچیوں کا خرچا نہیں اٹھا سکتی تھی۔ ان کو اپنی ماسی کے پاس چھوڑا اور کوشش کر کے کویت آگئی۔ یہاں ایجنٹ نے تو نرسنگ کی نوکری دلانے کا کہا تھا لیکن وہ نہ ملی اور اب میں ایک گھر میں خادمہ کی ملازمت کر رہی ہوں۔ جس کے گھر کام کرتی ہوں، وہ بڑی سخت عورت ہے ، بہت کام لیتی ہے اور جھڑک کر بات کرتی ہے۔ آج اس کے برے سلوک کی وجہ سے رونا آگیا تو یہاں آکر بیٹھ گئی کہ تھوڑی دیر کو سکون کر لوں اور آپ سے ملاقات ہو گئی۔ میں اپنے وطن واپس جانا چاہتی ہوں۔ اگر آپ میری اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہیں تو احسان ہو گا۔ میں نے کہا کہ اپنے شوہر سے بات کروں گی۔ وہ اگر کچھ کر سکے تو آپ کو بتادوں گی۔ اپنا رابطہ نمبر دے دو یا پتا بتا دو۔ وہ بولی۔ میر ارابطہ نمبر کوئی نہیں۔ جہاں میں خادمہ ہوں، ان کے بچے روز شام کو اس پارک میں کھیلنے آتے ہیں اور میں ان کے ساتھ آتی ہوں۔ آپ مجھ کو یہاں شام کو مل سکتی ہیں۔ میں بہت مجبور ہوں، ایک جانب بچیوں کی فکر اور اپنے گناہ کا احساس ہے۔ خدا سے ہر وقت معافی مانگتی ہوں۔ اُس جہان میں تو اپنے کئے کی سزا ملے گی، اس جہان میں بھی کچھ کم سزا نہیں پائی ہے۔ اس عورت کا دکھ سن کر میں بھی آبدیدہ ہو گئی۔ میں نے کہا۔ اللہ تعالی غفور الرحیم اور بخشنے والا مہربان ہے۔ صدق دل سے دعا کرو گی تو وہ ضرور سنے گا اور میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گی کہ اللہ تم کو چین دے اور ہم سب کے گناہ معاف کر دے۔ چند دن بعد میں دوبارہ پارک گئی مگر وہ عورت دکھائی نہ دی۔ اس کے بعد میرا ویزا ختم ہو گیا تو وطن لوٹ آئی۔ اس بات کو کافی سال گزر گئے ہیں لیکن آج تک وہ نرس اور اس کی کہانی کو میں نہیں بھلا سکی۔ اس دنیا میں کیسے کیسے لوگ ہیں اور کیسے کیسے پاپ اور پن ہوتے ہیں کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے لوگ کیسے کیسے برے کام کر گزرتے ہیں۔ اپنے ضمیر تک بیچ دیتے ہیں اور ایسے گناہ کر گزرتے ہیں کہ خوف سے ہی لرزہ طاری ہو جاتا ہے مگر یہ کام جو کرتے ہیں، ان کو احساس نہیں ہوتا۔ خدا جانے ان کے دل کیوں پتھر سے ہو جاتے ہیں۔