شہر ڈیرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہماری بستی تھی۔ اس کی بنیاد پردادا کے والد نے رکھی تھی۔ میاں داد کے دو بیٹے تھے۔ جب وہ جوان ہوئے اور ان کی شادیاں ہوگئیں تو باپ نے ان کے لئے دو گھروں کی تعمیر کرا دی۔ اب اس ویرانے میں ایک سے تین گھر بن گئے۔ ان کے بال بچے بڑے ہوتے گئے، آپس میں شادیاں ہوتی گئیں اور نئے گھر بنتے گئے۔ ان دنوں رہٹ چلتے تھے، کنویں کھود کر ان سے بنجر زمینوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔ زمین کے مالک قریبی آبادیوں سے غریب لوگوں کو اپنی زمینوں پر لاتے اور ان کیلئے کچے گھر تعمیر کرا دیتے۔ ان سے کاشت کاری کا کام لیتے، فصلوں کی پیداوار میں شراکت دار بھی بنا لیتے، یوں کئی کنبوں کے روزگار کا وسیلا بن جاتا۔ بے گھر لوگ جن کی زمینوں پر مفت رہائش حاصل کرتے اور کاشت کاری کرتے، انہیں وہ مزارع کہتے، جن کو دوچار بیگھے ان کی خدمات کے صلے میں بخش دیئے جاتے۔ وہ کسان کہلانے لگتے۔
تیسری نسل کے جوان ہونے تک یہ بستی میاں آباد کہلانے لگی اور میرے دادا نے گورنمنٹ کو تھوڑی سی زمین عنایت کرکے دو اسکول منظور کروا لئے۔ ایک لڑکیوں کیلئے دوسرا لڑکوں کیلئے! جس آبادی تک تعلیم کے قدم پہنچ جائیں، وہاں کے مکین تیزی سے ترقی کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے بھی ان دیہاتی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی اور پھر کالج میں پڑھنے کے لئے قریبی شہر جانے لگے۔
میرے والد علاقے کے بڑے زمیندار تھے چونکہ اردگرد کی بنجر زمین بھی جن کے مالکان دوسرے لوگ تھے، آباد ہوگئی تھیں۔ گویا اب ہم ویرانے کے مکین نہ رہے تھے، بلکہ دوسرے زمینداروں کی زمینوں کی سرحدیں ہماری زمینوں سے ملی ہوئی تھیں اور نہری نظام بھی یہاں تک آگیا تھا۔ شکر کہ بیلوں سے ہل چلانے کے زمانے رخصت ہوگئے۔ ان کی جگہ ٹریکٹر ٹرالیوں نے لے لی۔ پیداوار میں دگنا چوگنا اضافہ ہونے لگا اور دولت کی ریل پیل ہوگئی۔
ہماری بستی کی خصوصیت یہ تھی کہ دادا جان کی ساری نسل پڑھ لکھ گئی تھی، تاہم انہوں نے اپنی زمین پر صرف مزارعوں کے علاوہ کسی غیر کو گھر تعمیر کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ غیروں کو اپنے گھروں کے قریب پھٹکنے دینا نہ چاہتے تھے اور نہ غیروں کا داخلہ اپنی برادری میں برداشت کرتے۔ اسی وجہ سے بچوں کے رشتے بھی آپس میں طے کئے جاتے۔ اگر کسی لڑکی کا رشتہ خاندان میں موجود نہ ہوتا تو وہ کنواری رہ جاتی۔
میرے والد، تایا اور چچائوں کی زمین مشترکہ تھی۔ سب ساتھ رہتے تھے، فصلیں ایک جگہ اترتیں اور سب مل کر فصل کو تقسیم کرلیتے تھے۔ اسی اتفاق کی وجہ سے برادری سسٹم مضبوط تھا اور کوئی دشمن ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا۔ میرے والد برادری کے بڑے تھے۔ خاندان کا ہر تنازع ان کے حضور پیش کیا جاتا۔ وہ جو فیصلہ کرتے، سب کو قبول کرنا پڑتا تھا، ورنہ فیصلہ قبول نہ کرنے کی صورت میں دربدر، زمین بدری اور گھر بدری کی سزا دی جاتی۔
