Sunday, January 19, 2025

Pehla Khuwab | Complete Urdu Story

Pehla Khuwab | Complete Urdu Story
میں، جانے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا۔
’’کیا تم واقعی جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں! میں نے جواب دیا۔‘‘
’’مگر کہاں؟‘‘ پروفیسر نے پوچھا۔
’’کیا یہ کم ہے کہ میں نے یہ سوچ لیا ہے کہ میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مگر کہاں؟‘‘
’’ضروری تو نہیں کہ سفر کے لئے منزل کا تعین بھی کیا جائے۔‘‘
’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی بھی سفر کے دوران تمہاری کوئی بھی منزل ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے میرا سفر یونہی ہو۔ اور ممکن ہے منزل بھی نہ ملے۔ مگر میں ہر حال میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہوں… اُسی طرح جس طرح تم وہاں سے واپس آ گئے تھے۔‘‘
’’نہیں میں وہاں سے واپس نہیں آیا تھا۔ میں وہاں گیا ہی نہیں تھا۔ یا شاید میرا دانہ پانی وہاں سے ختم ہوگیا تھا۔ وہ شاید یکسانیت سے اُکتا گئی تھی۔ اس کے لہجے میں وہ مٹھاس اور اخلاص میں وہ شائستگی نہیں رہی تھی۔‘‘ پروفیسر شاید میری ان تاویلوں سے اُکتا گیا تھا۔
’’اچھا اب یہ سفر کتنے دنوں کا ہے اور سفر کی تھکاوٹ کے بعد کتنے دن تم پناہیں تلاش کرنے میں صرف کرو گے؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں، کچھ بھی معلوم نہیں۔‘‘
’’تو چپ چاپ وہیں پڑے رہو جہاں ہو۔ سفر تمہارے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور ضروری تو نہیں کہ سفر کے بعد تمہارے استقبال کے لئے کوئی آرزوئوں کی مالا لئے تمہارا منتظر ہی ہو۔‘‘
’’نہ ہو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ میں نے جواب دیا۔‘‘
’’ایک تو میں تمہاری اس قنوطیت سے تنگ آ گیا ہوں۔‘‘ پروفیسر نے غصہ سے کہا۔
’’تم ابنِ ایوب تو نہیں ہو!‘‘
’’ہاں ہاں میں ابن ایوب نہیں ہو۔ تو پھر چپ رہو کسی چوک پر کوئی زلیخا تمہاری منتظر نہیں ہے۔ سمجھے میرے یوسف…‘‘
’’تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے، کسی کو اپنے سے زیادہ چاہا ہے۔ اتنا کہ اپنی شخصیت ریزہ ریزہ ہو جائے۔‘‘
’’نہیں۔ کبھی نہیں محبت اس وقت ایک نئی شخصیت کو جنم دیتی ہے جب دو وجود کرچی کرچی ہو کر بکھر جائیں، ان کرچیوں سے ان بکھرے ہوئے ٹکڑوں سے ایک نئی شخصیت جنم لے۔‘‘ ٹھیک ہے۔ پروفیسر اب تمہیں شاید میرے پہلے نامکمل سفر کے بارے میں جاننے میں مشکل نہیں ہوگی۔ میرا جواب تمہاری ان باتوں میں موجود ہے۔ ’’پروفیسر… خواب اتنا بڑا تھا شاید زندگی سے بڑا۔ اس نامکمل سفر میں آدرش پورے نہیں ہوئے۔ وہ لڑکی بڑی ظالم تھی، اسے رنگوں کا کھیل کھیلنے کا جنون تھا۔ وہ ہر جگہ سے رنگ چُرانے کی کوشش کرتی جیسے اس نے میرا رنگ چُرا لیا۔‘‘
’’وہ لڑکی میری زندگی کا پہلا خواب تھی۔ پہلا بڑا خواب جو زندگی سے بھی بڑا تھا۔ خواب اتنے بڑے نہیں ہونے چاہئیں ناں کہ زندگی اسے پورا کرنے کے لئے کم پڑ جائے۔ رنگوں، تتلیوں اور خوشیوں کو اکٹھا کرنے میں کون راستے میں رہ گیا، کچھ معلوم نہیں۔‘‘
وہ ایزل پر کینوس رکھتے ہوئے بولی۔ ’’شکر کرتے ہو تم؟‘]
’’کس کا؟‘‘
’’جس نے پیدا کیا ہے، جو سپنے پورے کرتا ہے؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں، تم اپنے ماتھے پر خواب سجائے کیوں پھرتی ہو؟ یہ اگر پورے نہ ہوں تو شخصیت ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘
’’شکر کیا کرو۔‘‘
’’کیوں؟ شکر کرنے والوں کے سپنے پورے ہو جاتے ہیں اور جو شکر نہیں کرتے، کیا ان کے سپنے، ان کے خواب پورے نہیں ہوتے۔‘‘