ہمارے والد اور ان کے بھائیوں کی حویلی کے گرد جو چار دیواری تھی، اس کے اندر اتنی جگہ تھی کہ ہر گھر ایک سے دو بیگھے میں بنا ہوا تھا لیکن اس وسیع احاطے میں پندرہ گھروں کے درمیان کوئی دیوار نہ تھی۔ سبھی گھر اپنے بھائی، بہنوں کے تھے، پردے کا مسئلہ نہ تھا۔ سبھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ گویا اس حویلی میں اپنی دنیا آباد تھی۔ بچے اپنے اپنے گھروں کے آگے کھلے آنگن میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے تھے اور بچیاں درختوں کے مضبوط گدوں میں رسیوں سے بندھے جھولوں پر پینگیں لیتی تھیں۔
ابو اور ان کے بھائیوں کے حصے میں زیادہ زمین آئی تھی، جس کی وجہ سے ان کی حیثیت برادری میں زیادہ معتبر تھی، یہاں ہر گھر اپنے مکینوں کی حیثیت کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔ ہمارے احاطے کا سب سے کم حیثیت گھرانہ معاشی لحاظ سے مقبول چچا کا تھا۔ یہ میرے والد کے چچازاد تھے۔ ان کی بیٹی کا نام راحیلہ تھا، وہ میری ہم عمر تھی۔ بچپن میں ہم ساتھ اسکول جایا کرتے تھے۔ راحیلہ کو پڑھائی سے دلچسپی نہ تھی۔ سو اس نے بمشکل پانچویں تک پڑھا اور گھر بیٹھ گئی۔
جب میں نے مڈل پاس کیا تو بابا جان نے میرے لئے ایک استانی کا بندوبست کردیا جو قریبی شہر سے روز شام کو دو گھنٹے پڑھانے آتی تھی، اس کو لانے اور لے جانے کا انتظام ہمارا تھا، چونکہ راحیلہ نے پڑھائی میں دلچسپی نہ لی۔ اس کے والد نے اسے آگے پڑھانے کے لئے اس قسم کا کوئی تردد نہ کیا۔ راحیلہ کی شکل و صورت عام تھی اور اس کی تربیت میں بھی چچی نے لاپروائی برتی تھی، اسی لئے ہماری قیام گاہ کے احاطے میں اور احاطے سے الگ برادری کے اندر بھی کسی گھرانے میں اس کا رشتہ نہ ہوسکا۔
راحیلہ کی طبیعت عجیب اور مزاج الگ تھا۔ وہ ساری لڑکیوں سے مختلف تھی۔ اس کی ماں کو بھی کبھی یہ خیال نہ آیا کہ دوسرے لوگ اس کی بیٹی کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ وہ اکثر کھانے کے وقت ہمارے گھر آکر بیٹھ جاتی اور کھانا کھانے لگتی۔ والدہ تو برا نہ مناتیں مگر ہمارے احاطے کی لڑکیوں کا ایسا طورطریقہ بالکل نہ تھا۔ وہ بہت باتونی تھی اور اکثر بغیر سوچے سمجھے بول پڑتی۔ عجیب و غریب باتیں منہ سے نکال دیتی۔ ہم تو اپنے تھے کچھ نہ کہتے اور چپ ہوجاتے لیکن احساس ہوتا کہ یہ کہیں ہمارے خاندان کی ناک نہ کٹوا دے۔
چچا جان نے اپنی کافی زمین ایک دوسرے چچازاد کو فروخت کردی، کیونکہ چچی کی فرمائشیں رکتی نہ تھیں۔ کبھی وہ سیر و تفریح کے لئے دوسرے ممالک کی سوچتے اور کبھی ہر سال نئی گاڑی کا ماڈل بدلنے کی آرزو پوری کرتے۔ ان کے لڑکے بھی اسی طرح فضول خرچ تھے اور باپ کی دولت سے روز شاپنگ کرکے پیسہ اڑا دیتے تھے۔ جو انسان کفایت شعاری کا اصول بھلا کر اپنی خواہشوں کا غلام بن جائے، وہ بالآخر تہی دامن رہ جاتا ہے اور اگر آمدنی کو بڑھانے کی فکر نہ کی جائے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہوجاتا ہے۔ راحیلہ کے والد نے اپنی زمینوں کی کاشت پر توجہ نہ دی اور اخراجات بڑھاتے رہے، یہاں تک کہ خاندان کے سب سے کمزور زمیندار بن گئے۔ زمین سے عزت تھی۔ جس نے زمین کو ماں جیسی عزت نہ دی، اس کا یتیم ہونا لازم تھا۔
جب چچا مقبول مالی لحاظ سے خاصے کمزور ہوگئے تو خاندان والوں نے ان پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ راحیلہ کے رشتے کا مسئلہ بنا اس کے والدین کو فکر ہوئی کہ امیر گھرانوں کے لڑکوں میں سے کسی سے رشتہ ہو، مگر امیر رشتہ دار ان کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔
چچا مقبول کے ایک دوست ملک اسحاق… سے انہوں نے اپنی اس مشکل کا تذکرہ کیا۔ ملک اسحاق ہمارے ایک پڑوسی زمیندار تھے اور ان کی فیملی کا ہمارے یہاں آنا جانا تھا۔ وہ خوشی، غمی میں شریک ہوتے تھے۔
ملک اسحاق نے بیوی سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ تمہارا بھتیجا اور میرا بھانجا انعام ابھی غیر شادی شدہ ہے اور وہ لوگ بڑے زمیندار ہیں انعام کیلئے کسی زمیندار گھرانے سے لڑکی بیاہ کر لانا چاہتے ہیں۔ اپنے خاندان میں انعام کو کوئی لڑکی پسند نہیں آرہی۔ میں باجی سے ذکر کروں گی اور ان کو مقبول بھائی کے گھر لے جاکر راحیلہ کو دکھا دوں گی۔ لڑکی پسند آئی تو رشتہ کرا دوں گی۔ اسحاق نے مقبول چچا سے ذکر کیا۔ اگر تم کو غیر برادری میں رشتہ کرنا قبول ہے تو میں اپنی سالی کو تمہارے گھر لائوں گا۔ میری بیوی آپ کی بیگم سے ان کو ملوا دے گی۔
مقبول چچا نے کہا۔ مجھے منظور ہے، آپ ان لوگوں کو لایئے۔ جب میرے اپنے میری بیٹی کا رشتہ نہیں لے رہے تو لڑکی کو غیربرادری میں بیاہنا ہوگا۔ اس سلسلے میں مقبول چچا والد کے پاس آئے اور مشورہ مانگا۔ بابا جان نے کہا۔ بھائی مقبول! ملک اسحاق کو جانتا ہوں، بہت بڑا زمیندار ہے، اچھا انسان بھی ہے۔ اس کا بھتیجا بھی دیکھا ہے، قبول صورت اور تعلیم یافتہ ہے۔ وہ لڑکا ہر لحاظ سے ٹھیک ہے لیکن ان کی ذات ہمارے ہم پلہ نہیں ہے۔ غیر لوگوں میں رشتہ کرو گے تو اپنوں سے کٹ جائو گے۔ خوشی، غمی میں تمہارے داماد اور ان کے رشتے داروں کو برادری والے اپنے گھر نہیں آنے دیں گے۔ پردے کا مسئلہ ہوگا۔ الگ نسل کے گھوڑے کو الگ کھونٹے سے باندھا جاتا ہے۔ تم بیٹی اور داماد کی وجہ سے ہم سے کٹ کر رہ جائو گے۔ میری مانو تو ان لوگوں سے رشتہ نہ کرو۔
چچا مقبول بولے۔ کوئی کام کم حیثیت نہیں ہوتا۔ سنار ہو یا لوہار…! ہر ایک کا اپنا ہنر ہوتا ہے۔ جدی پشتی زمینداروں میں سے بھی اکثر کو جاگیر انگریزوں کی وفاداری کے صلے میں ملی تھی۔ میں پرانے خیالات کا آدمی نہیں، صرف یہ دیکھوں گا کہ لڑکا اور اس کا باپ شریف آدمی ہیں یا نہیںٖ! اگر وہ شریف ہیں، تعلیم یافتہ اور سب سے بڑھ کر باحیثیت زمیندار ہیں تو مجھے ذات پات سے کیا لینا۔ جب میری بیٹی کا رشتہ لینے سے میرے اپنے کترا رہے ہیں تو کیوں نہ غیروں کی طرف دیکھوں گا۔ میں اب رشتہ غیروں میں ہی کروں گا۔
مقبول چچا کی باتوں نے بابا جان کو لاجواب کردیا اور انہوں نے ان کو غیر برادری میں لڑکی بیاہنے کی اجازت دے دی۔ صرف اتنی شرط لگائی کہ آپ کا داماد اور اس کے گھر والے ہمارے گھروں میں داخل نہ ہوں گے۔ ہاں! اگر یہ نئے رشتے دار آپ کے گھر آئیں گے تو ہماری خواتین ان کے سامنے نہ جائیں گی اور مکمل پردہ کریں گی۔
مجھے آپ کی شرط منظور ہے۔ چچا نے جواب دیا۔ بس مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت ہے۔ والد صاحب افسوس کرتے رہ گئے۔ امی سے کہا۔ صاحباں خاتون! حقیقت یہ ہے کہ مقبول اس بات کو نہیں سمجھ رہا کہ اس کی بیٹی کا رشتہ اس وجہ سے برادری میں نہیں ہورہا کہ راحیلہ ان پڑھ رہ گئی ہے اور اس کی عادات بھی مہذبانہ نہیں ہیں۔ یہ سب احاطے والے جانتے ہیں ورنہ راحیلہ کا رشتہ کب کا ہوجاتا۔