’’نہیں کبھی نہیں، ان کے خواب تو صرف مرنے کے لئے ہوتے ہیں اور جب خواب مر جائیں تو پتہ ہے کیا ہوتا ہے؟ زندگی بہت بوجھ ہو جاتی ہے۔‘‘
’’یہ تم نے اتنی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں؟‘‘
’’وقت نے سکھلائی ہیں۔ خوابوں نے بتلائی ہیں۔‘‘
’’تمہارا کوئی خواب مرا تو نہیں؟‘‘
’’نہیں ابھی تو نہیں۔‘‘
’’سنو! میں ایک ایسا گھر خواب میں دیکھتی ہوں جہاں میں ہوں، میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔ وہاں نرگس کے پھول بھی کھلتے ہوں۔‘‘
’’نرگس کے پھول تو محض خواب ہیں، ہزاروں سال کاخواب، تمہاری زندگی کیا اتنی بڑی ہے کہ تم نرگس کے پھول کو دیکھنے کا خواب پورا کرلو۔‘‘
’’تم کاجل کیوں نہیں لگاتی ہو؟‘‘
’’کیا تمہیں پسند ہے؟‘‘
’’ہاں میں نے سپنے میں تمہیں کاجل لگائے دیکھا ہے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا اور پھر کوشش کر کے کہہ بھی دیا۔ اُس نے اسے مذاق میں لیا۔
’’تم فضول قسم کے خواب اور سپنے کیوں دیکھتے ہو؟‘‘ اس نے آہستہ سے ہنستے ہوئے کہا۔
’’کاجل لگانے کے لئے جھیل سی آنکھیں ہونی چاہئیں۔‘‘
ان ہی جھیلوں میں تو میں ڈوب چکا ہوں۔ میں نے سوچا مگر کہا نہیں۔
’’تم میرے بارے میں اتنا کیوں سوچتے ہو؟‘‘
’’خوشی ہوتی ہے۔ اپنی پوری زندگی میں، میں نے ایک خواب بنا ہے جو میری آنکھوں میں تیرتا رہتا ہے۔‘‘
مگر پروفیسر صاحب پتہ ہے۔ اس آرٹسٹ کی بچی کو میری آنکھوں میں تیرتا ہوا خواب نظر نہیں آیا۔ بس ایک روز اس نے کہا تھا۔
’’خوش رہا کرو نا۔‘‘
’’سنو تم نے دُکھ کو دیکھا ہے۔ ایسا دُکھ جو پوری زندگی میں ڈوب چکا ہو؟‘‘
’’ہاں دُکھ تو جیون میں ہوتا ہی ہے۔‘‘
’’اور سکھ۔‘‘
’’وہ بھی زندگی میں شامل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اور خواب۔‘‘
وہ بھی زندگی کا حصہ ہے۔ مگر زندگی سے بڑا خواب نہیں ہونا چاہئے۔ اگر خواب کمہلا جائے تو زندگی بھی کمہلا جاتی ہے۔ اس نے جواب دیا۔
’’تم خوابوں کو کمہلانے نہ دو۔ ورنہ تمہارے اندر سب کچھ ختم ہو جائے گا اور زندہ لاش بن جائو گے، بس اپنے جسم کو لئے پھرتے رہو گے۔‘‘
’’وہ اتنی اچھی باتیں کرنے والی لڑکی چلی گئی۔ پتہ نہیں کہاں؟‘‘
میں نے سوچا اسے خط لکھوں گا۔ وہ اچھی لڑکی جو خوشیوں کو سمیٹنا جانتی ہو۔ جو اپنے آنگن نرگس کے پھولوں سے مہکانا چاہتی تھی، جو سکھ کی متلاشی تھی، سکھ اسے کہیں نہیں ملا۔ سکھ کہیں تھا ہی نہیں۔
پھر ایک دن وہ ملی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو کاجل سے سجایا تھا۔ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ جاتے سمے اس کا کاجل بھیگ کر اس کے سرخ گالوں پر سیاہ دھبّوں کے نشانات چھوڑ گیا تھا۔
’’تمہارا خواب پورا کر دیا نا آج تو خوش ہو نا۔‘‘ پھر اس کی دوست نے بتایا۔ ’’وہ کھلی چھت پر شام کے سمے کاجل لگائے دوپہروں کو ڈوبتے سورج کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو اتنا بھگو لیتی ہے کہ اب اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں۔‘‘
میں نے اس کی دوست سے پوچھنا چاہا۔ اس نے نرگس کے پھول اپنے آنگن میں لگائے ہیں، جو میرے خوابوں کو مہکاتے ہیں یا نہیں؟
مگر میں کوشش کے باوجود اس سے پوچھ نہ سکا۔ پھر ایک روز وہ اچانک ملنے چلی آئی۔ پروفیسر وہ، وہ نہیں تھی، مجھے دیکھتی رہی۔ میرے چہرے کو وہ یوں ٹٹولتی رہی جیسے اس کی بینائی ختم ہوگئی ہو۔ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔
’’سنو تمہاری آنکھوں میں، میں نے ایک مُردہ سپنا دیکھا ہے۔ تم نے سپنے کو مرنے کیوں دیا، مجھے آواز کیوں نہیں دی۔ وہ تم نے خودکشی کیوں کی۔ تم اپنی اَنا کو دبا کر مجھے پکارتے۔ تمہارا خواب میری کاجل لگی پسندیدہ آنکھیں تمہاری ہوتیں، تم نے ایسا کیوں کیا؟ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی آواز رُندھی ہوئی تھی۔