جب حویلی والوں کو پتا چلا مقبول اپنی لڑکی کا رشتہ برادری سے باہر دے رہے ہیں تو دل مسوس کر رہ گئے۔ یہ اس احاطے کی روایت تھی کہ باہر سے کسی اچھے خاندان کی لڑکی حویلی میں بیاہ کر آسکتی تھی لیکن یہ اپنی لڑکی کا رشتہ باہر نہیں دیتے تھے۔ راحیلہ کی شادی ملک اسحاق کے بھتیجے انعام جنید سے کرکے چچا مقبول نے پہلی بار خاندان کی روایت کو توڑا اور بیٹی کی شادی غیر برادری میں کردی لیکن جب خاندان والوں نے راحیلہ کے سسرال والوں کے ٹھاٹ باٹ دیکھے تو دنگ رہ گئے۔ اب راحیلہ کی شان کچھ اور تھی۔ اس کی شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ سب حیران رہ گئے۔
راحیلہ کے مقدر پر سبھی حیران تھے۔ خاندان بھر کی عورتیں کہہ اٹھیں۔ یہ مقبول ہی تھے جس نے ایسی جرأت کر ڈالی، ورنہ خاندان کا کوئی بھی لڑکا
اوچھی طبیعت کے باعث راحیلہ کو منہ لگانے پر تیار نہ تھا اوپر سے صرف پرائمری پاس تھی۔ بدسلیقہ اتنی کہ جو شادی کرتا، سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔ شادی کے بعد بھی وہ خوش و خرم تھی۔ والدین سے ملنے آتی تو نہال ہوتی۔ پھوپھیاں، تائیاں، چچیاں دیکھ کر حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتیں۔ دعا کرتیں خدا کرے یونہی خوش رہے۔ اب راحیلہ کافی بدل گئی تھی۔ معمولی صورت نے بھی رنگ روپ پکڑ لیا اور غرور بھی آگیا تھا، شاید یہ قدرتی ردعمل تھا کہ جس کو کوئی منہ نہ لگاتا تھا، غیروں نے سر پر بٹھا لیا تھا۔
انہی دنوں میری منگنی ہوگئی پھپھو کے بیٹے سے اور پھوپھا، ابو کے تایا زاد تھے۔ رشتہ اپنوں میں ہوا تھا۔ بیاہ کر بھی اسی خاندانی احاطے میں رہنا تھا۔ منگنی والے دن راحیلہ بھی آگئی۔ والدہ نے ٹوکرا بھر مٹھائی اسے دی کہ اپنے سسرال لے جاکر ان میں بانٹ دینا آخر تمہاری بہن کا رشتہ طے ہوا ہے۔ اس نے غرور سے کہا۔ یہ مٹھائی اس قابل نہیں کہ سسرال لے کر جائوں، وہ اس کو کوڑے میں ڈال دیں گے۔ اسے رکھ لیجئے اپنے پاس…! اس کی بدتمیزی پر والدہ پسینہ پسینہ ہوگئیں لیکن بھری محفل میں کوئی جواب دینا مناسب نہ جانا کہ ہمسایہ زمیندار گھرانوں کی معزز مہمان خواتین وہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ امی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
اس واقعے کے چھ ماہ بعد ایک روز راحیلہ آئی تو اس کی شکل پر بارہ بج رہے تھے۔ راحیلہ کو انہوں نے دھتکار کر میکے بھیج دیا تھا۔ سارے خاندان میں یہ بات اڑ گئی کہ راحیلہ اجڑ کر آگئی ہے۔ ایسا واقعہ کبھی ہمارے خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ نہ ہوا تھا۔ سارے احاطے پر خاموشی چھا گئی، جیسے خدانخواستہ مرگ ہوگئی ہو۔ بابا جان اور امی، چچا مقبول کے گھر گئے کہ اصل حالات معلوم کریں۔ چچا نے بتایا کہ کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اچانک ایک معمولی سی بات پر انعام جنید، راحیلہ کو گھر کے دروازے پر لا کر چھوڑ گیا ہے۔ والد صاحب چچا کے ہمراہ جاکر جنید سے ملے اور وجہ دریافت کی، تب اس نے کہا کہ میں آپ کی بیٹی کو اس وجہ سے طلاق دے رہا ہوں کہ یہ مجھے کہتی ہے کہ میں اسے پسند نہیں ہوں تو پھر میں کیوں ایسی عورت کے ساتھ زندگی گزاروں جو مجھے پسند ہی نہیں کرتی۔ یہ بات سن کر والد اور چچا مقبول ہکابکا رہ گئے۔