’’خواب کے مرنے کے بعد تم کیسے زندہ رہو گے۔ میں کیسے تمہیں دیکھوںگی، تم نے یہ کیا کیا۔‘‘ اس پر دیوانگی کا دورہ سا پڑ گیا۔ میں نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا، سیاہ حلقوں والی آنکھیں بنا کاجل ہی اچھی لگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کا سپنا بھی مردہ تھا مگر میں کچھ نہیں کہہ سکا کیونکہ شاید میں ہی اس کے سپنے کا قاتل تھا اور میری اَنا میرے سپنے کی قاتل۔
’’سنو، خواب کملا کیوں جاتے ہیں۔‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
’’تم نے شکر نہیں کیا ہوگا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تمہارے خواب پورے ہوئے؟ نرگس کا پھول تمہارے آنگن میں لگایا نہیں؟‘‘ بغیر خواب کے کوئی جی سکتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔
’’ہاں کیوں نہیں میری طرف دیکھو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مگر تم نے کہا تھا خواب کے مرنے کے بعد تم زندہ لاش ہو جائو گے۔‘‘
’’ٹھیک ہی تو کہا تھا کیا تم… زندہ لاش نہیں ہو۔‘‘
’’تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔‘‘ میں نے دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’میری بات چھوڑ دو میرے خواب تو…‘‘
’’حالانکہ تم شکر کی قائل تھیں اور تم نے ہر لمحے شکر بھی اَدا کیا، پھر تمہارا خواب کیوں مر گیا، کیوں بکھر گیا؟‘‘
’’تم مجھے رُلانا چاہتے ہو، میں روئوں گی نہیں کبھی نہیں۔‘‘ اس نے مجھ سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ایسا کرو۔‘‘ میں کہتے کہتے رُک گیا۔ میں تھک گیا تھا، ایک خواب اپنے ساتھ لئے پھر رہا ہوں۔ میں سوچ رہا تھا کہ تنہائی کے بہت سارے عذاب بن کر مجھے ڈستے رہتے ہیں۔ اگر وہ دن واپس آ جائیں جب میں نے سپنا بنا تھا… تو…!
اور اگر اس نے اس وقت اُسے محسوس کرلیا ہوتا تو آج وہ کاجل لگی اُداس آنکھوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں ہوتی جس کا آنگن نرگس کے پھولوں سے مہک رہا ہوتا۔
’’مگر نرگس کے پھول بھی تو ایک خواب ہی ہیں۔‘‘
پروفیسر نے بہت دیر بعد میری یادوں کے اس سلسلے میں مداخلت کی۔
’’اوہو تم تو واقعی ابن ایوب ہو خوشیوں، تتلیوں اور نرگس کے پھولوں اور کاجل لگی اُداس آنکھوں اور اپنے مُردہ سپنے کے ساتھ زندہ ہو۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ پروفیسر نے سوال کیا۔
’’وہ واپس چلی گئی۔ گو اس کے آنگن میں نرگس کے پھول نہیں کھلے۔ اس کی خوب صورت آنکھوں میں کاجل نہیں لگا۔ میں نے اپنے لئے پناہیں تلاش کیں، خود کو مصروف کیا، ہر رات قتل ہونے کے بعد بھی میں زندہ لاش کی طرح پھرتا رہا اور اس لڑکی کو یاد کرتا رہا جو شکر کی قائل تھی اور سمجھتی تھی کہ شکر کرنے والوں کے سپنے پورے ہو جاتے ہیں… مگر شاید اس کو اب معلوم ہوگیا ہوگا کہ سپنے پورے کرانے کے لئے شکر بہت ضروری چیز بھی نہیں، سفر کے لئے ضروری تو نہیں کہ منزل کا تعین بھی کیا جائے۔‘‘
پھر میں نے اپنے مُردہ جسم میں ایک نئی روح کو محسوس کیا۔ کوئی مجھ میں خاموشی سے داخل ہو رہا تھا۔ پھر مجھے اس سے اُنس ہوگیا جب مجھے اس کی محرومیوں کے بارے میں پتا چلا۔ میری زلیخا چوراہے پر بیٹھی ہے، مگر میں یوسف تو نہیں۔ اس کو اس کی زندگی کے بہت سے سال کس طرح واپس کروں؟
میں جانا چاہتا ہوں وہاں جہاں اس کا پرتو مجھ سے اتنا دُور ہو جائے کہ وہ مجھے کبھی نہ پا سکے۔ نہ میں یوسف نہ وہ زلیخا۔ ابن ایوب زندہ ہے، زندہ رہے گا۔

Latest Posts

Related POSTS