گھر آکر انہوں نے راحیلہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟ ہمیں تفصیل سے بتائو تاکہ ہم دوبارہ ان لوگوں سے بات کریں۔ تب راحیلہ نے بتایا کہ جنید بہت اچھے ہیں، مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اتنا چائو کیا کہ میں زمین سے آسمان پر جا پہنچی تھی۔ سوچا نہ تھا کہ ذرا سی بات پر یوں بگڑ جائیں گے۔ ایک روز ہنسی مذاق میں پوچھا۔ سچ بتائو راحیلہ! کیا تم مجھے پسند کرتی ہو؟ میں نے مذاق میں کہہ دیا ہرگز نہیں۔ میں کب آپ کو پسند کرتی ہوں۔ اماں، بابا نے شادی کردی تو آگئی، جبکہ میں ان کو بہت پسند کرتی ہوں۔ جانے اس وقت کیا جی میں آئی کہ ستانے کو الٹ کہہ دیا۔ سوچا تھا ابھی منانے لگیں گے، منتیں کریں گے یا پھر روٹھ جائیں گے تو میں منالوں گی۔ کہوں گی کہ مذاق تھا۔ میں تو آپ کو بہت چاہتی ہوں، اس کی انہوں نے نوبت ہی نہ آنے دی۔ میرے لبوں سے یہ فقرہ سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا بولے۔ پسند نہیں ہوں تو پھر کیوں رہ رہی ہو میرے ساتھ اپنے ماں، باپ کے گھر جائو۔ جو پسند ہے رہو جاکر اس کے ساتھ…! اسی سے شادی کرلو۔ وہ دولت مند ہیں، اتنی سی بات کسی کے منہ سے سننا ان کو گوارا نہیں ہوگا، یہ تصور میں نے نہ کیا تھا۔ معافی مانگنے کا بھی موقع نہ دیا۔ بازو سے پکڑ کر کار میں دھکیلا، یہاں در پر لا کر چھوڑ دیا۔ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ بس اتنی سی بات تھی جس نے میرا گھر بگاڑ دیا۔
امی نے کہا۔ بیٹی! ہر بات سوچ سمجھ کر منہ سے نکالنی چاہئے یہ نہیں کہ جو منہ میں آئے، کہہ دو۔ یہ تمہارے بچپن کی عادت تھی۔ ہم ٹوکتے تھے تو تم ماں سے جاکر کہتی تھیں، وہ ناراض ہوجاتی تھیں ہم سے…! اور جس بات کو تم معمولی سمجھ رہی ہو، یہ ہرگز معمولی نہیں ہے۔ یہ بات مرد کبھی اپنی شریک حیات کے منہ سے سننا پسند نہیں کرتے۔ اگر تمہاری شادی اپنے خاندان میں ہوجاتی تو تمہارے تایا سمجھا بجھا کر معاملے کو ٹھیک کرا دیتے لیکن اب غیروں کا معاملہ ہے، کوشش کرتے ہیں کہ بگڑی بات سنور جائے۔ لیکن جنید نے معاف نہ کیا۔ وہ بھی تکبر سے بھرا ہوا انسان تھا۔ اس نے راحیلہ کو آزاد کردیا بالآخر بابا جان نے ایک سال بعد اس کا نکاح اپنی ایک عزیزہ کے بیٹے سے کرا دیا۔ لڑکا میٹرک پاس تھا۔ وہ ہمارے احاطے سے باہر لیکن ہماری بستی کے اندر رہتے تھے۔ تھوڑی سی زمین تھی۔ بہت امیر نہ تھے لیکن یہ ڈر نہ تھا کہ راحیلہ کی کم عقلی کی وجہ سے نباہ نہیں کریں گے۔ وہ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ نباہ کرنے والے لوگ تھے۔ فخر عالم سے شادی کے بعد راحیلہ کی زندگی پرسکون ہوگئی مگر وہ اب بھی پچھلے عیش و عشرت کے دن بھلا نہ پائی تھی۔ جب آتی، ان دنوں کو یاد کرکے اداس ہوجاتی۔ کہتی۔ کاش…! سوچ سمجھ کر بولتی تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔ طلاق کے واقعہ نے اس کے والدین کو ہی نہیں اسے بھی ہلا کر رکھ دیا، بلکہ یکسر بدل دیا۔ اب وہ ہر بات سوچ سمجھ کر کرتی ہے، ورنہ زیادہ تر خاموش ہی رہتی ہے۔(مسز قریشی … ڈیرہ میاں آباد)